Saturday 27 May 2017

الحاد اور ہمارا نظام تعلیم

الحاد اور ہمارا نظام تعلیم

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب #:13،
(تالیف: عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

الحاد یعنی اس خالق کائنات کے وجود کا انکار تاریخ میں ہمیشہ ان متکبر، مطلق العنان اور ظالم بادشاہوں نے کیا ہے جو اپنی طاقت کے نشے میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ اس دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ فرعون اور نمرود  وغیرہ کی مثالیں جہاں قرآن پاک اور دیگر الہامی کتابوں میں ملتی ہیں، وہیں تاریخ کے صفحات اور آثار قدیمہ کی کھدائی سے جنم لینے والی حقیقتیں بھی ان بادشاہتوں کے اسرار سے پردہ اٹھاتی ہیں۔
یہ ذہن میں رکھیے کہ نمرود اصل میں لقب تھا‘ کسی کا نام نہیں تھا۔  جیسے فرعون ( فراعنہ) مصر کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اسی طرح نمرود ( نماردہ) بابل (عراق) کے بادشاہوں کا لقب تھا۔
ان سرکشوں کو سمجھانے کے لیے ان پر طرح طرح کے عذاب بھی نازل کیے گئے۔اور معجزے بھی دکھائے گئے لیکن یہ اپنی سر کشی پر اٹل رہے۔جس کی تفصیلات قصص الانبیاء میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اللہ کا انکار صرف طاقتور کرتا تھا اور وہ بغیر کسی دلیل کے اس بات کا دعویٰ کرتا تھا۔ کہ میں سب سے بڑا پالنے والا ہوں‘‘زندگی و موت کا مالک ہوں،کسی کو بھی نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں ان کے دماغ میں بھی یہ بات چھپی بیٹھی تھی کہ اگر ہم یہ دعویٰ کریں  تو کوئی نہیں مانے گا کہ ہم اس کائنات کے خالق ہیں ۔ اسی لیے یہ خدائی دعویٰ بھی سوچ سمجھ کر کرتے ۔
اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے کہا ......وَيَذَرَكَ وَاٰلِـهَتَكَ.......اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے ۔
یہاں پہ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قومِ فرعون کے دیگر معبود بھی تھے۔جن کے چھوٹ جانے کا انہیں خدشہ تھا۔
لہٰذا معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ خدا صرف فرعون کو مانتے تھے۔فرعون اور نمرود کا خدائی کا دعویٰ در حقیقت سیاسی بادشاہت اور اقتدار کا دعویٰ تھا کہ اختیارِ مطلق ہمارے ہاتھ میں ہے‘ ہم جس چیز کو چاہیں غلط قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں صحیح قرار دے دیں۔  یہی اصل میں خدائی اختیار ہے جو انہوں نے ہاتھ میں لے لیا تھا۔  تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کا حق ہے‘ کسی شے کو حلال کرنے یا کسی شے کو حرام کرنے کا اختیارِ واحد اللہ کے ہاتھ میں ہے۔  اور جس شخص نے بھی قانون سازی کا یہ اختیار اللہ کے قانون سے آزاد ہو کر اپنے ہاتھ میں لے لیا وہی طاغوت ہے‘ وہی شیطان ہے‘ وہی نمرود ہے‘ وہی فرعون ہے ۔  ورنہ فرعون اور نمرود نے یہ دعویٰ تو نہیں کیا تھا کہ یہ دنیا ہم نے پیدا کی ہے۔
اور اللہ تعالی کی ذات پاک کے وجود کے منکر (ملحد)ہر زمانہ میں بہت تھوڑے رہے ہیں،اکثریت ان لوگوں کی رہی ہے جو اللہ کے وجود کے تو انکاری نہیں ہیں،لیکن اللہ کے ساتھ شرک کرتے چلے آرہے ہیں۔قرآن کریم سورہ یوسف میں ہے:
﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُ‌هُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِ‌كُونَ﴾ (يوسف: ۰٦ ١)‘‘اکثر لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔’’مزید تفصیلات کے لئے یہ لنک وزٹ کریں
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/15317/53/21
دنیا میں جن قوموں اور جن لوگوں نے اللہ جل شانہ کی نافرمانی کی ان کا انجام یقینا اچھا نہیں ہوا۔ کوئی فرعون کوئی ہامان، کوئی قارون، کوئی شداد اور کوئی ابوجہل بچا اور نہ ہی ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ اللہ جل شانہ کے فیصلوں سے بچ سکے۔ اللہ کے فیصلے ان کے حق میں نہایت بھیانک ثابت ہوئے۔
قارئین محترم! جن لوگوں نے اللہ کی نافرمانی کی دنیا میں یقینا ان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ آج بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کسی بھی انسان کو ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں دے گی۔ اللہ کا نافرمان کوئی بھی ہو۔ امیر ہو یا غریب، گورا ہو یا کالا، حاکم ہو یامحکوم، عربی ہو یا عجمی،سانئس دان ہو یا انجنئیر  سب کو اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ منزل پر پہنچنے سے پہلے صحیح منزل کا تعین ضروری ہے۔
صدیاں گزر جانے کے باوجود اللہ کے وجود سے انکار اور مذہب کو کاروبار حکومت اور سیاست سے الگ کرنے کی فرعونی سوچ میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب فرعونی طاقت کی جگہ سائنسی تحقیق اور دلیل و منطق کی بھول بھلیوں نے لے لی ہے۔
سائنسی سچائی (Scientific Truth) ایک ایسا تصور ہے جسے آخری سچائی (Ultimate Truth) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسے کورس کی کتابوں سے لے کر کاروبار زندگی میں ایک واضح دلیل کے طور پر بتایا جاتا ہے۔ لیکن چند سالوں کے بعد وہ سارے کا سارا جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتا ہے۔
گزشتہ ایک صدی کے دوران‘ سائنس دان یہ ثابت کرتے رہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک مادہ ’’ایتھر‘‘ ہے جس کی موجودگی سے یہ زمین محفوظ و مامون ہے۔ انھوں نے اس مادے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سورج سے زمین تک روشنی کی رفتار کا پیمانہ بنایا، حدت کو ناپنے کے اصول وضع کیے اور ان سب کو آخری سچائی کے طور پر مانتے رہے‘ لیکن اچانک ایک شخص آئن اسٹائن آیا اور اس نے کہا کہ تم سائنس کے نام پر اتنے سال لوگوں کو جھوٹ پڑھاتے رہے ہو، ایتھر کا تو کوئی وجود ہی نہیں۔ اس نے اپنی تھیوری’’اضافیت‘‘ (Relativity) پیش کی۔
یہ آج تک ایک تھیوری ہے اور سائنس دان اس کے بتائے ہوئے اصولوں کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اکثر ثابت بھی ہوگئے لیکن اس ’’تھیوری‘‘ یعنی نظریہ کو سیکولرز نے پہلے دن ہی ایمان کی سطح پر قبول کرلیا۔ یہ ایسا ہر نئے لیکن نامکمل علم کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں۔ ڈارون نے ”Orign of Species” تحریر کی جس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حیات کس طرح آہستہ آہستہ ایک چھوٹے سے جرثومے سے ترقی کرتی ہوئی انسان کے قالب میں ڈھلی ہے۔
بندروں کو انسانوں کا جد امجد ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر سے انسانی ڈھانچے کھدائی سے نکال کر اس کی ایک ناکام ترتیب بنانے کی کوشش کی گئی اور آخر ایک جگہ معاملہ پھنس گیا جسے ”Missing Link” یعنی گمشدہ کڑی کہا گیا‘ ایسا درمیانی واسطہ نہ مل سکا جو  واضح طور پر انسان کو بندر کی اولاد ثابت کردے۔ یہ گمشدہ کڑی آج بھی زیر زمین دفن مردوں اور زمانے کے اثرات سے پتھر بنے ڈھانچوں (Fossils) میں تلاش جاری ہے لیکن سیکولرز کے ہاں اس تھیوری یعنی نظریہ بلکہ قیاس کو آج بھی ایمان کی سطح پر مانا جاتا ہے۔
جدید دور کا الحاد اسی طرح کے غیر حتمی سائنسی حقائق سے جنم لیتا ہے جن کو وہ آخری سچائی مان کر اللہ تعالی کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ کے انکار کو دنیا میں نافذ کرنے کے لیے ایک سیاسی فکر ہے جسے سیکولرازم کہتے ہیں۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ مذہب کو عبادت گاہ اور گھر تک محدود ہونا چاہیے، یہ اجتماعی زندگی اور حکومتی و سیاسی معاملات سے دور رہے۔ آدمی اللہ سے ڈرے، اس سے محبت کرے، اس سے دعا مانگے‘ گڑگڑائے، اس کے احکامات پر عمل کرے لیکن اپنے گھر کے اندر۔ باہر کی دنیا ہماری ہے۔ ہم بتائیں گے کہ مرد اور عورت کے آپس میں تعلقات کیسے ہونے چاہیے۔اور دنیاوی معاملات کیسے چلانے چاہیے۔اکثریت کہہ دے کہ جھوٹ بولنا‘ شراب پینا، ایک لڑکی لڑکے کے آپس میں ریلیشن (فرینڈ شپ)، غیبت کرناجائز ہے تو جمہوری طور پر یہ قانون کہلاتا ہے‘ بالکل ویسے ہی جیسے حضرت شعیبؑ کی قوم نے کم تولنا جائز کر لیا تھا۔ سیکولر ازم کا دعویٰ ہے کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچے کو بھی قانونی طور پر حلالی کہیں۔ غرض جو قانون ہم چاہیں بنائیں، ہماری مرضی۔ دنیا کے چھ ارب انسانوں کو لوٹ کر دنیا کی 65 فیصد دولت صرف 50 افراد کے ہاتھوں میں کاروبار کے نام پر دیں۔ کسی ایک ذات اقدس"اللہ تعالی"  کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔ غرض الحاد بنیادی طور پر ایک مذہب ہے جو خدا کے انکار سے جنم لیتا ہے اور اس مذہب کو زندگیوں، سیاست، حکومت اور معاشرے میں نافذ کرنے کا نام سیکولر ازم ہے۔

سیکولر ازم کا روپ ہر ملک میں مختلف ہے۔ لیکن پوری دنیا میں اس کے ہاں ایک قدر مشترک ہے۔ یہ ہندوازم، بدھ ازم، عیسائیت وغیرہ کے خلاف نہیں۔ یہ اجتماعی زندگی میں ہولی، دیوالی، کرسمس وغیرہ کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس کی جان جمعہ کے خطبے سے نکلتی ہے۔ اسے عید کا اجتماع دیکھ کر موت پڑجاتی ہے۔ دنیا پوری کروڑوں ٹن بیف کا باربی کیو بنالے، آسٹریلیا کی بھیڑوں کے کروڑوں تکا بوٹی بناکر کھائے جائیں اسے جانوروں کے حقوق یاد نہیں آتے لیکن ایک دن عیدالاضحی کی قربانی اسے زہر لگتی ہے۔ اسے کرسمس کی فضول خرچی بری نہیں لگتی لیکن حج پر جانے والوں کے اخراجات فضول لگتے ہیں ۔
دنیا بھر میں ٹورازم انڈسٹری سے اربوں ڈالر کمانا ترقی کی علامت ہے لیکن اسے عمرے کا ایک سادہ سا سفر برا لگتا ہے۔ ہندو کروڑوں کی تعداد میں ہر دوار‘ بنارس اور کنبھ (یاترا) جائیں تو سیکولر کو کچھ نہیں ہوتا۔ ویٹیکن سٹی میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں پوپ کی زیارت کو آئیں تو کسی لبرل کا دل نہیں جلتا۔ چرچ کی راہبائیں حجاب پہنیں‘ یہودی عورتیں شٹل کاک برقعہ پہنیں‘ اس کو برا نہیں لگتا لیکن وہ مسلمان عورت کے حجاب پر تلملا اٹھتا ہے۔ جائز طریقے سے ایک سے چار بیوی اسے خواتین کے حقوق کی پامالی لگتی ہے لیکن چار چار بوائے فرینڈ رکھنا اس کا حق بنتا  ہے۔
یہ ہے سیکولرازم کا اصل دکھ اور اس کا اصل چہرہ۔ ان کی کتابیں، ان کے رسالے، ان کی ویب سائٹس، ان کے فیس بک پیجز اٹھالیں آپ کو صرف اور صرف اسلام اور شعائر اسلام سے نفرت ملے گی۔
یہ میڈیا میں پروان چڑھتا ہے لیکن اس کا بیج نصاب تعلیم میں بویا جاتا ہے۔ گزشتہ تیس سال سے انگلش میڈیم اسکولوں اور اولیول، اے لیول اور یونیورسٹی تعلیم نے جو الحاد اور سیکولرازم کا بیج بویا تھا اب اس کی زہر آلود شاخیں نکل رہی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے پاکستان کا تعلیمی نصاب درست کرنے کے حکم کی تعمیل کے لئے کام شروع ہو چکا ہے۔اس سلسلہ میں امریکی ادارہ دی انٹر نیشنل سنٹر برائے مذہب اور جمہوریت ، آئی آر ۔ڈی اور امریکی وزارت خارجہ براہ راست حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق نظام تعلیم کی ایک بار پھر اکھاڑ بچھاڑ اور اسے مزید سیکولر بنانے کا کام طلبہ پر کتابوں اور ہوم ورک کا بوجھ کم کرنے اور تعلیم کو سائنٹیفک کرنے کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں اگر اس امر کا موازنہ کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ کہ یہاں کے طلبہ کا تو یہ حال ہے کہ اسلامیات کے دینی علوم کو یکسر طور پر انہوں نے پہلے ہی پس پشت ڈال رکھا ہے۔مگر رہی سہی کسر جب یہ بل اپنی اصلی صورت میں اپنے اثرات دکھائے گا تو کوئی طالب علم اردو اور دینی علوم میں بہرہ مند نہیں ہو سکے گا۔
انگریزی میڈیم کے خواہش مند والدین نے نہ تو کبھی پہلے ہی اپنے نونہالوں کی دینی ضرورتوں کا خیال رکھا ہے۔اور نہ ہی دین کی جانب ان کی رغبت دلائی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ میں جو کمیشن بنایا گیا اس نے ایک بڑی ضیخم رپورٹ پیش کی کہ مسلم ممالک کے لوگوں کے دل و دماغ کو کیسے بدلاجائے اور کیسے ان پر قابو پایا جائے۔اس حوالے سے بہت تفصیل سے لائحہ عمل پیش کیا گیا۔اس پر بہت سے ممالک میں بہ خوشی عمل کیاجارہا ہے۔پاکستان امریکا کے پلان میں کچھ زیادہ ہی اہمیت کا حامل ہے۔اس لیے یہاں یہ کام ہر سطح پر شروع ہوگیا ہے۔تعلیم کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے مقام دیا گیا ہے۔جہاد ہی سے مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا لیکن حکومت پاکستان نے تعلیمی نصاب سے جہاد کی آیات کو ہی نکال باہر کیا۔
اس طرح دینی بصیرت کا اگر جائزہ لینا ہو تو ہمارے سیاسی اکابرین جن میں ہمارے ناظم کونسلر، چیئرمین صاحبان اور دیگر اس سیاسی شجر سے پیوستہ افراد کا الیکشن کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد جب ان سے انکی بصیرت یعنی دینی سمجھ بوجھ کے بارے میں کوئی آیت کریمہ کی قرات یا پھر کوئی دینی معلومات کے ضمن میں ان سے بات کی جاتی ہے تو وہ جو جواب دیتے ہیں ان سے ہمیشہ پوچھنے والے کا سر شرم سے جھک جاتا اور خوب جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں تو میڈیا سے وابستہ ہر ذی شعور جانتا ہی ہے ۔جاری ہے۔۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...