Friday, 23 March 2018

ہائی بلڈ پریشر کا علاج آپ کے کچن میں

ہائی بلڈ پریشر کا علاج آپ کے کچن میں
(علینہ اسلام)

پاکستان میں جب کبھی بھی آپ کے گھرانے کا کوئی عمر رسیدہ شخص آپ سے کہے کہ آپ ان کا بلڈ پریشر بڑھا رہے ہیں تو تین میں سے ایک امکان ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں اور یہ صرف ڈرامہ نہیں ہے۔

عالمی ادارہء صحت کی ڈائریکٹر مارگریٹ چین کے مطابق پاکستان میں 18 فیصد بالغان اور 45 سال سے زیادہ عمر کے 33 فیصد لوگوں کو بلند فشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر) کی بیماری لاحق ہے۔ بدقسمتی سے صرف 50 فیصد کیسز میں ہی تشخیص ہو پاتی ہے، اور ان میں سے بھی صرف آدھے کیسز میں علاج کروایا جاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف 12.5 فیصد کیسز کو باقاعدہ طور پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس فرق کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

آئیں سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ بلڈ پریشر ہے کیا۔ 120/80 mmHG کے بلڈ پریشر کو نارمل تصور کیا جاتا ہے جبکہ 135/85 mmHG باعثِ تشویش ہوتا ہے کیونکہ ریڈنگ اس سے زیادہ ہونا ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے۔

پیتھولوجی (یعنی آپ کے جسم کے اندر کیا ہو رہا ہے) کے نظریے سے دیکھیں تو ہائی بلڈ پریشر کا مطلب ہے کہ جب آپ کا دل جسم میں خون پمپ کرتا ہے، تو آپ کی شریانوں پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ یہ زیادہ دباؤ تب پڑتا ہے جب آپ کی شریانیں سکڑ کر چھوٹی ہوجائیں یا آپ کے جسم میں خون زیادہ ہوجائے۔

اس بارے میں سب ہی جانتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر نمک کے زیادہ استعمال اور ذہنی تناؤ سے منسلک ہے، اس لیے پڑھنے والوں کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ ہائی بلڈ پریشر معمولاتِ زندگی میں خرابی جیسے کھانے پینے میں بے اعتدالی، ورزش کی کمی، اور اسٹریس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور یہی اس بیماری سے نمٹنے کا حل بھی ہے۔

اگر آپ نے میرا پچھلا مضمون دواؤں سے دوری کیوں ضروری ہے پڑھا ہے تو آپ جانتے ہوں گے کہ میں صرف دواؤں پر انحصار کرنے کے بجائے بیماری کی جڑ تک پہنچنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہوں۔ دواؤں سے آپ سامنے نظر آنے والی علامات کو ختم کر سکتے ہیں لیکن دوائیں انہیں واپس سر اٹھانے سے نہیں روک سکتیں۔

لہٰذا آئیں ہم ہائی بلڈ پریشر کی وجوہات جانتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کس طرح ان سے نمٹا جا سکتا ہے۔

زیادہ کیلوریز کا استعمال

کھانے کے وقت ہر چیز حصوں میں کھائیں، خاص طور پر گوشت، روٹی، اور چاول۔ کھانے میں گوشت آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے (مردوں کے لیے دو) اور اجناس اور نشاستہ ایک ہاتھ سے زیادہ نہیں (مردوں کے لیے دو) ہونا چاہیے۔ باقی کی کیلوریز آپ کو سبزیوں سے حاصل کرنی چاہیئں۔

تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ وزن گھٹانے سے بلڈ پریشر اعتدال پر آتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کے لیے تجویز کردہ دواؤں کی مقدار میں بھی کمی آتی ہے۔

سوڈیم-پوٹاشیم کا بلند تناسب

پوٹاشیم اور سوڈیم ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور جسم میں پانی اور نمکیات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ان دونوں کو متناسب رکھنا ضروری ہے۔ اگر ایک بڑھ جاتا ہے تو دوسرا لازماً کم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے جسم میں بہت زیادہ سوڈیم ہے، تو ڈاکٹرز آپ کو اکثر پوٹاشیم کی دوائیں دیں گے تاکہ آپ کا سوڈیم پیشاب کے ذریعے خارج ہوجائے۔ غذا میں پوٹاشیم شامل کرنے کے لیے کیلے، ٹماٹر، شکر قندی، پھلیاں، دالیں، کھجوریں، اور ناریل کا پانی زیادہ استعمال کریں۔

ٹیبل سالٹ کا استعمال ختم کر دیں اور جب بھی ضرورت ہو تو سمندری نمک یا ہمالیائی گلابی نمک کا استعمال کریں۔ پہلے میں صرف دو معدنیات سوڈیم اور کلورائیڈ ہوتے ہیں جبکہ دوسرے میں 70 سے زیادہ معدنیات مختلف مقدار میں ہوتے ہیں جو اعصاب اور نظامِ قلب کے درست کام کرنے کے لیے ضروری ہے، جبکہ اس میں سوڈیم کم ہوتا ہے۔ زیادہ سوڈیم سے آپ کے جسم میں پانی جمع رہتا ہے، نتیجتاً خون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

کم فائبر، کیلشیئم، میگنیشیئم، اور وٹامن سی والی غذائیں

ہر کھانے کے وقت یہ یقینی بنائیں کہ آپ کی آدھی پلیٹ سبزیوں سے بھری ہے۔

گہرے سبز رنگ کی سبزیاں ان معدنیات کا بہترین ذریعہ ہیں، خاص طور پر میگنیشیئم، کیونکہ یہ کلوروفل (پودوں کے خون) کا مرکزی جزو ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آئرن انسانی خون کا مرکزی جزو ہوتا ہے۔

پراسس شدہ کھانے مثلاً بسکٹ، چپس، نمکو وغیرہ غذائیت اور فائبر سے خالی ہوتے ہیں جبکہ ان میں نمک اور چینی زیادہ ہوتی ہے۔ انہیں تازہ پھلوں اور سبزیوں سے بدل دیں جو بلاشبہ بلڈ پریشر کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

اومیگا 3 کے مقابلے میں سیر شدہ چکنائی کا زیادہ استعمال

60 سے زیادہ تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ مچھلی کے تیل کی سپلیمنٹس بلڈ پریشر گھٹانے میں مددگار ہیں۔

ای پی اے اور ڈی ایچ اے کا 3000 ملی گرام روزانہ کھائیں (یہ مچھلی کے تیل کے 1 چمچ کے برابر ہوتا ہے)۔ اس سے آپ کا بلڈ پریشر 2 mmHG کم ہوگا۔

اپنی غذا میں زیادہ اومیگا 3 شامل کریں۔ مچھلی، اخروٹ، پیکن (امریکی اخروٹ)، صنوبری بادام، فلیکس، اور تخملنگے کا استعمال زیادہ کریں۔

ذہنی تناؤ

روزانہ 10 سے 15 منٹ صرف گہری سانسیں لینے کے لیے نکالیں (ایک منٹ میں تقریباً 6 سانس)۔ یہ آپ گھر پر بھی کر سکتے ہیں، اور اگر ناممکن ہو تو یوگا کلاس میں داخلہ لے لیں۔

تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ چھوٹے سانس لینے سے جسم میں سوڈیم جمع رہتا ہے جبکہ گہری اور آہستہ سانس لینے سے آکسیجن زیادہ مل پاتی ہے، ورزش کے لیے برداشت پیدا ہوتی ہے، اور بلڈ پریشر کی مانیٹرنگ بہتر ہوتی ہے۔

ورزش کی کمی

تحقیق بتاتی ہے کہ ہفتے میں 3 دفعہ 20 منٹ کی ہلکی یا درمیانی ورزش بلڈ پریشر گھٹانے میں مدد دیتی ہے۔

بلڈ پریشر کے مریضوں پر کیے گئے تجربات نے ورزش کو بلڈ پریشر کا بہترین علاج قرار دیا ہے۔

اوپر دی گئی ہدایات کے علاوہ یہ کچھ قدرتی علاج ہیں جو بلڈ پریشر کم کرنے میں کلینکلی ثابت شدہ ہیں۔

اجوائن میں ایک کمپاؤنڈ 3-n-butylphthalide ہوتا ہے جس کے بارے میں ثابت شدہ ہے کہ یہ بلڈ پریشر کم کرتا ہے۔ جانوروں پر کی گئی تحقیق میں اس کمپاؤنڈ کی تھوڑی سی مقدار نے بلڈ پریشر 12 سے 14 فیصد گھٹانے میں مدد دی جو اجوائن کے 4 سے 6 ٹکڑوں کے برابر ہے۔ اجوائن جوس وغیرہ میں اچھا ذائقہ فراہم کرتی ہے اس لیے اسے اپنی غذا میں شامل کرنا مشکل نہیں ہوگا۔

ہر کھانے کے ساتھ ادرک کا ایک ٹکڑا ضرور کھائیں۔ ادرک کے پاؤڈر کی کچھ مقدار (1.8 سے 2.7 گرام تازہ ادرک کے برابر) کے ساتھ کی گئی تحقیق میں دیکھا گیا کہ سسٹولک بلڈ پریشر میں mmHG 11 جبکہ ڈائسٹولک بلڈ پریشر میں 5 mmHG کمی صرف 2 سے 3 ماہ میں ہوئی۔

چقندر کے جوس میں l-arginine ہوتا ہے جو شریانوں کو نرم کرتا ہے۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ روزانہ چقندر کا ایک کپ جوس پینا اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا کہ بلڈ پریشر کی دوائیں، اور اس سے 9/5 mmHG بلڈ پریشر کم کرنے میں مدد ملی۔

کئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گل خطمی (Hibiscus) کی چائے بلڈ پریشر گھٹاتی ہے۔ ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ 240 ml کے تین کپ روزانہ پینے سے صرف 6 ہفتوں میں سسٹولک بلڈ پریشر 7.2 mmHG کم ہوا۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر اینڈ بیسٹ فیوچر ٹراویل اینڈ ٹورازم
www.dswatetohid.blogspot.com
www.bestfuturepk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...