Sunday 6 August 2017

تخلیق انسان اوّل

 

تخلیق انسان اوّل

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#89

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی نازل کردہ تعلیمات سے صرف نظر کرکے جب عقل ووجدان پر نظریات کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو قدم قدم پر انسان ٹھوکریں کھاتا ہے۔ 
انسان اول کون تھا؟ اس کی تخلیق کیسے ہوئی؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا تھا؟ اس نسل انسانی کا طرز ِزندگی کیا ہونا چاہیے؟
ان سوالات کا جواب تقریبا ہر تہذیب کے دانشوروں نے دینے کی کوشش کی ہے اور مختلف نظریات قائم کئے ہیں ۔تاریخ پر نظرڈالنے سے ایسے مضحکہ خیز نظریات سامنے آتے ہیں کہ انسانی عقل حیران ہوتی ہے کہ یہ اہل عقل ودانش عقل کی ہزاروں الجھی ہوئی گتھیاں سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر جب اس مسئلہ کو حل کرتے ہیں تو کوئی کہتا ہے کہ انسان حشرات میں سے تھا پھر ترقی کرکے یہ شکل اختیار کرلی۔ کوئی کہتا ہے کہ انسان شروع سے ایسے ہی چلا آرہا ہے ۔ پھر اپنے دعوؤں کو دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
قرآن کریم نے نہایت واضح اور غیر مبہم انداز میں کئی مقامات پر بتایا کہ انسانیت کا آغاز انسان ہی سے ہوا ہے اول انسان سیدنا آدم علیہ السلام تھے ان کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے مٹی سے پیدا کیا تھا حضرت آدم علیہ السلام سے یہ نسل انسانی چلی ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ:
خلق الانسان من صلصال کالفخاروخلق الجآن من مارج من نار(سورة الرحمن:13,14)
ترجمہ: ''اسی نے انسان کو مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی پیدا کیا اور جنات کو خالص آگ سے پیدا کیا''۔

قال اﷲ تعالیٰ:
واذ قال ربک للملٰئکة انی خالق بشراً من صلصال من حماٍ مسنون(سورة حجر:28)
ترجمہ: ''جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک بشر کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے سے بنی ہوگی پید اکرنے والا ہوں''۔
قال اﷲ تعالیٰ:
قال انا خیر منہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین(سورة الزمر:76)
ترجمہ: (ابلیس) کہنے لگا میں آدم سے بہتر ہوں آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اوران کو مٹی سے۔
اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی قدرت خاص سے ایسی مٹی سے پیدا کیا جو سخت کھنکھنا نے کی صفت رکھتی تھی اﷲ تعالیٰ نے اس مٹی کی تین صفات بیان کی ہیں۔
صلصال حماء مسنون
سوکھا گارا خمیر شدہ
بجنے والا سیاہ کیچڑ
اس کے علاوہ حضرت آدم علیہ السلام کا تذکرہ گیارہ سورتوں میں ملتا ہے مختلف اور لطیف انداز میں آپکا نام مبارک قرآن میں پچیس مرتبہ آیا ہے ۔
٭۔ سورة البقرہ آیت: 37,35,34,33,31
٭۔ آل عمران آیت: 59,33
٭۔ المائدہ آیت: 27
٭۔ الاعراف آیت: 172,35,31,27,26,19,11
٭۔الاسراء آیت: 70, 61
٭۔ الکہف آیت: 50
٭۔ مریم آیت: 58
٭۔ طٰہٰ آیت: 121,120,117,116,115
٭۔ یٰس آیت: 60
٭۔ حجرآیت: 33,26
٭۔ ص آیت: 74,71

ارتقائیِ نسلِ انسانی

جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لے آئے تو ان کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور سات دانے گندم کے پیش کیے حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا یہ کیا ہے انہوں نے کہا یہ وہی درخت ہے جس کے کھانے سے آپ کو منع کیا گیا تھا اور آپ نے کھالیے حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا اب میں ان کو کیا کروں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ اس کو زمین میں کاشت کریں یہ ایک لاکھ گُنا زیادہ ہوجائیں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام نے دانوں کو زمین میں بودیا وہ اُگ آئے پھر ان کو بھوسے سے الگ کیا پھر پیسا اور آٹا بناکر گوندھا اور پھر روٹی بنا کر کھائی یہ بہت مشقت والا کام تھا جنت میں تو بغیر کسی مشقت کے جو دل چاہتا تھا میسر آجاتا تھا دنیا میں یہ معاملہ نہ تھا اسی واقعہ کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ:
فلا یخر جنکما من الجنة فتشقی(سورة طٰہٰ :117 )
ترجمہ: (وہ ابلیس) تم دونوں کو جنت سے نہ نکلوادے پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔

اس قصہ کو صاحب البدایہ والنھایہ نے ذکر فرمایا ہے:
البدایہ والنھایہ : ان اول طعام اکلہ آدم فی الارض ان جاء ہ جبریل بسبع حبات من حنطة فقال ماھذا؟ قال: ھذا من الشجرة التی نھیت عنھا فاکلت منھا فقال! وما اصنع بھذا؟قال! ابذرہ فی الا رض فبذرہ وکان کل حبة منھا زنتھا ازید مں مائة الف فنبتت فحصدہ ثم درسہ ثم زراہ ثم طحنہ ثم عجنہ ثم خبزہ فاکلہ بعد جھد عظیم وتعب ونکد وذلک قولہ تعالیٰ! فلایخرجنکما من الجنة فتشقٰی۔(البدایہ والنھایہ: ص :147ح:1)
زمین پر آنے کے بعد طعام کا مسئلہ حل ہوگیا دوسرا بنیادی مسئلہ لباس کا تھا اﷲ تعالیٰ نے اس کا بھی انتظام فرمادیا سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے جو لباس استعمال کیا وہ بھیڑ کی اون کا تھا جسے حضرت آدم علیہ السلام نے کاتا تھا پھر اس کو بُنااور اپنے لئے جبّہ تیار کیا اور حضرت حوا علیھا السلام کیلئے اوڑھنی اور چادر تیار کی تھی۔
کمافی البدایہ والنھایہ: وکان اول کسو تھما من شعر الضان جزّاہ ثم غزلاہ فنسج آدم لہ جبّة و لحواء درعًا وخماراً(البدایہ والنھایہ: ص :147ح:1)
الغرض حضرت آدم علیہ السلام کو مختلف الصفات مٹی سے ایک خوبصورت پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں روح داخل کی گئی تو وہ گوشت پوست کے انسان ہوگئے اور عقل وہوش قوت وارادہ ' دیکھنے، بولنے، سننے سمجھنے اور چلنے پھرنے کے اوصاف کے مالک انسان بن گئے۔
تمام انبیاء علیھم السلام کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالی نے خاک سے پیدا کیا ہے ۔ 
ایک دفعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ افضل آدمی کون ہے انہوں نے دونوں ہاتھوں میں مٹی لی اور فرمایا کون سی افضل ہے؟ پھر اس کو ملادیا اور کہا تم سب برابر ہو مٹی میں سے پیدا کئے گئے ہو عزت اور اکرام کے قابل وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔
کماذکرہ فی الروح البیان:
سئل عیسیٰ علیہ السلام ایّ الناس اشرف فقبض قبضتین من تراب ثم قال ای ھذین اشرف؟ ثم جمعھما وطرحھما وقال! الناس کلھم من تراب واکرمھم عنداﷲ اتقاھم۔(تفسیر روح البیان:ج9ص91)
تخلیق حضرت حوا علیہا السلام
حضرت حوا علیہا السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت خاص کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا جیسا کہ صاحب جلالین ذکر فرماتے ہیں:
وفی التفسیر جلالین:
الذی خلقکم من نفس واحدة آدم وخلق منھا زوجھا حوا بالمد من ضلع من اضلاعہ الیسریٰ(تفسیر جلالین:ج1ص69)
حضرت آدم وحوا علیھما السلام زمین پر آباد ہوگئے انہی سے نسل انسانی کا آغاز ہوا حضرت حواکے بطن سے ایک حمل میں لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتے تھے پھر دوسرے حمل سے بھی ایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوتے تھے پہلے حمل کے لڑکے کی دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے شادی کردی جاتی اسی طرح دوسرے حمل کے لڑکے کا پہلے حمل سے پیدا ہونے والی بچی سے عقد کردیا جاتا اس طرح آبادیاں تیزی سے بڑھنے لگیں ویران اور بنجر زمینیں آبادیوں میں تبدیل ہونے لگیں ۔
کمافی البدایة:
وذکروا انہ کان یولدلہ فی کل بطن ذکر وانثی وامران یزوج کل ابن اخت اخیہ التی ولدت معہ والاخربالاخریٰ(البدایہ والنھایہ:ج1'ص138)
حضرت حوا علیھا السلام کے بطن سے ایک سو بیس حمل ہوئے جن میں ایک بچہ اور بچی ہوتی اول حمل سے جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام قابیل تھا اور اس کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی تھی اس کا نام قلیما تھا اور آخری حمل میں جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام مغیث تھا اور اس کی بہن کا نام ام مغیث تھا۔ اس تحقیق کو بھی صاحب البدایہ والنھایہ نے ذکر کیا ہے۔
کما فی البدایہ والنھایہ:
وقیل مائة وعشرین بطنا فی کل واحد ذکروانثی اولھم قابیل واختہ قلیما وآخرھم المغیث واختہ ام المغیث(البدایہ والنھایہ:ج1'ص153)
دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا جو بچے پیدا ہوتے ان کی آگے شادیاں کردی جاتیں ان کی آگے اولاد ہوتی پھر ان کا بھی عقد کرادیا جاتا چونکہ سارے نبی کی اولاد تھے توحید سے آشنا تھے اس لیے حضرت آدم علیہ السلام پرتشریعی احکام نازل نہیں ہوتے تھے بلکہ اس زمین کو آباد کرنے کے طریقے ان کوسکھائے جاتے۔حضرت آدم علیہ السلام جب اس دنیا سے رخصت ہوئے اس وقت اس دنیا کی آبادی تقریباً 4لاکھ تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کی بالواسطہ اولاد تھی ۔
کمافی البدایہ:
وقد ذکر اھل التاریخ ان آدم علیہ السلام لم یمت حتی رأی من ذریتہ من اولاد واولاد اولادہ اربعمائة الف نسمہ واﷲ اعلم(البدایہ والنھایہ:ج1'ص153)
شب و روز یونہی گزررہے تھے دنیا کی ویران زمینیں لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہورہی تھیں فرد سے قبیلے اور قبیلوں سے بستیاں تشکیل پا رہی تھیں نسل انسانی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور آبادیاں بنتی چلی جارہیں تھیں۔
یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ آگیا آپ پہلے تشریعی نبی ہیں آپ سے پہلے انبیاء تو آئے مگر کسی پر احکام شرعیہ نازل نہیں ہوئے بلکہ زمین کو آباد کرنا اور اس کے نظم وضبط اور خواص وغیرہ جن کا تعلق امور دنیا سے تھا ایسے احکام آتے تھے۔
حضرت نوح کے زمانے میں ہر سوجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا چکے تھے لوگ اپنے رب سے نا آشنا تھے کلمہ توحید ان کے لئے ایک اجنبی نعرہ بن چکا تھا حضرت نوح علیہ السلام نے جب ان کو کلمہ توحید کی طرف بلایا تو تمام لوگ یکسر آپ کے مخالف ہوگئے۔ علی الاعلان آپ کا انکار کرتے اور کہتے اگر تمہارا رب سچا ہے تو عذاب لے آؤ۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا جب ہم حکم دیں تو اپنے ماننے والوں کو لے کر اس میں سوار ہوجانا بالآخر قوم نوح پر عذاب کا وقت آگیا۔ نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ مع اپنے مصاحبین کے کشتی میں سوار ہوجاؤ۔
ان پر آسمان برس پڑا اور زمین نے بھی اپنے چشمے جاری کردیئے پوری روئے زمین پر پانی ہی پانی تھا سب صحرا وجنگل پہاڑوں اور وادیوں میں ہر طرف پانی کی لہریں تھیں۔ اس پانی نے سب کو ہلاک کردیا صرف وہی افراد بچ سکے جو حضرت سیدنا نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں تھے۔
وقتِ مقررہ تک پانی کی طغیانی رہی پھر جب اﷲ نے چاہا پانی اس زمین سے ختم ہوگیا آسمان بھی تھم گیا حضرت نوح علیہ السلام اپنے ساتھیوں کو لے کر زمین پر اترے پھر دوبارہ نسل انسانی زمین پر آباد ہونے لگی۔
لیکن صرف حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سے ہی نسل انسانی دوبارہ چلی باقی کشتی والوں میں سے کسی کے بھی اولاد نہ ہوئی اسی لئے نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کہا جاتا ہے کیونکہ انہی کے تین بیٹے سام' حام' یافث سے نسل انسانی چلی۔
ارشاد نبوی ۖ ہے:
عن سمرةعن النبی ۖ قال سام ابوالعرب وحام ابوالحبش ویافث ابوالروم۔(ترمذی:ج2'ص158)
ترجمہ: حضرت سمرہ نبی اکرم ۖ سے روایت کرتے ہیں ۔ سام عرب والوں کے باپ ہیں اور حام حبشہ والوں کے باپ ہیں اور یافث روم والوں کے باپ ہیں۔
ایک حدیث مبارک میں مزید وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان تین بزرگوں سے نسل انسانی کس طرح چلی ۔
ارشاد نبویۖ ہے:
عن ابی ہریرة قال! قال رسول اﷲۖ ولد لنوح سام وحام ویافث فولد لسام العرب وفارس والروم والخیر فیھم وولد لیافث یاجوج وماجوج والترک والسقالبہ ولا خیر فیھم وولد لحام القبط و البربر والسودان۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ جناب نبی اکرمۖ سے نقل کرتے ہیں۔ نوح علیہ السلام سے سام حام اور یافث پیدا ہوئے سام سے عرب وفارس اور روم پیدا ہوئے اور ان میں بھلائی قدرے زیادہ ہے اور یافث سے یاجوج ماجوج ترک اور سقالبہ والے پیدا ہوئے ان میں بھلائی نہیں ہے اور حام سے قبط وبربر اور سوڈان پیدا ہوئے ۔
غرضیکہ اقوام عالم کی تمام قومیں تمام بستیاں اور قبیلے اور شہر انہی کی نسل میں سے ترقی کرکے آباد ہوئے ہیں چین وعرب ہندو سندھ یا جوج ماجوج ترک وفارس تمام قومیں ' نسلیں 'قبیلے حضرت نوح علیہ السلام کے ان تین بیٹوں کی اولاد میں سے ہیں۔
قبیلوں اور بستیوں کا قیام
جب آبادیاں بڑھ گئیں تو لوگوں نے مختلف علاقوں کا رخ کیا مختلف جگہوں پر جاکر آباد ہوگئے ۔ حالات ' ماحول اور طبیعت کی وجہ سے بعض کا بعض سے مزاج مختلف ہوتا ہے
جس بزرگ سے جونسل چلی اس کی تمام اولاد اسی کی طرف اپنی نسبت کرنے لگی اسی طرح کوئی اپنے کو ہندی کوئی سندھی کوئی ترکی کوئی ایرانی وعربی کے لقب سے پکارنے لگا۔ یہی چیز ان کے باہم تعارف کا سبب بنی اﷲ جل شانہ قرآ ن پاک میں اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔
قال اﷲ تعالیٰ:
یایھاالناس انا خلقنٰکم من ذکر وانثی وجعلنٰکم شعوبًا وقبائل لتعارفوا(سورة الحجرات:13)
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد وعورت سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا یا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو۔
اﷲ جل شانہ نے بھی قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی شناخت کرسکو ایک دوسرے کوپہچان سکو اس لئے نہیں کہ تم ایک دوسرے پر فخر کرو یا متکبرانہ القاب لگا کر اتراتے پھرو۔
تمام انسان اور قبیلے ایک درخت کی شاخوں کی مانند ہیں جن کی جڑ ایک ہے تنا بھی ایک ہے جس سے مختلف قسم کی شاخیں پھر شاخوں سے بھی آگے شاخیں نمودار ہوئی ہیں۔
کمافی الروح المعانی:
لان القبائل تشعب منھا کتشعب اغصان الشجرہ وسمیت القبائل لانھا یقبل بعضھا علی بعض من حیث کونھا من اب واحد(تفسیر روح المعانی:ص90ج9)
ترجمہ: بلا شبہ ان تمام قبائل کی شاخیں درخت کی شاخوں کی طرح ہیں ان کا نام قبائل رکھا جاتا ہے اس لئے کہ ان میں سے بعض کو بعض اس حیثیت سے قبول کرتے ہیں کہ ان سب کا باپ ایک ہے۔
مختلف قبائل مختلف علاقوں میں آباد ہوتے گئے موسم 'حالات اور مزاج کے مختلف ہونے کی وجہ سے ان کے اندازِ بودوباش اور رہن سہن ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوگئے اس طرح دنیا میں مختلف کلچر رونما ء ہوئے اور یہ اٹل حقیقت ہے کہ انسان کی ابتداء انسان سے ہی ہوئی ہے جسے اﷲ جل شانہ نے پیدا فرمایا تھا انسان کسی بندر یا حشرات الارض سے ترقی کرکے اس طرح کا انسان نہیں بنا۔

نظریہ ڈارون یا نظریہ ارتقاء پر فی الحال بحث کو ذکر کرنا ہمارا موضوع نہیں ۔کیونکہ تفصیلی بحث سابقہ اقساط میں گزر چکی ہے۔
یہاں پر میں اس نظریے کی چند خامیاں ذکر کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔جس سے اس کا غلط ہونا واضح ہو جائے گا ۔
٭ اس نظریے کو نام دیا جاتا ہے ''ارتقائی''کا یہ نام دینا ہی غلط ہے کیونکہ ڈارون نے توفطرت کے مشاہدے سے صرف یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس میں تبدیلیاں رونماء ہوتی رہتی ہیں۔ تبدیلیاں رونماء ہونے کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ۔
1۔ چیز اپنی اصل حالت سے ترقی کرکے اس سے اچھی حالت اختیار کرلے۔
2۔ اپنی اصل حالت کو بھی برقرار نہ رکھ سکے اور اس اصل سے بھی کوئی بری حالت میں چلی جائے۔
جب اس نظریے میں ترقی اور تنزلی دونوں امکان ہیں تو انسان کے لیے ایک امکان کو ترجیح دینے کی کیا وجہ ہے؟اوراس نظریے کا نام ارتقاء صرف ترقی کی جہت کو دیکھ کر رکھ دیا گیا۔ اور یہ لفظ اپنی ذاتی کشش کی وجہ سے عوام میں مشہور ہوگیا۔
٭ کہا جاتا ہے کہ انسان شروع شروع میں بندر تھا پھر اس کی کمر کی ہڈی تھوڑی سیدھی ہوئی پھر ایک لمبا زمانہ گزرنے کے بعد کچھ اور سیدھی ہوگئی پھر ایک طویل عرصہ بعد کچھ اور سیدھی ہو گئی اور آخر کار اس کی کمر کی ہڈی جسے ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے بالکل سیدھی ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ دنیا میں مختلف جگہوں سے کھدائی کے دوران زمانہ قدیم میں ہلاک ہوجانے والے لوگوں کی ہڈیوں کے ڈھانچے ملتے ہیں جن کے ڈھانچے بالکل موجودہ انسان کے ڈھانچے کی طرح ہوتے ہیں اگر انسان بندر سے بنا ہے تو بندر اور انسان کے درمیان جو منزلیں انسان نے طے کی ہیں اس کا ایک ڈھانچہ بھی آج تک کسی کو نہیں ملا حالانکہ ان ڈھانچوں کی تعداد موجودہ انسانی ڈھانچوں سے پانچ گنا زیادہ ہونی چاہئے تھی کیونکہ ایک تبدیلی سے دوسری تبدیلی کے درمیان نامعلوم ہزاروں صدیوں کا فاصلہ ہوگا۔ مگر آج تک کوشش کے باوجود ان کو انسان اور بندر کے درمیانی حالتوں کا ایک نمونہ بھی نہیں مل سکا۔
٭ اگر واقعی یہ بات ہے کہ انسان روز بروز ترقی کرتا ہوا اس شکل تک پہنچا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہزاروں سال سے اس نے موجودہ شکل سے آگے ترقی کیوں نہیں کی۔ 
صدیوں سے انسان کی خواہش ہے کہ وہ ہوا میں اڑ سکے مگر آج تک اس کے پر نہیں نکلے انسان جس طرح اپنے سامنے کی چیزوں کو دیکھنا چاہتا ہے اسی طرح اس کی خواہش ہے کہ اس کے پیچھے جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بھی اس کو خبر ہو۔اور وہ چیزوں کو دیکھ سکے مگر آج تک کسی کی بھی ایک آنکھ پیچھے نہیں لگی ۔
معلوم ہوا کہ یہ ارتقاء کا نظریہ محض اہل مغرب کا دماغی خلل ہے جس کا حقیقت سے کچھ واسطہ نہیں ۔ جب انسان وحی کے علوم سے نظر پھیر کر نظریات کی بنیاد عقل اور وجدان پررکھتا ہے تو ایسی ہی ٹھوکریں کھاتا ہے۔
(ماخوذ از تعارف تہذیب مغرب اور فلسفہ جدید)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...