Friday 2 September 2016

بہو رانیاں

بہو رانیاں

(تحریر: بشری امیر.انتخاب عمران شہزاد تارڑ)

بیٹے کی بیوی کو ’’بہو رانی‘‘ کہتے ہیں جب بیٹے کی شادی کی جاتی ہے تو وہ دلہن بیاہ کر لاتا ہے، گھر والے اس کی دلہن کے لئے پھولوں والی گاڑی بڑے اہتمام سے لے کر جاتے ہیں، تاکہ بہو کو عزت اور پیار سے اپنے گھر لایا جائے، گھر کا ایک کمرہ خوب اچھی طرح سجایا جاتا ہے، پہلے نقلی پھول لگتے تھے اب اصلی گلاب کے پھولوں سے مسہری بنائی جاتی ہے، بہو رانی کے استقبال کے لئے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں اس کے بیڈ پر پھولوں کی برسات برس رہی ہوتی ہے۔ شادی کا دن دلہن کے لئے خوشیوں کے رنگ لئے ہوتا ہے۔ ایک لڑکی کے بہت سے ارمان ہوتے ہیں، وہ اپنے ارمان اور خواہشیں دل میں سجائے اپنے شوہر کے آنگن میں اترتی ہے، بابل کا گھر، پیار کرنے والی ماں، ہردلعزیز بہن، بھائی، ہمجولیاں اور بچپن سے جڑی سب باتیں پیچھے چھوڑ آتی ہے۔ والدین کی طرف سے نصیحتوں کا چارٹ لئے سسرال کو اپنا مسکن بناتی ہے، اسے اب اس گھر میں شوہر کے ساتھ رہنا ہے۔چنددن تو سسرال میں خوب آؤ بھگت ہوتی ہے، ساس کہتی ہے یہ کپڑے پہن لو۔ نند کہتی ہے بھابھی یہ جیولری اور جوتا اس سوٹ کے ساتھ بڑی میچنگ کرتا ہے، فلاں کے گھر دعوت ہے، ان کے گھر اچھا سوٹ پہن کر جانا ہے، تاکہ شریکنیاں باتیں نہ کریں۔ بہو رانی بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے، کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے ہر کام ساس اور نندوں کی مشاورت سے کرتی ہے۔ ساس سے تو وہ جھجکتی بھی بہت ہے اور اس کا احترام بھی بہت کرتی ہے، کیونکہ اسے میکے میں ہوتے ہوئے ہی اس کی ہمجولیوں نے کہہ دیا تھا کہ ساس کا خیال کرو گی تو گھر میں اچھا وقت گزرے گا، اس لئے شادی سے پہلے لڑکیاں یہ دعا کرتی ہیں -میریا ربا سس چنگی ہووے نئیں تے صرف دیوار تے تصویر ٹنگی ہووے-اب گھر میں اچھی بہو کہلانے کے لئے وہ ہر وقت گھر والوں کا کہا مانتی ہے، کیسے اٹھنا ہے ؟کیسے بیٹھنا ہے؟ گھر میں آنے والے رشتہ داروں سے کس طرح ملنا ہے؟ کس سے بات کرنی ہے اور کس سے بات نہیں کرنی؟ اب بہو رانی کی پریکٹیکل یعنی عملی زندگی شروع ہو گئی۔ اب اسے امور خانہ داری سونپے جانے ہیں، لو جی بہو رانی نے کچن سنبھالنا ہے تو پہلی ڈش جو اسے بنانی ہے، وہ ہے ’’میٹھا‘‘ یعنی بہو نے شروعات کرنی ہے تو زردہ یا کوئی اور میٹھی چیز بنائے، تاکہ محلے اور رشتے داروں میں بانٹیں، لوگوں کا منہ میٹھا کروائیں، کہ ان کی بہو نے کچن کا کام شروع کر دیا ہے۔اب بہو کھانا پکاتی ہے تو گھر والیاں اسے چیک کر رہی ہوتی ہیں کہ دیکھتے ہیں کیسے پکاتی ہے۔ بہو ڈرتے ڈرتے کھانا پکاتی ہے تو گھر میں کسی کو پسند نہیں آتا، ساس ، نندیں اور دیور کوئی نہ کوئی نقص نکالتے ہیں۔ خاوند اچھا ہے تو چپکے سے کھا لیتا ہے، کیونکہ اس کی بیوی ہے اسے تو ناراض نہیں کرنا۔ وہ ماں اور دوسرے گھر والوں کو کہتا ہے کہ کھانا اچھا بھلا تو ہے۔ اس کے گھر میں ایسا ہی پکتا ہو گا۔ ہر گھر کا ایک علیحدہ ذائقہ ہوتا ہے، اب سب گھر والے سارے اس کے پیچھے پڑ گئے۔ تو تو ابھی سے رن مرید بننے لگا ہے، ایک دن ہی میں بھول گیا کہ ہم کیسا کھانا کھاتے ہیں، اس نے تو کان لپیٹے اور باہر بھاگ گیا۔ اب بہو کو وہ سننی پڑیں کہ تیری ماں نے تو تجھ کو کچھ نہیں سکھایا، کپڑے دھوتی ہے تو اس میں نقص نکالا جاتا ہے، کپڑے تہہ کرتی ہے تو تب بھی باتیں۔ استری کرنے لگتی ہے تو استری کیا ہوا سوٹ پھینک دیا جاتا ہے۔ سلوٹیں اور شکنیں تو نکلی نہیں، وہ اب بہو رانی سے زیادہ گھر بھر کی نوکرانی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ اس سے تو اچھی نوکرانی ہے جو کام کرتی ہے اور کام کے پیسے لے کر چلی جاتی ہے۔ ادھر وہ ہے کہ گھر بھر کا کام کرتی ہے، سب کو وقت پر کھانا دیتی ہے، جب خود کھانے بیٹھتی ہے تو آواز آتی ہے، بہو رانی دو کپ چائے تو بنا دو مہمان آئے ہیں، وہ تھکی ہوئی کمر پر ہاتھ رکھتی ہے، ہائے کی آواز منہ سے نکلتی ہے، آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو گرتے ہیں اور چائے بنانے کے لئے کچن کا رخ کرتی ہے۔میں اور میری سہیلی عظمیٰ اس موضوع پر بات کر رہے تھے، عظمی کہنے لگی باجی یہ ضرور لکھنا کہ ساس اپنی بہو کو گھر کی نوکرانی کیوں سمجھ لیتی ہے، وہ یہ کیوں چاہتی ہے کہ وہ موم کی گڑیا بن جائے جدھر کو ڈھالیں ڈھل جائے۔ جدھر کو موڑیں مڑ جائے۔ آخر کیوں نہیں اسے مہلت دیتیں کہ وہ ان کے طور طریقے سمجھ لے، آخر دوسرے گھر کے طریقے اور ریت و رواج کو سمجھنے کے لئے وقت تو لگتا ہے نا۔ میں نے کہا کیوں نہیں، اب وہ کوئی روبوٹ تو ہے نہیں، مشینی انسان کہ بٹن دبایا ہدایات دیں اور روبوٹ نے کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ ایک مشینی روبوٹ کی طرح بے حس و جذبات کے بغیر تو نہیں، وہ جذبات و احساسات رکھتی ہے، لیکن اس کو دباتی رہتی ہے کہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو، وہ ایک نئے گھر میں آتی ہے جہاں اس کی ماں نہیں ایک ساس ہے۔ میکے نہیں سسرال والے ہیں، جس کے بارے میں وہ تقریباً کئی بار اخبارات میں خبریں پڑھ چکی ہے کہ ساس نے بہو کو جلا دیا، وہ ڈرتے ڈرتے بہت سارے کام سیدھے کرنا چاہتی ہے لیکن وہ پھر بھی سسرال کی نظر میں غلط ہو جاتے ہیں، وہ روز کمرے میں گھس کر روتی ہے، اسے اپنے گھر والے یاد آتے ہیں، اپنی من پسند ہر چیز اسے یاد آتی ہے، بطور خاص کہ ابو امی کس طرح اس کی خواہشات پوری کیا کرتے تھے۔اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے، اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ جو ہونا ہے ہو جائے، میرا کام کسی کو پسند نہیں آتا تو نہ آئے اب مجھے منہ توڑ جواب دینا ہے، اللہ جانتا ہے کہ نہ تو اس کے والدین نے اسے بھڑکایا اور نہ کسی سہیلی نے۔ یہ سب اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ردعمل تھا، اس کا خاوند اچھا تو تھا ہی لیکن کسی بات میں بھی وہ اپنی ماں بہنوں اور گھر والوں کو نہ کہتا۔ اپنی بیوی کا ذرا ساتھ نہ دیتا، چنانچہ بہو نے گھر والوں سے برابری کی ٹھان لی، ساس کے سامنے آکھڑی ہوئی، زبان چلنے لگی، بس جی پھر تو جنگ شروع ہو گئی، ویسی جسے عرف عام میں ساس اور بہو کی لڑائی کہا جاتا ہے، یہ تو تھی اچھی بہو جسے سسرال کے رویے نے بولنے پر مجبور کر دیا۔ زیادہ تربہو رانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں تاہم کچھ کیسز مختلف بھی ہیں اور اب ڈرامے دیکھ دیکھ کر زیادہ بھی ہو رہے ہیں۔آیئے اس ضمن میں اب ایک ایسی بہو کا تذکرہ کرتے ہیں جس نے آتے ہی اپنا آپ دکھانا شروع کر دیا۔ یہ بہو رانی سے زیادہ اپنے آپ کو مہارانی سمجھنے لگی، جتنا دلہن بننے پر اسے پروٹوکول دیا گیا اس نے اپنے آپ کو مہارانی کے درجے پر فائز کر کے گھر بار کے لوگوں کو اپنا خدمت گزار بنا لیا۔ ساس کے سامنے اکڑ کر چلتی ہے، نندوں کو ایسے رعب سے بلاتی کہ جیسے اس کی خادمائیں ہیں، دیور کے کئی بار بازار کے چکر لگواتی ہے، اب گھر والے سب اس کو اس لئے برداشت کر رہے ہیں کہ وہ ان کے بیٹے کی پسند ہے اس نے اسے بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے، اب وہ اس کا غلام بنا ہوا ہے۔ ساس ڈرتی ہے کہ اگر بہو کو کچھ کہا تو بیٹا ناراض ہو جائے گا، ماں اپنے بیٹے کی ناراضی کی وجہ سے بہو کی حاکمیت سہہ رہی ہے۔ایک اور بہو کو دیکھتے ہیں جس کا اپنا دماغ ہی نہیں وہ ہر طرح کی ڈکٹیشن اپنے میکے سے لیتی ہے، میکے والے اس کو خوب مشورے دیتے ہیں کہ دب کر نہیں رہنا، پہلے دن جو دب گئی تو وہ تجھے دبا کر رکھیں گے، رعب کے ساتھ رہنا، سسرالیوں کو سر پر چڑھا نہ لینا اپنے خاوند کو ہاتھ میں رکھنا، ایسی بہو اپنے گھر میں کبھی سکون نہیں لا سکتی۔ایک بہو ایسی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی کمائی چھپا کر میکے بھیجتی ہے، فوراً علیحدہ گھر کا مطالبہ کرتی ہے اور خاوند کو ایک پیسہ بھی اپنی والدہ اور والد پر خرچنے نہیں دیتی، خاوند کا بھی خیال نہیں رکھتی، بازار سے پکا پکایا منگوا کر کھا لیتی ہے، سارا سارا دن لیٹی سٹار پلس کے ڈرامے دیکھتی رہتی ہے یا ناول پڑھتی رہتی ہے، اب تو واٹس اپ کا زمانہ آ گیا ہے،بوڑھی ساس نے پانی مانگا تو تڑخ سے جواب دیتی ہے کہ جا بڈھی اٹھ کر پی لے۔ میرے ڈرامے کا ٹائم ہو چکا ہے۔ پانی مانگتی بڑھیا کے پیاسے لب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاتے ہیں۔ سین ہی اس بڑھیا نے خراب کر دیا۔ خاوند اگر کبھی اپنی ماں کے پاس بیٹھ جائے تو طوفان کھڑا کر دیتی ہے کہ پتہ نہیں بڑھیا تجھے کیا میرے خلاف بھڑکا رہی تھی۔ ایسی بہو سب سے خطرناک ہے جو گھر کی ایک ایک بات میکے والوں کو بتلاتی ہے اور وہ میکے والے بھی غلط ہیں جو اسے غلط ہدایات دیتے ہیں۔
بہرحال! اچھی بہو وہ ہے جو اپنے سسرال والوں کا خیال رکھے، اپنے ساس سسر کو اپنے والدین کی طرح عزت و احترام دے، خاوند کی بہنوں کو بھی محبت و پیار دے، یہ سمجھے کہ وہ بھی میری طرح اڑ جانے والے پنچھی ہیں، انہوں نے اگلے گھر چلے جانا ہے، اس طرح ساس بھی بہو کو اس کا مقام دے، اسے گھر کی عزت جانتے ہوئے اس کوشفقت دے، ساس اس بات کو سمجھ لے کہ بہو سارے رشتے چھوڑ کر اس کے گھر میں آئی ہے اور خاص طور پر اس کے بیٹے کی بیوی بن کر، اس لئے رقابت و حسد کو ذرا بھی جگہ نہ دے۔ بیٹے اور بہو کو آزادانہ ماحول دے کیونکہ وہ ان کا حلال و شرعی حق ہے اور بہو رانی تب ہی گھر بھر کی رانی بنے گی جب اپنے خاوند کو اس کی ماں کے پاس بیٹھنے اور اس کی خدمت کرنے سے نہیں روکے گی۔ اپنے خاوند کو اس کی بہنوں سے گپ شپ کرنے سے منع نہیں کرے گی اور حسد و جلاپے کا شکار نہیں ہو گی۔ سسرال کی خدمت اگر فرض نہیں تو انسانیت اور صلہ رحمی کرتے ہوئے ان سے تعلقات اچھے رکھے گی کیونکہ اس طرح خود بھی خوش گھر والے بھی خوش، آخر میں علامہ اقبال کا ایک مصرعہ پیش کرتی ہوں:جذب باہم نہیں تو محفل انجم بھی نہیں یعنی اگر دونوں طرف ایک دوسرے کے درمیان الفت و محبت کی کشش نہیں تو گھر میں ستاروں جیسی چمک کی حامل محفل بھی سج نہیں سکتی۔

ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں
whatsApp:0096176390670
whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
http://www.dawatetohid.blogspot.com/
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
نوٹ: یہ مضمون محض عام معلومات عامہ کے لیے ہے، اس پر عمل کرنے سے پہلے معالج سے ضرور مشورہ کرلیں۔
-------------------------

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...