Tuesday 1 August 2017

اتنی بڑی کائنات کا خالق کون؟

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#83

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

کرۂ ہوائی کی موزونیت

متذکرہ بالا تمام عوامل کے تجزیئے سے ہم پر یہ اچھی طرح واضح ہوچکا ہے کہ یہ سب کے سب زندگی کے لئے ’’انتہائی موزوں‘‘ ہیں۔ البتہ یہ تمام خصوصیات بھی تن تنہا زمین پر زندگی کے وجود کوضمانت فراہم نہیں کرتیں۔ اس کے لئے ایک اور جزو ’’کرۂ ہوائی کی ترکیب‘‘ (atmospheric composition) بھی بہت اہم ہے۔
ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ بسا اوقات سائنس فکشن فلمیں بھی لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں۔ ان میں بڑے سکون و اطمینان سے یہ دکھادیا جاتا ہے کہ کوئی خلائی مخلوق، ایسے کسی دوسرے سیارے سے آرہی ہے جہاں کا کرۂ ہوائی سانس لینے کے قابل ہے۔ حالانکہ یہ جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ہم کائنات کی اصل کھوج کر سکتے ہیں تو ہم پر یہ انکشاف ضرور ہوتا ہے کہ سائنس فکشن میں پیش کئے گئے یہ خیالات کس حد تک غلط ہیں۔ ایسے کسی بھی دوسرے سیارے کی موجودگی، جس کی ہوا میں ہم سانس لے سکیں، حد درجہ ناممکنات میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کا کرۂ ہوائی کئی پہلوؤں سے خاص طور پر زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔
زمینی کرۂ ہوائی میں 77 فیصد نائٹروجن، 21 فیصد آکسیجن اور تقریباً ایک فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں۔ آیئے سب سے اہم گیس آکسیجن سے شروع کرتے ہیں۔ زندگی کے لئے آکسیجن ایک خاص وجہ سے بے حد ضروری ہے ۔۔۔ اور وہ یہ کہ زندگی کی پیچیدہ اقسام میں توانائی خارج کرنے والے سارے کیمیائی تعاملات میں آکسیجن کی حیثیت جزو لازم کی ہے۔ جبکہ یہ کیمیائی تعاملات، بذاتِ خود زندگی کے وجود میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔
کاربنی مرکبات آکسیجن سے تعامل کرتے ہیں۔ ان تعاملات کے نتیجے میں پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور توانائی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ توانائی چھوٹے چھوٹے ’’بنڈلوں‘‘ یعنی مخصوص مرکبات میں محفوظ ہوتی ہے جنہیں ’’اے ٹی پی ۔ ایڈینوسین ٹرائی فاسفیٹ‘‘ (ATP-Adenosine triphosphate) کہا جاتا ہے۔ مذکورہ تعاملات میں پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ ’’اے ٹی پی‘‘ بھی بنتے ہیں جنہیں خلیات توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زندہ رہنے کے لئے ہر وقت سانس لیتے رہتے ہیں تاکہ اپنی ضرورت پوری کرتے رہیں۔ ہوا میں آکسیجن کی فیصد مقدار بھی بہت نپی تلی اور متعین ہے۔ اس پہلو پر مائیکل ڈینٹن لکھتے ہیں:’’اس کرۂ ہوائی میں آکسیجن زیادہ ہوتی تو کیا یہ تب بھی زندگی کو تقویب دیتا؟ نہیں !۔۔۔ آکسیجن بہت عامل (reactive) عنصر ہے۔ ہوا میں اس کی موجودہ فیصد مقدار بھی (یعنی 21 فیصد) موزوں درجہ حرارت پر زندگی کے تحفظ کی بالائی حدود کے قریب ہے۔ اگر ہوا میںآکسیجن کی مقدار صرف ایک فیصد بھی بڑھ جائے تو جنگلوں میں لگنے والی (قدرتی) آگ کا تناسب 70 فیصد بڑھ جائے گا۔‘‘
برطانوی حیاتی کیمیا دان، جیمز لولاک (Lovelock) اسی نکتے کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’فضا میں آکسیجن کی مقدار25 فیصد ہوتی تو خشکی پر موجود انواع و اقسام کے ان گنت نباتات کی بے حد معمولی تعداد عالمی آتشزدگی سے محفوظ رہ پاتی۔ یہ بھیانک آگ قطب شمالی کے ٹنڈرا سے لے کر منطقہ حارہ کے بارانی جنگلات تک کو یکساں طور پر تباہ کر ڈالتی۔ (ہوا میں) آکسیجن کی موجودہ مقدار ایک ایسے مقام پر ہے جہاں خطرہ اور فائدہ دونوں ہی بڑی خوبی سے ایک دوسرے کو متوازن کر دیتے ہیں‘‘۔
زمین فضا میں آکسیجن کا تناسب اس نپی تلی سطح پر ہونے کی وجہ ایک حیرت انگیز ’’بازیافتگی نظام‘‘ (ری سائیکلنگ سسٹم) ہے۔ جانور سانس لیتے ہیں اور آکسیجن جذب کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کردیتے ہیں جو ان کے لئے غیر ضروری ہوتی ہے۔ ان کے برعکس پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں اور یوں یہ توازن قائم رہتا ہے۔ پودے ہر وز لاکھوں ٹن آکسیجن فضا میں داخل کرتے ہیں۔ اس طرح زندگی کا تسلسل قائم و دائم ہوتا ہے۔
جاندار اشیاء کے ان دونوں گروہوں (جانورں اور پودوں) میں توازن اور تعاون کے بغیر ہمارا سیارہ ناقابل رہائش ہوتا۔ مثلاً یہ کہ اگر سارے کے سارے جاندار ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرکے آکسیجن خارج کرتے تو کرۂ ہوائی آج کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسانی اور سہولت کے ساتھ جلنے کے عمل میں معاونت کرتا۔ یہاں تک کہ ایک معمولی سی چنگاری بھی بڑے پیمانے پر آگ لگا سکتی تھی۔ اسی طرح اگر تمام جاندار صرف آکسیجن جذب کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی خارج کرتے رہتے تو کرۂ ہوائی کی آکسیجن جلد ہی ختم ہوجاتی اور اس پرموجودزندگی بھی اختتام پذیر ہوجاتی۔
درحقیقت، زمینی کرۂ ہوائی ایک ایسے توازن کی حالت میں ہے جہاں خطرہ اور فائدہ بڑی خوبی سے ایک دوسرے کی تعدیل کرتے ہیں۔ یہی خیال جیمز لولاک نے بھی پیش کیا تھا۔ مزید برآں ہمارے کرۂ ہوائی کی کثافت تک سانس لینے کے لئے موزوں ترین سطح پر رکھی گئی ہے۔
کرۂ ہوائی اور
عمل تنفس (Respiration)
ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے میں سانس لیتے رہتے ہیں۔ ہم مسلسل اپنے پھیپھڑوں میں ہوا داخل کرتے اور خار ج کرتے رہتے ہیں۔ اس عمل کی ہمیں اتنی عادت ہے کہ ہم اسے بالکل عام سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سانس لینے کا عمل حد درجے پیچیدہ ہے۔ ہمارے جسمانی نظام اس قدر مکمل انداز میں وضع کئے گئے ہیں کہ ہمیں سانس لینے کے لئے سوچنا بھی نہیں پڑتا ہے۔ ہمارا جسم خود ہی یہ تخمینہ لگا تا ہے کہ اسے کتنی آکسیجن کی ضرورت ہے اور پھر وہ ضروری مقدار کی فراہمی کا ازخود بندوبست بھی کرتا ہے خواہ ہم چل رہے ہوں، دوڑرہے ہوں، بیٹھے ہوں یا سورہے ہوں۔ سانس لینے کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں ہر وقت جاری لاکھوں(کیمیائی) تعاملات کے لئے آکسیجن کی ضرور ت ہوتی ہے۔۔۔ تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔
آپ میں یہ سطور پڑھنے کی صلاحیت اس لئے ہے کہ آپ کے پردۂ چشم میں موجود لاکھوں خلیات کو آکسیجن سے حاصل شدہ توانائی مل رہی ہے۔ اسی طرح ہمارے جسم کی تمام بافتیں اور انہیں تشکیل دینے والے خلیات، کاربنی مرکبات کو آکسیجن میں ’’جلا کر‘‘ (یعنی توڑ کر) ان سے حاصل شدہ توانائی استعمال میں لاتے ہیں۔پھر اس جلنے کے عمل سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا جسم سے فوری اخراج بھی اشد ضروری ہے۔ اگر ہمارے دوران خون میں آکسیجن کی سطح کم ہوجائے تو ہم پر غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔۔۔ اور اگر جسم میں آکسیجن کی عدم موجودگی چند منٹوں تک برقرار رہ جائے تو نتیجہ موت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے !
ہم اسی لئے سانس لیتے ہیں۔ جب ہم سانس اندر کھینچتے ہیں تو آکسیجن ہمارے پھیپھڑوں میں موجود لگ بھگ 30 کروڑ چھوٹے چھوٹے خانوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ ان خانوں سے متصل ’’شعری رگیں‘‘ (capillary veins) چشم زدن میں اس آکسیجن کو جذب کرلیتی ہیں۔ یہ جذب شدہ آکسیجن پہلے دل تک اور پھر جسم کے دوسرے تمام حصوں تک پھیل جاتی ہے۔ ہمارے جسمانی خلئے اس آکسیجن کو استعمال میں لاتے ہیں اور خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ داخل کر دیتے ہیں ۔۔۔ جو پھیپھڑوں میں واپس پہنچتی ہے جہاں سے اسے باہر خارج کر دیا جاتا ہے۔ ’’صاف‘‘ آکسیجن کے داخلے اور ’’گندی‘‘ کا ربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں آدھے سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔
آپ شاید حیران ہو رہے ہوں گے کہ آخر پھیپھڑوں میں اتنے زیادہ (تقریباً 30 کروڑ) خانوں کی کیا وجہ ہے۔ ان کا مقصد ہوا کا سامنا کرنے والی سطح (surface) کے رقبے میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ بڑے احتیاط سے کچھ اس طرح تہہ(fold) کئے ہوئے ہیں کہ جسم میں ہر ممکن حد تک کم جگہ گھیریں۔ اگر ان کی تہوں کو کھول دیا جائے تو یہ ٹینس کورٹ جتنی جگہ پر پھیل جائیں گے۔
یہاں ایک اور نکتہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔ پھپھیڑوں کے خانوں اور ان سے متصل شعری رگوں کو اتنا مختصر اور مکمل اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کے تبادلے(exchange) کی رفتار میں اضافہ ہوجائے۔ لیکن یہ بہترین ڈیزائن بجائے خود کئی دوسرے اجزاء پر منحصر ہے۔ کثافت، لزوجیت(viscosity) اور ہوا کا دباؤ، ان سب کو موزوں انداز سے ہوا کے داخلے اور اخراج کے لئے درست (مناسب) ہونا چاہئے۔
سطح سمندر پر ہوا کا دباؤ 760 ملی میٹر پارے کے برار، اور اس کی کثافت تقریباً ایک گرام فی لیٹر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ سطح سمندر پر ہوا کی لزوجیت پانی کے مقابلے میں لگ بھگ 50 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ ان اعداد و شمار کو آپ اہمیت نہ دیں لیکن مائیکل ڈینٹن کے الفاظ میں: ’’کرۂ ہوائی کی عمومی خصوصیات اور مجموعی ترکیب (composition) کو؛ جن میں کثافت، لزوجیت اور دباؤ وغیرہ شامل ہیں؛ لازماً ویسا ہی ہونا چاہئے جیسی کہ یہ ہیں۔ خاص طور پر ہوا میں سانس لینے والے جانداروں کے لئے‘‘۔
جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہمارے پھیپھڑے ایک قوت پر قابو پانے کے لئے توانائی صرف کرتے ہیں جسے ’’فضائی مزاحمت‘‘ (Airway resistance) بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ قوت ہوا میں حرکت کے خلاف موجود قدرتی مزاحمت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ البتہ کرۂ ہوائی کی طبعی خصوصیات کی بدولت یہ مزاحمت اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ کہ ہمارے پھیپھڑے نہایت کم توانائی خرچ کر کے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ اگر یہ مزاحمت زیادہ ہوتی تو ہمارے پھیپھڑوں کو بھی زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی، زیادہ توانائی صرف کرنا پڑتی اور سانس لینا دشوار ہوجاتا۔ اسے ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ انجکشن والی سرنج میں شہد کی بہ نسبت پانی بھرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شہد پانی سے زیادہ گاڑھا اور لزج دار (viscous) ہوتا ہے۔
اگر ہوا کی کثافت، لزوجیت اور دباؤ زیادہ ہوتے تو سانس لینا اتنا ہی مشکل ہوتا جتنا سرنج میں شہد بھرنا ہے۔ اس کے جواب میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تو بہت آسان ہے۔ انجکشن کی سوئی کا سوراخ بڑا کر دیجئے تاکہ بہاؤ کی رفتار میں اضافہ کیا جا سکے۔ لیکن اگر پھیپھڑوں کی شعری رگوں کے معاملے میں ایسا کیا جاتا تو ہوا کا سامنا کرنے والا رقبہ کم رہ جاتا۔ یعنی اتنے ہی وقت میں کم کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کا تبادلہ ہوپاتا ۔۔۔ اور ہماری تنفسی (Respiratory) ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ بالفاظِ دیگر ہوائی کثافت، لزوجیت اور دباؤ کی انفرادی قیمتوں کو بھی عمل تنفس میں شرکت کے لئے مخصوص حدوں کے درمیان رہنا چاہئے اور جس ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس میں عین یہی خصوصیات ہیں۔ مائیکل ڈینٹن کی رائے ایک با ر پھر ملاحظہ ہو:
’’یہ واضح رہے کہ اگر ہوا کی کثافت یا لزوجیت میں سے کوئی ایک بھی خاصی زیادہ ہوتی تو فضائی مزاحمت بھی بہت بلند ہوتی اور موجودہ نظامِ تنفس کے ڈیزائن میں ایسی کوئی قابل فہم تبدیلی (ری ڈیزائننگ) ممکن نہیں جو استحالی اعتبار سے سرگرم(metabolically active)، ہوا میں سانس لینے والے کسی جاندار کو اتنے ہی موزوں انداز میں آکسیجن حاصل کرنے کے قابل بنا سکے ۔۔۔ کرۂ ہوائی کے تمام ممکنہ دباؤ(pressures) اور آکسیجن کی تمام ممکنہ مقداروں (contents) کے تقابلی جائزے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا صرف ایک مختصر سا منفر علاقہ (حالات کی مختصر سی تعداد) ہے جہاں زندگی کی بقاء کی متعدد شرائط پوری ہورہی ہیں۔ یہ امر خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ (زندگی کے لئے) متعدد بنیادی شرائط، متنوع فیہ دباؤکے صرف ایک چھوٹے سے حصے میں پوری ہورہی ہیں !‘‘
کرۂ ہوائی کی یہ عددی قیمتیں صرف ہمارے سانس لینے کے لئے ہی ضروری نہیں ہیں بلکہ ہمارے نیلگوں سیارے کو نیلا رکھنے کے لئے بھی لازمی ہیں۔ اگر سطح سمندر پر ہوا کادباؤ موجود ہ سے خاصا کم ہوتا تو پانی کی تبخیر(vaporization) کا عمل بھی بہت تیز رفتار ہوجاتا۔ فضا میں پانی کی یہ اضافی مقدار ’’نبات خانے کے اثر‘‘ (گرین ہاؤس ایفیکٹ) کا باعث بنتی، یعنی فضا میں زیادہ حرارت جمع ہوجاتی اور زمینی درجہ حرارت بھی بڑھ جاتا۔ دوسری جانب اگر یہی دباؤزیادہ ہوتا تو عمل تبخیر میں کمی واقع ہوتی اور اس سیارے کا بڑا حصہ ریگستانوں میں تبدیل ہوکررہ جاتا۔
نہایت احتیاط اور خوبی سے متوازن یہ سارے نظام یہی ظاہر کرتے ہیں کہ کرۂ ہائی کو خاص طور پر اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ زمین پر زندگی وجود پذیر رہ سکے۔ یہ حقائق خود سائنس کے دریافت کردہ ہیں، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کائنات محض اتفاق سے وجود میں نہیںآئی تھی۔ بلا شبہ، اس کائنات کا ایک عظیم ترین خالق ہے جو اس پر حکمران ہے، جواپنی مرضی کے مطابق مادے کو ڈھالتا ہے اور کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں پر اسی کا حکم چلتا ہے جو اسی رب العزت کے تابع فرمان ہیں۔ قرآن جا بجا اس عظیم ترین ہستی، اللہ تعالیٰ کی قدرت و حاکمیت کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔
یہ نیلا سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں، لوگوں کے رہنے کے لئے خاص طور پر بنایا گیا اور ’’ہموار کیا گیا‘‘ہے جیسا کہ قرآن پاک کی سورۂ نازعات کی 30 ویں آیت میں آیا ہے۔ اسی حوالے سے دیگر قرآنی آیات بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں:
’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے جائے قرار بنایا اور اوپر آسمان کا گنبد بنادیا۔ جس نے تمہاری صورت بنائی اور بہت ہی عمدہ بنائی۔ جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا۔ وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے۔‘‘
(سورۃالمومن۔آیت64)
’’وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے تابع کررکھا ہے۔چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق۔ اسی (اللہ) کے حضور میں تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے‘‘۔
(سورۃ الملک۔ آیت 15)
زندگی کو ممکن بنانے والے توازن
اب تک جتنی چیزوں کا ہم نے تذکرہ کیا ہے وہ سب زندگی کے لئے لازمی حیثیت رکھنے والے چند نازک توازن ہیں۔زمین کا تجزیہ کرتے وقت ہم ’’زندگی کے لئے لازمی‘‘ ان اجزاء کی خاصی لمبی فہرست تیار کر سکتے ہیں۔ امریکی ماہر فلکیات ہیوگ راس نے اپنے طور پر ان کی ایک فہرست مرتب کی ہے:
سطح زمین پر قوت ثقل
اگر زیادہ مضبوط ہوتی: تو فضا میں بہت زیادہ امونیا اور میتھین جمع ہوجاتی۔
اگر کمزور ہوتی تو: سیارہ زمین کے کرۂ ہوائی میں بہت زیادہ پانی شامل ہوجاتا۔
مرکزی ستارے سے فاصلہ
اگر زیادہ ہوتا: تو پانی کا چکر جاری رکھنے کے لئے سیارہ بہت سرد ہوتا۔
اگر کم ہوتا: تو پانی کا چکر جاری رکھنے کے لئے سیارہ بہت گرم ہوتا۔
قشر ارض کی موٹائی
اگر زیادہ ہوتی:تو کرۂ ہوائی سے بہت زیادہ آکسیجن، قشر ارض میں منتقل ہوجاتی۔
اگر کم ہوتی:تو ارض حرکی (ٹیکٹونک) اور آتش فشانی سرگرمیاں بہت شدید ہوتیں۔
گردش کا دورانیہ
اگر طویل ہوتا: تو دن اور رات کے درجہ حرارت کا فرق بہت زیادہ ہوتا۔
اگر مختصر ہوتا:تو کرۂ فضائی میں چلنے والی ہواؤں کی رفتار بہت تیز ہوتی۔
چاند کے ساتھ دوطرفہ ثقلی عمل
اگر زیادہ ہوتا: تو سمندروں، کرۂ ہوائی اور گردشی دورانئے پر مدو جزر کے اثرات بھی بہت شدید ہوتے۔
اگر کم ہوتا: تو مدار میں موجود ٹیڑھے پن (obliquity) کے باعث ہونے والی تبدیلیاں ماحول اور موسموں کو غیر قیام پذیر(Unstable) بنا دیتیں۔
مقناطیسی میدان
اگر طاقتور ہو تا: تو برقی مقناطیسی طوفان بھی بہت شدید ہوتے۔
اگرکمزور ہوتا: تو ستاروں سے آنے والی ہلاکت خیز شعاعوں سے مناسب تحفظ فراہم نہیں کر سکتا تھا۔
البیڈو(سطح زمین تک پہنچنے والی مجموعی روشنی اور اس کی منعکس ہونے والی مقدار کی باہمی نسبت)
اگر زیادہ ہوتی: تو برفانی عہد مسلسل قائم رہتا۔
اگر کم ہوتی: تو شدید گرین ہاؤس ایفیکٹ رونما ہوتا۔
ہوا میں آکسیجن اور
نائٹروجن کا باہمی تناسب
اگر زیادہ ہوتا: تو ترقی یافتہ زندگی کے لئے درکار تعاملات بڑی تیز رفتاری سے ہوتے۔
کم تر ہوتا: تو ترقی یافتہ زندگی کے لئے درکار تعاملات نہایت سست رفتاری سے ہوتے۔
کرۂ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ
اور آبی بخارات کی مقداریں
اگر زیادہ ہوتیں : تو شدید گرین ہاؤس ایفیکٹ رونما ہوتا۔
اگرکم ہوتیں : گرین ہاؤس ایفیکٹ ناکافی ہوتا(یعنی زمین سرد رہتی)
فضا میں اوزون کی سطح
اگر زیادہ ہوتی: زمین پر درجہ حرارت بہت کم ہوتا۔
اگر کم ہوتی: تو سطح زمین کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا اور سطح تک الٹرا وائلٹ شعاعوں کی بہت بڑی مقدا ر ہر وقت پہنچ رہی ہوتی۔
زلزلیاتی سرگرمی (Seismic Activity)
اگر زیادہ ہوتی: تو زندگی کی بیشتر اقسام صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں۔
اگر کم ہوتی: تو دریائی بہاؤ کے ساتھ سمندری تہہ تک پہنچنے والے اہم غذائی اجزاء بازیافت (ری سائیکل) ہو کر چٹانوں میں اٹھان (Tectonic uplift) کی بدولت بر اعظموں میں پھر سے شامل نہ ہوتے۔
زندگی کے وجود اور بقاء کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم لازماً جن ’’ڈیزائن کے فیصلوں‘‘ (Design Desicisions) پر پہنچتے ہیں،مذکورہ بالا حقائق ان کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ تاہم یہ بھی اتنا ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ زمین کسی امکان کا، یا ’’اتفاقاً‘‘ ہونے والے پے درپے خوشگوار واقعات کا نتیجہ ہرگز نہیں۔
یہ اور ایسی لاتعداد تفصیلات بار بار ایک ہی سادہ اور واضح حقیقت کی تصدیق کر رہی ہیں: صرف اور صرف اللہ نے کائنات، ستاروں، سیاروں، پہاڑوں اور سمندروں(وغیرہ) کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ اسی ذاتِ پاک نے انسانوں اور دوسرے تمام جانداروں کو زندگی بخشی ہے اور اسی نے اپنی مخلوقات پر انسان کو خلیفہ مقرر فرمایا ہے۔ رحم اور طاقت کا اصل سرچشمہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے جو اپنے حکم سے کسی بھی شے کو عدم سے وجود میں لا سکتا ہے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی یہ تخلیقات کا ملہ اس طرح سے بیان فرماتا ہے:
’’کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اس کو بنایا اور اس کی چھت خوب اونچی اٹھائی۔ پھر اس کا توازن قائم کیا اور اس کی رات ڈھانکی اور اس کا دن نکالا۔ اس کے بعد زمین کو اسی نے بچھایا۔ اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ تم اور تمہارے مویشیوں کے لئے سامان زیست فراہم ہو۔‘‘
(سورۃ النازعات۔ آیات27تا33)
(بشکریہ ہارون یحی ترکی)
کائنات کی ایک بہت خوبصورت ویڈیو میں دیۓ گۓ لنک کے ذریعے دیکھیۓ- 
http://www.youtube.com/watch?v=fgg2tpUVbXQ&feature=related

https://youtu.be/ouGJpA865A8

ملحد فلاسفہ (ڈراون ازم  )اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر مذہبی عقیدے کے مطابق ، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا۔

ایک جدید ذہن کے لیے بھی یہ سوال اکثر ذہنی پریشانی کا سبب بنتا ہے کہ ہر چیز کا خالق ہے تو خدا کو کس نے تخلیق کیا۔ مگر فی الحقیقت اس سوال پر معمولی سے ہی غور و فکر سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس طرح کے سوالات  اصلا" منطقی مغالطوں پر مبنی ہیں ۔

 یہ سوال نہ صرف منطق کی نفی ہے کرتا ہے بلکہ مزید یہ کہ مذکوره اعتراض ایک کهلی تضاد فکری پر مبنی ہے ۔ یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں ، مگر خالق کو ماننے کے لیے وه ایک خالق کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ حالانکہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بهی بغیر خالق کے ممکن ہونا چاہیے۔اگر آپ خدا  کے خالق نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں تو پھر لامحالہ آپ کو کائنات کے وجود کا بھی کرنا چاہیے کہ آپ کے نزدیک اس کا کوئی خالق نہیں۔

جب کائنات کو بغیر کسی خالق کے مانا جاسکتا ہے تو پھر  خالق  کا وجود بھی بغیر خالق کے ماننا غلط نہیں ہونا چاہیے۔ عقلی اعتبار سے بھی ایک صاحب حکمت اور مدبر ہستی کو خالق ماننا زیاہ معقول ہے بنسبت اس کے کہ ہم بے شعور مادے کو  بغیر کسی خالق کے مان لیں۔
ہماری رائے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ 'ہر چیز' کا کوئی نا کوئی خالق ہے، درست بات یہ ہے کہ ہر مخلوق کا کوئی نہ  کوئی خالق ہے، خدا چونکہ 'مخلوق' نہیں ہے اس لیے اس کا کوئی خالق بھی نہیں ہے۔
اسی طرح خدا ڈیفائن کرنے والی ایک بنیادی صفت الصمد یعنی قائم بالذات اور خالق یعنی تخلیق کرنے والا ہے۔ جب اپنی تعریف میں ہی وہ اس کائنات کا خالق  ہے تو پھر  اس پر مخلوق ہونے کا سوال کیونکر کیا جاسکتا ہے؟
جب  یہ کائنات اتنی عظیم الشان ، بڑی اور وسیع ہے تو اس کائنات کا بنانے والا کس قدر عظیم ،طاقت والا اور قدرت والا ہوگا۔جس کو لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔

کائنات کی تخلیق میں اتنے معجزات پوشیدہ ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں کو دیکھ کر ایک انصاف پسند اور سلیم الفطرت انسان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اتنا منظم اور اعلی درجے کا نظام کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتا اور نہ کسی چلانے والے کی نگرانی کے بغیر چل سکتا ہے۔ سورۃ یونس آیت 101 میں فرمایا:
قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَمَا تُغْنِي الآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ (سورۃ یونس۔ آیت101)
'' اِن سے کہو'' آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو'' اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں۔''

نظریہ ارتقاء کو ماننے والے بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا نظریہ پیش کر کے زمینی مخلوقات میں اللہ تعالی کی نشانیوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن اس بات کا ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ زمین سے لاکھوں کلومیٹر دور سورج میں وہ تمام خوبیاں کیسے پیدا ہو گئیں جو زمین پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔مثلًا سورج کی کشش سمندر میں مدوجزد کا سبب بنتی ہے جس سے سمندری پانی متحرک رہتا ہے اور اس میں وہ بو اور سرانڈ پیدا نہیں ہوتی جو کھڑے پانی میں پیدا ہو جاتی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو سمندری پانی کی بو پوری زمین کو متعفن بنا دیتی ۔ پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) کا عمل سورج کی روشنی کے بغیر ممکن نہیں۔دنیا میں پیدا ہونے والی تمام خوراک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ضیائی تالیف کا نتیجہ ہے۔ سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ ریز کا ایک حصہ زمین کے درجہ حرارت کو مناسب سطح پر رکھتا ہے۔ انسانی آنکھ روشنی کے سپیکٹرم کے اس حصے کے لیے حساس ہے جو سورج سے آتی ہے۔سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین کی طرف پلٹتی ہے اور رات کے وقت اسے مکمل اندھیرے سے بچاتی ہے۔ سورج کا زمین سے فاصلہ(تقریبًا 150 ملین کلو میٹر) اتنا متناسب ہے کہ اگر تھوڑا زیادہ ہو تا تو زمین ٹھٹھر کر رہ جاتی اور دریا برف بن جاتے اور اگر کم ہوتا تو قطب شمالی اور جنوبی پر موجود برف پگھل جاتی اور ساری زمین زیرِ آب آ جاتی۔ 
فَبِاَيِّ آلَاء رَبِّكَ تَتَمَارَى (سورۃ النجم۔55)
''پس(اے انسان) تُو اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا۔''

ستاروں اور سیاروں کے مدار اتنی درستگی سے بنائے گئے ہیں کہ اگر ان میں چند ڈگری کا بھی فرق آ جائے تو کائنات ہل کر رہ جائے۔ ارب ہا ستارے کائنات میں گردش کر رہے ہیں لیکن ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں۔مقرر شدہ راستے سے ہٹتے نہیں۔اگر Antares ستارے کے حجم کے برابر کوئی ستارہ ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزر جائے تو اس کی کشش کی وجہ سے سارا نظام شمسی اس میں جا گرے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کوئی تو ہے جو لاکھوں اربوں سال سے زمین کی حفاظت کرتا چلا آتا ہے اور اسے اس طرح کی خلائی آفتوں سے بچا کر رکھتا ہے۔ کائنات میں پایا جانے والا توازن، اور اس میں پایا جانے والا نظم کسی خالق کے وجود کی خبردے رہا ہے۔ 

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴿1﴾ اللَّهُ الصَّمَدُ﴿2﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ﴿3﴾ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴿4﴾

آپ کہہ دیجئے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک [ہی] ہے۔ (1) اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ (2) نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وه کسی سے پیدا ہوا۔ (3)اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔ (4)    (سورة الإخلاص)

حصہ اول پڑھنے کے لئے لنک وزٹ کریں
http://dawatetohid.blogspot.com/2017/07/blog-post_79.html?m=1
حصہ دوم پڑھنے کے لئےلنک وزٹ کریں

http://dawatetohid.blogspot.com/2017/07/82.html

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...