Thursday 29 March 2018

یوگا عالمی مذاہب کی نظر میں !

کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:12)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
یوگا عالمی مذاہب کی نظر میں !
دنیا کے مشہور مذاہب عیسائیت اور یہودیت کے مذہبی اسکالر کا یوگا کے متعلق واضح موقف یہی ہے کہ یوگا ہندو مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے۔ انگلیکین چرچس Anglican۔churches۔  اور Catholic churches  کے رہنماؤں نے کئی مرتبہ دو ٹوک انداز میں اس سلسلے میں نہ صرف اظہار خیال کیا بلکہ اپنے مذہب کے پیروکاروں کو ’’یوگا‘‘ سے منع کیا ہے وہ اسے صرف صحت و تندرستی اور جسمانی ورزش کی سائنس ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ حتی کہ ہندوستان میں ہندو سے قربت رکھنے والا طبقہ سکھ بھی اس سے اختلاف کرتے  ہیں اور ان کے مذہبی رہنما بھی اپنی برادری کے لوگوں کو یوگا کی پریکٹس سے منع کرتے ہیں۔
جب بین الاقوامی مذاہب کے مذہبی رہنماء بھی ’’یوگا‘‘ کو خالص ہندو مذہبی کفر سے بھر پور عمل قرار دیتے ہیں اور اسے ہندو مذہبی رہنماؤں کے مہارشیوں کے طریقہ عبادت کا ایک جز قرار دیتے ہیں تو ان تمام حقائق کی موجودگی میں ہمارے چند مٹھی بھر دانشور حضرات ذہنی انتشار اور فکری انحطاط کا  شکار ہو کر  ’’یوگا‘‘  کی عدم ممانعت کی وکالت اور نمائندگی کرتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کو اس معاملے میں گمراہ کر رہے ہیں۔
 کیا مسلمانوں کا روحانی ارتقاء کے لئے مسجدوں کو چھوڑ کر مٹوں، آشرموں اور کیندروں میں حلقہ کفر کے درمیان بیٹھ کر مراقبہ کرنا اسلامی روح کے سخت خلاف قرار نہیں پائے گا ؟۔اس طرح کے تمام اعمال و حرکات اسلامی روح و مزاج سے قطعی میل نہیں کھاتے اور یہ غیر شرعی اور سخت ممنوع ہے۔
ایک مسلمان کا ‎مصادر کفر، منادر، آشرموں اور یوگا کیندروں سے دلی وابستکی پیدا کر لینا اور اپنا ربط و تعلق بڑھا کر ایسا طرز عمل یا معمول اختیار کر لینا جو ہندو مت اور کفر میں پسندیدہ اور اشرف ہے اور پھر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر کرنا سراسر اسلام کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ ایک مسلمان کس اقدام اور عمل سے کفر کے قریب ہو رہا ہے یا اسلام اور تقویٰ و پرہیزگاری سے قریب ہو رہا ہے۔
ایسے تمام افکار و رجحانات  اور طرز عمل جو مسلمانوں کو کفر کے قریب کرتے ہیں اس پر تنقید اور تنقیص کرنا اور ان کی فوری اصلاح کرنا اسلامی اسکالرس و مصلحین و داعیان حق کی اولین ذمہ داری ہے۔بے حسی، بے غیرتی، غلامانہ ذہنیت، جی حضوری، اغیار کی اقتداء اسلامی روح واسپرٹ کے منافی ہے۔
اسلامی روح و مزاج کی برقراری کے لئے جو بات بنیادی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
"وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ۔(سورہ الزمر: ۱۷)
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور (ہمہ تن) اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے وه خوش خبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔"
جہاں اسلام کی روح اور مزاج پر اثر پڑھتا ہے وہاں احکامات بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔
اسلام کی روح اور مزاج کی سالمیت، صیانت اور حفاظت عصر جدید کا تقاضا ہے۔ محض جسمانی ورزش، بیماریوں کے علاج کے نام پر یوگا کی پراکٹس کو اپنا کر اسلامی روح کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔بلکہ ان تمام فرسودہ طریقوں اور طاغوت کے راستے کو ترک کر کے صرف مضبوط ایمان و موجبات تقویٰ کے ذریعہ اسلامی روح کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کا تشخص بغیر اسلامی روح کے باقی نہیں رہ سکتا۔ ایسا طور طریقہ،نہج و سلوک،لباس و لبادہ،فیشن زدہ طرز زندگی و رجحان کو اختیار کرنا جو من حیث کل  مجموعی طور پر اسلامی مبادیات اور تعلیمات کے منافی ہوں۔ایمان و جذبہ اسلامی کے زوال کا سبب بنتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان توہمات کے قائل ہوتے ہیں۔ اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر گنڈے پلیتے لٹکاتے،ہاتھ،کمر اور پیر میں کالے پیلے دھاگے باندھتے اور منحوس و متبرک شب دنوں کی تخصیص کرتے ہیں۔ مرد نوجوان سر پر جٹو رکھنے،کان میں بالیاں پہننے اور خوشی کے موقع پر پیلا رنگ لگانے اور ناریل پھوڑنے کو باعث فضیلت و برکت سمجھتے ہیں۔یہیں سے ان کی بد عقیدگی اور شرک کی ابتدا ء ہو جاتی ہے اور وہ بگاڑ،گمراہی اور ضلالتوں کی گہری کھائی میں گر پڑتے ہیں۔
جن لوگوں کے قلب میں ایمانی حرارت ہوتی ہے وہ کفر کرنا تو درکنار کفر کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ وہ ایسے موحد ہوتے ہیں کہ توحید پرستی ان کی زندگی کا عظیم قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔
کفر و شرک، نفاق جیسے گناہ انھیں چھو بھی نہیں سکتے۔ و ہ شیطان کی چال بازیوں اور نٹ ورک سے بچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایک شخص کو اندر سے جو چیز طاقتور بناتی ہے وہ پختہ عقیدہ، توحید اور اعلیٰ کردار کو اعلیٰ و خشیت الٰہی کے ذریعہ نفس کو مطمئن بنائے رکھتی ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ایک مکمل مسلمان ہوتا ہے۔ یہی وہ اسلامی اسپرٹ ہے جو ہمیں اللہ کا محبوب بندہ اور دنیا میں بلند و مشرف و مکرم بناتی ہے۔
شریعت اسلامی میں دی گئی رخصتوں،اجازتوں،حیلوں اور نظریاتی تاویلات Conceptional interpretation  پر زندگی کا انحصار کرنا، پر شکوہ عصری مادی جگمگاتی تہذیب و کلچر میں گھل مل جانا۔ دراصل مسلمان کے لئے خودسپردگی اور شکست خوردگی کی علامت ہے۔
یہ نام نہاد روشن خیالی،کھلے دماغ اور آزاد فکر کی سوغات ہیں۔ جس کی بناء پر اسلام اور مسلمان دونوں کمزور ہو کر مغلوب ہو جاتے ہیں۔ان کی اسی تساہلی، غفلت اور اسلام سے عدم دلچسپی کی وجہ سے دنیا کے مسائل اور چیالنجس میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اور باطل طاقتوں و مخالفتوں کی ایک سونامی سب کچھ اپنے کوہ کی چوٹیوں کو چھوتے ہوئے تیز تموج میں بہا لے جاتی ہے۔ اسلام سے عاری و ناواقف مسلمان ادیان باطلہ و افکار فاسدہ سے مرعوب ہو کر جب تعقدی اور تہذیبی یلغار سے مقابلے کے لئے اٹھتا ہے تو ایمانی کمزوری کی بناء پر اس خاموش جنگ کو ہار جاتا ہے جس سے اسلام کی روح فنا ہو جاتی ہے اور اسلامی مزاج کے خاتمہ میں چند لمحے بھی نہیں لگتے۔
اسلام کی اسپرٹ اور مزاج کا انحصار قرآن اور منہج رسول ؑ و صحابہ اکرام پر ہے۔ اس کے علاوہ جو اسپرٹ ابھر رہی ہے وہ قابل رد ہے۔
یوگا کو بطور عقیدہ یا پھر صرف ہندوستانی قدیم طریقہ و کھیل تصور کیا جائے تو ہر دو صورتوں میں ایمان کی حفاظت کا مسئلہ درپیش رہے گا۔یوگا کی پراکٹس کرنے سے اہل ایمان کے عقل، حسب نسب اور پھر وقار کے تحفظ کا مسئلہ پیدا ہو گا اور تعقدی کمزوریوں اور غیر مذہب کی اتباع ملت کے تمام حصوں کو نقصان پہنچائے گی اور اس کا اثر آنے والی نسلوں تک جاری رہے گا۔
قومی یکجہتی:-
آج ہر شخص قومی یکجہتی، سیکولرازم، جمہوریت نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں ایسا لگا ہوا ہے کہ وہ یہ تک نہیں سوچ رہا ہے کہ اس قومی یکجہتی، سیکولرازم اور جمہوریت نوازی سے میرے کن عقائد اور افکار ونظریات پر زد پڑتی ہے۔
اور کبھی یہ کہہ کر دین میں مداہنت کو برداشت کرلیا جاتا ہے، کہ قوم وملت کے لیے مصلحت اسی میں ہے۔
یاد رکھیں! کسی قوم کی دوسری قوم کے ساتھ اس طرح کی یکجہتی کہ اس کا اپنا تشخص وامتیاز ہی ختم ہو اور وہ اپنے افکار ونظریات سے دستبردار ہو ، یہ یکجہتی نہیں بلکہ اس قوم کے عقائد اور اس کے افکار ونظریات سے ہم آہنگی ہے، اور یہی غیروں کا مقصد بھی ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
"وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔(سورہ البقرة:۱۲۰)
آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار۔"
  
یوگا، یوگیوں کے عقائد کا التزام نہ کرنے کے باوجود بھی حرام ہے ، کیوں کہ یہ اس تشبہ میں داخل ہے جو شرعاً ممنوع ہے ۔
کیوں کہ 'یوگا' ایک خاص قسم کی ورزشی نشست ہے، جو ہندووں کا شعار ہے،اور جب وہ ایک خاص قوم کا دینی شعار ہے، تو وہ خواہ ریاضت ہی ہو ، ہمیں اس طرح کی ریاضت سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
ہمیں عبادتوں میں غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا،تو ریاضتوں اور ورزشوں میں بدرجہ اولی یہ ممانعت ہوگی،خصوصاً جبکہ وہ ریاضتیں کسی قوم کا شعار، مشرکانہ کلمات ،اورغیر اسلامی عقائد وافکار پر مشتمل ہوں۔
اگر کسی کو ریاضت وورزش کر کے صحت وتندرستی ہی حاصل کرنی ہے تو وہ مباح ورزشوں اور ریاضتوں کو اپنائے۔اسلامی عبادتوں میں صحت وتوانائی، تندرستی وچستی کا بھرپور سامان موجود ہے۔
اگر کوئی مسلمان اسلامی عبادتوں کو پورے اہتمام واعتناء کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طرق ونقوش کے مطابق انجام دیں تو یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ صرف ان سے اخروی فلاح وبہبودی حاصل ہوگی بلکہ اس دنیا میں بھرپور صحت وتندرستی بھی ملے گی۔جیسا کہ نماز وروزہ کی حکمتوں اور اسرار ورموز پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...