Monday 28 August 2017

*دوران حمل جگر کے امراض* *اور دورانِ حمل احتیاطی تدابیر اور غذا کا استعمال*

*دوران حمل جگر کے امراض*

*اور دورانِ حمل احتیاطی تدابیر اور غذا کا استعمال*

حمل کے دوران عورتوں میں بعض بیماریاں شدت سے حملہ آورہوتی ہیں۔کچھ بیماریوں کے خلاف دوران حمل خواتین میں قوت مدافعت پیداہوجاتی ہے۔مثلاً وبائی اورماحولیاتی امراض اس حالت میں عورت پرجلدی حملہ نہیں کرپاتے یعنی ان کے خلاف حاملہ کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔
حمل کے دوران حاملہ عورت پرجگر کے بعض امراض آسانی سے حملہ کرسکتے ہیں ۔ان امراض کاشکار زیادہ تر ایسی خواتین ہوتی ہیں جوپہلے سے ہی جگر کی کمزوری کاشکار ہوں۔
ایسے حالات میں اگر اس کے مطابق صحیح دوا استعمال کی جائے تونہ صرف عورت بہت سی بیماریوں سے بچ جاتی ہے بلکہ ایسی بہت سی بیماریوں سے اپنے ہونے والے بچے کوبھی عمربھر کے لئے محفوظ کرلیتی ہے اوربچے کوکسی قسم کی وراثتی بیماری کاخطرہ نہیں رہتا۔
دوران حمل عام طورسے جگر کے دو طرح کے امراض زیادہ آسانی سے حملہ آور ہو سکتے ہیں وہ یہ ہیں:

۱۔صفرا یاCholestesis

اس مرض کی علامات میں سے ایک جسم میں مختلف ہاتھوں اور پیروں میں شدید خارش ہونا ہے ۔صفرا یاCholestesis کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ حمل بھی ہے۔دورانِ حمل چونکہ جسم میں ایسٹروجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے اس لئے عموماًجسم میںدوتبدیلیاںواقع ہوتی ہیں۔ایک تویہ کہ کامن بائل ڈکٹ موٹی ہوجاتی ہے اوردوسرایہ کہ صفراگاڑھاہوجاتاہے۔

صفراکااجتماع ایک مزاجی بیماری ہے اس لئے یہ زیادہ تر ان خواتین کوہوتی ہے جن کاجگر پہلے سے ہی کمزورہواورجسم میں ایسٹروجن کی مقدار بڑھنے سے ان کی تکلیف میں اضافہ ہوجاتاہے۔صفراکے اجتماع کی وجہ سے پورے جسم میں خارش شروع ہوجاتی ہے۔صفرامیں رکاوٹ کی وجہ سے پتہ میں درد ہوتارہتاہے۔صفرانہ ہونے کی وجہ سے فضلہ سفید رنگ کاآتاہے۔اگر یہ تکلیف لمبے عرصے تک رہے تو اس وجہ سے یرقان بھی ہوسکتاہے۔صفرا کے اجتماع سے بچے پرکوئی اثر نہیں پڑتا لیکن اگر یرقان شدت اختیار کرلے تو بچے کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔

۲۔جگر میں چربی بننا

دوران حمل جگرمیں چربی کے اجتماع کی دووجوہات ہوتی ہیں۔ ایک موٹاپااوردوسرا کاربوہائیڈ ریٹس کازیادہ استعمال ۔ان دونوں صورتوں میں ہی خون میں چربی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اورانہی کی وجہ سے جگر میں بھی چربی جمع ہوجاتی ہے۔
دورانِ حمل اکثر خواتین میں یہ تکلیف نظرآتی ہے۔اسکی وجہ عام طورسے یہ ہوتی ہے کہ دوران حمل خواتین کی خوراک میں کاربوہائیڈریٹس کااستعمال بڑھ جاتاہے جس کے باعث ان کاوزن بھی بڑھ جاتاہے۔اس طرح ان کے جگر میں بھی چربی کی زیادتی ہونے لگتی ہے۔لیکن اس کی وجہ سے انھیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ۔بغیر دوا کے ہی یہ کیفیت ٹھیک ہوجاتی ہے بس چکنائی والی اشیاء اورکاربوہائیڈریٹس کاضرورت سے زیادہ استعمال کم کرناچاہئے۔

* دورانِ حمل احتیاطی تدابیر اور غذا کا استعمال

جو عورت دورانِ حمل اپنا خیال رکھتی ہے اُسے وضع حمل کے وقت بہت کم پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ بچے کی پیدائش گھر پر یا اسپتال میں کرانے کا منصوبہ بھی بنا چکی ہوتی ہے۔وہ بڑی حد تک یہ بھی جانتی ہے کہ ماہر دائی یا ڈاکٹر سے کیا توقع کی جا سکتی ہے اور اُس کیساتھ کیسے تعاون کِیا جا سکتا ہے۔ معالج بھی بچے کی پیدائش کے طریقے،درد کی ادویات کے استعمال یا الیکٹرونک آلات کی مدد سے نوزائیدہ بچے کی حرکات کا جائزہ لینے کے سلسلے میں حاملہ عورت کی ترجیحات سے بخوبی واقف ہوگا۔ دیگر معاملات پر بھی باہمی اتفاق ضروری ہے: اگر گھر پر پیدائش پیچیدگی اختیار کر جاتی ہے تو وہ کس اسپتال یا کلینک میں جائیں گے؟ زیادہ خون بہہ جانے کی صورت میں وہ کیا کریں گے؟ چونکہ جریانِ خون بیشتر صورتوں میں ماں کی موت کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے انتقالِ خون قبول نہ کرنے والے مریضوں کے لیے خون کے متبادلات کا فوری انتظام ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں، اس بات پر بھی غور کِیا جانا چاہیے کہ اگر آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا کِیا جائے گا؟

دورانِ حمل باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جانا درپیش خطرات کو کم کرتا ہے۔جن دیہاتوں میں کلینک یا اسپتال تک رسائی محدود ہے وہاں تربیت یافتہ دائیاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ماں بننے والی خاتون کو پیشہ ور مہارت رکھنے والوں کو تمام ضروری معلومات فراہم کرنی چاہئیں جس میں اس کی طبّی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ اُسے بِلاہچکچاہٹ سوال بھی پوچھنے چاہئیں۔ اگر کسی وجہ سے خون آنا، مْنہ پر سوجن، شدید سردرد یا انگلیوں میں درد اور اچانک سے نظر کم یا دھندلی، پیٹ میں شدید درد، اُلٹیاں، سردی سے بخار، بچے کی حرکات میں اچانک کمی بیشی یا تبدیلی،ا عضائے مخصوصہ سے پانی کا اخراج، پیشاب کرتے وقت درد یا پیشاب کم آنے لگتا ہے تو بِلاتاخیر طبّی مدد حاصل کی جانی چاہیے۔

دوران حمل خواتین کو کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں۔ اس بارے میں ماہرین کاکہنا ہے کہ دورانِ حمل سمندری خوراک اور مختلف اقسام کی مچھلیاں کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ایک تو زیادہ نہ کھائیں۔دوسرا جو مچھلی کھائیں وہ اچھی طرح پکی ہونی چاہیے۔ اسی طرح مرغی یا بڑا گوشت بھی اچھی طرح پکا ہوا کھایا جائے۔تکوں وغیرہ سے پر ہیز ضروری ہے۔اسی طرح انڈا بھی پورا پکا ہواکھائیں۔ہاف فرائی سے بچا جائے۔ دورانِ حمل خواتین کو تھکاوٹ زیادہ ہو سکتی ہے اس لیے کافی پینے میں بھی احتیاط کی جائے۔ایک دن میں دو سے زیادہ کافی کے کپ پینے سے بچا جائے۔بغیر ابلا ہوا دودھ سمیت تمام غیر صاف شدہ جوس بھی آ پ کے لیے اچھا نہیں ہے، کیونکہ اس میں بیکٹیریا موجود ہوتا ہے جو ایک قسم کے جراثیم ہے۔ اس لیے اُبلے ہوئے دودھ کا استعمال کریں۔

ایک اوراہم غذائی جز فولاد ہے۔ دورانِ حمل عورتوں میں فولاد کی ضرورت دو گْنا بڑھ جاتی ہے۔ اگر اس میں فولاد کی کمی ہے تو اس میں فولاد کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یکے بعددیگرے حمل اس حالت کو بدتر بنا سکتے ہیں کیونکہ اس دوران شاید عورت کو اپنے اندر فولاد کی کمی کو پورا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ایسی صورت حال میں فولک ایسڈ اور فولاد حاصل کرنے کے لیے کلیجی، پھلیاں، ہرے پتوں والی سبزیاں، میوہ جات اور قوت بخش اناج ہیں۔ فولاد سے بھرپور غذائیت کو ہضم کرنے کیلئے اسے وٹامن سی سے پُر تازہ پھلوں کیساتھ ملا کر کھانا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

عام طور پر حاملہ عورت کی غذا میں پھل، سبزیاں، (بالخصوص گہری سبز، نارنجی اور سرخ)، پھلیاں (جیسے کہ لوبیا،سویابین،دالیں اور چنے)،اناج (ترجیحاً غذائیت سے بھرپور گندم، مکئی، جئی اور جَو)گوشت (مچھلی، مرغی، گائے)، انڈے،پنیر اور دودھ (ترجیحاً خشک دودھ) شامل ہونا چاہیے۔ بہتر ہے کہ روغن، چینی اور نمک کم مقدار میں استعمال کیے جائیں۔ پانی زیادہ پئیں۔ کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں اور ایسے مشروبات سے بھی دُور رہیں جنھیں محفوظ رکھنے یا اُنھیں ذائقے دار بنانے کیلئے دیگر اشیا ء(جیسے کہ رنگ اور ذائقوں) استعمال کی جاتی ہیں۔ نشاستہ دار غذا، مٹی اور دیگر ایسی اشیاء ناقص خوراک اور زہر پھیلنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

خواتین کو چاہیے کہ جو ڈاکٹر حاملہ ہونے اور صحت کے دیگر تمام مسائل سے بخوبی واقف ہے اس کی ہدایت کے بغیر کوئی دوا استعمال نہ کریں۔کیونکہ بعض وٹامنز بھی مضر ہو سکتے ہیں۔ مثلاً، وٹامن اے کی زیادتی بچے میں نقائص کا باعث بن سکتی ہے۔
htv.com.pk:بشکریہ
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
00923462115913

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...