Monday 22 May 2017

الحاد کیوں پھیل رہا ہے ؟

الحاد کیوں پھیل رہا ہے ؟

سلسلہ:ملحد کا تعاقب #:9،
(تالیف: عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اسلام دین برحق ہے اور اس میں ہر چیز عقلی اور فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ الحاد ابھی بھی پھیل رہا ہے۔
الحاد سے مراد اللہ تبارک وتعالی کی ذات سے انکار ہے۔ اس کا روحانی زندگی کی موت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ اور مذہب الحاد کے پیروکار ملحدین کہلاتے ہیں۔
الحاد دراصل ہماری تہذیب کا مسلہ نہیں بلکہ مغربی تہذیب سے درآمد شدہ ہے
الحاد کو ہم دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں
1علمی الحاد
2نفسانی الحاد
علمی الحاد بہت نادر ہے کہ جس میں کسی شخص کو علمی طور پر اللہ تعالی کے وجود کے بارے میں شکوک وشبہات لاحق ہوتے ہیں جیسے کہ نظریاتی سائنسدانوں اور فلاسفہ کی جماعت
نفسانی الحاد بڑے پیمانے پر موجود ہے کہ جس میں شخص کو اللہ تبارک وتعالی کے وجود سے متعلق شکوک وشبہات علمی طور پر لاحق نہیں ہوتے بلکہ وہ بوجہ اپنی نفسانی خواہشات کے خدا کے بارے میں شکوک و شبہات گا اظہار کرتا ہے یہ ملحد خود اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنی نفسانی خواہش کو علم جان لیتے ہیں
انہوں نے جب مذہب کو جب یہ سمجھا کہ گویا ان کو پابند سلاسل کر دیا گیا اور وہ اپنی خواہشات اس دائرہ میں پوری کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تو خود کو ہر پابندی سے آزاد کرنے کے لیے مذہب سے ہی انکاری ہوگئے اور پھر اس پر شیطان نے ان کی آنکھوں پر کچھ ایسا پردہ گرایا کہ خود کو حق بجانب سمجھنے لگے اور اپنی بات کو حق ثابت کرنے کے لیے مختلف بے بنیاد دلائل سے آراستہ ہو کر میدان میں اتر آئے۔

علمی الحاد میں:
ملحدین نے جب صانع کو حواس خمسہ کے ذریعے نہ پایا اور اس کی معرفت کے لیے عقل کو کام میں نہیں لائے تو انہوں نے اس کے وجود ہی سے انکار کر دیا یہ لوگ بے راہ ہو گئے بوجہ کہ انہوں نے ذات باری کو ظاہری حس کے ذریعے طلب کیا صانع کا انکار اس لیے بھی کر بیٹھے کہ اس کا وجود اجمالی طور پر ثابت کیا گیا ہے انہوں نے جب اپنے ذہن میں سائنس کی بدولت اٹھنے والے سوالات کے مد مقابل تفصیلی حثیت سے ذات باری کا ادراک حاصل نہیں کیا تو انہوں نے اسے سرے سے ماننے سے ہی انکار کر دیا۔
جبکہ خود ہم میں ایسی تماثيل موجود ہیں جن کا ہم ادراک اجمالی طور پر کرتے ہیں جیسے نفس ، عقل۔

نفسانی الحاد میں:
بعض گرہوں نے علمی الحاد سے کچھ پراگندہ ذہن کو جب مذہب کے مطالعےمیں باغی
شکوک و شبہات کے ساتھ صرف کیا تو ظاہری آیات و حدیث پر وقوف کیا اور انکو اپنے ظاہری حواس کے مقتضی پر محمول کیا
اور مذہب سے بدظن ہوگئے

ملحدین کو میں اپنی دانست میں تین کیٹیگریز میں تقسیم کرتا ہوں۔
پہلے وہ جو سائنس کی وجہ سے  اللہ تبارک وتعالی کا انکار کرتے ہیں۔
دوسرے وہ جو مادر پدر آزادی کی خواہش کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔
تیسرے وہ لوگ جو کم علمی اور صرف مخالفت کی وجہ سے انکار کرتے ہیں۔
پہلی قسم کے لوگوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
ان کی تاریخ شروع ہوتی ہے جب مذہب میں اجارہ داری قائم ہوئی کلیسہ کی ۔ اور کلئ اختیار پادریوں کو دے دیئے گئے۔ اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیئے جو بھی ان کے مخالف یا ان کے نظریات کا رد کرتا وہ فوری درد ناک سزاؤں کا مستحق ٹھہرتا۔
ان مذہبی اجارہ داروں نے اپنے پیروکاروں کی سوچوں کو بھی اپنے قابو میں کیئے ہوئے تھے۔
لیکن انسان فطری طور پر باغی طبیعت کا ہے۔کچھ کو ڈرا کر چپ کروایا جا سکتا سب کو نہیں۔۔ تو ایسے وقتوں میں بھی بہت سے لوگوں نے سوچنا اور اس کائنات پر غوروفکر کرنا نہیں چھوڑا۔
لیکن کلیسہ کے ظلم کی وجہ سے وہ لوگ مذہب سے باغی ضرور ہو گئے۔ اور آہستہ آہستہ لوگوں کے دل میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ سائنس اور مذہب ایک چیز نہیں ہے۔ یہ دو الگ الگ سمتوں میں چلنے کا نام ہے۔
سائنس علم ہے ان چیزوں کی تشریح کرنے کا جو ہمارے حواس خمسہ محسوس کر سکتے ہیں۔ سائنس میں روحانیت کی اہمیت زیرو ہے۔
سائنس نے مذہب سے دامن چھڑوایا تو مذہب کے ہر اس تصور کو جھوٹ کہہ دیا جو کہ وہ حواس خمسہ کے دائرے میں نہیں آتے تھے۔ تو ایک بن دیکھے  اللہ تبارک وتعالی کی ذات کو وہ کیسے مان سکتے تھے۔ اور جو بتوں کی پوجا کرتے تھے اسے ماننے کو ان کی عقل تیار نہیں تھی کہ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے پتلوں کو اپنا ہی خدا کیوں کر مانا جائے۔۔۔۔۔۔
پھر چارلس ڈارون نے نظریہ ارتقاء پیش کر دیا ۔۔۔۔
جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور انہیں ایک سائنسی نظریہ مل گیا کہ اتنی بڑی کائنات اور سب مخلوقات کیسے وجود میں آئی۔
دوسرے قسم کے لوگوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے
آج کے نوجوان کی لامتناہی خواہشات مادرپدر آزادی چاہتی ہیں۔ یہ لوگ معمولی سی فوری لذت کی خاطر مستقبل میں آنے والی تکالیف کو برداشت کرنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں۔ شیطان کی پیش کردہ لذات سے دھوکہ کھا کر یہ لوگ الحاد کے جال میں ایسے پھنستے ہیں جیسے آگ کے گرد گردش کرتے پتنگے اس میں جا گرتے ہیں۔۔۔
جس قدر روحانیت(شریعت) سے دوری ان نوجوانوں کی ہوتی ہے یہ اتنا ہی جسمانی لذتوں کے پیچھے پیچھے الحاد کے گڑھے میں گر جاتے ہیں۔
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو تحقیق سے یا تو بہت دور ہوتے ہیں یا پھر ان میں حق تسلیم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کسی نہ کسی مشکل دور سے گزرتے ہیں یا اپنے اردگرد پریشانیوں سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں۔ اور صبر کا مادہ ان میں کم ہی ہوتا ہے تو جس وجہ سے  اللہ تبارک وتعالی کی ذات سے شکوے کرنے سے آغاز کرتے ہیں لیکن جلتی پر تیل کا کام ان کے مذہبی لوگوں کی منافقت کرتی ہے۔ یہ مذہبی لوگوں کے عمل کو ہی مذہب کی اصل سمجھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ نفرت بڑھتی ہے اور ایک وقت یہ مذہب سے ہی مکمل دور ہو جاتے ہیں۔
لیکن اسلام الحاد کی ہر وجہ کو مکمل طور پر رد کرتا ہے۔ قران میں اللہ تعالی بار بار لوگوں کو اس کائنات پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ اسلام سائنس کی مختلف شاخوں میں تحقیق پر ابھارتا ہے۔ اور جو لوگ علم حاصل کرتے ہیں اسلام ان لوگوں کی مدح سرائی کرتا ہے۔
اسلام تو کہتاہےکہ آو۔۔اور غوروفکر کرو۔۔۔۔۔۔کہ جو کچھ قران میں بیان کیا ہے وہ سب فطرت کے عین مطابق ہے یا نہیں۔۔ اسلام بلاتا ہے کہ پہلے تحقیق کرو اور پھر تسلیم کرو۔۔۔۔
لیکن ایک وقت تھا جب مذہبی لوگوں کو طعنہ دیا جاتا تھا کہ یہ لوگ سوچنے اور تسلیم کرنے کی قوت سےعاری ہیں اور حق کو تسلیم نہیں کرتے جب کے سب سامنے بھی ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ سائنسدانوں میں بھی ہے۔ جیسے جیسے نئی ایجادات اور دریافتیں ہوتی جارہی ہیں۔ اسلام کی سچائی سامنے آتی جا رہی ہے۔ خود نظریہ ارتقاء بھی بے بنیاد ثابت ہوتا جا رہا ہے۔جس کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔ لیکن الحاد پرست ابھی تک وہی پرانی باتیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور حق تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں۔ اور تنقید برائے تنقید کرتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کے سب اصول و قوانین عین فطرت کے مطابق ہیں۔ جو لوگ مادر پدر آزادی کے حق میں تھے اس کا انجام بھی اب سب کے سامنے ہے۔ یہ وقتی آزادی نے جتنا نقصان معاشروں کو پہنچایا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سکون تباہ کر بیٹھے ہیں تب جا کر وہ یہ بات سمجھے۔ مگر۔۔۔۔۔۔ مسئلہ پھر وہی۔۔ تسلیم کرنے والے لوگ بہت کم ہیں۔
اسلام نے فرض کر دیا ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت پر تعلیم حاصل کریں۔ کم از کم اتنی تعلیم فرض ہے کہ دین کی روح(بنیاد) کو سمجھ سکیں۔ اگر کوئی دین کی تعلیم حاصل نہیں کرتا یا مذہبی لوگوں کی منافقانہ روش کو دین اسلام سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی خامی ہے۔ نہ کے اس میں اسلام کا کوئی قصور نکلتا ہے۔
یہ سب تو بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر الحاد کو فروغ ملتا ہے۔ لیکن آج کل کے دور میں سب اہم کام میڈیا کے ذریعے سے ذہن سازی کا جس سے نوجوان نسل کے ذہنوں میں شک کا کیڑا ڈالا جاتا ہے۔ لیکن اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس ایسا باقاعدہ پلیٹ فارم نہیں جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کر سکیں۔

یہ اہل دین کی نسل میں الحاد کیوں موجود ہے
کیوں عصبیت کے ذہر سے کام و دھن آلود ہیں پھر آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
شاید کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
کودے گا جو اس آگ میں وہ کامراں ہو جائے گا
نسل نو میں الحاد کی موجودگی ان کی نفسانی و شیطانی خواہشات کا نتیجہ ہے جو مغربی پراپیگنڈے کے ذریعے تعمیر کے لبادے میں تخریب کے ذہریلے تیر کی بدولت پیدا ہو رہی ہے
مغربی فلسفہ کی یلغار سے نسل نو اس ابلیسی شکنجہ میں گرفتار ہو رہی ہے اس کے اہم اسباب میں سے ہمارا تعلیمی نظام ہے جس سے الحاد کے زہر کو نسل نو کی رگوں میں نام نہاد اسلامی غلاف کے ذریعے سے انڈیلا جا رہا جبکہ اپنے مذہب سے واقفیت نہ ہونے کے باعث نسل نو پہلے سے ہی مختلف شکوک و شبہات میں گرفتار ہے۔

الحاد دھریت میں اضافے کی اھم وجہ میڈیا میں مغربی فلسفہ اور شیطانی گروہ کے وہ مقاصد ھیں جو پرنٹ و الیکڑونک میڈیا کے ذریعے ھمارے ذھنوں سے چمٹ رھے ھیں،جس سے الحادی بے لگام ھوتے جا رھے ھیں…کیونکہ ھر ذی نفس اپنا مقصد پیدائش بھول گیا ھے۔
“قرآن شریف نے انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کیا ھے
(کنتم خیر امتہ اخرجت للناس )
تم بہترین امت ھو جو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے پیدا کی گی ھے…
نفع سے مراد اگرچہ عام ھے مگر اصل مقصد…امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور دعوتہ الی الایمان ھے۔
مگر افسوس یہ ھے کہ ھمیں خود اپنے سمیت کسی کے ایمان کی کمزوری کا احساس نہیں۔
سیکولر تعلیم کا الحادی رنگ مسلمانوں کے اندر دیکھنے کے لیے کسی خردبین کی ضرورت نہیں،ہر کالج، ہر سیمینار، ہر کانفرنس، بلکہ تمام پروگراموں اور کنونشنوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

لیکن اب سوال یہ ہے اسلام کی سچائی کے باوجود یہ فتنہ بڑھ کیوں رہا ہے۔
تو اس فتنے کی تیز یلغار یہ گمان قطعا نہ کیا جائے کہ اسلام کی حقانیت پر دڑاڑیں پڑھ رہی ہیں یا حق دبنے کو ہے اعداد و شمار کے مطابق اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے اسکا مقابلہ کوئی باطل قوت نہیں کر پا رہی۔

برطانیہ میں شائع ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال تقریباً 5 ہزار سے زائد لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ پچھلے عشرے کے دوران اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تقریباً دگنا اضافہ ہوا ہے۔اور دن بدن ان کی تعداد میں مزید  اضافہ ہو رہا ہے۔
واقعات تو اس وقت میرے ذہن میں بے شمار ہیں لیکن ہم اختصار کے ساتھ صرف ایک واقعہ پیش کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف صف آراء سوئٹزرلینڈ کا معروف سیاست داں ڈینئل اسٹریچ اسلام کی آغوش میں ہے۔ اس نے اپنے اسلام قبول کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں سوئزرلینڈ کی سیاست میں اتھل پتھل مچادی ہے‘وہیں ان لوگوں کے پیروں تلے سے زمین کھسکتی نظر آرہی ہے، جو میناروں کی مخالفت کا علم اٹھائے ہوئے تھے، کیوں کہ ڈینئل اسٹریچ ہی پہلا شخص تھا، جس نے سوئٹزرلینڈ میں مساجد پر تالے لگانے اور میناروں پر پابندی لگانے کی مہم چھیڑی تھی ۔ اس نے اپنے اس مسلم مخالف تحریک کو ملک گیر پیمانے پر فروغ دیا ۔ لوگوں سے مل کر ان میں اسلام کے خلاف نفرت کے بیج بوئے اور مساجد کے گنبدومیناروں کے خلاف رائے عامہ استوار کی لیکن آج وہ اسلام کا سپاہی بن چکا ہے ۔ اسلام مخالف نظریہ نے اسے اسلام کے اتنا قریب کردیا کہ وہ اسلام قبول کئیے بغیر نہ رہ سکا اور اب اپنے کیئے پر اتنا شرمندہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں یورپ کی سب سے خوبصورت مسجد کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے ۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ وہ دنیا کی سب سے خوبصورت مسجد بنا سکیں اور اپنے اس گناہ کی تلافی کرسکیں جو انہوں نے مساجد کے خلاف زہر افشانی کرکے کئے ہیں ۔ ڈینئل اسٹریچ اب اپنی مینار مخالف تحریک کے خلاف بھی تحریک چلانا چاہتے ہیں تا کہ لوگوں میں مذہبی رواداری پیدا ہو اور وہ بقائے باہم کے اصولوں پر عمل کرسکیں حالانکہ مینار پر پابندی اب قانونی حیثیت پا چکی ہے ۔
اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ مخالفت سے اس کا رنگ مزید نکھر کر سامنے آتا ہے ۔ نفرت سے بھی جو اس کا مطالعہ کرتاہے وہ اس کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے ۔ اس کی مخالفت ہوتی ہے، اتنی شدت سے وہ ابھر کر سامنے آتاہے ۔ اس کے لافانی اصول و ضوابط لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں اور اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ میں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ جن علاقوں میں جتنی شدت سے اسلام کے خلاف پروپگنڈہ ہورہا ہے، وہاں اتنی ہی تیزی سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ آج یورپ کے گورے زیادہ اسلام سے متاثر ہورہے ہیں ۔ بوسنیا، نائجیریا، لیبیا اور سوڈان کے باشندوں سے زیادہ یورپ کے سفید فام لوگوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کی چاہت ہے ۔ مسلمانوں کے درمیان رفاہی کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم او آئی پی کے صدر عبد المجید الداعی کا کہنا ہے کہ یورپ کے لوگوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کی زبردست خواہش ہے ۔
ان کے مطابق یورپ میں پورن (sex)سائٹ کے بعد جو سب سے زیادہ سائٹ دیکھی اور پڑھی جاتی ہے وہ اسلامی مواد فراہم کرنے والی ویب سائٹ ہی ہے ۔ ڈینئل اسٹریچ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ، اس نے میناروں کی مخالفت اور اسلام دشمنی میں قرآن مجید کا مطالعہ اور اسلام کو سمجھنا شروع کیا اس کے ذہن میں صرف مذہب اسلام میں کیڑے نکالنا تھا وہ اسلام میں میناروں کی حقیقت بھی جاننا چاہتا تھا تا کہ مینار مخالف تحریک میں زور پیدا کر سکے اور مسلمانوں اور میناروں سے ہونے والے ” خطرات “ سے سوئٹزرلینڈ کے باشندوں کو باخبر کرسکے لیکن ہوا اس کے بر عکس ۔ جوں جوں وہ قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتا گیا، فرمان نبوی اور قرآنی آیات اس کے دل و دماغ پر چھاتے گئے ۔ اس کے دل و دماغ سے کفر اور بت پرستی کی تہ ہٹتی گئی اور ادیان باطلہ اس کے سامنے بونے نظر آنے لگے ، نہ تو اسے تین خداﺅں پر یقین رہا اور نہ بت پرستی میں کوئی جاذبیت، بلکہ وہ اسلام کا گرویدہ ہوتا چلاگیا اور بالآخر اس نے اسلام قبول کرکے کفر و ظلمات کی تمام چادروں کو پھاڑ ڈالا ۔
اسٹریچ کے اسلام لانے کی خبر آئی ہی تھی کہ انگلینڈ کے مستقبل کے وزیر اعظم اور شیڈوچانسلر جارج اسبورن کے بھائی کے اسلام لانے کی خبر آگئی ۔ ان کے بھائی آدم اسبورن جو پیشے سے ماہر نفسیات ہیں ‘نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے مانچسٹر کی ایک مقامی مسجد میں کئی مہینے تک اسلامی تعلیمات سیکھیں اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، جس میں پانچوں وقت نماز پڑھنا اور شراب سے پرہیز کرنا بھی ہے ۔
جب کہ بہت سارے لوگ ڈینئل اسٹریچ کی طرح اسلام لا چکے ہیں اور لا رہے ہیں ۔جن کی تفصیلات  ہم آئندہ  مضامین میں پیش کریں گے ۔یاد رہے ڈینئل اسٹریچ ملک کی باوقار سیاسی پارٹی سوئس پیپلز پارٹی ( ایس وی پی ) کا بڑا لیڈر تھا۔
دین اسلام کی خاصیت ہے کہ اس کو جتنا دبایا جاتا ہے یہ اتنی ہی قوت سے ابھرتا ہے. لادین قوتیں جہاں مسلمان ممالک میں مسلمانوں کے ایمان سے کھیلنے کی ناپاک جسارت کر رہی ہیں وہیں اپنے ملک کے اندر ہی اسلام سے متاثر ہوکر غیر مسلم اپنے مذہب کو چھوڑ کر دین اسلام کی حقیقت پسندی کے قائل ہورہے ہیں. (بشکریہ:مصباح میگزین کویت)
بات یہ ہے کہ ہم نے نگاہ بعد میں اٹھائی وگرنہ یہ ملحدین اب کی پیداوار نہیں ،،،،!!
اس وقت دنیا میں صرف دو ہی نظریات اور فلسفے پھل پھول رہے ہیں. پہلا دین اسلام جو مذہب کا مقدمہ پیش کر رہا ہے اور سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے. دوسرا فلسفہ لادینیت(الحاد) یعنی اللہ تبارک وتعالی کی ذات کا انکار کا ہے ، یہ بھی روشن خیالی کے پردے میں اپنی پوری قوت سے پھل رہا ہے. ان دو فلسفوں کے علاوہ بقیہ جتنے بھی نظریات ہیں وہ یا تو منجمد ہیں یا پھر آھستہ آھستہ دم توڑ رہے ہیں اور ان دو فلسفوں میں سے کسی ایک کو اپنا رہے ہیں. بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر دہریت یا لادینیت کو اختیار کر چکے ہیں اور بیشمار منکرین اللہ ایسے ہیں جو اسلام کی حقانیت کو پہچان کر اسے اپنی شناخت بنا چکے ہیں. میری ناقص راۓ میں آخری ٹکراؤ جسے مذہب اور دجالی قوتوں کا ٹکراؤ کہا جاتا ہے وہ انہی دونوں کے درمیان ہوگا. باقی بچے کھچے فلسفے محض تماشائی یا سپورٹنگ کریکٹر کا کردار ادا کریں گے. ضرورت ہے اس امر کی کہ مسلمان خود کو قرآن حکیم سے جوڑیں اور اسے پھیلانے کی کوشش کریں کہ صرف یہی لادینیت پر بند باندھ سکتا ہے۔
یقین اور تشکیک دونوں ہی تجسس کی گود میں پرورش پاتے ہیں. تجسس ہی وہ جذبہ ہے جو متلاشی حق کو شکوک کی گھاٹیوں سے گزار کر بلاخر اطمینان و یقین کی منزل پر پہنچا دیتا ہے. یہ ممکن نہیں کہ شعوری طور پر زندہ انسان تجسس سے خالی ہو. معرفت الہی بھی موروثی نہیں بلکہ شعوری دریافت کا نام ہے اور اس کا محرک تجسس ہی ہے. یہی تجسس جب الفاظ میں ڈھلتا ہے تو سوال بن کر ادا ہو جاتا ہے. المیہ یہ ہے کہ آج سوال تو پوچھا جا رہا ہے مگر جواب دینے والے موجود نہیں ہیں۔
بہت سے اہل علم مسلم نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں یہ سب جدید علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔ روایتی علماء کا بدقسمتی سے یہ حال ہے کہ انہیں بخاری شریف تو زبانی یاد ہوگی، مثنوی روم کے دقیق نقطے تو وہ با آسانی بیان کر سکتے ہونگے مگر جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکتے. وہ نہیں جانتے کہ چارلس ڈارون ، کارل مارکس ، رچرڈ ڈاکن کون ہیں ؟ نظریہ ارتقاء کیا بلا ہے ، تھیوری آف ریلٹوٹی کس چڑیا کا نام ہے ؟ لہٰذا ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ایسے کفریہ سوال نہ پوچھو، اسلام سے باہر ہو جاؤ گے.ایک عام طالب علم کو تسلی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں وہ بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔
آخر میں ہم چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
نسل نو کو اس فتنے سے آگاہ کیا جائے اور الحاد کا علمی تعاقب کیا جائے۔
مسلمان نسل نو کی اپنے دین سے دوری
الحاد کے رد کے لیے ضروری ہے کہ جہاں سے یہ فتنہ درآمد ہو رہا ہے اس پر پابندی لگائی جائے مثلا
مغربی الحادی کتب کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ جو الحاد جس لغت میں ہے اس کا جواب اسی لغت میں دیا جائے۔
علمی و نفسانی الحاد کا جدید علم نفسیات کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے۔
تعلیمی نظام پر مغرب کا تسلط ختم کیا جائے۔
دینی درسی کتب بمع جدید علوم کے شامل کی جائیں۔
میڈیا سے نازل ہوتی شیطانی یلغار پر ہر ممکن بند باندھنے کی کوشش کی جائے۔
دین کی محبت و اپنی زندگی کے بنیادی مقصد کو جان کر عمل بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے الحاد کے خاتمہ کے لیے ہمت و جذبہ بیدار کیا جائے۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ خدارا اپنے مذہب کو جانیے تا کہ اس فتنے سے نا صرف آپ بلکہ دوسروں کو راہ راست پر لے آئیں اسلام کی سچائی اور اس میں موجود راحت اور زندگی گزارنے کے بہترین طریقے کو جاننے کے لیے اٹھیے کہ یہ اس کی سچائی ہی تھی جس سے وہ تاریخی انقلاب کہ صحرا کے بدو عرب کے بادشاہ بن گئے نہ کہ کفریہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بھٹکے ہوئے آہو کی مانند آمنا و صادقا کہہ کر چل پڑیں
کس گمراہی میں مبتلا اس دور کا انسان ہے
سب مشکلوں کا حل ہمارا دین ہے ایمان ہے
اسوہ رسول اللہ کا اللہ کا قرآن ہے۔
الحمدللہ! یہ اللہ کا بڑا کرم ہے. اور اگر اللہ نے چاہا تو بہت جلد دین اسلام دنیا میں بہت تیزی سے پھیلتا چلا جائے گا. اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں دین اسلام کی سربلندی کے لیے توفیق و ہمت عطا فرمائے. آمین۔
نوٹ: یہ مضمون محترمہ عفیفہ شمسی،محترمہ ارسلا صدیقی،اور محمد تیمور طارق صاحب کا تالیف کردہ ہے۔لیکن راقم الحروف نے اس میں میزید ترمیم وحذف کے ساتھ پیش کیا ہے۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmai.com
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...