Friday 25 August 2017

روح، روحانیت، روحانی خواص و اثرات اور انرجی کا حصول​

روح، روحانیت، روحانی خواص و اثرات اور انرجی کا حصول​

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#96

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اللہ تعالی نے اس دنیا کا نظام اَسباب و علل کے ساتھ مربوط کر دیا ہے، تاہم اپنی قدرت کے اظہار کیلیے بعض اوقات اللہ تعالی کوئی ایسا معاملہ ظاہر فرما دیتے ہیں جو اس کائنات کے نظام کار اور اس کے اسباب و علل سے ماوراء ہوتا ہے، اسے معجزہ کہتے ہے اور یہ نبیوں اور رسولوں کے ہاتھوں ظاہر ہوتا ہے
مثلاً حضرت صالح علیہ السلام کیلیے اللہ تعالی نے پہاڑ سے زندہ اونٹنی نکال دی، حالانکہ اونٹ پہاڑوں سے پیدا نہیں ہوتے۔
"حضرت ابراہیمؑ بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے اور آگ گل زار بن گئی۔
"حضرت عیسیٰ ؑ نے ایسی عمر میں کلام کیا جس عمر میں بچے کلام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
"حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج
کا خصوصی اعزاز اور امتیازی معجزہ عطا فرمایا وغیرہ وغیرہ ۔
اور اگر معجزات سے ملتی جلتی کوئی چیز کسی نیک شخص کے ہاتھوں ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہے ، کوئی ولی اپنی کوشش سے اسے حاصل نہیں کر سکتا ۔جس کا مقصد اسکی تائید یا اسکی مدد یااسے ثابت قدم رکھنا یا دین کی مدد کرنا ہوتا ہے ۔
امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اہلسنت والجماعت کے عقیدے میں ولیوں کی کرامت کی تصدیق بھی داخل ہے۔ (عقیدۃ الواسطیہ)
گویا کرامت بھی اسباب و علل سے ماوراء ہوتی ہے اور یہ بھی اللہ کے حکم سے ظاہر ہوتی ہے، وگرنہ کوئی نیک بندہ اگر یہ چاہے کہ میں جب چاہوں، کوئی نہ کوئی کرامت ظاہر کر دوں تو یہ اس کیلیے ممکن ہی نہیں ہے۔ انبیاء سے بھی لوگ مطالبے کیا کرتے تھے کہ کوئی معجزہ ظاہر کریں تو انبیاء ان کو جواب میں یہی کہا کرتے تھے کہ
قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ
{سورہ ابراہیم: 11}
"ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے، اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزہ تمہیں لا دکھائیں۔"

مادہ پرست لوگ معجزات و کرامات کو تسلیم نہیں کرتے، ان کے بقول کائنات کی ہر چیز اسباب و علل کے ساتھ مربوط ہے۔ جب اسباب و علل کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا تو کائنات خود ہی تباہ ہو جائے گی، گویا ان کے بقول کائنات کا سارا نظام اسباب و علل کی بنیاد پر خود بخود چل رہا ہے، اسے چلانے والی کوئی مقتدر ہستی موجود نہیں۔ بعض کے بقول کائنات کو پیدا تو اس ذات نے کیا ہے جسے اللہ، خدا God یا ایشور وغیرہ کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے، تاہم اس نے کائنات بنا کر اسباب و علل کا تعین کر دیا اور اس کے بعد یہ نظام از خود چلتا چلا جا رہا ہے۔ گویا کائنات بنانے کے بعد وہ خدا اس کائنات سے ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں وہ اتنا بے اختیار ہو گیا ہے کہ اپنے ہی بنائے ہوئے نظام میں ذرا سی تبدیلی یا کمی بیشی بھی اب نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔نعوذ باللہ

ظاہر ہے یہ سب غیر اسلامی تصورات ہیں اور حقیقت حال یہ ہے کہ کائنات اللہ تعالی نے پیدا کی ہے، اس کا نظام بھی وہی چلا رہا ہے، اسے اسباب و علل کے ساتھ بھی اسی نے مربوط کر رکھا ہے لیکن وہ ان اسباب و علل کا محتاج نہیں بلکہ وہ جب اور جہاں چاہے، اسباب و علل کے قانون کو توڑ سکتا ہے۔ بہت سے مواقع پر وہ ایسا کرتا بھی ہے۔ مگر وہ ایسا کیوں کرتا ہے، اس کی ذات سے یہ سوال کرنے کے ہم مجاز ہی نہیں، تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ حکیم و دانا بغیر کسی حکمت کے ایسا نہیں کرتا۔ بعض حکمتیں ہمیں سمجھ آ جاتی ہیں اور بعض سمجھ نہیں آتیں، مثلا معجزات کے سلسلے میں ایک حکمت یہ سمجھ آتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی قوت و طاقت اور اپنے نبیوں کی صداقت ظاہر کرتا ہے، نیز ان لوگوں کو اپنی ذات کا وجود منواتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات کا نظام خود بخود چل رہا ہے۔ بہر حال اس کے کام کی کوئی حکمت ہمیں سمجھ آئے یا نہ، ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس حقیقت کو ماننا چاہیے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے۔

مادہ پرستوں سے متاثر بعض مسلمان بھی معجزات کے حوالے سے عجیب و غریب توجیہات کرتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح انہیں اسباب و علل کے ساتھ مربوط کر دکھائیں۔ یہ رویہ صرف مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ یہود و نصاری کے ہاں بھی پایا جاتا ہے، اس لیے کہ یہود اور عیسائی جن پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، ان میں سے بعض کے ہاتھوں اللہ تعالی نے معجزات بھی ظاہر کیے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت داود، سلیمان، موسی، عیسی علیہ السلام واجمعین وغیرہ  کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
جو لوگ معجزات و کرامات کو اسباب و علل کے تابع قرار دینے پر مصر ہیں، ان کے بقول انبیاء کے ہاتھوں جو معجزے ہوئے، وہ مافوق الفطرت کام نہیں تھے بلکہ ہر انسان توجہ، محنت اور کوشش سے ویسے ہی بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ اسے وہ ذہنی طاقت، اور بقول بعض 'روحانیت' کا کمال کہتے ہیں،یہی حال آج کال نام نہاد صوفی اور مراقبہ حال سجانے والے خواجہ عظیمیوں اور روحانی عاملوں کا ہے، بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک دعوی کر ڈالا کہ"انبیاء نے معجزات پیش کیے، وہ دراصل یہ دکھانے کیلیے تھے کہ ہر انسان میں ایسی مخفی طاقتیں موجود ہیں جن کی مدد سے بلاتفریق مذہب انسان بڑے بڑے کام کر سکتا ہے۔"
{دیکھیے: روحانیت، دانش اور حقیقتیں، از: قمر اقبال صوفی، اورینٹل پبلی کیشنز}

بعض غیر مسلم فلاسفہ کے بقول اس کائنات کا نظام ایک مخفی قوت یا غیر محسوس انرجی چلا رہی ہے اور یہ انرجی کائنات کی ہر چیز میں نفوذ کیے ہوئے ہے۔ اس لیے کائنات کی ہر چیز سے مخفی طاقت نکل رہی ہے اور خود انسان میں بھی کئی ایک مخفی طاقتیں موجود ہیں۔ ان مخفی طاقتوں کے حصول کیلیے مختلف ادارے بنائے گئے ہیں جیسا کہ مشہور عظیمی سلسلہ جنہوں نے مراقبہ حال تیار کیے رکھے ہیں جن میں انسانوں کی ان مخفی طاقتوں کو بیدار کرنے کیلیے عجیب و غریب کورسز کرائے جاتے ہیں۔ یہ بات اب غیر مسلم ہی نہیں، بہت سے مسلمان بھی کرنے لگے ہیں۔ پاکستان میں بھی بعض ایسے ادارے موجود ہیں جہاں انسانی توانائی کو مرتکز کر کے اس سے عجیب و غریب کام لینے کی صلاحیت بیدار کرنے کی کوششیں کرائی جاتی ہیں۔
ان اداروں میں بعض وہ ہیں جو اپنے آپ کو غیر مذہبی باور کراتے ہیں اور اپنے طریق کار کو سائنٹفک کرار دیتے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ ان کے نزدیک انسان اپنی توانائی سے کام لے تو وہ ہر طرح کی 'کرامتیں' ظاہر کر سکتا ہے۔ جب کہ بعض مذہب اور روحانیت کی آڑ میں یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ دونوں طرح کے اداروں میں ایک بنیادی نکتہ اعتراض اختلاط مرد و زن اور نماز وغیرہ جیسی اہم عبادات سے لاپرواہی ہے اور قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں طرح کے ادارے انسان کی مخفی طاقتوں کو بیدار اور متحرک کرنے میں مصروف ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک اسے 'انرجی' قرار دیتا ہے اور دوسرا 'روحانیت'۔

یہاں آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ جن اداروں میں لمبے مراقبے کروائے جائیں اور نمازیں بھی ان کی نذر کر دی جائیں، ستر و حجاب کی حدود کا کوئی خیال نہ رکھا جائے تو وہاں کون سی مخفی طاقت اور روحانیت بیدار کی جاتی ہوگی۔ {یہ صرف تجزیاتی سوال ہے، باقی مراقبہ اور چلہ کشی پر مزید بات کرنا فی الحال ہمارے موضوع سے قاصر ہے۔اس کی مکمل تفصیلات کیلئے راقم الحروف کی تالیف:"رزق میں فراخی مشکلات کا حل"مولف عمران شہزاد تارڑ میں تفصیل سے مذکور ہے}
مسلمانوں میں بہت سے صوفیاء کے ہاں یہ تصور پایا جاتا رہا ہے کہ انسان ریاضتوں، مجاہدوں اور وظیفوں کے ساتھ ایسی طاقت حاصل کر سکتا ہے کہ وہ جب چاہے، عجیب و غریب کرشمے ظاہر کر سکتا ہے۔ غیب کے پردے اس کی باطنی نظر کے سامنے ظاہر کر دیے جاتے ہیں اور وہ ماضی، مستقبل اور قسمت سے متعلقہ تمام غیبی معلومات حاصل کر لیتا ہے۔ بعض صوفیاء کے بقول اس مقصد کیلیے از خود محنت کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ کسی عامل، پیر، مرشد کو تلاش کرے اور اس کی خدمت کیلیے اپنے آپ کو وقف کر دے۔ اس طرح پیر و مرشد کی محض نظر و کرم سے یہ روحانی طاقت اسے حاصل ہو جائے گی۔

روحانی طاقت حاصل کرنے کیلیے صوفیاء کے ہاں ورد اور ریاضتیں مخصوص ہیں۔ یہ ورد متعین تعداد اور مخصوص طریق کار کے ساتھ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اپنی مرضی سے کام لینا اس راہ میں قابل گردن زنی قرار پاتا ہے۔ اور بار ہا یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی وظیفہ استاد کے بغیر نہ پڑھیں، ورنہ الٹا پڑ جائے گا۔ عامل، پیر وغیرہ حضرات اپنے شاگرد کو مخصوص عمل بتاتے اور اور خاص اوقات میں وہ عمل پیر و مرشد کی نگرانی اور حکم پہ کیا جاتا ہے۔ ان میں اس طرح کی باتیں مشہور کی جاتی ہیں کہ فلاں نے بغیر استاد کے فلاں قرآنی دعا یا مسنون وظیفہ پڑھا، مگر اس کے باوجود اس پر الٹ اثر ہو گیا۔ حالانکہ اگر وہ قرآنی دعا تھی تو اسے پڑھنے سے الٹا اثر کیسے ہو سکتا ہے، کیا قرآن کریم اپنے پڑھنے والوں کیلیے شفاء ہے یا الٹا اثر کرتا ہے....؟؟؟

اسی طرح جن وظائف و اذکار کی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین کی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ انہیں پڑھنے کیلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مزید کسی کی تصدیق یا اجازت کی ضرورت باقی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

روحانی اثرات کی منتقلی
روحانیت کے نام پر عجیب و غریب خرافات دکھانے والوں کے ہاں یہ بھی مشہور ہے کہ ایک شخص اپنی روحانیت دوسرے میں منتقل کر سکتا ہے اور جس میں روحانیت منتقل ہو جائے وہ بھی اس طرح کی روحانی طاقت حاصل کر لیتا ہے جو روحانیت منتقل کرنے والوں میں موجود ہوتی ہے۔ جو کہ وسواس اور فلسفہ نگاری کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ نفسیاتی علوم کے ماہر اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ ڈھونگ کتنی حیثیت رکھتا ہے۔

اشیاء کے روحانی خواص و اثرات کی حقیقت
یہ لوگ انسانی روحانی اثرات کی طرح دیگر مادی اور غیر مادی اشیاء کے اثرات کے بھی قائل ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے بقول مختلف پتھروں، ناموں، تعویذوں، کڑوں، دھاگوں،انگوٹھیوں،کڑوں اور موتیوں وغیرہ کے بھی روحانی اثرات ہوتے ہیں۔
یہ لوگ اللہ کی بجائے ان چیزوں پر توکل کر بیٹھتے ہیں حالانکہ ان چیزوں میں سے کسی چیز میں کوئی اثر ہو سکتا ہے تو اس کا مادی اثر ہو سکتا ہے جیسے نمک، کوئلے اور دیگر چیزوں کے مادی خواص ہوتے ہیں اور وہ بھی سائنٹفک ریسرچ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کون سے طبعی و مادی اثرات پائے جاتے ہیں اور انسان ان سے کیا کیا مادی فوائد حاصل کر سکتا ہے، مگر ان میں ایسے کوئی روحانی اثرات نہیں پائے جاتے جو نام نہاد عامل باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص ان چیزوں کا نفسیاتی اثر لے لیتا ہے جیسا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں فلاں کڑا، یا مالا، یا دھاگا ،یا پھتر  پہن کر رکھوں تو میرے کام آسانی سے ہوتے ہیں اور اگر اتار دوں تو رکاوٹیں آنے لگتی ہیں۔ یہ اس کا وہم اور نفسیاتی اثر ہے، حقیقت نہیں ہے۔
جو لوگ اللہ پر توکل کرنے کی بجائے ان کڑوں، پتھروں، نگینوں، تعویذ گنڈوں،گیدڑ سنگھی وغیرہ پر توکل کرتے ہیں، ان کا عقیدہ سخت خطرے میں ہے۔
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے پیتل کا کڑا پہن رکھا تھا۔ آپ نے پوچھا: یہ کیا؟ اس نے کہا: یہ کمزوری کے علاج کیلیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اسے اتار دو، یہ تو کمزوری کے علاج کی بجائے اسے اور بڑھائے گا اور اسے پہنے ہی تم مر گئے تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے"
{مسند احمد، ج 4، ص445۔۔ابن حبان، ج 7، ص628۔۔الحاکم، ج4، ص216}

انسانی روح اور اس سے کام لینے کی حقیقت
انسانی جسم دو چیزوں سے مرکب ہے یعنی روح اور بدن۔ جب تک ان دونوں چیزوں کا اتصال رہتا ہے، انسان زندہ رہتا ہے اور جب روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے تو انسان کو موت آجاتی ہے۔
یہ روح کیا ہے؟ اس کے بارے میں ہمیشہ بڑے اختلاف رہے ہیں۔ البتہ روح کے حوالے سے یہ بات تو اب سبھی مانتے ہیں کہ انسان کے مادی و محسوس جسم کے اندر ایک غیر مادی چیز موجود ہے جس سے انسانی زندگی قائم ہے اور یہی روح کہلاتی ہے۔
'روح' عربی زبان کا لفظ ہے اور کئی معانی میں استعمال ہوا ہے، ایک تو یہ جان کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اس کا معروف معنی ہے۔ اس کے علاوہ یہ لفظ قرآن، جبریل، قوائے بدن وغیرہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اسلامی لٹریچر میں روح سے ملتا جلتا ایک اور لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور یہ ہے 'نفس'/ لفظ نفس کا استعمال 'روح'[جان] دل، ذات [وجود] کیلیے ہوتا ہے، اسی طرح اسے اگر 'ف' کی فتح کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر اس کا معنی ہے: سانس، جھونکا، گنجائش، مہلت اور کشادگی و فراخی۔وغیرہ
{دیکھیے: کتب الغات، بذیل مادہ 'نفس'}
معلوم ہوا کہ عربی لٹریچر میں انسانی جان کیلیے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: 1۔ روح اور 2۔ نفس۔ بعض اہل علم نے ان دونوں سے ایک ہی چیز [یعنی انسانی جان] مراد لی ہے، جبکہ بعض کی رائے یہ ہے کہ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور وہ اس طرح کہ روح سے مراد تو وہ انسانی جان ہے جس سے زندگی قائم رہتی ہے جب کہ نفس سے مراد وہ غیر مرئی چیز ہے جس سے انسانی شعور قائم رہتا ہے۔
اس دوسری رائے کو بعض لوگوں نے اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ روح اور نفس دونوں سے مراد ایک ہی ہے یعنی 'جان'۔ یا اردو محاورے کے مطابق 'روح'۔ البتہ اس جان یا روح کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جو نیند کے وقت نکلتی ہے اور خواب میں گھومتی پھرتی نظر آتی ہے، البتہ ہوش و حواس قائم ہوتے یا بیدار ہوتے ہی یہ پلٹ آتے ہے اور دوسری وہ جو موت کے وقت نکلتی ہے اور پھر واپس نہیں آتی۔ جن لوگوں نے نفس اور روح میں فرق کیا یا روح کی دو قسمیں قرار دیں، ان کا استدلال قرآن مجید کی اس آیت سے ہے:
اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ
''اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آتی، انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے۔ پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہوتا ہے، انہیں تو روک لیتا ہے اور دوسری [روحوں] کو ایک مقرر وقت تک کیلیے چھوڑ دیتا ہے''
{سورہ الزمر: 42}

اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے جن اہل علم نے نفس اور روح کو دو چیزیں قرار دینے کی بجائے یہ نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ روح کی دو قسمیں ہیں، ان کے اس موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ
''آیت مذکورہ سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:
1۔ یہ آیت اس بات پر سب سے بڑی دلیل ہے کہ روح کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ قسم ہے جو ہر دم انسان کے بدن میں موجود رہتی ہے اور دوسری وہ جو خواب میں جسم سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔
2۔ جاگتے میں یہ دونوں قسم کی روحیں یا روح کے ہر دو جز انسان میں موجود رہتے ہیں۔
3۔ روح کو قبض کرنا یا موت دینا صرف اللہ تعالی کے بس میں ہے۔ اگر وہ خواب کے دوران روح نفسانی کو قبض کر لے تو بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔
4۔ بیداری کی حالت پوری زندگی اور خواب کی حالت نیم زندگی کی کیفیت ہے جس میں کچھ صفات زندگی کی پائی جاتی ہیں اور کچھ موت کی۔ گویا یہ کیفیت موت و حیات کے درمیان برزخی حالت کی مظہر ہوتی ہے۔"
{روح، عذاب قبر اور سماع موتی، از عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ ، ص15}
روح سے متعلقہ مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے:
1۔ بعض اہل علم اس آیت سے دو طرح کی روحیں مراد لیتے ہیں۔
2۔ بعض اہل علم اس آیت سے دو طرح کی روحیں مراد لینے کی بجائے ایک کو نفس اور دوسری کو روح قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک نفس اور چیز ہے اور روح اور چیز۔
3۔ جب کہ بعض اہل علم نفس اور روح کو ایک ہی چیز قرار دیتے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ عقیدہ طحاویہ کے شارح علامہ ابن ابی العز کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔
{شرح العقیدہ الطحاویۃ، ص394}
4۔ بعض اہل علم دو روحوں کے تصور کو درست قرار نہیں دیتے، ان کے نزدیک انسان کے جسم سے جو چیز حالت نیند میں قبض کی جاتی ہے وہ جان [روح] نہیں بلکہ ہوش ہے جیسا کہ مولانا مودودی زیر نظر آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''نیند کی حالت میں روح قبض کرنے سے مراد احساس و شعور، فہم و ادراک اور اختیار و ارادہ کی قوتوں کو معطل کر دینا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس پر اردو زبان کی کہاوت فی الواقع راست آتی ہے کہ سویا اور مرا ہوا برابر۔"
{تفہیم القرآن، از مولانا مودودی، ج4، ص375}

رہبانیت کا طریق کار
ان لوگوں کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام علم توجہ اور علم استخصار روح {سپریچیولزم} سے شروع کرتے ہیں۔ جس طرح ایک مسمریزم کا ماہر عامل معمول پر اپنی توجہ ڈال کر جن حاضر کرتا اور اس سے کئی طرح کی خبریں حاصل کرتا ہے یا ایک جن نکالنے والا کچھ آیات قرآنی یا جنتر منتر پڑھ کر جنوں کو حاضر کرتا ہے اور ان کاموں کیلیے پہلے چِلہ کشی اور ریاضت کی جاتی ہے۔ بعینہ یہی طریق ان لوگوں نے اختیار کیا۔ ایسے اعمال و افعال سے تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔

1۔ پیکر محسوس، جو غیب کے پردے میں نہ ہو، جیسے مسمریزم کرنے والے عامل کے سامنے معمول ہوتا ہے اور جن نکالنے والے پیر کے سامنے مریض۔
2۔ توجہ خواہ یہ ظاہری آنکھ کی کش سے ہو یا قلبی ہو جسے عرف عام میں توجہ، قلبی دباو، مراقبہ یا ہندی میں گیان دھیان یوگا وغیرہ کہتے ہیں۔

3۔ عزم راسخ یا عقیدہ

پیکر محسوس خواہ کوئی جاندار شے ہو یا بے جان۔ جب اس کے متعلق کوئی عقیدہ قائم کر کے مراقبہ کیا جائے گا تو اس کے اثرات حسب پختگی عقیدہ مرتب ہونے شروع ہو جائیں گے۔ ایسے اعمال و افعال سے جہاں انسان نے جنوں کو حاضر کر کے ان سے غیب کی خبریں حاصل کیں۔ وہاں ان سے حسب ضرورت کام بھی لیا۔ انسان کی اس طرح سے حاصل شدہ معلومات کو تصوف کی اصطلاح میں کشف {1} یا مکاشفہ کہا جاتا ہے۔
انسان نے اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق ان جنوں(جنات) کو قابو کرنے کیلیے کئی قسم کے اوراد اور جنتر منتر بھی دریافت کر لیے اور ان کو مسخر کر کےکئی قسم کی شعبدہ بازیاں دکھانا شروع کیں۔ ایسے طریقہ کو عام طور پر''رجال الغیب'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...