کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:13)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
یوگا سے متعلق علماء اسلام کے فتاوی وآراء
ملیشیا کی مجلسِ اسلامی کبیر کا متفقہ فیصلہ ہے کہ 'یوگا' حرام ہے، کیوں کہ یہ ریاضت بدھ مذہب کے دین اور بدھسٹوں (Bugghist) سے مربوط ہے، اور اس کا طریقہ اس مذہب کی حرکاتِ دینیہ پر مشتمل ہے۔
کویتی علماء دین نے اس فتوی سے اپنے اتفاق کا اظہار کیا۔
اسی طرح دکتور عجیل النشمی (جو علوم شرعیہ کے مشہور ومعروف اسکالر ہیں)، دکتوربسام الشطبی(فقہ وشریعت کے مہشور ومعروف عالم)،دکتور عبد اللہ الہبدان( نورالاسلام ویب سائٹ)، فوزبنت عبد اللطیف الکردی ( ماہرعلم عقائد وادیانِ معاصرہ ) وغیرہ، اور ان کے علاوہ بہت سارے علماء کرام نے ”یوگا“ کو حرام قرار دیا ہے۔
مفتی مصر فضیلة الشيخ على جمعه فرماتے ہیں:
یوگا ہندو مذہب کی عبادت کا ایک طریقہ ہے اسے بطور عبادت اپنانا جائز نہیں ہے ,اس کو عبادت قرار دینا گمراہی ہے کیونکہ یہ ایک مذھب کی عبادت کا طریقہ کار ھے اس لئے اس کو عام حالت میں بھی اپنانا درست نہیں ہے
کیونکہ نبی علیہ السلام نے کفار سے دینی لحاظ,لباس ,کھانے اور پینے کی مشابہت والے امور سے منع کیا ہے ایک مسلمان کو اسے نہیں اپنانا چاہیۓ۔(فتاوی عصریة:ص۴۵۱)
انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان عبدالرحیم قریشی کا کہنا ہے کہ ”جو لوگ اسلام پر یقین رکھتے ہیں وہ صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں، جس نے انہیں زمین پر بھیجا ہے۔یوگا کی اصل شکل اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر لا کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوگا کے آسن ”اوم” پڑھ کر شروع کئے جاتے ہیں۔ تمام آسنوں کے اشلوک ہوتے ہیں۔ سوریہ نمسکار بھی ایک آسن ہے جس میں یوگ کرنے والا شخص ہاتھ جوڑ کر سورج کے سامنے جھک جاتا ہے۔
"یُوگا کی تربیت سے ارباب دارالعلوم دیوبند بھی متفق نہیں ہیں، چنانچہ یہاں سے اس کے عدم جواز کا فتویٰ جاری ہو چکا ہے،
"کہ یوگا میں ہندوانہ مذہبی طرز کے اعمال اور شرکیہ اقوال کہے جاتے ہیں کسی مسلمان کے لیے اس کا کرنا جائز نہیں ہے۔(آن لائن فتوی نمبر:250=12tb-3/143،اور 293=293 دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
مفتی محمد جعفر ملی رحمانی کا کہنا ہےکہ آج کل ایک ورزش جسے ہم ”یوگا“ کے نام سے جانتے ہیں، بہت عام ہو رہی ہے، جبکہ اس کی حقیقت کو جاننے سے معلوم ہوتا ہے کہ "یوگا" تعلیماتِ اسلام کے سراسر خلاف اور متصادم ہے۔(دارالافتاء جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم ،مہاراشٹر، الہند)"
"یوگا سے متعلق الجامعہ البنوریہ پاکستان سے سوال کیا گیا جس کا جواب دیا گیا کہ
اپنا وزن کم کرنے یا صحت برقرار رکھنے کے پیشِ نظر جسمانی ورزش مقصود ہو تو اس میں "یوگا" کا اعتبار یا اس کے طریقہ کار کا لحاظ رکھنے کی کیا ضرورت ہے،اس کے لیے تو کئی ایک ایکسر سائز معروف ہیں،اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ کئی ایک سینٹر بھی قائم کیے گئے ہیں،وہاں جا کر اپنی مطلوبہ ورزش کی جا سکتی ہے۔
جبکہ ہندو قوم اپنے جسمانی "یوگا" میں بھی دورانِ ورزش اپنا سانس اور دل کی دھڑکن تک کو بند کرنے کی کوشش اور اس دوران اپنے معبود بھگوان(مختلف دیوی دیوتاؤں) کا تصوّر لاتے ہیں۔اس بنا پر اس سے منع کیا گیا ہے۔جبکہ محض جسمانی ورزش منع نہیں ہے۔ہاں اگر اس دوران کسی قسم کے غیر شرعی امر کا ارتکاب کرنا پڑتا ہو تو پھر اس ممنوع امر سے احتراز لازم ہوگا۔
(دارالافتاء والقضاءالجامعہ العالمیہ بنوریہ سائٹ کراچی پاکستان،آن لائن فتوی نمبر:8758۔6/29/2010۔
علماء اہلحدیث کا کہنا ہے کہ "یوگا" محض ایک ورزش نہیں بلکہ اس کی مذہبی حیثیت رہی ہے، جس کی مضبوط جڑیں ہندو دھرم میں پائی جاتی ہیں۔ اور اس کے مختلف آسنوں میں شرک و کفر کی آمیزش ہے۔
شریعت نے کفار سے مشابہت قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔کسی مسلمان کے لیے اس کا کرنا جائز نہیں ہے۔اس لئے جسم کو تندرست رکھنے کے لئے اسلامی اصولوں کے مطابق ورزش کا اہتمام کیا جائے ۔
(ڈاکٹر یاسر صدیق مدیر و خطیب مرکز البدر منڈی بہاؤالدین،عبداللہ ناصر رحمانی بن حاکم الدین رحمانی مدیر جامعہ ام سلمٰی ؓ للبنات کراچی۔قاری محمدحنیف ربانی,
سرپرست:مدرسہ عائشہ صدیقہؓ للبنین والبنات,داؤدگوٹھ بلدیہ ٹاؤن کراچی....(تصدیق بذریعہ واٹس اپ)
معروف عالم دین اسکالر ڈاکٹر مرتضی بن بخش اپنی ویب سائٹ اصحاب الحدیث پر یوگا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ
یوگا لفظ سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معانی ان کے نزدیک دو چیزوں کا متحد ہونا اس سے مراد عابد کا معبود کے ساتھ متحد ہونا اور ان دونوں کے اتحاد کے لئے تین چیزوں کا اتحاد لازمی ہے،انسان کا جسم،اس کی عقل اور اس کی سانس،جب یہ متحد ہو جاتی ہیں تو پھر عابد معبود میں متحد ہو جاتا ہے،یوگا کی ابتدا سوریہ نمسکار(سورج کی پوجا) سے ہوتی ہے خاص طریقے سے فوکس کر کے عقل سانس،جسم کو متحد کرنے کی کوشش ہوتی ہے،جس کا مرکز سورج ہوتا ہے اس طرح سورج کی پوجا کرنا شرک ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا...۔(النساء:36)
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
اور یوگا ہندو مذہب کی نشانی بن چکی ہے اور کفار کی مشابہت کرنا حرام ہے۔
آپ صلی اللہ نے فرمایا :مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ'جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، حدیث نمبر ۴۰۳۰)
معروف عالم دین مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک نے بھی سوال وجواب نشست میں یوگا کو ویدی اور بدھمت مذہب کا حصہ قرار دیتے ہوئے حرام قرار دیا ہے جس کی تفصیلات یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
Is Yoga against Islam? by Dr Zakir Naik
اسی طرح مفتی الشیخ محمد صالح المنجد حفظہ اللہ نے بھی یوگا کو ہندو مذہب کا حصہ قرار دیا ہے۔ جس کی مکمل تفصیلات مندرجہ ذیل لنک میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
https://islamqa.info/en/101591
معروف محقق مصنف مبشر نذیر صاحب کا کہنا ہے
یوگا کے بہت سے طریقے ہیں جس میں ہندو اور بدھ مت مذاہب کے لوگ اپنے بتوں کی عبادت کی شکل بنا دیتے ہیں۔اس نوعیت کی پریکٹس شرکیہ عمل ہیں۔ جس سے ہمیں بچنا چاہیے۔
البتہ جو پریکٹس شرک اور دین کے خلاف نہ ہو اس میں شریعت میں اعتراض نہیں ہو سکتا ہے۔
http://www.mubashirnazir.org/)"
اسی طرح ترکی،ایران، شام وغیرہ کے علماء نے بھی کافی تحقیق اور بحث ومباحثہ کے بعد "یوگا" کو مکمل طور پر حرام و ناجائز قرار دیا ہے۔
جن کے اگر یہاں نام لکھنا شروع کیے جائیں تو ایک کتاب بن جائے۔
اسلام ایک فطری، طبعی، نظری، اور کامل دین ہے، اس نے اپنے احکام میں اپنے ماننے والوں کی تمام ضرورتوں اورحاجتوں کا خیال رکھا ہے، اسی لئے اس نے ہر اس چیز کو جائز قرار دیا جس میں انسان کیلئے دنیوی راحت اور اخروی سعادت ہے ، اور ہر اس چیز کو منع کیا جو اس کیلئے دنیا میں تکلیف اور آخرت میں ناکامی ونامرادی اور خدائی ناراضگی کا باعث ہوسکتی ہے۔(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *