Tuesday 23 May 2017

ایک فرد ملحد کیوں اور کن حالات میں بنتا ہے؟

ایک فرد ملحد کیوں اور کن حالات میں بنتا ہے؟

سلسلہ:ملحد کا تعاقب #:10،
(تالیف: عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اس پر کچھ دانشوروں اور خود الحاد کا شکار ہو کر بعد ازاں الحاد کو چھوڑ دینے والوں کی تحقیق اور تفکر کے بعد کچھ اہم عوامل سامنے آئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کے اندر ایک ہی وقت میں خیر اور شر دونوں ہی طرح کے عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ خیر کی نسبت شر میں پائی جانے والی مقناطیسی طاقت انسان کو بآسانی زیر کر لینے کی صلاحیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے مذہبی اخلاقیات سے دور ہونے کے امکانات کبھی بھی معدوم نہیں ہوتے، جیسے جیسے سائنس نے انسان کی سوچ کو منطق یا دلیل کا قائل کیا، کچھ لوگوں کا مذہبی عقائد سے رشتہ کمزور ہونے لگا۔ دوسری طرف سائنس کے عروج نے مادیت کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کیا. اس مادیت پرستی میں ایک طرف تو اخلاقیات کمزور ہوئیں اور دوسری طرف گناہ کے احساس سے بچنے اور اپنے گناہ کو آزادانہ ماحول میں پروان چڑھنے دینے کی خاطر اس طرح کے اذہان نے فطرتی طاقتوں کی حکم عدولی ہی میں عافیت جانی۔ یہ افراد مادر پدر آزادی کے روح رواں بنے۔ ایک طرف ماننے والا اگر اندرونی طور پر گناہ کے احساس سے خوفزدہ ہے، تو دوسری طرف نہ ماننے والے بھی اس احساس گناہ کا شکار ہیں، اور اسی احساس کو اپنے تئیں زیر کرنے کے لیے وہ سزا یا جزا کے نظام سے ہی انحراف برت کر مطمئن ہو جانا چاہتے ہیں۔ وہ الحاد پھیلا کر انسانی معاشرے کو اپنے خیالات میں ڈھالنے کے بھی متمنی ہیں۔

ملحدوں کے کوائف دیکھتے ہوئے ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ انتہا درجے کے ذہین اور فطین لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی ذہانت و فطانت پر خود ان کا ہی غرور غالب آنے لگتا ہے، جو انھیں خود پرستی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ خود پرستی جو انہیں خود اپنا ہی خدا بنا دیتی ہے۔ یہ اپنی ذات کے سحر میں اس قدرگرفتار ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات کی محبت اور اپنے خیالات کی پرستش کسی اور ذات کی تابعداری یا اطاعت کے قابل ہی نہیں چھوڑتی۔ ملحدوں پر کی گئی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کے اپنے والدین سے تعلقات بہت سی پیچیدگیوں کا شکار تھے۔ پال وٹز ایک ایسا ہی سابق ملحد تھا جو الحاد میں داخل ہو کر بعد ازاں اس سے تائب ہو گیا. اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”اکثر نمایاں ملحدوں پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ کئی ملحدین شفقت پدری سے محروم تھے، اور وہ جن کے والد موجود تھے، ان کے باہمی تعلقات کچھ خاص خوشگوار نہ تھے۔“ ملحدوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بچپن میں سنگین قسم کے گھریلو تشدد کا شکار رہے۔

الحاد کے مطالعہ سے معلوم پڑتا ہے کہ زیادہ تر نوجوان اس کا شکار ہوتے ہیں۔گویا الحاد کے پھیلاؤ کی ایک وجہ فرد کی ذہنی ناپختگی بھی ہے، جیسے کم سن لڑکوں کو انتہا پسندی کی طرف لے جانا آسان ہوتا ہے، اسی طرح ملحدوں کے لیے بھی کم عمر لڑکوں کو ورغلانا آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں ملحدوں کی زیادہ تعداد 14 سے 17 سال کے لڑکوں پر مشتمل ہے۔

الحاد کو عروج دینے والوں میں ہم جنس پرست لوگوں کا بھی ہاتھ ہے جو فطرت کی مخالفت اور اپنے رویوں کو جواز دلانے کے لیے مذہب کے منکر ہو جاتے ہیں۔ ایک یورپی نفسیات دان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ملحد صرف اس وجہ سے ہوا تھا کہ جب وہ stanford university میں داخل ہوا، تو وہاں اس کے پسندیدہ پروفیسرز الحاد کے پیروکار تھے، اور وہ محض انہیں راضی رکھنے کے لیے ملحد ہوگیا۔ الحاد کے پھیلاؤ کی ایک وجہ مغرب کے خاندانی نظام کا درہم برہم ہو جانا بھی ہے، جب انسان خاندانی نظم و ضبط اور روایات سے بری الزمہ ہو جائے تو آزاد پسندی اس کے اندر ایسی رچ بس جاتی ہے کہ مذہب بھی ایک بار محسوس ہونے لگتا ہے۔

ملحدوں کا مؤقف یہ تھا کہ مذہب جنگ اور بدامنی کا باعث بنتا ہے، لیکن دوسری عالمی جنگ میں زیادہ تر بربریت کا مظاہرہ کرنے والے لیڈران سیکولر تھے۔ مذہب کو دیوار سے لگا دینے والی کمیونزم آج اپنے ملکوں میں مذہب کو ایک بار پھر پنپنے کے مواقع دے رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں مذہب کی بیخ کنی کے بعد عوام میں جس قسم کی لاقانونیت اور وحشت سامنے آئی، اس نے الحاد کا پردہ فاش کر دیا۔ اور خود الحادی حکمرانوں نے جس طرح مذہبی لوگوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے، وہ واقعات بھی ان کے اندر کی انسانیت کا منہ چڑاتے نظر آئے۔ سائنس اور فلسفے کو خدا ماننے والوں کے لئے خود فرانسس بیکن کی یہ بات ان کا جواب ثابت ہوتی ہے کہ ”سائنس کا مختصر علم انسان کو ملحد بناتا ہے لیکن سائنس کا گہرا اور لامحدود علم یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ خدا موجود ہے.“

پاکستان میں گزشتہ کچھ سالوں سے ملحدوں کی ایک تعداد سامنے آئی ہے. سوشل میڈیا کے مختلف پیجز اور سائٹس بھی بنائی گئی ہیں۔ وکی پیڈیا پر سرچ کر کے دیکھیں تو کئی پاکستانی ملحدوں کے نام ملیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے گروپ کے زیادہ تر ممبران لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان میں زیادہ تر افراد انجینئرز، ڈاکٹرز، کمپیوٹر آپریٹرز، وکلاء، اور آرٹسٹ وغیرہ ہیں۔ اوسط عمر 20 سے 35 سال ہے۔ فیس بک پر ہی حالیہ طور پر جن پیجز کا چرچا ہو رہا ہے، اور انھیں چلانے والے جن لوگوں کے نام سامنے آ رہے ہیں، ان کا تذکرہ کچھ اس قدر ہو چکا ہے کہ دوبارہ تذکرے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ لیکن ان الحادی گروپوں پر کھلے عام مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کی تضحیک کا جو وطیرہ اپنایا گیا، وہ انتہائی ناقابل برداشت فعل ہے جس پر کوئی پابندی نہ لگانا ہماری حکومت کی غفلت اور بےحسی کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن آج جہاں لوگوں میں اس سنگین مسئلے کا احساس جاگا ہے، وہاں محض چند لوگوں کو کافر یا بےدین قرار دے دینا کافی نہیں، بلکہ اب پوری تیاری کے ساتھ اس فساد کا مقابلہ دانشورانہ، محققانہ سوچ اور مدلل انداز بیان و انداز تحریر سے کرنا ہوگا۔ بات محض چند افراد کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے انتہائی تیزی سے بدلتے انداز فکر و سماجی روایات کی ہے۔ مذہبی علمائے دین بہت کم ہی اس تیاری کے ساتھ نظر آتے ہیں، یا تو وہ اس فتنے کا جواب دینا ہی گوارا نہیں کرتے۔ یا شاید ان کی سوشل نیٹ ورک تک رسائی ہی نہیں، لہذا وہ اس سارے فساد سے ہی بےخبر ہیں۔

الحاد کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے پھیلاؤ کا باعث مذہب نہیں بلکہ مذہبی پیروکار اور ان کی استبدادیت بنی۔ چرچ کے نظام کو بادشاہت کی ظالمانہ اور استحصالی ساکھ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ لوگوں کو مذہب کے ذریعے ڈرا دھمکا کر اس استحصال کو ذہنی اور جسمانی طور پر قبول کرنے کی ترغیب دی جاتی رہی۔ آج اگر پاکستان میں اس کے اثرات پائے جاتے ہیں تو اس کے اصل ذمہ دار بھی ہمارے وہ مولانا حضرات ہیں جن کی اسلام سے متعلق معلومات اور تعلیم ناقص اور سطحی ہے۔ وہ آج کی پر تجسس نوجوان نسل کو ان کے اذہان میں اٹھتے سوالات کا کوئی تسلی بخش جوابات نہیں دے پاتے، جس سے سائنس اور فلسفے کا علم حاصل کرتے نوجوانوں کے بھٹکنے کا احتمال قدرے بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب ان کے والدین بھی انھیں مطمئن کرنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ مذہب کے متعلق کوئی سوال اٹھانا ہی ناقابل معافی جرم اور گناہ بنا دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر مذہبی رہنماؤں کی جہالت تو ایک سوالیہ نشان ہے ہی لیکن سب سے زیادہ خطرناک حقیقت ان کے ذاتی کردار سے ابھرتی ہے۔ وہ کردار جو وہ مدرسوں کے معصوم بچوں پر انتہائی سنگدلانہ اور غیر انسانی جنسی و جسمانی تشدد سے ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ وہ قرآن حفظ کرنے والے بچوں کو قرآن کا سبق اور درس بھی دے سکیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بےگناہ انسانوں کا خون بہاتے لوگ بھی مذہب سے بیزاری پیدا کرنے کا باعث بنے۔ مختلف فرقوں سے وابستہ علماء کی اپنے مخصوص عزائم کے لیے پھیلائی جانے والی منافرت بھی اس بیزاری کو جنم دینے کا باعث بنیں۔ اس سلسلے میں ہماری عدم دلچسپی خود ہماری ہی نسلوں کو گمراہ کر رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت پر دباﺅ ڈالا جائے کہ وہ مساجد اور مدرسوں میں علمائے کرام کا انتخاب ایک مخصوص مذہبی اور دنیاوی علوم کی مستند تعلیم کے حصول کے بعد ہی ممکن بنائیں اور انہیں بہترین معاشرتی و معاشی مقام دیا جائے تاکہ وہ خود کو قابل عزت و احترام ثابت کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ انہیں علم کے حصول کے لیے دوسرے ممالک میں بھی جانے کے لیے حکومتی سطح پر وظائف دیے جائیں تاکہ ان کا علم عصر حاضر کے تقاضوں سے بہتر طور پر نپٹنے کے قابل بن سکے۔

پاکستان میں الحاد کی حوصلہ افزائی کرنے میں ایک اور اہم کردار ہمارے تعلیمی ادارے ادا کر رہے ہیں۔ ملک کے اہم اور مہنگے تعلیمی اداروں نے مذہب بیزاری کی باقاعدہ طور پر ایک مہم چلا رکھی ہے۔ ان میں اساتذہ کو سختی سے پابند کیا جاتا ہے کہ وہ دوران لیکچر طلبہ سے کسی قسم کی کوئی مذہبی بات نہیں کریں گے۔ اکثر اسکولوں میں بچوں کو صبح کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ ان اسکولوں میں اردو میں بات کرنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے اور ٹیچر کو منع کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی بچہ اردو میں بات کرے تو اس کا جواب ہرگز نہ دیا جائے۔ جہاں اپنی قومی شناخت کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہاں مذہب کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیڈی ٹیچرز کو شال یا دوپٹے کے بجائے محض ایک سٹالر یا سکارف کی اجازت ہوتی ہے۔ اور ٹیچر کو یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بچوں سے زیادہ سے زیادہ مغرب کے نظام اور روایات سے متعلق بات کریں ۔موت، قبر، آخرت کی کوئی بات انہیں نہ بتائی جائے۔ بچوں میں احساس برتری جگایا جائے، اگر وہ غلط بھی کریں یا کہیں تو بھی انہیں سپورٹ کیا جائے۔ یہ وہ نظام تعلیم ہے جو حقیقی معنوں میں طلبہ کو خود پرستی اور خود ستائشی کی لت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جو طلبہ کو سوال کی نوعیت اور اہمیت سمجھے بغیر سوال در سوال کرنے کا عادی بناتا ہے۔ جو طلبہ کے اندر مغربی آزادی کو سمجھنے اور اپنانے کی ترغیب دیتا ہے. یہی وہ ہمت افزائی ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں ایک کالج کی طالبات نے کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایسے آزاد منش نوجوان اگر بعد میں ملحد ہو جائیں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔

سوشل میڈیا بھی بہت حد تک اس فساد کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ اس میڈیم نے ایسے لوگوں کو متحد ہونے اور اپنے منصوبے پھیلانے میں بھرپور مدد فراہم کی۔ اپنے دماغ کا تجسس نیٹ پر دوسروں سے شیئر کرتے کرتے کب یہ دوسروں سے متاثر ہو کر اپنے خیالات میں بدلاؤ لے آتے ہیں، خود انہیں بھی پتہ نہیں چلتا، کیونکہ وہ پہلے سے ہی دانشورانہ انتشار میں مبتلا ہوتے ہیں، اس لیے بنا کسی حیل و حجت کے دوسروں کے نقطہ نظر سے مرعوب ہو جانا بہت ممکن ہوتا ہے۔ وہ لوگ بھی الحاد پھیلا رہے ہیں جو مغرب کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ وہ ان یونیورسٹیوں کے ملحد پروفیسروں سے اس قدر متاثر ہو جاتے ہیں کہ ان کے ایجنڈے پر کام شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں بڑھتا احساس محرومی یا غربت انسان کو اس فساد میں نہیں ڈال سکے جس قدر مادیت پرستی اور ہوس نے انھیں دہریت کی طرف مائل کر رکھا ہے۔ بہت تیزی سے بدلتی معاشرتی قدروں نے انسانیت کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ سیکولراز م کی وہ تحریک جو مادر پدر آزادی کی قائل ہے، وہ زیادہ تر ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو شراب کے نشے میں دھت رہتے ہیں، اور زنا کاری میں انھیں کوئی برائی دکھائی نہیں دیتی۔ جو جوئے اور حرام شے کو کھا لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ یہ لوگ rational نہیں۔ اگر rational ہوتے تو مذہب سے الجھنے کے بجائے معاشرے کی برائیوں کو قابو کرنے اور بہترین انسانی مفاد کے لیے مہم چلاتے، وہ شعور اور قانون کی بالا دستی کی بات کرتے، ذات پات کے نظام کے خلاف آواز اٹھاتے۔ غربت اور جہالت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوتے۔ انہیں یہ یقین کرلینا چاہیے کہ ہمارے مذہب اسلام نے نہ تو کبھی امارت اور سماجی عدم استحکام کی حمایت کی نہ قانون کی تنفیذ میں کسی کے مقام و مرتبے کو فوقیت دی۔ اسلام نے معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف بہت سے نظام متعارف کروائے، اگر یقین نہ آئے تو جا کر مغرب سے پوچھیں کہ وہ آپ کے نظام مملکت اور حکومت و معاشرت کو قابل تعریف کیوں گردانتے ہیں۔ اگر مذہب اسلام میں خرابی موجود ہے تو دنیا میں ہر سال کثیر تعداد میں لوگ اسلام کیوں قبول کر رہے ہیں؟ امریکہ میں ہر سال بیس ہزار سے زائد، برطانیہ میں پانچ ہزار سے زائد اور سپین جہاں سے ماضی میں اسلام کو ملک بدر کر دیا گیا تھا، ہر سال چار ہزار لوگ اسلام کیوں قبول کر رہے ہیں، یہ تو چند ایک ممالک کا تذکرہ ہے، باقی اعداد و شمار تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ اگر اسلام میں خرابی نظر آتی ہے تو مغرب کے ان نامور دانشوروں کے تجزیات پر مبنی آرٹیکل پڑھ کر دیکھ لیں جن کا ماننا ہے کہ اسلام کی وسیع پیمانے پر قبولیت کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اسے بہت سادہ اور پریکٹیکل مذہب مانتے ہیں، اور اس میں دوسرے مذاہب کی طرح انسان کی ذات پات کی سطح پر کوئی تقسیم نہیں پائی جاتی۔ کمزوری مذہب اسلام میں نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کے ذاتی اعمال میں ہے۔

پاکستان میں منکرین مذہب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہاں اکثریتی عوام معتدل سوچ کے حامل لوگ ہیں۔ یہاں جس انتہا پسندی کی بات کی جاتی ہے وہ گنتی کے چند لوگوں میں پائی جاتی ہے جن کی اپنے مذہ سے متعلق معلومات انتہائی ناقص ہیں۔ ان ملحدین کو یہ بھی جاننے اور ماننے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں اسلام پر اتنی ریسرچ خود مسلمان ممالک میں نہیں ہو رہی جتنی یورپ میں کی جا رہی ہے۔ انہیں یہ بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ روحانیت کا دنیا سے تعلق توڑنا ناممکن ہے. یہ وہ حقیقت ہے جو انسان کے بہت سے اندرونی مسائل سے نپٹنے کی طاقت عطا کرتی ہے۔ ان مسائل کا حل جنہیں سائنس حل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔مزید تفصیلات کے لئے سابقہ قسط نمبر9 کا مطالعہ کریں ۔
جاری ہے۔۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...