Monday 15 May 2017

الحاد کی تعریف

الحاد کی تعریف

 (سلسلہ:الحاد کا تعاقب #:1،
تالیف: عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

الحاد کا لغوی معنی: ”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔ ( المنجد)
تفسیر روح البیان میں ہے:
”الالحاد فی الاصل: مطلق المیل والانحراف ومنہ اللحد؛ لانہ فی جانب القبر“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ: ۴۰)
ترجمہ:۔”الحاد اصل میں ”مطلقاً اعراض وانحراف“ کے معنی میں آتا ہے، اسی لئے بغلی قبر کو بھی لحد کہا جاتاہے، کیونکہ وہ بھی ایک طرف مائل کرکے بنائی جاتی ہے“۔
اور تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:
”الالحاد: المیل والعدول، ومنہ اللحد فی القبر، لانہ میل الی ناحیة منہ“۔ 
(تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔
اصطلاحی معنی: 
اصطلاح کے اندر ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا شائع وذائع ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا جب یہ لفظ بولا جائے تو اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد، جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:
”فالملحد ہو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل“۔ (تفسیر سورہٴ حم سجدہ:۴۰)ترجمہ:۔””ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:
”ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں“۔
لغوی معنی کے اعتبار سے تو یہ عام ہے کہ صراحةً کھلے طور پر انکار وانحراف کرے یا تاویلاتِ فاسدہ کے سہارے سے انحراف کرے، بہرصورت الحاد میں داخل ہے،کیونکہ ”لفظ” ملحد“ لغوی تعریف کے اعتبار سے کفر کی تمام اقسام کو شامل ہے“۔
اصطلاح میں عام طور سے ”الحاد“ ایسے انحراف کو کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان وتصدیق کا دعویٰ کرے، مگر اس کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن وسنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے، جیساکہ ابن عباس سے منقول ہے:
”وقال ابن عباس: ہو تبدیل الکلام ووضعہ فی غیر موضعہ“۔
(تفسیر القرطبی، سورہ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس نے فرمایا: ”الحاد“ کلام کو تبدیل کرنے اور اس کو غیر محمل پر حمل کرنے کو کہا جاتا ہے“۔
اس طرح  ملحد دین سے انحراف اور آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرکے کفر کی وادی میں داخل ہوجاتا ہے۔
اور روح المعانی میں مذکور ہے:
”إِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَاتِنَا: یتحدفون فی تاویل آیات القرآن عن جہة الصحة والاستقامة فیحملونہا علی المحامل الباطلة“۔ (تفسیرسورہٴ حم سجدہ:۴۰)
ترجمہ:۔”بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات میں کجروی اختیار کرتے ہیں، یعنی قرآن کی آیات کو صحیح ودرست جہت سے پھیر کر تاویل کے ذریعے غلط معانی پر محمول کرتے ہیں“۔
اور مذکورہ آیت خود بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ” الحاد“ کوئی ایسا کفر ہے جس کو یہ لوگ چھپانا چاہتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: یہ ہم سے اپنا کفر چھپا نہیں سکتے۔
دنیا کے تمام کافر اپنے کفر کی تاویل کرتے ہیں، ہر تاویل معتبر مان لی جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی بھی کافر نہ رہے گا، کیونکہ مشرکین مکہ کی تاویل تو خود قرآن میں مذکور ہے کہ ”ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں“۔

بعض بے دین اور ملحد ”صلوٰة“ کے لفظ کو عربی کے لفظ ”مُصَلِّی“ (بمعنی دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنے والے گھوڑے) سے مشتق مان کر ”صلوٰة“ کو ایک جسمانی ورزش قرار دیتے ہیں اور اسی قبیل سے قادیانیوں کی ”ختم نبوت“ کے مفہوم میں تاویل بھی ہے، یہ سب کفرِ محض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو آسمانی ہدایت اس دنیا کو عطا فرمائی وہ بنیادی طور پر تین عقائد پر مشتمل تھی: یعنی توحید،نبوت و رسالت اور آخرت۔ اس کا خلاصہ یہ ہے اس کائنات کو ایک خدا نے تخلیق کیا ہے۔ تخلیق کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے لا تعلق نہیں ہو گیا بلکہ اس کائنات کا نظام وہی چلا رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہے جسے اخلاقیات (ethics)  یا دین فطرت کہتے ہیں۔ مزید برآں اس نے انسانوں میں چند لوگوں کو منتخب کرکے ان سے براہ راست خطاب کیا ہے اور انہیں مزید ہدایات دی ہیں جن کے مطابق انسانوں کو اپنی زندگی گزارنا چاہئے۔ انسان کی زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دوبارہ ایک نئی دنیا میں پیدا کیا جائے گا جہاں اس سے موجودہ زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ جس نے اس دنیا میں دین فطرت اور دین وحی پر عمل کیا ہوگا، وہ خدا کی ابدی بادشاہی یا جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اس سے اعراض کیا ، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔

الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور خدا پر عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اوپر بیان کئے گئے تینوں عقائد ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی دو کو غیر موثر کردیتا ہے اس لئے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہی کہلائے گا۔ چنانچہ اس تحریر میں ہم جس الحاد کی تاریخ پر گفتگو کریں گے وہ وجود خدا، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے نظریاتی یا عملی طور پر کسی ایک یا تینوں کے انکار پر مبنی ہے۔ ہماری اس تحریر میں الحاد کی تعریف میں مروجہ Atheism, Deism   اور Agnosticism  سب ہی شامل ہیں۔

ازمنہ قدیم سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے لیکن اس معاملے میں خدا کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیاہے ۔ بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی خدا کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو مذہب کے بعض فرقوں جیسے جین مت میں خدا کا تصور نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند فلسفی ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے خدا کا انکار کیا۔ عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے ہاں ایسا ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس خدا کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہر دور میں کافی بڑی تعداد میں دنیا میں موجود رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کے منکر تو نہ تھے لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔

عالمی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کرلیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی بنیاد پر الحاد کو اس قدر فروغ حاصل ہوا ؟ دنیا بھر میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا فتوحات حاصل کیں اور اسے قبول کرنے والے ممالک اور اقوام کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ تاریخ کے مختلف ادوار میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا رنگ اختیار کئے اور دور جدید میں الحاد کی کونسی شکل دنیا میں غالب ہے؟ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو چکے ہیں اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ "الحاد کا علمی تعاقب " سلسلہ اپنی ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ یا اخبار وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...