Wednesday 24 May 2017

مشرق و مغرب میں الحاد کا پھلاو

مشرق و مغرب میں الحاد کا پھلاو

سلسلہ:ملحد کا تعاقب #:11،
(تالیف: عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

الحاد انحراف کے معنوں میں استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ ملحد ایک ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو دین کی اصل سے ہٹ جائے۔ وہ اللہ اور اس کے وجود کا منکر اور کائنات کی لافانیت کا قائل ہو جاتا ہے۔
الحاد کی تاریخ شاید اتنی ہی پرانی ہے جتنی مذاہب کی، لیکن اس کی آبیاری میں فلسفے اور سائنس کا نمایاں ہاتھ ہے۔ یہ جدت افکار کی اس روش کی انتہا کا نام ہے جس نے محض سوال کرنا سکھایا۔ سائنس کا تمام تر تعلق معروضی ہستی سے ہے جو خارجی دنیا میں صرف دریافت کرنا جانتی ہے، اور مذہب کا تعلق خارجی کے ساتھ ساتھ بھرپور طور پر داخلی دنیا سے بھی ہے، جسے واردات قلبی کا نام دیا جاتا ہے۔ سائنس محض مشاہدہ سے وابستہ ہے جبکہ مذہب مشاہدے اور آگہی دونوں سے وابستہ ہے۔ فلسفہ کی کمزوری یہ ہے کہ یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ سوال در سوال اس کی سرشت میں ہے۔ جس حد تک جواب مل جائے وہاں مطمئن اور جہاں جواب میسر نہ ہو پائے، وہاں منکر۔ فلسفے اور سائنس دونوں ہی کو دلائل اور ثبوت درکار رہتے ہیں۔ الغرض منطق اور فہم کی وہ حد جہاں پہنچ کر انسان کی سوچ کے پر جلنے لگیں، بس وہیں سے انسان کے اس امتحان کا آغاز ہوتا ہے جو اسے ماننے والوں یا نہ ماننے والوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اسی نقطہ انتہا پر متزلزل ہو جائے تو ایک فرشتہ صفت انسان بھی علم کی فلسفیانہ، سائنسی اور نظریاتی بنیادوں پر مذہب یا اللہ کے وجود کا منکر ہونے لگتا ہے۔ یعنی سوچ، دانش اور ذہانت کی انسان کے لیے قدرت کی کھینچ دی گئی لکیر کے آگے جو جھانکے گا، وہ انتشار کا شکار ہوگا۔ ایسا انتشار انسان کو خودکشی پر بھی مجبور کر سکتا ہے اور خود پرستی پر بھی۔ خود پرستی یہ کہ اپنی تمام تر ذہانتوں اور دانش مندیوں پر غرور کی اس حد کو چھو لینا کہ اس کے بعد خود کو ہی اس قابلیت کا اصل مآخذ اور وارث سمجھ کر، اپنے علاوہ کسی اور ذات کو اس کا باعث ماننے سے منکر ہو جانا۔ اطاعت اور تابعداری کے اسرار و رموز سے تائب ہو کر کائنات کی کسی ان دیکھی طاقت یا روح کو محض ایک خام خیالی یا کہانی سے مشروط کرنا۔ یہی نشانیاں ہیں نہ ماننے والوں کی۔ ایسے کئی ذہنی اور روحانی طور پر منتشر لوگ آپ کو غبی افراد کے اداروں میں بھی دکھائی دیتے ہیں جو دماغی توازن کھو کر خود کے پیغمبر یا رسول ہونے کے بھی دعویدار ہو جاتے ہیں۔
یورپ اور ایشیا میں ملحدوں کے تاریخی شواہد پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے فلسفی جو سوچ کے پرانے دھارے کے منکر ہو چکے تھے، یا جو اس دور کے مذہبی ٹھیکیداروں اور بادشاہوں کی ملی بھگت سے قائم کردہ استبدادیت کے خلاف آواز اٹھانا چاہتے تھے، انہیں ملحد کا نام دیا گیا۔ جیسے سقراط کو بھی ایسے خیالات پر منکر قرار دیا گیا۔ درحقیقت یہ اس احساس محرومی کا اظہار تھا جو چرچ اور حکومت کے باہمی اتحاد سے پیدا کیا گیا تھا۔

پانچویں صدی میں یونانی کلچر کے بہت سی روایتی مفروضوں کے خلاف سوالات اٹھائے گئے۔ ایک طویل تاریخ ہے جو مذہبی روایات کی پابندیوں سے منافرت کے طور پر سامنے آئی۔ ایسا خود اسلام کے ابتدائی دور میں بھی سامنے آیا۔ نویں صدی میں ابن الراوندی، ایسا سکالر تھا جس نے مذہب کی حیثیت پر سوالات اٹھائے۔ اس کے علاوہ ابوبکرالرازی جو ایک طبیب اور المعاری جو ایک شاعر تھا، اور ابو عیسیٰ الوراق جیسے لوگوں نے مذہب کو اپنی منافرت کا نشانہ بنایا۔ یورپ کے قرون وسطیٰ کے دور میں الحاد کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ جب مذہب پر کھلے عام تنقید ہونے لگی۔

الحاد کا لفظ سب سے پہلے 1566ء میں لکھی گئی انگریزی کتابوں میں ظاہر ہوا۔ یہ مذہبی اجارہ داری کے خلاف ایک ردعمل تھا، جو اس وقت کے دانشوروں نے ظاہر کیا. سولھویں اور سترھویں صدی تک الحاد کا لفظ کسی شخص کے منکرانہ خیالات کے لیے اسے بےعزت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ سائنس اور ریاضی کی ایجادات نے الحاد کا راستہ استوار کیا۔ نیوٹن، کوپر نیکس اور ڈسکارٹس جیسے لوگوں نے نیچرل لا کو اہمیت کا حامل قرار دیا، اور یہ تصور بڑھنے لگا کہ اس کائنات کو کوئی خالق و مالک نہیں بلکہ نیچرل قوانین چلا رہے ہیں۔ بعد ازاں فرانسیسی انقلاب نے الحاد کو بھرپور طریقے سے پنپنے کی راہیں فراہم کیں۔ روسو اور والٹیئر نے اسے اپنے خیالات سے سند عطا کی۔ اس طرح آزاد خیالی، روشن خیالی اور لبرل ازم کی اصطلاحات کو انیسویں صدی میں ایک کامیاب موڑ ملا۔ لوگوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ مذہب انسانی اور سماجی ترقی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اور مذہبی اجارہ داری ہی سماج کو مختلف طبقوں میں تقسیم کرتی ہے جو انسانی استحصال کا باعث ہے۔

بیسویں صدی میں الحاد نے انتہائی جابرانہ طریقہ اختیار کیا۔ الحاد اس صدی میں یورپ میں پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہو چکا  تھا ۔ اسی تحریک کے ذریعے سیکولر ہیومنزم، مارکسزم، انارکی ازم اور بعد ازاں فیمنزم جیسی تحریکوں نے جنم لیا۔ ان تحریکوں نے مذہب کو ان معاشروں میں یہ کہہ کر یرغمال بنانے کی منصوبہ بندی کی کہ مذہب بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اور عیسائیت نے دنیا میں بدامنی اور جنگ کا ماحول پیدا کیا ہے۔ الحاد کو ان تحریکوں سے اس قدر عروج ملا کہ اب ریاستوں کی نوعیت سیکولر ہونے لگی۔ 1930ء میں سوویت روس میں لینن نے مذہب کی مخالفت میں لاتعداد پادریوں کو موت کے گھاٹ اتار گیا اور چرچوں کو بند کر دیا گیا۔ سٹالن اور مسولینی نے بھی چرچ مخالفت کا بھرپور اظہار کیا۔

اکیسویں صدی کے یورپ میں سیکولر ازم خوب پروان چڑھی کہ اس کی حمایت میں بہت سا لٹریچر لکھا گیا۔ سیکولر کانفرسوں کا انعقاد ہونے لگا۔ خواتین نے بھی ایسی کانفرنسوں کا انعقاد کیا، اور 2012ء میں الحادی خواتین کا ایک ادارہ قائم بھی قائم ہوا۔ یہ ایسی صدی ثابت ہوئی جس نے مغرب کی لادینیت کے اثرات سے دوسرے ممالک کو بھی متاثر کیا۔ اس طرح ایشیا اور افریقہ سے لے کر مسلم ممالک تک اس کے اثرات سے نہ بچ سکے۔

اس وقت دنیا میں الحاد دو طرح کے مفہوم میں لیا جاتا ہے۔ ایک مفہوم وہ جس میں اللہ رب العزت کے وجود اور اس کائنات کی یونیورسل سپرٹ سے انکار نہیں کیا جاتا لیکن اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے کہ مذہب کو انسان کی ذاتیات تک محدود رکھا جائے۔ یورپ میں زیادہ تر ریاستی سیکولرازم کا مفہوم یہی ہے۔ لیکن دوسرا مفہوم بہت واضح ہے جس میں سرے سے ہی رب کائنات کے وجود اور اس کائنات کی یونیورسل سپرٹ کو ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق اس کائنات کا ظہور صرف اور صرف سائنس کی دین ہے اور یہ کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی ممکن ہی نہیں۔گویا یہ گروہ منکرین اعظم پر مبنی گروہ ہے۔ یہ سائنس اور فلسفے کو ہی اپنا خدا مانتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت اللہ تعالی کے وجود سے انکار پر مبنی ”الحاد“ عیسائیت اور اسلام کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا عقیدہ ہے۔ دنیا میں کل %63 آبادی مذہبی ہے، %16 الحاد سے وابستہ ہیں، اور باقی تناسب ان لوگوں کا ہے جو ملحد تو ہیں، لیکن اللہ تعالی کے وجود کو مانتے ہیں، یا وہ لوگ جو ملحد نہیں لیکن مذہب کو روزمرہ زندگی میں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

اسلام کی پوری تاریخ کے اندر، اسلام کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کے ساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔
اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔
گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔جس کی تفصیلات آئندہ اقساط میں پیش  کی جائے گی۔اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی اللہ نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جس کی تفصیلات قسط 2 سے 6 میں گزر چکی ہے۔
دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپ کو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عموماً بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور ان کی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔ جس کی تفصیل میری کتاب "رزق میں فراخی کے اسباب اور مشکلات کا حل "میں  مختصر''علم نجوم کی حقیقت''میں دیکھیں۔
مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم، پابندیوں اور جانچ پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا کہ یورپ میں ان کے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کے ساتھ جو برا برتاؤ کیا، ان کے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے چھین لینا، ان کی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کر دیا، مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جلا دیا، اسلام کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اس کے برعکس، مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے، سیکھنے سکھانے اور غور و فکر، بجا لانے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو مسلم دنیا میں لانے کے خواہاں ہیں، اسلامی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔

انسان جب اللہ تعالی کی ربوبیت کا اعتراف کرتا ہے تو توحید وجود میں آتی ہے۔ انحراف کرتا ہے تو شرک جنم لیتا ہے اور انکار کرتا ہے تو الحاد (Atheism) پیدا ہوتا ہے۔ آخر الذکر دو چیزیں یعنی شرک اور الحاد باطل کی دو شکلیں ہیں۔ انسان کی پوری تاریخ توحید اور باطل کی ان ہی دو شکلوں سے ٹکراؤ کی داستان ہے۔ اس داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ باطل بار بار حق سے ٹکراتا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب باطل غالب آگیا اور حق مٹنے کو ہے مگر عین اس وقت اللہ تعالی ایسے انسانوں کو جنم دیتا ہے جو حق کی نصرت کرتے ہیں اور پھر حق باطل پر فیصلہ کن ضرب لگاکر اسے نابود کردیتا ہے۔
 نبیوں کے برعکس رسول نہ صرف توحید کا بھولا سبق لوگوں کو یاد دلاتے تھے بلکہ جب ان کی دعوت کا انکار کردیا جاتا تو اللہ تعالی توحید کی بنیاد پر تاریخ کا آغاز ایک نئے سرے سے کرتا۔ وہ یوں کہ اس مخصوص قوم کو، جس کی طرف رسول بھیجا گیا ہوتا، اتمامِ حجت کے بعد اس کی تہذیب و تمدن کے ساتھ نیست و نابود کردیا جاتا اور رسول کی قیادت میں ایک اللہ پرست معاشرہ قائم کیا جاتا۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے جن قوموں کا تذکرہ کیا ہے ان کے آثار آج بھی دنیا میں موجود ہیں. ان قوموں کو اللہ تعالی نے ان کی نافرمانیوں،اللہ سے انکار ‘رسولوں ‘نبیوں اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردینے پر سخت سزائیں (عذاب ) بھی دیں اور قرآن میں ہم مسلمانوں کی عبرت اور رہنمائی کیلئے ان کا تذکرہ کیا ہے.
ارشاد باری تعالی ہے :
اَلَمْ یَرَوْاکَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنٰھُمْ فِیْ اَلْاَرْضِ مَالَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَیْھِمْ مِّدْرَارًا وَ جَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمْ فَاھْلَکْنٰھُمْ بِذُنَوْبِھِمْ وَاَنْشَانَا مِنْ بَعْدِھِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَo
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا جنہیں ہم نے زمین میں ایسا مضبوط و پائیدار اقتدار دیا تھا کہ ایسا اقتدار تمہیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر لگا تار برسنے والی بارش بھیجی اور ہم نے ان (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں پھر (اتنی پرعیش و عشرت والی زندگی دینے کے باوجود) ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری امتوں کو پیدا کیا۔‘‘ (سورہ الانعام 6: 6)
وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجاَءَ تْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَمَا کَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَo
’’ اور بیشک ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو ان کے عمل کی سزا دیتے ہیں۔ ‘‘ (سورہ یونس 10 : 13)
مگر ہر دفعہ پھر وہی پرانی کہانی جنم لیتی۔ شرک و خرافات آہستہ آہستہ انسانی زندگی میں سرائیت کرتا چلا جاتا۔ حق و باطل کی کشمکش کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ اللہ نے انسانیت کی زندگی میں فیصلہ کن مداخلت کی اور اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مشن کے ساتھ بھیجا کہ آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شرک کوشکست دے کر دنیا کی غالب فکر کے مقام سے ہٹا دیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں جزیرہ نما عرب سے اور آپ کے اصحاب نے پوری متمدن دنیا سے شرک و خرافات کو ختم کردیا۔ شرک اگر رہا تو غیر متمدن قوموں کے افراد کا آبائی عقیدہ بن کر۔ زندگی اور تہذیب کی تشکیل میں اس کا کوئی کردار نہ رہا۔
یہ انسانی تاریخ کا سنہرا دور تھا جسے ہم بجا طور پر دورِ توحید سے منسوب کرسکتے ہیں۔ یہ دور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے شروع ہوا اور کئی صدیوں تک اپنی اصلی حالت کے ساتھ دنیا میں موجود رہا۔ اس دور میں توحید وقت کی غالب فکر رہی اور زندگی کا ڈھانچہ توحید کی بنیاد پر تشکیل پانے لگا۔۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں پھر سے کبھی الحاد کبھی تصوف تو کبھی شرک و توھم پرستی کی آمیزش ہونے لگی جو کہ اب تک جاری ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...