Wednesday 28 March 2018

ڈارک ویب کیا ہے؟

ڈارک ویب کیا ہے؟

(از قلم:عمران شہزاد تارڑ)

انتباہ:اس آرٹیکل کا مقصد آپ کو درست معلومات سے آگاہ کرنا ہے۔انٹر نیٹ پر ڈارک ویب سے متعلقہ رسائی کی کوشش یا اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ڈارک ویب تک گئے ہیں تو آپ کو صرف وہاں جانے کے اعتراف پر سزا ہو سکتی ہے۔
لہذا اگر آپ اپنے موبائل یا کمپیوٹر سے ڈارک ویب سے متعلقہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے تو اپنے نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے..۔

اس ساری بات کو سمجھنے کے لئے پہلے ایک مثال ذہن میں رکھیں کہ ایک پہاڑ سمندر میں کھڑا نظر آتا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ پانی سے باہر ہے، اسے آپ ورلڈ وائڈ ویب یعنی وہ انٹر نیٹ سمجھ لیں جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔

پھر ایک بڑا حصہ نیچے پانی میں ہے، یعنی وہ سروس جو آپ کو کسی خاص ذریعے (مثلاً یوزر آئی ڈی اور پاسورڈ) سے رسائی فراہم کرتی ہے اور جس کے بغیر اس مواد تک رسائی ممکن نہیں۔ ڈیپ ویب کہلاتا ہے۔

پھر اس سے بھی ایک بڑا حصہ
نیچے جو سمندر کی تہہ میں ہے اسے ڈارک ویب یا مریانازویب(Marianas web) کہا جاتا ہے۔
ڈارک ویب سائٹس کے سرور کا آئی پی ایڈریس اور اس کی لوکیشن خاص براوزر یا نیٹ ورکنگ کے ذریعے چھپائے جاتے ہیں،جس کے لئے یہ جاننا کافی دشوار ہے کہ انہیں کون چلا رہا ہے اور کس جگہ سے چلا رہا ہے۔

اب آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ یہ انٹر نیٹ ہماری آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟ ہم اسے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس اوجھل انٹر نیٹ کی دنیا میں کیا کیا چھپا ہوا ہے؟ عام لوگوں سے اسے کیوں چھپایا ہوا ہے؟ وہاں کیا کیا جاتا ہے؟ تو آج کی اس تحریر میں ان سوالات کے جوابات پر بات ہو گی۔

1۔ ہم جو انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں اس میں کوئی بھی ویب سائٹ اوپن کرنے کے لئے تین بار ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو (WWW)لکھنا پڑتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ورلڈ وائڈ ویب یا سرفیس ویب یہ وہ انٹر نیٹ ہے جو ہم میں سے ہر کوئی اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر استعمال کرتا ہے جس میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل فیس بک ویکیپیڈیا یوٹیوب اور دیگر سائٹس وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ ہوئیں ہوتیں ہیں۔ جن کے لنکس کو گوگل یا دیگر سرچ انجن میں سرچ کرتے ہوئے اُن تک رسائی ممکن ہے۔
کہا جاتا ہےکہ یہ حصہ کل انٹر نیٹ کا تقریبا پندرہ فیصد ہے۔ باقی کا پچاسی فیصد انٹر نیٹ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔جبکہ بعض آئی ٹی ریسرچر اس پرسینٹیج(percentage) سے اتفاق نہیں کرتے ان کے نزدیک کوئی حتمی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ہے۔بہرحال پرسینٹیج جو بھی ہو ہمارا یہ مدعا نہیں ہے۔

ورلڈ وائڈ ویب کو ٹم برنرزلی نے 1989ء میں ایجاد کیا اور 6اگست 1991ء کو باقاعدہ منظر عام پر لایا۔ پھر یہ ٹیکنالوجی نہایت رفتار سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئی کہ چند لمحات میں آپ اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔اس طرح پوری دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر  یا موبائل کی سکرین پر اکھٹی یعنی گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر گئی۔
ورلڈ وائڈ ویب کے فوائد سے انسانیت مستفید ہونے لگی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محتاج بن کر رہ گئی۔ ویب کی تیز رفتاری کی وجہ سے دستاویزات کی منتقلی اور خط وکتاب ای میل کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ اور کمپنیوں اور اداروں نے اس کا استعمال شروع کر دیا۔

یہاں سے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک نیا موڑ آتا ہے، اور حکومتیں اور ادارے یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ انٹر نیٹ پر ڈیٹا کے تبادلے کی سیکورٹی کے لئے کوئی نظام ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے چوری یا ہیک نہ کر سکے۔چنانچہ اس مقصد کے لئے امریکی نیوی کے تین ریسرچر نے یہ بیڑا اٹھاتے ہوئے Onion Routing کا نظام پیش کیا۔ اس نظام کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی کے ڈیٹا کو چرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بغیر اجازت کے ویب سائٹ کو اوپن کر سکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری نے اس نظام کو اوپن سورس کر دیا۔ یعنی ہر کسی کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت دے دی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس نظام کو اپنے گھناونے جرائم کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

2۔ ورلڈ وائڈ ویب سے نیچے ڈیپ ویب ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس تک رسائی صرف متعلقہ لوگوں کی ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کے استعمال میں ہوتا ہے۔ مثلا آپ کسی ملک میں جانے کے لئے اپنے ملک میں موجود سفارت خانہ سے ویزا حاصل کرتے ہیں جب آپ اس ملک کے ائیر پورٹ پر پہنچتے ہیں تو ویزا دکھانے پر امیگریشن آفیسر اپنا انٹر نیٹ کھول کر آپ کی تفصیلات جان لیتا ہے کہ آپ وہی شخص ہیں جس نے ہمارے سفارت خانہ سے ویزا حاصل کیا ہے۔ یہ سارا ڈیٹا ڈیپ ویب پر ہوتا ہے،
چنانچہ امیگریشن آفیسر اپنا ڈیٹا اوپن کر سکتے ہیں کسی اور کا نہیں اسی طرح ہر کمپنی یا امیگریشن  کی رسائی صرف اپنے ڈیٹا تک ہوتی ہے۔
یعنی یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ نہیں ہوئی ہوتیں۔یہ بنک ریکارڈز، کمپنیوں کے ریکارڈز، سائنٹیفک رپورٹز، اکیڈیمک انفارمیشن حکومتی اور غیر حکومتی ریکارڈ وغیرہ یعنی تمام ایسی سائٹز ہیں۔ جن تک رسائی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب اُن کا ایڈریس یا ایڈمنسٹریشن ہمارے پاس ہو۔

3۔ پھر ڈیپ ویب سے نیچے نمبر آتا ہے ڈارک ویب جسےمریاناز ویب (Marianas web)بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا سب سے گہرا حصہ ہے۔ حقیقی دنیا میں سمندر کا سب سے گہرا حصہ مریاناز ٹرنچ کہلاتا ہے اسی لیے اسی کے نام پر اس ویب کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہایت مشکل ہے، سوائے اس کے جس کے پاس ڈارک ویب کی ویب سائٹ کا پورا ایڈریس ہو۔ عام طور پر ڈارک ویب کی ویب سائٹس کا ایڈرس مختلف نمبر اور لفظوں پر مشتمل ہوتا ہے اور آخر میں ڈاٹ کام کے بجائے ڈاٹ ٹور، یا ڈاٹ اونین وغیرہ ہوتا ہے۔یہاں جانے کے لئے متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، جب آپ پورا اور درست ایڈریس ڈالتے ہیں تو یہ ویب سائٹ اوپن ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں گوگل یا عام براوزر پر یہ اوپن نہیں ہوتی ، یہ صرفtor یا Onion ایکسٹینشنز پر ہی اوپن ہوتی ہے۔ان کے کچھ اپنے سرچ انجن بھی ہوتے ہیں جن پر  مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کر کے تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین، سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتیں ہیں۔انٹرنیٹ کی دنیا کے اس حصے یعنی ڈارک ویب میں خصوصی مارکیٹیں یعنی ’ڈارک نیٹ مارکیٹس قائم ہوتی ہیں جہاں غیر قانونی دھندہ ،ڈرگز، ویپنز، کنٹریکٹ کلنگز، چائیلڈز پورنو گرافی، پرائیویٹ لائیو فائٹس، ملکوں کے راز چُرانے اور بیچنے، انسانی اعضاء بیچنے اور خریدنے اور لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا یعنی ہر دو نمبر کام یہاں پر ہوتا ہے۔
ڈارک ویب پر ریڈ رومز ہوتے ہیں۔یعنی ایسے پیچز یا روم ہوتے ہیں جہاں لائیو اور براہ راست قتل و غارت گری،بدترین تشدد،چائلڈ پورنوگرافی وغیرہ دکھائی جاتی ہے، ایسے لوگ جن کی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے وہ اس قسم کے مناظر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں،
قارئین یقینا سوچیں گے کہ یہ بات نہ سمجھ میں آنے والی ہے بلا کوئی انسان بھی اس حد تک گر سکتا ہے،جو انسانوں کو اپنی ہوس و تشدد کا نشانہ بنائے،انسان کی درندگی و شیطانیت کی حدیں عبور کرنے کی مثالیں تو سینکڑوں پیش کی جا سکتی ہے لیکن ہم صرف ایک ہی مثال پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ آج سے تقریبا بائیس برس پہلے کا ایک کیس کچھ دوستوں کو یاد ہو گا جاوید اقبال مغل سو بچوں کو قتل کرنے والا درندہ جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا اُن کو قتل کرتا تھا اور اُن کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا تھا۔ جاوید اقبال مغل جسے جسٹس اللہ بخش رانجھا نے سو دفعہ پھانسی پر چڑھانے کا حُکم دیا تھا۔ اُسے ایک نفسیاتی مریض کہا گیا تھا۔
چنانچہ وہ ان ریڈ رومز میں جاتے ہیں وہاں ہر چیز کی بولی لگا کر دیکھتے ہیں۔
یہ دنیا ایسے معافیہ اور گروہوں کا مسکن ہوتی ہیں جو خود کو عام دنیا یا حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
اسی قسم کی ایک ویب سائٹ سلک روڈ ، پنک متھ کے نام سے بہت مشہور تھی جسے امریکی انٹیلی جنس نے بڑی مشکل سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹریس کر کے2015ء میں بلاک کر دیا تھا۔(یہ ویب سائٹس چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی اس لیے نام ذکر کیا گیا)
ایک سب سے اہم بات یہ بھی سن لیں کہ ڈارک ویب پر جتنا کاروبار ہوتا ہے وہ بٹ کوائن میں ہوتا ہے، بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی قانون اور ضابطے میں نہیں آتی اور نہ ہی ٹریس ہو سکتی ہے، کسی کے بارے یہ نہیں جانا جاسکتا کہ اس کے پاس کتنے بٹ کوائن ہیں۔ ڈارک ویب پر اربوں کھربوں ڈالرز کا یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔
یہ ڈارک ویب یا مریاناز ویب گوگل یا دیگر سرچ انجن کی پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے انہیں تلاش کرنا کافی دشوار ہوتا ہے۔

ایسی صورتحال میں ڈارک ویب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو مشکل ضرور بنا دیتی ہیں مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب سیکیورٹی ایجنسیاں ایسی ویب سائٹس تک پہنچنے اور ان کو چلانے یا استعمال کرنے والوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہیں۔

اس کی ایک مثال ڈارک ویب پر منشیات کا کاروبار کرنے والی بڑی مارکیٹ ’ سلک روڈ‘ کو چلانے والے شخص راس البرکٹ کی گرفتاری میں کامیابی ہے۔
اسی طرح امریکی ادارے ایف بی آئی نے حال ہی میں ڈاک ویب پر بچوں سے جنسی تشدد کی ویب سائٹ چلانے والے دو افراد کو بھی گرفتار کیا تھا۔
اسی طرح چند دن پہلے پاکستان میں بھی ڈارک ویب پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز دکھانے والے ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ڈارک ویب میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام ” سیڈستان (شیطان ) ” ہے ۔۔۔ اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔کیونکہ اس میں آپ کی جان جا سکتی ہے۔
لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔ آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا کافی ہے۔۔۔
ان تمام ٹیکنالوجیز کے برے استعمال ہیں تو ان سے بڑھ کر اچھے استعمالات بھی ہیں۔
ان کو اپنی نجی بات چیت خفیہ رکھنے، اپنی شناخت کو چھپا کر کسی جرم کی اطلاع دینے، حکومتی نگرانی سے بچنے، سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ریاست کے انتقام کا نشانہ بننے، حکومتی سینسر شپ سے بچنے، فری سپیچ،جاسوسی اور دیگر کاموں کے لئے مفید انداز میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اب آخر میں اس سوال کا جواب جو اس سارے معاملے کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ اس ویب پر پابندی ہی کیوں نہیں لگا دی جاتی۔؟

لیکن حقیقت یہ ہے کہ تکنیکی طور پر یہ پابندی محض ایک خام خیالی ہے۔ ٹیکنالوجی ایسی کسی پابندی کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ یہ چور سپاہی کی دوڑ ہے۔ دنیا بھر کے حکومتی ادارے چاہتے ہیں کہ آپ کی پرائیویسی نہ ہو، اور ٹیکنالوجی یہ ممکن بناتی ہے کہ آپ کی پرائیویسی برقرار رہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس پرائیویسی کو قانونی استعمالات میں لاتے ہیں یا جرائم کرنے کے لئے۔ ہر اچھی بری چیز کو اپنے خلاف سازش سمجھنا عقل مندی کی بات نہیں ہے اگر آپ ڈیپ ویب یا ڈارک ویب پر پابندی لگانا چاہتے ہیں تو یہ سوچ لیں کہ آپ انٹرنیٹ کی ان تمام سروسز پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہیں آپ پاسورڈ دے کر استعمال کرتے ہیں اور ان کے مواد کو پبلک نہیں کرنا چاہتے۔

مثال کے طور پر جیسے پستول یا کلاشن کوف ہم اپنی حفاظت اور سیکورٹی کے لئے بناتے ہیں، چھری سبزی کاٹنے کے لئے بنائی جاتی ہے، اب اگر کوئی اس چھری کو اٹھا کر کسی کے پیٹ میں گھونپ دے تو قصور چھری کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے، چھری پر اگر پابندی لگا دی جائے تو تمام انسان اس کے فوائد سے متاثر ہوں گے لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ جو اس کا غلط استعمال کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے اور باقی لوگوں کو پہلے سے ہی بتا دیا جائے کہ بھائی اس کا غلط استعمال آپ کی دنیا و آخرت برباد کر سکتا ہے۔
(بشکریہ  ای مصنفین جن کی نگارشات سے استفادہ کیا گیا۔)
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.dawatetohid.blogspot.com
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...