Tuesday 1 August 2017

ڈارون ازم کو کیسے مات دی جا سکتی ہے

ڈارون ازم کو کیسے مات دی جا سکتی ہے

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#84

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

جو  معزز قارئین ہمارے سلسلہ  الحاد کا علمی تعاقب( نظریہ ارتقاء) کا متواتر مطالعہ کر رہے ہیں وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ نظریہ ارتقاء ماسوائے دھوکہ و فریب اور من گھڑت افسانہ کے کچھ نہیں ۔الحاد کی وضاحت ہم نے قسط نمبر ایک میں پیش کی تھی کہ اس کی کتنی  اقسام ہیں لیکن ہم نے تمام اقسام میں سے نظریہ ارتقاء کا دعوی کرنے والے سائنسدانوں اور فلاسفروں کا سائنسی انداز میں علمی تعاقب کرتے ہوئے ان کو انہیں کے انداز میں ان کے دعووں کا رد پیش کیا۔
اور یہ بھی قارئین کرام کو معلوم ہے کہ الحاد کا علمی تعاقب سلسلہ میں ہمارا موضوع صرف انسان تھا ۔جیسا کہ ڈارون کے نظریہء ارتقاء کا لب لباب یہ ہے کہ پہلے چند ایک انواع پیدا ہوئیں پھر مختلف انواع و اجناس تدریجی ترمیم MODIFICATION کے زیر اثر آہستہ آہستہ تغیر پذیر ہوتی گئیں ۔ یہ ترمیم باہمی مقابلے کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ یہ مقابلہ جہد للبقاء کہلایا جو افراد، اجناس یا انواع اس باہمی مقابلے میں بدلتے ہوئے حالات کواپنانے اور نئے تقاضوں کو نبھانے کے لئے بدنی یا ذہنی ترمیم کرنے کے اہل ہوتے ہیں، ان کی بقاء کی ضمانت ہو جاتی ہے اور وہ’’فِٹ فار سروائی ول‘‘ FIT FOR SURVIVAL یا ’’ بقا کے اہل ‘‘قرار پائے۔ اس کے برعکس جنہوں نے رجعت پسندی کا ثبوت دے کر اپنے آپ کو اس لچک کے نااہل ثابت کیا وہ لقمہء اجل ہو گئے اور وہ’’ اَ ن فِٹ فار سروائی ول‘‘ UNFIT FOR SURVIVAL ’’بقاء کے لئے نااہل‘‘ کہلائے ۔ ردو قبول کا کام نیچرل سیلکشنNatural Selection ’’ قدرت کا چناؤ‘‘ کے ہاتھ میں رہا۔ نئے حالات کو اپنانے ADAPTATION ’’اڈاپٹیشن‘‘ اور نئے تقاضوں سے عہدہ برا ء ہونے کے لئے رنگ، شکل، اعضاء ،جوارح، ذہن اور قویٰ پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔وہ متواتر قویٰ اور تبدیل پذیر ہوتے جاتے ہیں اور جن کا کام ہلکا ہوتا ہے ، یا بالکل ختم ہو جاتا ہے، تو وہ کمزور ہو کر آہستہ آہستہ ناپید ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح کہ انسان کی دم بالکل گر گئی یا پالتو بطخوں اور مرغیوں کے پَر جو عدم پرواز کے سبب کمزور ہو گئے تاہم بطخ کی ایک ایسی مثال بھی موجود ہے جو جنگل میں ہوتی ہے مگر پانی پر صرف پروں کو پھڑپھڑاتی ہے اڑ نہیں سکتی اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس کے بچے اڑ سکتے ہیں۔ یہ مثال خود ڈارون نے بیان کی ہے مگر اس کے یقین کو ٹھیس نہیں پہنچا سکی ۔ انسان کی تمام تر ذہنی، اخلاقی، سماجی ترقی بھی بیرونی ماحول کے تجربے میں ہوئی ہے ۔ یہ ترقی تا ابد جاری رہے گی۔ آئندہ انسان کی شکل کیا ہو گی اس کی دماغی سطح کیا ہو گی ۔یا آنے والے وقت میں مزید انسان
ارتقاء کا سفر کرتا ہوا کیا بنے گا اس پر ڈراون ازم مکمل طور پر خاموش دکھائی دیتی ہے۔ سو یہ ہے ڈارون کے نظریہء ارتقاء کا لب لباب جس کو عظیم ترین دماغوں کی زندگی بھر کی مسلسل کاوش کا بنیادی ڈھانچہ تصور کیا جاتا ہے ۔
یہ بات تقریبا ہم مختلف الفاظ اور انداز میں سابقہ اقساط میں بیان کرتے آ رہے ہیں ۔جس پر کافی تفصیلی بحث ہو چکی ہے۔اب آئندہ اقساط میں ہم "زندگی کی پیدا ئش: اللہ تعالی کی تخلیق یا ارتقا؟ کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ آخر انسان کی تخلیق کے حوالہ سے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ایسا نہیں کہ ہم سابقہ اقساط میں وضاحت نہیں کی جہاں جہاں ضروت محسوس ہوئی ہم نے مختصر انداز میں اسلامی نقطہ نظر بھی ملحوظ خاطر رکھا ۔لیکن تفصیلی جائزہ ہم اب لیں گے۔۔سابقہ اقساط میں نظریہ ارتقاء کو سائنس سے منسلک کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اس لئے ہم نے بھی سائنسی انداز و زباں میں وضاحت دینے کی بھرپور کوشش کی۔امید کرتے ہیں کہ قارئین کے ذہن میں کسی قسم کے اشکلات ابہام باقی نہیں رہے ہوں گے لیکن پھر بھی اگر قارئین مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوئے تو آئندہ اقساط میں یقینا آپ کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات تحفظات کے جوابات موجود ہوں گے ۔کہ انسان ارتقاء شدہ ہے یا تخلیق شدہ؟؟؟

ڈارون کا نظریہء ارتقاء جس نے بنی نوع انسان کے فکر و نظر کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ۔ یہ ہے وہ جہاں لرز طوفان، جس نے نظریہء تخلیق و ارتقاء کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ظالم ڈارون کے ظالم قلم کا اندازہ اس بنیادی ڈھانچے سے نہ کیجئے ۔ ڈارون کو قدرت نے فلسفی کے عمیق سائنس دان کا حساب، فنکار کی ترتیب ، حساب دان کی باریک بینی، انشاء پرداز کے قلم، اونٹ کی سختی، گدھے کی شرافت، گدھ کی شامہ اور گدھ ہی کی طرح نوچنے والی چونچ سے نوازا تھا۔ ڈارون نے ان تمام قوتوں کو یکجا کرکے زندگی بھر انسانی ذہن کی پراگندگی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔انجیل خاموش ہے ، توریت اور زبور خاموش ہے لیکن ڈارون کی اینٹ کا جواب اگر پتھر سے کوئی دے سکتا ہے تو قرآن حکیم ۔یعنی دین اسلام ۔
ڈارون کا خیال ہے کہ جس طرح پالتو جانوروں میں نسل کشی کے اصولوں پر جانوروں کی نسل کو ترقی دی جا سکتی ہے اسی طرح مختلف نوعوں اور جنسوں نے ازمن ماضی میں بتدریج ترقی کی ہے ۔ یہ درست ہے کہ نسل کشی کے اصولوں سے ایک نسل کو ترقی دی جا سکتی ہے لیکن یہ تو ممکن نہیں کہ ایک نوع اس ترقی میں اپنی نوع ہی کو تبدیل کر لے۔ ایک ترقی یافتہ بیل بیل ہی رہے گا اور بھیڑ بھیڑ لیکن ڈارون کب ماننے والا ہے، وہ نہایت چابکدستی سے سائل کو ماضی کی لامحدود بھول بھلیوں میں لے جاتا ہے اور سوال جہاں ہوتا ہے وہیں رہ جاتا ہے اور جب پوچھا جاتا ہے کہ مختلف النوع نسلوں میں تو جنسی اختلاط کے ذریعے نسل کشی ناممکن ہے ۔ قدرت نے اس بات پر مہر لگا دی ہے اور جب دو قریبی جنسوں یا دور کی جنسوں جو نام ہمیں چاہیں دھر لیں مثلاً گدھے اور گھوڑے میں اس جنسی اختلاط کو روا رکھا جاتا ہے تو اولاد بلا استثناء بانجھ ہوتی ہے تو ڈارون پھر نہایت انکسارانہ انداز میں مگر مگر کی نیت سے معترض کو ماضی کے اتاہ اندھیروں میں دشت بہ دشت، صحرا بہ صحرا ،بلا مقصود و بلا وجہ اس حد تک آوارہ گردی کراتا ہے کہ سائل بے چارہ زچ ہو کر آخر کار ہار مان لینے ہی میں چھٹکارے کی سبیل سمجھتا ہے ۔ یہ تو حال ہے پالتو جانوروں کا، مگر بات جب جنگلی جانوروں پر پہنچتی ہے تو ڈارون بریڈز نسل کشی کرنے کا کام قدرت کے سپرد کرکے گلو خلاصی کراتا ہے کہ قدرت ہی بریڈز کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ ڈارون کا سارا زور اس بات پر صرف ہوا ہے کہ آدمی کو بھی جانور ثابت کیا جائے ۔ اس اثبات کے لئے ڈارون نے مندرجہ ذیل کوائف کو پیشِ نظر رکھ کر باہمی مماثلت کے جواز ڈھونڈھے ہیں۔ ہڈیوں کے ڈھانچوں کی باہمی مشابہت و مماثلت ، جن انواع و اجناس کے ڈھانچوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ مماثلت کی مقدار کے لحاظ سے ڈارون نے ان انواع و اجناس کو ایک رشتے میں منسلک کیا ہے ۔ اگر افریقی گوریلے کی ہڈیوں کے ڈھانچے کی مماثلت انسانی ڈھانچے سے قریب ہے تو ڈارون کے نزدیک یہ دونوں ہم جنس ہیں کیونکہ ڈارون پر تو حیوانی آفرینش کی تلاش کا بھوت سوار ہے ، اسے کسی کے ذہنی تنوع یا خلقی تباہی سے غرض نہیں ۔ ڈارون دماغی کیفیت کا تقابل کھوپڑیوں کی شکل اور حجم سے کرتا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جوں جوں زمانہ ماضی قدیم سے قدیم تر ہوتا جاتا ہے انسانی نسل کی کھوپڑیاں بھی بتدریج چھوٹی ہوتی جاتی ہیں اور دماغی صلاحیت بھی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ وہ اس سے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ انسان کا ارتقاء تدریجی ہے لیکن جب ڈارون سے بندر اور انسان کی ذہنی سطحوں میں بے پناہ تفاوت کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ ہمارے سامنے مثالوں کا اور تجربوں کا ایک پلندہ پھینک دیتا ہے کہ فلاں فلاں چڑیا گھر کے فلاں فلاں بندر کی آنکھ میں اپنے عزیز کی موت پر آنسو دیکھے گئے اور فلاں فلاں بندر نے مونگ پھلی کی پڑیا موصول کرکے اپنا اظہار مسرت ایک اچھی خاصی دلکش مسکراہٹ سے کیا اور اس سے یہ ثابت کرتا ہے کہ بندر بھی اپنی دماغی سطح کو انسانی دماغ کے ہم پلہ بنا سکتے ہیں۔ ڈارون نے پوری ایک کتاب اس امر کے لئے وقف کر دی کہ ثابت کیا جائے کہ جانوروں میں بھی گوناگوں جذبات کا اظہار بعینہ اسی طرح ہوتا ہے جس طرح کہ انسانوں میں ،محض یہ ثابت کرنے کے لئے کہ انسان بھی جانوروں کی برادری کا ایک جانور ہے ، اسے کسی پر فوقیت نہیں، اس کے منصب میں کوئی برتری نہیں، اشرف المخلوقات اور خلافت الہی اور حیات بعد الممات محض انسانی دماغ کی اختراعیں ہیں بلکہ انسان کی دماغی اختراعیں ہیں ۔ انسان ایک جانور ہے۔ جانور پیدا ہوا جانور ہی جیا اور جانور ہی مرا ۔ انسان کی ذہنی صلاحیت شخصی حالات کی پیداوار ہے ،تاہم ڈارون باوجود اتنی علمی بصیرت اور دماغی وسعت کے یہ امر بھول جاتا ہے کہ دوسری انواع و اجناس بھی اسی طرح دنیاوی حالات سے دوچار رہی ہیں ۔انسان کو اگر یہ صلاحیت فطرتاً دوسروں سے ممتاز ہو کر ودیعت نہ ہوتی تو حالات اثر انداز ہو کر اس کی ان صلاحیتوں کو کس طرح ابھار سکتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ انسان اگر انسان نہ پیدا ہوتا تو انسان نہ ہوتا۔ ڈارون اپنے نظریہء ارتقا کو ثابت کرنے کے لئے دنیا کے سامنے چمگاڈروں، الووں، گِدھوں، کوؤوں ،چوپاؤں، کتوں ،سوروں اور سینکڑوں قسم کی مچھلیوں کے غول کے غول، پرندوں کا جھنڈ پیش کرکے ایک اچھی خاصی آباد دنیا کا سماں پیش کر دیتا ہے لیکن یہ سب عارضی لہریں ہیں اور عارضی نقشے ہیں۔ محض ایک فاضل مداری کا کھیل ہے۔ اصل معاملہ جوں کا توں رہ جاتا ہے۔ ڈارون صاحب اس تمام مخلوق میں ازمنِ ماضی کے دوران کوئی قربت ، کوئی رشتہ داری ثابت کیجئے ۔ کسی پرانے ڈھانچے پر چھو منتر کیجئے کہ وہ بولے۔ مگر افسوس کہ وہاں تو گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے۔ وہاں تو ڈارون بھی اندھا ، ہم بھی اندھے، سائنس بھی اندھی، فلسفہ بھی اندھا ، اندھا اندھے کی کیا راہنمائی کرے گا ؟ہمارا مبلغ علم ہی کیا ہے ۔ چند بوسیدہ ہڈیوں اور چند بیہودہ کھوپڑیوں کے مجمع میں دھوکہ دینے والے جادوگر مداری کی طرح بانسری کی دھن پر اتنا بڑا راگ الاپنا کہ ہم نے اپنی افزائش ابتدائی کا راز پا لیا ہے علمی بلیک میلنگ نہیں تو اور کیا ہے ۔ میں شاید جذبات کی رو میں بہنے والا ہوں لیکن نہیں ،ایسا نہیں ہو سکتا ۔ جس نے اپنے پیٹھ پر ایک پہاڑ باندھ رکھا ہو وہ کیا جذبات میں بہے گا ۔ وہ کیا آہ و پکار کرے گا اور اگر ایسا کرے گا تو کیا حاصل ۔ سوائے اس کے کہ وہ ضحوکہ روزگار بن جائے گا ۔مجھے عیسائیوں پر کچھ گلہ نہیں ،مجھے ہندوؤوں، بدھوں اور یہودیوں پر کچھ گلہ نہیں مگر شکایت ہے تو مسلمانوں سے، قرآن حکیم بغل میں دبا کر یہ در بدر علمی بھیک مانگنے والی کوتاہ اندیش قوم مجھے ان سے گلہ ہے ۔دنیا میں ڈارونزم، کیمونزم، فاشزم، مارکسزم اور ہزار ازم ، ہزار آبروباختہ اور رسوائے روزگارنظریئے ، ہزار لعنتیں، زہر ناک طوفانوں کی طرح انسانیت کے لئے قیامت کا سامان پیدا کر رہی ہیں لیکن مسلمانوں کو ابھی تک خبر بھی نہیں کہ قرآن حکیم میں کیا لکھا ہے ۔ قرآن حکیم کی علمی ،اخلاقی، مذہبی اور الہامی برتری کا ڈھنڈورا پیٹنے والی یہ قوم تاحال خود نہیں جانتی کہ اس کلام الہی کی برتری کا کیا ثبوت ہے ؟ وہ دوسری قوموں کے دست نگر ہیں۔ دنیا کے جس کونے میں سے کوئی آواز اٹھتی ہے وہ بے تحاشا اس طرف لپکتے ہیں حالانکہ قرآن حکیم خود ان کے پاس ہے ۔ وہ کبھی کیمونزم کا سہارا لیتے ہیں کبھی سوشلزم میں اپنی فلاح ڈھونڈھتے ہیں کبھی کیپٹلزم کو سرمایہء نجات تصور کرتے ہیں، کبھی بے تحاشا سائنسی ترقی پر پل پڑتے ہیں تو کبھی آپس میں دست و گریباں ہو کر ایک دوسرے کو زچ کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ قدرت کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ قدرت نے جو ذمہ داری اس قوم کو سونپ رکھی ہے۔ قدرت یہ توقع رکھتی ہے کہ یہ قوم فرض منصبی سے عہدہ بر آ ہو کر انسانیت کی ہدایت کے لئے مشعل قرآن حکیم کو فروزاں کرے نہ یہ کہ دوسروں کی قندیلوں کی روشنی سے خوشہ چینی کرتی پھرے۔ میں جو کچھ ڈارون اور قرآن حکیم کے متعلق ہلکے سے خاکہ میں لکھوں گاتو یہ محض ایک پراگندہ ذہن ، پراگندہ خاطر جگر خستہ و دل شکستہ و پا مالِ زمانہ کے ایک خوابِ پریشان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ قرآنی عظمت کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے قرآن حکیم کو ڈارون سے ٹکرایا جائے اور پھر اس بین الاقوامی دنگل میں دیکھا جائے کہ کس طرح قرآن حکیم ایک ملکوتی فرشتے کی طرح ڈارون کے مکروہ نظریہء ارتقا کو ریش و بروت سے فارغ البال کرکے اور ہڈی پسلی کو ایک کرکے اس لاشہء مردار کو گِدھوں کے جھرمٹ میں پھینک دیتا ہے ۔ مگر کون کرے ہم ہیں کہ شب تاریک و بینم موج و گردابے چنیں حائل ڈارون اپنے نظریئے کے استحکام کے لئے یعنی انسان کو جانور ثابت کرنے کے لئے آدمی اور کتے کے جینیوں کے فوٹوگراف دے کہ ان میں باہمی مماثلت کے وجوہ تلاش کرتا ہے۔ ہمیں اس اوپری قرابت سے گھن آتی ہے اور ڈارون کی کم نگاہی پر ترس لیکن ڈارون بزعم خود اسے بڑے کمال کا ثبوت تصور کرکے اس انکشاف پر دل ہی دل میں نازاں ہے لیکن جب دیکھتا ہے کہ کتیا کے بچے کی آنکھیں تو پیدائش کے بعد کئی روز تک بند رہتی ہیں۔ حالانکہ آدم زاد کی آنکھیں ولادت کے وقت خوب کھلی ہوتی ہیں مگر ڈارون کے قابل دماغ میں یہ منطق بے معنی ہے۔ اندھے پلوں کی آنکھ پر پٹی باندھتا ہوا آگے چل دیتا ہے ۔ڈارون کا نظریہء ارتقاء کوئی امر غیر متوقع نہ تھا ۔وہ مہم جس کی ابتدا گلیلیو کی حرکت ارضی سے ہوئی تھی ،ڈارون کا نظریہء ارتقا اس کی متوقع انتہائی کڑی ثابت ہوا۔ یہ نظریہ مذہب پر ایک شدید چرکہ تھا جس کی تاب نہ لا کر مذہب راہی ملک عدم ہوا۔ یہ نظریہ ایک ایسا تباہ کن ڈائنا میٹ تھا جس نے مذہبی نظریہء تخلیق آدم اور ارتقائے انسانی کی عمارت کی بیخ وبن کو اکھیڑ کر فضا میں منتشر کر دیا اور اس کی جگہہ جدید سائنسی نظریہء ارتقا کی عمارت کھڑی کر دی۔ یہ الگ بات ہے کہ جہاں مذہبی نظریے کی عمارت انسانی ذہن کی کائنات میں چاندنی رات میں مہکتا ہوا ایک غیر مرئی تاج محل تھا وہاں جدید نظریہء ارتقا کی عمارت نا تراشیدہ اور غلیظ پتھروں سے اٹھائی ہوئی ایک بے تکی اور مکروہ صورت ڈھانچہ تھی جس کا چھت چھلنی ہے ، فرش گردوغبار اور کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہے۔ دیواروں پر تارکول کا ایک موٹا پلستر ہے جو پگھل پگھل کر کپڑوں کا ستیا ناس کرتا ہے اور بدبو کے بھبھوکے چھوڑتا رہتا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ اس نئے ارتقائی نظریئے نے انسانیت کے فکر ونظر میں جو ہمہ گیر اور پر آشوب انقلاب پیدا کیا ہے اور جملہ اقدار الہی اور انسانی شرافت کے مقابلے پر جو ہیئت معکوس عطا کی ہے وہ اتنی ہمہ گیر اور اس قدر ہلاکت خیز ہے کہ بصیرت کی آنکھ میں ایک دھواں دھار مچ گئی ہے۔ انسانیت کی یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ ایسے ایسے انقلابی نظریوں نے دنیا کے اس خطہء زمین میں جنم لیا ہے جو عیسائیت کے زیر سایہ تھا۔ عیسائیت اپنی بعض بنیادی اور داخلی کمزوریوں کے سبب اس نئے بے پناہ ریلے سے ٹکر لینے میں ناکام رہی ۔ عیسائی دنیاکے مذہبی حلقوں کی سخت مخالفت کے باوجود سائنسی نظریات ایک ایک کرکے غالب آتے گئے حتی کہ عیسائی دنیا سے نکل کر سارے جہاں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ عیسائیت ناکام اس لئے رہی کہ اس مذہب نے انسان کی مادی ضروریات کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا ۔ راہبانیت کے رواج سے پادری کی حکومت قائم تھی۔ کسی مکمل ضابطہء حیات یا لائحہ عمل کا فقدان پادری کی مطلق العنانی اور بادشاہ کی بے راہ روی کا پیش خیمہ بنا ۔ مدتوں سے ترستی ہوئی عیسائی دنیا شجرہ ممنوعہ پر یکسر پل پڑی اور مذہب کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ عیسائیت کا نظریہء تخلیق اور انسانی ارتقاء ایک واہمہ قرار پایا جسے ایک خیالی بھوت سمجھ کر ذہن کی چار دیواری سے خارج کر دیا گیا۔ لوگ ایک افراط سے کنارہ کش ہو کر دوسری افراط کی طرف جھک گئے اور اس غیر متوازن رحجان سے آخر کار دنیا کو ایک صحرائے بے آب و گیاہ میں ایک ایسے دہکتے ہوئے جہنم کے کنارے لا کھڑ ا کیا ہے ۔ آج ہم اپنی بے بس و مجبور آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ سب لوگ اپنے آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ سامنے کوئی جہنم نہیں ، کوئی تباہی نہیں، کوئی بربادی نہیں،کوئی حساب کتاب نہیں ، یہ محض ایک خیالی سراب ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ ایسے تباہ کن نظریات کی ٹکر کا مذہب صرف اسلام ہے اور اس جدیدعلمی اور سائنسی میدان میں اگر کوئی شاہسوار اہل مغرب کے مقابلے پر اتر سکتا ہے تو وہ قرآن ہی ہے مگر جب یورپ کے لوگ اس علمی تگ و دو میں ہمہ تن مصروف تھے ۔ دنیائے اسلام کے باشندے کچھ اس طرح کے مشاغل ناپسندیدہ میں الجھے ہوئے تھے کہ انہیں کسی قسم کا ہوش نہیں تھا اور آخرکار جب مغرب اپنے انجن پرسوارہو کر کرہء ارضی کاچکر لگانے کے لئے نکلا تو مسلمان بے بس اور مجبور ہو کر رہ گئے۔ علم قرآنی سے وہ یکسر عاری تھے، علم سائنس سے ناآگاہی نے رہی سہی کمی پوری کر دی اور مسلمان اپنے اللہ کی زمین پر راندہ درگاہ اور درماندہ روزگار ہو کر رہ گئے۔ تنظیمیں بنیں، تحریکیں چلیں، جلسے ہوئے اور جذبہء اسلام کے صدقے یہ بھی پاؤں گھسیٹتے ہوئے افتاں و خیزاں تیزرو کاروانِ حیات کے پیچھے پیچھے اس بحرانی دور میں چلتے رہے۔ اس ضمن میں مجھے رہ رہ کر شاعر مشرق کی بات یاد آتی ہے کہ ہماری تاریخ میں مسلمانوں نے اسلام کو کبھی نہیں بچایا مگر ہمیشہ اسلام نے مسلمانوں کو بچایا۔ اگر دنیا کی قیمتی باتوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو یہ بات ضرور ان میں شامل ہو گی۔ اب مسلمان ایک بے بس قیدی کی طرح قفس کی تیلیوں سے سر ٹپک رہے ہیں اور قفس کی تیلیاں کیا ہیں یہ ہیں مسلمانوں کی قرآن حکیم سے لاپرواہی جدید و کہنہ مغرب و مشرق میں سائنس و مذہب کی ایک کشمکش ان کے ذہنوں میں جاری ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ قرآن حکیم نہیں سمجھتے ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ موجودہ مفسرین نے قرآن حکیم کو ایک معمہ بنا کر رکھ دیا ہے مگر سن لیں ۔ اس قفس کی تیلیاں تب ٹوٹیں گی جب حقیقی توجہ قرآن حکیم پر مرکوز ہو گی تو قرآن حکیم خود بخود کھلتا جائے گا۔ انتشار سے ڈر کر پیچھے ہٹ جانا کوئی عقل مندی نہیں ۔ اس طرح انتشار دور نہ ہو سکے گا بلکہ انتشار میں کود جاؤ اور اس کو سمجھو تو انتشار خود بخود دور ہوتا جائے گا مگر بقولے ہرچہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیء بسیار ۔ مسلمان قرآن حکیم سے پہلو تہی چھوڑ دیں اور لنگوٹ کس کر جتنا جلد اس میدان میں اتریں اتنا بہتر ہے ورنہ سوسال کے بعد بھی انہیں ایک نہ ایک دن یہی کچھ کرنا ہو گا۔ جس روز بھی مسلمان اس قفس کی تیلیاں توڑ کر محو پرواز ہوگا وہ قرآن حکیم کی حقیقی عظمت کو پا لے گا اور وہ خود دیکھے گا کہ قرآن حکیم تمام آئندہ حالات اور نظریات کی پیشین گوئی کر رہا ہے ۔ جہاں انسانیت جدید تقاضوں میں ٹھوکر کھا رہی ہے وہاں نشاندہی کرکے صحیح راستہ کاتعین کرتا ہے مگرافسوس ہے مری حالت پر۔ الفت کا جب مزہ ہے کہ وہ بھی ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی۔ اگر مسلمان دو باتیں ذہن نشیں کرلیں تو ان شاء اللہ قرآن حکیم کی حقیقی پہنچ ان پر آئینہ ہو گی۔ ان میں سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سارا قرآنی فلسفہ ایک ہی مرکزی نقطے کے گرد گھومتا ہے اور وہ مرکزی نقطہ ہے ۔’’‘قیامت‘‘۔ قرآنی فلسفے کی بائیں آنکھ اس دنیا پر مرکوز ہے اور دائیں آنکھ آخرت پر لگی ہوئی ہے۔ قرآن حکیم کی آنکھ ہر دنیاوی معاملے کو آخرت کی عینک سے دیکھتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن حکیم ایک متوازن زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ دین اور دنیا میں توازن، ظاہر اور باطن میں توازن، دنیا اور آخرت میں توازن، دنیا آخرت سے متوازن ہو کر پاکیزگی اختیار کرتی ہے۔ اس دنیا کو اگر اندھیرا تصور کر لیا جائے تو آخرت کا نور اسے منور کر دیتا ہے۔ دنیاوی ضرورت کو اگر ناپاک اور نا پسندیدہ تصور کیا جائے تو خدا کے دین کی خدمت اور آخرت کا خیال اس کو پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ دنیا خادم ہے اور دین مخدوم، دنیا کھیتی ہے اور آخرت کھلیان ،اس کے مقابلے میں عیسائیت اور دنیائے جدید کی صرف ایک ہی آنکھ ہے وہ  ہےدنیا ۔وہ اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔
اس افراط و تفریط نے گونا گوں مشکلات پیدا کیں ان سب کا حل ہے اسلام ایک متوازن مذہب ،دو آنکھوں والا مذہب، دو بازوؤوں والا پرندہ، ایک متوسط شاہرہ ، جس پر کاروانِ انسانیت امن اور سلامتی میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ یقین کیجئے کہ قرآن حکیم مجموعہء علوم ہے۔ قرآن حکیم نے ہرعلم کی نشاندہی کی ہے۔ قرآن حکیم نے ہرفلسفے اور ہر نظریئے پر بحث کرکے نتائج و عواقب سے خبردار کیا ہے ۔ ڈارون کا نظریہء ارتقا ،جس قدر مہتمم بالشان جس قدر انقلاب آفرین اور جس قدر تباہ کار ہے اسی کے مقابلے میں قرآن حکیم نے اسی قدر شدومد سے اس سے مجادلہ کیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ جتنا بڑا جہاں ڈارون نے مختلف النوع علمی مسائل و حقائق کا اپنے ارتقائی نظریے میں فراہم کیا ہے اتنا ہی بڑا جہاں قرآن حکیم نے اس کے مقابل کھڑا کر دیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے مصنف کو معلوم تھا ۔ یعنی اللہ تعالی کو معلوم تھا ۔ نہیں بلکہ دیکھ رہا ہے کہ ایک شخص ڈارون نامی پیدا ہو گا ، جو ایک کتاب اوریجن آف دی سپیشزORIGIN OF THE SPECIES لکھے گا جس کی عبارت اس انداز کی ہو گی جس کے خیالات اس قبیل کے ہوں گے اور وہ فلاں فلاں انتہائی گمراہ کن نظریئے کی تبلیغ کرے گا تو اس کے جواب میں وہ ہمہ دان، علیم و بصیر مصنف ، عبارت کے ساتھ عبارت، خیال کے ساتھ خیال کھڑا کر دیتا ہے اور آخر کار اس کے سارے نظریے کوتہس نہس کرکے پھینک دیتا ہے حالانکہ ڈارون کا اوریجن سینکڑوں دماغوں اور صدیوں کی مسلسل نسل در نسل کاوش کا نچوڑ ہے اور قران حکیم بمشکل تین سوصفحوں کی کتاب ہے اور اس میں سینکڑوں دوسرے مسائل کا بیان بھی موجود ہے۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء حیات حیوانی Tree of Life کا ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑ زمین میں ہے اور اس کی شاخوں نے تمام روئے زمین پرسایہ کررکھاہے ۔ یہ سایہ باعث کوفت ہے اور اس درخت کا ثمر کسیلا اور زہریلا ہے۔ روئے زمین کے نامور فلسفیوں اور سائنس دانوں کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جائے اور وہ لاشعوری طور پرسجدہ تعظیمی میں گر جائیں اگر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسا حیرتناک منظر پیش کیا جائے جس میں قرآنی الفاظ ایک معجزانہ انداز میں اس ڈاروینی شجر حیوانی کے پتے پتے اور ٹہنی ٹہنی سے الجھ رہے ہیں اور پتے پتے اور ٹہنی ٹہنی کو پامال کررہے ہیں، گویا کہ دو مقابلے کے درخت ہیں ، ایک ہے ڈاروینی شجر اور دوسرا ہے قرانی شجر، ڈاروینی شجر کی جڑ زمین ہے اور اس کی ٹہنیاں زمین پرچھائی ہوئی ہیں ۔ اس کاسایہ باعث کوفت اور پھل کسیلا اور زہریلا ہے ، اسکے مقابلے میں قرآنی شجر کی جڑ زمین میں ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں، جن کا پرنور سایہ فرحت بخش اور شیریں پھل روح افزا ہے ۔ قرآنی شجر کی ڈاروینی شجر کے پتے کے ساتھ پتہ ٹہنی کے ساتھ ٹہنی ٹکرا رہی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈاروینی شجر زمین سے ناپید ہوتا جا رہا ہے بلکہ ہو چکا  ہے۔
(استفادہ تحریر علامہ محمد یوسف جبریل)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...