Wednesday 17 May 2017

*مغربی اور مسلم معاشروں پر الحاد کے اثرات*

*مغربی اور مسلم معاشروں پر الحاد کے اثرات*

نہایت ہی معلوماتی قسط طلبہ و طالبات ضرور اس کا مطالعہ کریں۔اور اپنے آراء سے آگاہ کریں۔

سلسلہ:الحاد کا تعاقب #:4،

تالیف:محمد مبشر نذیر، مرتب عمران شہزاد تارڑ )

الحاد کے اس عروج نے مغربی اورمسلم معاشروں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ انہوں نے قدیم ورثے کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور عیسائیت اور اسلام کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ ہم الحاد کے اثرات کو نظریات، فلسفے، سیاست، معیشت ، معاشرت اور اخلاق ہر پہلو میں نمایاں طور پر محسوس کر سکتے ہیں:

عقائد، فلسفہ اور نظریات

سب سے پہلے ہم نظریاتی اور فلسفیانہ پہلو کو لیتے ہیں۔ الحاد نے عیسائیت اور اسلام کے بنیادی عقائد یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر حملہ کیا اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلائے۔ اللہ کے وجود سے انکار کردیا گیا، رسولوں کے تاریخی وجود کا ہی انکار کردیا گیا اور آخرت سے متعلق طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔ اس ضمن میں ملحدین کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوسکی کیونکہ یہ تینوں عقائد مابعد الطبیعاتی حقائق سے تعلق رکھتے ہیں جسے اس دنیا کے مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں نہ تو ثابت کیاجاسکتا ہے اور نہ رد کیا جاسکتا ہے۔

ان ملحدین نے عیسائیت پر ایک اور طرف سے بڑا حملہ کیا اور وہ یہ تھا کہ قرون وسطیٰ کے عیسائی علماء نے اپنے وقت کے کچھ سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کو اپنے نظام عقائد (Theology)   کا حصہ بنا لیا تھا جیسے زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج اس کے گر دگھومتا ہے۔ جب جدید سائنسی تحقیقات سے یہ نظریات غلط ثابت ہوئے تو بہت سے لوگوں کا پوری عیسائیت پر اعتماد اٹھ گیا اور انہوں نے فکری طور پر بھی الحاد کو اختیار کرلیا۔ اسلام میں چونکہ اس قسم کے کوئی عقائد نہیں، لہٰذا اسلام اس قسم کے حملوں سے محفوظ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ الحاد کو مغرب میں تو بہت سے ایسے پیروکار مل گئے جو ہر قسم کے مذہب سے بیزاری کا اعلان کرکے خود کو فخریہ طور پر ملحد (Atheist)  کہتے ہیں لیکن مسلمانوں میں انہیں ایسے پیروکار بہت کم مل سکے۔ مسلمانوں میں صرف ایسے چند لوگ ہی پیدا ہوئے جو زیادہ تر کمیونسٹ پارٹیوں میں شامل ہوئے۔ اگر ہم کمیونسٹ تحریک سے وابستہ نسلی مسلمانوں کا جائزہ لیں تو ان میں سے بھی بہت کم ایسے ملیں گے جو خود کو کھلم کھلا دہریہ یا ملحد کہلوانے پر تیار ہوں۔

عیسائیت پر ملحدین کا ایک اور بڑا حملہ یہ تھا کہ انہوں نے انبیاء کرام بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود سے انکار کردیا۔ انہوں نے آسمانی صحیفوں بالخصوص بائبل کو قصے کہانیوں کی کتاب قرار دیا۔ اس الزام کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے کچھ عیسائی ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی زندگیاں وقف کرکے علمی طور پر یہ بات ثابت کردی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک تاریخی شخصیت ہیں اور بائبل محض قصے کہانیوں کی کتاب ہی نہیں بلکہ اس میں بیان کئے گئے واقعات تاریخی طور پر مسلم ہیں اور ان کا ثبوت آثار قدیمہ کے علم سے بھی ملتا ہے۔ یہ الحاد کے مقابلے میں عیسائیت کی بہت بڑی فتح تھی۔

 اسلام کے معاملے میں ملحدین ایسا نہ کرسکے کیونکہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا ان کے لئے علمی طور پر ممکن نہ تھا۔ انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی۔ ان میں سے بعض کوتاہ قامت اور علمی بددیانتی کے شکار افراد نے چند من گھڑت روایات کا سہارا لے کر پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ ان من گھڑت روایات کی علمی و تاریخی حیثیت کو مسلم علماء نے احسن انداز میں واضح کر دیا جسے انصاف پسند ملحد محققین نے بھی تسلیم کیا۔ ان محققین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی عظمت کو کھلے دل سے اعتراف کیا۔

اللہ کی ذات کے متعلق جو شکوک و شبہات ان ملحدین نے پھیلائے تھے، اس کی بنیاد چند سائنسی نظریات پر تھے۔ بیسویں صدی کی سائنسی تحقیقات جو خود ان ملحدین کے ہاتھوں ہوئیں، نے یہ بات واضح کردی کہ جن سائنسی نظریات پر انہوں نے اپنی عمارت تعمیر کی تھی، بالکل غلط ہیں۔ اس طرح ان کی وہ پوری عمارت اپنی بنیاد ہی سے منہدم ہوگئی جو انہوں نے تعمیر کی تھی۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

سیاست

فکری اور نظریاتی میدان میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ الحاد اسلام کے مقابلے میں ناکام رہا مگر عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی البتہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی میدانوں میں الحاد کو مغربی اور مسلم دنیا میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ۔ سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔ پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیا۔ سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو گرجے یا مسجد تک محدود کردیا جائے اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کی بنیاد پر چلایا جائے جس میں مذہبی تعلیمات کا کوئی حصہ نہ ہو۔

 مغربی دنیا نے تو سیکولر ازم کو پوری طرح قبول کر لیا اور اب اس کی حیثیت ان کے ہاں ایک مسلمہ نظریے کی ہے۔ انہوں نے اپنے مذہب کو گرجے کے اندر محدود کرکے کاروبار حیات کو مکمل طور پر سیکولر کر لیا ہے۔ چونکہ اہل مغرب کے زیر اثر مسلمانوں کی اشرافیہ بھی الحاد کے اثرات کو قبول کرچکی تھی، اس لئے ان میں سے بھی بہت سے ممالک نے سیکولر ازم کو بطور نظام حکومت کے قبول کرلیا۔  بعض ممالک جیسے ترکی اور تیونس نے تو اسے  کھلم کھلا اپنانے کا اعلان کیا لیکن مسلم ممالک کی اکثریت نے سیکولر ازم اور اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی جس میں بالعموم غالب عنصر سیکولر ازم کا تھا۔

الحاد کو فروغ جمہوریت کے نظریے سے بھی ہوا۔ اگرچہ جمہوریت عملی اعتبار سے اسلام کے مخالف نہیں کیونکہ اسلام میں بھی آزادی رائے اور شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے، لیکن جمہوریت جن نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے وہ خالصتاً ملحدانہ ہے۔ جمہوریت کی بنیاد حاکمیت جمہور کے نظریے پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عوام کی اکثریت اللہ کی مرضی کے خلاف فیصلہ دے دے تو ملک کا قانون بنا کر اس فیصلے کو نافذ کر دیا جائے۔ اس کی واضح مثال ہمیں اہل مغرب کے ہاں ملتی ہے جہاں اپنے دین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے فری سیکس، ہم جنس پرستی، شراب اور سود کو حلال کر لیا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں اس کی مثال شاید ترکی ہی میں مل سکتی ہے۔

اسلام نظریاتی طور پر جمہوریت کے اقتدار اعلیٰ کے نظریے کا شدید مخالف ہے۔ اسلام کے مطابق حاکمیت اعلیٰ جمہور کا حق نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسلام کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنا شرک ہے۔ سب سے بڑا اقتدار (Sovereignty)  صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی ہدایت نہیں دی، وہاں عوام کی اکثریتی رائے اور مشورے سے فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ اکثریت کی مرضی کے خلاف اس پر اقلیتی رائے کو مسلط کرنا اسلام میں درست نہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر معاملہ مشورے سے طے کریں۔

معیشت

معیشت کے باب میں الحاد نے دنیا کو دو نظام دیے۔ ان میں سے ایک ایڈم سمتھ کا سرمایہ دارانہ نظام یا کیپیٹل ازم اور دوسرا کارل مارکس کی اشتراکیت یا کمیونزم۔ کیپیٹل ازم دراصل جاگیر دارانہ نظام (Feudalism)  ہی کی ایک نئی شکل ہے جو عملی اعتبار سے جاگیر دارانہ نظام سے تھوڑا سا بہتر ہے۔ کیپیٹل ازم میں مارکیٹ کو مکمل طور پر آزاد چھوڑا جاتا ہے جس میں ہر شخص کو یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ دولت کے جتنے چاہے انبار لگا لے۔ جس شخص کو دولت کمانے کے لامحدود مواقع میسر ہوں وہ امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا اور جسے یہ مواقع میسر نہ ہوں وہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔ حکومت اس سلسلے میں کوئی مداخلت نہیں کرتی۔

جاگیر دارانہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سرمایہ دار، غریب کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس کا استحصال کرتا ہے۔ غریب اور امیر کی خلیج اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ایک طرف تو گھی کے چراغ جلائے جاتے ہیں اور دوسری طرف کھانے کو دال بھی میسر نہیں ہوتی۔ ایک طرف تو ایک شخص ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے خرچ کر دیتا ہے اور دوسری طرف ایک شخص کو بھوکا سونا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو علاج کے لئے امریکہ یا یورپ جانا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف ڈسپرین خریدنے کی رقم بھی نہیں ہوتی۔ ایک طرف بچوں کو تعلیم کے لئے ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بچوں کو سرکاری سکول میں تعلیم حاصل دلوانے کے لئے بھی ماں باپ کو فاقے کرنا پڑتے ہیں۔ ایک طرف محض ایک لباس سلوانے پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف استعمال شدہ کپڑے خریدنے کے لئے بھی پیٹ کاٹنا پڑتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے اس تفاوت کی مکمل ذمہ داری الحاد پر ہی نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ اس کا پیشرو نظام فیوڈل ازم ، جو کہ اس سے بھی زیادہ استحصالی نظام ہے، اس دور میں ارتقاء پذیر ہوا جب مغربی دنیا میں عیسائی علماء اور مسلم دنیا میں مسلم علماء طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عیسائی تھیو کریسی اور مسلم علماء نے جاگیر دارانہ نظام کے ظلم وستم اور استحصال کے خلاف کبھی موثر جدوجہد نہیں کی بلکہ اپنے ادیان کی تعلیمات کے برعکس وہ اس کے سرپرست بنے رہے۔

 اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد فیوڈل ازم کی کوکھ سے کیپیٹل ازم نے جنم لیا جو کہ امیر کے ہاتھوں غریب کے استحصال کا ایک نیا نظام تھا لیکن اس کا استحصالی پہلو فیوڈل ازم کی نسبت کم تھا کیونکہ وہاں تو بہتر مستقبل کی تلاش میں غریب کسی اور جگہ جا بھی نہیں سکتا۔چونکہ اہل مغرب اور اہل اسلام اپنے دین کی تعلیمات سے خاصے دور ہو چکے تھے، اس لئے یہ نظام اپنے پورے استحصالی رنگ میں پنپتا رہا۔

یورپ میں کارل مارکس نے کیپیٹل ازم کے استحصال کے خلاف ایک عظیم تحریک شروع کی جس میں اس نظام کی معاشی ناہمواریوں پر زبردست تنقید کی گئی۔ مارکس اور ان کے ساتھی فریڈرک اینجلز، جو بہت بڑے ملحد فلسفی تھے، نے پوری تاریخ کی ایک نئی توجیہ(Interpretation)  کر ڈالی جس میں انہوں نے معاش ہی کو انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا محور و مرکز قرار دیا۔ان کے نزدیک تاریخ کی تمام جنگیں، تمام مذاہب اور تمام سیاسی نظام معاشیات ہی کی پیداوار تھے۔انہوں نے خدا، نبوت اور آخرت کے عقائد کا انکار کرتے ہوئے دنیا کو ایک نیا نظام پیش کیاجسے تاریخ میں کمیونزم کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ کمیونزم کا نظام خالصتاً الحادی نظام تھا۔

کمیونسٹ نظام انفرادی ملکیت کی مکمل نفی کرتا ہے اور تمام ذرائع پیداوار جن میں زراعت، صنعت، کان کنی اور تجارت شامل ہے کو مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں دے دیتا ہے۔ پوری قوم ہر معاملے میں حکومت کے فیصلوں پر عمل کرتی ہے جو کہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں پر مشتمل ہوتی ہے۔کمیونسٹ جدوجہد پوری دنیا میں پھیل گئی ۔ اسے سب سے پہلے کامیابی روس میں ہوئی جہاں لینن کی قیادت میں1917   میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا اور دنیا کی پہلی کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی۔ دوسرا بڑا ملک، جس نے کمیونزم کو قبول کیا، چین تھا۔ باقی ممالک نے کمیونزم کی تبدیل شدہ صورتوں کو اختیار کیا۔

 کمیونزم کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں فرد کے لئے کوئی محرک (Incentive)   نہیں ہوتا جس سے وہ اپنے ادارے کے لئے اپنی خدمات کو اعلیٰ ترین انداز میں پیش کرسکے اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ محنت کرسکے۔ اس کے بر عکس کیپیٹل ازم میں ہر شخص اپنے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینے اور اس سے زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لئے دن رات محنت کرتا ہے اور اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتیں استعمال کرتا ہے۔ کمیونزم کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ پورے نظام کو جبر کی بنیادوں پر قائم کیا گیا اور شخصی آزادی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین کی معیشت کمزور ہوتی گئی اور بالآخر 1990  میں یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد اسے کیپیٹل ازم ہی کو اپنانا پڑا۔ دوسری طرف چین کی معیشت کا حال بھی پتلا تھا۔ چین نے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کمیونزم کو خیر باد کہہ دیا اور تدریجاً اپنی مارکیٹ کو اوپن کرکے کیپیٹل ازم کو قبول کرلیا۔ چین کی موجودہ ترقی کیپیٹل ازم ہی کی مرہون منت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کیپیٹل ازم اور کمیونزم دونوں نظام ہائے معیشت ہی استحصال پر مبنی نظام ہیں۔ ایک میں امیر غریب کا استحصال کرتا ہے اور دوسرے میں حکومت اپنے عوام کا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اہل مغرب نے اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں کو اپنا کر کیپیٹل ازم کے استحصالی نقصانات کو کافی حد تک کم کر لیا ہے، لیکن تیسری دنیا جس کی اخلاقی حالت بہت کمزور ہے وہاں اس کے نقصانات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

چونکہ یہاں ہم الحاد کی تاریخ کا مطالعہ کر رہے ہیں اس لئے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پچھلی تین صدیوں میں معیشت کے میدان میں الحاد کو دنیا بھر میں واضح برتری حاصل رہی ہے اور دنیا نے الحاد پر قائم دو نظام ہائے معیشت یعنی کیپیٹل ازم اور کمیونزم کا تجربہ کیا ہے۔ کمیونزم تو اپنی عمر پوری کرکے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اس لئے اس پر ہم زیادہ بحث نہیں کرتے لیکن کیپیٹل ازم کے چند اور پہلوؤں کا ایک مختصر جائزہ لینا ضروری ہے جو انسانیت کے لئے ایک خطرہ ہیں۔

کیپیٹل ازم کے نظام کی بنیاد سود پر ہے۔ بڑی بڑی صنعتوں کے قیام اور بڑے بڑے پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے وسیع پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سرمایہ دار کے لئے اتنی بڑی رقم کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر اس کے پاس اتنی رقم موجود بھی ہو تو اسے ایک ہی کاروبار میں لگا نے سے کاروباری خطرہ (Business Risk)   بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔ کیونکہ ایک کاروبار اگر ناکام ہوجائے تو پوری کی پوری رقم ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر وہی رقم تھوڑی تھوڑی کرکے مختلف منصوبوں میں لگائی جائے تو ایک منصوبے کی ناکامی سے پوری رقم ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہوتا اور تمام کے تمام منصوبوں کے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ اسے علم مالیات (Finance)  کی اصطلاح میں Diversification   کہا جاتا ہے۔

ان بڑے بڑے پراجیکٹس کے لئے رقم کی فراہمی کے لئے دنیا نے Financial Intermediaries  کا نظام وضع کیا ہے۔ اس درمیانی واسطے کا سب سے بڑا حصہ بینکوں پر مشتمل ہے۔ یہ بینک عوام الناس کی چھوٹی چھوٹی بچت کی رقوم کو اکٹھا کرنے کا کام  کرتے ہیں جس پر بینک انہیں سود ادا کرتا ہے۔ پورے ملک کے لوگوں کی تھوڑی تھوڑی بچتوں کو ملا کر بہت بڑی تعداد میں فنڈ اکٹھا کر لیا جاتا ہے جو انہی سرمایہ داروں کو کچھ زیادہ شرح سود پر دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر بینک عوام کو 8%  سود کی ادائیگی کر رہا ہے تو سرمایہ دار سے 10% سود وصول کررہا ہوگا۔ اس 2%میں بینک اپنے انتظامی اخراجات پورے کرکے بہت بڑا منافع بھی کما رہا ہوتا ہے۔

سرمایہ دار عموماً اپنے سرمایے کو ایسے کاروبار میں لگاتے ہیں جو اس سرمایے پر بہت زیادہ منافع دے سکے۔ اگر ہم دنیا بھر کی مختلف کمپنیوں کی سالانہ رپورٹس (Annual Reports)   کا جائزہ لیں تو ہمیں اس میں ایسے کاروبار بھی ملیں گے جن میں Return on Capital Employed کی شرح 50%  سالانہ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگی۔اس منافع کا ایک معمولی سا حصہ بطور سود ان غریب لوگوں کے حصے میں بھی آتا ہے جن کا سرمایہ دراصل اس کاروبار میں لگا ہوتا ہے۔

اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھ لیجئے کہ بالفرض ایک سرمایہ دار کسی بینک سے ایک ارب روپے 10%  سالانہ شرح سود پر لیتا ہے اور اس سرمائے سے پچاس کروڑ روپے سالانہ نفع کماتا ہے۔ اس میں سے وہ دس کروڑ بینک کو بطور سود ادا کرے گا اور بینک اس میں سے  8%  سالانہ کے حساب سے آٹھ کروڑ روپے اپنے  کھاتہ داروں (Deposit Holders)   کو ادا کرے گا۔ چونکہ یہ کھاتہ دار بہت بڑی تعداد میں ہوں گے جنہوں نے اپنی تھوڑی تھوڑی بچت بینک میں جمع کروائی ہوگی اس لئے ان میں سے ہر ایک کے حصے میں چند ہزار یا چند سو روپے سے زیادہ نہیں آئے گا۔ اس طریقے سے سرمایہ دار ، عام لوگوں کو چند ہزار روپے پر ٹرخا کر ان کا پیسہ استعمال کرتا ہے اور اسی پیسے سے خود کروڑوں روپے بنا لیتا ہے۔

اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس طرح جاگیر دارانہ نظام میں جاگیر دار یا مہاجن غریبوں کو سود پر رقم دے کر ان کا استحصال کیا کرتا تھا، اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار غریبوں سے سود پر رقم لے کر ان کا استحصال کرتا ہے۔اس کے علاوہ فیوڈل ازم کے مہاجنی سود کا سلسلہ بھی اس نظام میں پوری طرح جاری ہے جس میں کریڈٹ کارڈزکے ذریعے Micro-Financing   کا سلسلہ جاری ہے۔ اس معاملے میں 36%  سالانہ کے حساب سے سود بھی وصول کیا جارہا ہے۔ اس سود میں سے صرف8-10%    اپنے کھاتہ داروں کو ادا کیا جارہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور خصوصیت جوئے کا فروغ ہے۔ یہ لعنت فیوڈل ازم میں بھی اسی طرح پائی جاتی تھی۔ دنیا بھر میں جوا کھیلنے کے بڑے بڑے ادارے قائم کئے جاچکے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج، فاریکس کمپنیز اور بڑی بڑی کیپیٹل اور منی مارکیٹس ان کیسینوز (کیسینو )کے علاوہ ہیں جہاں بڑی بڑی رقوم کا سٹہ کھیلا جاتا ہے۔ کھربوں روپے سٹے میں برباد کر دیے جاتے ہیں مگر بھوک سے مرنے والے بچوں کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ ان کیسینوز میں جوئے کے ساتھ ساتھ  بے حیائی اور بدکاری کو بھی فروغ مل رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے جوئے اور بدکاری کے مراکز بھی قائم کئے جاچکے ہیں۔ سود اور جوا ایسی برائیاں ہیں جن کا تعلق الحاد کی اخلاقی بنیادوں سے قائم کیا سکتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔

اخلاق اور معاشرت

الحاد کے اثرات سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، وہ اخلاق انسانی اور نظام معاشرت ہے۔ اگر کوئی یہ مان لے کہ اس دنیا کا کوئی اللہ نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کئے کا حساب دینا ہوگا تو پھر سوائے حکومتی قوانین یا معاشرتی دباؤ کے کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پھر اس کی زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ دولت اور اس سے لطف اندوز ہونا ہی رہ جاتا ہے۔

اگر کسی کو یقین ہو کہ کوئی اسے  نہیں پکڑ سکتا تو پھر کیا حرج ہے کہ اگر وہ اپنے کسی بوڑھے رشتے دار کی دولت کے حصول کے لئے اس کو زہر دے دے؟ اگر وہ اتنا ہوشیار ہو کہ پولیس اس کا سراغ نہیں لگا سکتی تو پھر لاکھوں روپے کے حصول کے لئے چند بم دھماکے کر کے دہشت گرد بننے میں کیا حرج ہے؟ قانون سے چھپ کر کسی کی عصمت دری سے اگر کسی کی درندگی کی تسکین ہوتی ہے تو اس میں کیا رکاوٹ ہے؟ اپنی خواہش کی تسکین کے لئے بچوں کو اغوا کرکے، ان سے زیادتی کرکے ، انہیں قتل کرکے تیزاب میں گلا سڑا دینے میں آخر کیا قباحت ہے؟ اپنے یتیم بھتیجے کامال ہڑپ کر جانے سے آخر کیا فرق پڑتا ہے؟ جھوٹا کلیم داخل کرکے اگر کسی کو اچھی خاصی جائیداد مل سکتی ہے تو کوئی ایسا کیوں نہ کرے؟ کسی کو اپنی گاڑی کے نیچے کچلنے کے بعد اسے ہسپتال تک پہنچا کر اپنا وقت برباد کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے اگر کوئی اپنی بہن یا بیٹی پر کاروکاری کا الزام لگا کر اسے قتل کردے تو کیا قیامت برپا ہو جائے گی؟ اپنے دشمنوں کی بہو بیٹیوں کو ننگا کرکے بازاروں میں گھمانے پھرانے سے اگر کسی کے انتقامی جذبات سرد پڑتے ہیں تو ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ اپنی لاگت(Cost)   کو کم کرنے کے لئے اگر کوئی خوراک یا ادویات میں ملاوٹ بھی کردے اور خواہ چند لوگ مر بھی جائیں تو کیا ہے، اس کا منافع تو بڑھ جائے گا؟ ذخیرہ اندوزی کرکے اگر کسی کے مال کی قیمتیں چڑھ سکتی ہیں تو وہ ایسا کیوں نہ کرے؟  اگر تیز رفتاری میں کسی کو مزہ آتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے اگر اس سے کوئی ایک آدھ آدمی مر جائے یا ہمیشہ کے لئے معذور ہو جائے، اتنے مزے کے لئے ایک آدھ بندہ مارنا کونسا مسئلہ ہے؟ اگر کوئی کسی کے نظریات سے اختلاف کرے تو اسے گولی مارنے میں کیا قباحت ہے؟ یا پھر یہ سب نہ بھی ہو تو کوئی اپنا وقت معاشرے کی خدمت میں کیوں لگائے، وہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ enjoyment  کے حصول میں ہی کیوں نہ خرچ کرے؟ اگر کوئی اپنے جرم کو چھپا سکتا ہو تو پھر سرکاری سودوں میں کمیشن کھا کر ملک و قوم کو نقصان پہنچانے میں کیا چیز مانع ہے؟

یہ وہ مثالیں ہیں جو روزانہ ہمارے سامنے اخبارات میں آتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم وحشی درندوں کے درمیان اپنی زندگی گزار رہے ہیں جن پر انسان اور مسلمان ہونے کا محض لیبل لگا ہوا ہے۔ کم وبیش اسی قسم کے واقعات تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پیش آتے ہیں۔  جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ مسلم دنیا پر بھی الحاد غالب آچکا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوا کہ مسلمان توحید، رسالت اور آخرت کا کھلم کھلا انکار کردیں لیکن عملی طور پر ہم ان حقیقتوں سے غافل ہو چکے ہیں۔ اللہ ہے یا نہیں ہے، اس نے اپنے کسی رسول کو اس دنیا بھی بھیجا یا نہیں بھیجا ، آخرت ہو گی یا نہیں ہو گی ، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہمارا ہر عمل پکار پکار کر ہمارے ملحد ہونے کا اعلان دے رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں قانون کی طاقت سے صرف چند بدمعاشوں ہی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب ان کے جرائم منظر عام پر آجائیں۔ معاشرہ دباؤ ڈال کر صرف ان لوگوں کی اصلاح کر سکتا ہے جن کے جرائم کا انہیں علم ہوجائے اور ان لوگوں کی تعداد معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہو۔ جو چیز جرائم کی شرح کو کم سے کم کرتی ہے وہ یہی انسانی اخلاقیا ت کا شعور ہی تو ہے۔ یہ شعور صرف ایک غالب قوت اور اس کے سامنے جواب دہی کے تصور ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک ملحدانہ معاشرے میں یہ تصور کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے؟

یہ سب سے نمایاں سوال ہے جو الحاد پر کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا بھر کے ملحد مفکرین اور فلسفی اس اخلاقی شعور سے بے بہرہ ہوں۔ بلکہ وہ خود کو اخلاق اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اس سوال کا پوری طرح جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک فکر آخرت کا نعم البدل یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کے ساتھ اس وجہ سے زیادتی نہ کرے کہ جواب میں وہ بھی زیادتی کرسکتا ہے یعنی دوسرے شخص کے منفی رد عمل سے بچنے کے لئے اس سے زیادتی نہ کی جائے۔

اگر اس اخلاقی معیار کو درست مان لیا جائے تو ایسا صرف اور صرف اس صورت میں ممکن ہے جب دونوں فریق قوت و اقتدار کے اعتبار سے بالکل مساوی درجے پر ہوں۔ ایک طاقتور شخص اگر کسی سے زیادتی کرے تو اسے جوابی ردعمل کا کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ اگر غور کیا جائے تو دنیا بھر کے مجرموں اور جرائم پیشہ افراد اسی اخلاقی ضابطے کی پیروی کرتے ہیں۔ چوری اور ڈاکے کے بعد لوٹ کا مال آپس میں بڑی دیانت داری سے تقسیم کرلیا جاتا ہے۔ جوئے میں ہاری ہوئی رقم کو بڑی شرافت سے ادا کردیا جاتا ہے۔ منشیات فروش اپنا اپنا حصہ بڑی دیانت داری سے ایک دوسرے کو ادا کرتے ہیں۔لیکن ایک دوسرے سے دیانت دار یہ جرائم پیشہ لوگ پورے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جار ہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ میرا ساتھی تو کسی طرح مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن ایک عام آدمی نہیں۔

الحاد کے اخلاقی اثرات بڑے واضح طور پر تیسری دنیا میں تو دیکھے جاسکتے ہیں لیکن دنیا کے ترقی یافتہ حصے میں یہ اثرات اتنے نمایاں نہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ الحاد کی تحریک کو سب سے پہلے فروغ مغرب میں حاصل ہوا لیکن وہاں کے لوگوں کا اخلاقی معیار تیسری دنیا سے نسبتاً بہتر ہے۔

کوئی بھی فلسفہ یا نظام حیات سب سے پہلے معاشرے کے ذہین ترین لوگ تشکیل دیتے ہیں اور پھر اسے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعے معاشرے کے ذہین طبقے میں پھیلاتے ہیں جسے عرف عام میں اشرافیہ (Elite)   کہتے ہیں۔ یہی طبقہ معاشرے میں تعلیم و ابلاغ کے تمام ذرائع پر قابض ہوتا ہے ۔ اس فلسفے یا نظام حیات کو قبول کرنے کے بعد یہ اسے عوام الناس تک پہنچاتا ہے۔ عوام ہر معاملے میں اسی اشرافیہ کے تابع ہوتے ہیں، اسلئے وہ اسے دل وجان سے قبول کر لیتے ہیں۔اہل مغرب میں الحادی نظریات کے فروغ میں جن ذہین افراد نے حصہ لیا وہ اخلاقی اعتبار سے کوئی گرے پڑے لوگ نہ تھے۔  انہوں نے خود کو انسانی اخلاق کے علمبردار کی حیثیت سے پیش کیا۔ جدید دور میں الحاد کی تحریک نے اپنا نام انسانی تحریک (Humanist)   رکھ لیا ہے اور وہ خود کو اخلاقیات کا چیمپئن سمجھتے ہیں۔ چنانچہ کونسل فار سیکولر ہیومن ازم کے بانی پال کرٹز اپنی حالیہ تحریر میں لکھتے ہیں۔

ہمیں تیسری طرف جو جنگ لڑنا ہے وہ انسانی اخلاقیات کی جنگ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقی انقلاب ہی انسانیت کے مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔ یہی آخرت کی نجات یا جنت کے عقیدے کے بغیر انسانی زندگی کو بہتر بناتا ہے ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اخلاقی اقدار کو مشاہدے اور دلائل کی بنیاد پر پرکھیں اور نتائج کی روشنی میں اپنی اخلاقی اقدار میں تبدیلی کرنے پر تیار رہیں۔ ہمارا طریقہ عالمی (پلینیٹری)  ہے ، جیسا کہ Humanist Manifesto 2000  میں زور دیا گیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سیارے زمین پر ہر انسان بالکل برابر حیثیت رکھتا ہے۔ اخلاق کے ساتھ ہماری وابستگی یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں اور ہم اپنے مشترکہ گھر یعنی اس زمین کی حفاظت کریں۔ انسانی اخلاقیات فرد کی آزادی، پرائیویسی کے حق، انسانی آزادی اور سماجی انصاف کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس کا تعلق پوری نسل انسانیت کی فلاح و بہبود سے ہے۔

 (Paul Kurtz, The Secular Humanist Prospect: In Historical Perspective, Free Inquiry Magazine, Vol. 23, No. 4, May 2003)

ان فلسفیوں نے انسانی حقوق اور انسانی اخلاق کو اپنے فلسفے میں بہت اہمیت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک کے عوام میں اخلاقی شعور نسبتاً بہت بہتر ہے۔ وہ لوگ بالعموم جھوٹ کم بولتے ہیں ، اپنے کاروبارمیں بددیانتی سے اجتناب کرتے ہیں، ایک دوسرے کااستحصال کم کرتے ہیں، فرد کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، یتیموں اور اپاہجوں کے لئے ان کے ہاں منظم ادارے ہیں، قانون کا احترام کرتے ہیں، ان کی سوچ عموماً معقولیت (Rationality)   پر مبنی ہوتی ہے، وہ عقل و دانش کی بنیاد پر اپنے نظریات کو تبدیل کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، ان کے ہاں ایک دوسرے کو مذہبی آزادی دی جاتی ہے، ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا ہے، محض اختلاف رائے کی بنیاد پر کوئی کسی کو گولی نہیں مارتا، علم و دانش کا دور دورہ ہے، اشیا ء خالص ملتی ہیں اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے والے ادارے بہت موثر ہیں۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ اخلاقی لحاظ سے یہ لوگ فرشتے بن گئے ہیں، بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں میں بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے، ان کی خدمت نہیں کرتے، جنسی بے راہ روی ان کے ہاں عام ہے، ان کی اکثریت طرح طرح کے نشے میں سکون تلاش کرتی نظر آتی ہے، ان میں تشدد کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، بے حیائی عام ہے۔ اور بالخصوص ان کے اخلاقی معیارات اپنی قوم کے افراد کے لئے کچھ اور ہیں اور باقی دنیا کے لئے کچھ اور۔ نیشنلزم کا جذبہ بہت طاقتور ہونے کی وجہ سے یہ اپنی قوم کے افراد کے لئے تو ابریشم کی طرح نرم ہیں اور ہر اخلاقی اصول کی پیروی کرتے ہیں لیکن جب معاملہ کسی دوسری قوم کے ساتھ ہو تو وہاں انسانی حقوق کے تمام سبق یہ بھول جاتے ہیں۔

جب یہ الحادی نظریات اہل مغرب سے نکل کر مشرقی قوموں میں آئے تو اشرافیہ کے جس طبقے نے انہیں قبول کیا، بدقسمتی سے وہ اخلاقی اعتبار سے نہایت پست تھا۔جب یہ طبقہ اور اس کے زیر اثر عوام الناس عملی اعتبار سے الحاد کی طرف مائل ہوئے تو انہوں نے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ کر وحشت اور درندگی کی بدترین داستانیں رقم کیں۔ اگر ہم پاکستان بننے کے بعد ان مظالم کا جائزہ لیں جو خود مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے بچ کر آنے والے اپنے مسلمان بھائیوں پر کئے تو ہمیں صحیح معنوں میں الحاد کے اثرات کا اندازہ ہوگا۔ دور جدید میں اس کا اندازہ محض روزانہ اخبار پڑھنے ہی سے ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ملحدین میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، وہ تو مسلمانوں نے پوری طرح اختیار کرلیں لیکن ان کی خوبیوں کا عشر عشیر بھی ان کے حصے میں نہ آیا۔

الحاد کے معاشرتی اثرات میں ایک بڑا واضح اثر خاندانی نظام کا خاتمہ اور فری سیکس کا فروغ ہیں۔ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہی نے بتائے ہیں اور اس ضمن میں ہر قسم کی بے راہ روی کا خاتمہ کیا ہے۔ جب ایک شخص انہی کا انکار کردے تو پھر اس کی راہ میں ایسی کونسی رکاوٹ ہے جو اسے دنیا کی کسی بھی عورت سے آزادانہ صنفی تعلقات سے روک سکے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پھر ماں ، بہن اور بیٹی کا تقدس پامال کرنے میں  بھی کیا حرج رہ جاتا ہے؟ اس کے بعد اگر نئی نئی لذتوں کی تلاش میں مرد مردوں کے پاس اور عورتیں عورتوں کے پاس جائیں تو اس میں کیا قباحت رہ جاتی ہے؟( مزید بے حیائی کی حدوں کو پھلانگتے ہوئے اپنی جنسی تسکین جانوروں سے یا جانوروں کی طرح  بھی حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔)   

الحاد کا یہ وہ اثرہے جسے مغربی معاشروں میں پوری طرح فروغ حاصل ہوا۔ دور غلامی میں خوش قسمتی سے مسلم دنیا الحاد کے ان اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی لیکن بیسویں صدی کے ربع آخر میں میڈیا کے فروغ سے اب یہ اثرات بھی ہمارے معاشروں میں تیزی سے سرایت کر رہے ہیں۔ جہاں جہاں یہ فری سیکس پھیل رہا ہے وہاں وہاں اس کے نتیجے میں ایک طرف تو ایڈز سمیت بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں، اور دوسری طرف خاندانی نظام کا خاتمہ بھی ہورہا ہے جس کے نتیجے میں کوئی نہ تو بچوں کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی بوڑھوں کی خبر گیری کرنے کو۔ کڈز ہومز میں پلنے والے یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اسی بے راہ روی کا شکار ہوکر یہ ذمہ داریاں قبول نہیں کرتے اور مکافات عمل کے نتیجے میں یہ جب بوڑھے ہوتے ہیں تو پھر ان کی خبر گیری کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اچھے اولڈ ہومز میں داخلہ بھی اسی کو ملتا ہے جس کی اولاد کچھ فرمانبردار ہو اور اس اولڈ ہوم کا خرچ اٹھا سکے۔ان کی زندگی اب کڈز ہوم سے شروع ہوکر اولڈ ہوم پر ختم ہو جاتی ہے۔

معاشرتی اور معاشی اعتبار سے الحاد نے مسلم معاشروں کو جس اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ دنیا پرستی کا فروغ ہے۔ دنیا پرستی کا فلسفہ مغربی اور مسلم دونوں علاقوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ جب انسان عملی اعتبار سے آخرت کی زندگی کا انکار کردے یعنی اس کے تقاضوں کو مکمل طور پر فراموش کردے تو پھر دنیاوی زندگی کی اس کی سرگرمیوں کا مطمح نظر بن جاتی ہے۔ مغربی معاشروں پر تو کسی تبصرے کی ضرورت نہیں لیکن ہمارے اپنے معاشروں میں جس طرح دنیا پرستی کی بھیڑ چال شروع ہو چکی ہے، وہ ہماری پستی کی انتہا ہے۔
ایک طر ف تو ایسے لوگ ہیں جن کی اخلاقی تربیت بہت ناقص ہے اور وہ ہر طرح کے جرائم میں مبتلا ہیں لیکن ان کے برعکس ایسے لوگ جن کی اخلاقی قدریں کافی حد تک قائم ہیں، دنیا پرستی کے مرض میں کس حد تک مبتلا ہو چکے ہیں، اس کا اندازہ صرف ان کی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگ جن کی اخلاقی سطح معاشرے کے عام افراد سے بلند ہے، روزانہ صبح اٹھتے ہیں اور اپنے کاروبار یا دفاتر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو دفتری اوقات کے فوراً بعد واپس آجاتے ہوں۔ زیادہ سے زیادہ ترقی کے لئے لیٹ سٹنگز کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور عام طور پر لوگ آٹھ نو بجے تک دفتر سے اٹھتے ہیں۔ اس کے بعد گھر واپس آکر کھانا کھانے ، ٹی وی دیکھنے اور اہل خانہ سے کچھ گفتگو کرنے میں گیارہ بارہ بڑے آرام سے بج جاتے ہیں۔ سوتے سوتے ایک یا دو بج جاتے ہیں۔ بالعموم صبح کی نماز چھوڑ کر لوگ سات بجے تک بیدار ہوتے ہیں اور پھر دفتر کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔چھٹی کا دن عموماً ہفتے بھر کی نیند پوری کرنے اور گھریلو مسائل میں نکل جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ہم اللہ کو راضی کرنے ، دین سیکھنے، اپنی اخلاقی حالت بلند کرنے اور دین کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کتنا وقت نکال سکتے ہیں؟

افسوس ہے کہ اس ترقی کو حاصل کرنے کے لئے جو زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سال تک کام دے گی، ہم لامحدود سالوں پر محیط آخرت کی زندگی کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی اپنے کاروبار میں بیس روپے منافع کمانے کی دھن اربوں روپے کے سرمائے کا نقصان کرلے یا پھر دریا کی تہہ میں پڑے ہوئے ایک روپے کے سکے کو حاصل کرنے کے لئے لاکھوں روپے کی دولت پھینک کر دریا میں چھلانگ لگا دے۔
بشکریہ:mubashirnazir.org
www.dawatetohid.blogspot.com
آپ ہمیں واٹس اپ پر بھی جوائن کر سکتے ہیں
0096176390670
00923004510041

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...