کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:8)
(قسط نمبر:8)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
سوریہ نمسکار (سوریا پراناما):
یوگا کے مشق میں سوریا پراناماSurya Pranayama یا نمسکار بہت اہم ہے۔ یوگی کے لئے ضروری ہے کہ مشق کی ابتداء یا اختتام پر مشرق کی جانب آنکھیں بندھ کر کے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پراناما (آداب و سلام) بجا لائے۔یوگا اصل میں گیان اور دھیان کا ایک طریقہ ہے جس کا مقصد دیوی دیوتاؤں کے آگے خود سپردگی ہے۔ سوریہ نمسکار یعنی سورج کی پرستش یوگا کا ایک اہم عنصر ہے۔
یوگا کا پہلا آسن سوریہ آسن ہے جس میں سورج کو نمشکار کیا جاتا ہے اسکی ابتدا بھی اوم سے ہوتی ہے اور پھر اوم آدتیائے نمہ۔ اوم ساوترائے نمہ۔ اوم آرکائے نمہ۔ اوم بھاسکریائے نمہ۔ کا جاپ کیا جاتا ہے (ترجمہ: نمشکار اس کو جو آدیتی کا بیٹا ہے نمسکار اس کو جو زندگی کا مالک ہے نمسکار اس کو جو تعریفوں کا حقدار ہے، نمسکار اس کو جو تقدیر اور عقل کا دینے والا ہے) اور یہ بھی پڑھاجاتا ہے:
اوم گروربرہمہ اوم گرورویشنو اوم گروردیومہیشور گرو ساکشت پر براہمہ
(گرو برہما ہے گرو وشنو ہے گروشیو ہے میں ان گروئوں کے آگے جھکتا ہوں)
بھونما یہ منتر اسمدرا وسنے دیوی پرور تھنہ نمستھوہیوم پدشپرسم کشما وسم۔ (یعنی بھو دیوی آپ کا لباس سمندر ہے پہاڑ آپ کا سینہ ہے میں آپ کے آگے جھکتا ہوں میرے گناہوں کو معاف کردیجئے) اتنے سارے منتر اور جاپ صرف سوریہ آسن کے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی جاپ ہیں جو سوریہ آسن میں پڑھے جاتے ہیں تب کہیں جاکر سوریہ آسن کا عمل پورا ہوتا ہے۔
اس طرح یوگا ایک مکمل مذہبی عمل اور ایک طریقہ عبادت اور بھکتی کی راہ ہے یوگ کی بنیاد میں کہیں بھی صحت اور حفظان صحت کی بات نہیں کی گئی ہے اور نہ دھارمک کتابوں میں یوگا کو صحت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
ویدک عہد سے پہلے ہی یوگ کا عمل جاری تھا اور ویدک دور میں یہ ویدک کلچر کا بھی حصہ بن گیا پرانی مورتیاں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے نقش و نگار بھی یوگ کے شہادت دیتے ہیں اور یوگ کے ایک اہم حصہ جنسیات کے آثار بھی مورتیوں اورنقش و نگار کی شکل میں ملتے ہیں اس طرح برہمنی دھرم کا اثر کلچر اور تہذیب پر نمایاں رہا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ یوگ برہمنی دھرم اور ویدک کلچر کا اہم حصہ ہے۔
بی کے ایس اینگر نے ویدوں کے حوالے سے اس کی تعریف میں لکھا ’’پراناما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہو جاتی ہے اور مقدس آگ کے شعلے انہیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کر دیتے ہے۔ تب ایک شخص دھرانا Concentration اور دھیاناDhyana Meditation کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔
(صفحہ:۴۶۱:Light of yoga )
یوگا کا پہلا آسن سوریہ آسن ہے جس میں سورج کو نمشکار کیا جاتا ہے اسکی ابتدا بھی اوم سے ہوتی ہے اور پھر اوم آدتیائے نمہ۔ اوم ساوترائے نمہ۔ اوم آرکائے نمہ۔ اوم بھاسکریائے نمہ۔ کا جاپ کیا جاتا ہے (ترجمہ: نمشکار اس کو جو آدیتی کا بیٹا ہے نمسکار اس کو جو زندگی کا مالک ہے نمسکار اس کو جو تعریفوں کا حقدار ہے، نمسکار اس کو جو تقدیر اور عقل کا دینے والا ہے) اور یہ بھی پڑھاجاتا ہے:
اوم گروربرہمہ اوم گرورویشنو اوم گروردیومہیشور گرو ساکشت پر براہمہ
(گرو برہما ہے گرو وشنو ہے گروشیو ہے میں ان گروئوں کے آگے جھکتا ہوں)
بھونما یہ منتر اسمدرا وسنے دیوی پرور تھنہ نمستھوہیوم پدشپرسم کشما وسم۔ (یعنی بھو دیوی آپ کا لباس سمندر ہے پہاڑ آپ کا سینہ ہے میں آپ کے آگے جھکتا ہوں میرے گناہوں کو معاف کردیجئے) اتنے سارے منتر اور جاپ صرف سوریہ آسن کے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی جاپ ہیں جو سوریہ آسن میں پڑھے جاتے ہیں تب کہیں جاکر سوریہ آسن کا عمل پورا ہوتا ہے۔
اس طرح یوگا ایک مکمل مذہبی عمل اور ایک طریقہ عبادت اور بھکتی کی راہ ہے یوگ کی بنیاد میں کہیں بھی صحت اور حفظان صحت کی بات نہیں کی گئی ہے اور نہ دھارمک کتابوں میں یوگا کو صحت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
ویدک عہد سے پہلے ہی یوگ کا عمل جاری تھا اور ویدک دور میں یہ ویدک کلچر کا بھی حصہ بن گیا پرانی مورتیاں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے نقش و نگار بھی یوگ کے شہادت دیتے ہیں اور یوگ کے ایک اہم حصہ جنسیات کے آثار بھی مورتیوں اورنقش و نگار کی شکل میں ملتے ہیں اس طرح برہمنی دھرم کا اثر کلچر اور تہذیب پر نمایاں رہا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ یوگ برہمنی دھرم اور ویدک کلچر کا اہم حصہ ہے۔
بی کے ایس اینگر نے ویدوں کے حوالے سے اس کی تعریف میں لکھا ’’پراناما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہو جاتی ہے اور مقدس آگ کے شعلے انہیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کر دیتے ہے۔ تب ایک شخص دھرانا Concentration اور دھیاناDhyana Meditation کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔
(صفحہ:۴۶۱:Light of yoga )
" ہندو مذہب کے عقائد میں سوریا پوجا کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ زندگی کے بیشتر کام طلوع شمس کے رخ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں۔ہر روز سورج کی پوجا و پرستش کی جاتی ہے۔ تمام مندروں کے دروازے مشرق کی طرف کھلتے ہیں۔ سورج، چاند،ستارے اور زمین، بحر،پہاڑوں و دریاؤں کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔
آج بھی بھارت میں دریائے جمنا،چندی گڑھ اور کئی دیگر شہروں میں ہر سال چیٹھ یا چھاتھ
کا تہوار مناتے ہیں اور اس دن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت پانی میں پوجا کی جاتی ہے۔
یہ تہوار اس سے منسلک پوجا کا اہتمام خاص طور پر سورج دیوتا (سوریا)،آگ دیوتا (اگنی) اور دیوتا کرتیکیا کی پرتش اور ان سے منتیں مانگنے کے لیے کیا جاتا ہے۔دریاؤں کے علاوہ پورے بھارت کے مندروں میں بھی سورج کی پوجا کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
کا تہوار مناتے ہیں اور اس دن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت پانی میں پوجا کی جاتی ہے۔
یہ تہوار اس سے منسلک پوجا کا اہتمام خاص طور پر سورج دیوتا (سوریا)،آگ دیوتا (اگنی) اور دیوتا کرتیکیا کی پرتش اور ان سے منتیں مانگنے کے لیے کیا جاتا ہے۔دریاؤں کے علاوہ پورے بھارت کے مندروں میں بھی سورج کی پوجا کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
تاریخ انسانی میں جن اقوام نے انبیاء و رسل کی لائی ہوئی نور ہدایت کا انکار کیا اور جہالت و گمراہی میں ڈوبے رہے ان میں کفر و شرک اپنی انتہاء کو تھا۔ وہ سورج کے علاوہ نظام شمسی میں پائے جانے والے تمام سیاروں اور ستاروں و کہکشاؤں کی بھی پرستش کیا کرتے تھے۔
ہزاروں سال قبل ہندو مہاگروؤں میں مشہور ماہرین نجوم و فلکیات گذرے ہیں۔ عقل قدیمہ نے نظام شمسی کی کارکردگی کو دیکھ کر دھوکہ کھایا اور اسے اپنا رب اکبر سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور یہ ہندو عقیدہ کی بنیاد کا بڑا حصہ بن گیا۔جس کی تفصیلات مولف عمران شہزاد تارڑ کی کتاب"رزق میں فراخی کے اسباب اور مشکلات کا حل"میں ملاحظہ کریں۔
سوریہ نمسکار سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت اس کی پوجا کرنے کا قدیم طریقہ ہے،اور یوگا کے آسنوں میں سے ایک آسن ہے، صبح کے وقت ہندودھرم کے ماننے والےمردو خواتین کھڑے ہو کر سورج کی پوجا کرتے ہیں،اور مختلف آسنوں کے ذریعہ سورج کو سلام اور سجدہ کیا جاتا ہے، سوریہ نمسکار ہزار تاویلات کے باوجود بنیادی طور پر سورج کی عبادت کرنا ہے،جیسا کہ سناتن دھرم یعنی ہندو مذہب کی مقدس کتابیں اس کے اعتراف سے بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کےہندو مذہبی رہنما اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں، لیکن چونکہ اس شرکیہ عبادت کو علی الاعلان مسلط کرنا ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ممکن نہیں ہے اس لئے فرقہ پرست تنظیموں نے مختلف گمراہ کن حیلے بہانے تراشتے ہوئےاور اس حقیقت کو چھپانے کےلئے یہ کہا کہ سوریہ نمسکار کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب یاجسمانی ورزش سے ہے اور ہر آدمی کو اپنی تہذیبی اقدار نیز صحت کا خیال رکھتے ہوئے سوریہ نمسکار کرنا چاہئے۔
سوریہ نمسکار ہو یا یوگا قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے،یوگا کے سلسلے میں ہندو مذہبی کتابوں میں مستند مواد میں نصوص صریحہ موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یوگا کی بنیاد خالص کفر و شرک پر ہے،
یوگا اور سوریہ نمسکار کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ،شیطان نے ہر زمانے میں لوگوں کو سورج کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے ، اور انسانوں کے مابین سورج کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے تصورات دلوں میں پیوست کیے ،جبکہ سورج کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ وہ اللہ کی من جملہ مخلوقات میں سے ایک ہے،
اللہ نے اس کو پیدا کیا اور اس کے لئے ایک متعینہ رفتار رکھی ،
قرآن مجید میں ہے
''وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُون۔
وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔"(سورہ الانبياء۳۳ )
سورج کاطلوع ہونا اور غروب ہونا اور روزانہ کی مسافت کا طے کرنا یہ سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے،وہ اپنے رب کا غلام ہے لیکن ہر زمانے میں انسانوں نے اسے رب کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے،
حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میں بھیجے گئے تھے اس قوم میں سورج چاند اور ستاروں کی پوجا ہوتی تھی،قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ۔
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔(سورہ الانعام:78،79)
پھر جب سورج کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وه بھی غروب ہو گیا تو آپ نے(اپنی قوم) فرمایا بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس(اللہ تعالی) کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
ہزاروں سال قبل ہندو مہاگروؤں میں مشہور ماہرین نجوم و فلکیات گذرے ہیں۔ عقل قدیمہ نے نظام شمسی کی کارکردگی کو دیکھ کر دھوکہ کھایا اور اسے اپنا رب اکبر سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور یہ ہندو عقیدہ کی بنیاد کا بڑا حصہ بن گیا۔جس کی تفصیلات مولف عمران شہزاد تارڑ کی کتاب"رزق میں فراخی کے اسباب اور مشکلات کا حل"میں ملاحظہ کریں۔
سوریہ نمسکار سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت اس کی پوجا کرنے کا قدیم طریقہ ہے،اور یوگا کے آسنوں میں سے ایک آسن ہے، صبح کے وقت ہندودھرم کے ماننے والےمردو خواتین کھڑے ہو کر سورج کی پوجا کرتے ہیں،اور مختلف آسنوں کے ذریعہ سورج کو سلام اور سجدہ کیا جاتا ہے، سوریہ نمسکار ہزار تاویلات کے باوجود بنیادی طور پر سورج کی عبادت کرنا ہے،جیسا کہ سناتن دھرم یعنی ہندو مذہب کی مقدس کتابیں اس کے اعتراف سے بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کےہندو مذہبی رہنما اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں، لیکن چونکہ اس شرکیہ عبادت کو علی الاعلان مسلط کرنا ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ممکن نہیں ہے اس لئے فرقہ پرست تنظیموں نے مختلف گمراہ کن حیلے بہانے تراشتے ہوئےاور اس حقیقت کو چھپانے کےلئے یہ کہا کہ سوریہ نمسکار کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب یاجسمانی ورزش سے ہے اور ہر آدمی کو اپنی تہذیبی اقدار نیز صحت کا خیال رکھتے ہوئے سوریہ نمسکار کرنا چاہئے۔
سوریہ نمسکار ہو یا یوگا قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے،یوگا کے سلسلے میں ہندو مذہبی کتابوں میں مستند مواد میں نصوص صریحہ موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یوگا کی بنیاد خالص کفر و شرک پر ہے،
یوگا اور سوریہ نمسکار کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ،شیطان نے ہر زمانے میں لوگوں کو سورج کی عبادت کی طرف دعوت دی ہے ، اور انسانوں کے مابین سورج کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے تصورات دلوں میں پیوست کیے ،جبکہ سورج کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ وہ اللہ کی من جملہ مخلوقات میں سے ایک ہے،
اللہ نے اس کو پیدا کیا اور اس کے لئے ایک متعینہ رفتار رکھی ،
قرآن مجید میں ہے
''وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُون۔
وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔"(سورہ الانبياء۳۳ )
سورج کاطلوع ہونا اور غروب ہونا اور روزانہ کی مسافت کا طے کرنا یہ سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے،وہ اپنے رب کا غلام ہے لیکن ہر زمانے میں انسانوں نے اسے رب کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے،
حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میں بھیجے گئے تھے اس قوم میں سورج چاند اور ستاروں کی پوجا ہوتی تھی،قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ۔
إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔(سورہ الانعام:78،79)
پھر جب سورج کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا کہ یہ میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وه بھی غروب ہو گیا تو آپ نے(اپنی قوم) فرمایا بےشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس(اللہ تعالی) کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔
اسی طرح قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام واقعہ بیان کیا گیا ہے، جن کو اللہ نے ایسی بادشاہت عطا کی تھی کہ ان کے بعد کسی دوسرے کو ویسی بادشاہت نہ مل سکی، اللہ نے انس وجن اور سارے پرندوں کو ان کے تابع کیا تھا،ایک دن ہدہد نامی پرندہ نے آکر کہا:
وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ۔(سورہ النمل۲۴)
میں نے اسے(ملکہ سبا) اور اس کی قوم کو، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجده کرتے ہوئے پایا، شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راه سے روک دیا ہے۔ پس وه ہدایت پر نہیں آتے۔"
اسی طرح سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں میں سورج کے بارے میں کچھ ناقابل فہم تصورات پائے جاتے تھے، ان میں سے ایک تصور یہ تھا کہ کسی بڑے شخص کی پیدائش اور موت پر سورج متاثر ہوتا ہے اور اسے گہن لگ جاتا ہے،اور اس تصور کا اظہار اس وقت ہوا جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا، اسی دن سورج کو گہن لگ گیا،بعض صحابہ کے دل میں آیا کہ یہ واقعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی موت کی وجہ سے پیش آیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی کہ کوئی ایسا غلط تصور مسلمانوں کے ذہن میں بیٹھ جائے جس سے ان کے ایمان و عقیدہ کو ٹھیس پہنچے یا یہ تصور ان کے ذہنوں میں بیٹھ جائے کہ ایک انسان اللہ کی کسی دوسری مخلوق میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اگرچہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مغموم تھے لیکن آپ نے وقت پر اس غلط عقیدے کا حل ضروری سمجھا، آپ نے تمام صحابہ کو جمع کر کے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اے لوگو ! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں
میں سے ہیں، اور بے شک ان دونوں میں
کسی آدمی کے مرنے سے گہن نہیں لگتا
ہے۔(صحیح مسلم:2102)
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر زمانے میں شیطان نے سورج کے بار ے میں کچھ ایسے لغو اور فضول تصورات اور غلط افکار کو لوگوں کے درمیان ترویج دی ہے ، جس کی وجہ سے لوگ سورج کی عبادت و بندگی کرنے لگے ،اور اس کو مخلوق کے بجائے خالق ، مربوب کے بجائے رب کا درجہ دینے لگے؛ لیکن ہر زمانے میں اللہ اپنے نبیوں اور رسولوں ، امت کی فکر کرنے والےنیک و صالح بندوں کے ذریعہ ایسے بے جا تصورات و توہمات کا خاتمہ کیا اور لوگوں کو سورج کی عبادت وبندگی کے بجائے اللہ کی عبادت و نیاز مندی کی طرف پھیرا ،اور نزول ِ قرآن کے وقت صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ سورج بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،ہر گز اس کی عبادت نہیں کی جائے گی ارشاد فرمایا :
'' وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ۔اور دن رات اور سورج چاند بھی [اسی کی] نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو۔"(سورۃ فصلت ۳۷)
اس آیت کی روشنی میں سورج سے نفع و نقصان کا عقیدہ رکھنا بندہ کو کافرو مشرک بنا دیتا ہے۔ سورج اور چاند کی جانب احتراماً جھکنا، رکوع کرنا یا سجدہ کرنا،نمسکار و سلام بجا لانا سب سخت ممنوع اور حرام ہیں۔
اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع ، استواء اور غروب کے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج خوب ظاہر ہو جائے یعنی (ایک نیزے کے بقدر بلند ہو جائے) نیز جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو مطلقاً کوئی بھی نماز خواہ فرض ہو یا نفل چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ بالکل غروب ہو جائے اور آفتاب کے طلوع و غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرو اس لئے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے" (صحیح بخاری: ۳۲۷۲)
اگر سوریہ نمسکار اور یوگا کا تعلق مذہب سے نہ جوڑ کر صرف ہندوستانی تہذیب سے جوڑا جائے تب بھی یہ ناجائز اور حرام ہے ، اس لئے کہ اسلام میں کسی دوسری قوم کی تہذیب جو اسلام کے خلاف ہو اختیار کرنا گناہ ہے ، کیونکہ اسلام کی ایک الگ تہذیب اور منفرد شناخت ہے ، جو دنیا کے تمام مذاہب کے لئے قابل اتباع ہے، اس لئے اسلامی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر دوسری تہذیب کو اختیار کرنا کسی بھی مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہے۔
وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ۔(سورہ النمل۲۴)
میں نے اسے(ملکہ سبا) اور اس کی قوم کو، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجده کرتے ہوئے پایا، شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راه سے روک دیا ہے۔ پس وه ہدایت پر نہیں آتے۔"
اسی طرح سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی لوگوں میں سورج کے بارے میں کچھ ناقابل فہم تصورات پائے جاتے تھے، ان میں سے ایک تصور یہ تھا کہ کسی بڑے شخص کی پیدائش اور موت پر سورج متاثر ہوتا ہے اور اسے گہن لگ جاتا ہے،اور اس تصور کا اظہار اس وقت ہوا جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا، اسی دن سورج کو گہن لگ گیا،بعض صحابہ کے دل میں آیا کہ یہ واقعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی موت کی وجہ سے پیش آیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی کہ کوئی ایسا غلط تصور مسلمانوں کے ذہن میں بیٹھ جائے جس سے ان کے ایمان و عقیدہ کو ٹھیس پہنچے یا یہ تصور ان کے ذہنوں میں بیٹھ جائے کہ ایک انسان اللہ کی کسی دوسری مخلوق میں تصرف کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اگرچہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مغموم تھے لیکن آپ نے وقت پر اس غلط عقیدے کا حل ضروری سمجھا، آپ نے تمام صحابہ کو جمع کر کے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اے لوگو ! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں
میں سے ہیں، اور بے شک ان دونوں میں
کسی آدمی کے مرنے سے گہن نہیں لگتا
ہے۔(صحیح مسلم:2102)
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر زمانے میں شیطان نے سورج کے بار ے میں کچھ ایسے لغو اور فضول تصورات اور غلط افکار کو لوگوں کے درمیان ترویج دی ہے ، جس کی وجہ سے لوگ سورج کی عبادت و بندگی کرنے لگے ،اور اس کو مخلوق کے بجائے خالق ، مربوب کے بجائے رب کا درجہ دینے لگے؛ لیکن ہر زمانے میں اللہ اپنے نبیوں اور رسولوں ، امت کی فکر کرنے والےنیک و صالح بندوں کے ذریعہ ایسے بے جا تصورات و توہمات کا خاتمہ کیا اور لوگوں کو سورج کی عبادت وبندگی کے بجائے اللہ کی عبادت و نیاز مندی کی طرف پھیرا ،اور نزول ِ قرآن کے وقت صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ سورج بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،ہر گز اس کی عبادت نہیں کی جائے گی ارشاد فرمایا :
'' وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ۔اور دن رات اور سورج چاند بھی [اسی کی] نشانیوں میں سے ہیں، تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو۔"(سورۃ فصلت ۳۷)
اس آیت کی روشنی میں سورج سے نفع و نقصان کا عقیدہ رکھنا بندہ کو کافرو مشرک بنا دیتا ہے۔ سورج اور چاند کی جانب احتراماً جھکنا، رکوع کرنا یا سجدہ کرنا،نمسکار و سلام بجا لانا سب سخت ممنوع اور حرام ہیں۔
اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع ، استواء اور غروب کے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج خوب ظاہر ہو جائے یعنی (ایک نیزے کے بقدر بلند ہو جائے) نیز جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو مطلقاً کوئی بھی نماز خواہ فرض ہو یا نفل چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ بالکل غروب ہو جائے اور آفتاب کے طلوع و غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرو اس لئے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے" (صحیح بخاری: ۳۲۷۲)
اگر سوریہ نمسکار اور یوگا کا تعلق مذہب سے نہ جوڑ کر صرف ہندوستانی تہذیب سے جوڑا جائے تب بھی یہ ناجائز اور حرام ہے ، اس لئے کہ اسلام میں کسی دوسری قوم کی تہذیب جو اسلام کے خلاف ہو اختیار کرنا گناہ ہے ، کیونکہ اسلام کی ایک الگ تہذیب اور منفرد شناخت ہے ، جو دنیا کے تمام مذاہب کے لئے قابل اتباع ہے، اس لئے اسلامی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر دوسری تہذیب کو اختیار کرنا کسی بھی مسلمان کے لئے مناسب نہیں ہے۔
سوریہ نمسکارکے بجائے نماز کا اہتمام کرنے میں بے شمار روحانی وجسمانی، شخصی واجتماعی ، فوائد وحکمتیں پوشیدہ ہیں ، روحانی فوائد تو یہ ہیں کہ نماز کے واسطے سے بندہ کا اپنے رب سے رشتہ استوار ہوتا ہے، اس کی رحمت ومغفرت کا وہ امیدوار اور اس کے الطاف وعنایات کا طلب گار ہوتا ہے ، اپنے مالک ومولی سے بندہ کا یہ جذباتی تعلق اس کی کامیابی وفلاح کا ضامن ہے، سستی، کاہلی اور تعطل کے اس دور میں صرف نماز ہی ایک ایسی عبادت ہے کہ اگر اس کو صحیح طرز پر ادا کیا جائے تو دنیا کے تمام دکھوں کا مداوا بن سکتی ہے ، نماز جہاں بیرونی اعضاء کی خوشنمائی وخوبصورتی کا ذریعہ ہیں وہاں اندرونی اعضاء مثلاً دل، گردے، جگر ، پھیپھڑے ، دماغ ، آنتیں ، معدہ ، ریڑھ کی ہڈی ، گردن ، سینہ ، اور تمام قسم کےGIANDS کی نشونما کرتی ہے۔
اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نماز کوئی ورزش نہیں بلکہ وہ خالص اللہ کی بندگی کا ایک طریقہ ہے،لیکن اس کا ایک ذیلی اور ضمنی فائدہ یہ ہے کہ جو اس کا اہتمام کرے گا وہ صحت مند رہے گا ۔ اس کا مشاہدہ ہم ہر روز اپنے اطراف میں کرتے ہیں۔جیسا کہ اسلام کے کئی قانون کو جزوی طور پر ہی قبول کرکے قومیں ترقی کے مدارج طےکر رہی ہیں اور ہم نے اسے چھوڑ دیا تو ذلت ہمارا مقدر ہوئی۔(بشکریہ:محمد غیاث الدین حسامی/حذف و ترمیم کے ساتھ)
اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کے مطابق سوریا پراناما Surya Pranayama یا نمسکار ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے۔ اس کے جائز ہونے کی کوئی گنجائش ہمیں شریعت میں نہیں ملتی۔ یہ سو فیصد کافرانہ عمل ہے۔ اس کی حرمت مدلل اور مبین ہے۔ اس میں تبدیلی اور آزادی کی کوئی راہ نہیں نکالی جاسکتی۔
بے شک زمین پر زندگی کو ممکن بنانے میں سورج کا سب سے اہم کردار ہے اسی طرح انسان کی زندگی اور صحت پر بھی اس کے گہرے اثرات ہیں۔اس کے طلوع و غروب سے دن رات کا فرق اور مہینے اور برسوں کی گنتی معلوم ہوتی ہے۔ عبادات و معاملات اور حقوق کی باقاعدہ ادائیگی ہوتی ہے۔اسی طرح سورج جتنا انسانوں کے لئے ضروری ہے اتنا ہی جمادات و نباتات اور جانوروں کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔لیکن یہ سب فائدے سورج کے خود بخود کے نہیں ہیں بلکہ واحد اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہیں۔جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نماز کوئی ورزش نہیں بلکہ وہ خالص اللہ کی بندگی کا ایک طریقہ ہے،لیکن اس کا ایک ذیلی اور ضمنی فائدہ یہ ہے کہ جو اس کا اہتمام کرے گا وہ صحت مند رہے گا ۔ اس کا مشاہدہ ہم ہر روز اپنے اطراف میں کرتے ہیں۔جیسا کہ اسلام کے کئی قانون کو جزوی طور پر ہی قبول کرکے قومیں ترقی کے مدارج طےکر رہی ہیں اور ہم نے اسے چھوڑ دیا تو ذلت ہمارا مقدر ہوئی۔(بشکریہ:محمد غیاث الدین حسامی/حذف و ترمیم کے ساتھ)
اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کے مطابق سوریا پراناما Surya Pranayama یا نمسکار ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے۔ اس کے جائز ہونے کی کوئی گنجائش ہمیں شریعت میں نہیں ملتی۔ یہ سو فیصد کافرانہ عمل ہے۔ اس کی حرمت مدلل اور مبین ہے۔ اس میں تبدیلی اور آزادی کی کوئی راہ نہیں نکالی جاسکتی۔
بے شک زمین پر زندگی کو ممکن بنانے میں سورج کا سب سے اہم کردار ہے اسی طرح انسان کی زندگی اور صحت پر بھی اس کے گہرے اثرات ہیں۔اس کے طلوع و غروب سے دن رات کا فرق اور مہینے اور برسوں کی گنتی معلوم ہوتی ہے۔ عبادات و معاملات اور حقوق کی باقاعدہ ادائیگی ہوتی ہے۔اسی طرح سورج جتنا انسانوں کے لئے ضروری ہے اتنا ہی جمادات و نباتات اور جانوروں کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔لیکن یہ سب فائدے سورج کے خود بخود کے نہیں ہیں بلکہ واحد اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہیں۔جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *
(بشکریہ : مسلم گرلز اسوسی ایشن، حیدر آباد جن کی تحریر میں حذف و ترمیم کے ساتھ ایک جامع تحریر قلم بند کی گئی۔)
*****
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *
(بشکریہ : مسلم گرلز اسوسی ایشن، حیدر آباد جن کی تحریر میں حذف و ترمیم کے ساتھ ایک جامع تحریر قلم بند کی گئی۔)
*****