Sunday 21 August 2016

خواتین کا انٹرنیٹ کے ذریعے دعوت و دین کا کام کرنا-اور بوقت ضرورت کسی غیر محرم سے بات اور راہنمائی لینا؟؟؟

خواتین کا انٹرنیٹ کے ذریعے دعوت و دین کا کام کرنا-اور بوقت ضرورت کسی غیر محرم سے بات اور راہنمائی لینا؟؟؟
( یعنی لڑکا لڑکی کا فون اور سوشل میڈیا جیسے واٹس اپ اور فیس بک وغیرہ پر بات چیت، چیٹنگ کرنا)

(ایک تحقیقی رپورٹ جمع ترتیب:عمران شہزاد تارڑ)

میری اس رپورٹ سے اہل علم کواختلاف کرنے کا پورا پورا حق ہے-یہ میرا ذاتی نقطہ نظر ہے-
میں کوئی فتویٰ صادر نہیں کر رہا-میرا یہ نظریہ غلط بهی ہو سکتا ہے اور درست بهی-

سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اظہار رائے ، تبادلہ خیال ، تصاویر تحاریر اور ویڈیوز شیئر ( Share ) کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ جس کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ سوشل ویب سائٹس میں سے زیادہ تر لوگ فیس بک ، ٹویٹر ، یو ٹیوب ، گوگل پلس اور لنکڈان واٹس اپ وغیرہ استعمال کرتے ہیں ۔ ہمیں سوشل میڈیا کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے ۔ سوشل میڈیا سے اچھے مقاصد بھی سر انجام دیئے جا سکتے ہیں-
  قرآن و حدیث کی شیئرنگ اور عقیدے کی درستگی کا کام بھی کیا جا سکتا ہے البتہ تحقیق کر کے شیئر کرنا چاہیے ۔ تعلیم ، تفریح اور معاشرے کو متحرک بنانے کے ساتھ مشکل میں مدد کے امکان کا بھی سبب ہے ۔ ہمیں سوشل میڈیا کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔ سماجی میڈیا کے نقصانات سے بھی خبردار رہنا چاہیے ۔
جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے ۔ فحاشی کو فروغ ، بے حیائی کا کھلے عام اظہار ، بے معنی ، ناشائستہ اور بے ہودہ زبان کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کی وجہ سے لوگ اپنے والدین ، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کو وقت نہیں دے پاتے ۔ آپ ایسے لوگوں سے خبردار رہیں جو سوشل میڈیا پر فساد ، بدامنی ، لڑائی جھگڑے ، بے حیائی اور غلط خبریں پھیلاتے ہیں ۔

انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت سی ایسی مسلمان مواحد بہنیں دیکھی ہے(شکل صورت نہی ان کی تحریریں ) جن کو اللہ تعالی نے علم کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے اور وہ دعوت توحید کا کام بھی خوب سرانجام دے رہی ہے؛
الحمداللہ :
 اگر بات دین سیکھنے سکھانے کی نیت سے ہو تو صحیح ہے کیونکہ  بڑے بڑے محدثین نے خواتین سے کسب فیض کیا جن میں امام بخاری اور امام شافعی جیسے عظیم نام بھی شامل ہیں ۔اور کتب احادیث کا مطالعہ کرنے والا احادیث کی اسانید میں بے شمار خواتین کے نام دیکھ سکتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد بھی عورتوں کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ تواتر کی حدوں کو بھی پار کر چکا ہےاور جب ہم تواریخ کا مطالہ کرتے ہے تو ہمیں کئی ایسی محدثات وفقیہہ عورتیں نظر آتی ہے '' ہم اصحاب رسول ؐ کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئی اور ہم نے اسے حضرت عائشہؓ سے درےافت کیاتوان کے پاس اس کا علم پایا۔''(جامع ترمذی،کتاب المناقب باب من فضل عائشۃ ؓ :3883 ) عمرۃ بنت عبدالرحمان ​ابن شہاب زہری ،قاسم بن محمد کو کہتے ہیں کہ میں تمہیں علم کا بہت حریص دیکھتا ہوں کیا میں تمہیں اس کے خزانے پر مطلع نہ کروں ؟ علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو جاؤ عمرۃ کے پاس۔ قاسم بن محمد کا کہنا ہے کہ عمرۃ کے پاس جاکر مجھے ایسا لگا کہ وہ کبھی نہ خشک ہونے والا سمندر ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء 508/4)تیسری صدی کی معروف محدثات :تیسری صدی میں عابدۃالمدینہ، ام عمر الثقفیۃ، زینب بنت سلیمان ، نفیسہ بنت حسن بن زید، خدیجہ ام محمد، عبدۃ بنت عبدالرحمان ،عباسہ امام احمد ابن حنبل کی اہلیہ اور دیگر بہت سی خواتین قابل ذکر ہیں جنہوں نے حدیث رسولؐ پر باقاعدہ لیکچرز دیے ، جن میں بڑے بڑے محدثین شامل ہو تے تھے ۔ عابدہ جو ایک سیاہ فام لونڈی تھیں لیکن افق حدیث کا چمکتا ہوا ستارہ بھی تھیں،جب محمد بن یزید نے انہیں حبیب بن الولید الدحون الاندلسی کو ہبہ کردیا تو وہ ان کے علم سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں آزاد کرکے ان سے شادی کرلی اور اپنے ساتھ اندلس لے آئے جہاں پر وہ تقریباََ دس ہزار احادیث، امام دار الھجرہ مالک بن انس اور دیگر مدنی اساتذہ سے روایت کرتی رہیں اور یوں وہ یورپ میں فروغ تعلیمات نبویؐ کا باعث بنیں۔(المقتبس من أنباء الأندلس لابن حیان القرطبی 228/1)کریمۃالمروزيہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ صحیح بخاری کی روایت میں وہ يکتائے زمانہ تھیں ۔بڑے بڑے ائمّہ جن میں ابو بکر الخطیب البغدادی بھی شامل ہیں جو بغداد سے مکہ پہنچ کر کریمہ سے صحیح بخاری کا سماع کرتے ہیں ۔ ابوبکر بن منصور سمعانی کا کہنا ہے کہ میرے والد کریمہ کی علمی شخصیت سے بہت متاثر تھے ،وہ کہتے تھے کہ میں نے کریمہ جیسا کوئی نہیں دیکھا ۔(تاریخ اسلام للذہبی ،ت بشار 223/10)صحیح البخاری کی روایت میں مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمرکا نام بطور خاص لیا جاتا ہے ، جو طویل عرصہ تک دمشق اور مصر میں درس و تدریس کرتی رہیں اور جن کی روایت ِبخاری بھی بہت شہرت کی حامل ہوئی ۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 397/2)ام الخیر امۃ الخالق مدرسہ حجاز کی آخری راویہ صحیح بخاری تھیں۔ (شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 21/10)اسی طرح عائشہ بنت عبدالہادی بھی تدریس بخاری کے لےے ایک ممتاز مقام رکھتی تھیں۔(شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 399/10)خواتین نے نہ صرف صحیح بخاری کی درس و تدریس اور روایت کا اہتمام کیا بلکہ دیگر کتب حدیث کی روایات اور درس و تدریس میں قابل ذکرحصہ ڈالا، اس سلسلے میں ام الخیر فاطمہ بنت علی بغدادیہ کا نام قابل ذکر ہے جو اپنے وقت کی مشہور راویہ صحیح مسلم تھیں ۔ (سیر اعلام النبلاء 265/19)ام ابراہیم فاطمہ الجوزدانیہ معجم للطبرانی کی روایت کیا کرتی تھیں۔(تاریخ اسلام ۔ت:تدمری 126/43) ام احمد زینب بنت المکی بن علی بن کامل الحرانیچورانوے سال تک زندہ رہیں،ان کے گرد طلبہ کا ہجوم رہتا ، مسند احمد کی روایت کیا کرتی تھیں (شذرات الذہب 607/7)ابن نقطہ نے اپنی کتاب التقیيد لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (ص :497)میں ایسی بارہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے دور میں کتب ِاحادیث کی روایت میں مشہور ہوئیں۔چوتھی صدی کی مشہور محدثات :چوتھی صدی میں فاطمہ بنت عبدالرحمان الحرانیہ ام محمد (تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 441/14)،ام سلمہ فاطمہ بنت أبی بکر بن أبی داود -سنن ابی داؤد کے مولف امام ابو داؤدسجستانی کی پوتی -(تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 442/14) امۃ الواحد بنت قاضی ابی عبداﷲ حسین بن اسماعیل المحاملی (تاریخ اسلام ، ت:بشار 437/8)ام الفتح امۃ السلام بنت القاضی احمد بن کامل بغدادیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 465/8) ام الحسین جمعۃبنت احمد المحیۃ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 634/16)فاطمہ بنت ہلال الکرجیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16) اور طاہرۃ بنت احمد ا لتنوخیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16) کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے علم حدیث میں کمال پیدا کرکے لازوال نقوش چھوڑے ، انکے دروس میں بے شمار لوگ شریک ہوتے تھے ۔ پانچویں صدی کی مشہور محدثات :پانچویں صدی میں مشہور صوفی حسن بن علی الدقاق کی بیٹی اور ابو قاسم القشیری کی زوجہ محترمہ فاطمہ نے بھی سند عالی کے لیے شہرت پائی جو ابو نعیم الاسفرائنی اور حاکم نیشاپوری سے حدیث روایت کرتی تھیں(تاریخ اسلام ، ت:بشار 457/10)اس کے علاوہ خدیجہ بنت محمد شاہجہانیہ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 118/10)سُتَیْتَہ بنت قاضی ابن ابی عمرہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 693/9)خدیجہ بنت البقال(تاریخ اسلام ، ت:بشار 636/16)اور جبرۃ السوداء (تاریخ اسلام ، ت:بشار 637/16)نے شہرت پائی ۔چھٹی صدی کی مشہور محدثات :چھٹی صدی میں ام البہاء فاطمہ بنت محمد مسندۃ اصفہان(تاریخ اسلام ، ت:بشار 716/11) ام الخیر فاطمہ بنت علی مسندۃ خراسان (تاریخ اسلام ، ت:بشار 576/11)مسندۃ الوقت خدیجہ بنت محمد(تاریخ اسلام ، ت:بشار 43/14) تجنی بنت عبداﷲ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 550/12) اور شہدۃ بنت احمد مسندۃ العراق سند عالی کے لیے مشہور ہیں(التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والأسانیدص:105) ، شہدۃ جنہیں فخرالنساء کا خطاب دیا گیا ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد حاضر ہوا کرتی ، علو سند میں ان کی اس شہرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا استاد قرار دیا،ذکی الدین البرزالی نے ان کا مشیخہ آٹھ اجزاء میں مرتب کیا ہے ۔(تاریخ بغداد ، ط: العلمیۃ394/15 نیز دیکھیے العمدۃ من الفوائد والآثار الصحاح والغرائب فی مشیخۃ شہدۃ)ساتویں صدی ہجری میں ام محمد زینب بنت احمد المقدسی (المتوفیہ 722 ھ ) نے طلبِ حدیث کی خاطر فلسطین سے مصر ، شام اور مدینہ کا سفر کیے ، زینب علماء سے علم حدیث حاصل کرنے اور اجازتِ حدیث لینے کے بعد جب مسندِ تدریس پر بیٹھیں تو دور دراز سے طلبہ سفر کرکے ان کے پاس سماع ِحدیث کے لیے کھنچے چلے آتے۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید368/2)عائشہ بنت ابراہیم جو ابنۃ الشرائحی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اس میدان میں کمال حاصل کرنے کے بعد مصر ، شام اور بعلبک وغیرہ میں درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا ۔(التنبیہ والإیقاظ لما فی ذیول تذکرۃ الحفاظ، ص:109)عائشہ بنت محمدبن مسلم الحرانیہ جو سلائی کڑھائی کرکے اپنا پیٹ پالتی تھیں، کثرتِ روایت کے علاوہ بعض اجزاءِ حدیث کی روایت میں منفرد حیثیت رکھتی تھیں (ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 382/2)۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر دمشق کے دوران726ھ میں جامع بنی امیّہ میں ان سے سماع حدیث کیامسندۃ خراسان زینب بنت عبد الرحمن بن الحسن الاشعریہ ، جن کی وفات سند عالی کے انقطاع کا باعث بنی (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:501)عائشہ بنت معمر الاصبہانیہ مسند ابی یعلی کی روایت میں شہرت کی حامل تھیں مشہور محدث ابن نقطہ آپ کے شاگردوں میں سے تھے (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:449) مسندہء شام کریمہ بنت عبد الوہاب بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل تھیں جنھیں روایت حدیث کے لےے بڑے بڑے علماء سے اجازت حاصل تھی ۔ اور وہ کبھی روایت حدیث سے اکتاتی نہیں تھیں(سیر اعلام النبلاء 92/23) زینب بنت عبد اللہ بن أسعد المکی کے دروازے پر ہمیشہ طلبہِ علم کا ہجوم رہتا(الاعلام للزکلی 66/3)شامیہ امۃ الحق متعدد اجزاء حدیث کی روایت میں منفرد تھیں (تاریخ اسلام ، ت : بشار 542/15)عجیبہ بنت محمد البغدادیہ نے اپنا مشیخہ دس اجزاء میں مرتب کیا(تاریخ اسلام ، ت : بشار 581/14)۔آٹھویں صدی ہجری : میں اسماء بنت محمد ابی المواہب ابن حصری ، امۃ العزیز بنت ذہبی ، فاطمہ بنت البرازلی ، اسماء بنت خلیل بن کیکلدی العلائی ، رقیہ بنت ابن دقیق العید ، زینب بنت ابن قدامہ المقدسی ، زینب بنت ابن جماعی الکنانی، ام البھائ، زینب بنت ابن العجمی ،ست النعم بنت العلامہ نجم الدین الحرانی ،ست الوزراء بنت عمر ابن منجاء ،ستیہ بنت تقی الدین السبکی ، ستیہ بنت نجم الدین الدمیاطی ، عائشہ بنت ابراہیم حافظ المزی کی اہلیہ ، عائشہ بنت عبداﷲ محب الدین الطبری کی پوتی ،لوزہ بنت عبداﷲمولاۃ ابن دقیق العید ، ست الرکب علی ابن حجر کی بہن ، زینب بنت عبداﷲتقی الدین ابن تیمیہ کی بھتیجی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔ (الدررالکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ)تاریخ ِدمشق کے مؤلف ابن عساکر اپنے مشیخہ میں 80 خواتین کا ذکر کرتے ہیں جن سے انہوں نے درس حدیث لیا۔ابو طاہر السلفی اپنی کتاب'' مشیخہ البغدادیہ ''''معجم السفر'' اور'' مشیخہ الاصبہانیہ'' میں اور ابوسعید السمعانی ''الخبیرفی المعجم الکبیر'' میں متعدد خواتین کو اپنے شیوخ میں شمار کرتے ہیں جن سے انہوں نے بطریق سماع یا اجازۃ روایت کی ۔ ''وفیات الاعیان'' کے مؤلف ابن خلکان زینب بنت اشعری م524ھ کے شاگرد رہے ۔ ابن بطوطہ کا شمار اگرچہ محدثین میں نہیں ہوتا لیکن شوق طلب حدیث میں متعددخواتین وحضرات اور خصوصاََزینب بنت احمد کمال م710ھ سے سماع کیا۔ نویں صدی کے مشہور محدث عفیف الدین جنید نے سنن دارمی کا درس فاطمہ بنت احمد قاسم سے لیا ۔نفیسہ بنت ابراہیم برزالی اور ذہبی کی استادرہیں،حافظ العرقی اور الھیثمی ست العرب بنت محمد البخاری کے شاگرد رہے ۔ (الاعلام للزرکلی 77/3)نویں صدی میں جس کثیر تعداد میں خواتین تعلیمات نبوی ؐ کے فروغ میں مصروف نظر آتی ہیں ، تعداد کے اعتبار سے یہ کثرت دوسرے ادوار میں نظر نہیں آتی ان میں سے جن خواتین نے بطور خاص شہرت پائی ان کا ذکر باعث طوالت ہوگا۔یہاں مثال کے طور پر سخاوی اور ابن حجر کی ایک ایک استاد کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ام ہانی مریم بنت عبد الرحمٰن الہورینیہ م871 ھ جنہیں ادب ، شعر اور خطاطی میں مہارت کے علاوہ حفظِ قرآن اور اسلامی علوم پر بھی عبور تھا۔ انہیں قاہرہ اور مکہ میں حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے باقاعدہ تدریس کے ساتھ حدیث میں اجازت نامے جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مریم بنت احمد الاذرعی بھی اس میدان میں سند کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کے اساتذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن حجر نے ان کی باقاعدہ ایک معجم مرتب کی، ان کے شاگرد وں کی تعداد بھی ان گنت ہے ۔(المجمع المؤسس 559/2،انباء الغمر 126/5)فاطمہ الفضیلیہ م 1247ھ ہیں ،جو بارہویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئیں ، ماہر خطاط تھیں خود اپنے ہاتھوں سے بہت سی کتب کو نقل کیا ۔ حدیث میں بھی بہت دلچسپی رکھتی تھیں بہت سے علماء سے اجازت بھی حاصل کی اور محدثہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زندگی کے آخری حصہ میں مکہ میں رہائش پذیر ہوئیں اور ایک بڑی لائبریری کی بنیاد ڈالی ۔ بڑے بڑے علماء ان سے سند حدیث کے لئے رجوع کرتے تھے۔اور ماضی قریب میں علویۃ الحبشیہ کو علو سند میں جو مقام حاصل تھا وہ مردوں میں صرف عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی کو حاصل تھا یا ایک دو مرد انکے علاوہ تھے ۔ محترمہ علویہ سے کتب حدیث روایت کرنے والے بے شمار لوگ اب بھی دنیا میں زندہ موجود ہیں اور وہ سند کے اعتبار سے سب سے اعلى اسانید کے حامل ہیں ۔ یعنی عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی اور علویہ حبشیہ سے روایت کرنے والے لوگ اعلى اہل الارض اسناداً ہیں ۔ کہ انکے اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے مابین صحیح سند کے ساتھ باعتبارعشاریات ابن حجر 18 اور باعتبار عشاریات سیوطی 17 وسائط ہیں ۔

اب ہم اسی سوال کو مزید قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکهتے ہیں-
محرم مرد وزن کی بات چیت آمنے سامنے ہو, موبائل پیغامات (massaging) کے ذریعہ ہو, یا سوشل میڈیا چَیٹ ہو, سب کے لیے اللہ سبحانہ وتعالى نے ایک ہی اصول وضابطہ مقرر فرمایا ہے۔ اللہ ﷯ کافرمان ذی شان ہے:وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّاور جب تم ان سے کسی چیز کے بارہ میں پوچھو, تو پردے کی اوٹ میں بات کرو۔ یہ تمہارے دلوں اور انکے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ [الأحزاب : 53]اس سے معلوم ہوتاہے کہ غیر محرم مرد اور عورت آپس میں کام کی بات کرسکتے ہیں۔ اور بات کرنے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ عورت پردے کی اوٹ میں ہو۔ موبائل , یا میسنجرز پہ کال کرتے ہوئے, یا چیٹ کے دوران "پردہ کی اوٹ" تو موجود ہی ہوتی ہے۔ الا کہ کوئی ویڈیو کال کرکے اس "اوٹ" کو ختم کر دے۔لیکن دوسرا اہم نقطہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ ہے "کام کی بات" ! جسے عموما پس پشت پھینک دیا جاتا ہے, اور اسکا لحاظ رکھے بغیر بات چیت کی جاتی ہے۔اس آیت کریمہ میں حجاب کا ذکر کرنے سے پہلے اس اہم نقطہ کو بیان کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ غیر محرم مرد وزن کی آپس میں بات چیت صرف "ضروری اور ہم کام" سے متعلق ہونی چاہیے۔ محض "گپ شپ" لگانے کی اجازت شریعت میں انکے لیے نہیں ہے! خوب سمجھ لیں۔اسی طرح دوسری مقام پہ اللہ ﷯ فرماتے ہیں:يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاًاے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں جیسی نہیں ہو, اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو, تو پرکشش لہجہ میں گفتگو نہ کرو, وگرنہ جسکے دل میں مرض ہے وہ طمع لگا بیٹھے گا۔ اور معروف بات کہو۔ [الأحزاب : 32]اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالى نے غیر محرموں سے گفتگو کرنے کے لیے مزید دو ا صول بیان فرمائے ہیں:۱۔ لہجہ پرکشش نہ ہو۔ ۲۔ معروف بات ہو۔یعنی اگر کوئی عورت گفتگو کے دوران ایسے لہجہ میں بات کرے جس سے مردوں کے دل میں "عشق" کا مرض جنم لے سکتا ہو, تو وہ لہجہ شرعا حرام ہے۔ اسی طرح تحریری گفتگو میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھناضروری ہے کہ ایسے الفاظ سے اجتناب کیا جائےجو صنفی کشش کا باعث بنتے ہوں۔ اور جو گفتگو مرد وعورت کر رہے ہیں وہ معروف یعنی اچھائی اور بھلائی اورنیکی کی گفتگو ہو جسے شریعت اسلامیہ منع نہیں کرتی۔ 
درج بالا قواعد وضوابط کو ملحوظ رکھ کر غیر محرم مرد و عورت آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں ۔اس امت کی سب سے پاکیزہ خواتین یعنی امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ کی ازواج مطہرات بھی غیر محرم مردوں سے انہی اصولوں کو مد نظر رکھ کر گفتگو کرتیں اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی براہ راست شاگردات یعنی صحابیات بھی انہی ضابطوں کی پابند رہ کر بات چیت کیا کرتی تھیں۔سو آج بھی اگر کوئی ان ضابطوں کی پابندی کرے تو انکی گفتگو میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی بات ایسی ہو جو کہ مرد کو اس عورت سے یا عورت کو اس مرد سے "خود" کرنا ضروری ہو, گفتگو کا انداز پرکشش نہ ہو, معروف بات ہو, اور حجاب کے احکامات ملحوظ خاطر ہوں, تو کوئی حرج نہیں ہے۔شادی سے قبل منگیتر بھی "نامحرم" ہی شمار ہوتے ہیں۔ لہذا ان سے بھی گفتگو انہی ضوابط کی پابند ہے۔یہاں ایک ہم بات سمجھنا بہت ضروری ہے , خصوصا خواتین کے لیے کہ* انکی سوشل میڈیا آئی ڈی انکے ولی امر (محرم مرد رشتہ دار جو عورت کا سرپرست ہے) کے علم میں ہونی چاہیے۔ اور اگر خواتین سوشل میڈیا مثلا فیس بک , ٹویٹر, واٹس ایپ , ٹیلی گرام وغیرہ کا استعمال کرتی ہیں تو انہیں بہت زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔اور درج ذیل غلطیوں سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا:1- لڑکوں کو ایڈ کرنا: کسی بھی ایسی آئی ڈی جو مردوں یا لڑکوں کے ناموں سے ہوں ان کو ایڈ نہ کریں اور اگر اپ کو لڑکی کے نام سے فرینڈ ریکویسٹ آئی ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ واقعی کسی بہن کی آئی ڈی ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی کے نام سے فیک آئی ڈی بناکر لڑکے آپ کو فرینڈ ریکویسٹ بھیج رہے ہیں ۔ جن پر لڑکیوں کی تصاویر لگی ہوتی ہیں تاکہ ایسے لڑکیوں کی پروفائل میں گھسا جا سکے۔ الغرض آپ صرف اور صرف لڑکیوں کو ہی اپنی فرینڈ لسٹ میں ایڈ کریں اور وہ بھی ایسی لڑکیاں جنہیں آپ جانتی ہوں کہ واقعی یہ لڑکیاں ہی ہیں اور پابند شریعت بھی!اگر آپکو دینی معلومات درکار ہیں, تو آپ فیس بک پر ایسے پیجز کو لائک کر لیں جو اسلامی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان سے ہی آپکی علمی ضرورت پوری ہو جائے گی۔2- لڑکوں سے چَیٹ: لڑکوں سے چیٹ کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں, جیسا کہ اوپر دلائل سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ "گپ شپ "لگانے یا پھر محض "سلام دعاء, حال احوال" کی غرض سے نامحرموں سے چَیٹ یا گفتگو کرنے کی شریعت میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔ ہاں بوقت ضرورت بقدر ضرورت جتنی شریعت نے اجازت دی ہے اسکے مطابق کوئی بات کی جاسکتی ہے, لیکن یہ ذہن میں رہے کہ یہ اجازت محض رخصت ہے, لہذا اسکا کم ازکم استعمال کریں۔3- ضرورت اور بلا وجہ کی گفتگو کے باریک فرق کو سمجھیں: اگر آپ کو کسی عالم دین سے معلومات درکار ہیں تو تین سے چار سطروں میں اپنا سوال لکھ کر سینڈ کریں، ورنہ گفتگو طول پکڑے گی اور کہیں جا کر بھی نہیں رکے گی جس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ خواتین عموما مرد کو دیندار, متقی, عالم دین, یا مجاہد سمجھ کر "گپ شپ" کرنا شروع کر دیتی ہیں جو کہ شریعت میں حرام ہے۔ اس سے اجتناب کریں۔ ٹو دی پوائنٹ یعنی جامع ومانع بات کریں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ آپ جب بھی کسی غیر محرم مرد سے چیٹ کریں تو اپنے کسی محرم کی موجودگی میں کریں, فتنہ سے محفوظ رہنے کا یہ بہت مؤثر ذریعہ ہے۔4- دوسروں کی پوسٹوں پہ کمنٹ کرنا:کسی بھی دینی یا فلاحی تنظیم یا جماعت کے پیج پہ موجود پوسٹوں پر اپنی آئی ڈی سے کمنٹ نہ کریں, وگرنہ اسکے نتیجہ میں آپکی آئی ڈی ہزاروں بلکہ لاکھوں مردوں تک پہنچ جائے گی اور یہ فتنہ کا سبب بن جائے گی!5- پروفائل پکچر: اپنی پروفائل پہ اپنی تصویر نہ لگائیں , خواہ نقاب والی ہی ہو۔ کچھ لڑکیاں اپنے ہاتھوں, پاؤں, لباس وغیرہ کی تصاویر کو اپنی پروفائل پہ لگا دیتی ہیں جبکہ شریعت نے ان سب کو چھپانے کا حکم دیا ہے۔6- پوسٹ کرنے میں احتیاط برتیں: اپنے دکھ اور غم مثلا : میں پریشان ہوں ڈپریشن میں ہوں میں بہت مصیبت میں ہوں وغیرہ انٹر نیٹ پہ اجنبیوں سے ہر گز نہ شئیر کریں, اور نہ ہی اپنی جاننے والی لڑکیوں سے۔ یہ وہ غلطی ہے جو ہر لڑکی انٹر نیٹ پہ کرتی ہے اور بعد ازاں نقصان اٹھاتی ہے۔ اسی طرح اپنے رویے اور پسند ناپسند ، رنگ کیسا پسند ہے ، کھانے میں کیا پسند ہے ، جوتے کون سے پسند ہیں ، یہ معلومات اگر آپ انٹر نیٹ پہ ڈالیں گی تو وہ کسی نہ کسی تک تو پہنچیں گی جس سے نقصان کا اندیشہ ہے ۔
ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں
whatsApp:0096176390670
whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
http://www.dawatetohid.blogspot.com/
www.facebook.com/fatimaislamiccenter

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...