Tuesday 20 September 2016

*تفسیر احسن البیان*سبق نمبر:19*


*بســـــــــــــــمِ ﷲِالرحمٰنِ الرَّحِيم*  
             
         *تفسیر احسن البیان*
*سبق نمبر:19*

(تفسیر: مولانا حافظ صلاح الدین یوسف،
ترجمہ:مولانا محمد جونا گڑھی)

*پارہ نمبر 1،سورةالبقرۃ آیات123تا133*
             *2:سورةالبقرۃ:آیات286*
●يَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿١٢٢﴾
اے اولاد یعقوب میں نے جو نعمتیں تم پر انعام کی ہیں انہیں یاد کرو اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دے رکھی تھی۔



〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُ‌ونَ ﴿١٢٣﴾
اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی نفس کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے گا، نہ کسی شخص سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا نہ اسے کوئی شفاعت نفع دے گی نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ رَ‌بُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ﴿١٢٤﴾
جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا (١) اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا، عرض کرنے لگے میری اولاد کو (٢) فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔
١٢٤۔ ١ کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت نار نمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب اور کامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی، عیسائی حتٰی کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی جاتی ہے۔
٢٤۔٢ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کر دیا، پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ میرا وعدہ ظالموں سے نہیں اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم و مشرک ہوں گے ۔ ان کی شقاوت و محرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ اگر ایمان و عمل صالح نہیں ، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ( من بطا بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم ۔ (جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَ‌اهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَ‌ا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّ‌كَّعِ السُّجُودِ ﴿١٢٥﴾
ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لئے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی (١) تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو (٢) ہم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل (علیہما السلام) سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔
١٢٥۔١ حضرت ابراہیم کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالٰی نے یہاں بیان فرمائی ایک (لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ) دوسرے کے معنی ہیں لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہو جاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بیقرار رہتا ہے یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی بلکہ روز افزوں رہتا ہے دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف بھی نہیں رہتا چنانچہ زمانہء جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔
٢٥۔٢ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کعبہ کرتے رہے اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم کے نشانات ہیں اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کر دیا گیا ہے، جسے ہر حاجی طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ آیت(وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى)2۔بقرہ:125)

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّ اجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْ‌زُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَ‌اتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ‌ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّ‌هُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ‌ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٢٦﴾
جب ابراہیم نے کہا، اے پروردگار تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں پھلوں کی روزیاں دے (١) اللہ تعالٰی نے فرمایا میں کافروں کو بھی تھوڑا فائدہ دوں گا، پھر انہیں آگ کے عذاب کی طرف بےبس کر دوں گا۔ یہ پہنچنے کی بری جگہ ہے۔
٢٦۔١ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت و تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَإِذْ يَرْ‌فَعُ إِبْرَ‌اهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَ‌بَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾
ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ ہمارے پروردگار تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●رَ‌بَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِ‌نَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٢٨﴾
اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما، تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے.

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●رَ‌بَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١٢٩﴾
اے ہمارے رب ان میں، انہیں میں سے رسول بھیج (١) جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت (٢) سکھائے اور انہیں پاک کرے (٣) یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔
١٢٩۔١ یہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالٰی نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں (الفتح الربانی ج ٢٠، ص ١٨١،١٨٩)
١٢٩۔٢ کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کی تعلیم کتاب و حکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر و ثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم و مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ و مطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفہوم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔
١٢٩۔٣ تلاوت و تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک و توہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔

 〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَمَن يَرْ‌غَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَ‌اهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ﴿١٣٠﴾
دین ابراہیمی سے وہ ہی بےرغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے (١)
١٣٠۔١ عربی زبان میں رَغِبَ کا صلہ عَنْ تو اس کے معنی بےرغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالٰی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالٰی نے انہیں دنیا اور آخرت میں عطا فرمائی ہے یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بےرغبتی بےوقوفوں کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں ہو سکتا۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●إِذْ قَالَ لَهُ رَ‌بُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٣١﴾
جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا، فرمانبردار ہو جا، انہوں نے کہا، میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی۔ (۱)
١٣١۔١ یہ فضیلت و برگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اطاعت و فرماں برداری کا بےمثال نمونہ پیش کیا۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَ‌اهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٣٢﴾
اس کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا (١)
١٣٢۔١ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے وصیت اپنی اولاد کو بھی کی جو یہودیت نہیں اسلام ہی ہے، جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت موجود ہے اور قرآن کریم میں دیگر متعدد مقامات پر بھی اس کی تفصیل آئے گی جیسے (ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ) 3۔ ال عمران:119) اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔

〰➖〰➖〰➖〰➖〰
●أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ‌ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾
کیا (حضرت) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب (١) انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہم السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔
١٣٣۔١ یہود کو زجرو توبیخ کی جا رہی ہے تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم، یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ جھوٹ اور بہتان ہوا اور اگر کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مزکورہ دعویٰ غلط ثابت ہو گیا کیونکہ انہوں نے جو وصیت کی وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت کی، یا عسائیت کی۔ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے، اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا انبیاء کی جماعت اولاد علامات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔
تفسیر احسن البیان کے سابقہ اسباق کے لیے لنک وزٹ کریں-
https://www.dropbox.com/sh/tltwh1c7ioojggk/AACQbl5nA5triOZBlO8HP2una?dl=0
www.dawatetohid.blogspot.com
معاون فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...