Monday 19 March 2018

میڈیکل سائنس اور یوگا:-


کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:9)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
میڈیکل سائنس اور یوگا:-
یوگا کے ماہرین جسمانی کسرت کے علاوہ اسے میڈیکل سائنسMedical Science  قرار دے کر امراض کے علاج کا ادعاء بھی پیش کر رہے ہیں۔
ماہرین یوگا کا یہ دعویٰ ہے کہ امراض کا علاج یوگا کی جسمانی ورزش اور مشقوں میں ہے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ یوگی، بی کے یس اینگر IYENGER  .K.S B.  نے اپنی کتاب( (light of yoga میں 182 ایسے امراض کی طویل فہرست شامل کی ہے۔ جس کا علاج یوگا آسنا کے ذریعہ ممکن ہے۔
سیوا آنند آشرم گجرات کے مہا گرو سوامی سری اریاتھا نندا جی مہاراج نے جنوری 2009ء میں 3431 ویں یوگا کیمپ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ یوگا بے چینی، ڈپریشن، بے خوابی، منفی خیالات، ذیابطیس، کمر درد، دمہ اور پریشر وغیرہ کے لئے مفید ہے۔ لیکن دنیا کے بڑے بڑے با اختیار طبی تحقیقات کے اداروں وMedical Research Centres   سے اس بات کی توثیق ابھی نہیں ہونے پائی ہے کہ یوگا سے واقعی امراض کا علاج ممکن ہے یا نہیں ؟۔
 انڈین میڈیکل کونسل Medical Council of India  اور امریکہ و برطانیہ کے با اختیار میڈیکل کونسلوں نے بھی یوگا کے ذریعہ امراض کے علاج کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ڈاکٹرس کا کہنا ہے کہ یوگا میں بہت سے آسن ایسے ہیں جو علاج کے بجائے مریض کی صحت کے لئے سخت نقصان دہ ہیں اور جوں جوں یوگا کرتے جائیں گے مرض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یوگا سے چند مریضوں کو بعض امراض کے علاج میں ہوسکتا ہے کہ فائدہ ہوا ہو۔ لیکن بحیثیت ایک مکمل سائنسی طریقہ علاج کے کوئی ادنیٰ ڈاکٹر بھی قبول نہیں کر سکتا کہ ’’یوگا امراض کے علاج کے لئے مؤثر ذریعہ ہے۔‘‘
ہمارے ضعیف بیمار مریض میڈیا میں پرکشش اشتہارات دیکھ کر اور یوگا کیندروں و پروگرامس ولکچرس فلمی ایکٹر سے متاثر ہو کر یوگا کلاسس کو جائن( Join) کر رہے ہیں۔ یوگا کلاسس میں تربیت حاصل کرنے کا ہر عمر کے لوگوں میں آئے دن شوق بڑھ رہا ہے۔ یہ تمام دعوے کھوکھلے، بے بنیاد اور بد عقیدگی پر مبنی ہیں۔ فیشن اور ٹرینڈ ایک متعدی مرض کی طرح ہوتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعہ جب شہرت پا جاتے ہیں تو کوئی پھر پلٹ کر دیکھنا گوارہ نہیں کرتا۔
تشبہ بالکفار
سوریہ نمسکار ہو یا بغیر سوریہ نمسکار کے یوگا ہو اس لئے بھی جائز نہیں کہ یہ دوسری قوموں کی مشابہت ہے، اور اسلام میں دوسروں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ نے فرمایا :''مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ'جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، حدیث نمبر ۴۰۳۰)
پھر یہ کہ کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے بہت سارے مفاسد پیدا ہوں گے۔
اسلام نے کفار کے مخصوص طرز زندگی، نہج اور طور طریقے کی تقلید کرنے کی سختی سے ممانعت کی ہے۔تقلید کفر چاہے وہ کلی ہو یا جزوی تشبہ بالکفار میں شامل ہے۔
یوگا کی مشق کرتے وقت اگر بھگوت گیتا کے پاٹ نہ پڑھے جا رہے ہوں تو یقیناً فوری ایمان و عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن یوگا میں کفار کے مخصوص مذہبی طریقہ العاب Games اور یوگا کے گیرو رنگ کے لباس، سر پر جٹو اور دوران یوگا پراکٹس کرتے وقت دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام و نمستے کرنا اور رشیوں کی طرح آنکھیں بند کر کے دھیانا یا مراقبہ کرنا رشیوں و یوگیوں سے تربیت پانا تشبہ بالکفار میں شامل ہے۔کفر اور اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا، اور امت مسلمہ دوسری باطل قوموں کے ساتھ ضم ہو جائے گی۔اس طرح ہندومت اور بدھ مت  کے کسی بھی جز یا کل کی تقلید تشبہ بالکفار میں شامل ہو گی۔ چاہے وہ کتنی ہی مفید اور منفعت بخش کیوں نہ ہو۔
چونکہ یوگا دوسرے مذاہب جیسے عیسائیت، یہودیت اور سکھ مت کے ماننے والے اس طرح بجا نہیں لاتے جس طرح ہندو لاتے ہیں۔ان کی مذہبی کتابوں اور معاشرہ کا یہ حصہ نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب یہ بھی مسلمانوں کی طرح ہندو ازم کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اپنے معاشرے میں یوگا کو عام کرنے میں کوشاں ہیں۔  
یوگا ہندو مت کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کی خاص تعلیم کے تحت  ایک ذہنی، جسمانی ورزش و روحانی پراکٹس ہے۔  یہ جسمانی ورزش کا طریقہ کار سکیولر نہیں ہے۔ بلکہ ہندو مذہب کا ایک اہم حصہ ہے۔ اسی لئے اس کے سکیولر ہونے کا احتمال باقی نہیں رہتا۔اگر یوگا کو جائز قرار دے دیا جائے تو کفر،معصیت و ذنوب کے باب الداخلے کھل جائیں گے اور اس کا بند کرنا مشکل ہو جائے گا۔اسی لئے یہ مکمل ناجائز کے درجے میں شامل ہے۔
نبی کریم ﷺ نے تین باتوں سے منع فرمایا ہے۔ ایک تشبہ بالکفار، دوسرے مردوں کا تشبہ بالنساء،  تیسرے عورتوں کا تشبہ بالرجال۔
 ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ  نے’’ ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر میں صلیب کے نقش و نگار بنے تھے۔ دیکھنے کے ساتھ ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو آنحضرت ﷺ ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔‘‘(مسند احمد)
کفار کے طور طریقے، نہج اور رسم و رواج، مامولات، مخصوص مذہبی اسٹائل و انداز کی تقلید کرنا اور اس کی کفر سے بھری اصلی نوعیت کو بغیر تحلیل و زائل کئے کہ ایک یا کئی باتوں کی پیروی کرنا تشبہ بالکفار ہے۔
یوگیوں کے لباس کے رنگ، روپ اور طریقہ کار پر ہر کسی کو اعتراض کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ ان کے اپنے مذہب کا اندرونی معاملہ ہے۔ لیکن  مسلمان جو محض یوگا جیسی جسمانی ورزش Physical Excercise   کی خاطر اس کی نقل و تقلید کرتے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے، گرفت کرنے اور روک لگانے اور ان کی اصلاح کرنے کا پورا پورا استحقاق مسلم سوسائٹی کے مصلحین، مبلغین کو حاصل ہے کیونکہ یوگا کی مخصوص طرح کی جسمانی ورزش تشبہ بالکفار میں شامل ہے۔
کفار و مشرکین کے عقائد و افکار، عبادات،عادات و اطوار، تہذیب و تمدن اور رہن سہن کی نقل اور تقلید کی جائے تو یہ تشبہ بالکفار کہلائے گا۔ایک مثال سے یوگا کی ممانعت اور عدم ممانعت کی بحث کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
شریعت اسلامی اہل کتاب کی عورت سے نکاح کو جائز قرار دیتی ہے۔ اس اجازت کے تحت ایک شخص کتابیہ سے نکاح کرتا ہے اور خاندان کے تشکیل پا جانے کے بعد یہ اہلیہ گھر کے بڑے اور بچوں کے سامنے دستر پر ہر روز خنزیر کا گوشت اور حرام مشروبات رکھتی ہے اور شوہر مسلمان ہوتے ہوئے دوران طعام دستر پر ان محرمات کو رکھنے سے منع نہیں کرتا۔ معصوم مسلم بچے اگر بچپن ہی سے ان اشیاء کو دیکھتے رہیں تو پھر ان کے اندر حلال و حرام چیزوں کی تمیز،ان سے دوری، اجتناب اور نفرت کا جذبہ ختم ہو جائے گا۔یہ برادر اسلام اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں اور میرے بچے شراب تو نہیں پیتے اور نہ خنزیر کا گوشت تناول کرتے ہیں۔ لہذا ہر گناہ سے پاک ہیں۔ لیکن جب اس مسئلہ کو کسی اہل علم اور فقہی کے پاس رجوع کیا جائے گا تو وہ نبی کریمﷺ ؑ کی یہ حدیث پیش کرے گا۔ جس میں آپؑ نے ’’اس دسترخوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب پی جا رہی ہو۔‘‘ (مسند احمد جلد۱/۲۱۰/ ۲۱۵)
اس حدیث نبوی ؑسے شریعت اسلامی کا راست حکم سامنے آ جائے گا اور اس شخص کے لئے لازم ہو جائے گا کہ وہ کتابیہ زوجہ کی فوری اصلاح کرے۔اور دسترخوان سے شراب کو برخواست کر دے۔ حدیث سننے کے بعد اصلاح کی جانب توجہ نہ دی گئی تو بندہ مومن گناہگار ہو گا۔کسی معاملے میں بغیر علم کے خوش فہمی میں رہنے سے جرم و گناہ ساقط نہیں ہوتا۔
 اس طرح اگر کوئی شخص بحیثیت مسلم شوہر اور گھر کے سربراہ کے اپنے اندر اتنی قوت و صلاحیت نہیں رکھتا ہے کہ وہ خود اپنے اہل خاندان کو حرام سے بچا لے۔اہل کتاب عورت سے نکاح کی اجازت کا غلط مفہوم اخذ کرنا اور اس کا استحصال کرنا قابل گرفت ہے۔ شریعت اسلامی میں ایک حلال کے لئے کئی حرام و غیر مرغوب کاموں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ گھر کے رہن سہن اور تہذیب مسلم میں اہل کتاب، مشرکین و کفار کے طرز زندگی اور تہذیب سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی تشبہ بالکفار کا حصہ ہے۔فقہا اور اسلامی دانشور یہ مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں کہ ایک شئے کی عدم ممانعت و حلت سے کتنے حرمت اور ناجائز باتوں کے دروازے کھل جانے کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں اور آگے چل کر یہ چھوٹی بدی و برائی کتنی بدیوں اور منکرات کو پروان چڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔
ایک صحیح العقیدہ مومن کو مولانا صاحب اپنی لا علمی کی وجہ سے اس شرط کے ساتھ یوگا کی ورزش کی اجازت عنایت کر دیتے ہیں کہ یوگا کی ورزش میں ہری اوم کے بجائے اللہ کا ذکر اور سبحان اللہ و الحمد اللہ کا ورد کریں تو وہ جائز ہو جائے گا۔ مولانا صاحب کی اس اجازت سے شریف، پابند صوم و صلوٰۃ مسلم نوجوان اور خواتین میں یوگا سے دلچسپی بڑھ جائے گی اور اگر مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر اس کی رغبت پیدا ہو جائے اور وہ یوگا کی جماعتوں کے ماحول سے متاثر ہو کر یوگیوں کو دئیے جانے والے گیتا و ویدوں کے درس میں پابندی سے شامل ہونے لگیں تو آج نہیں تو کل نوخیز نسل کے صاف ستھرے ذہنوں پر مشرکانہ تعلیمات کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسلامی تعلیمات سے ناواقف بیشمار نوجوانوں کے قلب کی گہرائیوں اور دماغ کے گوشوں سے ایمان نکل جائے گا اور ان پر کفر کی تعلیمات کا گہرا اثر پڑھے گا۔ اس طرح یوگیوں و رشیوں کے کافرانہ و مشرکانہ واعظ و نصیحت نوجوانوں کو راہ حق اور صراط مستقیم سے مزید گمراہ کر سکتی ہے اور جس سے ایمان کی عظیم نعمت چھن جانے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
ایک مومن کفر کی باریکیوں کو سمجھنے میں غلطی کر کے چند فائدوں کی خاطر قلب و ذہن کو بند کر کے دھوکہ کھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ایسی نازک صورت حال میں اہل ایمان کو وارننگ دی ہے۔
"وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً...۔(سورہ النساء:۸۹)
ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وه ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہو جاؤ۔"
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:
"..إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ..(سورہ النساء؛140)
تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وه اس کے علاوه اور باتیں نہ کرنے لگیں، (ورنہ)تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو۔"
بعض اہل علم حضرات اس بات پر ایک بحث کرسکتے ہیں کہ قیاس Analogy  کی بنیاد پر کہ مستقبل میں، کفر و شرک کے دریچے کھلنے کے ڈر سے یوگا جیسی ورزش پر ہرگز پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے۔ ان حضرات کو اس بحث میں حصہ لینے سے پہلے اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہئیے کہ کفر خفی اور اس کے اجزاء کی موجودگی کی ہندو مذہبی کتابوں سے کھلی دلیل کے بعد مزید نص صریح کی تلاش بے سود ثابت ہو گی۔
مائکروگرام کا جو تخم بویا جائے گا اس کے پودے اگیں گے اور درخت، پیڑ، شاخ اور پتے تیار ہوں گے اور اسی کے پھول اور پھل کی فصل بھی تیار ہو گی اسی طرح کفر کی تخم ریزی سے خیر کی فصل اگ نہیں سکتی، شرک کے جراثیم germs سے نیکی اور ثواب کے کام پنپ نہیں سکتے۔
 جس طرح باطل تہذیب و تمدن کے گارے سے اسلامی تہذیب و تمدن کی پر شکوہ عمارت تعمیر ہو نہیں سکتی۔ ٹھیک اسی طرح کفر کی کوکھ سے جنم لینے والا یوگا، مسلم یوگیوں کو رشد و ہدایت، نیکی و تقویٰ کی اور صراط مستقیم کی پرنور شاہراہ پر زیادہ عرصے تک گامزن رہنے نہیں دے گا۔
جو جس کی صحبت، معیت میں رہے گا اس کا معاملہ اور انجام بھی اسی کی طرح ہو گا۔
نبی کریم کی یہ حدیث  اسی ضمن میں ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”(قیامت کے روز) آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘(سنن ترمذی:2385،حکم البانی:صحيح)
{"قیامت کے روز:سنن ترمذی:3535 کے الفاظ ہیں حکم البانی:حسن}
 نوجوان اگر مدرسین کفر کے ساتھ پابندی سے اپنا قیمتی وقت گذاریں گے تو ان کی معیت اور صحبت میں شرک کا رنگ چڑھنا اور ان سے محبت ہونا ایک عام انسان کا فطری عمل ہے۔
قرآن کریم نے حرام کاموں کے تدارک کے لئے ابتدائی مراحل میں ہی بندش کی اور ڈانٹ کے ذریعہ پابندی عائد کی۔
کفر و شرک، حق و باطل ایمان کے درمیان حد فاصل اور اہل ایمان کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں تحذیر اور انذار کے ساتھ مخاطب فرمایا:
ولا تقربوا، ’قریب مت پھٹکو،   وجتنبوا ’اور اجتناب کرو،
جو دعوت و ترغیب، ترہیب و تنبیہ اللہ نے اپنے پسندیدہ بندوں کو اور نداء کا ولولہ انگیز مشفقانہ انداز اختیار کیا۔لہو و لعب کی چھوٹی بڑی، لغو طاغوتی حرام بے فیض باتوں کا خاتمہ کرنے کا دو ٹوک فیصلہ فرمایا کہ ان کے قریب بھی مت پھٹکو۔
اسلام کے علمبرداروں کو چاہئے کہ خیر و شر کے تمام مراحل اور مراتب کو پوری سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *
(بشکریہ : مسلم گرلز اسوسی ایشن، حیدر آباد جن کی تحریر میں حذف و ترمیم کے ساتھ ایک جامع تحریر قلم بند کی گئی۔)
*****

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...