Wednesday, 28 March 2018

کفار و منافقین کی اتباع کی ممانعت

کتاب:یوگا کی حقیقت
(قسط نمبر:10)
(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
کفار و منافقین کی اتباع کی ممانعت
اللہ تعالی نےٰ نبی اکرمﷺ کو حکم فرمایا کہ کافروں اور منافقوں کی اتباع و تقلید نہ کرو۔
"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ..۔
اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا۔"(سورہ الاحزاب:آیت:۱)
"..أَتَّبِعُ مَا يُوحَى إِلَيَّ مِنْ رَبِّي...۔
میں اس کا اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر میرے رب کی طرف سے حکم بھیجا گیا ہے۔"(سورہ الاعراف:۲۰۳)
چاہے عہد نبوی کے کافر و منافقین ہوں یا موجودہ و آئندہ دور کے ہوں۔ سب کا حکم قطعی اور ثابت ہے۔ سیاسی معاشی صورتحال، اکثریت و اقلیت کی بناء پر یہ حکم ممکن الزول  subject to change  کے زمرے میں شامل نہیں۔
دوسری آیت میں حکم کی مزید وضاحت کر دی گئی کہ اتباع صرف اس حکم کی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر وحی کی جاتی ہے۔
 7۔ تاریخ سے سبق حاصل کریں:-
اسلام نے حصول علوم اور سائنسی تحقیقات و ایجادات سے کبھی نہیں روکا۔ جس چیز سے فائدہ ہے اور جو انسانی زندگی کی بقاء، تحفظ و ترقی میں مدد دیتی ہے وہ مباح و جائز ہے۔لیکن مسلمانوں کی ایسی باتیں جو عقائد اور احکامات و فرائض سے ٹکراتی ہیں اسے یکسر رد کرتا ہے اور وہ ناقابل قبول ہیں۔
مسلمانوں کا سب سے روشن پہلو وہ تحقیقات اور تجارب کا میدان ہے جس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور مسلمانوں نے اس میں اپنی کافی خدمات دی ہیں۔ چونکہ یوگا سائنسی علوم میں شامل نہیں ہے اسی لئے اس موضوع پر انھوں نے اپنا وقت برباد نہیں کیا۔
مسلمانوں نے دوسری و تیسری صدی ہجری میں مختلف علوم جیسے ریاضیات، کیمسٹری،  علوم طب، ادویات اور علوم الہیت پر تحقیقاتی کام کئے اس کے بعد نئے انکشافات اور ایجادات کا کئی صدیوں تک سلسلہ جاری رہا۔ ہندو یونان کے ماہرین علوم نے اس سے کھل کر استفادہ کیا۔
خلیفہ ابو جعفر منصور(136-158ھ)  اور ہارون رشید(160-193ھ) کے دور میں ہندوستان کے قدیم سائنسدانوں اور ماہرین علوم کو بڑی عزت بخشی گئی اور طب ایورویدک و Dhanwanthari اور علوم نجوم Astrology اور علم فلکیات کے سنسکرت اسنادات و تحقیقات و کتب کا بڑے پیمانے پر عربی میں ترجمے کروائے گئے اور بغداد و دمشق و بلاد اسلامیہ نے لباریٹریز (دار التجزیہ) کے قیام کے علاوہ ہندوستانیوں سے سائنس اور دیگر علوم کے سلسلہ میں تعاون حاصل کیا۔ عرب اسکالرس نے بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے ہندو مذہبی عقائد اور تعلیمات سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ کسی قسم کی آمیزش کی اجازت نہیں دی۔ لیکن بعد میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا دور شروع ہوا اور طویل عہد حکومت کے دور ان ہندو مذہبی روایات و رسومات جاہل مسلمانوں کے درمیان جاگزیں ہونے لگیں۔
بطور مثال ایک ورد کئے جانے والے کلام پر غور فرمائیں؛
  انسخات للہ کی ڈھال ہوئی سی عطا  الم تر کیف فعل ربک تحشیر نی لگا
  لا یلاف قریش کٹارسان لگا  قل ھو اللہ احد کا نیزہ دست میں پڑا
  داؤں متندر شاہ شرف کو بانھ لا  جسرتھ گو روگورکھ ناتھ بوعلی کافرا
  کفاک جہل کاف پکڑ رام کو بلا  سیتا کو لاؤپکڑ رام کے سوا
   جوگی اسماعیل رام چندر کو قید کر دیا  دھنت بھیم سین غیر ماہو کو پکڑا
رضا کو کہو، الحمد للہ، رب العالمین، آمین آمین
(عامل کامل/ صفحہ۱۳۳)
اس طرح کے سینکڑوں سفلی جنتر منتر ہیں۔ کفر سے بھرے ان منتروں اور سفلی عملیات کی کتابیں بازاروں میں کھلے عام آج بھی فروخت ہوتی ہیں۔ گمراہ عامل نہ صرف عملیات کرتے ہیں بلکہ اپنے معتقدین کو ہندوؤں کے مخصوص تیوہاروں کے موقعوں پر مندر میں جا کر پوجا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دیوالی اور ناگ پنچھی،پونم،اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ نام نہاد مسلم عامل سفلی عملیات کے لئے چھپا کر چھوٹی چھوٹی مورتیاں یا تصاویر اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر رکھتے ہیں اور اپنے مریدوں کو خفیہ طور پر مورتی پوجا کا حکم دیتے ہیں۔
کیا سحر، جادو، بھوت پریت، شیطان کے باطنی امراض و اثرات کا علاج کفر و شرک و سفلی عمل کے ذریعہ کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا پھر دین خالص اور ایمان باللہ پر یقین کامل، اللہ پر توکل، مصائب پر صبر زیادہ اہم ہے۔ ایمانیات کی بنیادوں کو ڈھا کر محض اپنے اور دوسروں کے مصائب کے علاج کے لئے کفر و شرک اختیار کرنا سراسر گمراہی اور طاغوت و باطل ہے۔ ایسے بدترین افراد کے خارج اسلام ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔
یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح سے ہے محض صحت و تندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار استعمال کرنا جس کی جڑیں کفر سے ملتی ہیں۔ صرف نیک نیتی کی بنیاد پر ناجائز کو جائز اور ممنوعات و منھیات کو مباح قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
مسلم جوگیوں اور مسلم یوگیوں میں گٹھ جوڑ ہو جائے تو پھر بڑے پیمانے پر غلو و گمراہی کا ایک نئے دور کا آغاز ہو گا اور مسلمانوں میں جوگیوں اور یوگیوں کا علیحدہ طبقہ جنم لے گا۔ جو آنے والی نسلوں کے لئے درد سر بن سکتا ہے۔ یوگا کے تعقدی خباثتوں کے متعلق شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
یوگا کو جائز قرار دینے والوں کو یہ غور کرنا چاہئے۔ یوگا واضح و صریح کفر کے راستہ  پر پہلا قدم ہے۔ جلد یا دیر سے یوگا کا یہ راستہ کفر کی سمت جاتا ہے اور  پھر لوگ جب اس راستہ پر دور تک نکل جائیں گے تو ایمان اور اصلاح اور توبہ کے تمام راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گے۔اور اس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب و ذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑ جائیں گے۔
آپسی مسلکی اختلاف سے زیادہ سنگین معاملہ فرقوں کی ضلالتوں کا ہے۔ ہمارے پاس جتنے بھی گمراہ فرقے پیدا ہوئے۔ان میں اکثر نے قرآنی سورتوں کی مدد لی اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے جیسا چاہا معنی و مطالب کو توڑا موڑا اور کسی سے بھی منسلک کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات کے ساتھ جنتر منتر اور اشلوکوں کو ملا کر ورد کرنے اور اپنے مریدوں کو اس کی تلقین کرنے کا کیا جواز ہے۔ اس بدترین گمراہی نے سفلی عمل  کرنے والے عاملوں کے ایک نئے گروہ کی تخلیق کی۔
کفر کے دساتیر سے مشرکانہ،ملحدانہ طور طریقوں کو شریعت اسلامی میں داخل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے سرزمین ہند زندگی کے کئی حصوں کو کفر و شرک اور باطل سے خلط ملط کر دیا۔
(نوٹ:جعلی وظائف سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لئے مولف:عمران شہزاد تارڑ کی کتاب "رزق میں فراخی اور مشکلات کا حل" میں پڑھیں۔)
اگر زہر کو آہستہ آہستہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیتے رہیں وہ اپنا مہلک اثر ضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں ڈھکیل دے گا۔
یہی معاملہ ایمان و کفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک اہل ایمان اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے رد کفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان و کفر کے فرق کو اپنی فکر و نظر سے اوجھل کر دے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے اور اس سے مسلمان کو ہر کافرانہ دعوت و عمل جاذب نظر آنے لگتی ہے۔
یوگا کی وکالت کرنے والے حضرات کی ہو سکتا ہے کہ آج نیت بہت اچھی ہے۔ لیکن اگر اس کا شوق بڑھنے لگا اور نوجوان نسل میں یہ رجحان وسعت اختیار کر لے گا تو اسلام اور ملت اسلامیہ میں ایک نئی گمراہی کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بے شمار فاسد نظریات، بدعات اور لغو ابلیسی کاموں کو ملت اسلامیہ میں دین کے نام پر داخل کر دیا گیا ہے۔ جس سے وحدانیت اور اسلام کی دو ٹوک روشن صاف ستھری شاہراہ میں رخنے پڑھنے لگے ہیں۔
ایک مسلمان کثرت اور جسمانی ورزش کے عنوان پر اگر یوگا کر رہا ہے تو وہ آگے چل کر یوگیوں کی تعلیمات میں دلچسپی لینا بھی شروع کر دے گا اور یوگا کو سری کرشنا کی تعلیمات کے مطابق روحانیت کے حصول کا ذریعہ بھی تصور کرنے لگے گا۔ اس طرح کفر و شرک اور شیطان ایک مومن کو اپنے گرفت میں جکڑ لے گا اور ہو سکتا ہے کہ یوگا کرنے والے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
’’ہمارے مشاہدے میں کئی افسوسناک واقعات آئے ہیں  جن کمزور ایمان اور عقل والوں نے یوگا کیندروں کا رخ کیا۔ اور مہایوگیوں کی تعلیمات سے متاثر ہو کر انھوں نے ایمان کھو دیا اور بعض تو ہندو ہو گئے اور بعض اپنی شکل و صورت اور لبادہ سادھوں جیسا بنا لیا۔ یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔‘‘
تاریخ گواہ ہے گذشتہ صدیوں میں ایسا کئی مرتبہ ہوتا رہا اور ملت کے لئے ہمیشہ ایک نیا اعتقادی مسئلہ کھڑا ہوتا رہا۔کیا کوئی ادنی درجہ کا مسلمان بھی کفر و شرک اور شیطانی کلمات سے بھر پور ان باتوں پر عقیدہ رکھ سکتا ہے۔؟
ملت اسلامیہ کو اس کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس طرح کے عقیدہ و تہذیبی بگاڑ کی اصلاح کے لئے کئی نسلوں تک کوششیں کرنا پڑھتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے  قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
کتاب ڈاونلوڈ کے لئے یہاں کلک کریں۔
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
Sponsor by: FATIMA ISLAMIC CENTRE 
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
BEST FUTURE  TRAVEL & TOURISM
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...