Sunday 6 August 2017

انسان کیا ہے ...؟

انسان کیا ہے ...؟

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#87

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اسلامی تصور کائنات میں انسان کی ایک عجیب داستان سامنے آتی ہے اسلامی نکتہ نگاہ سے وہ صرف ایک راست قامت چلنے پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیں قرآن حکیم کی نظر اس کی حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری اور پراسرار ہے کہ چند جملوں میں اس کی توصیف کی جا سکے۔ قرآن حکیم میں انسان کی توصیف بھی بیان کی گئی ہے اور مذمت بھی۔
قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ 
خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔

”بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو صحرا اور سمندر پر حاکم کر دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری دی۔“( سورہ بنی اسرائیل آیت ۷۰)

قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے،یا اس کی خدمت کے لئے معمور کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے ۔آئندہ اقساط میں انسان کی ان قابل تعریف صفات کا ذکر کیا جائے گا۔ جو قرآن حکیم کی مختلف آیات میں انسانی اقدار کے طور پر ذکر ہوئی ہیں۔

کائنات میں بے  شمار انواع ہیں، بے  شمار موجودات ہیں۔

انسان کائنات کی بے  شمار انواع  میں  سے  ایک نوع اور لا تعداد موجودات میں  سے  ایک وجود ہے۔ لیکن تمام موجودات میں  انسان کی انفرادیت یہ ہے  کہ کائنات اور کائنات کا ہر وجود براہِ راست یا بالواسطہ انسان سے  مربوط اور اسی انسان ہی کے  لئے موجود ہے۔

لیکن تمام موجودات میں  انفرادیت کے  باوجود انسان بھی اسی ’واحدشے‘  سے  بنا ہے  جس سے  کہ کائنات اور اس کی تمام تر موجودات بنی ہیں۔ لہذا ہم خود کو سمجھ گئے  تو ہم کائنات اور اس کی موجودات کے  بنیادی فارمولے  کو سمجھ جائیں  گے۔

خالق کائنات نے  تو کائنات تخلیق کر کے  انسان کو سونپ کر اسے با اختیار کیا تھا۔ کائنات اس کے  لئے  مسخر کی تھی۔ لیکن خالق کے  بعد کائنات کی طاقتور ہستی انسان آج اپنی طاقت اپنے  اختیار کو بالکل فراموش کر کے  خود ساختہ مجبوریوں کا غلام بنا بیٹھا ہے۔ کائنات کا اشرف ترین انسان آج خود کو جانور ثابت کرنے  پر تلا بیٹھا ہے۔ ہمیں  اپنی حیثیت اپنے  اختیار کو پہچاننا ہو گا تاکہ ہم اس عظیم الشان کائنات کی خلافت کے  اہل قرار پائیں۔
کائنات سے  متعلق حیران کن سائنسی دریافتیں  تو آج ہمارے سامنے  ہیں اور مزید ً محو حیرت ہوں  کہ دنیا کیا سے  کیا ہو جائے  گی  ً لیکن اب  ً انفس ً کے  راز بھی کھلنے  لگے۔ ایٹم کی طرح انسان کے  اندر بھی ایک نیا جہان دریافت ہو رہا ہے۔ انسان اپنے  اندر جھانک کر اس وسیع دنیا کو ابھی حیرت سے  دیکھ رہا ہے  اور انجانی نگاہوں  سے  دیکھ تو رہا ہے  لیکن اپنے  اس باطنی رخ کو سمجھ نہیں  پا رہا، الجھ رہا ہے اور آج اس سے  یہ گتھی سلجھ نہیں  رہی کہ آخر کیسا راز ہے  یہ  ’انسان‘ ؟

2۔ انسان کیا ہے

انسان کیا ہے؟ یہ معمہ کبھی بھی مذھب کی تعلیمات کے علاوہ نہ حل ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ اگرچہ انسان کو جاننے کی سعی ہر دور میں  ہوئی۔ ہزاروں  برس سے  ہر دور کے  لوگ مختلف زاویوں  سے  انسان پر تحقیق کرتے  رہے  ہیں  لیکن نتیجہ ندارد۔ ماضی کا انسان عرصہ دراز تک خود کو جانور کی اولاد کہتا رہا اور اپنی ہر تحریر و تحقیق سے  خود کو جانور ثابت کرنے  کی سعی میں  لگا رہا۔ ابھی یہ مسئلہ حل نہیں  ہوا تھا کہ انسان جانور کی اولاد ہے  یا نہیں کہ کچھ فلسفی ذہن، روح اور نفس کا تذکرہ کرنے  لگے۔ ان کا خیال تھا کہ انسان ذہن و جسم یا روح و جسم کا مرکب ہے۔ پھر انہی فلسفیوں  سے  سائنسدان پھوٹے  جن کی ضد تھی کی انسان محض مادی جسم ہے اور آج بھی مادی جسم پہ کام کرنے  والے  کہتے  ہیں  کہ اس جسم میں روح کی گنجائش نہیں اور مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے  جب کہ روح تجربے  کی زد میں  نہیں  لہذا ایسے  غیر مرئی مفرُوضے  علم کی حدود میں نہیں  آ سکتے  اور پھر انہی ضدی سائنسدانوں  نے  خود ہی انسان کا روحانی تشخص یا جسمِ لطیف (AURA)    بھی دریافت کر لیا یوں  انہیں اپنی وہ ضد کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے چھوڑنی پڑی۔ ہزاروں  برس سے  انسان پر ان تمام متفرق و متنوع موضوعات پہ کام ہو رہا ہے اور آج بھی جاری ہے۔ کوئی بھی کام درجہ بدرجہ ترقی کر کے  آگے  بڑھتا ہے  جب کہ انسان پہ ہونے والے  کام میں یہ خصوصیت ہے  کہ انسان پہ کہیں  تو اس کی تخلیق کے  حوالے  سے  کام ہو  رہا ہے۔ کوئی ارتقا کا حامی ہے۔ تو کہیں  مادی جسم پہ کام ہو رہا ہے۔ کہیں  روح پہ کام ہو رہا ہے۔ کہیں  نفس پہ تحقیق ہو رہی ہے۔ لیکن انسان پہ ہو رہے  یہ تمام کام انفرادی کام ہیں  جن کا ایک دوسرے  سے  کوئی تعلق نہیں۔ آج انسان پر مندرجہ ذیل موضوعات پر تحقیق و تجربات جاری ہیں۔

۱۔ انسان کا ارتقاء

۲۔ انسان کی تخلیق

۳۔ مادی جسم

 ۴۔ روح

۵۔ نفس

۶۔ اورا   (AURA)، چکراز

(۱)۔ انسان کا ارتقاء

مذہبی آسمانی کتابوں  سے  ملنے  والے  حقیقی علم کی بدولت انسان خود کو ہمیشہ سے  با شعور، با علم اور تہذیب یافتہ مکمل انسان تصور کرتا تھا۔ جب کہ بعض فلسفیوں  کی بدولت علمی دنیا میں  انسان نے  خود کو پہلی دفعہ حیوان کے  طور پر متعارف کروایا۔ اور اپنی ہر تحریر و تحقیق سے  خود کو جانور ثابت کرنے کی سعی میں  لگا رہا۔ اسی کوشش میں  بحث کے  نئے  باب کھلے مثلاً اگر انسان کے  آباء و اجداد حیوان تھے  تو وہ موجودہ انسانی شکل تک کیسے  پہنچا۔ اس کی تخلیق ہوئی یا ارتقاء، مسلسل ارتقاء ہوا  یا منزل بہ منزل ہزاروں  برس سے  یہ بحث جوں  کی توں جاری ہے اور آج بھی ماہرین جدید سائنسی ذریعوں  سے  اس بے کار کی جدوجہد میں  مصروف انسان کو حیوان ثابت کرنے  پر تلے ہوئے  ہیں جب کہ اس کوشش میں  وہ سو فیصد ناکام رہے  ہیں۔ لیکن اس بیکار کی جدوجہد سے  کارآمد ثبوت مل رہے  ہیں اور ان جدید تحقیقات سے  یہ ثابت ہو چکا ہے  کہ ارتقاء کے  نظریات غیر سائنسی مفروضوں  پہ مشتمل بودے، بے  بنیاد فلسفے  ہیں۔ ارتقاء کی کہانیاں  جھوٹی، تصویریں  جعلی اور ڈھانچے  من گھڑت اور فریب پر مبنی جعلسازی کے  شاہکار ہیں۔ لیکن ارتقاء کے  حامی آج بھی اپنے  قدیم نظریات پر اڑے  ہوئے  ہیں  کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں  مبتلا ہیں  کہ ارتقاء کا نظریہ درحقیقت مذہبی عقیدہ اور آفاقی نظریہ ہے۔ اور ان کی اس بڑی غلط فہمی نے  نہ صرف بے بنیاد مفروضوں  کو جنم دیا بلکہ قوموں کو گمراہ اور ذہنوں  کو پراگندہ کیا ہے اور بے  انتہا علمی نقصان کیا ہے۔جس کی تفصیلات سابقہ اقساط میں ایک سے پچاسی تک مطالعہ کریں ۔

(۲)۔ انسان کی تخلیق

آج جدید تحقیقات کے  پیشِ نظر کچھ لوگوں  نے  روح کو تو تسلیم کر لیا ہے  لہذا اب ان کا تبدیل شدہ موقف یہ ہے  کہ انسان کا جسم تو طبیعاتی حقیقت یعنی کہیں  نہ کہیں  ارتقاء یافتہ ہی ہے ہاں  لیکن اس کی انفرادیت دراصل اس کی روح ہے۔ یہ بھی محض غلطی ہے ، انسان ہر لحاظ سے  منفرد ہے۔ آج جدید سائنسی تحقیقات سے  بہت سے  سائنسدان نہ صرف ارتقائی مفروضے  کی نفی کر رہے  ہیں  بلکہ ارتقاء کے  خلاف اور تخلیق کے  حق میں بہت سے  سائنسی شواہد بھی اکھٹے  ہو گئے  ہیں۔
مثلاً  DNA  کی دریافت اور  کوانٹم جمپ(Quantam Jump)  یا کیمبری دھماکہ (Cambrian Explosion)   جیسی تھیوریوں سے  ثابت ہو گیا ہے  کہ کوئی مخلوق ارتقاء یافتہ نہیں اور  جدید تحقیقات سے  یہ بھی ثابت ہوا ہے  کہ تمام انسان ایک ہی ماں  کی اولاد ہیں۔ اس دریافت سے  بھی اس نظریے  کی نفی ہوتی ہے  کہ انسان کے  آباؤ اجداد حیوان تھے۔ بہرحال تا حال انسان کے  ارتقاء اور تخلیق کی متضاد بحث جوں کی توں جاری ہے۔اور دنیا کی ایک کثیر تعداد اس اندھے فلسفے کو سینے سے لگائی ہوئی ہے۔

 (۳)۔ مادی جسم

برسوں  مادہ پرست مادی جسم کو ہی آخری حقیقت قرار دیتے رہے۔ سائنسدان برسوں  سے  مادی جسم پہ کام کر رہے  ہیں اور آج ہمارے  پاس مادی جسم کا بہت سارا علم ہے۔ اگرچہ AURA   کی دریافت سے  مادہ پرستوں  کے  اس خیال کی نفی ہو چکی ہے  کہ مادی جسم ہی آخری حقیقت ہے  لیکن پھر بھی حیرت انگیز طور پر مادی جسم پر کام کرنے  والے  آج بھی انسان کے  روحانی تشخص کی نفی کرتے  ہیں اور یہی کہتے  نظر آتے  ہیں  کہ انسانی جسم میں  کہیں  روح کی گنجائش نہیں۔ آج اس قسم کی ہٹ دھرمی کو ہم صرف لا علمی ہی کہہ سکتے  ہیں۔ اگر جسم میں  روح کی گنجائش نہیں  تو پھر یہ نئی دریافت" AURA "   کیا ہے۔؟
اگر جسم میں  روح نہیں  تو پھر ہم آج عمل خود کر کے  الزم تقدیر کو کیوں  دے  رہے  ہیں ؟

آج سائنسدان کیوں  نہیں  جانتے  کہ یہ انتہائی پیچیدہ مشینری (مادی جسم ) خود بخود کیسے  اتنے  منظم طور پر متحرک ہے۔؟
سائنسدان نہیں  جانتے  کہ یہ منظم اور مسلسل حرکت اچانک موت کی صورت میں  کیوں  رک جاتی ہے ؟ 
 ایک نامور انسان کہاں  چلا جاتا ہے  کہ اس کا نشان بھی باقی نہیں  بچتا؟
  ہم کیسے  کھاتے پیتے  ہیں، سوتے  جاگتے  ہیں، کہاں  سے  آ رہی ہیں  یہ منظم اطلاعات آخر کون ہمیں  کنٹرول کر رہا ہے ، خواب، عقل، چھٹی حس، موت و حیات اور خود انسان کیا ہے ؟
کہاں  سے  آیا ہے؟ کہاں  جا رہا ہے ؟ کہاں  جانا ہے؟وغیرہ  ان تمام سوالوں  کے  کیا جوابات ہیں۔؟؟؟

حقیقت یہ ہے  کہ مادی جسم سے  متعلق تمام تر معلومات کے باوجود ہمارا مادی جسم کا علم اس وقت تک نامکمل ہے  جب تک ہم روح کو نہیں  جانتے  کیونکہ مادی جسم کا تمام تر دارومدار روح پہ ہی ہے  لہذا اگر ہم مادی جسم کا حقیقی علم چاہتے  ہیں  تو ہمیں  روح کو جاننا ہی ہو گا۔ ورنہ روح سے  لاعلمی کے  سبب ہمارا مادی جسم کا علم نامکمل اور ناقص ہے۔

 (۴)۔ روح

روح پر بھی ہزاروں  برس سے  کام ہو رہا ہے اور ہزاروں  برس سے آج تک ہر مفکر اور ہر روح کا تجربہ و مشاہدہ کرنے  والا روح کو ہدایت کا سرچشمہ کہہ رہا ہے۔  ابتداء سے  آج تک روح کی بس یہی تعریف کی گئی ہے۔ حالانکہ قصہ اتنا مختصر نہیں  ! آخر ہدایت کے  سرچشمے  سے  کیا مراد ہے ؟روح کیا ہے اور روح کی شناخت کیا ہے؟
ہر دور میں  روح کو جسم لطیف کے  طور پر شناخت کیا جاتا ہے۔ ہزاروں  برس کے  ادوار میں  اگر چند لوگوں نے  روح کو شناخت کیا بھی ہے  تو انہوں  نے  اس کی تعریف یا تعارف سے  معذوری کا اظہار کیا ہے۔ ان کے  خیال میں  روح وہ معمہ ہے  جو حل طلب نہیں  جس کی تعریف ممکن نہیں۔ یعنی ہزاروں  برس کے  روح پر ہونے  والے  بے  تحاشا تحقیقی کام میں  نہ تو روح کی تعریف ہو سکی ہے  نہ انفرادی شناخت قائم ہوئی ہے  بلکہ یہ معاملہ سلجھنے کے  بجائے  مزید الجھ گیا ہے۔
انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ جو کہ روح کے چہرے کا حجاب ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں۔

لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ۔
یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پرده ہٹا دیا پس آج تیری نگاه بہت تیز ہے۔ ( سورہ ق آیت ۲۲)

روح کیا ہے اس پر اسلامی نقطہ نظر ہم آئندہ اقساط میں مفصل وضاحت پیش کریں گے۔

(۵)۔ نفس

شروع سے  آج تک نفس کی تعریف خواہش یا نفسانی خواہش کی جاتی رہی ہے۔ یا انسان کی بعض پیچیدہ خصوصیات کو نفس سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اور نفس کی اسی مفروضہ تعریف پرنفس، انفس، نفسیات یا سائیکالوجی، پیرا سائیکالوجی وغیرہ  وغیرہ کے موضوعات پر جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ بے  تحاشا مواد اور کتابیں تحریر کی جاتی ہیں۔
جب کہ نفس کی یہ تعریف ہی درست نہیں۔ نفس کسی خواہش کا نام نہیں  ہے۔ خواہش اور نفسانی خواہش تو نفس کی بے  تحاشا خصوصیات میں  سے  دو خصوصیات ہیں۔ اور خود نفس کوئی مفروضہ نہیں حقیقت ہے اور اپنی انفرادی شناخت رکھتا ہے۔ درحقیقت نفس مادی جسم سے  بھی بڑا تحقیقی موضوع ہے۔ نفس ہر دور میں  موضوع بحث تو رہا ہے۔ لیکن ہزاروں  برس کے  کام میں  نہ تو نفس کی انفرادی شناخت ہو سکی ہے اور نہ ہی اس کی صحیح تعریف اور اصل تعارف سامنے  آ سکا ہے۔ لہذا نفس سے متعلق تمام مواد بھی مفروضوں  پر مشتمل ہے  کہیں  اتفاقاً صحیح تو زیادہ غلط۔

 (۶)۔ اورا   AURA، چکراز

انسان کے  حوالے  سے  AURA   کی دریافت نے  تحقیق کے  نئے دَر وَا کئے  ہیں۔ ایک دور میں  انسان نے  روح کو غیر مرئی (Invisible)   کہہ کر علم کی حدود سے  خارج کر دیا تھا اور فقط مادی جسم کو آخری حقیقت قرار دینے  والے  سائنسدانوں نے  ہی بالا آخر اٹھارویں  صدی کے  آخر میں  تسلیم کیا کہ ایک لطیف قسم کی توانائی ہمارے  جسم میں  سرایت کئے  ہوئے  ہے۔ انسان کے روحانی باطنی تشخص کا  انکار کرنے  والے  سائنسدانوں  نے  بلآخر  1930ء  میں
 انسان سے  جڑے  اس کے  لطیف وجود کی تصویر کشی بھی کر لی۔ اس لطیف وجود کا نام انہوں  نے AURA   رکھا۔ اسی میدان میں  مزید تحقیقات جاری ہیں اور مزید Subtle Bodies اور چکراز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ آج سائنسدانوں  نے  ایٹم کی طرح انسان کے  اندر بھی ایک جہان تلاش کر لیا ہے اور یہ دریافتیں  ابھی جاری ہیں۔
مادے  کو آخری حقیقت کہنے  والے  اب ہر شے  کے  پس منظر میں  اس کا نورانی تشخص تلاش کر رہے  ہیں  جو مفروضوں  کو خارج از علم قرار دے  رہے  تھے  وہ کہہ رہے  ہیں  کہ کائنات ایسے  اسرار سے  بھری پڑی ہے  جو تجربے  کی زد میں  نہیں  لیکن آج ہم انہیں  کھلی آنکھ سے  دیکھ کر انکا  انکار بھی نہیں  کر سکتے۔ آج انسان پر ہر پہلو سے  تحقیق و تجربات ہو رہے  ہیں اور ساتھ ہی انسان کو حیوان ثابت کرنے  کی جدوجہد بھی جاری ہے۔ اگرچہ نتائج سوفیصد خلاف ہی جا رہے  ہیں  اسی جدو جہد سے تخلیق کے  شواہد مل رہے  ہیں۔ روح، نفس اور مادی جسم پہ بھی تحقیقات جاری ہیں۔

ذہن، مادی جسم، روح، نفس یا AURA   چکراز  تمام کی الگ حیثیتوں اور  خصوصیات کے علاوہ  بحیثیت مجموعی انسان کی بے  شمار خصوصیات بھی ہیں اور انہی خصوصیات کے  بل پر ترقی کی اوج پر بیٹھا انسان آسمانوں  تک جا پہنچا۔ اس ذہین ترین انسان کی یہ تمام تر صلاحیتیں  اس کی کُل صلاحیتوں  کا محض پانچ سے  دس فیصد ہیں۔ تو پھر اس حیرت انگیز انسان کی باقی پچانوے  فیصد صلاحیتیں  کہاں  پوشیدہ ہیں اور آخر کیوں  بے خبر ہے  انسان اپنی ان بے  پناہ صلاحیتوں  سے ؟ اور یہ روح، نفس اور جسم آخر کیا ہیں ؟  کیا اور کیسا تعلق ہے  ان کا انسان سے ؟ اور بحیثیت مجموعی انسان کیا ہے ؟
ہزاروں  برس کی مسلسل تحقیق و جستجو کے  باوجود یہ تمام سوال تشنہ ہیں۔ آج انسان کی تعریف کرنا جوئے  شِیر لانے  سے کہیں  بڑھ کر ہے۔ علمیت کے  دعوے  کرنے  والا انسان آج تک خود کو نہیں  جان پایا! آج انسان اپنی تعریف کرنے  سے  قاصر ہے۔
افسوس!  صدیوں  کا انسان آج بھی ماوریٰ کی صف میں  بے نشان کھڑا ہے !

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...