Thursday 15 March 2018

کتاب:یوگا کی حقیقت

کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:7)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
مراقبہ، دھیانا Meditation:- 
یوگا میں مراقبہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یوگا کے ماہرین بغیر مراقبہ کے یوگا کی مشقوں کو تسلیم نہیں کرتے۔
ان کا یہ استدلال ہے کہ مراقبہ کے ذریعہ آپ میں اور آپ کے نفس میں ایسا روحانی تعلق پیدا ہو جاتا ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ جسمانی اور روحانی نظام کے توازن کو بگڑنے نہیں دیتا بلکہ ہم آہنگی پیدا کر کے آپ کو بے پناہ سکون اور توانائی ملتی ہے۔یوگا (دھیانا و مراقبہ) کے لئے یہ ضروری ہے کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر روزانہ مقررہ وقت پر کیا جائے،مشرق کی جانب آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پرنام و آداب بجا لائے۔ صبح کا وقت سب سے بہتر ہوتا ہے،اس کی ابتداء دس تا پندرہ منٹ سے کریں۔ اس کے بعد انھیں قوت اور برداشت کے مطابق بڑھاتے چلے جائیں۔
بی کے ایس اینگر نے ویدوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ پرانیاما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہو جاتی ہیں اور مقدس آگ کے شعلے انھیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کر دیتے ہیں، تب ایک شخص دھرانا اور دھیانا کے قابل ہوتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۴۶۱)
مہا یوگیوں کا دعویٰ ہے کہ اس کے علاوہ یوگا سے مدرا (گہراسکون) اور یوگا ندرا(جسمانی و ذہنی، جذباتی سکون) ملتا ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کو ان مراقبوں کی کبھی ضرورت رہی ہے؟
اسلام کی عبادتیں خود اس طرح کی ہیں کہ ہر مومن لازمی طور پر روزانہ اور سال میں کئی مرتبہ مراقبہ یعنی عبادات کرتا ہے۔ صوم و صلوٰۃ، قیام الیل، حج و عمرہ، اعتکاف میں بندہ اللہ سے لو لگاتا ہے۔۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر دن فرض، سنت اور نفل نمازوں میں قیام، رکوع و سجود و قاعدہ میں نمازی دھیان لگاتا ہے اور عقل کے مطابق گیان بھی کرتا رہتا ہے۔ نماز کا پابند شخص روزانہ فرض، سنت، نفل نمازوں میں ایک گھنٹے سے زیادہ تک اسلامی مراقبہ میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ماہ صیام کے فرض روزوں اور اعتکاف مسجد، اور حج و عمرہ میں جو تلاوت اور تسبیح و اذکار پڑھے جاتے ہیں وہ بہترین اسلامی مراقبہ ہے۔ اس کے علاوہ احتساب نفس، توبہ و اوستغفار، اذکار اسمائے حسنیٰ کا ورد اور رجوع الیٰ اللہ کی کوشش، قرآن کریم کی تلاوت، کتاب اللہ و سیرت رسول  ؑ پر غورو فکر وغیرہ تمام خالص اسلامی مراقبہ و مراجعہ میں شامل ہیں۔
انبیاء ورسل اور اولیاء اللہ، سلف صالحین مراقبہ یعنی عبادات کیا کرتے تھے۔ لیکن و ہ مراقبے حب اللہ کے لئے کئے جاتے تھے۔اسلام نے مراقبہ کو کھیل کود اور لہو لعب سے پاک رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
:وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ
(سورہ الاعراف:۲۰۵)
اور اے شخص!اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ،صبح و شام اور اہل غفلت میں شمار مت ہونا۔"
مومن کا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے۔ دنیا کی تمام آلائشوں اور تعلقات کو منقطع کر کے صرف اس کی طرف رخ اور توجہ کرنا مسلمان کا اولین کام ہے۔
"قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام:162)
 آپ فرمادیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اورمیرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جوسارے جہان کا مالک ہے۔"
پچھلے صفحات میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ یوگا کا اصل مقصد جسمانی ورزش سے روحانی ارتقاء حاصل کرنا ہے۔ اس کی کرشنا نے ارجن کو تعلیم گوتم بدھ نے سادھوں کو تعلیم دی اس بات پر زور دیا کہ روحانی ارتقاء کے لئے یوگا کرتے رہو۔اسی میں روح کی نجات ہے۔
بنیادی طور پر ہندو ازم کا بنیادی فلسفہ جس میں آتما (روح) ‘ پرماتما (بھگوان) اور شریر (جسم) کو مراقبے کے ذریعے ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہمارے بعض مسلمان عقلمند یوگی مراقبہ میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ انھوں نے شرک کو ترک کیا ہے۔ یہ حضرات الٹے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام میں مراقبہ نہیں ہے؟
اسلام کا مراقبہ کا تصور بھگوت گیتا اور یوگا کے مراقبہ کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بار بار اہل عقل، اولو الالباب، اور دانشمند لوگوں کو انفس و آفاق، خالق و کائنات اور ان کے پیدا کردہ نظام کائنات پر غور و فکر و تدبر کرنے کا بار بار حکم دیتا ہے۔
بندہ مومن آخرت کے خوف اور اپنے رب کی رحمت کی امید میں راتوں کو اٹھ کر قیام اور سجدہ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:
"أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ...(سورہ الزمر:۹)
بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں [عبادت میں] گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو۔"
رہبانیت اور اسلام:-
یوگا ان رشیوں اور راہبوں کی خصوصی، لازمی ورزش و کسرت کا نام ہے۔ جس کے ذریعہ وہ دنیا داری کے معاملات سے الگ رہ کر روحانی ارتقاء کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
جبکہ اسلام نے رہبانیت، ترک دنیا، اور تپسیا والی زندگی کا خاتمہ کیا اور عائلی و دنیوی زندگی کو اسلام کا لازمی حصہ قرار دیا۔
رہبانیت کا نقطہ نظر قدیم زمانے میں بیشتر مذاہب ، خاص طور پر مسیحیت اور بدھ مت سے متعلق رہا ہے۔ اسلام اس کو ناپسند کرتا ہے ۔
قرآن کی رو سے یہ طرزِ زندگی، حق کے متلاشیوں نے خود اختیار کیا تھا، ان پر فرض نہیں کیا گیا تھا۔
ارشاد ربانی ہے :
"وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ.‘( الحديد:27)
"اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی)۔"
اِلَّا ابْتِغَآ ءَ رِضْوَانِ اللہ۔ کا مطلب ہے۔ کہ یہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی بلکہ اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے اسے خود اپنے اوپر فرض کر لیا تھا۔
اس صورت میں یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور یہ کبھی دین حق میں شامل نہیں رہی ہے ۔
اس کا مطلب صاف ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے علم و عمل کا جو نظام بنی آدم کو مذہب،دین،دھرم وغیرہ کے ناموں سے ملتا رہا ہے اس میں اس غیر فطری نظریہٴ حیات کا کبھی مطالبہ نہیں کیا گیا۔یقینا اس آیت سے صرف اسلام ہی کی براءت رہبانیت سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ مذہب کی پوری تاریخ سے اس کی بے تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔
قرآن کی اس آیت کی بنیاد پر ہر مسلمان اس بات کے ماننے اور یقین کرنے پر مجبور ہے کہ عیسائی مذہب ہو یا یہودی دین، ابراہیمی ملت ہو یا نوحی دعوت کسی کا رہبانیت سے کچھ تعلق نہیں ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں واقعہ ہے۔کہ
جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے عورتوں کے ترک کرنے والا معاملہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور فرمایا:اے عثمان!مجھے رہبانیت کا حکم نہیں دیا گیا۔کیا تم نے میرے طریقے سے بے رغبتی اختیار کر لی ہے؟انھوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔(سنن الدارمی:2169)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی زبانِ حال سے پکار پکار کر پوری امت کو یہ درس دے رہا ہے کہ اسلام جیسا مکمل اور جامع نظامِ حیات مل جانے کے بعد اس کے پیرو کاروں کو رہبانیت جیسی بے جا مشقتوں کو برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ کا اسوۃ اور زندگی دنیا کے تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے جو رہبانیت سے دور ایک عائلی، معاشرتی، اجتماعی زندگی اور مکمل کامیاب نظام حیات ہے۔ اب اس میں سنیاسیوں اور رشی منی اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کے تعلیمات اور روایت و طور طریقوں کو کسی بھی عنوان سے اہل اسلام کے درمیان داخل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
معاون:فاطمہ اسلامک سنٹر اینڈ
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *
(بشکریہ : مسلم گرلز اسوسی ایشن، حیدر آباد جن کی تحریر میں حذف و ترمیم کے ساتھ ایک جامع تحریر قلم بند کی گئی۔)
*****

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...