Tuesday 27 September 2016

*تفسیر احسن البیان**سبق نمبر:20*

*بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم* 
            
         *تفسیر احسن البیان*
*سبق نمبر:20*
(تفسیر: مولانا حافظ صلاح الدین یوسف،
ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی)
*پارہ نمبر 1،سورةالبقرۃ آیات134تا142*
             *2:سورةالبقرۃ:آیات286*
📖تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٣٤﴾
یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کہا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے (١)

١٣٤۔١ یہ بھی یہود کو کہا جا رہا ہے کہ تمہارے آباواجداد جو انبیاء و صالحین ہو گزرے ہیں، ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا، تمہیں نہیں، تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَ‌ىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٣٥﴾
یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے۔ (١)
١٣٥۔١ یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسایت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعلیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (اللہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی امیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہیں جن میں توحید کا تصور بالکل بے غبار اور نہایت واضح ہے جس سے یہودیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال عقائد میں جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے ۔ کیونکہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن وحدیث تک تو نہیں ہوسکتی ، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا ۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّ‌بِّهِمْ لَا نُفَرِّ‌قُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾
اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس چیز پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو دیئے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں (١)۔
١٣٦۔١ یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو اللہ تعالٰی کی طرف سے جو کچھ بھی ملا یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کو ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیاء کے درمیان تفریق ہے جس کو جائز نہیں رکھا۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیونکہ ایک تو وہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کر دیا ہے
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٣٧﴾
اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالٰی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا (١) اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔
١٣٧۔١ صحابہ کرام بھی اسی مزکورہ طریقے پر ایمان لائے تھے، اس لئے صحابہ کرام کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح سے صحابہ کرام ! تم ایمان لائے ہو تو پھر یقینا وہ ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔ اگر وہ ضد اور اختلاف میں منہ موڑیں گے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیونکہ اللہ تعالٰی آپ کی کفایت کرنے والا ہے۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی یہ وعدہ پورا ہوا اور بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا گیا اور بنو قریظہ قتل کئے گئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت ایک مصحف عثمان ان کی اپنی گود میں تھا اور اس آیت کے جملہ ( فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ) 2۔ البقرۃ:137) پر ان کے خون کے چھینٹے گرے بلکہ دھار بھی۔ کہا جاتا ہے یہ مصحف آج بھی ترکی میں موجود ہے۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰

📖صِبْغَةَ اللَّـهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ ﴿١٣٨﴾
اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالٰی سے اچھا رنگ کس کا ہوگا (١) ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔
١٣٨۔١ عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جسکو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے اس رسم کا نام ان کے ہاں پبتسمہ ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالٰی نے ان کی تردید فرمائی اور کہا اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔ اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے۔ جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّـهِ وَهُوَ رَ‌بُّنَا وَرَ‌بُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ ﴿١٣٩﴾
آپ کہہ دیجئے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے، ہمارے لئے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہم تو اسی کے لئے مخلص ہیں (١)
١٣٩۔١ کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص و نیازمندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اس کے اوامر کا اتباع اور زواجر سے اجتناب کرتے ہیں۔حالانکہ وہ ہمارا رب ہی نہیں ہے،تمھارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے خاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
📖أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَ‌ىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّـهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّـهِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٤٠﴾
کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو۔ یا اللہ تعالٰی (١) اللہ کے پاس شہادت چھپانے والے سے زیادہ ظالم اور کون ہے؟ اور اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں (٢)۔
١٤٠۔١ تم کہتے ہو کہ یہ اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھی، جب کہ اللہ تعالٰی اس کی نفی فرماتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ زیادہ علم اللہ کو ہے یا تمہیں۔
١٤٠۔٢ تمہیں معلوم ہے کہ یہ انبیاء یہودی یا عیسائی نہیں تھے، اسی طرح تمہاری کتابوں میں آنحضرت کی نشانیاں بھی موجود ہیں، لیکن تم ان شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو جو اللہ تعالٰی سے خفیہ نہیں۔
〰➖〰➖〰➖〰➖〰
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٤١﴾
یہ امت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے، تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے (١)۔
١٤١۔١ اس آیت میں پھر کسب و عمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف سے لگاؤ یا ان پر اعتماد کو بےفائدہ قرار دیا گیا۔ جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا سلسلہ اسے اگے نہیں بڑھائے گا۔ مطلب ہے کہ تمہارے خاندان کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے پوچھ گیچھ نہیں ہو گی بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى)35۔ فاطر:18)۔ آیت (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى)53۔ النجم:39) کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
●سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِ‌قُ وَالْمَغْرِ‌بُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَ‌اطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿١٤٢﴾
عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹایا؟ آپ کہہ دیجئے کہ مشرق اور مغرب کا مالک اللہ تعالٰی ہی ہے ف۱ وہ جسے چاہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دے۔
۱٤۲۔۱جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے گئے ١٦/١٧ مہینے تک بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے جو قبلہ ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر بھی اٹھاتے۔ بلآخر اللہ تعالٰی نے تحویل کعبہ کا حکم دے دیا جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچایا حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے اسی طرح کرنے کا پابند ہوتا ہے اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا اسی طرف پھر جانا ضروری تھا علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق اور مغرب ساری سمتیں اسی کی ہیں اس لئے سمتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہر سمت میں اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس سمت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل کعبہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی۔
 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
تفسیر احسن البیان کے سابقہ اسباق کے لیے لنک وزٹ کریں-
https://www.dropbox.com/sh/tltwh1c7ioojggk/AACQbl5nA5triOZBlO8HP2una?dl=0
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...