Thursday 8 September 2016

تفسیر احسن البیان : سبق نمبر10

*بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم*

*تفسیر احسن البیان*
*سبق نمبر10*

( *ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی*'
*تفسیر: مولانا صلاح الدین یوسف* )

*پارہ نمبر 1،سورةالبقرۃ آیات 39 تا50*

             *2:سورةالبقرۃ:آیات286*
وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٣٩﴾
اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ (۱)
٣٩۔١قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالٰی نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دُنیا ہی میں رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم علیہ السلام کے واسطے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جا رہا ہے۔ کہ انبیاء علیہم کے ذریعے سے میری ہدایت ( زندگی گزارنے کے احکام وضابطے) تم تک پہنچے گی جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔ ان پر خوف نہیں ہوگا۔ کا تعلق آخرت سے ہے ۔ ای فیما یستقبلونہ من امر الاخرۃ اور حزن نہیں ہوگاکا تعلق دنیا سے ۔ علی ما فاتھم من امورالدنیا(جو فوت ہوگیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے) جس طرح دوسرے مقام پر ہے آیت(فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي )20۔طہ 259)۔ جس نے میری ہدایت کی پیروی کی پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ( آخرت میں ) بدبخت۔ ابن کثیر ۔ گویا آیت ( لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ )10۔یونس:62) کا مقام ہر مومن صادق کو حاصل ہے یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہے اور پھر مقام کا مفہوم بھی کچھ بیان کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ تمام مومنین و متقین بھی اولیاء اللہ ہیں ۔ اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں ۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق آسکتا ہے ۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

يَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْ‌هَبُونِ ﴿٤٠﴾
بنی اسرائیل (١) میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
٤٠۔١ اِسرا ئِیْلُ(بمنعی عبداللہ) حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا۔ یہود کو بنو اسرائِیْل کہا جاتا تھا یعنی یعقوب علیہ السلام کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جس میں یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء اور رسل تھے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخر زمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دئیے جائیں گے اور جو تمہاری غلطیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا پر لادھ دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰

وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ‌ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُ‌وا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ ﴿٤١﴾
اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس (١) کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر (٢) نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔
٤١۔١ بِہِ کی ضمیر قرآن کی طرف یا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم اور ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا اس نے محمد رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) پہلے کافر نہ بنو کا مطلب ہے ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کر چکے ہوتے، اس لئے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر کا وبال تم پر ہوگا۔
٤١۔٢ تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو :کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کر لو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی محض طلب دنیا کے لئے گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر)

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٤٢﴾
اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ ﴿٤٣﴾
اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

أَتَأْمُرُ‌ونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ‌ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٤٤﴾
کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَ‌ةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿٤٥﴾
صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو (١) یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر۔ (۲)
٤٥۔١ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالٰی سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالٰی کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے (فتح القدیر)۔
٤٥۔٢ نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے ، لیکن خشوع و خضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں ۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو کر دیتا اور آخرت سے بےفکری انسان کو بےعمل بلکہ بد عمل بنا دیتی ہے۔

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰

الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَ‌بِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ ﴿٤٦﴾
جو جانتے ہیں کہ بیشک وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

يَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٤٧﴾
اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی (١)
٤٧۔١ یہاں سے دوبارہ اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا نہ سفارش قبول ہوگی نہ معاوضہ دے کر چھٹکارہ ہو سکے گا، اور نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خیرامۃ کے لقب سے نوازا گیا ۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان وعمل سے محرومی پر سلب کرلئے جاتے ہیں ، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے خیرامۃ کے بجائے شرامۃ بنی ہوئی ہے ۔ ھداھا اللہ تعالی
یہود کو یہ دھوکا بھی تھا کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا۔ اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جواہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے ) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُ‌ونَ ﴿٤٨﴾
اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ شفاعت اور نہ سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کئے جائیں گے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ عَظِيمٌ ﴿٤٩﴾
اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں (١) سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔
آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے ( وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ) 8۔ الانفال:54) ہے (ہم نے ال فرعون کو غرق کر دیا) یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر کے ہی نہیں تھے اس کے فوجی اور دیگر پیروکار بھی تھے۔ اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں ان شاء اللہ آئے گی۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

وَإِذْ فَرَ‌قْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ‌ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَ‌قْنَا آلَ فِرْ‌عَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٥٠﴾
اور جب ہم نے تمہارے لئے (١) دریا چیر (پھاڑ) دیا اور تمہیں اس سے پار کر دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔
٥٠۔١ سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۃ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا جیسا کہ سر سید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیال ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

تمام اقساط پڑهنے کے لیے بلاگ وزٹ کریں
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...