Wednesday 14 September 2016

*تفسیر احسن البیان* سبق نمبر:14*


*بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم* 
            
         *تفسیر احسن البیان*
*سبق نمبر:14*

(تفسیر: مولانا حافظ صلاح الدین یوسف،
ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی)

*پارہ نمبر 1،سورةالبقرۃ آیات73تا80*

             *2:سورةالبقرۃ:آیات286*

��فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا ۭ كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى ۙ وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ 73؀
ہم نے کہا اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو ( وہ جی اٹھے گا) اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقلمندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، (١)
٧٣۔١ مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالٰی روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت والے دن دوبارہ مردوں کو زندہ ہونا منکرین قیامت کے لئے ہمیشہ حیرت کا باعث رہا ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں ۔ ایک مثال(ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ )2۔بقرہ:64) البقرہ ۵٦ میں گزر چکی ہے ۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے ۔ تیسری مثال دوسرے پارے کی آیت نمبر۲٤۳ آیت (مُوْتُوْا ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ )2۔بقرہ:243) چوتھی آیت نمبر۲۵۹ آیت (فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَـةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ )2۔بقرہ:259)اور پانچویں مثال اس کے بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طیور اربعہ ( چار چڑیوں ) کی ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ۭ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ ۭ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ 74؀
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے (١) بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں (٢) اور تم اللہ تعالٰی کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
٧٤۔١ یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہو گیا دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر توبہ اور استغفار کا جذبہ۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل تباہی کا اندیشہ زیادہ ہو جاتا ہے اس لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔
٧٤۔٢ پتھروں کی سنگینی کے باوجود ان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو کیفیت ان پر گزرتی ہے اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک اور احساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔ آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا )17۔ الاسراء:44) بنی اسرائیل ۔٤٤

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ يُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ 75؀
(مسلمانوں) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔ (۱)
٧٥۔١ اہل ایمان کو خطاب کر کے یہودیوں کے بارے کہا جا رہا ہے کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے حالانکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فرق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی جانتے بوجھتے تحریف کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعا امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بد قسمتی سے قرآن اور حدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالٰی اس جرم سے محفوظ رکھے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَ‌بِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٧٦﴾
جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنی ایمانداری ظاہر کرتے ہیں (١) اور جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں وہ باتیں پہنچاتے ہو جو اللہ تعالٰی نے تمہیں سکھائی ہیں، کیا جانتے نہیں یہ تو اللہ تعالٰی کے پاس تم پر ان کی حجت ہو جائے گی۔
٧٦۔١ یہ بعض یہودیوں کے منافقانہ کردار کی نقاب کشائی ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے لیکن جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو اس بات پر ملامت کرتے کہ تم مسلمانوں کو اپنی کتاب کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جس سے رسول عربی کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس طرح تم خود ہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہو جو وہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کرینگے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ 77؀
کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالٰی ان کی پوشیدگی اور ظاہر داری کو جانتا ہے (١)۔
٧٧۔١ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ کہ اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور سب باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرما سکتا ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��وَمِنْھُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّآ اَمَانِىَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ 78؀
ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں (١)۔
٧٨۔١ یہ ان کے اہل علم کی باتیں تھیں رہے ان کے ان پڑھ لوگ، وہ کتاب (تورات) سے بےخبر ہیں لیکن وہ آرزوئیں ضرور رکھتے ہیں اور گمانوں پر ان کا گزارہ ہے جس میں انہیں ان کے علماء نے مبتلا کیا ہوا ہے مثلا ہم تو اللہ کے چہتے ہیں۔ ہم جہنم میں اگر گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے اور ہمیں ہمارے بزرگ بخشوا لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے آج کے جاہل مسلمانوں کو بھی علماء سوء و مشائخ سوء نے ایسے ہی حسین جالوں اور پرفریب وعدوں پر پھنسا رکھا ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ لِيَشْتَرُ‌وا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ﴿٧٩﴾
ان لوگوں کے لئے ـ "ویل" ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالٰی کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ہلاکت اور افسوس ہے (١)۔
٧٩۔١ یہ یہود کے علماء کی جسارت اور خوف الہی سے بےنیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے ویل جہنم کی ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔(احمد ،ترمذی ،ابن حبان والحاکم بحوالہ فتح القدیر) بعض علماء نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَةً ۭ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ يُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗٓ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 80
یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے (١) اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالٰی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو (٢) جنہیں تم نہیں جانتے۔
٨٠۔١یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے عہد لیا ہے۔ اللہ تعالٰی کیساتھ اس طرح کا کوئی عہد نہیں ہے۔
٨٠۔٢ یعنی تمہارا یہ دعویٰ ہے ہم اگر جہنم گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سے ہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالٰی اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے۔ جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالٰی نیک و بد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
تفسیر احسن البیان کے سابقہ اسباق کے لیے لنک وزٹ کریں-
https://www.dropbox.com/sh/tltwh1c7ioojggk/AACQbl5nA5triOZBlO8HP2una?dl=0
www.dawatetohid.blogspot.com
معاون فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...