Tuesday 16 May 2017

مسلم معاشروں میں الحاد کا فروغ

مسلم معاشروں میں الحاد کا فروغ

سلسلہ:ملحد کا تعاقب #:3،

تالیف:محمد مبشر نذیر، مرتب عمران شہزاد تارڑ )

پندرہویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ اپنے ممالک سے نکل کر مشرق و مغرب میں پھیلنا شروع ہوئے۔ انیسویں صدی کے آخر تک وہ دنیا کے بڑے حصے پر اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔ ان کی نوآبادیات میں مسلم ممالک کی اکثریت بھی شامل تھی۔ اہل یورپ نے ان ممالک پر صرف اپنا سیاسی اقتدار ہی قائم نہیں کیا بلکہ ان میں اپنے الحادی نظریات کو بھی فروغ دیا۔ مغربی ملحدین نے عیسائیت کی طرح اسلام کی اساسات پر بھی حملہ کیا۔ مسلم ممالک میں ان کے نظریات کے خلاف چار طرح کے رد عمل سامنے آئے:

· مغربی الحاد کی پیروی۔

· مغرب کو مکمل طور پر رد کر دینا۔

· مغرب کی پیروی میں اسلام میں تبدیلیاں کرنا۔

· مغرب کے مثبت پہلو کو لے کر اسے اسلامی سانچے میں ڈھالنا۔

مسلم اشرافیہ

پہلا رد عمل مسلمانوں کی اشرافیہ (Elite)   کا تھا۔ ان کی اکثریت نے اہل مغرب اور ان کے الحاد کو کلی یا جزوی طور پر قبول کرلیا۔اگرچہ اپنے نام اور بنیادی عقائد کی حد تک وہ مسلمان ہی تھے لیکن اپنی اجتماعی زندگی میں وہ الحاد اور لادینیت کا نمونہ تھے۔ بیسویں صدی کے وسط میں آزادی کے بعد بھی ان کی یہ روش برقرار رہی۔  ان میں سے بعض تو اسلام کی تعلیمات کے کھلم کھلا مخالف تھے جن میں ترکی کے مصطفےٰ کمال پاشا، ایران کے رضا شاہ پہلوی، تیونس کے حبیب بورغبیہ اور پاکستان کے جنرل یحیٰی خان شامل ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے اگرچہ اسلام کا کھلم کھلا انکار نہیں کیا لیکن وہ عملی طور پر الحاد ہی سے وابستہ رہے۔ چونکہ مسلم عوام کی اکثریت کا سیاسی و معاشی مفاد انہی کی پیروی میں تھا، اس لئے عوام الناس میں الحاد پھیلتا چلا گیا۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔

روایتی مسلم علماء

دوسرا رد عمل روایتی مسلم علماء کا تھا۔ انہوں نے اہل مغرب کے نظریات کو یکسر مسترد کردیا۔ انہوں نے مغربی زبانوں کی تعلیم، مغربی علوم کے حصول، مغربی لباس کے پہننے، اور اہل مغرب کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا۔ انہوں نے اپنے مدارس کے ماحول کو قرون وسطیٰ کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دور جدید میں کسی مسئلے پر اجتہادی انداز میں سوچنے کی بجائے قدیم ائمہ کی حرف بہ حرف تقلید پر زور دیا۔ برصغیرمیں اس نقطہ نظر کو ماننے والے بڑے بڑے علماء میں قاسم نانوتوی، محمود الحسن، سید نذیر حسین دہلوی اور احمد رضا خان بریلوی شامل تھے جن کے نقطہ نظر کو پورے ہندوستان کے دینی مدارس نے قبول کیا۔

 اگرچہ ان علماء میں کچھ مسلکی اور فقہی اختلافات موجود تھے لیکن مغرب کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بالکل یکساں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض مغربی زبانیں سیکھنے اور مغربی علوم کے حصول کے مخالف نہ تھے لیکن عملاً ان کا رویہ اس سے دوری ہی کا رہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں ان کا اثر و نفوذکم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور ان کے نقطہ نظر کو ماضی کی چیز سمجھ لیا گیا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بیزار ہونے لگا اور آہستہ آہستہ یا تو پہلے نقطہ نظر کو قبول کرکے الحاد کی طرف چلا گیا یا پھر اس نے تیسرے اور چوتھے نقطہ نظر کو قبول کیا۔

 معاشرے میں اب ان اہل علم کا کردار یہی رہ گیا کہ وہ مسجد میں نماز پڑھا دیں، کسی کے گھر میں ختم قرآن کردیں یا پھر نکاح، بچے کی پیدائش اور جنازے کے وقت چند رسومات ادا کردیں۔ عملی زندگی میں ان کے کردار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ یہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب مولوی صاحب وعظ ختم کریں اور وہ مسجد میں جا کر نماز جمعہ ادا کریں۔ جیسے ہی وعظ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ، لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف آنے لگتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے لوگوں کو ان کے وعظ اور تقاریر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انہی روایتی علماء میں سے بعض نے جدید دنیا کے علوم سے واقفیت حاصل کرکے عصر حاضر کے زندہ مسائل کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ عام روایتی علماء کی نسبت ان کا اثر و نفوذ معاشرے میں بہت زیادہ ہے اور ان کی دعوت کو سننے والے افراد کی کوئی کمی نہیں۔

متجددین

اس دور میں امت مسلمہ کی علمی و فکری قیادت برصغیر اور مصر کے اہل علم کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بعض مسلمان مفکرین نے اسلام کو جدید الحادی نظریات سے منطبق (Reconcile)  کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے اسلام کے بعض بنیادی عقائد و اعمال کا بھی انکار کردیا۔ اس نقطہ نظر کو ماننے اور پھیلانے والوں میں ہندوستان کے سرسید احمد خان ، اورمصر کے طٰہٰ حسین اور سعد زغلول شامل ہیں۔ اسی فکر کو بیسویں صدی میں غلام احمد پرویز اور ان کے شاگرد ڈاکٹر عبد الودود نے پیش کیا۔ روایتی اور جدید نقطہ نظر کے حامل علماء کے اثر و رسوخ کے پیش نظر اس فکر کو مسلم معاشروں میں عام مقبولیت حاصل نہ ہو سکی تاہم اس سے اشرافیہ کا ایک اہم حلقہ ضرور متاثر ہوا۔

جدید مصلحین

چوتھا رد عمل ان اہل علم کا تھا جو روایتی علماء کے قدیم علمی ورثے کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے مغرب کے الحادی افکار پر کڑی نکتہ چینی کی اور تیسرے نقطہ نظر کے حامل علماء کے برعکس اسلام کو معذرت خواہانہ انداز کی بجائے باوقار طریقے سے پیش کیا۔ انہوں نے روایتی علماء پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت تو ناقابل تغیر ہے لیکن قرون وسطیٰ کے علماء نے اپنے ادوار کے تقاضوں کے مطابق جو قانون سازی کی تھی، اس کی تشکیل نو (Reconstruction) کی ضرورت ہے۔ روایتی علماء کے برعکس انہوں نے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیا۔

اس نقطہ نظر کے حاملین میں ہندوستان کے اہل علم میں سے محمد اقبال، ابوالکلام آزاد ، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، حمید الدین فراہی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مصر کے علماء میں رشید رضا، حسن البنا اور سید قطب شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے ممالک کے جدید اہل علم نے انہی کی پیروی کی۔ اسی نقطہ نظر کے حاملین نے عالم اسلام میں بڑی بڑی تحریکیں برپا کیں جنہوں نے جدید طبقے کو اسلام سے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ روایتی علماء کی نسبت انہیں تعلیم یافتہ طبقے میں کافی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کے اثرات اپنے اپنے معاشروں پر نہایت گہرے ہیں۔
مزید تفصیلات کے لئے مشہور زمانہ مائہ ناز کتاب کا نام:آئینہ پرویزیت/مصنف مولانا عبدالرحمن کیلانی-کتاب کا نام:دفاع سنت /مصنف :  ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری- 
کتاب کا نام:جناب غلام احمد پرویز کے نظام ربوبیت پر ایک نظر /مصنف :  ڈاکٹر حافظ محمد-
کتاب کا نام:انکار حدیث حق یا باطل؟ /مصنف :  صفی الرحمٰن مبارکپوری- 
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
بشکریہ:mubashirnazir.org
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...