Tuesday, 13 March 2018

فقہ اسلامی کے چند اہم اصول

کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:5)
(مولف: عمران شہزاد تارڑ ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
فقہ اسلامی کے چند اہم اصولوں کو سامنے رکھ کر اگر استنباط کیا جائے تو "یوگا" کی ممانعت اور عدم ممانعت کی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
1۔مبادیات کی تحقیق:-  
یوگا کے مبادیات کی تحقیق کریں تو اس کی دو بنیادی باتیں راست کفر اور ہندو (ویدی یا برہمنی) مذہب سے جا ملتے ہیں۔ اس کا مصدر گیتا کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ دوسرے یہ کہ یوگا پر رشیوں  اور آچاریوں کا مکمل کنٹرول ہے اور بطور عبادت اس کی مشق کی جاتی ہے۔ یوگا کے مبادیات کی تحقیق(تخریج مناط)   Means to derivation of the basis or   pacification of the basic Characteristics سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک ہندو تہذیب کے عقائد کا اہم حصہ ہے۔
دوسری جانب یوگا بدھ مت مذھب کی تعلیمات کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔
اسی طرح یوگا کے اشلوکوں میں توحید، رسالت، کتاب ﷲ اور یوم آخرت کا انکار ہے۔ مخلوق کا خالق میں حلول کر جانے کا عقیدہ ہے۔ کفار کے ساتھ مشابہت ہے۔ غرض اس تخریج مناط کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یوگا ہندو تہذیب کے عقائد کا اہم حصہ ہے۔
اسی طرح اگر آپ یو ٹیوب میں یوگا پرے(yoga pray)لکھیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں ہندو اور بدھ مت میں "یوگا"ایک باقاعدہ پوجا و پرستش کے طور پر کی جاتی ہے۔
ہم یہاں صرف ایک اقتباس پیش کر کے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔۔
بدھ  مذہب  بنیادی طور پر ترک دنیا کی تعلیم دیتا ہے ۔ اس مذہب کے بانی گوتم بدھ ایک شہزادہ تھے تصوف و رہبانیت اور مادی آلائشوں سے طبعی نفرت رکھتے تھے ۔ ایک روز غم ، دکھ اور تکلیف کی مختلف تین حالتیں دکھیں جس کی وجہ سے دل برداشتہ ہو کر جنگلات کا رخ کیا ۔ اور وہاں گیان دھیان(مراقبہ) میں مصرف ہو گئے ۔  عرصہ دراز کی ریاضت و مراقبہ  کے بعد انکشاف حقیقت کے مدعی ہو گئے ۔ اور پھر الگ طور پر ایک مذہب کی  بنیاد رکھی ۔ چناچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بدھ مت ایک غیر سماوی اور خود ساختہ مذہب ہے یہ  زندگی کے بنیادی سوالات کے خلا کو جاہلانہ تصورات سے پر کرتا ہے ۔ ظاہر بات ہے جو مذہب سماوی نہیں وہ حقیقت بھی نہیں ہو سکتا بلکہ سماوی دین میں بھی اگر تحریف ہو جائے تو وہ غیرحقیقی بن جاتا ہے چہ جائیکہ ایک دین ہو ہی غیر سماوی۔
اس طرح روحانی قوت اور ضبط نفس کے حصول کی خاطر ریاضت کا اہم طریقہ "يوگا" ایجاد کیا گیا جس پر ہندو مت، بدھ مت اور جین مت کے پیروکار عمل پیرا ہیں۔( مقدمہ ارتھ شاستر:129)
اجمالي طور پر اگر ديکھا جائے تو بدھ متوں کے نظريات ہندو مت سے مختلف نہيں کيونکہ يہ بھی قانون‘ جزاوسزا اور تناسخ ارواح کے قائل ہيں ۔ بار بار کی پيدائش اور جزاوسزا سے نجات پانے کی خاطر برائی اور بھلائی سے رکنے اورخواہشات پر قابو پانے کی مراقبہ کی کوشش کرتے ہيں
اس مذہب کی بنیاد ’’حصولِ نروان‘‘ ہے
بدھ مت ميں نروان مذہبی زندگی کا مقصود ہے۔ گوتم بدھ زندگی کے مسئلہ کا جو شافی وکافی حل تلاش کر رہا تھا‘وہ اسے درخت کے نيچے مراقبہ کی حالت ميں نروان کی صورت ميں ملا۔نروان ايک ايسی حالت ہے جو عام ذہنی سانچوں سے بالاتر ہو۔
گوتم بدھ کے با قول نروان ہی ميں انسان کو دکھوں سے مکمل چھٹکارا اور ابدی مسرت حاصل ہو سکتی ہے اور وہی انسان کا حقيقی مطلوب ہو سکتا ہے۔
نروان کی حقيقت گوتم بدھ کے اپنے الفاظ ميں
بھکشوؤ(پيروکارو)!ايسي کيفيت موجود ہے جہاں نہ تو خاک ہے نہ پانی‘ نہ آگ ہے نہ ہوا‘نہ لامکانيت ہے‘نہ شعور کی لا محدوديت‘ نہ تو عدم شعور ہے اور نہ شعور‘ نہ تو يہ دنيا ہے اور نہ دوسری دنيا‘ نہ سورج ہے وہاں اور نہ چاند، اور ہاں بھکشوؤ! ميں کہتا ہوں وہاں نہ آنا اور نہ جانا‘ نہ ٹھہرنا ‘نہ گزر جانا اور نہ وہاں پيدا ہونا ہے ۔بغير کسی سہارے‘ کسی حرکت يا کسی بنياد کے ہے۔ بے شک يہی دکھوں کاخاتمہ (نروان)ہے۔‘‘
(دنياکے بڑے مذاہب… عمادالحسن فاروقی)
گوتم بدھ کے اس بيان سے يہی سمجھ ميں آتا ہے کہ ايسی کيفيت کا نام ہے جہاں انسان دنيا سے الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔ اس کے ذہن ميں کوئی دوسرا نقطۂ نہيں ہوتا۔ سوائے اس کے جو وہ اپنے ذہن ميں لے کر سوچتا ہے۔ اسے حالت ’’استغراق‘‘بھی کہتے ہيں ۔ ہميں زيادہ تفصيل ميں جانے کي ضرورت نہيں ۔ان کا يہ نظريہ جيسے بھی ہو اور جيسی کيفيت بھی ہو‘يہ اسلام کے فطری مزاج کے خلاف ہے۔ اس طريقہ سے خدا کی معرفت حاصل کرنا اور دنيا کے غموں سے نجات حاصل کرنا ۔ کوئی شريعت کا معاملہ نہيں ہے۔ دين اسلام نے ايسی تمام جاہلانہ حرکات وکيفيات کا سختی سے رد فرمايا ہے۔
دين اسلام نے دين کے ساتھ ساتھ دنيا بہتر بنانے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی ترغيب بھی دی ہے۔
فرمايا:
رَبَّنَا آَتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً۔(سورۃ البقرہ:201)
’’ا ے اللہ ہميں دنيا اور آخرت ميں بھلائی عطا فرما۔‘‘
مزيد فرمايا:وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا۔(سورۃ القصص۔77)
’’اور دنيا سے اپنا حصہ لينا مت بھولو۔‘‘8
2۔ سدباب الذرائع :-
  الف: شریعت ہر دو زاویوں سے مسئلہ کا تجزیہ کرتی ہے ایک اگر کسی امر کے سلسلے میں اس کے سد باب ذرائع  closing of the gate of mean سے کفر و شرک، برائی و منکرات اور لادینیت اور طواغیت کا خاتمہ ہو سکتا ہے تو سب سے پہلے ان ذرائع کے باب الداخلہ کو بند کر دیا جاتا ہے۔ تا کہ بندہ مومن اللہ کی فرمانبرداری، اطاعت، اور تقویٰ و پرہیزگاری میں کوئی خلل نہ پیدا کرے اور نہ وہ کفر کے قریب پہنچ سکے۔
ب: فتح الباب ذرائع  
  Opening of the gate of means
اگر کسی مسئلہ میں ایسے ذرائع کے ابواب کھول دئیے جائیں۔جن سے توحید، حق، خیر، ثواب،نیکی و تقویٰ کو تقویت ملے اور شرک، شر،برائی کے پیدا ہونے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے اور تمام بند دروازوں کو کھول دینا جس سے لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر مستفید ہوں اور اپنی ضرورت کے مطابق منفعت حاصل کریں اور کوئی گناہ اور برائی ہونے کا خدشہ نہ ہو تو وہ فتح الباب ذرائع کہلاتا ہے۔جبکہ یوگا کے تمام ذرائع ہندو مذہب کی تعلیمات کفر و شرک سے بھرپور اور عقیدہ اسلامی کے خلاف ہیں اور یوگا کی بنیادی تعلیمات سے راست ٹکراتے ہیں اور ان ذرائع کے ابواب کھولنے سے اسلامی عقائد، ایمانیات اور تہذیب و تمدن پر راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کسی بھی نیکی اور خیر کی آخری امید بھی ختم ہو جاتی ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یوگا کی اجازت سے ہندو مذہبی بنیادی تعلیمات سے راست تعلق یا بالواسطہ تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔؟اگر پیدا ہو بھی رہا ہے تو اس کی مقدار اس کی گہرائی کہاں تک پہنچے گی؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
3۔گناہ وجرم سے مُبرّا ہونا:
ایسے تمام افعال جس کے ظاہر وباطن میں کوئی ممنوع اور خلاف شرع بات نہ ہو اور اس کے کرنے سے کسی گناہ، شر اور منکر کے پیدا ہونے اور پھیلنے کاشبہ نہ ہو، فقہ میں ایسے اعمال کو گناہ سے مبرا قرار دیا جاتا ہے، جسے فقہ کی اصطلاح میں ارتفاع المسؤلیہ الجنائیہِ کہتے ہیں۔
عام کھیل کود اور تندرستی کے لیے ورزش وکسرت اصل کے اعتبار سے جائز اور مباح ہے۔ جب تک کہ کوئی منکر، شر اور گناہ کی چیز اس میں شامل نہ ہو اور کوئی دلیل ِحرمت اس میں نہ پائی جائے، مباح رہے گا۔
کسی شئے کو مباح قرار دینے سے قبل حسب ذیل چند سوالات کے تشفی بخش جوابات کا حاصل کرنا ضروری ہے۔
 ۱۔  جائز قرار دینے والی اصل شئے کون سی ہے؟۔
 ۲۔  اسے مباح قرار دینے کے لئے کن باتوں پر انحصار کیا جا رہا ہے؟۔
 ۳۔ کیا تحقیق و تجزیہ کے تمام مراحل طئے کئے جا چکے ہیں ؟جو مشروع قرار دینے کے لئے لازمی ہے۔
 ۴۔ کیا صرف قیاس analogy ، مفروضاتassumption ، ظاہر پسندیFormalism  کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی شئے کی عدم ممانعت کا فیصلہ کر لیں ؟
یوگا کا مسئلہ عام کھیلوں اور ورزش سے مختلف ہے۔ یوگا کو کھیلوں کے عام زمرے میں شامل رکھ کر اسے جائز قرار دینے سے کئی تقعدی مسائل پیدا ہوں گے۔ کیونکہ اس طریقہ ورزش میں ایسی کفریہ و مشرکانہ باتیں شامل ہیں جو اسے ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ نجی، عائلی، اجتماعی زندگی کو آفاقی دستور، روحانی، قانونی و اخلاقی ڈسپلن سے جوڑ رکھا ہے۔ ہر قدم اور موڑ پر چک اینڈ کنٹرول قائم ہے۔ شریعت اسلامی کی وسعت و آسانیوں کا استحصال کرنے یا تاویلات کے ذریعہ زندگی کے بڑے حصے کو اسلامی احکامات سے مستثنیٰ کر لینے کی کوئی عقل مند آدمی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔
بعض دانشور اور آزاد خیال تہذیب غیر سے متاثر حضرات کا یہ اصرار ہے کہ ’’ تمام اسپورٹس اور گیمس اور تفریحات کو بشمول یوگا کے مستقل طور پر مستثنیٰ قرار دینا چاہئیے تاکہ مبرا عام کے تحت مسلمان اپنے تعقد پسندی کے مطابق حصہ لیں۔ غیر ضروری کی پابندیاں روک ٹوک ان لوگوں کے نجی فیصلوں اور زندگی کی لذتوں و مشغولیات میں رکاوٹ نہ بنے۔‘‘
5۔   نصوص صریحہ  Clear text
یوگا کے سلسلے میں ہندو مذہبی(ویدی اور برہنمی) کتابوں میں مستند مواد میں نصوص صریحہ  clear text موجود ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یوگا کی بنیاد خالص کفر و شرک پر ہے۔ بھگوت گیتا میں یوگا کی سند موجود ہے اور یوگا میں پڑھے جانے والے سنسکرت کے اشلوک اس بات کی دلیل کے لئے کافی ہیں۔
خالق کائنات کا انکار، خودی، زندگی، عبادت وجود، کون و مکاں کا انکار، انسانی خداؤں کا اقرار یہ سب یوگا میں شامل ہے۔یوگا کے متعلق ارجن و سری کرشنا نے جو تعلیم دی ہے کہ ’’روحانی ارتقاء اور خواہشات ورگیا vargiya سے چھٹکارا و آزادی کے لئے یوگا ضروری ہے۔‘‘(ملاحظہ ہو صفحہ نمبر: light of yoga 1)
اسی طرح یوگا کے متعلق اگر شریعت اسلامی نصوص صریحہ کے متعلق سوال کیا جائے تو اس کی حرمت کا کوئی واضح حکم اصلین میں ہمیں نہیں ملتا اور نہ ہی  فقہاء نے کسی دور میں اس پر تحدیدات عائد کی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ گذشتہ صدیوں میں یہ مسائل ملت کے سامنے درپیش نہ تھے اور لوگ یوگا سے لا علم تھے۔
ایک مرتبہ کفر کی مقدس کتابوں سے دلیل ثابت ہو جانے کے بعد یوگا کے خلاف شریعت اسلامی میں واضح نصوص صریحہclear text  کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بلکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بلا کسی اختلاف کے مذکورہ حقائق کی موجودگی میں ’’یوگا‘‘ جسمانی ورزش کے طریقہ کار کا بڑا حصہ غیر اسلامی قرار پاتا ہے۔ اس میں راست کفر اور انکار رب و اللہ جل شانہ پایا جاتا ہے۔
اگر یوگا کے متعلق من حیث کل شریعت اسلامی کا حکم معلوم کریں تو پھر یہ ناجائز اور ممنوع قرار پاتا ہے۔کیونکہ یہ ورزش و کسرت ایک مخصوص مذہب کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اس طریقہ ورزش کا نہج اور طریقہ کار اور اجزاء ترکیبی کفر خفی سے بھرے ہوئے ہیں۔ یوگا کی کسرت محض صحت کی تندرستی کے لئے نہیں کی جاتی بلکہ روحانی و ہندو تہذیب کو پروان چڑھانے کے لئے کی جاتی ہے۔یوگا دراصل کفر و شرک کا علمبردار ہے۔
یوگا کی تمام بنیادی باتیں اور اصول راست اسلامی عقائد سے ٹکراتے ہیں۔
  ۱۔توحید، رسالت، کتاب اللہ اور یوم آخرت کا انکار۔
 ۲۔ مخلوق کا خالق میں حلول کر جانے کا عقیدہ و یقین۔
 ۳۔ تشبہ بالکفار۔
 ۴۔ہندو مذہبی کتابوں اور انسانی خداؤں کے ارشادات کی اطاعت اور فرمانبرداری۔
 ۵۔اپنے وجود و مخلوق کی پیدائش موت کا سراسر انکار۔
یوگا میں ہندو عقائد کے مطابق روحانی و جسمانی تربیت دی جاتی ہے۔ یوگا کی کسرت کا اصل نصب العین و مقصد ’’پر ماتما ‘‘خالق کل کی ذات میں اپنے آپ کو ضم کر دینا ہے۔ جسمانی صحت و تندرستی کا حصول ذیلی و ثانوی ہے۔
ایک مومن کا مضبوط عقیدہ یہ ہے کہ تمام صفات و کمالات، قدرت، طاقت اور کائنات کا مالک حکمراں و فرمانروا اللہ جل شانہ ہے۔ وہ زمین و آسمان، مشرق و مغرب کا رب ہے۔ وہ ابتداء سے ابد تک رہے گا۔ اس کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کا کوئی ہمعصر اور نائب اور جز ہے۔
انسان کو ہدایت دینے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔ نہج و ضابطے حیات، طریقہ زندگی کا اختیار صرف اللہ و رسول ؑ کو حاصل ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ پیدائش سے لے کر موت تک اس کی اتباع و اطاعت کی جائے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی طاقت و قوت جمادات و نباتات اور کسی شئے و مافوق الفطرت ذات اور مخلوق پر عقیدہ رکھنا سراسر کفر ہے۔ یوگیوں کا عقیدہ اور فکر اسلام کے عقائد و تعلیمات کے خلاف ہے۔
یوگا کی افادیت کو اگر قبول بھی کر لیا جائے تو یوگا کیندر و کیمپوں کے موقع و محل کو دیکھیں تو  ماحول Atmosphere غلبہ کفر Domination of kufr  اور کافرانہ اعمال حرکات و سکنات سے بھرا نظر آئے گا۔
یوگی گرو مہاراج زعفرانی کپڑوں میں ملبوس جٹو و بٹو کے ساتھ تربیت کا آغاز پرنام و نمسکار سے کرتے ہیں۔ یوگا کرنے والے افراد کا ڈریس کوڈ زعفرانی ہوتا ہے۔ تدریب کروانے والے گرو جی منتر اور اشلوکوں کو پڑھنے کے بعد دوران مشق بار بار اوم ہری اوم کی آوازیں حلق کی گہرائیوں سے نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ وقفہ وقفہ سے کئی طرح کے سری طور پر اشلوک INCANTATI   ONپڑھے جاتے ہیں۔ جس سے کفر کا ایک سماں بن جاتا ہے اور پھر سانس کو بار بار روک کر گیان و مراقبہ کروایا جا تا ہے۔
 یوگا کے متعلق سنجیدگی سے تین سوالات پوچھے جائیں تو اس کے جوابات سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جائے گی۔
  ۱۔یوگا کی تعلیمات اورسند کس مذہب کی ہیں ؟؟
 ۲۔یوگا کے مدرس اور داعی کون ہیں ؟
 ۳۔یوگا کی تحریک کے علمبردار اور اصل محرک و زعماء کون ہیں ؟
ان تینوں سوالات کے جوابات واضح ہیں۔ یوگا کے علوم، اس کے مدرس اور دعوت دینے والے علمبرداروں کی بنیادیں خالص ہندو شاستروں اور ویدوں پر ہے اور وہ سری کرشنا کی تعلیمات کے مطابق یوگا کی تبلیغ کا کام تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
جو بنیادی باتیں ایمان سے ٹکراتی ہیں وہ یوگا پر کفر کا غلبہ ہے۔یوگا کے عقیدہ اور تصورات میں صرف شرک کی ہی آمیزش نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر یوگا کی تمام تعلیمات کی عمارت کفر و باطل پر کھڑی ہیں۔
اضطراری و استثنائی صورتحال:-
  جن باتوں میں شدید جان و مال کے نقصانات کا خطرہ لاحق ہو۔ بھوک، افلاس، امراض شدید، غربت، ظلم و بربریت یا آفات سماوی جیسے طوفان، زلزلے، سیلاب، آتش فشاں اور متعدی امراض کا پھوٹ پڑنا، مصائب، ایمرجنسی میں ظالمانہ قوانین  و دہشت گردی، نقل مقامی کی اگر صورتحال پیدا ہو جائے تو ان حالات میں شریعت اسلامی میں اضطراری و استثنائی صورتحال میں فرائض، محرمات، ممنوعات اور ناجائز باتوں میں ضرورتوں کے مطابق کسی قدر چھوٹ دی جاتی ہے۔ اور کئی احکامات، اصول و ضوابط وقتی طور پر غیر نافذ اور غیر عمل ہوتے ہیں۔
عصری اور جدید بعض امور جو شرعی اعتبار سے مشتبہ ہوں جس میں ہلکے سے فرق سے جائز اور ناجائز کے احکام تبدیل ہو سکتے ہیں۔ فقہاء مصلحت  عامہInterest of the common good کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ شرعی فیصلہ صادر کرتے ہیں۔
ایسی کوئی اضطراری و استثنائی صورتحال نہ ہی درپیش ہے اور نہ ہی مصلحت عامہ کے تحت یوگا کو جائز قرار دیا  جا سکتا ہے۔ کیونکہ عامۃ الناس کو کوئی بڑا فائدہ یا نقصان اس ورزش کو کرنے یا نہ کرنے سے ہونے والا نہیں ہے۔ صرف چند لوگوں کے شوق اور عادت کی خاطر یوگا کو مباح قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ یہ کبھی مسلم معاشرہ کی اجتماعی ضرورت نہیں رہی۔
14صدیوں سے امت اسلامیہ الحمد للہ بغیر یوگا کی ورزش کے صحت مند ہشاش بشاش، فعال اور متحرک ہے۔ تاریخ میں کبھی نہ یوگا کی ضرورت پڑی اور نہ مستقبل کبھی پڑھے گی۔
معروف و معترف علماء دین اپنے اختیار شرعی کو اختیار کر کے اس ورزش کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ جس میں کفر کی قدم قدم پر ملاوٹ و رہبری ہو۔
اسلام نے بنیادی باتوں میں پسند، ناپسند اور رد کا اختیار مومن کو نہیں دیا۔بلکہ خود پسند اور من مانی زندگی کے راستوں کو کاٹ دیتا ہے۔ جو کوئی نفس کی خواہشات کی پیروی کرے گا اس کے لئے ہدایت کی تمام راہیں ختم ہو جائیں گی۔ کسی بھی زمانے کے رائج کردہ ایسے العاب sports & games  یا کسی بھی فیلڈ میں حصہ لینا جو اسلامی عقائد کے منافی ہیں۔ اسلام میں اس سے احتیاط اور اجتناب کو ترجیح دی گئی ہے۔
".. وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ۔(قصص: ۵۰)
اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ﻇالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"
    
کسی خاص قسم کی ورزش سے جسمانی قوت حاصل بھی ہو جائے تو کل اس کا زوال اور کمزوری و بڑھاپے سے دوچار ہونا فطری و یقینی ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یوگا کی پراکٹس محض صحت مندی، بلڈ پریشر، ذیابطیس وغیرہ جیسے امراض کو دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے تو ایک بندہ مومن کے لئے یہ سزاوار نہیں کہ وہ مشکوک عمل اور مشرکانہ طریقہ علاج کو اختیار کرئے۔بلکہ وہ کسی متبادل علاج کو اختیار کرے۔ توکل اور صبر سے کام لے اور اللہ پر کامل یقین رکھے۔
"وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ۔(شعراء: ۸۰)
اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو (اللہ) مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔"
"وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ۔(العنکبوت ۶۴)
اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کاش! یہ جانتے ہوتے۔"
 مومن کی زندگی کا مقصد دنیا میں کھیل تماشہ اور تفریح نہیں ہے بلکہ ایک نصب العین کے تحت دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔
دنیا میں انسان کی زندگی عارضی ہے۔ انسان دنیا میں لازوال بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ پیدائش سے لے کر موت تک کی مدت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ پیڑیوں پر پیڑیاں، نسلوں پر نسلیں تیزی سے گذرتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن زندگی کے ان چند سالوں میں ہی  ’’بماقدًمت لغد ‘‘ کل یعنی آخرت کے لئے زاد راہ (توشہ) تیار کرنا ہوتا ہے۔
 مومن کا مقصدِ زندگی صرف کسرت اور ورزش کے ذریعہ بہت بڑے Body Builder  بننا یا عظیم کھلاڑی بننا نہیں ہے۔ بلکہ اسلام انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو ایک دوسرے سے مربوط کر کے ایک طاقتور امت بنانا چاہتا ہے جو اللہ کی رضاء کے لئے حق کو غالب کرئے،کفر و شرک، باطل سؤ و منکرات کا خاتمہ کرئے اور اصلین، کتاب و سنت کے مطابق مضبوط معاشرہ تیار کرے۔  
جسمانی بیماری سے زیادہ مہلک کفر و شرک اور تشکیک قلب کی بیماری ہوا کرتی ہے۔
 جب کسی پر کفر کا رعب چھا جائے اور ان کے دل و دماغ میں مشرکانہ دلکش باتیں جاگزیں ہو جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے قلب و ذہن کو نفاق،  کفر و شرک کے مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔
جسمانی ظاہری امراض کے کئی طرح کے علاج ممکن ہیں۔لیکن تعقدی امراض کا علاج ممکن نہیں ان کے دل و بدن میں ٹیڑھ پیدا ہونے لگتی  ہے۔ لوگ باوجود افہام و تفہیم کے اسے غیر اسلامی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق سورہ بقرہ آیت ۱۰میں فرمایا:
"فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا..۔البقرہ:۱۰)
ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا۔"

 کفر،طغیان، شرک اور سوء و شر کے منظم و غیر منظم دائروں، اداروں، کیندروں اور کیمپوں و مندروں میں کچھ سیکھنے اور حاصل کرنے کے لئے بار بار جانا بھی دل کے مرض کی علامت ہے۔ حق و خیر سے دور باطل و شرک  سے زیادہ قریب ہونا ایمان و عمل صالح کو خطرہ میں ڈالنا اور اللہ کی ناراضگی کو مول لینا ہے۔
ہر فن اور علم کے پیمانوں کا تعین اس کے مستند قوانین، اس کے شارحین، اس کی ماہیت، دائرہ کار اور ہدف سے ہوتا ہے۔ یوگا پر تحقیقاتی نظر ڈالیں تو تمام دلائل و شواہد ہمیں مل جاتے ہیں۔
لیکن ہمیں سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرنا چاہئیے کہ کیا یوگا ہندو مت(ویدی یا برہنمی) کا حصہ ہے؟ اور کیا یوگا ہندو مذہبی عقیدہ کے مطابق ایک مقدس مذہبی عمل(عبادت)ہے یا نہیں ہے؟۔۔۔
ہندوؤں کی مذہبی مقدس کتاب بھگوت گیتا کے چھٹا باب فلسفہ یوگا میں سری کرشنا نے ارجن کو یوگا کے سلسلے میں تفصیل سے سمجھایا اور کہا کہ یوگا درد و الم سے چھٹکارہ دلاتا ہے۔ اور یوگا کی مشق کرنے والا یوگی روحانی الٰہیہ کی نعمت سے نفس کا اطمینان پا لیتا ہے۔
 ’’کرشنا آپ نے کہا کہ یوگا برہمن (آفاقی روح) کے ساتھ اپنے خیالات و احساسات کا تبادلہ ہے۔
ارجن نے سری کرشنا سے پوچھا تم نے یوگا کے متعلق بتایا،روح کے متعلق بتایا۔لیکن انسان کی عقل ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ عقل مضبوط، ضدی اور پر مقصد ہوتی ہے۔اس کو ہوا کی طرح نہیں خارج کیا جا سکتا ہے۔کرشنا نے جواب دیا یقیناً عقل مضطرب ہوتی ہے اور اس پر گرفت مشکل ہوتی ہے۔ لیکن اس کی تربیت ابھیاسا (Abhyasa) کے ذریعہ کی جا سکتی ہے اور خواہشات اور ورگیا Vargayaسے چھٹکارا اور آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر light of yoga 20)
ہندو نظریات کے مطابق اگر ایک شخص اپنی عقل پر کنٹرول نہیں رکھ سکتا ہے تو وہ خالق و آفاق میں ضم نہیں ہو سکتا لیکن اگر وہ نفس پر کنٹرول کرنے اور صحیح رخ پر سخت جدوجہد کرنے والا ہو تو اس کو پا لیتا ہے۔
 پتنگلیpatangali  کے مطابق یوگا کے 8  مدارج ہیں۔
۱۔یاماYAMA  عمومی اخلاقی احکامات
۲۔نیاماNIYAMA  ذاتی نفس کی تطھیر اور ڈسپلن
۳۔آسناASNA  جسم کی ساخت
۴۔پرانیماPRANAYAMA روح پر گرفت
۵۔پرتیھاراPRATYAHARA  احساسات کے غلبہ سے اجتناب کرنا
۶۔دھراناDHARANA  توجہ مرکوز کرنا
۷۔دھیانا DHAYANA  مراقبہ
۸۔سمادھیSAMADHI  گہرے غورو فکر اور مراقبہ جس کا مقصد پرماتما  آفاقی روح میں ضم ہو جانا۔
یوگا کی تشریح میں بھگوت گیتا میں ایک اور مقام پر لکھا ہے کہ :   ’’کرما یعنی یوگا وہ جو عمل کے ساتھ ہو۔یوگا ذاتی خواہشات و  خود غرضی سے چھٹکارا دلاتا ہے۔کامیابی و ناکامی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘‘
مذکورہ بالا فقہ کے ان اصولوں کی روشنی میں یوگا کے مبادیات کفر وشرک سے ملتے ہیں۔ گناہ وشر سے مبرا بھی نہیں ہے۔ یوگا کے نصوص بھگوت گیتا سے ملتے ہیں۔ یوگا کے ذرائع کے دروازے کو کھول دینے سے اعتقادی کمزوریاں اور ایمانیات پر برے اثرات پیدا ہوں گے۔ تو صرف اصل کے اعتبار سے یوگا کی ورزشی والی کیفیت پر نظر رکھتے ہوئے اسے مباح اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے؛ بلکہ سد باب ذرائع کے پیش نظر یوگا کو بالکلیہ ممنوع اور مسلمانوں کے لیے ناجائز قرار دیا جائے گا۔(جاری ہے۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر اینڈ
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...