Monday 19 September 2016

*تفسیر احسن البیان*سبق نمبر:17*

*بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم* 
            
         *تفسیر احسن البیان*
*سبق نمبر:17*
(تفسیر: مولانا حافظ صلاح الدین یوسف،
ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی)
*پارہ نمبر 1،سورةالبقرۃ آیات102تا112*
             *2:سورةالبقرۃ:آیات286*
●وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ‌ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُ‌وا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ‌ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُ‌وتَ وَمَارُ‌وتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ‌ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّ‌قُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْ‌ءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّ‌ينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّ‌هُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَ‌اهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَ‌وْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿١٠٢﴾

ا ور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین (حضرت) سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے (١) اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر جادو اتارا گیا تھا (٢) وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے (٣) جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں (٤) تو کفر نہ کر پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند و بیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وہ بغیر اللہ تعالٰی کی مرضی کے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے (٥) یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان پہنچائے اور نہ نفع پہنچا سکے، اور وہ جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے۔
١٠٢۔١ یعنی ان یہودیوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کی، البتہ شیطان کے پیچھے لگ کر نہ صرف جادو ٹونے پر عمل کرتے رہے، بلکہ یہ دعوی کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے ہی حکومت کرتے رہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا حضرت سلیمان علیہ السلام جادو کا عمل نہیں کرتے تھے، کیونکہ جادو سحر تو کفر ہے، اس کفر کا ارتکاب حضرت سلیمان علیہ السلام کیوں کر کر سکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جادو گری کا سلسلہ بہت عام ہو گیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے سد باب کے لئے جادو کی کتابیں لے کر اپنی کرسی یا تخت کے نیچے دفن کر دیں۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان شیاطین اور جادو گروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا، بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی قوت و اقتدار کا راز یہی جادو کا عمل تھا اور اسی بنا پر ان ظالموں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی کافر قرار دیا، جس کی تردید اللہ تعالٰی نے فرمائی (ابن کثیر وغیرہ) واللہ عالم۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ خَيْرٌ‌ ۖ لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿١٠٣﴾
اگر یہ لوگ صاحب ایمان متقی بن جاتے تو اللہ تعالٰی کی طرف سے بہترین ثواب انہیں ملتا، اگر یہ جانتے ہوتے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٠٤﴾
اے ایمان والو تم (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو) ' راعنا ' نہ کہا کرو، بلکہ ' انظرنا ' کہو (١) یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
١٠٤۔١ رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی، مثلا وہ کہتےرَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ جیسے وہ السلامُ علیکم کی بجائے السامُ علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے اللہ تعالٰی نے فرمایا تم ـ ' انْظُرْنَا ' کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو، ادب و احترام کے پیش نظر کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اور اقوال میں مشابہت کرنے سے بچا جائے تاکہ مسلمان (حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم ،ابوداؤد ( جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا) کی وعید میں داخل نہ ہوں ۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِ‌كِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ‌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَخْتَصُّ بِرَ‌حْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴿١٠٥﴾
نہ تو اہل کتاب کے کافر اور نہ مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی کوئی بھلائی نازل ہو (ان کے اس حسد سے کیا ہوا) اللہ تعالٰی جسے چاہے اپنی رحمت خصوصیت سے عطا فرمائے، اللہ تعالٰی بڑے فضل والا ہے
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ‌ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١٠٦﴾
جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں، یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔(١)
۱۰۶۔١ نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہوا جیسے آدم علیہ السلام کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کر دیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالٰی نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالٰی نے ان کی تردید فرمائی کہا کہ زمین اور آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کر دے، یہ اس کی قدرت ہی کا مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلا ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آجکل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مزکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سابقہ صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ‌ ﴿١٠٧﴾
کیا تجھے علم نہیں کہ زمین اور آسمان کا ملک اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●أَمْ تُرِ‌يدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَ‌سُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ‌ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿١٠٨﴾
کیا تم اپنے رسول سے یہی پوچھنا چاہتے ہو جو اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا تھا (١) (سنو) ایمان کو کفر سے بدلنے والا سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔
١٠٨۔١ مسلمانوں (صحابہ رضی اللہ عنہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ازراہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشہ کفر ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَدَّ كَثِيرٌ‌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُ‌دُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارً‌ا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِ‌هِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١٠٩﴾
ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہو جانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اپنا حکم لائے۔ یقیناً اللہ تعالٰی ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ‌ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‌ ﴿١١٠﴾
تم نمازیں قائم رکھو اور زکوۃ دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے، سب کچھ اللہ کے پاس پالو گے، بیشک اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے (١)۔
یہودیوں کو اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حسد اور عناد تھا اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیرنے کی مذموم سعی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ تم صبر اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ان احکام و فرائض اسلام کو بجا لاتے رہو۔ جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَ‌ىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْ‌هَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١١١﴾
یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو (١)۔
١١١۔١ یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جا رہا ہے جس میں وہ مبتلا تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُ‌هُ عِندَ رَ‌بِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿١١٢﴾
سنو جو بھی اپنے آپ کو خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے۔ (١) بیشک اسے اس کا رب پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا، نہ غم اور اداسی۔
١١٢۔١ (اَسْلَمَ وَ جْھَہ لِلّٰہِ) کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور (وَ ھُوَ مُحْسِنُ) کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی انہی اصولوں کے مطابق کئے گئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے نہ کہ محض آرزووں پر۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
تفسیر احسن البیان کے سابقہ اسباق کے لیے لنک وزٹ کریں-
https://www.dropbox.com/sh/tltwh1c7ioojggk/AACQbl5nA5triOZBlO8HP2una?dl=0
www.dawatetohid.blogspot.com
معاون فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...