Sunday 25 September 2016

*گرم اور ٹهنڈا پانی پینے کے فائدے، شہد اور دار چینی ملا پانی کے فائدے اور پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ لگانا*

*گرم اور ٹهنڈا پانی پینے کے فائدے، شہد اور دار چینی ملا پانی کے فائدے اور پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ لگانا*
        (تحقیق و تدوین:عمران شہزاد تارڑ)
آج کل سوشل میڈیا پر نہار منہ گرم پانی پینے کے فوائد کے حوالہ سے ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے
جس میں حیرت انگیز فوائد بتائے جارہے ہیں بلکہ بعض اخبارات نے بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے گویا کہ تمام بیماریوں کا علاج جیسے گرم پانی ہی میں ہو-

خالی پیٹ گرم پانی کے کچھ فوائد ضرور ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے اس پوسٹ میں موصوف نے بیان کیے ہیں-
پانی ایک ا یسا عنصر ہے جو انسانی صحت و تندرستی کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیشہ صاف و شفاف اور آلودگی سے پاک پانی پیا جانا چاہیے۔ پانی کو ابال کر پینے سے بے شمار امراض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔گرم مزاج (صفراوی)کے حامل افراد کو چاہیے کہ صبح نہار منہ  دو سے چار گلاس پانی پییں، لیکن اس کے بر عکس سرد مزاج(بلغمی) کے حاملین کو چاہیے کہ وہ صبح نہار منہ سرد پانی کی بجائے نیم گرم پانی میں ایک چمچہ شہد ملا کر استعمال کریں۔ انھیں بلغم سے جڑے عوارض سے چھٹکارا نصیب ہو گا۔کولیسٹرول ، یورک ایسڈ اور امراضِ گردہ میں مبتلا مریضوں کو چاہیے کہ وہ ایک گلاس پانی میں نصف چمچہ سونف پکا کر صبح نہار منہ پییں۔ ایسے افراد جو ہمیشہ لو بلڈ پریشر کا شکار رہتے ہوں انھیں چاہیے کہ وہ ایک گلاس پانی میں ایک چٹکی نمک اور ایک عدد لیموں نچوڑ کر پی لیں، اس عارضے سے نجات حاصل ہوگی۔موٹاپے میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ وہ ایک گلاس گرم پانی میں ایک چمچہ شہد اور ایک عدد لیمن نچوڑ کر رات کو سوتے ہوئے پی لیا کریں۔گرم مزاج والوں کو کھانے کے درمیان اور بعد میں لازمی طور پر پانی پینا چاہیے لیکن سرد مزاج والوں کو کھانا کھانے سے نصف گھنٹہ قبل دو چار گھونٹ اور کھانے کے ایک گھنٹہ بعد دو چار گھونٹ پانی پینا چاہیے۔دورانِ طعام یخ ٹھنڈا پانی سے پر ہیز کرنا چاہیے کیونکہ برف مزاجاََ سرد تر ہے اور معدے کی قوتِ ہاضمہ کو کمزور کرتی ہے۔البتہ معتدل پانی کا استعمال کریں-جو نہ گرم ہو اور نہ ہی ٹهنڈا بلکہ نارمل اپنی اصلی حالت میں ہو-
دائمی قبض کے مریضوں کو نہار منہ پانی پینا چاہیے اور کھانے سے پہلے،درمیان اور بعد میں بھی پانی کا استعمال کرنا چاہیے ۔ عام طور پر قبض کی بیماری انتڑیوں میں خشکی بڑھ جانے سے ہوتی ہے جب کہ پانی سرد تر ہونے کی وجہ سے انتڑیوں کی خشکی ختم کرتا ہے۔
اور یاد رہے گرم کھانے کے بعد، ترش اشیا کھانے کے بعد، کھیرا،تربوز اور خربوزہ کھانے کے بعد، دھوپ سے آنے، سو کر اٹھنے اور نہانے، محنت اور ورزش کرنے کے فوراً بعد اور دودھ اور چائے پی چکنے کے بعد پانی پینا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پانی ہمیشہ گھونٹ گھونٹ پینا چا ہیے، ایک دم گلاس بھر کر پانی پینے سے بھی مضر اثرات سامنے آتے ہیں۔یہ بھی دھیان رہے کہ پانی جسمانی ضرورت اور گنجائش کے مطابق ہی پینا چاہیے ورنہ پانی کی زیادتی نفخ،اپھارہ اور بھاری پن پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کوشش کریں کہ تازہ پانی پیا جائے-
اور نہ ہی ہر ایک کو طبیب سے مشورہ کیے بغیر نہار منہ گرم پانی پینا چاہیے کیونکہ کہ گرم پانی تاثیر کے لحاظ سے گرم ہوتا ہے جس کی وجہ سے مختلف بیماریاں جنم لے سکتی ہیں جبکہ معتدل حالت میں پانی پینے کا کوئی نقصان نہیں ہے-
جو لوگ ٹھنڈا پانی پسند کرتے ہیں انہیں جان لینا چاہئے کہ ٹھنڈا پانی کھانا کھانے کے بعداچھا تو معلوم ہوتا ہے لیکن کھائی ہوئی غذا میں موجود چکنائی کے مادوں کو ٹھوس بنا دیتاہے۔ ہاضمہ کی رفتار سست کر دیتا ہے۔ جب یہ ٹھوس مادہ تیزابی مادے کے ساتھ تعامل کرتاہے تو پگھل جاتا ہے اور آنتوں میں ٹھوس غذا کی بہ نسبت زیادہ تیز رفتار سے جذب ہوجاتاہے اور آنتوں کی دیواروں پر جمع ہو جاتا ہے۔ جلد ہی چربی میں تبدیل ہوجاتا ہے اور کینسرمیں مبتلا کردیتا ہے اس لئے کھانے کے بعد گرم شوربہ، چاہے ،قہوا یا نیم گرم پانی استعمال کرنا بہتر ہے ٹھنڈا پانی کا دل کی شریانوں کو بند اورہارٹ اٹیک کا بھی باعث بنتا ہےاور نضام ہضم بھی خراب نیز موٹاپا پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے-اس لیے زیادہ ٹهنڈا پانی پینے سے گریز کرنی چاہیے-
کھانا کھانے کے بعد تقریباً پوری دنیا میں کسی نا کسی طریقہ سے  گرم مشروب ہی استعمال کیا جاتا ہے-اور یہ رسم تقریباً پوری دنیا میں مشترکہ ہے کہ ہر ملک میں کسی نہ کسی طریقے سے کهانا کهانے کے بعد گرم مشروب ہی استعمال کیا جاتا ہے-
موصوف نے صرف گرم پانی نہار منہ پینے کے بیسیوں فوائد لکهے  جن میں سے کچھ تو قابل اعتماد ہیں لیکن زیادہ تر بغیر تصدیق شدہ ہیں-
آئیے گرم پانی کے ساتھ شہد کے استعمال سے حاصل ہونے والے چند فوائد پر نظر ڈالتے ہیں :
شہد کی افادیت و اہمیت سے کون واقف نہیں؟زمانہ قدیم سے اسے دوا اور غذا دونوں صورتوں میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔ تاہم اکثر اسے گرم پانی کے ساتھ شامل کرکے نہار منہ پینے کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح شہد کی غذائیت اور اس سے جسم کو حاصل ہونے والے فوائد مزید بڑھ جاتے ہیں۔شہد کے پانی سے آپ کو اپنی مجموعی صحت میں حیرت انگیز مثبت تبدیلیاں آتی نظر آئیں گی ۔
1۔ وزن کم ہوتا ہے
وزن کم کرنے کے خواہش مند افراد اگر صبح اٹھ کر ایک گلاس گرم پانی میں شہد ڈال کر پئیں تو ان کا وزن تیزی کے ساتھ کم ہو گا اور اس سے صحت کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ عموماًڈائٹنگ کرنے والوں کو شہد کے ساتھ لیمبو کے چند قطرے بھی ڈالنے کے لیے کہا جاتا ہے جو اس سیال کی افادیت میں مزید اضافہ کردیتا ہے ۔ اس سے جسم کا کولیسٹرول کم ہوتا ہے اور چربی گھل جاتی ہے ۔ ساتھ ہی جسم کو توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ بہترین نتائج کے لیے شہد کے پانی کو صبح نہار منہ اور رات سونے سے پہلے لیا جا سکتا ہے ۔
2۔ کھانسی میں آرام آتا ہے
کھانسی کی وجہ عام طور پر گلے میں ہونے والی خارش یا خشکی ہوتی ہے۔ شہد کے پانی سے سانس کی نالی صاف ہو جاتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ پانی سینے سے بلغم بھی صاف کرتا ہے ۔ کھانسی کے لیے شہد کے ساتھ لیمبو کے قطرے گرم پانی میں ڈالے جا سکتے ہیں ۔ اس ڈرنک کی اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی مائیکروبیل خصوصیات کھانسی کی تکلیف میں راحت کا باعث بنیں گی ۔
3۔ نظام ہضم بہتر ہوتا ہے
عموماًنظام ہضم میں خرابی معدے میں پیدا ہونے والی تیزابیت کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ معدے کے انفیکشن یا قبض وغیرہ کی وجہ سے بھی ہاضمہ خراب ہوسکتا ہے ۔ ان تمام صورتحال کے لیے شہد کا پانی بے حد فائدے مند اور کارآمد ہے ۔
4۔ الرجیز دور بھگاتا ہے
شہد جلد کے لیے بے حد مفید ہے ۔ اس کو پانی میں ڈال کر پینے سے جلد اندر سے صاف ہوجاتی ہے ۔ جلد پر ہونے والی الرجی کو دور کرنے کے لیے شہد کا پانی بے حد فائدے مند ہے ۔ اس سے جلد کی نمی بھی برقرار رہتی ہے اور خشکی بھی نہیں بن پاتی ۔
5۔ جسم کو طاقت ملتی ہے
یہ پانی کی کمی کو دور کرتا ہے ۔ جسم میں مناسب نمی بنی رہے تو وہ توانا اور تندرست رہتا ہے ۔ سارا دن چاق و چوبند رہنے کے لیے صبح اٹھ کے شہد کا پانی پینا مفید ہے ۔ جو لوگ دن بھر میں سست اور جھومتے رہتے ہوں وہ شہد کے پانی کو ضرور اپنی غذا کا حصہ بنائیں ۔
6۔ امراض قلب سے محفوظ رکھتی ہے
شہد دل کو جوان اور تندرست رکھتا ہے ۔ شہد کے ساتھ اگر دارچینی بھی گرم پانی میں ڈال دی جائے تو اس پانی کے استعمال سے دل کی شریانیں کھل جاتی ہیں جس سے خون بہتر طریقے سے جسم میں دوڑ سکتا ہے ۔ اس مکسچر سے کولیسٹرول لیول بھی درست رہتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق شہد کے پانی کا باقائدگی سے استعمال کولیسٹرل کو دس فیصد تک کم کر سکتا ہے ۔ تھوڑے سے گرم پانی میں ایک سے دو چمچ شہد اور ایک تہائی دارچینی پاؤڈر ڈال کر پئیں ۔
7۔قوت مدافعت بہتر بنا تا ہے
شہد طاقت کا خزانہ ہے ۔ اس سے جسم کو بیماریوں اور جراثیموں سے لڑنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔ شہد کا پانی جراثیم اور بیکٹیریا کے خلاف کسی اینٹی بائیو ٹک کی طرح کام کرتا ہے ۔ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے شہد کا پانی باقائدگی سے پئیں ۔
پانی جسم انسانی کی بناوٹ اور اس کی مشینری کے اندر افعال انجام دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی غیرموجودگی یاکمی کی صورت میں انسانی جسم مختلف خرابیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پانی کے ذریعے انسانی جسم میں درج ذیل افعال بخوبی انجام پاتے ہیں:۱۔ یہ غذا کو بڑی آنت کے ذریعہ جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔۲۔ خون کو مائع حالت میں رکھنے میں مددگاربنتا ہے۔۳۔ پانی کی مناسب مقدار کے باعث جسم کا درجہ حرارت ہر موسم میں معمول پہ رہتا ہے۔۴۔ یہ لعاب دار جھلی کو ہمیشہ مرطوب رکھتا اور جسم کے غدودوں کو مختلف رطوبتیں خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔۵۔ جسم سے فاضل مادوں کو پیشاب کے ذریعے خارج کرتا ہے۔۶۔ پاخانے کے اخراج میں معاون ہوتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق گردے انسانی جسم سے روزانہ ۳۷ گیلن مائعات خون میں سے فلٹرکرتے ہیں۔ یہ اسی لیے ممکن ہوا کہ خون میں پانی کی مناسب مقدار موجودہوتی ہے۔پانی کے فوائدپانی کے کئی فوائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
٭ اس کی تاثیر سردتر ہے۔ یہ پیاس بجھاتا اور بے ہوشی‘ تھکاوٹ‘ ہچکی‘ اور قبض دور کرتا ہے۔
٭ پیشاب کی جلن اور یرقان کے عارضے میں مفید ہے۔
٭ جسم کے زہریلے مادے پیشاب اور پسینے کے راستے خارج کرتا ہے۔
٭ خوراک کے ہضم ہونے میں مددگار ہے۔ ہاضمے کے کئی مسائل سے بچاتا ہے۔
٭ خون گاڑھا یا خراب ہونے سے روکتا ہے۔
٭ بخار کی حالت میں پانی پلانے سے حدت دور ہوتی ہے۔
٭ جسم کی عمومی صحت کے لیے پانی کی مناسب مقدار ضروری ہے۔کمی کے نقصانات پانی کی کمی سے خون میں غذائی رطوبتیں شامل ہو جاتی ہیں۔ اس سبب خون گاڑھا ہو جاتا ہے۔ مزیدبرآں درج ذیل امراض بھی انسانی جسم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں:
٭معدے کے امراض مثلاً قبض و بواسیر۔
٭ چکر آنا۔
٭ سر میں درد اور بھاری پن محسوس ہونا۔
٭ تھکن اور کمزوری۔
٭ منہ کی خشکی اور بھوک کی کمی۔اگر جسم میں پانی کی شدید کمی (ڈی ہائیڈریشن) جنم لے‘ تو درج ذیل کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں:
٭ نظر کی دھندلاہٹ۔
٭ سماعت کی کمی۔
٭ خشک اورگرم جلد۔
٭ نبض کی رفتار میں اضافہ اور سانس کا پھولنا۔
٭ چال میں لڑکھڑاہٹ۔
غلاظت بھرے پانی کے نقصانات جراثیمی بیماریاں بالخصوص آنتوں کی سوزش‘ قبض اور بواسیر پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ گندا پانی ہے۔ نلکوں کے پانی میں ایک تو پائپوں کے اندرجم جانے والی مٹی اور غلاظت شامل ہوتی ہے۔ دوسرے اس میں بعض اوقات گٹر کاپانی مل جاتا ہے۔ اس لیے نلکوں کے پانی کو خطرے سے خالی نہیں سمجھنا چاہیے۔آلودہ پانی انسانوں کا ایک بڑا قاتل ہے۔ ہر سال تیس لاکھ پاکستانی آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بارہ لاکھ انسان اپنی زندگی سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں دو لاکھ پچاس ہزار بچے شامل ہیں۔ ایک عالمی تجزیے کے مطابق صوبہ سندھ میں جوپانی عوام کو میسرہے‘ وہ انتہائی غیرمعیاری ہے۔ اسی طرح تجزیے سے ثابت ہوا کہ کراچی میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ ملا ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق صاف پانی کی فراہمی سے اسہال اور دیگر جراثیمی بیماریوں کی شرح پچاس فیصد کم ہو سکتی ہے۔دیہات میں ندی نالوں‘ کنوئوں اور جوہڑوں کے پانی میں کسی نہ کسی طرح جانوروں کا فضلہ‘ پیشاب اور زمینی غلاظت شامل ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایسا پانی بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ اس گندے پانی سے نظام ہضم کی کئی بیماریاں پھیلتی ہیں جن میں ٹائیفائیڈ بخار یا آنتوں کابخار اورہیضہ قابل ذکر ہیں۔ انتڑیوں کی سوزش‘ بدہضمی‘ گیس‘ معدے کا السر‘ اپھارہ‘ اسہال اور جوڑوں کا درد جیسے امراض بھی گندا اور ناقص پانی پینے سے لاحق ہو سکتے ہیں۔ اِن بیماریوں کی وجہ سے ہر سال لاکھوں جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ عموماً یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شہروں میں ایک دم پیچش یا پیٹ درد یا قے کی شکایات سننے میں آتی ہیں۔ یہ پریشان کن صورت حال بھی گندے پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔زندگی کا دارومدار پانی پر ہے۔ اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم تھوڑی سی تکلیف کر کے گھر میں استعمال ہونے والاپانی جراثیم سے پاک کر لیں۔ حکومتی ادارے تو بڑے پیمانے پر پلانٹ لگا کر کیمیائی مادوں کے ذریعے پانی صاف کرتے ہیں لیکن گھر میں پانی اُبال کر پینا آسان طریقہ ہے۔طریقہ یہ ہے کہ پہلے پانی کو کسی صاف کپڑے سے چھان لیجیے۔ پھر اسے آدھ گھنٹا اُبالیے۔ اس کے بعد ٹھنڈا کرکے نوش جان کیجیے۔شہروں میں عموماً پانی جمع کرنے کے لیے زمین دوز ٹینکی بنائی جاتی ہے۔ ان ٹینکیوں کا پانی بھی آلودہ ہو سکتا ہے۔ اگریہ پانی مجبوراً استعمال کرنا پڑے تو درج بالا طریقے سے اُبال لیجیے۔کولمبیامیں واقع یونیورسٹی آف سائوتھ کوولینا سے وابستہ ڈاکٹر مارک ڈیوس کا کہنا ہے ’’ہماری بیشتر تکالیف کا تعلق ناکافی غذا کی نسبت گندا پانی پینے سے ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ ہمیں نوش کی جانے والی اشیا کے معیار کابطور خاص خیال رکھنا چاہیے۔ عموماً اس طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اپنی پیاس اور طلب کے مطابق مناسب پانی نہیں پیتے۔ کہا جاتا ہے کہ پیاس کا احساس کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک ماہر غذائیات کا کہنا ہے ’’لوگ اکثر و بیشتر پیاسے ہوتے ہیں مگر اسے بھوک سمجھتے ہیں۔‘‘ گویا لوگوں کی بڑی تعداد بھوک اور پیاس کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہے۔
کھانا کھانے کے دوران  اورشروع میں پانی پینا چاہیے۔مگر ایک دو گھنٹے بعدجی بھر کے پانی پیا جا سکتا ہے۔ صبح نہار منہ پانی پینا تمام امراض کاشافی علاج ہے۔ کھانے کے دوران معمولی مقدار اور کھانے کے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد خاصی مقدار میں پانی پینا ہاضمے کی قوت بڑھاتا ہے۔ یوں غذا کے طاقت بخش اجزا بخوبی جزو بدن بن کر صحت برقرار رکھتے ہیں۔کھانا کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے قوت ہاضمہ کمزور ہوتی ہے اور جسم پھولنے لگتا ہے۔ البتہ کھانے کے دوران پانی پینے سے کھانا جلد ہضم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس میں بھی اعتدال لازم ہے۔ گرمی کی وجہ سے بھوک نہ لگے تو کھانے سے ایک گھنٹا قبل ٹھنڈا پانی پینے سے وہ کھل جاتی ہے۔ جو افراد قبض کا شکار رہتے ہوں‘ کھانے کے دوران پانی پی لیں۔ عارضہ جاتا رہے گا۔ اس کے علاوہ صبح خالی پیٹ ایک گلاس پانی پینا قبض رفع کرتا ہے۔پانی مزمن امراض سے بھی صحت یاب کرتا ہے۔ اِسے ہم ’’علاج بالمائی‘‘ یعنی ’’پانی سے علاج‘‘ کہتے ہیں۔ یہ طریقہ علاج تقریباً ایک سو سال قبل لوئی کوہنی (جرمنی) نے دریافت کیا اور اس کے ذریعے علاج کر کے شفا پائی ۔ اس علاج کا بنیادی تصور یہ ہے کہ جسم انسانی میں فاسد مادے جمع ہونے سے بیماری آتی ہے۔ لہٰذا اگر فاسد مادوں کو خارج کر دیا جائے تو بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔علاج بالماء کے ذریعے بے شمار امراض سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ ہم یہاں صرف پیٹ کے امراض کا تذکرہ کریں گے:۱۔ تیزابیت۔۲۔ ریح والی پیچش۔۳۔ قبض۔۴۔ بواسیر۔طریقہ علاج صبح بیدار ہوتے ہی دو چار گلاس پانی پی لیں مگر معتدل پانی ہو اس تجربے کے دوران ناشتے کے دو گھنٹے بعد پانی پیا جائے۔ اسی طرح دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے ہوئے بھی پانی دو گھنٹے بعد ہی پیجئے۔جو افراد ناتوانی‘ بیماری یا صحت کی عمومی کمزور حالت میں ہوں اور ایک ہی وقت سوا کلو پانی یا دو چار بڑے گلاس پانی نہ پی سکیں‘ وہ ابتدا میں ایک یا دو گلاس نوش کریں۔ پھر آہستہ آہستہ اور مستقل مزاجی سے مقدار بڑھا کر چار بڑے گلاس پانی پینے پر آ جائیں۔ یہ طریقہ علاج مسلسل جاری رکھیں۔ یہ بیماروں کے علاوہ صحت مند لوگوں کے لیے بھی مفید ہے۔ بیمار تندرستی حاصل کرتے جبکہ صحت مند بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس طریقہ علاج سے نظام ہضم کے زیادہ تر امراض تین تا چھ ماہ کے اندر اندر ٹھیک ہونے کے امکان ہوتے ہیں۔
نہار منہ پانی پینا دیگر امراض کے لیے بهی فائدہ مند ہے  قبض،فشار خون، گیس ،ذیابیطس تپ دق سرطان وغیرہ مریض کے لیے ضروری ہے
زیادہ پانی پینے سے اوائل میں معمول سے زیادہ پیشاب کی حاجت ہو گی پھر یہ خلل دور ہو جائے گا۔بیماریوں کاشافی علاج رات کھانے کے بعد سوتے وقت دانت اچھی طرح صاف کر لیجیے۔ مسواک یا ٹوتھ پیسٹ کرنے کے بعد اچھی طرح کلی کریں ۔بعد میں پانی کی طلب ہو تو پی سکتے ہیں‘ لیکن کچھ کھانا نہیں۔ اس کے بعد سو جائیے۔ صبح اُٹھ کر نیم گرم یا تازہ پانی کا ایک گلاس پی لیں۔کم از کم پون گھنٹا یا بہتر ہے ایک گھنٹے تک کچھ نہ کھائیں پئیں۔یہ عمل پہلے دن ایک گلاس سے شروع کریں۔ ہفتہ عشرہ کے اندر اسے بڑھاتے ہوئے چار گلاس تک لے جائیں۔ یاد رہے-یہ بهی یاد رہے گرم پانی کی بجائے آپ معتدل منرل واٹر بهی استعمال کر سکتے ہیں-لیکن اس عمل میں کسی وقت کی پابندی نہیں آپ کو تین سے چھ یا چھ  سے سال بهہ لگ سکتا ہے -
اسلامی تعلیمات میں بهی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشکیزے کا ٹهنڈا پانی پسند کرتے تهے-لہذا صرف گرم پانی پر ہی زور نہ دیا جائے آپ قدرتی ٹهنڈا پانی بهی استعمال کر سکتے ہیں اگر فریج کا ٹهنڈا پانی استعمال کرتے ہیں تو بهی ہمیشہ نارمل ہی پینا چاہیے ٹهنڈا پانی یقیناً اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جو پیاس کو بجاتا ہے اور جسم کو ٹهنڈا رکهتا ہے...یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں میں ٹهنڈے پانی کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے..اور قدیم زمانے میں مٹکوں کے پانی کو کافی پسند کیا جاتا تھا-مٹکے کے پانی میں ستو ملا کر پینے کا تو رواج عام تها جو اب بهی دیہاتوں میں موجودہ ہے-
آپ نے لیموں پانی کے فوائد تو سن رکھے ہوں گے لیکن اس کا ایک ایسا نقصان بھی ہے جس کے بارے میں آپ کو علم نہیں ۔اس نقصان سے کیسے بچا جاسکتا ہے آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ لیموں پانی ہمارے دانتوں کے انیمل کے لئے بہت خطرناک ہوتا ہے اور اس کے مستقل استعمال سے ہمارے دانتوں کے اوپر تہہ کمزور پڑجاتی ہے جو کہ دانتوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔اگر آپ نیم گرم پانی میں لیموں پی رہے ہیں تو یہ مزید خطرناک بات ہے کیونکہ گرم پانی کیمیکل ری ایکشن کو تیز کردیتا ہے۔لہذا لیموں پانی پیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ پانی ٹھنڈا ہو۔اسی طرح اس نقصان کو کم کرنے کا ایک طریقہ لیموں پانی پینے کے بعد برش کرنا ہے لیکن یاد رہے کہ صبح اٹھنے کے بعد لیموں پانی پینے کے بعد فوری طور پر برش نہ کریں بلکہ کم از کم ایک گھنٹے کا وقفہ دیں ورنہ دانتوں کے انیمل کا جلد خراب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ایک کام اور بھی کیا جاسکتا ہے کہ لیموں پانی کو کسی سٹرا کے ساتھ پیا جائے تاکہ وہ کم سے کم دانتوں کو لگے۔
بعض اوقات لوگو ں کو صبح اٹھتے ہی چائے یا کافی کی طلب ہونے لگتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ فوراً چائے پی لیں اور شاید ہی اس دنیا میں کوئی ایسا انسان موجود ہو گا جو صبح اٹھتے ساتھ ہی پانی پیتا ہو۔ بہت کم ایسے افراد ہونگے جو صبح اٹھتے ساتھ ہی گرم پانی پینے کو ترجیح دیتے ہونگے۔لیکن آج ہم آپ کو نہار منہ نیم گرم پانی پینے کے ایسے فوائد بتائیں گے کہ آپ بھی چائے اور کافی کو بھول کے بس نیم گرم پانی پینا شروع کردیں گے۔ نہار منہ گرم پانی پینے سے آپ کے معدے میں بہت سارے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسا کہ اس سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، جسم میں موجود تیزابیت ختم ہوتی ہے اور اس کے علاوہ خون کا دورانیہ بھی بہتر ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بھی نہار منہ پانی پینے کے بہت سارے فائدے ہیںاور وہ فائدے کیا ہیں؟آیئے جانتے ہیں۔۔۔
٭وزن کم کرنے میں مددگار نہار منہ ایک گلاس گرم پانی پینے سے آپ کا وزن کم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
نیم گرم پانی جسم میں موجود کیلوریزکو ختم کر دیتا ہے اور اس سے گردوں پر اچھا اثر پڑتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وزن بھی با آسانی کم ہوجاتا ہے۔
٭ میٹابولیزم بہتر بناتا ہے نہار منہ ناشتے سے پہلے ایک گلاس نیم گرم پانی پینے سے معدے کے لیے بہت فائدہ مند ہے ۔ اس سے آپ کا میٹابولیزم بہتر ہوتا ہے جس کے باعث آپ کا جسم اچھی طرح کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ معدے کی تکالیف کو دور بھگانے کے لیے بھی نیم گرم پانی بہت کارآمد ہے۔
٭ خون کادورانیہ بہتر بناتا ہے خالی پیٹ نہار منہ نیم گرم پانی آپ کے معدے کے لیے بہت فائدہ مند ہے ۔اس سے آپ کے جسم میں موجود خطرناک ٹونکس خارج ہو جاتے ہیں اور اس سے خون کا دورانیہ زبردست ہو جاتا ہے۔
یعنی نیم گرم پانی یا شہد ملا پانی معدے کے متعلق تو مختلف بیماریوں کیلئے کارآمد ہو سکتا ہے لیکن موصوف کی ذکر کردہ بیماریوں کے متعلق حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا جتنا کہ موصوف نے 100% دعوی کیا ہے-ہماری موصوف سے کوئی زاتی دشمنی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ہر حال میں کسی نہ کسی طریقے سے اس کے دعووں کو رد کیا جائے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ موصوف نے پوسٹ میں بیسیوں بیماریوں کی شفایابی کے لئےمبالغہ آرائی کام لیا ہے-یعنی نیم گرم پانی فائدے ضرور ہیں مگر اتنے نہیں جتنے موصوف نے بیان کیے ہیں-
آئیے شہد اور لیموں کے مزید فائدے جانتے ہیں
شہد کی افادیت اور لیموں سے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک  خاتون نے ایک سال تک گرم پانی میں شہد اور لیموں کا رس ملا کر پیتی رہی۔خاتون کا کہنا ہے کہ ایک سال کے اندر وہ بیماریوں سے اس حد تک دور ہوگئی کہ اب اس کے معدے میں بالکل بھی درد نہیں ہوتی اور وہ ہمیشہ اپنے آپ کو تروتازہ سمجھتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ یہ مشروب پینے سے قبل اس کے پیٹ میں درد رہتی تھی اور وہ بیمار بھی تھی لیکن اس مشروب کے بعد اس کی قسمت ہی بدل گئی اور اب وہ ہر وقت اپنے ساتھ لیموں کا رس اور شہد رکھتی ہے اور ہر صبح سویرے اٹھ کر گرم پانی میں ڈال کرپیتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ وہ کافی یا چائے پینے کی بجائے یہ مشروب پیتی ہے اور بیماریوں سے محفوظ رہتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب وہ بستر سے اٹھتی تھی تو بہت زیادہ تھکی تھکی اور سست رہتی تھی لیکن اب وہ دن بھر تروتازہ رہتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو پیٹ میں درد ،سستی یا نقاہت کا شکار رہتے ہیں تو یہ نسخہ انہیں بہت زیادہ تروتازہ کرنے کے ساتھ جسم کو تقویت دے گا۔
اسی طرح جاپانی معاشرہ قدیم روایات پر قائم ہے- یہاں خواب بیداری یا نیند سے جاگنے کے ساتھ ہی صبح نہار منہ پانی پینے کا رواج عام ہے- سائنسی تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ نہارمنہ پانی پینا انتہائی فائدہ مند ہے۔ جاپان کی میڈیکل سوسائٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتے ہی پانی پینے کا عمل دیرینا اور پیچیدہ امراض کے علاوہ جدید بیماریوں کا موثر علاج ثابت ہوا ہے-جس میں زیادہ تر بیماریاں معدے کے متعلق ہیں-پانی پینا ہر حال میں مُفید ہے بشرطیکہ شفاف اور جراثیم سے پاک ہو-
ڈاکٹروں کے مطابق ہمیں روز کم از کم 8 سے 10 گلاس تک پانی پینا چاہئے. لیکن ہر چیز کے کچھ فوائد ہوتے ہیں ویسے ہی کچھ نقصان بھی ہوتے ہیں. پانی پینے کا صحیح طریقہ خود کے صحت کو تندرست رکھنے کے لئے جاننا ضروری ہے. آئیے پانی پینے کے صحیح طور طریقے کو ایک ایک کر جانتے ہیں.-آپ دن کا آغاز پانی کے ساتھ کرنا چاہئے.آپ جتنا پانی پی سکے اتنا ہی پانی پینا چاہئے. اس وقت پانی پینا آپ پورے جسم کو صاف کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے.اس سے نہ صرف پانی جسم کی گندگی کی صفائی ہی نہیں کرتا ہے بلکہ آپ کو یہ دن بھر میں تازہ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے.-پانی کا ایک ایک گھونٹ آہستہ آہستہ پینا چاہئے.-كھانا کھانے کے بعد کم سے ایک پانی پینے کے لئے کم از کم ایک  آدھ گھنٹے کا فرق ہونا ضروری  ہے. اگر آپ کو کھانے کے فوراً بعد پانی پیتے ہے تو آپ کو بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.- کبھی بھی کھڑے ہوکر پانی نہیں پینا چاہئے. اس سے آپ گھٹنوں پر زور پڑتا ہےبے حد ٹھنڈا پانی پینے سے بچنا چاہئے. اس لئے عمل انہضام فعل دھیما ہوتا ہے.کچھ لوگوں کو زیادہ ٹھنڈا پانی پینے کی عادت ہوتی هے زیادہ ٹھنڈا پانی گردے خراب کر دیتا ہے.- کھانے کے بعد منہ اور گلے کو صاف کرنے کے لئے 1 یا 2 گھونٹ گرم یا نیم گرم پانی یا مختلف ٹی پیک استعمال کی جا سکتی ہے-مثلاً گرین ٹی ، ادرک ٹی ، سونف الائچی مختلف فلاور فروٹ وغیرہ کی بهی چاہے پی جا سکتی ہے-
صحت کی حفاظت کے لیے رسول اللہﷺ کو ٹھنڈا شیریں مشروب پانی بہت زیادہ مرغوب تھا اور نیم گرم پانی نفاخ ہوتا ہے اور اس کے مخالف عمل کرتا ہے۔باسی پانی پیاس کے وقت پینا بہت زیادہ نافع اور مفید ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ابو الہیثم بن التیھان کے باغ میں تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا کہ کیا کسی مشکیزہ میں باسی پانی ہے؟ ابو الہثیم نے باسی پانی پیش کیا آپ نے نوش فرمایا اس کو امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے
دوسری بات یہ کہ رات بھر گزرنے کی وجہ سے باریک سے باریک اجزاء ارضی تہ نشین ہوجاتے ہیں اورپانی بالکل صاف شفاف ہوجاتا ہے۔ مشکیزوں اور مٹکوں کا پانی مٹی اور پتھر وغیرہ کے برتنوں میں رکھے ہوئے پانی سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے-
ان میں مسامات ہوتے ہیں جن سے پانی رستا رہتا ہے اسی وجہ سے مٹی کے برتن کا پانی جس سے پانی رستا رہتا ہے دوسرے برتنوں کے بہ نسبت زیادہ لذیذ ہوتا ہے اور زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے کیونکہ ہوا ان مسامات سے گزر کر اس کو ٹھنڈا کردیتی ہے-
  انوکھا شربت اور خاص طور پر گرمیوں کے لیے بہت سستا نہایت کم قیمت اور نہایت لاجواب‘ بڑوں‘ بچوں بوڑھوں اور جوانوں کیلئے یکساں مفید۔ اس سے پہلے ایک واقعہ سنیں:۔جو عبقری رسالہ سے لیا گیا ہے-
میرے نانا خود ایک مضبوط معالج تھے‘ ایک دفعہ فرمانے لگے کہ ہمارے ہاں قریبی بازار میں ایک ہندو حکیم ہوتا تھا‘ اُس کے پاس ایک مٹکا بھرا ہوا ہوتا تھا گرمی کی بیماری کا جو بھی مریض اس کے پاس موسم گرما میں جاتا دو پیالے پڑےہوتے تھے ایک ہندو کا پیالہ‘ ایک مسلمان کا پیالہ۔ ہندو مریضوں کو کہتا کہ اس مٹکے سے یہ پانی جس میں ادویات بھگوئی ہوتی تھیں نکال کر پیئے اور اسی طرح مسلمان اپنے پیالے میں پیتا تھااور جو بھی وہ پیالہ پیتا وہ صحت یاب ہوجاتا خاص طور پر وہ دوائی کا پیالہ جو کہ بدذائقہ بھی نہیں تھا۔ پرانے بخاروں‘ ملیریا‘ ٹائیفائیڈ خون کی کمی‘ یا ایسا بخار جو چھوڑتا نہ ہو‘ معدے کی گرمی‘ تیزابیت‘ کھانا ہضم نہ ہونا ایسی بیماریوں کیلئے تو وہ ہندو حکیم تو مشہور تھا۔ آدھے آنے کا وہ پیالہ ہوتا تھا اور آدھے آنے کی دوائی اور ایک آنے میں مریض بالکل تندرست بھلا چنگا ہوجاتا تھا۔
یہ بات میرے ذہن میں تھی چونکہ گھر سے ہی مجھے طب کا تعارف ملا پھر جب طب کی دنیا پر تھوڑا سا قدم آگے بڑھا تو میرے اوپر اس شربت کے رازورموز اور کمالات کھلنے شروع ہوئے پھر احساس ہوا کہ نہیں یہ شربت کوئی انوکھی چیز ہے۔ پھر میں نے اپنے تجربات و مشاہدات کے ساتھ اس میں کچھ اور چیزوں کا اضافہ کیا ایک صاحب میرے پاس آئے کہنے لگے دو قدم چلتا ہوں سانس پھول جاتا ہے‘ اس بار تو میں گندم کی کٹائی بھی نہیں کرسکا حالانکہ پچاس سال سے گندم کی کٹائی کررہا ہوں اور اکیلا شخص میں روزانہ کئی کئی ایکڑ گندم کی کٹائی کرتا تھا لیکن اب تھوڑی دیر کیلئے کٹائی کرتا ہوں تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہوں سانس پھول جاتا ہے کیا کروں۔۔۔؟؟؟ پریشان ہوں بیٹے کہتے ہیں کہ اباجی! آپ چھوڑیں ہم جوان ہیں‘ میں کہتا ہوں نہیں بیٹا یہ جسم ہلتا چلتا رہے اسی میں ہی خیر ہے۔ اب دل کام کرنے کو چاہتا ہے لیکن جسم ساتھ نہیں دیتا‘ مجبور ہوں‘ پریشان ہوں‘ کیا کروں؟ پہلے کھانا کھالیتا تھا‘ کھانا کھاتاہوں چند لقمے بوجھ بن جاتے ہیں‘ کھاتا ہوں ہضم نہیں ہوتا‘ طبیعت‘ صحت ہروقت پریشان رہتی ہے۔ میرے پاس ایک شربت کی بوتل پڑی تھی میں نے اٹھا کر وہ دے دی اور تاکید کی کہ چارچمچ بڑے دن میں تین یا چار دفعہ سادہ گلاس پانی میں جو کہ تیز ٹھنڈا نہ ہو گھول کر آپ پی لیں۔ صرف ڈیڑھ ہفتے کے بعد باباجی واپس آئے تو بہت خوش تھے‘ کہنے لگے تین بوتلیں اور بھی دے دیں میں نے پوچھا کس لیے خیریت؟ کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ اس دوائی سے اتنی کھل کر بھوک لگی ہے‘ سانس کا پھولنا ختم ہوا‘ طبیعت میں راحت سکون اور چین نصیب ہوا ہے بوجھ ختم ہوا ہے‘ قبض تھی وہ ختم ہوگئی‘ پہلے جو گرمی میں نہیں بیٹھ سکتا تھا اب گرمی میں بیٹھا ہوں۔ گھر کے کام کرتا ہوں‘ جانوروں کو چارا ڈالتا ہوں ماشاء اللہ پانچ بھینسیں دو گائے اور اکیس بائیس بکریاں ہیں۔ پہلے ان کی خدمت نہیں کرسکتا تھا اب وہ کرتا ہوں۔ بہت خوش۔۔۔ کہنے لگے میرے گاؤں کے کچھ لوگوں نے دیکھا کہنے لگے کہ ہمیں بھی یہ بوتل لاکر دو۔
ایک دفتر میں سے کام کرنے والے صاحب تشریف لائے کہنے لگے کہ طبیعت چاہتی ہے کہ سارا دن اے سی کے نیچے بیٹھا رہوں لیکن بجلی ساتھ نہیں دیتی‘ میرا دفتر فل ایئر کنڈیشنڈ ہے‘ بجلی جاتی ہے تو پھر گھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے‘ گاڑی میں اے سی ہے لیکن پھر بھی طبیعت میں بے چینی ہے‘ ہاتھ پاؤں جلتے ہیں گرمی شدت اور طبیعت کی بے‘ چینی بہت زیادہ ہے۔ صحت میں گرانی ہے‘ دل کی گھبراہٹ ہے‘ خون کی کمی محسوس ہوتی ہے‘ ہروقت طبیعت میں بے چینی‘ محسوس ہوتا ہے یا تو میں پھر بلڈپریشر میں جارہا ہوں یا پھر معدے کی تیزابیت اور بدن کی گرمی نے مجھے مایوس اور پریشان کیا ہوا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو ایک خوش ذائقہ چیز دیتا ہوں آپ وہ چیز استعمال کریں میں نے انہیں یہی شربت دے دیا۔ شربت لے کر چلے گئے‘ پھرمجھے ناملے۔ مریضوں کا آناجانا لگا رہتا ہے اک دن بہت عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تو پہلی ہی ملاقات میں کہنےلگے کہ وہ مسئلہ تو میرا اسی دن حل ہوگیا ہے اب تو میں اپنے بیٹے کے مسئلے کیلئےآیا ہوں۔ میں نے پوچھا کون سا مسئلہ‘ کہا وہی گرمی گھبراہٹ‘ سانس کا پھولنا‘ ہاتھ پاؤں میں جلن‘ اس طرح کے مسائل بتا کر کہنے لگے آپ نے جو مجھے بوتل دی تھی اس بوتل نے مجھے بہت زیادہ فائدہ دیا۔
قارئین! یہ شربت رمضان المبارک کا ایک انوکھا تحفہ ہے اور خاص طور پر گرمیوں کےاس رمضان میں آپ پہلے سے ہی یہ شربت تیار کرلیں بہت سستا نہایت کم قیمت اور نہایت لاجواب‘ بڑوں‘ بچوں بوڑھوں اور جوانوں کیلئے یکساں مفید۔ مریض بلاتکلف استعمال کریں‘ صحت مند بہت خوشی سے اپنی زندگی کی حفاظت‘ روزے کی حفاظت اور ویسے بھی یہ گرمی کے موسم میں روزے کے علاوہ بھی بہت مفید ہے۔ ایسے لوگ جو گرمی کے روزے میں ابھی سے گرمی اور گھبراہٹ کا شکار ہوچکے ہیں ان کے اوپر روزے کی فضیلت بھی غالب ہے۔ لیکن طبیعت کی مایوسی بھی پیش نظر ہے ان کا دل روزے رکھنے کو بھی چاہتا ہے لیکن حالات بہت زیادہ پریشان کن ہیں۔ ہرگز نہ گھبرائیں! ایک فیصد مایوس نہ ہوں ایک مختصر سا تحفہ دیتا ہوں اس تحفے کو بنالیں بس بے چینی آپ کی ختم۔ چاہے زیادہ بنا کر آپ دوستوں کو گفٹ بھی کرسکتے ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو رزق کی سہولت دی ہے میں تو چاہوں گا کہ آپ اس شربت کو بنا کر اپنے دوستوں کو گفٹ کریں اور رمضان کے روزے کا ثواب کمائیں۔ ایسی خواتین جو حاملہ ہوں‘ ان کی الٹی بے چینی کیلئے بہت مفید ہے اور ایسے بچے جو غیرصحت مند ہوں اور کمزور ہوں ان کیلئے بہت لاجواب مفید ہے۔ بلکہ لاغر بچے جو کھانا نا کھاتے ہوں سارا دن پانی پیتے ہوں‘ یا گھر کی چیزیں انہیں پسند نہ ہو یا ان کو کھایا پیا لگتا ہی نہ ہو ان کی طبیعت کمزور رہتی ہوں اور طبیعت میں بے چینی اکتاہٹ رہتی ہو‘ چڑچڑاپن زیادہ ہو‘ ایسے جوان جن کی جگر مثانے کی گرمی ہو‘ یا قطرے گرتے ہوں ان کیلئے بہت لاجواب ہے۔ خواتین کی بیماری خاص طور پر پیشاب کی جلن اور پرانی لیکوریا میں بھی یہ شربت بہت مفید ہے۔ آپ اس شربت کو بنا کر رکھیں اور صبح و شام سحری کے وقت اور افطاری کے وقت اسے استعمال کریں آپ سارا دن گرمی دھوپ میں جس شدت سے کام کریں آپ کو اس کا کوئی احساس نہیں ہوگا۔
ھوالشافی: گل نیلوفر‘ گلاب کے پھول‘ آملہ‘ بہیڑہ‘ ہڑیڑ‘ گاؤزبان‘ املی‘ آلو بخارا کے علاوہ باقی تمام پچاس پچاس گرام اور املی آلو بخارا ایک ایک پاؤ۔ ان سب کو تقریباً آٹھ کلو پانی میں ہلکا کوٹ کر رات کو نیم گرم پانی میں بھگودیں۔ صبح اٹھ کر ہلکی آنچ پر ابالیں جب تین کلو پانی جل جائے تو اتار کررکھیں اور ٹھنڈا ہونے پر پانی نتھارلیں۔ اس میں پانچ کلو چینی ملا کر ہلکی آنچ پر پکاتے رہیں۔ اچھی طرح گاڑھا پکا کر خشک بوتلوں میں محفوظ رکھیں بس شربت تیار ہے۔ چاہے حسب پسند کوئی خوشبو ڈال سکتے ہیں۔ بس اس کی رنگت کو نا دیکھیے گا اور ظاہری ذائقے کو نہ دیکھیے گا بلکہ اس کے اندرونی کمال‘ صحت تندرستی‘ اور صحت کو دیکھیے گا۔ آپ یقین نہیں کرسکتے اس کے کمالات کتنے زیادہ ہیں صحت اور تندرستی۔
ترکیب استعمال: چار بڑے چمچ دن میں چار بار‘ بڑوں کیلئے اور چھوٹوں کیلئے ایک چمچ سے تین چمچ تین میں چار بار‘ حسب طبیعت مقدار میں کمی بھی کرسکتے ہیں۔ کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں اور نا کوئی برے اثرات ہیں -اگر آپ خود گهر تیار نہیں کر سکتے تو کسی طبیب سے تیار کروا لیں-
شہد اور دار چینی کے  فوائد
شہد اوردارچینی کو جب ملا دیا جائے تو یہ ایک بہترین دوا بن جاتی ہے جس سے کئی امراض کا علاج کیا جاسکتا ہے ۔ قدیم زمانے میں شہد کو بطور دوا ہی استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب جدید سائنسی دور میں بھی اس میں چھپی افادیت اور خصوصیات کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ شہد سب کے لیے مفید ہے اور اسے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہاں تک کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی یہ بے حد فائدے مند ہے ۔ البتہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کو اس کا معتدل انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ دارچینی میں موجود ایسینشل آئل جب شہد کے ساتھ ملتا ہے تو اس سے ہائدروجین آکسائیڈ بنتا ہے جو کہ جسم میں جراثیم یا فنگس بڑھنے سے روکتا ہے ۔ اس مرکب کے 7حیرت انگیز فوائد مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ سردی اور کھانسی سے نجات
جو لوگ سردی اور کھانسی میں مبتلا ہوں۔ ایک بڑا چمچ شہد کنکنا گرم کرکے اس میں ایک چوتھا ئی چمچ دارچینی پاؤڈر ملالیں۔ اس مرکب کو لگاتار تین دن تک استعمال کریں ۔ اس سے آپ کی کھانسی بھی ٹھیک ہوجائے گی اور سائنس کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ۔
2۔ بال جھڑنے کے لیے
جو لوگ بال جھڑنے یا گنج پن کاشکار ہوں وہ اس ٹوٹکے کو ضروراستعمال کریں ۔ گرم زیتون کے تیل میں ایک چھوٹا چمچ شہداور ایک چھوٹا چمچ دارچینی ملائیں ۔ نہانے سے پہلے سر پر یہ مکسچر لگائیں ۔ اسے 15منٹ لگا رہنے دیں۔ پھر ہلکے شیمپو سے بال دھولیں ۔ اس کے مستقل استعمال سے بال جھڑنا رک جائیں گے ۔
3۔کولیسٹرول کم رہتا ہے
بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کے مریضوں کے لیے شہد اور دارچینی بے حد مفید ہیں ۔بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کے امراض آج کل بے حد عام ہو گئے ہیں ۔ ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو مستقل اپنی غذا کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ ایک چھوٹی چمچ دار چینی پاؤڈر کو ایک چھوٹے چمچ شہد میں ملا دیں ۔ اس مرکب کو ایک کپ پانی یا ایک گلاس پانی میں ڈال کر پی لیں ۔ اس سے آپ کا کولیسٹرول لیول کم رہے گا ۔
4۔ کیڑا کاٹ لے تو
شہد اور دارچینی میں جراثیم مارنے کی بہترین خصوصیات موجود ہوتی ہیں ۔ شہد اور دارچینی پاؤڈر کو کنکنے گرم پانی میں ملائیں اور ایک پیسٹ بنا لیں ۔ اسے جسم کے اس حصے پرلگالیں جہاں کیڑے نے کاٹا ہو ۔ ہلکے ہاتھ سے مساج کرنے سے اس جگہ پر خارش یا تکلیف کم ہوجائے گی ۔
5 ۔ تیزابیت دور بھگانے میں مفید
ہاضمے کی خرابی اور معدے کی جلن اور تیزابیت دور بھگانے میں شہد اور دارچینی کارآمد ہیں ۔ ہر کھانے سے قبل شہد اور دارچینی پاؤڈر مکس کرکے کھالیں تو کھانا کھا کے پیٹ میں جلن یا بدہضمی نہیں ہوگی ۔
6۔ موٹاپے سے نجات
موٹاپے سے آج کل ہرکوئی ہی پریشان نظر آتا ہے ۔ ہم سب خوبصورت اور اسمارٹ دکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے وزن کم کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ شہد اور دارچینی جسم کی چربی کوگھولتے ہیں ۔ وزن کم کرنا کئی بیماریوں سے بھی محفوط رکھتا ہے ۔ ایک گلاس پانی ابالیں اسمیں ایک چٹکی دارچینی پاؤڈر ڈالیں۔ اسے ایک کپ میں نکال لیں ۔ اس میں ایک چھوٹا چمچ شہد ملا لیں اسے روزآنہ صبح خالی پیٹ میں پئیں ۔ اسکے آدھے گھنٹے بعد ناشتہ کرلیں ۔ اس کے مستقل استعمال سے وزن کم ہو جائے گا ۔
7۔ کیل مہاسے ختم کرنے کے لیے
اگر آپ شہد اور دارچینی سے الرجک نہ ہوں تو یہ ٹوٹکا آپ کی جلد کے لیے بے حد مفید ہے ۔ دار چینی اور شہد کا گاڑھا سا پیسٹ بنا لیں ۔ اسے دانوں اور کیل مہاسوں پر لگا کر 15منٹوں کے لیے لگا رہنے دیں ۔ پھر ٹھنڈے فپانی سے دھولیں ۔ اس عمل کو ہفتے میں دو تین بار استعمال کرنے سے کیل مہاسوں سے کافی حدتک نجات حاصل ہوجائے گی ۔
پانی کو صاف کرنا اور پلانٹ لگانا
پانی کے دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن یعنی H2Oصرف بارش کا پانی ہی H2O پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی ”خالص پانی“ یہی ہے۔قدرتی حالت میں بارش کا پانی (اگر گرد و غبار سے پاک ہو) بھی خالص ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گلیشیئر پر جمی برف بھی خالص پانی ہی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کرہ ارض پر پایا جانے والا کوئی پانی خالص یعنی صرف H2O پر مشتمل نہیں ہوتا۔دریاؤں میں پانی بارش اور پہاڑوں پر جمی برف کے پگھلنے سے آتا ہے۔ بارش کاپانی جونہی زمین کی سطح سے ٹکراتا ہے تو مٹی میں موجود معدنیات (منرل) اس میں جذب ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑی علاقوں سے گذرنے والے دریا میں معدنیات نسبتاً کم اور میدانی علاقوں سے گزرنے والے حصے کے دریائی پانی میں معدنیات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں عرف عام میں نمکیات بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ انگریزی میں TDS جوکہ Total Dissolved Solidsکا مخفف ہے دریا کے اس حصہ میں سب سے زیادہ نمکیات یا TDS ہوتے ہیں، جہاں پر پانی سمندر میں گرتا ہے کیونکہ یہ پانی سب سے زیادہ زمینی سفر کرچکا ہوتا ہے۔ دریائی پانی میں غیر حل شدہ ذرات اور جراثیم بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی ادارے انہیں سپلائی کرنے سے پہلے فلٹر کرکے تمام غیر حل شدہ Particles کو الگ کرلیتے ہیں اور جراثیم سے پاک کرنے کے لئے کلورین وغیرہ سے گذارتے ہیں۔ دریائی پانی میں عموماً 500سے 900 تکTDSپائے جاتے ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ خوردنی نمک یعنی سوڈیم کلورائیڈ ہوتا ہے۔ سوڈیم اور کلورائیڈ کے علاوہ ، کیلشیم اور میگنیشیم ،(ان دو عناصر کی زیادتی سے پانی ”بھاری“ ہوجاتا ہے، جس میں صابن جھاگ نہیں دیتا یا بہت کم دیتا ہے اور انہی کی وجہ سے انسانی جسم میں پتھری بھی بنتی ہے) ہوتے ہیں۔ سلفیٹ زیادہ ہو تو پیٹ خراب ہوتا ہے۔بورنگ واٹریعنی ہینڈ پمپ یا کنویں کا پانی دریائی پانی سے زیادہ ”کھارا“ ہوتا ہے۔ اگر کسی کنویں یا ہینڈ پمپ کا پانی پینے میں ”میٹھا“ لگے یعنی اس میں ”کھاریت“ بالکل بھی نہ ہو تب بھی اس پانی میں1000سے1500 تک TDSہوتے ہیں۔ عام گاؤں دیہات کے لوگ تو ہلکا ہلکا کھارا پانی بھی پینے پر مجبور ہوتے ہیں، جس کا TDS دوہزارتک ہوتا ہے، جو کہ صحت کے لئے سخت مضر ہے۔جیسا کہ سب جانتے ہیں، نہایت کھارا ہوتا ہے۔ سمندر کے مختلف علاقوں میں نمکیات کا تناسب مختلف ہوتا ہے پاکستان کے ساحلی علاقوں کے سمندری پانی کا TDSتیس پینتیس ہزار سے 90 ہزار تک ہوتا ہے ۔خام پیٹرول زمین میں بہت زیادہ گہری کھدائی کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ پیٹرول کے ساتھ قدرتی گیس اور پانی بھی نکلتا ہے۔ اس پانی میں TDS کی مقدار کرہ ارض میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جو ڈیڑھ لاکھ تک ہوتی ہے۔ یہ انسانی جسم پرتیزاب کی طرح لگتاہے۔ اس میں خالص چمڑے کے بنے جوتے بھی جلد ہی گل سڑ جاتے ہیں ۔جیسا کہ آپ اوپر دریا کے پانی کے ضمن میں پڑھ چکے ہیں کہ حکومتی ادارے انہیں سپلائی کرنے سے پہلے فلٹر کرکے تمام غیر حل شدہ Particles کو الگ کرلیتے ہیں اور جراثیم سے پاک کرنے کے لئے کلورین وغیرہ سے گذارتے ہیں۔اور یہ بھی کہ دریائی پانی میں عموماً 500سے 900 تکTDSپائے جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ پانی پائپ لائنوں سے ہوتا ہوا گھروں میں سپلائی کیا جاتا ہے تو راستے میں کئی مقامات پر اس میں مختلف قسم کی آلودگی شامل ہوجاتی ہے گ۔ کراچی میں گھروں میں سپلائی ہونے والے پانی کے معیار کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کبھی کلری جھیل تشریف لے جائیں آپ دیکھیں گے کہ گرد و نواح کے لوگوں نے سیورج کی لائینیں اسی جھیل میں ڈال رکھی ہیں، بسوں اور ٹرکوں کا دھلنا اور لوگوں کا نہانا تو عام سی بات کبھی کبھی مردہ جانوروں کی سڑتی ہوئی لاشیں بھی جھیل میں دکھائی دے جائیں گی۔بدقسمتی سے جھیل کا یہی پانی پینے کے لئے شہر کو سپلائی کیا جاتا ہے اور جس راستے سے یہ پانی گذرتا ہے جا بجا گٹر کی لائن اوپر اور پانی کی لائن نیچے چلتی ہوئی دکھائی دے گی ۔ترقیاتی کاموں کے دوران ان لائنوں کا اکثر ٹوٹ جانا اور سیورج کا پانی پینے کے پانی میں شامل ہو جانا عام مشاہدے کی بات ہے۔واٹر بورڈ کا محکمہ جن پائپ لائنوں کے ذریعے گھروں تک پانی پہنچاتا ہے وہ زِنک، ازباٹوس ،لیڈز، اور آئرن کی ہیں جو کہ پانی میں کیمیکل ری ایکٹ کرتی ہیں مثلاًΘآئرن کے پائپ سےنکلا ہوا پانی خون میں کینسر کا سبب بنتا ہےΘلیڈز کے پائپ سے نکلا ہوا پانی ہمارے نروس سسٹم کو ناکارہ بنا دیتاہےΘاور ازباٹوس کے پائپ سے نکلا ہوا پانی مختلف قسم کے کینسر کا سبب بنتا ہے ۔اس کے علاوہ گھر کے اندر موجود انڈر گراؤنڈ ٹینک کی صفائی کے دوران آپ دیکھیں گے کہ ٹینک میں سےغلیظ بدبودارکیچڑبرآمد ہوگی۔ دراصل ہمارا انڈر گراؤنڈ ٹینک نہ صرف جراثیم کا گڑھ ہےبلکہ ہمارے خراب سسٹم کا منہ بولتا ثبوت بھی۔گھروں میں سپلائی ہونے والا پانی اگر میٹھا ہے اور اس کا TDSاگر 500تک ہے تو ROplant.pkکا ڈومیسٹک فلٹر پلانٹ اس کے TDSکو 300تک لا سکتا ہے اور یہ پینے کے لئے مناسب پانی ہوسکتا ہے. 6 افراد کی فیملی کے لئے دستیاب فلٹر پلانٹ6 ہزار میں ایک سال تک کی وارنٹی کے ساتھ دستیاب ہے ۔ جب کہ بہت اعلیٰ قسم کا ڈومیسٹک فلٹر پلانٹ لائف ٹائم وارنٹی کے ساتھ 10ہزار میں دستیاب ہے۔ لیکن اگر پانی کی کوالٹی بہت زیادہ خراب ہے تو پھر فلٹر پلانٹ کے بجائے مناسب ہوگا کہ ڈومیسٹک ROپلانٹ لگایا جائے جو کہ 25ہزار سے 40 ہزار میں مل جائے گا۔ ڈومیسٹک فلٹر پلانٹ یا ڈومیسٹک ROپلانٹ اپنے گھر پر لگوانے کے لئے آپ 03111123123پر کال کرسکتے ہیں
وہ گھرانے جو کہ غربت کی وجہ سے منرل واٹر نہیں خرید سکتے اور نہ ہی ان میں اتنی سکت ہوتی ہے کہ گھر میں ڈومیسٹک ROپلانٹ لگا سکیں یہاں تک کہ فلٹر پلانٹ لگانا بھی انہیں مہنگا عمل لگتا ہے لیکن وہ صاف پانی کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں وہ عموماً پانی کو بوائل کرکے پیتے ہیں تاہم یہ ایک خطرناک عمل ہے۔ اور جب ہم ابلے ہوئے پانی کو ٹھنڈا کرتے ہیں تو ہوا میں موجود پانچ میل تک پھیلے ہوئے بیکٹریا بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔بوائل کرنے پر پانی کے اوپر ایک لئیر آجاتی ہے جسے ہم گندگی یا جراثیم سمجھ کر پانی سے الگ کردیتے ہیں جب کہ درحقیقت یہی پانی میں موجود قدرتی منرلز ہوتے ہیں جنہیں ہم خود ہی نکال کر پھینک دیتے ہیں۔اکثر نادان ڈاکٹر بھی پانی کو ابال کر پینے کا مشورہ دے دیتے ہیں جبکہ درحقیقت ڈاکٹر کی ریسرچ پانی پر نہیں ہوتی اور نہ ہی پانی ڈاکٹرز کا سبجیکٹ ہے۔ ایک بیمار آدمی کے لئے پھر بھی بوائل واٹر کسی حد تک ٹھیک ہے کیونکہ اس کی قوت مدافعت بہت کمزور ہوتی ہے لیکن ایک صحت مند شخص کے لئے یہ کسی طور مناسب نہیں۔پانی کو عارضی طور پر ابال لینا تو ٹھیک ہے لیکن اس کا مستقل استعمال رفتہ رفتہ ہمارے نروس سسٹم کو ناکارہ کردیتا ہے اور ساتھ ہی جسم میں نمکیات کی کمی بھی واقع ہوجاتی ہے۔پانی میں قدرتی طور پر کیلشئیم ، پوٹا شئیم میگنیشئم اور آیوڈین جیسے منرلز شامل ہوتے ہیں جو کہ پانی ابالنے کی صورت میں ضائع ہوجاتے ہیں۔کیلشئیماور میگنیشئم ہمیں ہارٹ اٹیک اور ہارٹ اسٹروک سے محفوظ رکھتے ہیں جبکہ آیوڈین بچوں کی نشونما اور ان کی ذہنی گروتھ کے لئے انتہائی ضروری ہے۔اس کے علاوہ ہیپا ٹائٹس جیسا جان لیوا مرض جو کہ لاکھوں روپے خرچ کروانے کے باوجود بھی انسان کو موت کی وادی میں دھکیل دیتا ہے اور کینسر کے بیکٹریا بھی اس بوائلنگ کے نتیجے میں ختم نہیں ہوتے کیونکہ ہیپا ٹائٹس کا بیکٹریا 350 ڈگری جبکہ کینسر کا بیکٹریا 750 ڈگری سینٹی گریڈ پر ختم ہوتے ہیں جبکہ ہمارے گھروں کا ٹمپریچر زیادہ سے زیادہ 100 ڈگری سینٹی گریڈ ہی ہوتا ہے۔مختصراً یہ کہ اگر آپ ایک قطرہ آئل اور ایک چٹکی مٹی یعنی ریت کو پانی میں شامل کرکے سارا دن پانی کو ابالیں تو آپ دیکھیں گے کہ آئل اور ریت پانی میں جوں کے توں موجود ہیں۔جیسا کہ آپ نلکے کے پانی کے ضمن میں پڑھ چکے ہیں گھروں میں سپلائی ہونے والا پانی اگر میٹھا ہے اور اس کا TDSاگر 500تک ہے تو ROplant.pkکا ڈومیسٹک فلٹر پلانٹ اس کے TDSکو 300تک لا سکتا ہے اور یہ پینے کے لئے مناسب پانی ہوسکتا ہے. 6 افراد کی فیملی کے لئے دستیاب فلٹر پلانٹ6 ہزار میں ایک سال تک کی وارنٹی کے ساتھ دستیاب ہے ۔ جب کہ بہت اعلیٰ قسم کا ڈومیسٹک فلٹر پلانٹ لائف ٹائم وارنٹی کے ساتھ 10ہزار میں دستیاب ہے۔دراصل فلٹر پلانٹ اس پانی کے لئے بہترین حل ہے اور سستا بھی  جو کہ بہت زیادہ خراب نہیں ہے اور میٹھا بھی ہے  اگر پانی زیادہ خراب ہے اور کھارا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اسے ROپلانٹ سے ہی گزارہ جائے کیونکہ فلٹر پلانٹ ان پارٹیکلز کو تو پانی سے نکال سکتا ہے جو کہ پانی میں حل نہیں ہوئے لیکن ان پارٹیکلز کو نہیں نکال سکتا جو کہ پانی میں حل ہوچکے ہیں اور پانی کا حصہ بن چکے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ ہر ROپلانٹ میں فلٹریشن پلانٹ بھی شامل ہوتا ہے لیکن فلٹریشن پلانٹ میں ROپلانٹ شامل نہیں ہوتا۔پانی چاہے کتنا بھی خراب ہو اس کا TDSکتنا بھی زیادہ ہو ROپلانٹ کے ذریعے اسے منرل واٹر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ ROپلانٹ کے ذریعے پانی میں حل شدہ اور غیر حل شدہ دونوں قسم کے Particlesکو با آسانی پانی سے الگ کیا جاسکتا ہے اور پانی کا TDS اپنی مرضی کے مطابق رکھا جا سکتا ہے۔  عام طور پر بڑی بڑی کمپنیاں ROپلانٹ کے ذریعے ہی پانی کھارے پانی کو  منرل واٹر میں تبدیل کرتی ہیں   یہ RO پلانٹ لاکھوں کروڑوں کے بھی لگائے جاتے ہیں اور گھریلو ضرورت کے لئے کم از کم 25 ہزار اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ کا بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے لئے کون سا ROپلانٹ مناسب ہوگا اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ کے اپنے گھر کا پانی ٹیسٹ کروائیں  جیسا کہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ ہر ROپلانٹ میں فلٹریشن پلانٹ بھی شامل ہوتا ہے لیکن فلٹریشن پلانٹ میں ROپلانٹ شامل نہیں ہوتا۔ سب سے بہتر تو یہی ہے کہ گھر پر فلٹر پلانٹ لگانے کے بجائے ROپلانٹ لگایا جائے تاکہ ہر قسم کے خدشات سے بچ کر اپنے پوری فیملی کی صحت کو محفوظ بنا لیا جائے ۔6 افراد کی فیملی کے لئے دستیاب ROplant.pk کاڈومیسٹک RO پلانٹ25 ہزار میں ایک سال تک کی وارنٹی کے ساتھ دستیاب ہے ۔ جب کہ  یہی ڈومیسٹک ROپلانٹ  عمدہ کوالٹی  میں اور لائف ٹائم وارنٹی کے ساتھ40ہزار میں دستیاب ہے۔ اپنے گھر پر ڈومیسٹک ROلگوانے کے لئے آپ 03111123123پر کال کرسکتے ہیں-کمرشل RO پلانٹ کے ذریعے سمندر کے کڑوے پانی یا بورنگ کے کھارے پانی کو صاف کرکے منرل واٹر میں تبدیل کیا جاتا ہے عرف عام میں جسےمنرل واٹر کہا جاتا ہے یہ بوتلوں میں دکانوں میں فروخت ہوتا ہے، اگر یہ برانڈڈ کمپنی کا ہو تو اس میں TDSکا لیول 300 یا اس سے کم رکھا جا تا ہے۔ یہ منرل واٹر عموماً بورنگ کے پانی سے ”تیار“ کیا جاتا ہے۔ پہلے اس پانی کو RO (یعنی Reverse Osmosis)پلانٹ سے گزار کر ڈسٹلڈ واٹر بنایا جاتا ہے یعنی تمام منرلز نکال باہر کئے جاتے ہیں، پھر اس میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معدنیات شامل کئے جاتے ہیں۔ اور اسے ہر قسم کی جراثیمی آلودگی سے پاک کیا جاتا ہے۔ ان معدنیات کی فہرست اور تناسب منرل واٹر کی بوتل پر لکھا ہوتا ہے۔جیسا کہ آپ اوپر قدرتی پانی کی اقسام میں پڑھ چکے ہیں کہ بارش کا پانی H2O پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس کا TDSزیرو ہوتا ہے یہ پانی پیا تو جاسکتا ہے لیکن اس کا پینا اس لئے مناسب نہیں ہوتا کہ اس میں منرلز شامل نہیں ہوتے جو کہ انسان کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہیں درحقیقت زیرو TDSکا پانی ہی ڈسٹلڈ واٹر ہوتا ہے جو کہ انجکشن وغیرہ میں یا دواؤں کے بنانے میں کام آتا ہے ۔دوائیں بنانے والی کمپنیاں RO پلانٹ لگا کر بورنگ کے پانی کو زیرو TDSپر لاتی ہیں اور ڈسٹلڈ واٹر حاصل کرتی ہیں چونکہ ڈسٹلڈ واٹر میں نمکیات بالکل نہیں ہوتے اس لئے اس کا ذائقہ پینے میں ہلکا سا تلخ محسوس ہوتا ہے اور منہ میں ہلکا ہونے کے باوجود پینے میں مزہ نہیں آتا۔ اگر اس میں مناسب مقدار میں منرلز شامل کردئیے جائیں تو یہی پانی منرل واٹر بن جاتا ہے اور بوتلوں میں پیک کرکے پینے کے لئےفروخت کیا جاتا ہے-ضروری نہیں پلانٹ کے لیے اسی نمبر پر رابطہ کیا جائے آپ کسی بهی منرل واٹر پروجیکٹ لگانے والی کمپنی سے رابطہ کر سکتے ہیں-
خلاصہ مضمون:نیم گرم پانی اور نارمل حالت پانی کے اپنے اپنے فائدے ہیں-لیکن یخ ٹهنڈے پانی سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے-
ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں
WhatsApp:0096176390670
whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
http://www.dawatetohid.blogspot.com/
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
نوٹ: یہ مضمون محض عام معلومات عامہ کے لیے ہے، اس پر عمل کرنے سے پہلے معالج سے ضرور مشورہ کرلیں۔
-------------------------

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...