Tuesday 23 August 2016

(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA7

(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA7 )

*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار*
*مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*'
*ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-
             *مکتبہ اسلامیہ*
*یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*

اعتراض اور اس کا جواب:
المازریؒ کہتے ہیں: مبتد عین نے اس حدیث کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ حدیث منصبِ نبوت کی توہین اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے اور اسے درست ماننے سے شریعت پر اعتماد اٹھ جاتا ہے، ہو سکتا ہےکہ آپﷺ کو خیال آتا ہو کہ جبریلؑ آئے حالانکہ وہ نہ آئے ہوں اور یہ کہ آپﷺ کی طرف وحی کی گئی ہےحالانکہ وحی نہ کی گئی ہو!!
پھر کہتے ہیں کہ مبتدعین کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ معجزات نبوت اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپﷺ تبلیغِ وحی کے سلسلے میں معصوم اور سچے تھے۔ آپﷺ کی عصمت جب معجزات جیسے قوی دلائل سےثابت شدہ حقیقت ہے تو اس کے خلاف جو بات بھی ہو گی وہ بے جا تصور کی جائے گی۔(زادالمسلم:ج4ص221)
ابوالجکنیی الیوسفیؒ  کا کہنا ہے:
“جہاں تک جادو سے نبی کریمﷺ کے متاثر ہونے کا تعلق ہے، تو اس سے منصبِ نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ دنیا میں انبیاءؑ پر بیماری آ سکتی ہے جو آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہے، لہٰذا جادو کی بیماری کی وجہ سے اگرآپﷺ کو  خیال ہوتا تھا کہ آپﷺ نے دنیاوی امور میں سے کوئی کام کر لیا ہے حالانکہ آپﷺ نے اسے نہیں کیا ہوتا تھا، اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی کہ آپﷺ پر جادو  کیا گیا ہے اور فلاں جگہ پر ہے،  اور آپﷺ نے اسے  وہاں سے نکال کر دفن بھی کروا دیا تھا تو اس بناء پر رسالت میں کوئی نقص نہیں آتا، کیونکہ یہ دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری  تھی، جس سے آپﷺ کی عقل متاثر نہیں ہوئی۔ صرف اتنی بات تھی کہ آپ کا خیال ہوتا کہ شاید  آپﷺ اپنی کسی بیوی کے قریب گئے ہیں جبکہ آپﷺ نے ایسا نہیں کیا ہوتا تھا، سو اتنا اثر بیماری کی حالت میں کسی بھی انسان پر ہو سکتا ہے۔”
پھر کہتے ہیں:
“حیرت اس شخص پر ہوتی ہے کہ جو جادو کی وجہ سے آپﷺ کے بیمار ہونے کو رسالت میں ایک عیب تصور کرتا ہے حالانکہ قرآنِ مجید میں فرعون کے جادوگروں کے ساتھ حضرت موسیٰؑ کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے، اس میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ جناب موسیٰؑ کو بھی ان کے جادوکی وجہ سے یہ خیال ہونے لگا  تھا کہ ان کے پھینکے ہوئے ڈنڈے دوڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثابت قدم رکھا  اور نہ ڈرنے کی تلقین کی۔” (سورۃ طہ کی آیات 66-69، جن کا ترجمہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے)
مگر حضرت موسیٰؑ کے متعلق کسی نے یہ نہیں کہا کہ جادو گروں کے جادو کی وجہ سے انہیں جو خیال آ رہا تھا وہ ان کے منصبِ نبوت کے لئے عیب تھا، (سو اگر وہ عیب نہیں تھا  تو جو کچھ آپﷺ کے ساتھ پیش آیا وہ بھی عیب نہیں ہو سکتا کیونکہ) اس طرح کی بیماری انبیاءؑ پر آ سکتی ہے جس سے ان کی ایمانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے دشمنوں پر فتح نصیب کرتا ہے۔ خلافِ عادت معجزات عطا کرتا ہے، جادو گروں اور کافروں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور بہترین انجام متقی لوگوں کے لئے خاص کر دیتا ہے۔” (زاد المسلم:ج4ص22)
2۔ حضرت ابو ہریرہؓ  رسول اکرمﷺ سے روایت کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:“ سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو”
صحابہ کرامؓ نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ! وہ سات کام کونسے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: “اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو بغیر حق کے قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دوران پیٹھ پھیرلینا اور پاک دامن، مئومنہ اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔” (البخاری:ج5ص393، مسلم:ج2ص73)
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے جادو سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے ہلاک کر دینے والے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، تو یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے، محض خام خیالی نہیں۔
3۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“جس نے ستاروں کا علم سیکھا گویا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھ لیا، پھر وہ ستاروں کے علم میں جتنا آگے جائے گا، اتنا اس کے جادو کے علم میں اضافہ ہو گا۔”
(ابوداود:3905، ابنِ ماجہ3726، الصحیحۃ للالبانی:793)
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے جادوسیکھنے کا ایک راستہ بتایا ہے تاکہ مسلمان اس راستے سے بچ سکیں، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقی علم ہے جسے باقاعدہ طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اور یہی بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی معلوم ہوتی ہے:
فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجہ
“پھر وہ ان دونوں سے اس چیز کا علم حاصل کرتے ہیں جس سے وہ خاوند بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں۔”
مذکورہ حدیث اور آیت دونوں جادو کا علم حاصل کرنے کی مذمت کے ضمن میں آئی ہیں، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ جادو دوسرے علوم کی طرح ایک علم ہے اور اس کے چند  اصول ہیں جن پر اس کی بنیاد ہے۔
4۔ عمران بن حصین سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
“وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے فال نکالی یا اس کے لئے فال نکالی گئی، اور جس نے غیب کو جاننے کا دعویٰ کیا یا وہ غیب کا دعویٰ کرنے والے کے پاس گیا، اور جس نے جادو کیا یا اس کے لئے جادو کیا گیا۔”
“اور جو شخص نجومی کے پاس آیا اور وہ جو کچھ کہتا ہے اس نے تصدیق کر دی تو اس نے نبی محمدﷺ کی شریعت سے کفر کیا۔”
(قال الھیشمی فی مجمع الزوائد ج5 ص20: رواہ البزار ورجالہ رجال البخاری سوی اسحق بن الربیع وھو ثٖقہ، وقال المنذریؒ فی الترغیب ج4 ص52 إسنادہ جید، وقال الالبانی فی تخریج الحلال والحرام (289) حدیث حسن لغیرہٖ)
اس حدیث میں آپﷺ نے جادو سے اور جادوگر کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے اور نبیﷺ کسی ایسی چیز سے ہی منع کرتے ہیں جو حقیقتاً موجود ہو۔
5۔ ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:
“شراب پینے والا، جادو پر یقین رکھنے والا، اور قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا”
(رواہ ابن حنان، وقال الابانی فی تخریج الحلال والحرام(291): حدیث حسن)
اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے یہ عقیدہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ جادو بذات خود اثر انداز ہوتا ہے، سو ہر مؤمن پر یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ جادو یا کوئی اور چیز سوائے اللہ کی مرضی کے کچھ نہیں کر سکتی۔
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ وَمَا ھُمْ بِضَا رِّ یْنَ بَہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ﴾
“اور وہ  جادوگر کسی کو جادو کے ذریعے نقصان نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے کہ اللہ کا حکم ہو”
جاری ہے....
ہماری پوسٹس پڑهنے کیئلے ہمارا گروپ یا بلاگ وزٹ کیجیئے-
whatsApp:0096176390670
whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
http://www.dawatetohid.blogspot.com/
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
http://www.hamariweb.com/articles/userarticles.aspx?id=229348

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...