Friday 30 September 2016

*تفسیر احسن البیان*سبق نمبر:25*

*بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم* 
            
         *تفسیر احسن البیان*
*سبق نمبر:25*
(تفسیر: مولانا حافظ صلاح الدین یوسف،
ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی)
*پارہ نمبر 2،سورةالبقرۃ آیات196تا214*
          *2:سورةالبقرۃ:آیات286*
📖وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَ‌جَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِ‌ي الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾

حج اور عمرے کو اللہ تعالٰی کے لئے پورا کرو (١) ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو (٢) اور سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے (٣) البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے (٤) پس جب تم امن کی حالت میں ہو جاؤ تو جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے جسے طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی پر (٥) یہ پورے دس ہوگئے یہ حکم ان کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالٰی سخت عذاب دینے والا ہے۔
١٩٦۔١ یعنی حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اسکا پورا کرنا ضروری ہے چاہے نفلی حج و عمرہ ہو (امیرالتفسیر)
١٩٦۔٢ اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہو جائے تو ایک جانور بکری گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو وہیں ذبح کر کے سر منڈوا لو اور حلال ہو جاؤ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٦ ہجری والے عمرے کی قضا ٧ ہجری میں دی۔
١٩٦۔٣ یعنی اس کو ایسی تکلیف ہو جائے کہ سر کے بال منڈوانے پڑ جائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے حدیث کی رو سے ایسا شخص ٦ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر دے یا تین روزے رکھے۔
١٩٦۔٤ حج کی تین قسمیں ہیں۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں۔
١٩٦۔٥ یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدیہ یا روزے رکھے اور یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد احرام کے رہنے والے نہ ہوں مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہو سکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖الْحَجُّ أَشْهُرٌ‌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَ‌ضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَ‌فَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ‌ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٧﴾
حج کے مہینے مقرر ہیں (١) اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے (١) تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالٰی باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالٰی کا ڈر ہے (٢) اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔
١٩٧۔١ اور یہ ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذوا لحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے اس لئے اسکا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر)
١٩٧۔٢ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسقْ و فجور سے بچا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔
١٩٧۔٣ تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید کی۔
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَ‌فَاتٍ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ‌ الْحَرَ‌امِ ۖ وَاذْكُرُ‌وهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾
تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں (١) جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے، تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے۔
١٩٨۔١ فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
۲۔ ۱۹۸ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے (الحج عرفۃ) (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات (قصر) جمع کر کے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے یہاں ذکر الہی کی تاکید ہے یہاں رات گذارنی ہے فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے طلوع آفتاب کے بعد منی جایا جائے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُ‌وا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٩﴾
پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں (١) اور اللہ تعالٰی سے بخشش طلب کرتے رہو یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔
١٩٩۔١ مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں پر وقوف کر کے واپس آنا ضروری ہے لیکن عرفات چونکہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے چنانچہ حکم دیا جا رہا ہے جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَذِكْرِ‌كُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرً‌ا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴿٢٠٠﴾
پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالٰی کا ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ (١) بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں بھی کوئی حصہ نہیں۔
٢٠٠۔١ عرب کے لوگ فراغت کے بعد منٰی میں میلا لگاتے اور اپنے آباوجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے جب تم ١٠ ذوی الحجہ کو کنکریاں مارنے قربانی کرنے، سر منڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا مروہ سے فارغ ہو جاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منٰی میں قیام کرنا ہے وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو کیونکہ جاہلیت میں تم اپنے آباوجداد کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‌ ﴿٢٠١﴾
اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے (١) اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔
٢٠١۔١ یعنی اعمال خیر کی توفیق، اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ پڑھتے تھے۔ طواف کے دوران ہر چکر کی الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا پڑھی جائے۔ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً) 2۔ البقرۃ:201) رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان پڑھنا مسنون عمل ہے۔
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖أُولَـٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّـهُ سَرِ‌يعُ الْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾
یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖وَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ‌ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُ‌ونَ ﴿٢٠٣﴾
اور اللہ تعالٰی کی یاد ان گنتی کے چند ایام (ایام تشریق) میں کرو (١) دو دن کی جلدی کرنے والوں پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں (٢) یہ پرہیزگار کے لئے ہے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور جان رکھو تم سب اس کی طرف جمع کئے جاؤ گے۔
٢٠٣۔١ مراد ایام تشریق ہیں یعنی ١١،١٢ اور ١٣ ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الہی یعنی باآواز بلند تکبیرات مسنون ہیں صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسے کہ ایک کمزور حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں۔ کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔
(اَ للّٰہُ اَکبَرْ، اللّٰہُ اَکبَر،ْ لَا اِلٰہَ اِلَّا، واللّٰہُ اَکبَر، اللّٰہُ اَکبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُہ)
٢٠٣۔٢ رمی جماد (جمرات کو کنکریاں مارنا) ٣ دن افضل ہیں لیکن اگر کوئی دو دن (١١ اور ١٢ ذوالحجہ) کنکریاں مار کر واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّـهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ﴿٢٠٤﴾
بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے
(١)۔ ٢٠٤۔١ بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور منکرین ہیں جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو کہ اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْ‌ضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْ‌ثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾
جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین پر فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالٰی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّـهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿٢٠٦﴾
اور جب اسے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے (١)۔ ایسے کے لئے بس جہنم ہی ہے اور یقینًا وہ بدترین جگہ ہے۔
٢٠٦۔١ تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور و انانیت ہیں۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِ‌ي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْ‌ضَاتِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ رَ‌ءُوفٌ بِالْعِبَادِ ﴿٢٠٧﴾
اور بعض لوگ وہ بھی ہیں کہ اللہ تعالٰی کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں (١) اور اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔
٢٠٧۔١ یہ آیت کہتے ہیں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ رومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہا یہ مال سب یہاں کا کمایا ہوا ہے اسے ہم ساتھ نہیں لے جانے دیں گے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے یہ سارا مال ان کے حوالے کر دیا اور دین لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا صہیب نے نفع بخش تجارت کی دو مرتبہ فرمایا (فتح القدیر) لیکن یہ آیت بھی عام ہے جو تمام مومنین متقین اور دنیا کے مقابلے دین کو اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کو شامل ہے کیونکہ اس قسم کی تمام آیات کے بارے میں لفظ عموم کا اعتبار ہوگا سبب نزول کے خصوص کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پس اخنس بن شریق (جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا) برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو اس جیسے برے کردار کا حامل ہوگا اور صہیب رضی اللہ تعالٰی عنہ خیر اور کمال ایمان کی ایک مثال ہیں ہر اس شخص کے لیے جو ان صفات خیر و کمال سے متصف ہو گا۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰

📖يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٠٨﴾
ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
٢٠٨ا۔١ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اس طرح نہ کرو جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں ان پر تو عمل کر لو دوسرے حکموں کو نظر انداز کر دو اس طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کر دی گئی اور آجکل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں بلکہ دین کو عبادت یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیاست اور ایوان حکومت سے دین کو نکال دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے جو رسوم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج وغیرہ اور یہ کہا جارہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا ہے برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٠٩﴾
اگر تم باوجود تمہارے پاس دلیل آجانے کے بھی پھسل جاؤ تو جان لو کہ اللہ تعالٰی غلبہ والا اور حکمت والا ہے.
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖هَلْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّـهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ‌ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ ﴿٢١٠﴾
کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالٰی بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا (١) دیا جائے، اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔
٢١٠۔١ یہ تو قیامت کا منظر ہے (جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی فرشتوں کے جلوے اور بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے آئیں اور فیصلہ چکائیں تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول نہیں اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کر کے اپنی آخرت سنوار لو۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖سَلْ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢١١﴾
بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں (١) اور جو شخص اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے (وہ جان لے) (٢) کہ اللہ تعالٰی بھی سخت عذابوں والا ہے۔
٢١١۔١ مثلاً عصائے موسیٰ جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا سمندر سے راستہ بنایا پتھر سے بارہ چشمے جاری کیے، بادلوں کا سایہ، من و سلوا کا نزول وغیرہ جو اللہ تعالٰی کی قدرت اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے انکار کیا۔
٢١١۔٢ نعمت کے بدلنے کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر کا راستہ اپنایا۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُ‌وا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُ‌ونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَاللَّـهُ يَرْ‌زُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ‌ حِسَابٍ ﴿٢١٢﴾
کافروں کے لئے دنیا کی زندگی خوب زینت دار کی گئی ہے، وہ ایمان والوں سے ہنسی مذاق کرتے ہیں (١) حالانکہ پرہیزگار لوگ قیامت کے دن ان سے اعلیٰ ہونگے، اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے بےحساب روزی دیتا ہے (٢)۔
٢١٢۔١ چونکہ مسلمان کی اکثریت غربا پر مشتمل تھی جو دینوی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ھے اس لئے کافر یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور شیوا رہا ہے۔
٢١٢۔٢ اہل ایمان کے فقر اور سادگی کا کفار مذاق اُڑاتے، اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہا ہے کہ قیامت والے دن یہی فقراء اپنے تقویٰ کی بدولت بلند بالا ہونگیں بےحساب روزی کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہو سکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالٰی نے فقراء پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دیئے۔ جن سے سامان دنیا اور رزق کی فروانی ہوگئی۔
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِ‌ينَ وَمُنذِرِ‌ينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢١٣﴾
در اصل لوگ ایک ہی گروہ تھے (١) اللہ تعالٰی نے نبیوں کو خوشخبریاں دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کے ہر اختلافی امر کا فیصلہ ہو جائے۔ صرف ان ہی لوگوں نے جو اسے دیئے گئے تھے، اپنے پاس دلائل آچکنے کے بعد آپس کے بغض و عناد کی وجہ سے اس میں اختلاف کیا (٢) اس لئے اللہ پاک نے ایمان والوں کی اس اختلاف میں بھی حق کی طرف اپنی مشیت سے رہبری کی (٣) اور اللہ تعالٰی جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف رہبری کرتا ہے۔
٢١٣۔١ یعنی توحید پر۔ یہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیاء دیتے رہے قائم رہے۔ آیت مفسرین صحابہ نے فاختَلَفُوْا منسوخ مانا ہے یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک و ظاہر پرستی عام ہو گئی۔ پس اللہ تعالٰی نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلاف کا فیصلہ اور حق اور توحید قائم اور واضح کریں (ابن کثیر)
٢١٣۔٢ اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور انحراف کا منبع بغض اور عناد بنتا ہے امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلاف کی شدت سے محفوظ رہی لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا اس سے اختلاف کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تا آنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیزیں بن کر رہ گیا ہے۔
٢١٣۔٣ مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو جمعہ کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف کیا یہود نے ان کو جھٹلایا اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور اللہ بنا دیا اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرمانروا بندے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا ایک نے یہودی اور دوسرے نے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ (حنیفاً مُسْلِماً) تھے اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل میں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّ‌اءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّ‌سُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ‌ اللَّـهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ‌ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ ﴿٢١٤﴾
کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے (١) انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔
٢١٤۔١ ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا لیکن یہ ظلم اور تشدد ان کو ان کے دین سے نہیں پھیر سکا پھر فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اس معاملے کو مکمل (یعنی) اسلام کو غا لب فرمائے گا۔
٢١٤۔٢ اس لیے (ہر آنے والی چیز قریب ہے) اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے اس لئے وہ قریب ہی ہے۔
جاری ہے.....
تفسیر احسن البیان کے سابقہ اسباق کے لیے لنک وزٹ کریں-
https://www.dropbox.com/sh/tltwh1c7ioojggk/AACQbl5nA5triOZBlO8HP2una?dl=0
www.dawatetohid.blogspot.com
معاون فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...