Tuesday 13 March 2018

اسلام اور ورزش و کھیل کود:-

کتاب:یوگا کی حقیقت
قسط نمبر:4
(مولف: عمران شہزاد تارڑ ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
اسلام اور ورزش و کھیل کود:-
اسلام نے عقل و روح کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ جسمانی طاقت و قوت میں اضافے کے لئے جسمانی ورزش اور کھیل کود Sports, Games & Physical Exerciseکی اجازت دی ہے۔
اسلامی شریعت میں physical exercise  جسمانی ورزش، کسرت اور کھیل کود کی مختصر وقت میں مکمل اجازت ہے۔ جس کے کئی طریقے رائج ہیں کئی ورزشیں سائنسی طور پر ثابت ہیں جنہیں ڈاکٹر کہتے بھی ہیں اس پر نہ مسلمانوں نے کبھی اعتراض کیا اور نہ ہی علماء و فقہاء نے اس کی مخالفت کی ہے۔جسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے اچھے پیشہ وارانہ کھلاڑی بننے میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے۔جس کے لئے تقریباً بہت سے کھیل فی نفسہ جائز ہیں۔ جبکہ قرآن واسلامی شریعت  میں کئی مقامات پر لہو و لعب کی ممانعت آئی ہے اور اس میں مبتلا ہونے والوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے۔
کھیلوں کی نوعیت کے اعتبار سے6 زمروں کے کھیل ایسے ہیں جو ممنوع اور ناجائز قرار پاتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:
1۔ایسے کھیل جس کے میدان اسٹیڈیم اور کورٹ کا ماحول منکرات سے بھرا ہوا ہو  اور برائیاں و سیاًت اس کا احاطہ کئے ہوئے ہوں۔
2۔ایسے کھیل جس میں شائقین کی دلچسپی جنون کی حد تک بڑھ جائے۔ دن و  رات گھنٹوں کھیل بینی میں وقت سرف کر رہے ہوں جس سے نجی اوقات، ملازمت،کاروبار، تعلیم و تربیت اور عبادات پر غلط اثرات مرتب ہو رہے ہوں۔

3۔ایسے تمام کھیل جس میں شرط جوا، منشیات، عریانیت اور فحش شامل ہوں۔
4۔ایسے تمام کھیل جس سے عقیدہ،اخلاق اور آداب مسلم بگڑنے کا قوی امکان  ہو اور کھیل و ورزش میں کفر و شرک طاغوت کے عناصر کی آمیزش ہو۔
5۔بچوں کے تمام الکٹرانک گیمس جس میں Barbi  باربی ڈول اور کارٹون وغیرہ کو نیم عریاں لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے بچے آزاد اور شرم و حیاء سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں اور مغربی تہذیب کا رنگ ان پر چڑھنے لگتا ہے۔
6۔ ایسے تمام کھیل جس میں جانی نقصان یا ذہنی و جسمانی طور پر معذور و مفلوج ہو جانے کا خدشہ ہو جیسے ریسلنگ یا موذی بری بحری آبی آدم خور جنگلی جانوروں کے ساتھ کھیل کھیلنا۔
ایسے میجسٹک اور غیر مجسٹک کرتب جس میں جان جانے کا خطرہ ہو۔شریعت اسلامی اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتی کہ محض کھیل و کرتب کے خاطر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں۔
کھیل کود کی اسلام میں کھلی اجازت ہے۔ لیکن بعض کھیل sports & games جو اسلامی احکامات سے راست یا بالواسطہ ٹکراتے ہیں ممنوع قرار دئیے جاتے ہیں۔
عصر حاضر میں مقامی و عالمی سطح پر جتنے کھیل Games  کھیلے جاتے ہیں بہت سے کھیلوں میں sports men کھلاڑیوں کے ستر کھل جاتے ہیں جس سے ستر کے تمام حدود و قیود ٹوٹ جاتے ہیں۔ اسلام شرعی حدوں کو توڑنے کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ اس کے لئے بندہ مومن اللہ کے پاس جوابدہ ہے۔ مہنگے مہنگے ٹکٹ خرید کر یا دو دو مہینوں تک کرکٹ، باسکٹ بال،فٹ بال وغیرہ کے لیگ اور سیریل میچس کو پابندی سے دیکھتے رہنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے تماشہ بینوں کی زندگی کا قیمتی وقت لائیو یا ٹی وی پر دیکھنے سے ضائع  ہوتا ہے۔فقہاء نے ایسے کھلیوں سے منع فرمایا ہے جس سے نمازوں کے اوقات زائل کر دئیے جائیں یا جس کھیل سے عورتوں کے موجبات حجاب ٹوٹ رہے ہوں، یا پھر آزادانہ اختلاط مرد و زن ہوں۔ایسے تمام کھیل جس میں وقت، پیسہ اور صلاحیتیں برباد ہوتے ہیں منع کیا گیا ہے۔
مذہب اسلام عقائد، معاملات، مامورات، معمولات اور زندگی کے ہر شعبے میں کلی یاجزوی طور پر کفر وشرک کے عناصر کا باریک بینی سے خاتمہ کرتا ہے اور کسی بھی تہذیب وتمدن کے اجزا کو کفروشرک سے پاک صاف کر کے اپنے اندر ضم کرنے کی وسعت رکھتا ہے۔ اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلا اور جہاں بھی پہنچا وہاں کے مقامی معاشرہ، تمام باطل ولغو رسم ورواج اور طور طریقوں وعادات واطوار کا خاتمہ کر کے مقامی سماج کو اپنے اندر شامل کیا۔ دور حاضر کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے اور قلب وذہن کو ظاہراً متاثر کر دینے والی کسی بھی قدیم وجدید تہذیب جو اسلام سے متصادم ہو، اس کو اپنانے اور عمل کرنے سے منع کرتا ہے۔
"قرآن کریم نے حرام کاموں کے تدارک کے لیے ابتدائی مراحل میں ہی بندش لگا دی اور ڈانٹ کے ذریعہ پابندی عائد کردی۔ اہل ایمان کو کفر وشرک اور لغو وباطل سے بچانے کے لیے ﷲ تعالی نے مختلف انداز میں تحذیر کے ساتھ تخاطب فرمایا ہے: وَلاتَقرَبُوا (قریب بھی مت ہو) وَاجْتَنِبُوا (اجتناب کرو) اَلَمْ یَان الذِینَ اٰمَنوا (کیا ایمان والوں کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا۔ فَفِرُّوا اِلی اللّٰہ (دوڑو ﷲ کی طرف) وَسَارِعُوا اِلٰی مَغفِرۃٍ مِنْ رَبِّکُم (دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔) اِنّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہْ (یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہذا اسی کی اتباع کرو)۔ ﷲ تعالی نے دعوت، ترغیب، ترہیب، تنبیہہ اور نداء کا ولولہ انگیز مشفقانہ انداز اپنایا، لہو ولعب کی چھوٹی بڑی چیزوں اور بے فائدہ وحرام باتوں کے خاتمہ کا دوٹوک فیصلہ سنایا اور رجوع الی ﷲ، توبہ واصلاح، تقوی ومغفرت کی طرف بلا کسی توقف کے لپکنے اور دوڑنے کی ترغیب دی۔ محسن امت حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم نے تین باتوں سے منع فرمایا: تشبہ بالکفار، تشبہ بالنساء، تشبہ بالرجال۔ یعنی کوئی مومن کافر کی مشابہت اختیار نہ کرے، کوئی مرد کسی عورت کی مشابہت اختیار نہ کرے اور کوئی عورت کسی مرد کی مشابہت اختیار نہ کرے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا نے ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر میں صلیب کے نقش ونگار بنے ہوئے تھے، دیکھتے ہی ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو، حضور ﷺ ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔ (مسند احمد) قرآن کریم میں ﷲ پاک کی ترغیب وترہیب، نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور صحابہ کرام کا عمل اس بات کی طرف مشیر ہے کہ کفار کے طور طریقے، رسم ورواج، مخصوص مذہبی اسٹائل وانداز کی تقلید کرنا اور کفر سے بھری اصل نوعیت کو بغیر زائل کیے کسی باتوں کی پیروی کرنا کفار کی مشابہت اختیار کرنا ہے، جس کی اسلام میں ممانعت ہے۔"(مفتی محمد فیاض قاسمی)
شریعت اسلامیہ میں کوئی شئے محض مشتبہ ہونے کی بناء پر مباح و حلت کے درجے میں شامل نہیں ہو جاتی بلکہ شکوک و مشتبہ چیزوں پر نوعیت، حالت، نتائج و دلائل، وجوہات و اسباب کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔جب کسی  گناہ، حرام و جرم میں ٹھوس قابل قبول گواہی نہ ملے لیکن علامتیں دستیاب ہوں تو یہ علامتیں خود شہادت بن جاتی ہیں۔ غلط تاویل سے اس کے خلاف حکم شرعی اور مقرر کردہ سزائیں معاف نہیں ہو سکتیں۔
شریعت اسلامی نے جدید مسائل میں بحث و تمحیص اور تنقید،رد و قبول کے دروازوں کو بند نہیں کیا۔ بلکہ تحقیق، بحث، مناقشہ اور استنباط کے ذریعہ اس کے حل کا طریقہ سکھایا۔ جس سے مسائل کو سلجھانے میں مدد ملتی ہے۔
محض جذباتی ذہنی وابستگی اور گروہی، جماعتی اختلاف کی بناء پر کوئی فکر، نہج و طریقہ کار اور طرز عمل کو ممنوع یا مشروع قرار نہیں دیا جا سکتا۔
"یوگا" کی عدم ممانعت کے قائل حضرات کی فکر و استدلال اور غور و تدبر کی سطح اتنی بلند نہیں کہ وہ شریعت کے معین فطری اصولوں کی گہرائی اور حکمتوں کو سمجھ سکیں اور صبر و تحمل کے ساتھ تعقدی خباثتوں پر بھی نظر ڈالیں جو "یوگا" سے پیدا ہو سکتی ہیں۔
ایسا بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بعض علماء جو اسے پہلے ناجائز قرار دے چکے تھے۔ پھر کچھ دن بعد عوامی دباؤ میں آ کر اس کے جائز ہونے کا خیال ظاہر کرتے اور خود "یوگا" کے سلسلے میں شک اور تردد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فقہ اسلامی کے چند اہم بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر اصلین سے استنباط  Inference کریں تو انھیں "یوگا" کی ممانعت اور عدم ممانعت کی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
اس کے علاوہ مسئلہ کی پیچیدگیاں، ممانعت، عدم ممانعت، اجازت، حلت و حرمت، حدود، تعداد مقدار، وقت، زمان و مکاں، حساب کتاب کو لازمی طور پر بنیاد بنا کر غور و فکر کیا جاتا ہے۔
"مفتی محمد فیاض قاسمی لکھتے ہیں کہ یوگا کی ہیئت کذائیہ یعنی ورزش کے معمولات ڈنڈ بیٹھک کی حد تک اس کی اصل سے علیحدہ کرکے شریعت کا حکم اگر معلوم کیا جائے، تو ظاہر سی بات ہے کوئی بھی مفتی وعالم یقینا ورزش کے زمرہ کی حد تک اسے جائز قرار دے گا۔ لیکن صرف ورزش کی حد تک فنی بنیادوں پر حاصل شدہ اجازت نامہ کی وجہ سے یوگا میں بے شمار مخفی، مشتبہ، مشکوک باتوں اور کفریہ وشرکیہ واضح دلائل کی موجودگی میں یوگا کی ممانعت کا حکم بھی ناقص اور مہمل نہیں سمجھا جائے گا۔
یوگا کی وکالت کرنے والوں کا استدلال یہ ہے کہ ہندو عقائد کی نفی اور اشلوک کے ورد کو چھوڑ کر صرف جسمانی ورزش ممنوع نہیں ہے، کیونکہ اسلام علاقائی اور بیرونی مفید کارآمد باتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے لوگوں کی نیک نیتی کے پیش نظر یوگا کو جائز قرار دینے والوں نے یہ فیصلہ کیا ہو؛ لیکن یہ خیال رہے کہ کسی پیچیدہ مسئلہ کو کاٹ چھانٹ کر اس کے ٹکڑے اور ذرے ذرے کر کے ایک ہلکے عنصر کو لے کر جواز کا حکم صادر کرنا دور بینی سے الگ نجی فیصلہ قرار پائے گا۔
ٹھیک ہے کہ یوگا ورزش کی حد تک جائز ہے؛ تاہم یہ مُفْضِی اِلی الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ بھی ہے۔ دھیرے دھیرے یہی عمل یوگا سے الفت پیدا کردے گا، لوگ یوگا کے سارے ارکان سے دلچسپی لینا شروع کر دیں گے، یوگیوں کے مٹوں اور کیندروں میں جا کر یوگا کے ذریعہ سارے کفریہ اعمال انجام دیں گے، یہاں تک کہ آنے والی نسل جب مسلمانوں میں رائج یوگا کو پائے گی تو انھیں اس وقت یوگا ایک اسلامی کلچر کی شکل میں نظر آئے گا اور اس کے قبیح ومذموم ہونے کی طرف اس کی توجہ بھی نہیں جائے گی۔ غرض مسلم معاشرہ کا ایمان کفر وشرک کی پیروی میں تبدیل ہو جائے گا لیکن انھیں اس کا احساس بھی نہ ہو گا۔ اس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب وذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑ جائیں گے۔ زہر چاہے تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیا جاتا رہے وہ اپنا اثر ضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ یہی معاملہ ایمان وکفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک مومن اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے ردِکفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان وکفر کے فرق کو اپنی فکرونظر سے اوجھل کر دے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں مومن کو ہر کافرانہ دعوت وعمل جاذب نظر آنے لگتے ہیں۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے دور میں ملک میں افراتفری اور بد امنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ ہندو مسلم اہل علم ومذہبی پیشواؤں کا آپس میں رابطہ مضبوط ہو چکا تھا۔ اکبر بادشاہ نے ہندومت اور اسلام ودیگر مذاہب کو ملا کر ایک نیا مذہب ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے بنایا۔ درباری چمچے، شاہی امام اور پنڈتوں نے مل کر اسلامی مذہبی تعلمات کی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی اور کئی کافرانہ رسم ورواج حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کے درمیان پروان چڑھائے گئے۔ مولوی اور عامل حضرات سحر، جادو، بھوت پریت اور جنات کے اثرات کو زائل کرنے اور مصیبت زدہ کی آفتوں کو دور کرنے کے لیے ذکر ودعا اور شرعی تعویذوں سے کام لیا کرتے تھے،لیکن اس وقت کے بعض عاملوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ صرف پرانے طریقوں پر قرآنی آیات اور دعا وذکر سے عوام کے باطنی امراض ومصائب کا حل فوراً نہیں ہو سکتا، بلکہ سنسکرت کے اشلوکوں، ہندوؤں کے مقدس طور طریقوں اور پوجا پاٹ کے ذریعہ اس کا حل ممکن ہے۔آج بھی اگر کسی فرد کے پہنے ہوئے تعویز کو کھول کر دیکھا جائے تو اس میں شرک و کفر پر مبنی عبارات ملیں گی۔
اس وقت اسماعیل نامی جیسے کئی مسلم اشخاص نے آچاریوں، رشیوں اور سادھوؤں سے جادو، ٹونا، بھانامتی اور ہندوعملیات کی تعلیم وتربیت حاصل کی۔ وہ اسے سیکھ کر باطل شیطانی کافرانہ سفلی عملیات کے ماہر سمجھے جانے لگے اور اشلوکوں کو قرآنی آیات سے ملا کر خلط ملط کر کے ایک نیا سفلی علم تیار کیا۔ ان کے عملیات کی شہرت ہونے سے وہ یوگی کے نام سے مشہور ہو گے۔ اس سے دوسرے مولویوں یا صوفیوں نے بھی سفلی عمل کو سیکھا اور اس طرح ملت اسلامیہ ہند میں سفلی عمل کا سلسلہ چل پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج دینی تعلیم سے دور مسلمانوں نے دین اور بے دینی میں فرق کو بھلا دیا، دیوالی، ناگ پنچھی، اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ ہندو تیوہاروں میں مانگ پر ٹیکہ لگانا، کلائی پر بدھی باندھنا، مزاروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہاتھ کے اشارہ سے چومنا، گھروں،گاڑیوں اور دوکانوں میں کسی بزرگ کی تصویر یا مزار کی تصویر لٹکا کر اس پر پھول کی مالا چڑھانا چراغاں کرنا منت کے دھاگے اور قلاوے باندھنا اور تعویز وغیرہ بھی اسی غفلت کا نتیجہ ہیں۔ یہ سادہ لوح مسلمان اس حد تک کیسے پہنچے، اس کا محرک کیا تھا․․․؟”اس کی تفصیلات مولف عمران شہزاد تارڑ کی کتاب"رزق میں فراخی اور مشکلات کا حل"میں پڑھیں۔“
یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح ہے۔ محض صحت وتندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار جس کی جڑیں کفر وشرک سے ملتی ہیں، صرف نیک نیتی کی بنیاد پر اسے مباح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔"
مذہب اسلام عقائد، معاملات، مامورات، معمولات اور زندگی کے ہر شعبے میں کلی یاجزوی طور پر کفر وشرک کے عناصر کا باریک بینی سے خاتمہ کرتا ہے اور کسی بھی تہذیب وتمدن کے اجزا کو کفروشرک سے پاک صاف کر کے اپنے اندر ضم کرنے کی وسعت رکھتا ہے۔ اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلا اور جہاں بھی پہنچا وہاں کے مقامی معاشرہ، تمام باطل ولغو رسم ورواج اور طور طریقوں وعادات واطوار کا خاتمہ کر کے مقامی سماج کو اپنے اندر شامل کیا۔ دور حاضر کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے اور قلب وذہن کو ظاہراً متاثر کر دینے والی کسی بھی قدیم وجدید تہذیب جو اسلام سے متصادم ہو، اس کواپنانے اور عمل کرنے سے منع کرتاہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔)
نوٹ:۔
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر اینڈ
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...