Wednesday 31 May 2017

سیکولرازم،اور دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز


سیکولرازم،اور دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب،#17۔
(تالیف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان )

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور وکی پیڈیا کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے لفظ “سیکولرازم” متعارف کرانے والا برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوٹ 1817-1906 تھا۔ جارج جیکب عیسائیت سے شدید متنفر تھا۔ وہ عیسائیت کے مذہبی عقائد کو خلاف فطرت ، خلاف عقل اور مضحکہ خیز کہتا تھا۔1846 میں ایک لیکچر کے دوران کسی نے اس سے سوال کیا کہ کیا آپ نہیں مانتے کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے اور اس کی نجات عیسیٰ علیہ السلام کو خدا ماننے پر موقوف ہے؟

اس کے جواب میں جارج جیکب ہولیوٹ نے انتہائی تمسخرانہ انداز اختیار کیا اور کہا کہ آدم کے گناہ کی سزا ہمیں کیوں ملے؟ جبکہ آدم نے نہ مجھ سے مشورہ کیا تھا اور نہ میری بیوی سے اور نہ میرے ماں باپ سے پوچھ کر پھل کھایا تھا۔

(واضح رہے کہ عیسائیت کا عقیدہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے جنت میں پھل کھا کر گناہ کیا جس کی سزا تمام انسانوں کو ہمیشہ ملتی رہے گی اور جو بھی بچہ پیدا ہوگا وہ پیدائشی گنہگار ہوگا۔ یہ واقعی ایک غلط اور خلاف عقل عقیدہ ہے۔ جبکہ اسلام کے مطابق آدم علیہ السلام کا عمل صرف ان کی ذات تک تھا اور پیدا ہونے والا ہر بچہ گنہگار نہیں بلکہ “معصوم” ہوتا ہے)

چنانچہ عیسائیوں کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے جارج جیکب کو چھ ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا اور اس پر بدترین تشدد کیاگیا۔

جیل سے واپسی پر اس نے مذہب کی کھلم کھلا مخالفت ترک کرکے اپنا انداز تبدیل کردیا۔

اس نے مذہب کے مخالف افکار کو بیان کرنے کے لیے ایک نیا لفظ استعمال کرنا شروع کیا اور یہ لفظ تھا “سیکولرازم”۔

یہ لفظ بذات خود مذہب مخالف ہے۔ مشہور مذہبی عقیدہ ہے (جس پر اسلام ، عیسائیت اور یہودیت تینوں متفق ہیں) کہ اللہ تعالیٰ وقت اور جگہ کی قید سے ماورا ہےجبکہ انسان وقت کا بھی پابند ہے اور جگہ کا بھی۔ دوسری طرف پادریوں نے بے چارے عیسائیوں پر قسم قسم کی پابندیاں عائد کررکھی تھی کہ اگر تم خدا کے قریب جانا چاہتے ہو تو تمہیں دنیا ترک کرکے راہبانیت اختیار کرنا پڑے گی ورنہ راہبوں کی خدمت کرنی پڑے گی اور ان کی ہر بات کو خدا کا حکم سمجھ کر قبول کرنا پڑے گا۔

مذہب مخالف طبقات جو انسان کی محدود زندگی سے خدا کا عمل دخل ختم کرنا چاہتے تھے ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ خدا وقت اور زمانے سے ماورا ہے جبکہ انسان “سیکولارس” ہے۔ سیکولارس قدیم لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “وقت کے اندر محدود”۔ چونکہ انسان نہ خدا کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ اپنی محدود زندگی میں اس تک پہنچ سکتا ہے اس لیے کم ازکم وہ زمین پر اپنی محدود زندگی تو آزادی سے گزارے۔چنانچہ اسے چاہیئے کہ خدا کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج کرکے صرف ایک فلسفہ سمجھے اور وقت کی قید کے اندر اپنی زندگی بھرپور آزادی سے گزارے۔اس فلسفے کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔

اگر ہم غیرجانبداری سے تجزیہ کریں تو ہم کہیں گے 

1620-1704 میں ہونے والا فلسفی سرجان لاک (John Lock)سچا تھا، جس نے لبرل ازم کے تحت خدا کے انکار کا تصور دیا تھا

جارج جیکب ہولیوٹ 1817-1906 بھی ٹھیک کہتا تھا۔ جس نے سیکولر ازم کا فلسفہ پیش کیا۔

اور ان کے علاوہ مذہب مخالف افکار اس زمانے میں بالکل درست تھے،آدم سمتھ ، جان سٹیوارٹ مل، ٹی ایچ گرین، جان ملٹن وغیرہ یہ لوگ بغاوت پر مجبور تھے۔ان کے پاس کوئی اور رستہ ہی نہیں تھا۔ مذہب کی الہامی تعلیمات بری طرح مسخ ہوچکی تھیں۔ مذہب پادریوں کے ہاتھوں اپنی اصل شکل کھو بیٹھا تھا۔صرف روحانیت کے شعبے میں ادھوری راہنمائی کے علاوہ انسان کی زندگی سے مذہب مکمل طور پر خارج ہوچکا تھا۔اگر مذہب اپنی الہامی تعلیمات سے منحرف ہوجائے تو ایسی ہی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔

انسان کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کا عیسائیت کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا۔انسان کے سوچنے پر پابندی تھی اور جو زیادہ سوچتا اسےحوالہ زنداں یا پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔

انقلاب فرانس 1792کے بعد جب سیکولرازم کو طاقت ملی تو وہ اپنی طاقت کے نشے میں اندھا ہوگیا۔ اس نے دنیا کے ہر مذہب کو “عیسائیت” پر قیاس کیا اور مذہب کے مقابل خم ٹھونک کر میدان میں آگیا۔

لیکن ابھی دنیا میں ایک مذہب “اسلام” ایسا ہے جس کے پاس الہامی تعلیمات اپنی اصل شکل میں موجود ہیں۔جس کے پاس انسانی حقوق بھی ہیں، آزادی بھی اور مساوات بھی۔جس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی کوئی بھی لبرل یا سیکولرذہن تمنا کرسکتا ہے۔

مخالفین کی متنازعہ بنانے کی بے پناہ کوششوں کے باوجود، قسم قسم کے اعتراضات کرنے کے باوجود،شکوک وشبہات کی آندھیاں چلانے کے باوجود یہ مذہب اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے۔یہ ہر میدان میں اپنی پوری شان وشوکت سے سر اٹھا کے کھڑا ہے۔

اس کے پاس انسانی زندگی کے مکمل ضابطے ہیں۔جن پر عمل کرنے سے نہ تو عزت نفس پر زد پڑتی ہے اور نہ شخصی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ اس کا اصول مساوات انسان کو حقیقی مساوات کا درس دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لبرل ازم یا سیکولرازم نے اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کی تعلیمات کے مقابل جنم لیا۔

ورنہ مسلمان تو بہت پہلے فلسفے کی وادیوں میں قدم رکھ چکے تھے۔ آزادی فکر کا درس تو بہت پہلے مل چکا تھا، اگر اسلام میں کوئی خامی ہوتی تو 711ء سے 1492ء کے درمیان جب اسپین میں فلسفے اور منطق کا دور دورہ تھا،اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی مفکرین بھی اپنے چراغوں میں فلسفے کی آتش لینے جوق درجوق آتے تھے، وہ بہت آسانی سے اسلام کو اسی کے اصولوں سے غلط ثابت کرسکتے تھے۔اور اسلام کا یہ چیلنج آج بھی پوری دنیا کو ہے۔

“آؤ، اپنے سیکولرازم یا لبرل ازم کا کوئی ایک اصول بھی اسلام کے دیئے گئے اصول سے بہتر ثابت کرو۔

دوقومی نظریہ اور پاکستانی لبرلز

ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ دوقومی نظریے کو متنازعہ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔اس نظریئے کے کالعدم یا باطل ہونے سے انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ دوقومی نظریہ آخر ہے کیا؟؟
جیسے ہر انسان کا الگ مزاج ہوتا ہے بالکل ویسے ہی ہر مذہب اور ہر نظریے کا ایک خاص مزاج اور رنگ ہوتا ہے۔ 
اسلام کا قومی مزاج یہ ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہنا چاہتا ہے ۔ یہ اسلام کی “مجبوری” ہے۔ ورنہ اسلام کے بہت سے احکام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔جیسے نظام عدل، قاضیوں کا نظام، نظام زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ۔ حتیٰ کہ بقیہ دین (نماز روزہ وغیرہ)کی ادائیگی بھی مغلوبیت کی حالت میں اپنی اصل روح کھو بیٹھتی ہیں۔ پس اسلام کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر جگہ مسلمان کمیونٹی آزادی سے اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی طاقت حاصل کرے۔دوسرے لفظوں میں اسلام کی فطرت میں سربلندی ہے۔ مغلوبیت نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد 7111 ء میں ہوئی اور یہ وہی سال تھا جب طارق بن زیاد نے پہلی بار اسپین کے دروازوں پر دستک دی تھی۔ 711ء سے 1857ء کی ناکام جنگ آزادی تک 1146 سال تک یہاں مسلمانوں نے حکومت کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ایک ہزار ایک سو چھیالیس سالوں میں کبھی ہندوؤں نے دوقومی نظریہ پیش نہیں کیا۔کیوں؟ کیونکہ ہندومت مغلوبیت میں بھی خوش رہ سکتا ہے، کیونکہ اس میں نہ کوئی نظام عدل ہے نہ نظام حکومت۔ مختلف راجاؤں کی انفرادی بغاوتوں کا مقصد ہندومت کی تعلیمات یا فلسفہ نہیں بلکہ ان کی ذاتی ملک گیری کی خواہش تھی۔
1857ء میں جب مسلمانوں کی مغلوبیت شروع ہوئی تو اسلام کے فلسفے اور اسلام کی روح کے مطابق انہوں نے غلبہ اسلام کی تحریک شروع کی۔ اور صرف سو سال سے بھی کم عرصے (1947)میں اس تحریک کو کامیاب کر کے اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کر لیا، جس کا مقصد صرف اور صرف اسلام کا غلبہ تھا۔ (یہ الگ بات کہ پاکستان میں پھر بھی اسلام کا غلبہ نہ ہوسکا، لیکن بہرحال وہ الگ موضوع ہے)
یہاں ایک چیز دیکھنے کی ہے کہ” الگ وطن، جس میں اسلام کا غلبہ ہو” نامی تحریک کے لیے جو فلسفہ پیش کیا گیا وہ دوقومی نظریہ تھا۔ دوقومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ طاقتیں ہیں۔ جن میں سے ہندو غالب طاقت ہے اور مسلمان مغلوب۔ مغلوبیت کی حالت میں اسلام نامکمل ہے، لہٰذا ہم غالب طاقت (ہندو) سے الگ ہوکر اپنا الگ وطن بنانا چاہتے ہیں۔
یہ نظریہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اس کا مقصد ہندوؤں سے دشمنی ہرگز نہیں۔ قطعی نہیں۔
اگر ہندوؤں کی بجائے غالب طاقت سکھ ہوتے تو دوقومی نظریئے میں ہندو کی جگہ سکھ کا لفظ آجاتا۔ یہ نظریہ ایک پیغام حریت ہے۔ آزادی کی خواہش جو اسلام کی روح کے مطابق ہو۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسلام کی حکومت یا غلبے کے بعد غیر مسلموں کے لیے الگ ہدایات موجود ہیں۔ جن کے مطابق ان کی جان ومال اور عزت کا تحفظ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
دوقومی نظریہ اس لحاظ سے وقتی نظریہ یقیناً تھا کہ اس میں دوسری قوم ہندو تھی اور وہ غالب تھی۔ لیکن الگ وطن بننے کے بعد بھی جب تک نئے وطن میں اسلام کا مکمل غلبہ نہیں ہوجاتا ، دوقومی نظریہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ رہے گا کیونکہ اسلام کا فلسفہ غالبیت ابھی مکمل نہیں ہوا۔
فلسطین کا کوئی معصوم جب کسی اسرائیلی ٹینک پر غلیل سے ننھا سا پتھر پھینکتا ہے تو درحقیقت وہ دوقومی نظریے کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ کہ مسلمان اور یہودی دو الگ قومیں ہیں۔ جن میں سے غالب یہودی ہیں۔ اور ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ برما میں جب کوئی بے بس ماں آرمی کے آفیسر پر تھوکتی ہے تو وہ پکار کر دوقومی نظریے کے وجود کا ثبوت پیش کرتی ہے۔کشمیر میں جب کوئی برہان غالب طاقت کی طرف سنگینوں کا رخ کرتا ہے تو وہ بھی اسی نظریے کی صداقت کو گواہ بناتا ہے، شام میں جب کسی معصوم پھول کی لاش کو زمین سے نکال کراس کا والد پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور بشار کے خلاف موت پر بیعت کرتا ہے وہ بھی اسی دوقومی نظریے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ دوقومی نظریہ غلبہ اسلام کا فلسفہ ہے، یہ اسلام کی شوکت کا مظہر ہے۔
دوقومی نظریہ کسی مذہب سے نفرت نہیں سکھاتا، صرف اپنا حق مانگنا سکھاتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے ہندو پاکستان میں محفوظ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے طاقت میں آنے کے بعد انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ دوقومی نظریے کے بالکل خلاف نہیں۔
یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ دوقومی نظریئے کے مخاطب مسلمان ہیں اور یہ نظریہ “غلبہ اسلام” کا استعارہ ہے ۔ جب تک مکمل طور پر غلبہ اسلام نہیں ہوجاتا یہ نظریہ زندہ رہے گا، گویا پاکستان بننے کے بعد اس فلسفے کا ہندوؤں سے تعلق نہیں، مسلمانوں سے تعلق ہے۔ اس نظریئے کے تحت پڑوسی ممالک سے امن وامان قائم رکھنا ، تجارت کرنا وغیرہ کوئی جرم نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس نظریئے کو بہت بے رحمی سے استعمال کیا ہے لیکن کیا ان کے غلط عمل سے یہ نظریہ غلط قرار دے دیا جائے؟
اگرمصطفیٰ کمال اتاترک کا ترکی ، جہاں اسلام کے بنیادی شعائر پر ظالمانہ پابندیاں تھیں، جہاں داڑھی اور حجاب تک پر پابندی تھی، وہاں طیب اردگان نے اسلام کو مغلوبیت سے نکال کر غالب طاقت بنا دیا، اور اس کے بعد وہ اسرائیل کی طرف برابری کی بنیاد پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہےتو یہ قطعاً خلاف اسلام نہیں ۔ نہ اس سے غلبہ اسلام پر کوئی زد پڑتی ہے نہ دوقومی نظریے پر۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز “دوقومی نظریے” کی مخالفت پر کمر کیوں کسے ہوئے ہںے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بسنے والے لوگوں کو مذہب سے زیادہ پاکستانیت سکھائی جائے۔ وطنیت کی افیون انہیں اتنی مقدار میں کھلائی جائے کہ وہ اس کی بنیادوں میں موجود دوقومی نظریئے اور اس سے جڑی اسلامیت کو پرانے زمانے کی باتیں کہہ کر فراموش کردیں۔ یہ دوقومی نظریہ ہی ہے جو آج کے پاکستانیوں کو بھی سکھاتا ہے کہ یہ وطن اسلام کے نام پر بنا ہے، قومیت یا وطنیت کی بنیا دپر نہیں۔
اسی نظریے کی وجہ سے آج تک پاکستانی قوم یہ نہیں بھولی کہ ابھی ان کی منزل ادھوری ہے۔ ابھی پاکستان میں اسلام غالب حالت میں نہیں آیا۔اور یہ بات لبرلز کو چڑانے کے لیے کافی ہے، جو پاکستان کو مذہب سے پاک ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔
یہی نظریہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو “نظریاتی” اور “اسلامی” ریاست کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی دوقومی نظریے کی مخالفت کرتا ہے تو یوں سمجھیے وہ اس نظریاتی اور اسلامی وطن کی جڑوں پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔
بشکریہ:ثوبان تابش

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
یا سابقہ اقساط پڑھنے کے لئے لنک وزٹ کریں

بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...