Saturday 12 August 2017

روح کیا ہے؟؟؟

⁠⁠⁠⁠⁠                      

  روح کیا ہے؟؟؟

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#91

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

 اس سے پہلے کہ ہم اپنی بات کو آگے بڑھائیں مناسب سمجھتے ہیں کہ روح کے متعلق مختلف اقوام کے عقیدے مختصر بیان کر دیے جائیں تا کہ قارئین کو ہماری گفتگو سمجھنے میں آسانی ہو۔

مختلف اقوام کے عقیدے

انسان سے وابستہ(اس کے جسم کے علاوہ )انسان کے روح کے متعلق مختلف اقوام اور مذاہب میں مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں درحقیقت روح مذہبی آفاقی اطلاعات ہیں اور یہ آفاقی اطلاعات ابھی تک پورے طور پر کوئی سمجھ نہیں پایااور ان آفاقی اطلاعات میں فلسفیانہ اضافوں نے انہیں مذید الجھا دیا ہے ۔دوسرے اکثر مذاہب میں تبدیلی ترمیم واضافوں نے بھی روح سے متعلق عقیدوں کو متاثر کیا ہے۔اور ان دو بڑی غلطیوں نے روح کو ایک پیچیدہ مسئلہ بنا دیا ہے ،لیکن پھر بھی روح  کی سب سے اہم اطلاعات مذہبی آفاقی اطلاعات ہی ہیں ،اس کے علاوہ ابھی تک تجربوں مشاہدوں اور تجزیوں کے بعد بھی روح یا انسانی باطن یا مجموعی انسان کی کوئی متفقہ طور پر تعریف سامنے نہیں آسکی ۔یعنی انسان اور اس کے باطن سے متعلق سب سے اہم معلومات مذہبی معلومات ہی ہیں لہذا انسان کو روح سے متعلق جاننے کے لئے مذہبی معلومات کا ہونا لازمی ہے۔آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ انسانی  باطن (روح ونفس )سے متعلق اقوام میں کیا عقیدے رائج ہیں۔

قدیم امریکی:امریکہ کے ریڈ انڈین سمجھتے تھے کہ روحیں ایک خاص مسکن میں چلی جاتی ہیں۔

قدیم افریقی:قدیم افریقی سمجھتے تھے کہ نیک روحیں دیوتاؤں سے جا ملتی ہیں جبکہ بُرے لوگوں کی روحیں کُتے بن جاتی ہیں۔افریقہ کے بعض قبائل کا عقیدہ ہے کہ انسان کی روح کالی مکھی بن کر اڑ جاتی ہے اسی لئے وہ مکھی کو کبھی نہیں مارتے ۔افریقوں میں ارواح کو بلانے اور ان سے مسائل کے حل اور روحانی علاج میں بھی مدد لی جاتی ہے۔اسی سلسلے کے ڈاکومینٹری پروگرام ہمیں مخلتف چینلز پر دیکھنے کو بھی ملتے ہیں۔

آئرلینڈ:آئر لینڈ کے بعض قدیم قبائل کا خیال تھا کہ مرنے والے کی روح سفید بن کر اُڑ جاتی ہے۔

قدیم مصری:مصر کے قدیم باشندوں کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان کی دوسری زندگی شروع ہوتی ہے اور اس کی روح اور ہمزاد جسے وہ بع اور کع کہتے تھے اس کے جسم سے نکل کر اس کے مقبرے میں رہنے لگتے ہیں ۔اسی لئے وہ مرنے والے کی استعمال کردہ اشیاء کو بھی ساتھ دفن کر دیا کرتے تھے۔اور ان کا خیال تھا کہ (بع)کا میل جول مرنے والے کے عزیزوں دوستوں کے ساتھ رہتا ہے جبکہ (کع)دوسری دنیا میں چلا جاتا ہےاور دیوی دیوتاؤں کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔کسی آدمی کےہمیشہ زندہ رہنے کی ان کے خیال میں بس یہی صورت تھی۔کہ بع اور کع جسم کو پہنچانتے ہوں اسی وجہ سے وہ مرنے والے کی لاش کو حنوط کر کے ممی کی شکل دے ڈالتے ۔ایسا اس لئے کیا جاتا تھا تا کہ اس کا بع اور کع اسے پہچان لیں اور بھٹکتے نہ پھریں ۔لاش کے مجسمے بھی بنائے جاتے تا کہ اگر ممی خراب ہو جائے تو بع اور کع بھٹکتے نہ پھریں۔

آسٹریلیا اور افریقہ :افریقہ اور آسٹریلیا کے پرانے قبائل میں بھی آباؤ اجداد کی ارواح کو پوجنے کا رواج پایا جاتا تھا۔آسٹریلیا کے آبرنجیل (Aboriginal)میں بھی حیات بعد الموت کا تصور پایا جاتا ہے۔

ابتدائی دور کے رومی :ابتدائی دور کے رومی قدیم مذہب پر کاربند تھے وہ روحوں کی پرستش کرتے تھے جو گھروں چشموں ،کھیتوں اور مفصلات کے دوسرے مقاموں پر کار فرما تھیں۔

عربوں کا عقیدہ :قبل ازاسلام عربوں میں ایک عقیدہ یہ بھی مروج تھا کہ جب کسی آدمی کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے سر سے روح ایک­ پرندہ کی شکل میں نکلتی ہے اور جب تک اس مقتول کا انتقام نہ لیا جائے اس وقت تک وہ اس کی قبر پر چکر کاٹتی رہتی ہے اور کہتی ہے"مجھے پلاؤ میں سخت پیاسی ہوں"۔اس عقیدے کے باعث ان کے ہاں اگر کسی آدمی کو قتل کر دیا جاتا تو اس کے قریبی رشتہ داروں کے لئے اس کے خون کو معاف کرنا مشکل ہو جاتا کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ جب تک ہم مقتول کا بدلہ نہیں لیں گے اس وقت تک اس کی روح کو چین نہیں آئے گا اور وہ اپنے مشتعل جذبات کو تو ٹھنڈا کر سکتے تھے لیکن اپنے مقتول باپ یا بھائی کی روح کی اس ابدی پریشانی اور اضطراب کو برداشت کرنا ان کے بس کا روگ نہ تھا اس لئے وہ مجبور تھے کہ اپنے مقتول عزیز کا ہر قیمت پر انتقام لیں۔یہ عقیدہ ہندووں میں آج بھی مروج ہے۔

چینیوں کا عقیدہ:چینیوں میں فطری طاقتوں کے مظاہرے کے علاوہ اپنے اسلاف کی پوجا کا بھی رواج عام تھا۔ان کا یہ اعتقاد تھا کہ ان کے اسلاف کی روحیں اپنے آنے والی نسلوں کو نفع بھی پہنچا سکتی ہیں اور نقصان بھی اور ان اسلاف کی روحوں کو خوش وخرم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کے نام سے کھانا پکایا جائے ۔گزشتہ دو ہزار سال سے کنفیوشس کے نظریات جن میں اپنے اسلاف کی پرستش کا عقیدہ اور یہ عقیدہ کہ بادشاہ آسمان کا بیٹا ہوتا ہے اور ان ارواح کے درمیان جو عالم بالا میں سکونت پذیر ہیں اور ان لوگوں کے درمیان جو اس عالم آب وگل میں زندگی بسر کر رہے ہیں شفاعت کا ایک ذریعہ ہے۔یہ دونوں عقیدے ان کے ہان بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔قدیم چینوں کے مطابق ہر شخص کی روح کے دو حصے ہوتے ہیں۔
پہلا:پو(P.O)یہ اس کی شخصیت کا نظر آنے والا حصہ جو کہ اس کے جسم سے جڑا ہوتا ہے ۔دوسرا:ہن(HUN)یہ نہ نظر آنے والا حصہ ہے جو کہ جسم میں موجود ہوتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ ہمیشہ جسم سے بندھا ہو۔جب وہ جسم سے باہر پھر رہا ہو تو ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور اگر وہ ظاہر ہو گا تو وہ اصل جسم کی صورت میں ظاہر ہو گا جبکہ اصل جسم اس سے دور ہوتا ہے۔اصل جسم میں P.Oموجود ہوتا ہے ۔اور اگر HUNمستقل طور پر جسم سے دور رہے تو جسم کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

بدھست:بدھست ایک مذہب اور فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرز عمل كو محیط كیے ہوئے ہے۔
 گوتم بدھ نے حیات احساسی کو مشکلات سے نجات حاصل كرنا،نروان كو حاصل كرنا اور تکلیف اور دوسرے جنموں كی مشكلات سے بچنے کا سبق دیا۔نروان بدھ مت اور جین مت کا ایک اہم تصور ہےـ روح کی سمسار یعنی جنموں کے سلسلہ سے آزادی حاصل کرنے کو نروان حاصل کرنا کہتے ہیں ـ
 کیونکہ اس میں بنیادی طور پر روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں چلے جانے یا ہجرت کرنے کا تصور پایا جاتا ہے۔
ہر سال 13 اگست کو بدھ مذہب کے پیروکار "یوم ارواح"مناتے ہیں۔اس تہوار پر تمام بدھی لوگ اپنے آباؤ اجداد رشتہ دار اور بزرگوں کی قبروں یا تصویروں پر حاضری دیتے ہیں ،مناجات پڑھتے ہیں دعائیں مانگتے ہیں اور پھول چڑھاتے ہیں۔
مختلف ملکوں میں اس دن "میلہ"لگاتے ہیں۔
ان کے عقائد کے مطابق ان گاتھائیں اور مناجات کو پڑھنے سے بدھا اپنی روحانی شعاعیں ہمارے اوپر پھینکتے ہیں۔

تبت:رازہائے سربستہ کا مدفن تبت تو منسوب ہی پر اسراریت اور ماورایت سے ہے یہاں کے لوگ مظاہر پرست تھے ،تبت میں بدھ مت چوتھی صدی عیسوی میں پوری طرح پھیل چکا تھا اور یہ ملک کا اکثریتی مذہب بن چکا تھا ،بدھ ازم بھی آوا گون کا عقیدہ بنیادی اساس ہے جسے زندگی کا چکر یا "کرما"کہتے ہیں۔ان کے مطابق انسان بار بار مر کر دوبارہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا اگلا جنم اس کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے ۔

سکھ:سکھ روح کو یونیورسل روح کا حصہ مانتے ہیں ان کے مطابق روح کائنات کا حصہ ہے اور کائنات خدا،وہ روح کو آتما اور رب کو پرماتما کہتے ہیں۔ان کا عقیدہ  بھی کرم Karma و تناسخ (آرواگون یا سمسار Arvagona or Samsara) کے متعلق ہے۔

ہندو ازم:ہندو ازم میں سنسکرت کا لفظ Jivaروح سے مطابقت رکھتا ہے جس کا مطلب ہے انفرادی روح یا ذات اور آتما کا مطلب ہے روح یا خدا ،ہندوازم کے عقائد کے مطابق آتما برہمن کا کچھ حصہ ہے جو ہمارے اندر آگیا اور روح برہمن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے یعنی یہ خدا کا سر ہے۔بدھسٹ کے عقائد بھی بھی آتما اور پرماتما سے مماثلت رکھتے ہیں۔

عقیدہ تناسخ :تناسخ(آرواگون یا سمسار) کا عقیدہ ہندو مذہب کا خصوصی شعار ہے جو اس کا قائل نہیں وہ ہندو دھرم کا فرد نہیں ۔باس دیو ،ارجن  کو عقیدہ تناسخ کی حقیقت سمجھاتا  ہے اور بتاتا ہے کہ موت کے بعد اگرچہ جسم فنا ہو جاتا ہے لیکن روح باقی رہتی ہے اور وہ اپنے اچھے اعمال کی جزاء اور برے اعمال کی سزا بھگتنے کے لئے دوسرے اجسام کے لباس پہن کر اس دنیا میں لوٹ آتی ہے اور یہ چکر غیر متناہی مدت تک جاری رہتا ہے۔(موت کے بعد روح کے دیگر لباس پہن کر اپنے اعمال کے مطابق سفر کی روداد کو دیگر زندگیاں یا بار بار زندگی تصور کر لیا گیا حالانکہ یہ ایک ہی زندگی کے سفر کی روداد ہے جسے غلط معنوں میں لیا جا رہا ہے اور اسی تاریخی غلطی کو کرما کا نظریہ کہا جا تا ہے)

کرما کا نظریہ :ہندو ازم اور بدھ ازم کے عقائد کے مطابق اس بار بار کے جینے مرنے کے تسلسل سے اس وقت ہی انسان کو نجات مل سکتی ہے جب وہ وجود حقیقی میں کھو جاتا ہے جب بھی روح مادہ کے قفس کو توڑ کر آذار ہوتی ہے تو ہر قسم کے رنج والم سے محفوظ ہو جاتی ہے۔اس عقیدے کی رو سے ایک بار مرنے کے بعد انسان دوسرے جنم میں کسی اور وجود میں ظاہر ہوتا ہے۔وہ وجود انسانی ،حیوانی بلکہ نباتاتی بھی ہو سکتا ہے ۔پہلے جنم میں اس سے جو غلطیاں سر ذد ہوئیں  تھیں اس کے مطابق اس کو نیا وجود دیا جاتا ہے جس میں ظاہر ہو کر وہ طرح طرح کی مصیبتوں ،بیماریوں او ر ناکامیوں میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اگر اس نے اپنی پہلی زندگی میں نیکیاں کی تھیں تو اس کو ان کا اجر دینے کے لئے نئے وجود کا کوئی ایسا قالب بخشا جاتا ہے جس میں ظاہر ہونے سے اس کو اس  کی گزشتہ نیکیوں کا اجر ملتا ہے اور اس طریقہ کار کو کرما کا نظریہ کہا جاتا ہے۔کم بیش اہل یونان کا بھی یہی عقیدہ تھا ۔یعنی روح کو قدیمی اور مدبر ازلی قرار دیتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں،سوائے اس کے کسی اور کو فاعل ومدبر نہیں سمجھتے تھے  ۔ایک روح ایک شخص کے جسم سے دوسرے شخص یا کسی دوسری چیز کے جسم میں چلی جاتی ہے یہ ایک ایسا شبہ ان لوگوں کا ڈالا ہوا ہے کہ جتنا اجتماع اور التفاق اس پر ہوا ہے اتنا اور کسی شبہ پر خلق کا نہیں ہوا۔یہ غلط فہمیاں روح اور باطن سے لا علمی پر مبنی ہیں ،ہم جب روح اور باطن کی شناخت اور اس کی مسلسل وضاحت کریں گے تو خود بخود یہ غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔

یہودی اور عیسائی :ترجمہ:اللہ نے انسان کو زمین کی مٹی سے پیدا کیا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔(Hebrew bible Genesis 2:7)
مزید روح کی بہت سی وضاحتیں اور شکلیں کلاسیکل لٹریچر میں ملتی ہیں جس کی مزید وضاحت کی یہاں فی الحال ضرورت نہیں۔

اہل کتاب منحرف گروہ:
مسلم،عیسائی،یہودی....وغیرہ میں بعض ایسے گروہ یا فرقے بھی موجود ہیں جو روح  اور رب سے متعلقہ انحراف کا شکار ہوئے مثلا عقیدہ وحدت الوجود،عقیدہ حلول اور عقیدہ تثلیت وغیرہ جو فی الحال ہمارے موضوع سے قاصر ہے۔

جدید سائنسدان اور فلاسفر:

مختلف مذہب میں جسے روح کہا جاتا ہے سائنسدان اسے شعور کہتے ہیں. سائنسدان اس کائنات اور اس میں موجود ہر شئے کو مادہ سمجھتے ہیں وہ شعور کو دماغ جو مادہ سے بنا ہے کی پیدوار سمجھتے ہیں. لھذا ان کو یقین ہے کہ جسم کے ساتھ شعور بھی خاک میں مل جاتا ہے. کچھ بھی نہیں بچتا. بعض سائنسدانوں کو مادہ پرستوں کے اس نظریے سے اختلاف ہے. انہوں نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ مادہ شعور کو جنم نہیں دیتا اور شعور ایک غیر مادی شئے ہے. نیز یہ مادی جسم کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے. خیال رہے ہماری آنکھیں کائنات کے طول و عرض کے صرف تین حصے دیکھ سکتی ہیں اور وہ ہیں لمبائی، چوڑائی، اور گہرائی. کچھ سائنسدان وقت کو طول و عرض کا چوتھا حصہ سمجھتے ہیں بلکہ ان کو یقین ہے کہ کائنات کے طول و عرض کا پانچواں اور چھٹواں حصہ بھی موجودہ ہیں. امکان ہے کہ جسم کی موت کے بعد شعور اس پانچویں یا چھٹویں حصے میں منتقل ہو جاتا ہے۔

اسلام:اسلام (قرآن وحدیث ) میں نہ صرف روح و جسم کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے بلکہ ان کی انفرادی شناخت اور تخلیقی وفنائی مراحل کا تفصیلا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کی وضاحت ہم آئندہ سطور میں کریں گے جو ہمارا اصل موضوع بھی ہے۔

اوپر ذکر کردہ سائنسدانوں کے علاوہ  تمام مذاہب نے روح کی تقریبا ملتی جلتی تعریفیں کی ہیں لیکن تمام مذاہب میں اس روح سے متعلق مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں ،درحقیقت روح مذہبی آفاقی اطلاعات ہیں اور یہ آفاقی اطلاعات اپنی جگہ درست ہیں ہر دور میں اور آج بھی لیکن ان آفاقی اطلاعات کو کوئی بھی پورے طور پر سمجھ نہیں پایا اس کی دو وجوہات ہیں۔

پہلی:آفاقی اطلاعات کو پورے طور پر سمجھا نہیں گیا دوسرے ان آفاقی اطلاعات میں فلسفیانہ اضافوں نے انہیں مزید الجھا دیا ہے۔یعنی روح کی تعریف کرنے کی کوشش (جو کہ غلط کوششیں رہی ہیں)نے ان اطلاعات کو خلط ملط کر دیا ہے۔

دوسری اکثر مذاہب میں انہیں سوامیوں اور فلسفیوں نے ترمیم واضافے کر ڈالے ہیں ،اور انہیں ترمیم و اضافوں نے روح کی تعریفوں کو بھی متاثر کیا ہے  جس سے نت نئے فلسفوں اور  روح سے متعلق نت نئے عقیدوں نے جنم لیا ہے جبکہ ان عقیدوں کا تعلق مذاہب سے نہیں بلکہ یہ عقیدے سوامیوں یا فلسفیوں کے قلم کا شاخسانہ ہیں اور ان عقیدوں (یعنی نظریات)میں وہی غلطیاں پائی جاتی ہیں جو کسی بھی فلسفے میں متوقع ہوتی ہیں۔ان بڑی اور بنیادی غلطیوں نے ہی دراصل روح  کو ایسا گھمبیر مسئلہ بنا ڈالا ہے کہ آج تک نہ تو روح کی صحیح تعریف ممکن ہ ہو سکی ہے نہ ہی مجموعی انسان کی تعریف ہی ممکن ہو سکی ۔
اور اوپر ذکر کردہ تمام مذاہب میں روح سے متعلقہ  نظریات میں ایک چیز مماثلت رکھتی ہے روح پرستی یعنی مخلوق پرستی۔

لیکن تمام  تر ترمیم اضافوں کے باوجود آج تک روح  کی سب بڑی اور اہم تعریف مذاہب ہی نے کی ہے ۔مذاہب نے روح یا مجموعی انسان کی جو صحیح تعریف دی ہے اسی تعریف کو فلسفی یا روحانی پیشوا خلط ملط کرتے چلے آئے ہیں اور آج بھی یہی کر رہے ہیں۔لہذا ہر مذہب میں  روح  اور جسم کا تذکرہ تو موجود ہے لیکن ان تمام کو ان تمام کے اعمال وافعال کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔اور روح کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جبکہ یہ محض فلسفیانہ اطلاع ہے جو برسوں سے چلی آرہی ہے۔روح کے مادی دنیا سے جانے کے بعد عالم برزخ سے سفر آخرت تک کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا اور اس غلطی نے باطل عقیدوں کی صورت اختیار کر لی ۔اکثر عقائد میں روح اور خالق کو ایک ہی شے تصور کیا گیا ہے جن میں بعض مسلم وعیسائی اور یہودی بھی شامل ہیں(یعنی عقیدہ وحدت الوجود،حلول ،تثلیت وغیرہ)جبکہ یہ مذہبی یا کائناتی اطلاع نہیں ہے بلکہ کائناتی اطلاع کو سمجھنے کی غلطی نے اس فلسفے کو جنم دیا ہے۔

اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں

  اگرچہ روح کو غیر مرئی کہہ کر علم کی حدود سے خارج کر دیا گیا تھا پھر بھی مختلف ادوار میں  روح کا تذکرہ ہوتا رہا ہے۔ روح پر ہر دور میں  فکری، تجرباتی، تحقیقی ہر طرح کا بہت کام ہونے  کے باوجود روح کی تعریف یا شناخت تک نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے  کہ روح کا علم کسی بھی دور میں  علمی میدان میں  نہ اُتر سکا لہذا یہ تذکرہ فقط عقائد تک محدود رہ گیا۔ علمی حیثیت میں  پہلی دفعہ روح کو یونانی فلسفیوں  نے  متعارف کروایا۔ لیکن یونانی فلسفیوں کی تعریفیں ان کی تعریفیں عقیدوں سے  متاثرہ تعریفیں تھیں جیسا کہ گزشتہ سطور میں بتایا گیا ہے۔
یا وہ یہ احساس رکھتے  تھے  کہ بدن کے  علاوہ بھی کوئی شے  ہے  جو بدن کی زندگی کا سبب ہے۔

 افلاطون کی تحریروں  سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ کچھ روحانی مشاہدات اور تجربات بھی رکھتے  تھے۔

ارسطو  ( 322 - 384ق م)  نے  علم الروح (Psychology)   کے  نام سے  جو کتاب لکھی تھی وہ بھی ظاہر ہے  اسی قسم کے  نظریات یا عقیدوں  پر مبنی ہو گی لیکن اب تو اس کتاب یا کتابچے  کا فقط تذکرہ ہی باقی ہے  (وہ کتاب اب موجود نہیں )۔ یعنی یونانی فلسفی روح کا بہت ہی ابتدائی عقلی احساس رکھتے  تھے  کہ کوئی روح بھی ہے  جو بدن کی زندگی ہے ، وہ روح کیا ہے؟  اس کے  اعمال و افعال کیا ہیں۔؟ وہ نہیں  جانتے  تھے۔ روح سے  اس مختصر تعارف کی وجہ ان کے  عقیدے  رہے  ہونگے  یا وہ فکری و عقلی احساس جو ہر صاحبِ عقل کو سوچنے  پر مجبور کرتا ہے  بہر حال ہم اس ابتدائی عقلی احساس کو روح کا علم قرار نہیں  دے  سکتے۔ یونانی فلسفی روح کی تعریف یا شناخت نہ کر سکے  لیکن ان کا یہ کام روح کے  علم کی طرف ایک راست قدم ضرور تھا۔ ہاں  اگر یونانیوں کے آغاز کردہ اس علم پر مزید علمی پیش قدمی ہوتی تو پھر یونانیوں  سے  آغاز کر کے  یہ علم آج اپنے عروج پر ہوتا۔ مگر افسوس ایسا ہو نہیں پایا۔ یونانی فلسفیوں  کے  روح سے  متعلق اس مبہم عقلی احساس کو ان کے بعد آنے والے مادہ پرستوں نے جھٹلا دیا۔ یونانی فلسفیوں کے بعد آنے والے سائنسدان مادہ پرست تھے۔
اور یہ سائنسدان یونانی فلسفیوں کی علمی فکر سے پھوٹے تھے۔ ان سائنسدانوں  نے  یونانی فلسفیوں کی فکر پر تجربات کی بنیاد رکھی۔ ان سائنسدانوں  نے یونانی فلسفیوں  کے  روح سے  متعلق اپنی پسند کے نظریات تو رکھ لئے جنہیں انہوں نے ذہن، کردار، نفس جیسے نئے نئے عنوانات کے ساتھ پیش کیا اور ان نظریات کی اصل ماخذ یعنی روح کا انکار کر دیا۔ اور صرف اتنا ہی نہیں ان سائنسدانوں  نے  روح کو غیر مرئی قرار دے  کر روح کو علم کی فہرست سے ہی خارج کر دیا۔ یعنی روح کے  اعمال و افعال کو تو دیگر ناموں سے قبول کر لیا اور روح کے  اعمال و افعال سے روح کو خارج کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ روح غیر مرئی ہے تجربے کی زد میں نہیں آتی لہذا اس کا علم سے تعلق نہیں۔ انہوں نے ہر حقیقت کی بنیاد تجربے کو قرار دیا اور جو سامنے کی حقیقت بھی ان کے ناقص تجربات کی زد میں آنے سے رہ گئی اسے  انہوں نے جھٹلا دیا۔ سائنسدانوں  کی اس سطحی سوچ نے روح کے  علم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور اسی رویہ سے  روح کے  علم پر صدیوں کی گرد چڑھ گئی۔ لہذا سائنس دانوں  نے  یونانی فلسفیوں کے روح سے  متعلق نظریات کو
 دیگر عنوانات مثلاً ذہن، کردار، نفس، شعور، لاشعور اور سائیکالوجی وغیرہ کے  ساتھ پیش کیا۔
 اور روح کے  ان اعمال و افعال سے  روح کو خارج کر دیا۔

مسلمانوں  نے  پہلے  تمام ادوار کے  مقابلے  میں  روح پر سب سے  زیادہ سیر حاصل اور سب سے  بہترین فکری و عملی بحث کی انہوں  نے  پہلی مرتبہ نہ صرف روح، نفس اور جسم کا غیر سائنسی دور میں  سائنسی انداز میں  تذکرہ کیا لیکن یہ ابتداء تھی اس کام کو آگے  بڑھانا چاہیے  تھا لیکن مسلمانوں  نے  اس کام کو علمی یا عملی تجرباتی سطح پر لانے  کی کوئی کوشش نہیں  کی اگر کرتے  تو یہ معاملہ اب تک سلجھ چکا ہوتا۔ اگرچہ مسلمانوں  کا کام بہترین کام ہے۔ لیکن یہ کام کوئی علمی پیشرفت نہیں بلکہ انتہائی ابتدائی کام ہے۔ اور تمام کاموں  کی طرح بے  نتیجہ کام ہے۔

انیسویں  صدی میں  روح پھر ابھر کر سامنے  آئی اور روح پر بھرپور طریقے  سے  سائنسی انداز میں  تحقیق و تجربات اور تجزیات ہوئے۔ اور یہ تحقیق و تجربات کرنے  والے  سائنسدان، فلاسفرز، ڈاکٹر اور محققین ہیں  لہذا روح کو وہم  یا غیر مرئی کہنے  والے  ہی آج روح پر باقاعدہ علمی فکری سائنسی جانچ پڑتال لیبارٹریوں  میں  کر رہے  ہیں۔ لیکن سینکڑوں  برسوں کی تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا ہے  کہ انسان کے  باطن کی دریافت تو ہو گئی یہ تو ثابت ہو گیا کہ کوئی روح بھی ہے   AURA  کی بھی تصویر کشی کر لی گئی۔ لیکن ابھی تک سائنسدان اس جہان باطن سے  متعارف نہیں ہو پائے۔ روح کیا ہے ؟  ابھی تک یہ معمہ حل نہیں  ہوا روح کی نہ تو کوئی انفرادی شناخت ہو سکی ہے  نہ ہی کوئی حتمی تعریف سامنے  آئی ہے۔ اگرچہ آج روحانی واقعات و تجربات پر بے  تحاشا تحقیق و تجربات کئے جا رہے  ہیں  روح پہ بے  تحاشا مواد موجود ہے  لیکن آج بھی ماضی کی طرح جدید محقق یہی کہتے  نظر آ رہے  ہیں کہ روح کی تعریف ممکن نہیں۔ آخر ایسا کیوں  ہے   یہ جاننے  کے  لئے  ہم مختلف ادوار میں  کی جانے  والی روح کی مختلف اور بہترین تعریفوں  کا خلاصہ پیش کرتے  ہیں۔

کچھ لوگوں  نے  روح کی تعریف کرنے  کی کوشش بھی کی ہے اور یہ کوشش بہت ہی مختصر ہے۔ لہذا ہزاروں  برسوں  کے  کام سے  مجھے  روح کی چند ہی تعریفیں  ملیں  ہیں۔ اور ان چند روح کی تعریفوں میں  سے  زیادہ تر تو روح کی تعریفیں  ہیں  ہی نہیں۔ ہاں  یہ تعریفیں  محض روح کی تعریف کی کوششیں ضرور ہیں۔ مادی جسم کے  علاوہ بھی کچھ ہے  کیا اتنا کہہ دینا اتنا سمجھ لینا کافی ہے  ہرگز نہیں۔ روح، سپرٹ، ہمزاد، AURA   وغیرہ وغیرہ۔ کیا اتنا کہہ دینا کافی ہے۔ کیا یہ روح کی تعریف ہے؟  ہرگز نہیں۔ اگر ہم یہ کہیں  کہ ہزاروں  برس کے  ادوار میں  جو روح کی چند مختصر تعریفیں  کی گئی ہیں  ان تمام تر تعریفوں  میں  سے  ایک آدھ تعریف صحیح تعریف بھی ہے۔ تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے  ان میں  سے  وہ ایک صحیح تعریف کونسی ہے۔ اتنی متضاد تعریفوں میں  سے  صحیح تعریف کا اندازہ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور ایسا کون کرے  گا۔ ایسا صرف وہی کر سکتا ہے جو روح کا نہ صرف علم رکھتا ہے  بلکہ روح کو پورے طور پر شناخت کرنے  کی اہلیت رکھتا ہے  لیکن روح کے  علم کی پوری تاریخ کا جائزہ لے  لیجئے  ایسا کوئی بھی نہیں  عام لوگ تو جانتے  ہی نہیں  کہ کوئی روح بھی ہوتی ہے۔ جو جانتے  ہیں  وہ اس کا مشاہدہ نہیں کرتے  جو مشاہدہ کرتے  ہیں  وہ اسے  روح کے  طور پر شناخت نہیں  کرتے  جو اسے  روح کے  طور پر شناخت کرتے  ہیں  وہ یہ کہتے  ہیں  یہ جو روح ہے  اس کی تعریف ممکن نہیں  یا اس روح کی تعریف کے  لئے ہمارے  پاس الفاظ نہیں۔ اگر میں  یہ کہوں  کہ ان تمام تعریفوں  میں  سے  ایک تعریف روح کی تعریف ہے بھی تو وہ تعریف دراصل تعریف کے  معیار پر بھی پوری نہیں  اُترتی۔ لہذا اگر ہم یہاں  یہ کہہ بھی دیں کہ فلاں  فلسفی نے  روح کی صحیح تعریف کی تھی تو یہ ماضی کی ایک آدھ صحیح تعریف محض روح کی تعریف کی انتہائی ابتدائی کوشش ہے۔ لیکن یہ انتہائی ابتدائی  کوشش  نہ تو روح کی تعریف ہے  نہ ہی یہ کوئی روح کا علم کہلا سکتی  ہیں۔
لہذا یہ تمام تر تعریفیں محض روح کی تعریف کی انتہائی ابتدائی کوششیں  ہیں  جو ظاہر ہے  کامیاب نہیں رہیں۔ 

یعنی ہزاروں  برسوں  سے  روح پر ایک مخصوص طبقے  میں  کام ہو رہا ہے  مشاہدات و تجربات بھی کئے  جاتے  ہیں  حتیٰ کی روح کا مشاہدہ و تجربہ بھی کیا جاتا ہے  لیکن حیرت انگیز طور پر اسے  جاننے  کے  باوجود آج تک کوئی اس کی تعریف تک نہیں  کر سکا۔ روح کی یہ ہزاروں  برس کی تعریفیں یہاں  ہم نے  جمع کی ہیں  آئیے  ذرا جائزہ لیتے  ہیں۔

(1)۔  انیکسا غورث کا خیال ہے  کہ روح ایک ایسی قوت ہے  جو (حیوانات و نباتات) ہر جاندار اشیاء کے درمیان جاری و ساری ہے۔

(2)۔  دمقراط نے  کہا روح چھوٹے  چھوٹے  ناقابل تقسیم ذروں  پر مشتمل ہے

(3)۔  ارسطو نے  کہا کہ یہ ایک ایسی اکائی ہے  جو فی ذاتہ مکمل ہے

 (4)۔ برطانیہ کے  رابن فرامین نے  روح کو متحرک یادداشت قرار دیا۔

(5)۔ ڈبلیو ایچ مائرز کے  خیال میں  جسمانی شخصیت کے  علاوہ بھی ایک شخصیت ہے  جو مادی جسم سے زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے  یہ موت کے  بعد بھی برقرار رہتی ہے۔

(6)۔ ڈاکٹر ریمنڈ موڈی نے  کہا کہ انسان محض مادی جسم نہیں  بلکہ ایک اور سمت یا مکمل ذات ہے  جسے نفس SOUL، یا ادراک جو بھی کہیں  وہ ہے  ضرور۔

 (7)یونانیوں  نے  روح کو ذہن قرار دیا۔ یونانی فلسفیوں  نے  دو روحوں۔    (i)روح حیوانی اور   (ii)روح انسانی کا تذکرہ  بھی کیا۔

(8)۔ مصر کے  قدیم باشندوں  نے  بع اور کع کا تذکرہ کیا۔

(9)۔ بدھسٹ، سکھ، ہندو  روح کو رب کا حصہ قرار دیتے  ہیں اور روح کو آتما اور رب کو پرماتما کہتے ہیں۔

(10)۔ مصر کے  قدیم باشندوں  نے  بع اور کع کا تذکرہ کیا۔

(11)۔ ۔ قدیم چینیوں  نے  پو   P.O اور ہن   HUNکا ذکر کیا۔

(12)۔  یہودیوں  نے  تین روحوں   (i)۔    NEFESH،(ii)۔    RUACHاور  (iii)    NESHAMAکا ذکر کیا

(13)اکثر مفکرین مثلاً ارسطو، امام غزالی، خواجہ شمس الدین عظیمی، شاہ ولی اللہ وغیرہ نے  روح کو تین حصوں  (i) روح حیوانی  (ii)  روح انسانی (iii)  روح اعظم وغیرہ میں  تقسیم کیا۔

(14)۔ امام مالک، ابو اسحق نے  کہا کہ یہ جسم ہی کی طرح مکمل نورانی صورت یا جسم لطیف ہے۔

(15)شاہ ولی اللہ نے  روح کوروحِ یقظہ، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور نورانی نقطہ کہا

16)۔ علامہ حافظ ابن القیم نے  نفس اور روح کو ایک ہی شے  قرار دیا۔

 (17)۔ حضرت علی ہجویری  نے  کہا کہ روح ایک جنس اور باقی مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے۔

(18)۔ الکندی نے  کہا روح ایک سادہ غیر فانی و غیر مرکب ہے۔ ۔

  (19)۔  کسی نے  روح کو لاشعور یا تحت لاشعور قرار دیا۔

(20)۔  کسی نے  اسے  ایتھری جسم یا اسٹرول پروجیکشن کہا۔

(21)۔  کسی نے  روح کو ماورائی مخلوق قرار دیا۔

(22)۔ کسی نے  کہا کہ مرنے  کے  بعد شخصیت کا کچھ حصہ باقی رہ جاتا ہے  جو ان کے  خیال میں  روح یا (Spirit)  ہے۔

(23)کسی نے  اسے  روشنی یا نور کہا۔ کسی نے  اسے  برقی رو یا کرنٹ کہا۔ کسی نے  کہا روح جوہر ہے  جس کا تعلق بدن سے  ہے

 (24)۔  سائنسدانوں  نے  بھی کر لین فوٹوگرافی سے ایک لطیف وجود کی تصویر کشی کی ہے  جسے  انہوں نے   " AURA "  کہا ہے۔ اور  AURA  کے  اندر مزید سات اجسام   Subtle Bodiesکا اور چکراز کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

(25)کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ Divine Spark یا نور یزدانی ہے جس سے انسان اور حیوان میں تمیز پیدا ہوتی ہے۔

(26)کچھ نے کہا کہ یہ خدا کی صفات کا پرتو یعنی عکس ہے ۔ یعنی خدا نے اپنی روح پھونک کر انسان میں اپنی صفات منتقل کیں۔
 دوسری طرف کچھ صوفیا نے یہیں سے اپنے نظریات اخذ کیے کہ روح پھونک کر خدا انسان میں حلول کر گیا یا انسان اور خدا ایک ہی ہیں اور یہاں سے وحدت الوجود کی بنیادیں تلاش کی گئیں۔
یہاں  ہم نے  مختلف ادوار کے  مشہور و معروف مفکروں  سائنسدانوں  محققوں  کی رائے  پیش کی۔ یہ تمام روح کی رنگ برنگی مختلف اور متضاد تعریفیں  پڑھنے  کے  بعد اب، روح کے  بارے  میں  آپ کی کیا رائے  ہے۔؟ ظاہر ہے  کچھ بھی نہیں  اتنی رنگ برنگی اور متضاد تعریفیں  پڑھنے  کے  بعد ظاہر ہے سمجھ تو کچھ نہیں  آ سکتا ہاں  انسان الجھن کا شکار ضرور ہو جاتا ہے اور یہ سوچنے  پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر

 روح ہے  کیا؟  ہے  بھی یا نہیں۔

 یہ تو بلآخر اس کی سمجھ میں  نہیں  آتا لیکن اس الجھن کے  بعد  روح کے  بارے  میں  ڈھیروں کتابیں اور تفصیلات کے  مطالعے  کے  بعد بھی یہی سمجھ میں  آتا ہے  کہ مادی جسم کے  علاوہ بھی کچھ ہے جسے  انسان پھر بلآخر مجبور ہو کر اپنے  عقیدے  ہی کے  مطابق نام دینے  پر مجبور ہے۔ لہذا کبھی وہ اسے روح کہتا ہے  کبھی سپرٹ کبھی  AURA  کبھی نورانی وجود کبھی ہمزاد کبھی ایتھری جسم کبھی آسٹرل باڈی کبھی کرما کبھی چکراز  کبھی آتما وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ!

آج تک کی جدید تحقیق اور صدیوں  پر مشتمل تمام تر تحقیقات کا کیا نتیجہ نکلا روح کا مطالعہ کر کے صرف آپ ہی نہیں  الجھے  حد تو یہ ہے  جنہوں  نے روح پر تجربات کئے  ہیں  جنہوں  نے  مشاہدے  کئے ہیں  جنہوں  نے  سینکڑوں برس کی تحقیق لیبارٹریوں میں  کی ہے  وہ بھی اسی کشمکش کا شکار ہیں جس کا کہ آپ۔ صدیوں  برس کی تحقیق اور آج کے  برس ہا برس کے  تجربات و مشاہدات کے  بعد  ماہرین، محققین، سائنسدانوں  کی بھی وہی رائے  ہے  جو ابتداء کے  یونانیوں  کی تھی یعنی مادی جسم کے علاوہ بھی کچھ ہے اور یہ کچھ کیا ہے ؟  یہ ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے  جس پہ کہ سبھی کی متفقہ رائے  یہ ہے  کہ اس  روح کی تعریف ممکن نہیں۔ لہذا صدیوں  کی تمام تر تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلا کہ روح کی تعریف ممکن نہیں۔

روح پر ہزاروں  برسوں  سے  کام ہو رہا ہے۔ ہر دور کے مخصوص روحانی لوگ روح کا مشاہدہ بھی کرتے  آئے ہیں۔ اور آج بھی روح کا تجربہ و مشاہدہ کرنے  والے لوگ موجود ہیں  لیکن آج تک نہ تو روح کی انفرادی شناخت ممکن ہوئی ہے  نہ ہی اسکی کوئی تعریف ہی سامنے آ سکی ہے۔

۱۸۸۲ء  میں  لنڈن میں  ایک کمیٹی بنی اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ روح اور اس کے  متعلقہ مسائل پر بحث کی جائے۔ اس کمیٹی میں  یورپ کے  ممتاز علماء اور سائنسدان شامل تھے۔ یہ کمیٹی تیس سال قائم رہی اور اس مدت میں  اس نے  حاضراتِ ارواح کے مختلف واقعات کی جانچ پڑتال کی اور چالیس ضخیم جلدوں  میں  اپنے  تاثرات کو شائع کیا۔ چالیس سال کی چھان پھٹک کے  بعد کمیٹی اس نتیجے  پر پہنچی کہ انسان کی جسمانی شخصیت کے  علاوہ ایک اور شخصیت بھی ہے  جو گوشت پوست کے  جسم سے کہیں  زیادہ مکمل اور اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہی اعلیٰ و ارفع شخصیت موت کے  بعد قائم اور برقرار رہتی ہے۔

مثلاً ڈبلیوایچ مائزر (Frederic. W.H. Myers)   نے اپنی کتاب

  Human Personality and its survival of bodily death  میں  سینکڑوں  پراسرار واقعات، حادثات، تجربات کا سائنسی تجزیہ کرنے  کے  بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے  بعد انسان کا وہ حصہ باقی رہتا ہے  جسے  سپرٹ (Spirit)   کہتے  ہیں۔

ڈاکٹر ریمنڈ موڈی (1975)   نے  اپنی کتاب لائف آفٹر لائف میں  مر کر زندہ ہونے  والے  ڈیڑھ سو افراد کے بیانات پر سائنسی تجربات و تجزیات کے  بعد نتیجہ اخذ کیا کہ انسان محض مادی وجود نہیں  بلکہ ایک اور سمت یا مکمل ذات ہے  جسے  نفس،روح( Soul) یا ادراک جو بھی کہیں  وہ ہے  ضرور۔

برطانیہ کے  رابن فرامین کہتے  ہیں   ان تجربات میں کیسی ہی غلطی کیوں  نہ معلوم ہوتی ہو انہیں  رد نہیں  کیا جا سکتا۔ وہ ہزاروں  لوگ جو روحانی تجربات سے  گزرنے  کا دعویٰ کرتے  ہیں سب خبطی یا جھوٹے  تو نہیں  ہو سکتے  صرف برطانیہ میں  ہر دس میں  سے  ایک شخص کو اس طرح کے  تجربات ہوئے ہیں۔ روحیں  کیا ہیں ؟  یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ میرا خیال ہے  کہ وہ ایک متحرک یادداشت ہیں اور روح نہیں  ہیں۔ یہ ایسی یادداشت ہیں  جو انسان کے  مرنے کے  بعد رہ جاتی ہیں۔ بعض صورتوں  میں  ایسے  لوگ جو روحانی صلاحیتوں  کے  مالک ہیں  انہیں  دیکھ یا سن سکتے  ہیں۔ جب یہ سمجھا جاتا ہے  کہ کوئی روح کسی شخص کو خطرے  سے  بچا دیتی ہے  یا اسے کوئی اہم معلومات مہیا کرتی ہے  تو یہ اس شخص کا تحت الشعور ہوتا ہے  جو یہ تصور پیدا کرتا ہے۔

روح کے  بارے  میں  جتنے تذکرے  ملتے  ہیں اور جن لوگوں  نے  روح کی تعریف بیان کی ہے  انہوں  نے  روح کو کسی نہ کسی شکل و صورت میں  ہی بیان کیا ہے  مثلاً روشنی، نور عکس وغیرہ وغیرہ روشنی بھی ایک شکل ہے  نور کی بھی  ایک تعریف ہے۔ فی الواقع روح کیا ہے؟  اس کی ماہیت کیا ہے؟  اس کو واضع طور پر بیان کرنے  کے  لئے  ہمارے پاس الفاظ نہیں  ہیں۔

لہذا سب فلسفی ،سائنسدان اور روحانی عالم روح کی  متفقہ تعریف پیش نہیں کر پائے۔

روح جو ہم خود ہیں کیا ہم خود کو نہیں  جان سکتے۔؟

کیا ہماری اصل ہماری روح کی یعنی ہماری اپنی تعریف ممکن نہیں۔؟روح کی تعریف عین ممکن ہے  نا ممکن کا لفظ بے  کار ہے۔ سب کچھ ممکن ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج تک روح کی صحیح تعریف کا اور خود روح کا تعین نہیں  ہو سکا۔ آئیے  یہ جاننے  کی کوشش کرتیں ہیں کہ آج تک روح کی درست تعریف کیوں  نہیں  ہو سکی۔

 اس کی سب سے  بڑی وجہ یہ ہے  کہ آج تک روح پر تحقیق و تجربات کرنے  والوں  نے  روح کو اس کے واضع انفرادی تشخص کے  ساتھ کبھی شناخت ہی نہیں  کیا صدیوں  سے  روح پر تحقیق کرنے  والوں  نے کبھی روح کی تعریف کی ہی نہیں  وہ مختلف اجسام اور ہیولوں  کو روح کے  طور پر پیش کرتے  رہے  ہیں۔ حقیقت یہ ہے  کہ وہ روح کا علم رکھتے  ہی نہیں  تھے روح کو جانتے  ہینہیں  تھے۔
  سینکڑوں  برس لیبارٹریوں  میں  تجربات اور مشاہدات کے  بعد بھی وہ روح کو شناخت کر ہی نہیں  پائے۔ روح کی تمام تعریفوں  میں  چند تعریفیں  ایسی ہیں  جو صحیح ہیں  قابل غور ہیں  لیکن ان انتہائی ابتدائی چند الفاظ کو ہم روح کا علم یا روح کی تعریف نہیں  کہہ سکتے

روح کی تعریف آج تک کیوں  نہیں  ہو سکی کیا غلطی کرتے  رہے  ہیں روح پر تجربات کرنے  والے  آج ہم اس کی نشاندہی کرتے  ہیں۔ انیسویں  صدی کے  بعد روح پر باقاعدہ سائنسی بنیادوں  پر لیبارٹری میں  بہت کام ہوا ہے  لیکن چونکہ روح مشاہدے  میں  نہیں  لہذا یہ بنیادی غلطیاں  سبھی کرتے  رہے  ہیں۔ وہ بنیادی غلطیاں  مندرجہ ذیل ہیں۔

ا۔کسی نے  روح کو انفرادی حیثیت میں  شناخت نہیں  کیا۔ لہذا وہ جانتے  ہی نہیں  تھے  کہ روح کیا ہے اور روح سے  اسی لاعلمی کے  سبب

ب۔ پچھلے  تمام محقق انسان کے  باطنی لطیف اجسام یعنی نفس کو روح کے  طور پر پیش کرتے  رہے۔

اگرچہ وہ روح کو جسمِ لطیف کہنا چاہتے  تھے  لیکن درحقیقت وہ اجسام کے  چکر میں  بُری طرح اُلجھ گئے۔ !لہذا یہاں  ہم نے  دو غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔

 روح کی آج تک انفرادی شناخت تو نہ ہو سکی لیکن اس بے  شناخت فرضی روح کے  لئے  مختلف اقوام میں  مختلف نام ضرور رائج ہیں آیئے  ان بہت سارے ناموں  میں  سے  روح کو اور اس کے  اصل نام کو شناخت کریں

بع، کع، ذہن یا روح، نفس، روح حیوانی، روح انسانی، روح اعظم،  NEFSH،  RUACH،  NESHAMA، SPIRIT، ، SELF، JIVA، ATMAN یا آتما  SOULقدیم یونانی اسی لفظ کو زندہAlive))کے  لئے استعمال کرتے  تھے  لہذا ویسٹرن فلاسفرز کے  خیال میں  بھی لفظ   SOULاور  Aliveness  ہم معنی ہیں۔
         پو  PO، ہنHU، اورا  AURA، سبٹیل باڈیزSubtle Bodies، چکرازChakras  ، جسم لطیف، جوہر، روشنی، نور، نقطہ، لاشعور، تحت لاشعور، متحرک یادداشت، ایتھری جسم، اسٹرول پروجیکشن، ماورائی مخلوق، اعلیٰ و ارفع شخصیت، برقی رو یا کرنٹ، وغیرہ  وغیرہ۔

سائنسدانوں  نے  بھی کر لین فوٹو گرافی (Karlain Photography)   کے  ذریعے  ایک روشنی کے  وجود (AURA)  کی تصوری کشی کی ہے۔  اکثر لوگ اسے  ہی روح قرار دیتے  ہیں

(1)  کیا یہ سب روح کے  نام ہیں؟

(2)  یا یہ مختلف اجسام کے  مختلف نام ہیں، اگر یہ مختلف ہیں  تو پھر ان تمام کی انفرادی شناخت کا کیا معیار ہے ؟

(3)  یا یہ سب  نام روح کے  حصوں  کے  نام ہیں ؟

(4)  یا ان  سب ناموں  میں  سے  کوئی ایک نام روح کا ہے ؟

(5)  اگر ان میں  سے  کوئی ایک روح ہے  تو وہ کونسی ہے ؟

جو نام ہم نے  یہاں  اکھٹے  کئے  ہیں  یہ نام عموماً روح کے  بارے  میں  معلومات رکھنے  والے  روح ہی کے  لئے مختلف زبانوں  یا عقیدوں  کے  مطابق استعمال کرتے ہیں۔

(1)  لیکن یہ سب نام روح کے  نام نہیں  ہیں۔

(2)  ان میں  زیادہ تر نام تو روح کے  لئے  استعمال کیئے  گئے  ہیں  لیکن روح کو شناخت کیئے  بغیر۔ فرضی نام۔

(3)  یہ روح کے  حصے  بھی نہیں  ہیں  جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔

(4)  دراصل یہ انسانی باطن کے  مختلف اجسام کے مختلف نام ہیں  جنہیں  مشاہدہ کرنے  والے  روح کے طور پر شناخت کرتے  ہیں۔ حالانکہ یہ تمام لطیف اجسام نہ تو روح ہیں  نہ ہی روح کے  حصے۔

(5)  ان ناموں  میں  ایک آدھ نام اور ایک آدھ تعریف روح کی بھی ہے  لیکن روح کو روح کے  طور پر شناخت نہیں  کیا جاتا۔
اور ان تمام غلطیوں  کا سبب ہے  باطن سے  لاعلمی۔

ہم روح کا علم نہیں  رکھتے   لہذا اس کو شناخت نہیں  کر پاتے۔  دوسرے  ہم اپنے  باطن کا علم بھی نہیں  رکھتے  لہذا روح کے  علاوہ تمام اجسام کو بھی روح کے  طور پر شناخت کرتے  ہیں اور روح کو روح کے  طور پر شناخت ہی نہیں  کر پاتے  آج تک ان تمام ناموں  میں  سے  روح کی شناخت ممکن نہیں  ہوئی یہی وجہ ہے  کہ ہم اتنے  ناموں  میں  اسے  شناخت نہیں  کر سکتے اور اس شناخت نہ کر سکنے  کی دو بڑی وجوہات ہیں۔


جس طرح ایٹم کے  اندر ایک وسیع جہان دریافت ہو چکا ہے اور مزید دریافتیں  جاری ہیں۔ اسی طرح اتفاقاً آج سائنسدانوں  نے  اپنے  اندر جھانک کر اپنے  باطن کا بھی مشاہدہ کر لیا ہے۔ اور وہ اپنے  اندر آباد اس وسیع جہان کو دیکھ کر حیران ہو رہا ہے   جس کی دریافت تو ہو گئی ہے  لیکن شناخت ہونا باقی ہے۔ ویسے  تو جہان باطن کا مشاہدہ کرنے  والے  ہر دور میں  موجود رہے  ہیں اور آج بھی ہیں  لیکن آج جہان باطن کی دریافت جدید سائنسی طریقوں  سے  بھی ہو گئی یعنی حجت تمام ہوئی مادہ پرستوں  کی۔ ان کی یہ ضد تھی کہ ایسی چیز کو کیوں  مانیں  جو نظر نہیں آتی۔ بہر حال باطن کا مشاہدہ کرنے  والے  جب مشاہدہ کرتے  ہیں  تو دو غلطیاں  کرتے  ہیں

(1)   وہ باطن کے  تمام لطیف اجسام کو روح یا روح کے  حصوں  کے  طور پر متعارف کرواتے  ہیں۔

(2)   وہ ان تمام میں  سے  روح کو شناخت نہیں  کر پاتے۔

یا وہ انسان کے  لطیف اجسام کو  AURA ، چکراز، یا سبٹل باڈیز کا نام دے  دیتے  ہیں۔ یہ تمام سنگین خطائیں  ہیں۔ یعنی مشاہدہ کرنے  والے  جہان باطن کا مشاہدہ تو کر رہے  ہیں  لیکن وہ اسے  شناخت نہیں  کر پائے اور اسے  بری طرح خلط ملط کر کے  رکھ دیا ہے۔ اور سب نے  اسے  مختلف ناموں  سے  پکارا ہے  جس سے  یہ معاملہ سلجھ نہیں  رہا مزید الجھ رہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ کیا یہ روح کے  یا باطن کے  جتنے  نام بیان ہوئے  ہیں  کیا انسان کے  اندر اتنے ہی نظام کام کر رہے  ہیں اور باطن کا مشاہدہ کرنے  کے باوجود وہی صدیوں  کے  سوال جوں  کے  توں  حل طلب ہیں کہ ان میں  سے  روح کونسی ہے  کیا یہ سب روح اور اس کے  حصے  ہیں  تو جواب ہے  نہیں۔ تو پھر یہ سب لطیف اجسام کیا ہیں ؟ اور ان تمام تر ناموں کی اصل کیا ہے ؟مثلاً  میں  عمران شہزاد تارڑ  ہوں  اگر فارسی میں  مجھے  کسی اور نام سے  پکارا جائے عربی میں اور انگلش میں اور یعنی چالیس زبانوں میں  مختلف ناموں  سے  پکارا جائے  یا تذکرہ کیا جائے  تو پھر یہ اندازہ کرنا محال ہے  کہ یہ تذکرہ ایک فرد کا ہے  یا 40   افراد کا اور یہ تمام چالیس تذکرے علیحدہ علیحدہ تذکرے  تصور کیئے  جائیں  گے  جن کا باہم ربط قائم کرنا ناممکن ہے۔

یہی حال ہوا ہے  روح کا اور انسان کے  باطن کا اور ان کے  ناموں  کا۔ انسان کا باطن اور روح ایسی شے  ہے کہ ہر ایک وجود ہر شے  کا انفرادی تشخص قائم ہونا ضروری ہے  ہر ایک کا مخصوص نام ہونا ضروری ہے جبھی یہ مسئلہ حل ہو گا۔

  ابھی مسئلہ یہ ہے  کہ ہم روح کی شناخت نہیں رکھتے  نفس کو نہیں  جانتے  باطنی اجسام کی انفرادی شناخت نہیں  رکھتے اور مزید یہ کہ ؛
 ان تمام کے  نام ہر شخص نے  الگ الگ زبان میں الگ الگ رکھ لئے  ہیں اور ؛
  مزید یہ کہ ہر روح و نفس و لطیف اجسام کے ناموں  کو ایک ہی فہرست میں   روح کے  نام کے  طور پر درج کر دیا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے  کہ پچھلے  تمام مفکر تجزیہ نگار فلسفی روحانیت سے  وابستہ افراد حتیٰ کے  جنہوں نے  خود روح کا مشاہدہ کیا ہے  وہ بھی مختلف اجسام کے  چکر میں  پھنس گئے  ہیں۔ وہ روح نفس اور جسم کی گتھی کو سلجھا نہیں  سکے  ہیں  اگرچہ وہ تینوں کا تذکرہ کرتے  رہے  ہیں  کبھی وہ روح کا ذکر کرتے ہیں  کبھی روشنیوں  کے  جسم کا کبھی نور کے  جسم کا کبھی ہمزاد کا ابھی تک وہ اجسام کی اس تکون کو سلجھا نہیں  سکے  ہیں وہ
 نہ تو ان اجسام کا کوئی باہم ربط قائم کر سکے  ہیں اور نہ ہی ان کی الگ الگ توضیح و تشریح کر سکے ہیں  ایک طرف تو وہ تین چار یا سات اجسام لطیف کا تذکرہ کرتے  ہیں  جب کہ دوسری طرف جب وہ روح کا تذکرہ کرتے  ہیں  تو ان میں  سے  ہر جسمِ لطیف کو روح کہتے  نظر آتے  ہیں۔ جب وہ AURA   کا مشاہدہ کرتے  ہیں  تو اسے  ہی انسان کا اصل تشخص یا روح قرار دیتے  ہیں  جب وہ نورانی وجود کا مشاہدہ کرتے  ہیں  تو اسے  ہی روح قرار دیتے  ہیں۔
 اور روح کو ناقابلِ تقسیم قرار دیتے  ہیں۔
پھر لطیف اجسام کو روح کے  حصے  بھی کہتے ہیں۔

ایسا کرتے  ہوئے  وہ  خود اپنی تضاد بیانی میں الجھ جاتے  ہیں  جب اس گورکھ دھندے  کو سمجھ نہیں پاتے  تو کہہ دیتے  ہیں  کہ روح کی تعریف ممکن نہیں نہ تو وہ روح کو واضع شناخت کے  ساتھ پہچان پائے ہیں  نہ ہی وہ ان تین یا سات اجسام کی صحیح توضیح و تشریح ہی کر پائے  ہیں۔ یہی وجہ ہے  کہ وہ روح کی صحیح تعریف نہیں  کر پاتے  جس نے  کوشش کی وہ کامیاب نہیں  ہوا اگرچہ اس نے  مشاہدہ ہی کیوں  نہ کیا ہو وہ روح کو بیان کرنے  سے  قاصر ہے۔

پہلے  تو روح و جسم کا ہی مسئلہ تھا لیکن آج روح پر تجربات کرنے  والوں  نے  روح نفس، جسم کے  علاوہ جن، فرشتے ، شیطان اور دیگر مخلوقات کو خلط ملط کر کے  فقط ایک نام دے  دیا یعنی ماورائی مخلوق۔ دراصل وہ ان تمام مخلوقات کا مشاہدہ تو کرتے  ہیں ان پر تجربات تو کرتے  ہیں  تجزیے اور تخمینے  تو لگاتے  ہیں  لیکن حقیت یہ ہے  کہ نہ تو وہ ان تمام مخلوقات یا مختلف اجسام میں  کوئی تمیز ہی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے  پاس ان تمام مخلوقات کا کوئی علم ہے  یہی ہے  اصل مسئلہ پچھلے اور آج تک کے  تمام مفکروں  نے  سائنسدانوں  نے  تمام مخلوقات کو خلط ملط کر کے  آج اسے  ایک گھمبیر مسئلہ بنادیا ہے۔

اب ذرا ہم بڑا زور لگا کے  بڑی کوشش کر کے  روح کو اس ماوراء کے  صدیوں  بڑے  ڈھیر سے  باہر نکالنے  کی کوشش کرتے  ہیں  ہیں ایسی ہی کوششیں  ہمیں  باقی مخلوقات کے  لئے  بھی کرنا ہوں  گی جب تک ہم کسی شے  کے  بارے  میں  جانتے  ہی نہیں کسی بھی واقعے کا تجزیہ جانچ پڑتال تو آپ نے  کر لی لیکن آپ یہ نہیں  جانتے  کہ ڈھیروں  مخلوق میں  سے  یہ کس کی کارستانی ہے  تو یہ تجزیے  یہ جانچ پڑتال محض خیالی پلاؤ ہیں یا ہوا میں تیر چلانے  کے  مترادف دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے  کہ ابھی تک روح کی نشاندہی نہیں  ہو سکی ہے  روح کی جتنی بھی تعریفیں  ہیں وہ سبھی غلط ہیں۔ روح کی تعریف اسی صورت میں ممکن ہے  کہ پہلے  ہم اجسام لطیف کی صحیح تعریف کریں اور اجسام کے  گھمبیر چکر کو سلجھائیں اس کے  بعد روح کی انفرادی شناخت قائم کریں  تبھی روح کی تعریف ممکن ہے۔

آئیے  اب روح کو انفرادی حیثیت میں  شناخت کریں اور روح کی تعریف اور تعارف پیش کریں۔

        
 بڑے  بڑے  روحانی ماہر فلسفی، دانشور روح کی تعریف سے  معذوری کا اظہار کرتے  رہے  ہیں۔ کچھ بڑے  مفکروں  کی جو روح سے  متعلق چند تعریفیں ہمیں  میسر ہیں  وہ تعریف کے  معیار پر بھی پوری نہیں  اترتیں  نہ ہی وہ روح کی تعریفیں  ہیں۔ حتیٰ کے آج روحانیت کے  بڑے  بڑے  ادارے  قائم ہیں، کروڑوں لوگ ان اداروں  سے  وابستہ ہیں  مراقبہ کے  ذریعے روح کا مشاہدہ کرنے  والے  بھی موجود ہیں لیکن یہ سب روحانیت کے  دعوے  دار بڑے  روحانی ماہرین بھی آج تک روح کی تعریف نہیں  کر پائے  کہ آخر یہ روح ہے  کیا؟

روح کیا ہے ؟  یہاں  ہم چند الفاظ میں  روح کی تعریف کریں  گے  جس کو ہم روح کا فارمولہ کہیں  گے اور پھر ہم ان چند الفاظ یعنی روح کے  فار مولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے  تب جا کر روح کی تعریف ممکن ہو گی۔

  ﴿روح جسم نہیں  ہے۔ ﴾

نور کا جسم روح نہیں  ہے۔

کوئی بھی لطیف جسم روح نہیں  ہے۔

یعنی انسان کی اصل اس کی روح جسم نہیں  ہے۔

 جب کہ ماضی میں  ہمیشہ روح کو جسمِ لطیف کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے  جسم تو مرجاتے  ہیں فنا ہو جاتے  ہیں اجسام کا تو نام و نشان نہیں  رہتا چاہے  وہ مادی جسم ہو یا کوئی بھی لطیف سے  لطیف جسم ہو سب فنا ہو جاتے  ہیں۔ لیکن انسان اپنی تمام تر خصوصیات، احساسات، جذبات، شخصیت سمیت جوں  کا توں  موجود رہتا ہے۔ بغیر کسی جسم کے  ! کیسے؟  کیونکر !  انسان اور جسم لازم و ملزوم ہیں۔ انسان نے  خود کو ہمیشہ مجسم ہی تصور کیا ہے  لہذا انسان بغیر جسم کے  بھی موجود ہو سکتا ہے۔

انسان کے  لیے  یہ تصور ہی ناقابل فہم ہے  کہ اس کا کوئی جسم نہ ہو اور وہ پھر بھی موجود ہو۔ یہی عجیب تصور کبھی انسان کے  ذہن میں  نہیں  سما سکا۔ یہی وجہ ہے  روح کی تعریف نہ ہو سکنے  کی۔ لہذا جب بھی انسان نے  بغیر جسم کے  اپنا یعنی اپنی روح کا مشاہدہ کیا تو وہ روح کو دیکھنے اور پہچاننے کے  باوجود کبھی روح کی تعریف نہیں  کر سکا۔ انسان جسم کے  بغیر روح کے  طور پر کبھی خود کو متعارف نہیں  کروا پایا۔ کیونکہ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے  ہوئے  بھی کبھی اس کے  ذہن نے  قبول نہیں کیا کہ انسان جسم کے  بغیر بھی موجود ہو سکتا ہے۔

دراصل مادی جسم یا لطیف اجسام تو انسان کے  لباس ہیں پنجرے  ہیں  جن میں  یہ انسان قید ہے۔ اجسام سے  چھٹکارا پا کر ہی انسان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمایاں  ہوتا ہے  وہی انسان جسے  ہم مادی جسم کے  روپ میں  دیکھتے  ہیں سوچتے  سمجھتے اور جانتے  ہیں  وہی مادی جسم والا انسان بغیر جسم کے بھی جوں  کا توں  موجود ہے  اسی کو ہم روح کہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے  کہ یہ  انسان کی روح کیا ہے  جو جسم کے  بغیر بھی موجود ہے۔


 ﴿پس روح و اجسام الگ الگ ہیں۔ ﴾

(1)  تمام تر لطیف اجسام نہ تو روح ہیں  نہ ہی روح کے  حصے۔

(2)  تمام تر اجسام نفس کے  زمرے  میں  آتے  ہیں  یا اجسام نفس ہیں۔

(3)  روح اجسام سے  مختلف شے  ہے۔

(4)  پس روح و اجسام الگ الگ منفرد ہیں۔

روح مادی جسم یا لطیف اجسام سے  یکسر الگ اور منفرد شے  ہے اور اجسام بھی الگ الگ اپنی انفرادیت رکھتے  ہیں۔ روح کی شناخت اور اس کی صحیح تعریف میں  سب سے  بڑی رکاوٹ ہی یہ رہی ہے  کہ روح کو اجسام لطیف کے  طور پر شناخت کیا جاتا رہا ہے۔ جب کہ تمام تر اجسام مختصر المدت اور فانی ہیں۔ ان لطیف اجسام کے  مشاہدے  تجربے  کرنے  والے  ان مختلف لطیف اجسام کی کبھی کوئی واضع توضیح و تشریح نہیں  کر پائے  لہذا ان اجسام کے  چکر میں  ہی الجھ گئے  لہذا آگے  کیسے  بڑھتے۔ کیسے  روح کو شناخت کرتے  جب وہ کبھی ان مختلف النوع لطیف اجسام کا مطلب ہی نہیں  سمجھ پائے اور انہیں  ہی روح اور روح کے  حصے  قرار دے  کر خود ہی اپنی تضاد بیانی میں  الجھتے  رہے  ایک طرف روح کو ناقابل تقسیم کہہ کر پھر اس کے  تین یا سات حصے بھی گنوا دیتے  تھے  لہذا وہ اجسام جو فانی ہیں انہیں  روح کے  طور پر پیش کر کے  روح کی تعریف کرنے  کی کوشش کی جاتی رہی تو بھلا روح کی تعریف کیسے  ممکن تھی۔

آئیے  ماضی کے  سارے  ابہامات کو دور کر کے  روح کی تعریف کرتے  ہیں۔

روح کیا ہے ؟

 روح کی تعریف کرنے  کے لئے  یہاں   چند الفاظ میں  روح کا دس نکاتی فارمولہ پیش کرتے ہیں ۔ پھر اس فارمولے  کی مسلسل وضاحت ہو گی تب جا کر روح کی تعریف مکمل ہو گی۔

سادہ لفظوں  میں  ہم اس چند نکاتی فارمولے  کو یا روح کی تعریف کو یوں  بیان کریں  گے  یا روح کی تعریف کو سادہ لفظوں  میں بیان کرنے  کے  لئے  ہمیں  یہ کہنا ہو گا کہ

 "روح خالق کائنات کا حکم ہے  "

اب ہم چند نکاتی فارمولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے۔ کہ یہ روح یا یہ نکتہ کیا ہے ؟  انرجی کیا ہے ؟  زندگی کیا ہے؟  مرتب پروگرام سے  کیا مراد ہے ؟ ارتعاش کیا ہے ؟  حرکت کیا ہے ؟  آواز کیا ہے ؟  حکم کیا ہے؟  خالق کائنات کا حکم کیا ہے ؟ اور یہ خالق کائنات کا حکم کیسے  انسان کی صورت اختیار کر رہا ہے

اس دس نکاتی فارمولے  کی مسلسل وضاحت کے  بعد انسانی کام کی تاریخ میں  پہلی مرتبہ روح کی تعریف مکمل ہو گی۔ نہ صرف روح کی تعریف ہو گی بلکہ انسان بھی کھل کر اپنے  واضع تشخص کے  ساتھ ابھر کر سامنے  آئے  گا۔


1﴿روح ایک نکتہ ہے۔ ﴾

روح ایک ایسا انتہائی چھوٹا وجود ہے  جو ہماری مادی آنکھ سے  اوجھل ہے  نکتے  سے  ہماری کیا مراد ہے اور انسان کی اصل روح کو آخر ہم نے  نکتہ کیوں  کہا ہے ؟  اس کی وضاحت ہم ایک مشہور، سادہ اور عام مثال سے  کرتے  ہیں۔

اگر آپ کسی باریک پین سے  سادہ سفید صفحے  کے اوپر ایک نقطہ لگائیں  پھر کسی سے  پوچھیں  آپ کو اس صفحے  پر کیا نظر آ رہا ہے ؟  تو وہ جواب میں کہے  گا کہ مجھے  تو اس صفحے  پر کچھ نظر نہیں  آ رہا یہ سادہ صفحہ ہے۔ یہ جواب اس نے  اس لئے  دیا کہ وہ صفحے  پر نقطے  کی موجودگی سے  ناواقف ہے اور اسی ناواقفیت کی وجہ سے  صفحے  پر موجود انتہائی چھوٹا نقطہ اس کو نظر نہیں  آ رہا جب کہ آپ صفحے  پر نقطے  کی موجودگی اور مقام سے  واقف ہیں  لہذا جانتے  ہیں  کہ صفحے  پر نقطہ موجود ہے۔

روح بھی ایسے  ہی نکتے  کی مانند وجود ہے اور یہ انتہائی چھوٹا وجود مادی آنکھ سے  اوجھل ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ اکثریت نے  اپنی روح کو نہیں  دیکھا اور چونکہ ہم اپنی روح کو نہیں  دیکھ پاتے  لہذا اسے جانتے  ہی نہیں  یعنی ہماری خود سے  اپنی روح سے ناواقفیت کی ایک بڑی وجہ یہی نہ دیکھ پانا ہے۔

روح سے  ناواقف لوگ تو سادہ صفحے  پر نقطے  کی طرح روح کی موجودگی تک سے  بے  خبر ہیں۔ نہ جاننے  والوں  کو اس کا کچھ علم ہے  نہ ہی وہ انہیں نظر آ رہی ہے  و ہ تو اس کا نام بھی نہیں  جانتے اور اسے  وہم تصور کر کے  جاننا بھی توہم پرستی تصور کرتے  ہیں  یعنی خود کو جاننے  کو توہم پرستی قرار دیتے  ہیں لہذا روح جس کا عام طور پر تصور بھی محال ہے  ایسا لا معلوم اور پیچیدہ مسئلہ ہے  کہ عام آدمی کے  نزدیک جسکا کوئی حل نہیں۔ لیکن جنہیں یہ نظر آ رہی ہے یعنی جن کے پاس علم ہے  وہ بھی حیران ہیں  روح کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے  والوں  کے  لئے  بھی یہ سمجھنا یا سوچنا بہت مشکل ہے  کہ یہ نکتہ انسان کی اصل کیونکر ہے ؟یہی نکتہ روح جو عام نظر و فہم سے پوشیدہ ہے اور دیدۂ بینا کے  سامنے  ہوتے  ہوئے  بھی فہم سے  ماوراء۔ یہی  ننھا وجود روح انسان کی اصل ہے  جو کبھی فنا نہیں  ہوتا۔ یہی روح مادی جسم اور لطیف اجسام تیار کرتی ہے  یہی اجسام کو مربوط کر کے  انسانی صورت دیتی ہے۔ تمام اجسام مفروضے اور یہی روح حقیقت ہے۔ یعنی روح اصل ہے  تو باقی انسان اسی روح کی مفروضہ شکل۔ اب یہ تو فیصلہ ہو گیا کہ روح مادی جسم کی مانند جسم نہیں  ہے۔ نہ ہی لطیف اجسام روح یا روح کے  حصے  ہیں۔ روح جسم ہے  ہی نہیں  بلکہ روح ایک انتہائی چھوٹا وجود ہے۔جس کا حتمی علم کسی کے پاس بھی نہیں ۔

جسے  ہم نے  یہاں  نکتے  سے  تشبیہہ دی ہے۔ اب سوال یہ ہے  کہ یہ نکتہ کیا ہے؟

2 ﴿یہ نکتہ روح سب سے  چھوٹا وجود ہے۔ ﴾

روح کائنات کا سب سے  چھوٹا وجود ہے  لیکن یہ نہ تو ذرہ ہے  نہ ہی جسم۔

کافی عرصہ تک سائنسدان ایٹم کو سب سے  چھوٹا ذرہ قرار دیتے  رہے  ہیں۔ جب ایٹم کو سب سے  چھوٹا ذرہ سمجھا جاتا تھا تو اس سب سے  چھوٹے  ذرے سے  مراد یہ تھی کہ اب یہ وجود ناقابل تقسیم ہے۔ ایٹم کا مطلب ہی نہ تقسیم ہونے  والا ہے۔ لیکن ایٹم کے  بعد الیکٹران، پروٹان، فوٹان وغیرہ کی دریافت سے  یہ نظریہ غلط ثابت ہو گیا۔ ایٹم اور آج تک دریافت ہونے  والے  تمام ذرات تقسیم در تقسیم دریافت ہو رہے  ہیں۔

یہ تمام بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے   چھوٹے  ذرات دراصل انرجی اور ماس پر مشتمل ہیں۔
اور ہر وہ ذرہ جو انرجی اور مادہ پر مشتمل ہو وہ تقسیم ہونے  والا ذرہ ہے  چاہے  وہ کتنا ہی چھوٹا ذرہ کیوں  نہ ہو۔

یہ تقسیم صرف روح پر آ کر ختم ہوتی ہے  روح ہی وہ سب سے  چھوٹی شے  ہے  جو ناقابل تقسیم ہے۔ روح کے  علاوہ باقی ہر وجود تقسیم ہو جاتا ہے۔ ہر وجود کی ابتداء یہی روح کرتی ہے اور ہر وجود تقسیم در تقسیم جو باقی بچتا ہے  وہ یہی روح ہے۔

روح ہی وہ شے  ہے  جو نہ تو تقسیم ہوتی ہے اور نہ ہی ختم ہوتی ہے۔ لیکن یہ روح ذرہ نہیں  کیونکہ اس میں مادہ نہیں  ہے  اسی لئے  ہم نے  روح کو نکتے  سے تشبیہہ دی تھی۔ اگر روح مادہ نہیں  تو پھر روح جسے ہم نے  یہاں  نکتہ کہا ہے  کیا ہے۔

3 ﴿روح انرجی ہے۔ ﴾

روح کائنات کا سب سے  چھوٹا وجود فقط انرجی ہے۔

اس کے  علاوہ کائنات کا ہر وجود ماس اور انرجی پر مشتمل ہے  جب کہ روح فقط انرجی ہے۔ روح ہر قسم کے  تعاملات سے  پاک ہے  اسی لئے  ہم نے  روح کو نکتے  سے  تشبیہہ دی تھی اسے  ذرہ نہیں  کہا۔

کائنات کے  ہر وجود کی طرح انسان بھی ماس (مادی جسم) اور انرجی  (روح) کا مجموعہ ہے۔

یہ انرجی کیا ہے  اس کا تفصیلی تذکرہ آگے  آئے  گا۔ لیکن یہ جو روح کو ہم نے  یہاں  انرجی کہا ہے  تو یہ وہ انرجی ہرگز نہیں  ہے  کہ انرجی کی جن تمام تر حیثیتوں  سے  ہم آج واقف ہیں۔

یہ انرجی یعنی روح  انرجی کی تمام تر قسموں  سے الگ ایک شے  ہے۔

4﴿انرجی یعنی روح زندگی ہے۔ ﴾

یعنی روح انرجی ہے اور یہ انرجی ہی جسم یا اجسام کی زندگی ہے۔

اورا (AURA)مادی جسم کے  لئے  فیول کی مانند ہے۔ جب تک  AURA  جسم میں  موجود ہے  مادی جسم متحرک ہے۔ جب یہ  AURA  (نفس)  مادی جسم سے چلا جاتا ہے  تو مادی جسم بے  حرکت ہو جاتا ہے  لیکن مرتا نہیں  لیکن یہ جسم اب چونکہ روح کی اطلاعات کے  مظاہرے  کے  قابل نہیں  رہا لہذا روح اس جسم کو چھوڑ دیتی ہے اور روح کے  چھوڑنے  سے  یہ جسم مردہ ہوتا ہے۔

یعنی جسم کی حرکتAURAہے  تو جسم کی زندگی روح ہے۔
مادی جسم ہوں  یا لطیف اجسام روح کی موجودگی سے  موجود ہیں۔ ۔ یعنی ہر وجود روح کی وجہ سے  موجود ہے۔ ہر وجود کی زندگی یہی انرجی یعنی روح ہے۔ یعنی زندگی روح ہے۔

روح کی تعریف میں  ہم نے  بتایا تھا کہ روح ایک نکتہ ہے  نکتہ انرجی ہے اور یہ انرجی ہی زندگی ہے اور یہ زندگی ایک مرتب پروگرام ہے  اب ہم جائزہ لیں  گے  کہ زندگی کیسے  ایک مرتب پروگرام ہے

5﴿زندگی یعنی روح مرتب پروگرام ہے۔ ﴾

یعنی روح ماضی، حال اور مستقبل کا مرتب پروگرام ہے۔ روح ہارڈ ڈسک ہے  جس میں  انسان کی پوری زندگی کی حرکت و عمل کا تمام پروگرام محفوظ ہے۔

یہ انتہائی چھوٹا وجود روح نہ صرف جسم یا اجسام کی زندگی ہے  بلکہ یہ وجود بے  انتہاء خصوصیات کا حامل ہے۔ اس ننھے  وجود روح میں  انسان کے  ماضی حال اور مستقبل کا تمام پروگرام محفوظ ہے۔ یعنی روح ایک مائیکروفلم ہے  جس میں  انسان کا پورا ڈیٹا محفوظ ہے۔ انسان کا ماضی، حال اور مستقبل کیا ہے اسے  مادی و لطیف اجسام کی صورت میں  کیا کیا اعمال کرنے  ہیں ہر ہر حرکت اور ہر ہر انسانی عمل کی مکمل تفصیل اس انتہائی چھوٹے  وجود میں  موجود ہے۔

مادی اور لطیف اجسام (نفس) روح کے  اسی مرتب پروگرام کی اطلاعات کی روشنی میں  عمل کرتے  ہیں۔

یعنی اجسام کی حرکت و عمل روح کی اطلاعات کا نتیجہ ہیں۔

لہذا  اجسام کی ہر ہر حرکت روح میں  مرتب ہے  یا انسان کا ماضی حال اور مستقبل ایک مرتب پروگرام ہے  جو روح میں  محفوظ ہے۔

6 ﴿یہ مرتب پروگرام (روح ) متحرک ہے۔ ﴾

انسان کا ماضی، حال، مستقبل کا ریکارڈ ساکت نہیں بلکہ متحرک پروگرام ہے۔

بھوک لگی ہے ، سونا ہے، جاگنا ہے، رونا ہے، مرنا، جینا یہ سب روح کا مرتب پروگرام ہے۔ جو اجسام کی صورت میں  حرکت پذیر ہے۔ اسی مرتب پروگرام کی حرکت کے  عملی مظاہرے  کو ہم ماضی، حال اور مستقبل کہتے  ہیں اور اسی مرتب پروگرام پر عمل در آمد کی صورت کو حرکت، عمل یا اعمال کہتے  ہیں۔

7 ﴿حرکت اعمال ہیں۔ ﴾

انسان اعمال یعنی صفات و حرکات کا نام ہے اور ان حرکات و صفات کا مظاہرہ جسم کرتا ہے اور ہمارے  ان تمام اعمال کا دارومددار روح کی اطلاعات پر مبنی ہے

یعنی ہماری عملی زندگی روح کی اطلاعات پر مبنی ہے پہلے  ہر عمل کی اطلاع آ تی ہے  پھر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ لہذا اعمال روح کی اطلاعات پر مبنی ہیں۔

مثلاً بھوک کا احساس روح کی اطلاع ہے۔ یہ اطلاع روح کی طرف سے  موصول ہوتی ہے  تبھی کھانا کھانے  کا عمل واقع ہوتا ہے۔ جب کہ عمل کی عمل پذیری بھی اسی روح پہ ہی موقوف ہے۔ یعنی حرکت کا سبب بھی روح ہے اور عمل کا سبب بھی روح ہے اور یہ حرکت و عمل زندگی کی خصوصیات ہیں  جب کہ زندگی کا سبب بھی روح ہی ہے۔ لیکن یہ حرکت کیسے جنم لے  رہی ہے۔

 8﴿ ایک غیر معمولی ارتعاش کے  ذریعے حرکت پیدا ہو رہی ہے۔ ﴾

ابھی روح کی تعریف میں  یہ وضاحت جاری ہے  کہ روح ایک نکتہ ہے  یہ نکتہ انرجی ہے۔ انرجی زندگی ہے ، زندگی مرتب پروگرام ہے اور یہ مرتب پروگرام متحرک ہے۔ اور اس مرتب پروگرام کی حرکت کا سبب ایک ارتعاش ہے۔ اور  مرتب پروگرام  میں یہ ارتعاش ایک آواز سے  جنم لے  رہا ہے۔

9﴿انرجی، حرکت، زندگی تینوں  آواز کی مختلف صورتیں  ہیں۔ ﴾

10 ﴿کائنات اور اس کی تمام تر موجودات(بشمول انسان)اسی آواز کی پیداوار ہیں۔ ﴾

 یعنی آواز ہی وہ توانائی ہے  جو لہروں  کی صورت میں  پوری کائنات میں پھیل رہی ہے۔ یعنی آواز ہی انرجی(روح)ہے  آواز ہی حرکت آواز ہی زندگی ہے۔
 ایک آواز سے  انرجی (حرکت +زندگی)نے  جنم لیا اور یہی آواز مسلسل حرکت و عمل کا بھی سبب ہے۔ انرجی(روح) جو مرتب پروگرام کی صورت میں موجود ہے  اسی غیر معمولی آواز سے  مرتعش اور متحرک ہو رہی ہے۔ ایک غیر معمولی آواز ہے  جس نے ایسا ارتعاش پیدا کر رکھا ہے  کہ ہر شے  مسلسل متحرک ہے اور متحرک رہنے  پر مجبور ہے۔ یعنی ایک آواز ہے  جو توانائی کی لہروں  کی صورت میں  پوری کائنات میں  پھیل رہی ہے۔ اسی آواز سے  انرجی پیدا ہو کر  لہروں  کی صورت پھیل رہی ہے  یہی انرجی کی لہریں  زندگی اور اس کی حرکت ہیں۔ کیا واقعی ایک آواز انرجی زندگی اور اس کی حر کت ہو سکتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے ؟
ایک آواز کائنات کی حرکت اور زندگی ہے کیا اس بات کا کوئی تجرباتی ثبوت بھی ہو سکتا ہے۔ کیا کبھی ہم اس ارتعاش اس آواز کو سن سکتے  ہیں۔

 جی ہاں  اس سلسلہ میں  موجود باقی تمام نئے  نظریات کی طرح یہاں  مجھے  یہ نہیں  کہنا پڑے  گا کہ مستقبل میں  شاید سائنس اس آواز کو سننے  کی اہلیت حاصل کر لے۔ اس لئے  کہ اگرچہ ابھی تک ہم نہیں  جان پائے  ہیں  کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی زندگی اور مسلسل حرکت محض ایک آواز ہے، اس لا علمی کے  باوجود آج ہم کائنات کی زندگی یعنی اس آواز کو سُننے  کی اہلیت رکھتے  ہیں۔ اس آواز کے  ذریعے  پیدا ہونے  والے  ارتعاش، حرکت اور اس کے  نتیجے  میں  جنم لینے  والی کائنات اور اس کی موجودات بشمول انسان اور ظاہر حرکات کو تو ہم دیکھتے اور جانتے  ہی ہیں  لیکن اس کائناتی موجودگی، زندگی اور حرکت کی وجہ یعنی آواز کو بھی ہم کئی طرح سے  سننے  کی اہلیت رکھتے  ہیں۔

لہذا  1962ء  میں  اس آواز کو سن لیا گیا۔

امریکہ کی بیل ٹیلی فون لیبارٹری (Bell Telephone Laboratory)   کے  دو سائنسدانوں  کا کام خلاء کی طرف سے  آنے  والی ریڈیائی لہروں  کو پکڑنا اور ان کو سمجھنا تھا۔ ان لہروں  میں  ایک ایسی بھی آواز تھی جو ہر سمت سے  برابر اور مسلسل آ رہی تھی وہ اپنے (Aerials)   جدھر بھی کرتے  اس میں  کوئی تبدیلی نہ آتی۔ اب یہ ہر سمت سے  آتی مسلسل آواز تو ہم نے سن لی تجرباتی ثبوت تو ہمیں  مل گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ یہ آواز کس کی ہے ؟کیسی ہے ؟  اس کا منبع کیا ہے ؟  یہ آواز کیا ہے ؟

  11 ﴿یہ آواز ایک حکم ہے۔ ﴾

یہی حکم وہ انرجی ہے  جو لہروں  کی صورت میں پوری کائنات میں  پھیل رہی ہے۔

حکم ہی وہ آواز ہے  جو انرجی اور ارتعاش پیدا کر رہی ہے  اسی حکم میں  وہ تمام انرجی (کائناتی پروگرام)ہے  جسے  ہم کائنات یا انسان کی زندگی یا روح کہتے  ہیں۔

یعنی انسانی روح انرجی ہے اور یہ انرجی دراصل ایک حکم ہے  اسی حکم کے  اندر ہی وہ انرجی ہے  جو انسان یا کائنات کی زندگی کا مرتب پروگرام ہے۔ یعنی انسان حال، ماضی، مستقبل میں  جوبھی اعمال سرانجام دے  رہا ہے  وہ اسی روح (حکم ) کا پروگرام ہے   یہی حکم ہی وہ پروگرام ہے  جو کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کو حرکت کا پروگرام دے  رہا ہے اور متحرک کر رہا ہے۔ یعنی کائناتی حرکت و عمل ایک مرتب پروگرام ہے  جو ایک حکم ہے۔ یعنی حکم کائناتی حرکت و عمل کا مرتب پروگرام ہے۔ یہ کوئی انہونی یا ناقابلِ یقین بات نہیں  ہے۔ اس کی سادہ سی مثال کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر میں  پروگرام فیڈ ہے اور کمپیوٹر اسی منتخب پروگرام کے  تحت خودکار متحرک ہے۔ یعنی کمپیوٹر اپنے  مخصوص مرتب پروگرام کے  حکم کا غلام ہے  یعنی پروگرام حکم ہے۔

ایسے  ہی کائنات (اور کائنات کی تمام تر موجودات بشمول انسان )کی خود کار حرکت حکم(مرتب پروگرام)کے  تحت ہے
یہ حکم کی شدت پذیری ہے  کہ تمام کائنات اور اس کی موجودات مسلسل حرکت و عمل پر مجبور ہے اور کائنات کا ہر چھوٹے  سے  چھوٹا اور بڑے  سے  بڑا وجود اسی حکم کا محتاج ہے  یہی حکم کائنات اور اس کی تمام تر موجودات (بشمول انسان )کی حرکت و عمل کا مکمل مرتب پروگرام ہے۔ لہذا کائنات اور اس کی تمام تر موجودات(بشمول انسان)اسی حکم(مرتب پروگرام) کے  مطابق مسلسل متحرک ہیں۔ یہ حکم کیا ہے  جو پوری کائنات کو مسلسل حرکت میں  رکھے ہوئے  ہے۔

12 ﴿یہ حکم خالق کا ہے۔ ﴾

کائنات اور کائنات کی تمام تر موجودات کا وجود ایک ہی خالق کے  ایک ہی حکم کا پروگرام ہے۔

یا خالق کا ایک ہی حکم پوری کائنات کی حرکت کا تسلسل ہے ، یا سادہ الفاظ میں  ہمیں  یوں  کہنا ہو گا کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات مالک کائنات کے حکم سے  متحرک ہیں۔ پوری کائنات میں  ایک ہی حکم جاری و ساری ہے  ہر ذرے  کی حرکت کا قانون ایک ہی قانون ہے اور اسی خالق کے  حکم کے  زیر اثر ہے۔

کائنات کا کوئی بھی حصہ ایک مالک کی ملکیت نہ ہو تو وہ حکم سے  باہر ہو جائے  گا اور کائنات کا ہر وجود ایک ہی مالک کی ملکیت ہے اور اسی مالک کے  حکم کے  زیر اثر کام کر رہا ہے۔ خالق کا حکم کیا ہے  اس کی وضاحت ہم ایک مثال سے  کرنے  کی کوشش کرتے ہیں۔جاری ہے۔۔۔

 طوالت کے پیش نظر اس مضمون کا اگلا حصہ قسط نمبر92 میں پڑھیں جو اس لنک پر موجود ہے۔

(استفادہ تحریر علم الانسان/روبینہ نازلی،ڈاکٹر قدیم مشرق/معین الدین۔الشیخ محمد صالح کی ویب سائٹ ۔وکی پیڈیا اور دیگر ذرائع
 سے حذف و ترمیم کے ساتھ مشترکہ مضمون تیار کیا گیا ہے )

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...