Friday 9 September 2016

*تفسیر احسن البیان*سبق نمبر11*

*بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم* 
            
        *تفسیر احسن البیان*
*سبق نمبر11*

( *ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی*'
*تفسیر: مولانا صلاح الدین یوسف* )

*پارہ نمبر 1،سورةالبقرۃ آیات 51 تا57 )

             *2:سورةالبقرۃ:آیات286*

��وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْ‌بَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ﴿٥١﴾
اور ہم نے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا، پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کر دیا اور ظالم بن گئے۔ (١)
٥١۔١یہ گؤ سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نماء سینا پہنچے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات دینے کے لئے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالٰی کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون و موسیٰ علیہ السلام) کی موجودگی کے باوجود بچھڑے کو اپنا معبود سمجھ لیا۔آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد واعمال میں بری طرح مبتلا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے بچاریوں کے لئے خاص کردیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں ۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے جو پتھر کے پچاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اعاذنااللہ منہ

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٥٢﴾
لیکن ہم نے باوجود اس کے پھر بھی تمہیں معاف کردیا، تاکہ تم شکر کرو۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْ‌قَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿٥٣﴾
اور ہم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) کو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب اور معجزے عطا فرمائے (١)
٥٣۔١ یہ بھی بحرہ قلزم پار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے (ابن کثیر) ممکن ہے کتاب یعنی تورات کو فرقان سے بھی تعبیر کیا گیا ہو کیونکہ ہر آسمانی کتاب حق و باطل کو واضح کرنے والی ہوتی ہے یا معجزات کو فرقان کہا گیا ہے کہ معجزات بھی حق و باطل کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِ‌ئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ عِندَ بَارِ‌ئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ ﴿٥٤﴾
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالٰی کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
٥٤۔١ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا(فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ) 2۔ البقرۃ:54)(اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو) کی تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کر دیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا دوسری یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کر دیا گیا جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے (ابن کثیر و فتح القدیر)

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَ‌ى اللَّـهَ جَهْرَ‌ةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٥٥﴾
اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے (١) دیکھتے ہوئے بجلی گری۔
٥٥۔١ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالٰی کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالٰی نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٥٦﴾
لیکن پھر اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا.

〰➖〰➖〰➖〰➖〰

��وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَ‌زَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿٥٧﴾
اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلوا اتارا (١) (اور کہہ دیا) کہ ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ ' اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا، البتہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
٥٧۔١ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے حکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کر دیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ یہ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔
٥٨۔١بعض کے نزدیک اوس جو درخت اور پتھر پر گرتی شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہو جاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کھمبی مَن کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلادقت پہنچ جاتا تھا اسی طرح کھمبی بغیر کسی کے بوئے کے پیدا ہو جاتی ہے۔ سلوا بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کر کے کھا لیتے تھے۔ (فتح القدیر)
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
جاری ہے....

تمام اقساط پڑهنے کے لیے بلاگ وزٹ کریں
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...