Wednesday 16 August 2017

پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے  نمودار ہوا؟

پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے  نمودار ہوا؟

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#93

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اگرچہ اس سوال پر صدیوں سے کام ہو رہا ہے  لیکن یہ وہ سوال ہے  کہ جس کا جواب صدیوں کی تحقیق و تجربات کے  باوجود آج تک متفقہ طور پر کوئی بھی فلاسفر و سائنسدان حتمی جواب نہیں دے  پائے  ہیں۔

درحقیقت انسانی تخلیق کے  حوالے  سے  سائنسدانوں، محققوں ، فلاسفروں  کو کوئی ایسا سرا نہیں  ملتا جہاں  سے  وہ آغاز کریں۔ صرف اور صرف مذاہب ہیں جو ابتدائی انسان کے  بارے  میں  ہمیں  معلومات فراہم کرتے  ہیں  اس کے  علاوہ ابتداء کے  انسان کے بارے  میں  ہمارے  پاس کوئی اور ذریعہ معلومات نہیں  ہے۔ اور جدید سائنسی نظریات کی بنیاد بھی مذہبی معلومات ہی ہیں۔ لہذا انسان کی ابتداء سے متعلق جو چند مفروضہ نظریات ہمیں  ملتے  ہیں اگرچہ انہیں  سائنسی نظریات کہہ دیا جاتا ہے  جب کہ یہ ثابت بھی ہو چکا ہے  کہ یہ نظریات نہ صرف یہ کہ غلط مفروضے  ہیں  بلکہ مذاہب سے  مستعار لئے  گئے ہیں۔ صحیح مذہبی اطلاعات کو سمجھنے میں  بھی غلطی کی گئی اور اسی غلطی سے  غلط نتائج اخذ کئے  گئے۔
جیسا  کہ ارتقائی نظریات جس کی تفصیلات سابقہ اقساط میں گزر چکی ہے۔
اور یہی غلط نتائج آج انسان کے  مختلف اور متضاد علوم کی صورت میں  موجود ہیں۔ انہی بنیادی غلطیوں  کے  سبب فی زمانہ انسان پہ جتنے  بھی ارتقاء، روح، نفس، جسم کے  حوالے  سے  سائنسی وغیر سائنسی کام ہو رہے  ہیں  وہ سب کے  سب بے نتیجہ کام ہیں۔ ہر موضوع پر انفرادی حیثیت میں صدیوں  سے  کام ہونے  کے  باوجود نہ تو انسان کے انفرادی اجزاء  روح، نفس کی شناخت ہی ہو سکی نہ ہی آج تک مجموعی انسان کی حیثیت کا تعین ہو سکا۔

لہذا جب تک انسان کے  انفرادی اجسام کی شناخت نہیں  ہوتی تب تک انسان کی مجموعی حیثیت کا تعین کرنا ممکن نہیں۔ اورجب تک مجموعی انسان کی دریافت مکمل نہیں ہوتی تب تک انسان کی تخلیق کا اندازہ لگانا نا ممکن ہے۔

جب کہ ہم یہاں  انسان کی تخلیق کا تذکرہ کرنے  جا رہے  ہیں  اس کی وجہ یہ ہے  کہ ماضی کے  تمام تر قدیم و جدید کاموں  کے  برعکس ہم نے  اس سلسلہ میں  نہ صرف انسان کے  انفرادی اجسام و اجزاء کا انکشاف کریں گے بلکہ ہر انفرادی جز کی شناخت منظرعام پر لانے کی کوشش کریں گے۔

انسان کا کبھی بھی کسی بھی قسم کا ارتقاء نہیں  ہوا بلکہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔
اگرچہ ہر قسم کے  سائنسی شواہد ارتقاء کی مسلسل نفی اور تخلیق کی گواہی دے  رہے  ہیں اس کے باوجود ارتقاء پرست تخلیق کو تسلیم کرنے  پر تیار نہیں اور نہ ہی وہ ارتقائی نظریات سے  دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ جب کہ انسان پہ ہو رہے  دیگر روح و نفس کے  کام بھی بے  تحاشا الجھ گئے  ہیں اور آج تک بے نتیجہ ہیں  آج تک روح نفس کی ہی شناخت نہیں ہوئی لہذا ماضی کے  تمام تر محقق اس نہج تک پہنچے  ہی نہیں  کہ یہ فیصلہ کر سکیں  کہ انسان کی تخلیق ہوئی ہے  یا نہیں۔

ڈی این اے(DN A) کی دریافت اور دیگر سائنسی ذرائع سے  اگرچہ تخلیق کی سائنسی شہادتیں  مل رہی ہیں  لیکن پھر بھی یہ معمہ حل نہیں  ہوتا کہ اگر بفرض محال انسان کی تخلیق ہوئی تھی تو آخر کیسے  ہوئی تھی؟ 

لہذا سائنسدانوں  اور فلاسفروں کی دنیا میں ہمیشہ یہ سوال حل طلب ہی رہا کہ پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے  نمودار ہوا؟

یہاں  ہم نے  ارتقائی نظریات ( کہ انسان کی ابتداء پانی میں  یک خلوی جرثومے  کے  طور پر ہوئی ہے  نیز انسان بوزنے  سے  پروان چڑھا ہے ) کی نفی کرتے  ہوئے انسان کی تخلیق کا دعویٰ کیا ہے  تو انسانی تخلیقی عمل کی وضاحت بھی کرنے  جا رہے  ہیں۔
﴿ انسان ہر نوع(اور کائنات) سے منفرد تخلیق ہے۔ ﴾

انسان ہر نوع سے  منفرد تخلیق ہے  یہ نہ تو کسی نوع سے  ارتقاء یافتہ ہے  نہ ہی کائناتی تخلیقی سلسلے  کا حصہ ہے۔  بلکہ انسان انفرادی حیثیت میں  تخلیق ہوا ہے۔ اس کے  بعد انسانی جسمانی ساخت اور ضروریات کے  حساب سے  کائنات اور اس کی تمام تر موجودات کی تخلیق عمل میں  لائی گئی۔

ڈارونی فلسفے  کے  مطابق تو انسان بوزنے  سے  پروان چڑھا لہذا انسان کو عرصہ دراز تک دیگر حیوانات میں منفرد حیوان بتایا جاتا رہا اور انسان کی دیگر حیوانات میں  انفرادیت یہ بیان کی جاتی تھی کہ وہ بولتا ہے سوچتا ہے  سیاسی و معاشرتی ہے۔ لیکن جب انسان کے  باطنی روحانی تشخص AURA  کی دریافت ہو گئی تو لوگوں  کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ انسان کا جسم تو کسی نہ کسی طریقے  سے  ارتقاء یافتہ ہی ہے جب کہ انسان کی انفرادیت اس کا باطنی روحانی تشخص ہے۔

لیکن یہ جاننا بہت ضروری ہے  کہ انسان نہ صرف جسمانی طور پر منفرد ہے  بلکہ روحانی طور پر بھی منفرد ہے۔ اور ہر حالت میں  انسان اپنی انفرادیت برقرار رکھتا ہے۔ اور کسی قسم کے  ارتقاء سے  انسان کا تعلق نہیں  ہے۔ لہذا پہلے  انسانی تخلیق کا منصوبہ مکمل ہوا پھر اس کی جسمانی ضروریات کے  حساب سے  کائنات اور اس کی موجودات کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔  لہذا صرف کائنات کا پہلا انسان تخلیق ہوا ہے۔ باقی نوعِ انسانی تخلیق کے  عمل سے نہیں  گزری۔ بلکہ پیدا ہوئی ہے۔ ﴾

پیدائش اور تخلیق میں  واضح فرق موجود ہے  جب کہ عموماً اس فرق کو ملحوظ خاطر نہیں  رکھا جاتا۔

پوری نوعِ انسانی پیدا ہوئی ہے ، ہر انسان پیدا ہوتا ہے یا پیدائش کے  عمل سے  گزرا ہے۔ لہذا نوع انسانی نوعی تسلسل کا حصہ ہے  نہ کہ ارتقاء یافتہ پیدائش کا مرحلہ نو ماہ کے  عرصے  پہ مشتمل مرحلہ ہے۔ جو ماں  کی کوکھ میں  مکمل ہوتا ہے۔ اور پہلے  انسان کے علاوہ کائنات کے  ہر انسان کا جسم اسی پیدائشی مرحلے  سے  گزرتا ہے۔ سائنسی ترقی کی بدولت ہر انسان کی پیدائش کے  عمل سے  تو آج ہم واقف ہو چکے  ہیں۔ لیکن ابھی سائنسدان انسان کی تخلیق کا راز نہیں  جان پائے تو یہ ان کی بد قسمتی ہے۔  لہذا یہاں  ہم ہر انسانی جسم کی پیدائش نہیں  بلکہ کائنات کے  پہلے  انسان کی تخلیق کا انکشاف کر رہے  ہیں۔
پیدائش اور تخلیق کے  عمل میں  فرق ہے  پہلا انسان ہر پیدا ہونے  والے  انسان کی طرح پیدا نہیں  ہوا بلکہ پہلے  انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ پہلا انسان تخلیق کے مختلف پیچیدہ اور طویل مراحل سے  گزر کر جسمانی صورت میں  ظاہر ہوا۔ لیکن ان تخلیقی مراحل سے مراد ہرگز کوئی ارتقاء نہیں  ہے۔ جس طرح فیکٹری میں  کوئی پرزہ کوئی مشین تکمیل کے  مختلف مراحل سے  گزرتی ہے  یا ماں  کے  پیٹ میں  بچہ ایک نطفہ سے  آغاز کر کے  مختلف مراحل سے  گزرتا بچہ کی صورت نمودار ہوتا ہے  بالکل اسی طرح پہلا انسان تخلیق کے  بعض مراحل سے  گزرا تھا۔ لیکن پہلے انسان کے  تخلیقی مراحل اور ہر انسان کے  پیدائشی مراحل میں  فرق ہے۔ سائنس کی بدولت آج ہر انسان کی پیدائش کے  عمل سے  تو سب واقف ہیں  لیکن پہلے  انسان کی منفرد تخلیق کا تذکرہ ہم کرنے جا رہے  ہیں۔جس کا سابقہ قسط 88 اور 89 میں بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے  مندرجہ ذیل لنک ہیں ۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/08/blog-post_82.html?m=1

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/08/blog-post_37.html

چونکہ ہم یہ انکشاف کر چکے  ہیں  کہ انسان محض مادی جسم نہیں  بلکہ یہ باطن بھی رکھتا ہے  لہذا انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے۔ اور ان سب انسانی اجزاء کی شناخت اور علم کے  بغیر انسانی تخلیق کا سُراغ لگانا ناممکن تھا  ۔
 لہذا اب یہاں ہم یہ وضاحت کریں  گے  کہ یہ مجموعی انسان کیسے  درجہ بدرجہ تخلیقی مراحل سے  دوچار ہوا ہے۔

﴿ انسانی تخلیق کا عمل تین ادوار یا تین بڑے  مراحل پر مشتمل ہے۔﴾

یعنی پہلا انسان تخلیق کے  تین مختلف ادوار سے  گزرا ہے۔  وہ تین ادوار درج ذیل ہیں :

جب ہر روح، نفس  و جسم کی تخلیق مکمل ہو گئی تو تمام کو یکجا کر دیا گیا۔ یوں  انسان کی تخلیق مکمل ہوئی اور انسان جیتی جان ہوا۔ اب ہم یہاں  یہ وضاحت کریں  گے  کہ یہ تین ادوار پہ مشتمل تخلیقی عمل کیسے  انجام پایا۔ پہلے  انسان کی تخلیق باقاعدہ فارمولے  کے  تحت انجام پائی۔ اسی طرح ہر پیدا ہونے والا شخص بھی باقاعدہ فارمولے  کے  تحت پیدائشی عمل سے  گزرتا ہے۔ اسی وجہ سے  ہر انسان انسان ہی ہوتا ہے اور دوسرے  انسان سے  مشابہت بھی رکھتا ہے۔ ہر پیدا ہونے  والے  شخص کے  پیدائشی فارمولے اور پہلے  انسان کے  تخلیقی فارمولے  میں  فرق ہے۔

لیکن پہلے  اب ہم یہاں  پہلے  انسان کے  تخلیقی فارمولے  کی وضاحت کریں  گے۔ لہذا تین ادوار پہ مشتمل انسانی تخلیق کا عمل درجِ ذیل تخلیقی فارمولے  کے  تحت تکمیل کو پہنچا۔

﴿روح(انرجی، پروگرام، خالق کا حکم) نے  پہلا جسم ترتیب دیا۔

آسان الفاظ میں  اس کو یوں  کہیں  گے  کہ خالق نے پہلا جسم ترتیب دیا یا خالق کے  حکم (جسمانی تخلیق کا مکمل پروگرام )سے  پہلا جسم با لترتیب ترتیب پا گیا۔

روح کی تعریف میں  ہم نے  یہ وضاحت کی تھی کہ روح واحد انرجی ہے  جو کہ ربّ کا حکم ہے۔ یہی روح جسمانی تخلیق و ترتیب کا مکمل پروگرام بھی ہے  لہذا یہی واحد انرجی، خالق کا حکم یا روح کائنات کے پہلے  انسان کا جسم ترتیب دے  رہی ہے۔  یعنی روح ہی وہ فارمولہ ہے  جو جسم ترتیب دے  رہا ہے۔ جیسے کمپیوٹر اپنے  پروگرام کے  مطابق خود کار طریقے  سے کام کرتا ہے۔ یعنی سادہ لفظوں  میں  ہمیں  یوں  کہنا ہو گا کہ خالق نے  خود کائنات کے  پہلے  انسان کا جسم ترتیب دیا۔ اب ہمیں  یہ جاننا ہے  کہ کیسے  واحد انرجی یعنی روح رب کے  حکم (مرتب پروگرام) کے مطابق یا مخصوص فارمولے  کے  تحت کائنات کا پہلا جسم ترتیب دے  رہی ہے۔ اس کی وضاحت کے  لئے یہاں  ہم ایک تخلیقی فارمولہ پیش کرتے  ہیں۔ پھر اس فارمولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے  تب پہلے انسان کی تخلیق کے  عمل کی تعریف مکمل ہو گی۔

پہلے  انسان کا تخلیقی فارمولہ

        ۲۔ تمام تر ارواح کی پیدائش

       ۴۔ پہلے  مادی جسم کی تخلیق

اب ہم اس پانچ نکاتی فارمولے  کی مسلسل وضاحت کریں  گے  جس سے  یہ واضع ہو گا کہ واحد انرجی(روح، رب کا حکم، پروگرام) سے  کیسے  کائنات کا پہلا جسم تخلیق ہوا۔ اور ایک جسم ایک فردِ واحد(نفسِ واحدہ)سے  کیسے  پوری نوعِ انسانی نے جنم لیا۔

انسان بہت سے مختلف اقسام کے  جسموں  (مادی و لطیف) اور بہت سے  نظاموں  کا مجموعہ ہے  یعنی ایک مادی جسم ہے تو ایک باطن ہے اور انسانی باطن ایک انوکھا جہان ہے جس میں  انسان پوری کائنات سمیٹے  بیٹھا ہے۔
ہم ہر روز پیدا ہوتے  ہوئے  بچوں  کو بھی دیکھتے  ہیں۔ لیکن انسان کی تخلیق کا عمل پیدائش کے  عمل کی طرح محض نو ماہ کا چلہ بھی نہیں۔ بلکہ انسان کی تخلیق ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے  جو بہت سے  مراحل اور ان مراحل کے  بہت سے  مدارج پہ مشتمل ہے  یعنی انسانی تخلیق ایک وسیع و عریض موضوع نہیں  بلکہ ایک وسیع و عریض علم ہے۔

لہذا یہاں  ہم نے  اس تخلیق کے  وسیع و عریض موضوع کا آغاز ایک تخلیقی فارمولے  سے  کر دیا ہے اب اس فارمولے  کی مسلسل وضاحت ہو گی بہت سا تحقیقی، سائنسی کام ہو گا۔ تبھی جا کر کائنات کے پہلے  انسان (روح + نفس (لطیف اجسام) + مادی جسم) کی تخلیق کی قدرے  وضاحت ہو پائے  گی۔ تبھی یہ راز کھلے  گا کہ پہلا انسان کرہ ارض پر کیسے نمودار ہوا۔

۱۔ واحد انرجی سے  تخلیق کا آغاز

 ابتداً  فقط واحد انرجی تھی۔ اور یہی واحد انرجی کائنات اور کائنات کے  پہلے  انسان اور تمام تر انسانوں کا تخلیقی مادہ ہے۔

لہذا ڈارون اور ماضی کے  تمام سائنسدانوں کے  وہ نظریات مفروضہ نظریات ہیں  جن کا خیال ہے  کہ انسان کا تخلیقی مادہ کوئی یک خلوی جرثومہ ہے  یا حیات پانی میں  شروع ہوئی۔

حیات کا مادہ  "انرجی "ہے  

وہ بھی ہر قسم کی انرجیوں  سے  منفرد  "واحد انرجی"  ہے۔ جو ہر قسم کے  تعاملات سے  پاک ہے۔

پانی اور یک خلوی جرثومہ یا نفسِ واحدہ حیات  کے دیگر مراحل تو ہیں لیکن حیات کا آغاز  پانی  میں  یا کسی بھی جرثومے  سے  نہیں  ہوا۔ بلکہ حیات کا آغاز انرجی یعنی روح سے  ہوا۔
ہر روح ہر انسان کا انفرادی پروگرام ہے  جو فقط واحد انرجی سے الگ ہوا۔ واحد انرجی سے  تمام تر ارواح کی پیدائش اور پہلے  انسان کی تخلیق سے  لے  کر آخری انسان کی پیدائش تک کا عمل فشن (Fishion)   کا عمل ہے۔

﴿ انسان مادی جسم کی پیدائش سے  پہلے  بھی موجود تھا۔ ﴾

انسان سے  مراد اس کا اصل یعنی روح ہے اور یہ روح ایک مرتب پروگرام ہے  جس میں  انسان کی ہر ہر حرکت اور ہرہر عمل ریکارڈ ہے اور انسان مادی جسم سے  پہلے  روح (اور نفس)مرتب ریکارڈ کی صورت میں  موجود تھا۔

ہماری پوری شخصیت ہر حرکت و عمل پہلے  سے مرتب ریکارڈ شدہ پروگرام ہے  یعنی ہم جو کچھ ہیں اورجو کچھ کر رہے  ہیں یا جو ہو چکا یا جو ہو گا سب کچھ کی تفصیل پہلے  سے  کسی ریکارڈ میں  محفوظ ہے۔

یعنی ہمیں  بھوک لگی ہے  ہاتھ حرکت کر رہے  ہیں  ذہن کام کر رہا ہے  تو یہ تمام حرکات پہلے  سے  ترتیب شدہ پروگرام ہیں۔

یعنی ہر وجود کا عمل اور آج جو بھی عملی مظاہرے ہو رہے  ہیں  یہ پہلے  سے  طے  شدہ پروگرام پہ عمل درآمد ہو رہا ہے  یعنی ریکارڈ فلم جب پردہ زندگی پر متحرک ہوتی ہے  تو اس تحریک کو ہم زندگی کہتے ہیں۔

یعنی جتنی بھی موجودات ہیں  وہ پہلے  کہیں اور ہیں اور وہاں  سے  بہ ترتیب مادی صورت میں  وجود میں آ رہی ہیں۔

یعنی انسان آج جو مادی صورت میں  موجود ہے  اور حرکت و عمل کر رہا ہے  تو اس کی موجودگی اور حرکت و عمل اسی ترتیب شدہ پروگرام کے  تحت ہے۔ یعنی جسم میں  آنے  سے  پہلے  انسان محض ترتیب شدہ خصوصیات کا پروگرام تھا لیکن جسم میں  اس پروگرام کی منتقلی سے  اس پروگرام میں  تحریک پیدا ہوئی اور عمل وجود میں  آیا اور انسان کا ارادہ اس میں  شامل ہو گیا۔

لہذا انسان کی تخلیق کے  مراحل میں  پہلے۔
کائنات کی تمام تر ارواح کی پیدائش ہوئی۔
پھر نفوس کی تخلیق ہوئی۔
یعنی کسی بھی مادی جسم کی پیدائش سے  پہلے تمام تر انسانوں  کے  باطن ترتیب پا چکے  تھے۔
اب یہی تمام تر باطن یکے  بعد دیگرے  مادی جسم کے قالب میں  ڈھلتے  ہوئے  نظر آ رہے  ہیں۔
لہذا تمام تر انسانوں  کے  باطن تو ترتیب پا چکے  ہیں لیکن یہ باطن ابھی عالم ارواح میں  ہیں۔

اب ہمیں  یہ دیکھنا ہے  کہ یہ باطن کیسے  زمینی سیارے  پر اتر کر یکے  بعد دیگرے  مادی اجسام کی صورت میں  ظاہر ہو رہے  ہیں۔

اور کیسے  باطن(روح +نفس(لطیف اجسام) نے  پہلا جسم تیار کیا۔
اور پہلا مادی جسم ( آدم ) کیسے  تخلیق پایا۔ پہلے مادی جسم کی تخلیق اور ہر انسان کی پیدائش کا عمل مختلف عمل ہے  لہذا ہر انسان کی پیدائش کے  ذکر سے  پہلے  ہم پہلے  انسان کی منفرد تخلیق کا تاریخی تذکرہ کر رہے  ہیں ۔

پہلے  مادی جسم ( آدم )  کی تخلیق:

﴿ پہلا مادی جسم زمینی مٹی کے ذرات سے تخلیق کیا گیا۔ ﴾

صرف کائنات کے  سب سے  پہلے  انسان کے  جسم کو خصوصی طور پر تیار کیا گیا یعنی تخلیق کیا گیا باقی تمام تر انسان پیدائش کے  عمل سے  گذرے  ہیں لہذا پہلا جسم زمینی مٹی کے  ذرات سے  تخلیق کیا گیا۔ لہذا پہلے  انسان کے  مادی جسم کی تخلیق اور تمام تر انسانوں  کے  مادی جسم کی پیدائش میں  فرق ہے۔

جیسے  ماں  کے  پیٹ میں  محض نطفے  سے  پورا بچہ تخلیق پا جاتا ہے  بالکل ایسے  ہی ابتدائی انسان کا جسم زمینی عناصر کو ترتیب دے  کر تیار کیا گیا۔ لیکن نطفے  سے  ماں  کے  جسم میں  پیدائش کا عمل اور زمینی عناصر سے  جسم کی تیاری کا عمل دو بالکل مختلف عمل ہیں۔

زمینی عناصر سے  مادی جسم کی تیاری کا عمل ایسا ہے  جیسے  کسی گلاس فیکٹری کے  اندر ریت کے ذرات کو مختلف مراحل سے  گزار کر شیشہ بنا دیا جاتا ہے۔  روح وہ بیج اور فارمولہ یعنی انسانی جسمانی تحلیق کا مکمل پروگرام تھا جس کے  عین مطابق پورا انسان وجود میں  آیا۔ اسی روح میں  جسم کی تکمیل کا تمام پروگرام موجود تھا لہذا اسی پروگرام کے مطابق روح نے  مٹی کے  ذرات اکھٹے  کر کے  بلڈنگ بلاکس کی طرح جسم ترتیب دے  دیا روح خالق کا حکم ہے   یعنی خالق نے  خود اپنے  حکم (تخلیق کا مکمل پروگرام)سے   زمینی مٹی کے  ذرات کو مختلف حالتوں  میں  مختلف مراحل سے  گزار کر ایک بہترین جسمانی صورت میں  ڈھال دیا۔ مٹی میں  پانی ملایا گوندھا، خشک کیا، جلایا، سکھایا، حتیٰ کے  مٹی کے ذرات سے  ایک بہت ہی خوبصورت جسم تیار کر دیا۔ روح وہ بیج اور فارمولہ تھا جس کے  عین مطابق پورے  انسانی وجود کا تخلیقی عمل مکمل ہوا۔ اسی روح میں  جسم کی تکمیل کا تمام پروگرام موجود تھا۔

 یعنی پہلے  انسان (آدم علیہ السلام) زمینی پیداوار ہیں  جیسے  پودے، درخت وغیرہ  فقط ایک بیج کی مدد سے  زمین سے  اگتے  ہیں  اسی طرح فقط انرجی (یعنی روح) سے  آغاز کر کے  پورا انسان تیار کر دیا گیا۔ یعنی واحد انرجی سے  تکمیل کو پہنچا پہلا انسان اور اسی پہلے  ایک انسان سے   بنے  ہیں  تمام انسان۔

یعنی تمام انسانوں  کا مادہ واحد انرجی ہے۔

 واحد انرجی سے  آغاز ہوا اسی سے  روح بنی پھر اسی انرجی سے  نفس اسی سے  پانی اسی سے  مٹی اور یہ سب مرحلہ وار بڑی ترتیب سے  تخلیق ہوئے  ہیں۔ لہذا نفس واحدہ سے  بنے  انسان میں  روح بھی ہے  نفس بھی اس میں  پانی بھی ہے  اس کا جسم مٹی سے بھی بنا ہے۔ اور اسی انسان کی جسمانی پیدائش نطفے سے  ہوئی ہے۔ انہی ترتیب وار اطلاعات کو جب سمجھنے  کے  بجائے  بے  ترتیب کر دیا گیا تو معاملہ الجھ گیا لہذا کسی نے  انسانی تخلیق کا تذکرہ کیا تو کہہ دیا کہ انسان پانی سے  بنا ہے  کسی نے  کہہ دیا نفسِ واحدہ سے  بنا ہے  کسی نے  جرثومہ کہا تو کسی نے  مٹی  جب کہ یہاں  آج ہم نے  ان غلط فہمیوں  کو دور کر کے  یہ وضاحت کر دی ہے  کہ انسان محض پانی یا محض مٹی یا محض جرثومے  سے  نہیں  بنا بلکہ انسانی تخلیق کے  عمل میں  یہ تمام عناصرپانی مٹی، جرثومے، مرحلہ وار استعمال ہوئے  ہیں۔ یہ تمام اس کے  تخلیقی مراحل ہیں۔
لہذا واحد انرجی سے  آغاز کر کے  تمام تر ارواح کی پیدائش عمل میں آئی۔

باطن =روح+نفس(لطیف اجسام)

انسان کا ظاہر و باطن مکمل ہوا یعنی مجموعی انسانی تخلیق کا عمل مکمل ہو چکا ہے  لیکن ابھی انسان مکمل نہیں  ہوا ابھی ایک مرحلہ باقی ہے۔

﴿تیار  و تخلیق شدہ مادی جسم و روح(باطنی اجسام یا نفس)کو یک جان کر دیا گیا اور یوں  پہلے  انسان کی تخلیق کا عمل تکمیل کو پہنچا اور انسان جیتی جان ہوا۔ ﴾

اب اس پہلے  انسانی جسم میں  خالق نے  اپنی روح (یعنی اپنے  حکم (پروگرام)سے  تیار کردہ انسانی باطن) پھونک دی۔ یعنی تخلیق شدہ روح (باطن) و جسم کو یکجا کر دیا۔ جس کی شکل یوں  بنی۔

 مادی جسم + روح (باطن)  = انسان

اور یوں  روح + مادی جسم کے اجتماع سے  انسان مکمل ہوا اور متحرک ہوا۔ یہ ہے پہلا تیارانسان یعنی تمام انسانوں  کے  باپ آدم۔ اور یہی ہے  کائنات کا وہ واحد انسان (نفسِ واحدہ)جس سے  نوعِ انسانی نے  آغاز کیا اور تمام نوعِ انسانی اسی نفسِ واحدہ یعنی ایک پہلے  انسان آدم کی اولاد ہیں۔ یہ پہلا انسان طویل تخلیقی مراحل سے  گزر کر مکمل انسانی صورت میں  اب موجود ہے  متحرک ہے  یہ انسان ہر نوع سے  ہر لحاظ سے  منفرد اور مکمل انسان ہے  یہ کوئی مفروضہ حیوان نہیں  بلکہ کائنات کی سب سے  منفرد اور محترم تخلیق انسان ہے۔ اور اس منفرد تخلیق میں  کسی ارتقاء کی گنجائش نہیں  ہے۔

اسی پہلے  انسان سے  اس کا جوڑا یعنی ایک عورت (حضرتِ حوا) کی پیدائش ہوئی۔ لہذا حضرتِ حوا کی پیدائش کے  ساتھ پہلا جوڑا مکمل ہوا
پہلے  جوڑے  کی تخلیق کے  بعد اب تخلیقی عمل مکمل ہوا۔ اس پہلے  جوڑے  کے  علاوہ کوئی انسان تخلیق نہیں  ہوا تخلیقی عمل سے  بس یہ پہلا جوڑا ہی گزرا ہے  باقی سب انسان پیدائش کے  عمل سے  پیدا ہوتے  ہیں

پہلے  انسان اور پہلے  جوڑے  کی انفرادیت یہ ہے  کہ  پہلا جوڑا تخلیق کیا گیا خصوصی طور پر جب کہ اس کے  علاوہ تمام تر انسان پیدائش کے  طریقے  سے پیدا ہوتے  ہیں۔

 دوسری انفرادیت یہ ہے  کہ تمام تر انسانوں  کا باطن خالق کے  ہاں  تخلیق ہوئے  جب کہ جسم زمین پر پیدائش کے  ذریعے  پیدا ہوتے  ہیں۔ جب کہ پہلے انسان کا جسم بھی خالق نے  خود جنت میں  تیار کیا۔

لہذا پہلا انسانی جوڑا روئے  زمین پر نہیں  بلکہ جنت میں  نمودار ہوا جو خالصتاً خالق کی ذاتی انفرادی تخلیق ہے۔ یہ کسی نوع سے  نہیں  بلکہ انفرادی حیثیت میں  تخلیق کیا گیا۔

یہ پہلا جوڑا تیار ہو گیا تو اسے  زمین پر اتار دیا گیا۔
 زمین سے  ہی  اس پہلے  جوڑے  کے  مادی ذرات اکھٹے  کیے  گئے  تھے۔ یعنی انسانی جسم مادی ہے  تو روح حقیقی لہذا انسانی تخلیق کا عمل تو مکمل ہوا۔ اب اگلا مرحلہ ہے  "پیدائش"کا۔

﴿کائنات کے  پہلے  جوڑے  سے پیدائش کے  عمل کا آغاز ہوا لہذا نوعی تسلسل قائم ہوا۔ ﴾

  پہلے  جوڑے  سے  پیدائش کے  عمل کا آغاز ہوا۔ اور اسی پہلے  جوڑے  کے  اختلاط سے  نوع انسانی کا آغاز ہوا اور نوعی تسلسل قائم ہوا۔ لہذا صرف پہلا جوڑا تخلیقی عمل سے  گزرا جب کہ باقی نوعِ انسانی کی تخلیق نہیں  ہوئی بلکہ باقی تمام انسان اسی واحد جوڑے  کی نسل ہیں اب اس پہلے  جوڑے  کی تخلیق کے  بعد انسان تخلیق نہیں  ہوتے  بلکہ پیدا ہوتے  ہیں

لہذا آج زمین پر موجود تمام تر انسان خالق کے  تخلیق کردہ واحد جوڑے  کی نسل ہیں۔ یعنی تمام انسانوں کی اصل ایک (پہلا انسان(واحد انرجی) ہے۔

نفس واحدہ وہ کائناتی مذہبی اطلاع ہے  جس پر تمام تر انسانی فلسفوں  کی بنیاد ہے   لیکن اس مذہبی اطلاع کو سمجھنے  میں  غلطی کی گئی اور اسی غلطی سے  غلط نظریات نے  جنم لیا۔ آج یہاں  جدید نظریات کے  ذریعے  ہم نے  ماضی کی ان غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے  لہذا یہاں  ہم نے  یہ وضاحت کر دی ہے  کہ نفس واحدہ کا مطلب ہے  ایک جان، اور نفس واحدہ سے   مذاہب کی مراد دو حقیقتیں  ہیں۔

نفس واحدہ سے  مراد واحد انرجی بھی ہے  جس سے کہ تمام تر انسان بنے  ہیں۔ اور نفس واحدہ سے  مراد پہلا انسان (آدم) بھی ہے  کہ تمام انسان اسی کی نسل سے  ہیں۔ لہذا اسی پہلے  انسان کی اولاد ہے  تمام نوع انسانی لیکن آدم کے  علاوہ ہر بچہ ماں  کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے اور یہ نوعی تسلسل آدم سے  شروع ہو کر آخری انسان تک جائے  گا اور اس نوعی تسلسل کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں  کر سکی کبھی بھی۔ ہاں خالق جب چاہے  پوری انسانیت کو یکلخت نابود کر دے۔

یہ نتائج جو ہم نے  تحقیق کے  بعد حاصل کئے  ہیں  مذہبی اطلاعات کی سو فیصد تصدیق کر رہے  ہیں۔ لہذا برسوں  کی تحقیقات کا یہ نتیجہ نکلا ہے  کہ ہماری تحقیقات جہاں  جہاں  صحیح ہیں  وہاں وہاں  مذہبی اطلاعات سے  مطابقت رکھتی ہیں۔
(ماخوذ از علم الانسان حذف و ترمیم کے ساتھ )

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...