Sunday 28 May 2017

الحاد اور طاغوتی قوتوں کی اسلام دشمنی

الحاد اور طاغوتی قوتوں کی اسلام دشمنی

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب:#14،
(تالیف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

کسی بھی سوچ اور نظریے کے حامل افراد کو جب منزل نہ ملے تو سوالات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایسے لوگ جو کسی نظریے اور پائیدار سوچ کے بجائے وقتی ایشوز اور سوچ  پر اپنی ذہنی عمارت کی تعمیر کرتی ہیں، ان کے عارضی وجود کو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ پے در پے وقتی ایشوز اورجذباتی سوچ ان کے وجود کو عارضی آکسیجن تو فراہم کرتے ہیں، لیکن ان حضرات کو ٹھوس وجود دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ 
پاکستان میں فیس بک، ٹویٹر بلاگز پر پاکستانی اور اسلامی ناموں سے آئی ڈیز بنا کر کچھ لوگ اپنے آپ کو ملحد یا سابقہ مسلمان ظاہر کر کے لوگوں کو دعوت کفر دیتے نظر آرہے ہیں۔ان لوگوں نے مختلف قسم کے گروپس اور Pagesتیار کر رکھے ہیں جہاں یہ اسلام مخالف نظریات اور عقائد کا بیج بو رہے ہیں۔عموماً اردو میں ٹائپنگ کرتے ہیں۔اسلام کے حوالے سے کسی خاص موضوع کو لے کر ایک سٹوری تیار کرتے ہیں۔اپنے آپ کو بے دین بتاتے ہیں مگر صرف اسلام کی مخالفت کرتے ہیں۔لیکن یہ ایک دم آئے کہاں سے؟اگر یہ ملحد ہیں تو اسلام مخالف کیوں ہیں؟ جبکہ تمام مذاہب میں دینِ اسلام ہی فطرت اور دلیل سے مطابقت رکھتا ہے۔مسلمان اگر کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دیتا ہے تو اسکے پسِ پردہ وہ ثواب ہوتا ہے جو اسے آخرت میں اللہ کی بارگاہ سے ملنا ہے۔

لیکن ایک ملحد جو خدا اور حیات بعد ممات کی نفی کرتا ہے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ اتنی شد ومد سے صبح و شام مسلمانوں کو الحاد کی دعوت دیتا رہے؟ اور پھر یہ اسلام کی اتنی باریک غلطیاں ڈھونڈ کر لاتے ہیں جنہیں نکالنے کے لیے انہیں اسلام کا گہرا مطالعہ کرنا پڑتا ہوگا۔ سوال وہی ہے کہ یہ سب محنت کس لیے؟ آخر اللہ کو خالق نہ ثابت کر کے یہ طبقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن وتشنیع کر کے یہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
اس کے پس پردہ تو کئی عوامل ہیں لیکن ہم مختصر صرف دو تبصرے پیش کرتے ہیں

1:طاغوتی قوتوں کی اسلام دشمنی:

اس پُر آشوب دور میں علمی وعملی فتنوں کا سیلاب ہرطرف سے امڈ رہا ہے‘ کوئی گوشہ ایسا نہیں رہا جہاں سے کسی نہ کسی فتنہ کا چشمہ نہ ابلتا ہو‘ اور جس طرح اسلامی حکومتوں کے خلاف تمام طاغوتی طاقتیں متحد ہوکر تہیا کر چکی ہیں کہ ان اسلامی دولتوں کو صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کے طرح مٹادیں‘ اسی طرح یہ حکومتیں گمراہ کن افکار کے ذریعہ اس کی جد وجہد میں مصروف ہیں کہ کسی طرح دین اسلام کے کسی بھی خد وخال کو صحیح باقی نہ رہنے دیا جائے‘بڑی بڑی نامور حکومتیں اونچی سطح پر اس تدبیر میں مشغول ہیں کہ کسی طرح اسلامی شعائر اور اسلامی خصوصیات مٹ جائیں‘ بڑی بڑی خطیر رقمیں اس کام کے لئے نکالی جارہی ہیں اور ایسے مشہور ملحدین جو مستشرقین کی تربیت میں اپنے استادوں سے بھی گوئے سبقت لے جاچکے

ہیں ان کو منتخب کرکے ان کے ذریعہ یہ کام کیا جارہا ہے‘ ان ملعون طاغوتی طاقتوں کو اصل دشمنی دین اسلام سے ہے‘ اگر وہ اسلامی حکومتوں کو ختم نہ کر سکیں تو پھر اس کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ ان ملکوں سے صحیح اسلام کی روح نکال دیں‘ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے دو محاذوں پر بڑی تیزی کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔۱:․․․ایک یہ کہ نئی نسل جو دینی اقدار‘ دینی عقائد اور دینی مسائل سے ناآشناہے‘ اس کے سامنے اسلام کی ایسی تعبیر کی جائے کہ اگر کسی کفر صریح پر اسلامی لیبل لگا دیا جائے تو وہ اسی کو اسلام سمجھنے لگے۔۲:․․․ دوسری طرف اہل حق اور ارباب دین میں مختلف ذرائع سے اتنا شدید اختلاف وانتشار پیدا کردیا جائے کہ ان کی قوت مفلوج ہوکر رہ جائے‘ ظاہر ہے کہ جب ملحدین کو ٹوکنے والے کسی اور دھندے میں مشغول ہوں گے تو اسلام کو ذبح کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں آئے گا۔
اعدائے اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سبب
درحقیقت اعدائے اسلام کی ریشہ دوانیوں کا سبب تمام اسلامی ممالک میں (پاکستان ہو یا انڈیا‘ مصر ہو یا مراکش والجزائر) مسلمانوں کی غفلت اور اسلام سے تعلق کی کمی ہے‘ کسی جگہ نہ دین اسلام کی علمی روح باقی رہی نہ عملی قالب عالم وباقی رہا‘ پھر برائے نام اسلام کا جو بھی حشر ہو زیادہ مستبعد نہیں‘ پھر ان سب پر مستزاد یہ فتنہ ہے کہ اسلام کے نادان دوست نہ معلوم نادانستہ یا دانستہ کسی خود غرضی کی بناء پر خدمت اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں اکھاڑ رہے ہیں‘ فیاغربة الاسلام!
فتنہٴ انکار حدیث (فتنہٴ پرویزیت)
کسے معلوم نہیں کہ فتنہٴ انکار ختم نبوت کے بعداس سر زمین میں سب سے بڑا فتنہ انکار حدیث کا پیدا ہوا جو عام طور سے فتنہٴ پرویزیت کے نام سے معروف ہے اور جس نے اسلام کے بنیادی اصول تمام مسائل کو مجروح کرنے کی کوشش کی‘ عقائد‘ عبادات‘ اخلاق‘ اعمال‘ شعائر‘ اسلامی معاشرت‘ اسلامی اقتصادی نظام وغیرہ کسی چیز کو بھی نہیں چھوڑا جس کو مجروح نہ کیا ہو اور اپنے زعم باطل میں اسے ختم نہ کیا ہو‘ آخر مجبور ہوکر علماء حق نے اپنی

مسئولیت کے پیش نظر ان کفریات سے نقاب اٹھایا اور حق کو واضح کیا۔سکندر مرزا آنجہانی کے عہدِ حکومت میں ۱۹۵۸ء میں جو کلوکیم لاہور میں ہوا تھا اور تمام اسلامی ملکوں کے اربابِ علم موجود تھے‘ جب پرویز کے مقالات سامنے آئے تو مصری ‘ شامی ‘ مغربی وغیرہ تمام اہلِ علم نے ان کے خلاف متفقہ آواز اٹھائی کہ یہ صریح کفر ہے اور اسلام کے نام پر یہ صریح کفر قابل برداشت نہیں‘ اس موقعہ پر غلام احمد پرویز کی جو رسوائی ہوئی وہ اپنی نظیر آپ تھی‘ جس کی وجہ سے سکندر مرزا کا سارا کھیل ناکام رہا اور اس طرح پاکستان کے لاکھوں روپے غارت ہوگئے‘ اس ناکامی کے بعد امریکن فاؤنڈیشن کمیٹی نے فوراً ہی دوسرا کلو کیم کراچی میں منعقد کرلیا لیکن اس کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘ لیکن افسوس اور صد افسوس کہ آج دوبارہ بعض اربابِ قلم جن پر حسن ظن بھی رہتا ہے نہ معلوم کیوں خامہ فرسائی کررہے ہیں کہ پرویز سے اختلاف فروعی ہے اور علماء کو تکفیر کا فتویٰ واپس لے لینا چاہئے‘ اور کسی جدید تالیف میں چند باتیں اپنے مزاج کی دیکھ کر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے انا للہ۔ پرویز صاحب کی یہ نئی کتاب جس سے متأثر ہوکر ہمارے بعض اربابِ قلم علماء کو فتویٰ واپس لینے کا مشورہ دے رہے ہیں ابھی تک ہماری نظر سے نہیں گذری۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں اسلام کے بارے میں کیا کچھ لکھا گیا ہوگا‘ تاہم فرض کر لیجئے کہ یہ کتاب صحیح حقائق سے لبریز بھی ہو اور کوئی بات اس میں کفر کی نہ بھی ہو لیکن جب تک تمام سابق ریکارڈ کی‘ جو کفریات سے مالا مال ہے‘مسٹر پرویز تردید نہ کریں تو ایک کتاب میں چند اچھی باتیں لکھ دینے کو کیسے رجوع الی الحق سمجھ لیا جائے؟ کیا اربابِ کفر اور دشمنانِ اسلام تمام باتیں کفر کی کرتے ہیں‘ بلکہ بسا اوقات اچھے اچھے حقائق بھی ظاہر کرتے ہیں‘ کائنات اور کونیات ربانیہ کے اسرار ورموز خفیہ ظاہر کرتے ہیں اور اس کائنات کے حقائق ِ باطنیہ سے پردے اٹھا کر تمام عالم کو ان سے روشناس کراتے ہیں‘ لیکن یہ حقائق اپنی جگہ اور ان کا کفر اور کفریہ کارنامے اپنی جگہ‘ کیا ضروری ہے کہ جھوٹا آدمی ہربات جھوٹی ہی کیا کرے؟ ہرگز نہیں تو پھر چند باتوں کے پسند آنے سے سابق کی تمام غلط باتیں کیسے صحیح ہوجائیں گی؟
پرویزی تحقیقات ِ ملحدانہ پر ایک نظر
ہم یہاں مسٹر پرویز کے بحرِ الحاد کے چند قطرے پیش کرتے ہوئے اہلِ عقل وانصاف سے اپیل کرتے ہیں کہ براہ کرم ان ”پرویزی تحقیقات“ پر دوبارہ نظر ڈالیں اور پھر خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ کیا یہ فروعی مسائل ہیں یا اسلام کے بنیادی اصولی اساسی مسائل ہیں؟ جن کی جڑوں پر مسٹر پرویز نے تیشہ چلا کر شجرِ اسلام کو کاٹنے کی کوشش کی ہے‘ حوالہ جات بغرض اختصار نہیں دئے‘ مکمل تفصیلات کے لئے مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی شائع کردہ کتاب ”علماء امت کا متفقہ فتویٰ “ پرویز کافر ہے“ کا مطالعہ کیا جائے۔۱- ”قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول اکا ذکر آیا ہے‘ اس سے مراد مرکز نظامِ حکومت ہے“۔۲- ”رسول کو

قطعاً یہ حق نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے“۔۳- ”رسول کی اطاعت نہیں کیونکہ وہ زندہ نہیں“۔۴- ”ختم نبوت“ سے مراد یہ ہے کہ اب دنیا میں انقلاب شخصیتوں کے ہاتھوں نہیں‘ بلکہ تصورات کے ذریعہ رونما ہوا کرے گا‘ اب سلسلہ ٴ نبوت ختم ہوگیا ہے‘ اس کے معنی یہ ہے کہ اب انسانوں کو اپنے معاملات کے فیصلے آپ کرنے ہوں گے الخ“۔۵- ”اب رہا یہ سوال کہ اگر اسلام میں ذاتی ملکیت نہیں تو پھر قرآن میں وراثت وغیرہ کے احکام کس لئے دیئے گئے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن انسانی معاشرے کو عبوری دور کے لئے بھی ساتھ کے ساتھ راہنمائی دیتا چلا جاتا ہے‘ ورثہ‘ قرضہ‘ لین دین‘ صدقہ خیرات سے متعلق احکام عبوری دور سے متعلق ہیں“۔۶- ”صحیح قرآنی خطوط پر قائم شدہ مرکزِ ملت اور اس کی مجلسِ شوریٰ کا حق ہے کہ وہ قرآنی اصول کی روشنی میں صرف ان جزئیات کو مرتب کرے‘ جن کی قرآن نے کوئی تصریح نہیں کی‘ پھر یہ جزئیات ہرزمانہ میں ضرورت پر تبدیلی کی جاسکتی ہے یہی اپنے زمانہ کے لئے شریعت ہیں۔۷- ”جن اصول کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے وہ قانون اور عبادت دونوں پر منطبق ہوگا‘ نماز کی کسی جزئ شکل میں جس کا تعین قرآن نے نہیں کیا‘ اپنے زمانے کے کسی تقاضے کے ماتحت کچھ رد وبدل ناگزیر سمجھے تو وہ ایسا کرنے کی اصولاً مجاز ہوگی الخ“۔۸- مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے جو سازش کی گئی اس کی پہلی کڑی یہ عقیدہ پیدا کرنا تھا کہ رسول کو اس وحی کے علاوہ جو قرآن میں محفوظ ہے ایک اور وحی بھی دی گئی تھی‘ یہ وحی روایات میں ملتی ہے‘ دیکھتے دیکھتے روایات کا ایک انبار جمع ہوگیااور اسے اتباعِ سنت رسول اللہ قرار دے کر امت کو اس میں الجھا دیا‘ یعنی یہ جھوٹ مسلمانوں کا مذہب بن گیا‘ وحی غیر متلو اس کا نام رکھ کر اسے قرآن کے ساتھ قرآن کی مثل ٹھہرا دیا گیا‘ ان احادیث مقدسہ کے جو حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں محفوظ ہیں اور جو ملاّ کی غلط نگہی اور کوتاہ اندیشی سے ہمارے دین کا جز بن رہی ہیں‘ سلام علیک کیجئے اور ہاتھ ملا لیجئے جنت مل گئی ‘ دو مسلمان جب مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیتا ہے‘ اب مسجد میں چلئے اور وضو کیجئے‘ جنت حاضر ہے الخ“۔۹- ”اور آج جو اسلام دنیا میں مروج ہے وہ زمانہ قبل از قرآن کا مذہب ہو تو ہو‘ قرآنی دین سے اس کا کوئی واسطہ نہیں الخ“۔۱۰- ”خدا عبارت ہے ان صفاتِ عالیہ سے جنہیں اپنے اندر منعکس کرنا چاہتا ہے‘ اس لئے قوانینِ خداوندی کی اطاعت درحقیقت انسان کی اپنی فطرتِ عالیہ کے نوامیس کی طاعت ہے“۔۱۱- ”قرآن ماضی کی طرف نگاہ رکھنے کے بجائے ہمیشہ مستقبل کو سامنے رکھنے کی تاکید کرتا ہے‘ اسی کا نام ایمان بالآخرت ہے“۔۱۲- ”بہرحال مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں‘ انسانی ذات کی کیفیات ہیں“۔۱۳- ”ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں‘ ملائکہ کے آدم کے سامنے جھکنے سے مراد یہ ہے کہ قوتیں جنہیں انسان مسخر کرسکتا ہے‘ انہیں انسان کے سامنے جھکا ہوا رہنا چاہئے الخ“۔۱۴- ”آدم کوئی خاص فرد نہیں تھا‘ بلکہ انسانیت کا تمثیلی نمائندہ تھا‘قصہ آدم کسی خاص فرد کا قصہ نہیں ‘ بلکہ خود آدمی کی داستان ہے‘ جسے قرآن نے تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے الخ“۔۱۵- ”رسول اکرم اکو قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیا گیا“۔۱۶- ”واقعہٴ اسراء“ اگر یہ خواب کا نہیں تو یہ حضور کی شب ہجرت کا بیان ہے‘ اس طرح مسجد اقصیٰ سے مراد مدینہ کی مسجد نبوی ہوگی‘ جسے آپ نے وہاں جاکر تعمیر فرمایا“۔۱۷- ”مجوسی اساورہ نے یہ سب کچھ اس خاموشی سے کیا کہ کوئی بھانپ نہ سکا‘ انہوں نے ”تقدیر“ کے مسئلے کو اتنی اہمیت دی کہ اسے مسلمانوں میں جزء ایمان بنادیا“۔۱۸- ”اب ہماری صلاة وہی ہے جو مذہب میں پوجا پاٹ یا ایشور بھگتی کہلاتی ہے‘ روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت کہتے ہیں‘ زکوٰة وہی شے ہے جسے مذہب دان خیرات کرکے پکارتا ہے‘ ہمارا حج مذہب کی یا تراہے‘ آپ نے دیکھا کہ کس طرح دین (نظام زندگی) یکسر مذہب بن کر رہ گیا‘ ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ الخ“۔۱۹- ”قرآن کریم نے نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا‘ بلکہ قیام صلاة یعنی نماز کے نظام کا حکم دیا ہے‘ عجم میں مجوسیوں کے ہاں پرستش کی رسم کو نماز کہا جاتا تھا‘ لہذا صلاة کی جگہ نماز نے لے لی الخ“۔۲۰- ”زکوٰة اس ٹیکس کے

علاوہ اور کچھ نہیں جو اسلامی حکومت مسلمانوں پر عائد کرے‘ اس ٹیکس کی کوئی شرح متعین نہیں کی گئی الخ“۔۲۱- ”حج عالم اسلامی کی بین الملی کانفرنس کا نام ہے‘ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے خورد ونوش کے لئے جانور ذبح کرنے کا ذکر قرآن میں ہے الخ“۔۲۲- ”یہ عقیدہ کہ بلا سمجھے قرآن کے الفاظ دہرانے سے ثواب ہوتا ہے‘ یکسر غیر قرآنی عقیدہ ہے‘ یہ عقیدہ درحقیقت عہدِ سحر کی یادگار ہے“۔یہ چند کفریات ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ذکر کئے گئے‘ ان کے حوالہ جات اور پوری تفصیل اور ان کے جوابات اور جوابات کی تصدیق پر علماء امت کے دستخطوں کے لئے مکمل اور مفصل کتابی صورت میں فتویٰ ملاحظہ فرمائیں‘ خدارا! مسٹر پرویز کی ان تصریحات کو سامنے رکھ کر بتایئے کہ اللہ ورسول ‘ اطاعتِ اللہ ورسول‘ جنت‘ دوزخ‘ یوم آخرت‘ ختم نبوت‘ نماز‘ روزہ‘ زکوٰة‘ حج‘ تلاوت قرآن‘ قربانی اور تقدیر سے انکار‘ شریعت اسلامیہ کے منسوخ ہونے کا دعویٰ‘ احکام قرآنی محض عبوری دور کے لئے تھے‘ اب ان کا حکم باقی نہیں‘ وراثت‘ خیرات وصدقہ وغیرہ تمام احکام وقتی تھے‘ اب مرکز ملت کو اختیار ہے کہ جوفیصلہ صادر کرے۔ حق ہے‘ انا للہ۔ آخر اسلام کی کون سی چیز باقی رہ گئی‘ جس پر مسٹر پرویز نے ہاتھ صاف نہ کیا ہو‘ حدیث عجمی سازش ہے‘ حدیث کا انبار بے معنی چیز ہے اور اب جو اسلام مسلمانوں کے پاس ہے وہ سب ”افسانہ ٴ عجم“ ہے‘ وغیر ذلک من الہفوات والاکاذیب۔بتایئے کیا یہ مسائل فروعی مسائل ہیں؟ اور اگر یہ فروعی مسائل ہیں تو اصولی مسائل کیا ہوں گے اور کیا تکفیر کبھی بھی فروعی مسائل کے انکار سے ہوتی ہے؟ قرآن ‘ حدیث‘ تمام عبادات‘ تمام احکام شرعیہ‘ بیک جنبش قلم ختم کردیئے گئے پھر بھی ”سب اچھا“ ہے اور اسلام بخیر ہے؟ اسلام کی قریبی تاریخ میں مرزا کے سوا آج تک اتنا بڑا ملحد پیدا نہیں ہوا جس نے بیک وقت تمام شریعت کی اس طرح تحریف کی ہو‘ گویا مرزا غلام احمد قادیانی کی روح چوھری غلام احمد پرویز میں آگئی ہے‘ ڈاکٹر فضل الرحمن سابق ڈائرکٹر مجلس تحقیقات اسلامی یہ سب ایک طرح کے دین اسلام کو مسخ کرنے والے ہیں‘ افسوس کہ اسلام اتنا غریب الدیار بن گیا ہے کہ جو

بے رحم زندیق وملحد آئے اسلام کو ذبح کرے‘ جس طرح چاہے اس کی شہ رگ پر کند چھری چلائے‘ کوئی چھڑانے والا نہیں؟ ہاں ! ان ملاحدہ کو ٹوکنے والے ظالم ہیں؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تصور بھی اس کا نہیں ہوسکتا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر ایسے گمراہ وملحد اس آزادی کے ساتھ اسلام کی گردن پر چھری چلائیں گے کہ کوئی آہ بھی نہ کر سکے گا“‘ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور اس مملکت پاکستان کی سرزمین کو صحیح اسلام کا نمونہ بنادے اور ایسی مثالی حکومت قائم فرمائے جو تمام عالم اسلام کی دینی وسیاسی قیادت کرسکے۔

2 "مشرق اور مغرب کے درمیان کشمکش کی بنیاد اسلام نہیں، مفادات ہیں"

مشرق اور مغرب کے درمیان کشمکش کے موضوع طویل عرصے سے زیر بحث چلا آ رہا ہے۔ اس کشمکش کی بنیاداسلام کو سمجھا جاتا ہے، تاہم امریکا کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے اپنی نو تالیف کردہ کتاب "ورلڈ ود آٶٹ اسلام" میں اس تاثر کی سختی سے نفی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "مشرق اور مغرب کے درمیان کشمکش کی حقیقی وجہ اسلام نہیں، بلکہ اپنے اپنے مفادات ہیں جو ٹکراٶ کا باعث چلے آ رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار احمد عبد اللہ نے العربیہ ٹی وی کے پروگرام "عالم الکتاب" میں تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ کتاب کے مؤلف سینٹرل انٹلیجنس ایجنسی" سی آئی اے" کے سابق ڈپٹی چیف گراہم فولر نے مشرق و مغرب کے درمیان جاری تاریخی کشمکش کے اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ "دہشت گردی کے ظہور کو اسلام سے جوڑنے کے امریکی اور مغربی الزامات درست نہیں کیونکہ قدیم اور جدید تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ مشرق اور مغرب کے درمیان جنگیں مفادات کی بنیاد پر لڑی جاتی رہی ہیں۔ ان کی مثالیں ہمیں یورپ میں مذہب اور سیکولر ازم کے درمیان جنگوں کی شکل میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان جنگوں میں صرف ذاتی مفادات کی بنیاد پر کروڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ان جنگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اسلام کی فکری، تہذیبی اور ثقافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی مصنف آگے چل کر رقمطراز ہیں کہ "اگر دنیا میں اسلام کی روشنی نہ ہوتی تو اس وقت کائنات تہذیبی، فکری اور ثقافتی اعتبار سے غریب ترین سمجھی جاتی۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے مشرقی اور مغربی کلیساٶں کو باہمی جنگوں سے روکے رکھا۔ ایسے میں امریکا اور مغرب کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ تہذیبوں کے درمیان تصادم اور مشرق و مغرب کے درمیان کشمکش کا ملبہ اسلام پر ڈالیں"

کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لبنان یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رضوان السید نے مصنف کی اس بات سے اتفاق کیا کہ دنیا میں کشمکش کا باعث کبھی بھی اسلام نہیں رہا بلکہ اسلام نے کشمکش اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اسلام سے قبل دو بڑی شہنشاہتیں تھیں، ایک ساسانی اور دورسری رومن۔ ان دونوں کے درمیان طویل جنگوں اور کشمکش نے بازنطینی شہنشاہیت کو ظہور کا موقع دیا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق اور مغرب کے درمیان کشمکش ظہور اسلام سے صدیوں پہلے سے چلی آ رہی تھی۔ ساسانی اور رومن بادشاہتوں کے درمیان تصادم کے علاوہ رومیوں اور فارسیوں، بازنطینیوں اور فارسیوں، یونانیوں اور فارسیوں کے درمیان بھی کشمکش اسلام سے پہلے سے چلی آ رہی تھی۔

ڈاکٹر السید نے امریکا میں طویل مدتی کشمکش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکا کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ خود امریکیوں کی مزاحمت کبھی فرانسیسی استعمار کے خلاف رہی اور کبھی اس کا ہدف اطالوی تھے اور کبھی برطانوی قبضے کے خلاف انہوں نے مزاحمت کی۔ یہ تمام جنگیں یورپی استبداد کی وجہ سے تھیں جو دنیا میں قبضے کے لیے کوشاں تھا۔

امریکی مصنف مزید لکھتے ہیں کہ تہذیبوں کے درمیان کشمکش کی تاریخ نائن الیون سے شروع نہیں ہوتی۔ اسلام اور مغرب کے درمیان کشمکش کے خاتمے کی تجویز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ موجودہ کشمکش کا خاتمہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ امریکا تمام اسلامی اور عرب ملکوں سے اپنی فوجوں کو واپس بلائے۔ فلسطین کے مسئلے کا منصفانہ حل تلاش کیا جائے اور جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آنے والے اسلام پسندوں کی حکومتوں کو تسلیم کیا جائے۔

الحاد جسے ملحدین ”الحادِ عظیم” کہتے ہیں۔
کن مذاہب میں اور کیوں زیادہ مقبول ہے اس پر ایک مختصر نظر ڈال لیتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا مذہب عیسائیت ہے۔جدید عیسائیت نے مذہب اور معاشرے کو الگ الگ کر کے اس کے دو طبقات بنا ڈالے، کیتھولک (Catholic) اور پروٹسٹنٹ (Protestant) ۔کیتھولک وہ طبقہ ہے جو مذہب اور معاشرے کو ایک دوسرے میں مدغم سمجھتا ہے اور مذہبِ عیسائیت سے مضبوطی سے جڑا ہے جبکہ پروٹسٹنٹ کے نزدیک مذہب کو صرف چرچ تک محدود رکھنا چاہیے۔چنانچہ عملی زندگی میں مذہب کی غیر موجودگی پروٹسٹنٹس کو عیسائیت سے دور لیتی گئی ۔نتیجتاًیہ طبقہ لادینیت کی طرف گامزن ہوا۔یہی طبقہ الحاد کا سب سے بڑا شکار ہوا۔

دنیا میں لادینیت کا سب سے زیادہ اضافہ کینیڈا، امریکہ اور یورپ وغیرہ میں ہوا جس کی تفصیلات آگے آ رہی ہے ۔اس کی وجہ یہی پروٹسٹنٹس ہیں جو اصل میں پہلے ہی مذہب سے بے زار ہوچکے تھے۔ اسی طرح ہندوازم کے متعلق بھی مختصر کلام ہو چکا کہ بت پرستی اس دور کا واقعہ ہے جب اس کے ماننے والے لوگوں میں فہم و فراست اور شعور کا فقدان تھا، ہندو دھرم جس نے تاریخ میں علم و دانش اور تخلیقات میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مذہب میں فہم و فراست کا فقدان ہی تھا جس نے انہیں اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں اور مورتیوں کے آگے ماتھا ٹیکنے پر مجبور کیا۔مگر جدید ہندو نسل میں دوسرے مذاہب خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ مطابقت نے عقل و شعور کے دروازے کھولے ہیں اور بت پرستی جس کو عقل تسلیم نہیں کرتی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
جس کی وجہ سے بھارتی شہری تیزی سے الحاد یا اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ کہ بتوں کی پوجا اس دور کی بات ہے جب عقلِ انسانی پستیوں میں پڑی تھی مگر نئی بھارتی نسل اپنے ہاتھوں سے بنائے ان مورتیوں کی عبادت پر سوال اٹھا رہی ہے۔اسی لیے بھارت میں "پی کے" اور "اوہ مائی گاڈ" جیسی فلمیں بن رہی ہیں جو بت پرستی سے بھارتی شہریوں کی بیزاری دکھاتی ہیں)۔ انقلاب ِ فرانس الحاد پسندوں کی پہلی سیاسی تحریک تھی جس نے اپنے معاشرے کی بنیاد انسانی منطق پر رکھی اور خدائی اقتدارِ اعلیٰ کی نفی کی۔
الحاد اپنے وجود کو منطق اور دلائل سے ثابت کرنے میں تا حال ناکام ہے اور ملحدین کا اپنی سچائی ثابت کرنے کا بس ایک طریقہ ہے کہ اللہ کے ماننے والوں کو کسی طرح جھوٹا ثابت کر دیں۔ الحاد کے ماننے والوں میں زیادہ تر اضافہ یورپین ممالک، کینیڈا اور امریکہ میں ہوا ہے۔جارج ایچ سمتھ (1979) کے مطابق ہر انسان جو اللہ تعالی کی نہیں مانتا ملحد ہے اسی طرح Baron D’Holbach (1772) کے مطابق ہر پیدا ہونے والا بچہ ملحد ہے۔دوسری طرف یہی عقیدہ دیگر ادیان کے پیروکار کا بھی ہے۔
  انگریزی میں ایک اور اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے جسے Deathbed Conversion کہتے ہیں یعنی بسترِ مرگ پر موت کی سختیاں دیکھ کر وجودِ اللہ کی گواہی دے دینا یا اپنے عقائد تبدیل کر لینا۔اس کی سب سے بڑی مثال چارلس ڈارون ہی ہے جو لیڈی ہوپ کے مطابق بسترِ مرگ پر اپنی تھیوری پر کف افسوس مل رہا تھا اور اس کی جانکنی کے عالم میں بھی یہ خواہش تھی کہ لوگوں کی جماعت اکھٹی کی جائے جنہیں یہ اللہ کے وجود پر لیکچر دے سکے۔آئندہ اقساط میں ہم چند ایک سانئس دانوں اور معروف شخصیات کا ذکر بھی کریں گے جو کہ خود ہی اپنے عقیدہ الحاد کے وجود پر سوال اٹھانے لگ گئے تھے۔اور دوران تحقیق آخر کار انہوں نے قرآن حکیم میں بیان کردہ  نشانیوں کو دیکھ کر اللہ تعالی کی ذات اقدس کا اقرار کر کے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے سرخرو کر لیا۔۔۔
الحاد میں اضافے کے لحاظ سے ہندودھرم دوسرے نمبر پر آتا ہے۔اسلام اور یہودیت اپنے مذہب کے ساتھ نسبتاً زیادہ مضبوطی سے جڑے ہیں۔ تاہم یہودیت سیکولرازم کا شکار ہو کر یہودیت سے ضرور دور ہوئی ہے مگر الحاد کی طرف راغب کم ہوئی ہے۔دینِ اسلام اس قدر جامع، مربوط اور ہمہ گیر ہے کہ دائرہ اسلام میں آنے کے بعد انسان سچائی کو اتنا قریب سے دیکھ لیتا ہے وہ مذہب چھوڑنے کے خیال کو بھی لغو اور بے معنی سمجھتا ہے۔اس لیے مسلمان باوجود اسلام سے عملی طور پر دور ہونے کے وجودِ اللہ سے انکار کا سوچ بھی نہیں سکتا۔لیکن کچھ بد نصیب مسلمان بھی کم علمی کی بنا پر الحاد کی طرف راغب ضرور ہوئے ہیں جن کی تفصیلات سابقہ مضامین میں گزر چکی ہیں ۔  
لیکن پاکستان میں الحادی سازشوں کے طریقہ کار کو سمجھنے کے لیے آپ کو ذہن سازی کے عمل یعنی ”برین واشنگ” کو سمجھنا ضروری ہوگا

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق ‘برین واشنگ’ کی اصطلاح کا آغاز1950 کی دہائی میں ہوا جب میامی کے ایک صحافی مائیکل ہنٹر نے اسے امریکن فوجیوں کی کورین وار میں ذہن سازی کے لیے استعمال کیا ڈک انتھونی نے 1999 میں انکشاف کیا کہ ہنٹر CIA کا سیکرٹ ایجنٹ تھا جسے کمیونزم کے حوالے سے عام عوام کی ذہن سازی کے لیے استعمال کیا گیا۔برین واشنگ کا استعمال اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود انسان۔سب سے پہلی برین واشنگ حضرت حوا کی گئی جب شیطان نے گندم کا دانہ کھانے کے لیے ان کی ذہن سازی کی۔برین واشنگ یا ذہن سازی وہ تکنیک ہے جس کے ذریعے انسانی فطرت، عقائد، نظریات اور رویوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ذہن سازی کا یہ عمل اتنا مکمل اور پختہ ہوتا ہے کہ Brainwashing (جس کی ذہن سازی کی گئی ہو) یہ ماننے سے یکسر انکاری ہوتا ہے کہ وہ Brainwashed ہے بلکہ وہ اسے ہی حقیقت سمجھتا ہے جو اس کو سمجھا دی گئی ہو۔ذہن سازی کے لیے معمول کے ذہن اور شعور پر مکمل تصرف ضروری ہے۔اس لیے ماہرِ نفسیات مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔

برین واشنگ کو سمجھنے کی ایک مثال حسن بن صباح کی ہے
جو ہپنا ٹزم اور حشیش کے ذریعے حشیشین (حسن بن صباح کے فدائی) کی اس قدر مضبوط ذہن سازی کرتا تھا کہ وہ اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔اس نے مشہور قلعہ المُوت میں اپنی حکومت قائم کی اور یہیں مشہور اور بدنامِ زمانہ جنت تعمیر کی گئی جہاں حسن بن صباح نے 35 برس تک حکمرانی کی اور نوے سال کی عمر میں طبعی موت مرا کیونکہ کسی کو اس کے قلعہ کے قریب آنے کی جرات بھی نہیں ہوئی۔
حسن بن صباح کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اِس کے فدائین تھے جو بعد میں حشیشین کے نام سے بھی مشہور ہوئے کیونکہ وہ حشیش (ایک قسم کی بھنگ) کا نشہ کرتے تھے۔ یہ فدائین تھے کیا؟ اس بات کا اندازہ آپ اس واقع سے لگا سکتے ہیں ۔ جب حسن بن صباح کا فتنہ بہت بڑھ چُکا تو سلجوقی سلطان ملک شاہ نے اس کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا۔ لشکرکشی سے پہلے ایک قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا گیا کہ حسن بن صباح خود کو سلطنت کے حوالے کر دے اور اپنی منفی سرگرمیاں ختم کردے ورنہ اُس کے قلعہ پر چڑھائی کردی جائیگی۔ ایلچی نے یہ پیغام قلعہ المُوت میں جا کر حسن بن صباح کو سُنایا۔
”میں کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتا” حسن بن صباح نے کہا، ”اور نظام الملک سے کہنا کہ میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں یہاں کا رُخ مت کرنا ورنہ تمہاری فوج کا انجام بہت بُرا ہوگا”۔ایلچی یہ پیغام لے کر جانے لگا تو حسن بن صباح نے اُسے روک لیا۔ ”ٹھہرو شاید تم میری باتوں کا یقین نہ کرو میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں”۔اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے کچھ فدائین قطار بنا کر وہاں کھڑے ہو گئے۔اس نے ایک فدائی کو بُلا کر خنجر پکڑایا اور کہا، ”اِسے اپنے سینے میں اُتار لو”۔
اُس فدائی نے بلند آواز میں نعرہ لگایا ”یا شیخ الجبل تیرے نام پر” اور خنجر اپنے دل میں اُتار لیا۔اس کے بعد ایک دوسرے فدائی کو بلا کر حکم دیا کہ بلندی پر جا کر سر کے بل چھلانگ لگا دو ۔وہ خاموشی سے گیا اور چھت سے چھلانگ لگادی اور اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔ایسے ہی ایک فدائی کو پانی میں ڈوبنے کو کہا گیا اور اُس نے بخوشی اپنے آپ کو پانی کی تُند و تیز لہروں کے حوالے کردیا۔
اسی طرح کی صورت حال اب پاکستان میں بھی ہے۔ دہشتگردوں کی خود کش کاروائیوں سے اب تک ہزاروں لوگ ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
ہاد رہے خودکش حملے،دہشت گردی اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سختی سے ممانعت ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْط اِنَّ اﷲَ کَانَ بِکُمْ رَحِيْمًاo وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًاط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ يَسِيْرًاo
النساء، 4 : 29، 30
”اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہےo”
امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :
﴿وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ﴾ يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل.
رازی، التفسير الکبير، 10 : 57
”(اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو)۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔”
مزید برآں امام بغوی نے ”معالم التنزیل (1 : 418)” میں، حافظ ابن کثیر نے ”تفسیر القرآن العظیم (1 : 481)” میں اور ثعالبی نے ”الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن (3 : 293)” میں سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیات کے تحت خود کشی کی حرمت پر مبنی احادیث درج کی ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ تفسیر کے نزدیک بھی یہ آیات خود کشی کی ممانعت و حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔
احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.
بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، 2 : 697، رقم : 1874
”تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔”
یہ حکمِ نبوی واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے، تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں (suicide attacks) اور بم دھماکوں (bomb blasts) کے ذریعے اپنی جان کے ساتھ دوسرے پرامن شہریوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے کی اجازت دے! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا (وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا) فرما کر دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔
لہذا ایسی سوچ کے نوجوانوں کو پیغام دینا ہے کہ جن کو جھوٹی جنت کا لالچ اور فریب دیکر برین واش کیا جاتا ہے ۔ اور انہیں خود کش حملہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے وہ جان لیں کہ یہ عمل جنت میں جانے والا نہیں بلکہ سیدھا جہنم میں پہنچانے والا ہے ۔بلکہ یہ دہشتگرد انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
حدیث رسول کریم ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے دوسرے مسلمانوں کو گزند نہ پہنچے۔ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے اور دہشتگرد(خود کش) اسلام اور امن کے دشمن ہیں۔یہ دہشتگرد اسلام کو بدنام اور امت مسلمہ کو کمزور کر رہے ہیں۔علمائے اسلام ایسے جہاد اور اسلام کو’’ فساد فی الارض‘‘اور دہشت گردی قرار دیتے ہیں۔
بہر حال!ہمارا موضوع ہے کہ ایک سیدھے سادھے انسان کا کیسے  برین واش کر کے ملحد یا سیدھی راہ سے ہٹایا جاتا ہے۔اس پر تفصیلی گفتگو ہم مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی میں بیان کر چکے ہیں ۔اگرچہ یہ طریق ہائے مسلمانوں کے راہنما لوگوں کو فکری یا ذہنی غلام بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔لیکن یہی طریقہ کار ایک عام انسان کا برین واش کر کے الحاد کی طرف لایا جاتا ہے۔
جس کی مکمل تفصیلات اس لنک پر ملاحظہ کریں
http://www.mubashirnazir.org/PD/Urdu/PU02-0028-Brainwashing.htm

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...