Wednesday 10 August 2016

کیا گورے رنگ میں ہی خوبصورتی ہے؟

کیا گورے رنگ میں ہی خوبصورتی ہے؟

(یہ مضمون اگر آپ کی سوچ بدلنے میں موثر ثابت نہ ہوا تو اپنا اثر ضرور چهوڑے گا)

خواتین میں گورا ہونے ہونے کا جنون اپنی انتہا کو چھو رہا ہے جو یقیناً خطرے کی گھڑی ہے

پاکستان سمیت ایشیائی خطے میں خوبصورت عورت صرف وہی سمجھی جاتی ہے، جس کی رنگت گوری ہے ۔یہی گوری رنگت کپڑوں، جوتوں،کھانے پینے ،ہوم اپلائنسز اور روز مرہ استعمال کی تقریباً سبھی اشیاء کے اشتہارات اورہورڈنگز پر چھائی ہوئی ہے،اسی لئے ہر پاکستانی عورت کسی بھی طرح گوری نظر آنا چاہتی ہے۔گورا ہونے کی یہ خواہش محض سوچ تک محدود نہیں بلکہ اس خواہش نے تجارت کی دنیا کے دروازے بھی کھول دیئے ہیں۔ چند سال پہلے تک زہریلے اثرات کی حامل سمجھی جانے والی ان مصنوعات کی خریداروں میں اب لوئر کلاس سے لے کر ایلیٹ کلاس تک کی خواتین شامل ہیں۔شہروں اور قصبوں کے ہر کونے میں قائم بیوٹی پارلرہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے سپا بھی کھلے عام گوری رنگت بیچ رہے ہیں لیکن لمحۂ فکریہ ہے کہ نقصانات کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔
واٹس اپ پر خواتین کا گروپ جس کا نام *خوبصورتی کا راز*میں زیادہ تر خواتین رنگ گورا کرنے کے حوالہ سے سوال کرتی ہیں-یاد رہے اس گروپ میں صرف قدرتی طریقوں(گهریلو نسخے ٹوٹکے) سے صحت کے متعلق بتایا جاتا ہے-البتہ خواتین ایڈ ہونے کے لیے نیچے دیے گئے نمبر پر رابطہ کر سکتی ہیں-
بہرحال-:
اگرچہ آج یورپ کے طول و عرض میں گوری چمڑی والے انسان پائے جاتے ہیں مگر امریکی سائنسدانوں کی ایک حالیہ تحقیق میں دریافت ہوا ہے کہ کبھی یہاں سیاہ فام لوگ آباد تھے جنہیں مشرق کی طرف سے آنے والے انسانی ریلے نے سفید فام بنا دیا۔ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدان لین میتھیسن کا کہنا ہے کہ یورپ میں 40 ہزار سال قبل افریقہ سے آنے والے سیاہ فام لوگ آباد تھے۔ یہ لوگ جنگلی جانوروں کا شکار کرتے اور جنگلی قبائل کی صورت میں رہتے تھے۔ تقریباً آٹھ ہزار سال قبل تک ان لوگوں کی رنگت سیاہ ہی تھی لیکن پھر مشرق قریب سے کاکیشین نسل کے لوگ یورپ کی طرف نقل مکانی کرنے لگے، ان میں سفید رنگ کے جینز بھی پائے جاتے تھے۔’’سائنس‘‘ میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے یورپ کے مختلف مقامات سے 83 لوگوں کے جینیاتی زائچے کا تقابل جدید یورپ کے افراد کے جینیاتی زائچے کے ساتھ کیا جس سے معلوم ہوا کہ یورپ کو گوری رنگت مشرق کی طرف سے آنے والے انسانوں نے دی۔یعنی جنوبی یورپ کے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ان کی شادیوں کے نتیجے میں سفید فام نسل پیدا ہوئی۔ تقریباً چھ ہزار سال پہلے یورپ میں بڑے پیمانے پر سفید رنگت کے جینزپھیل چکے تھے بلکہ آنے والے کچھ ہزار برسوں کے دوران تو سارا یورپ ہی سفید فام ہوگیا۔ گورا ہونے کا خبط نوآبادیاتی دور کے بعد پاکستانی نفسیات میں گہرائی تک سرایت کرچکاہے۔ گوری دلہن اور سفید رنگت والی ماڈل ہماری ان خواہشات اور توقعات کا مظہر ہیں جو پوری نہ ہوسکیں۔ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ گوری رنگت کا مطلب ہے آریائی نسل سے تعلق یعنی ان فاتح لشکروں کے اصلی وارث جو ہزاروں سال پہلے آئے تھے۔گویا اس کا ایک مطلب مقامی دراوڑی نسل سے تعلق نہ رکھنا بھی ہے یعنی ان چھوٹے قد کے سیاہ فام لوگوں سے لاتعلقی جو بر صغیر میں آباد تھے اور اس کے دریاؤں کے کناروں اور پہاڑوں کے دامن میں صدیوں سے مشقت کرتے آئے تھے۔دراصل یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ سب کے سب سیاہ فام لوگ سرحد کے اس پار رہتے ہیں اور پاکستانی ہونے کا مطلب ہے سکندر اور آریاؤں کا وارث ہونا۔۔ ۔فلموں میں ہی دیکھ لیں کہ اگر ہیرو اور ہیروئن کو گورا دکھایا جاتا ہے توولن ہمیشہ کالا اور بدصورت ہوتا ہے۔ چنانچہ رنگت کی بنیاد پر یہ غلط تصور آج بھی موجود ہے کہ جو کالا ہے وہ غریب اور غلیظ ہے اورجو گورا ہے وہ خوشحال اور اچھا ہے۔تاریخی اعتبا سے دیکھاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ صدی میں سفید فام نسل کے نظریہ کی تشہیر ہٹلر کی جرمنی کے نازی دور حکومت میں کی گئی تھی ۔ ویمر ری پبلک  کی منطق کے مطابق اصلی نسل کا جرمن وہی ہے جس کا قد لمبا، رنگت گوری، بال سنہرے اور آنکھیں نیلی ہوں۔ ان ساری علامتوں کا تعلق آریائی نسل سے جوڑا گیا اور ان کی تشہیر ایک طاقتور جرمنی کے امیج کی حیثیت سے کی گئی جو پہلی عالمی جنگ کی تباہیوں کے ملبے سے ابھر رہا تھا۔ جمہوریہ کے مسلک کی تبلیغ کرنے والی نوجوانوں کی تنظیم ہٹلر یوتھ  سے وابستہ دراز قد، گوری رنگت ، سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے نوجوانوں کو فوج کی فرنٹ لائن میں رکھا جاتاتاکہ وہ اس جرمنی کی علامت بن جائیں جس کے بارے میں ہٹلر نے دعویٰ کیا تھا کہ جلد ہی دنیا کو فتح کر لیں گے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہر شخص چاہتا تھا کہ وہ آریائی نظر آئے کیونکہ اس کا مطلب تھا وہ محفوظ ہے اور اس کا تعلق حکمران نسل سے ہے۔بہرحال سفید رنگت سے خبط کی حد تک ہمارے حالیہ لگاؤ کا تعلق ہماری موجودہ تاریخ سے ہے ۔ خوش قسمتی سے نہ صرف ہم ایک ایسی تاریخ کے وارث ہیں جس نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کی بلکہ ان کے رخصت ہونے کے بعد بڑی حد تک اپنی قومی شناخت کی تشکیل مغرب سے نفرت کی بنیاد پراستوار کی ہے۔سفید چمڑی والے گورے سے پوری قوم کو نفرت ہے لیکن سفید رنگت کے ساتھ پاکستانیوں کی محبت کا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔یہ کیسا تضاد ہے کہ سفید رنگت والی قوموں سے ہماری نفرت کے ساتھ ساتھ ان جیسا نظر آنے کی ہماری کوششیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں؟

پنجاب یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف سوشل ورک سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسرسونیا عمر کہتی ہیں’’شاید جس طرح نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے بہت سے افریقی ممالک کے دانشوروں کی سوچ تھی کہ اسی قوم کا روپ دھار لینا جنہوں نے کبھی ہمیں اپنا غلام بنایا تھا ، پاکستان بھی اسی کلچر کی باقیات ہے اور یہ خیال ہمارے ذہنوں سے نکل ہی نہیں رہا کہ طاقتور بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی ان جیسے بن جائیں۔ گوری رنگت کا جنون پیدا کرنے میں ذرائع ابلاغ کا کرداربہت منفی ہے۔ آج کل اشتہارات کے ذریعے بھی اس خیال کو تقویت دی جارہی ہے کہ سانولی رنگت کے ساتھ نہ تو کہیں اچھی نوکری ملے گی اور نہ ہی کسی اچھی جگہ شادی ہو سکتی ہے جبکہ حقیقت میں رنگت کے فرق کی بنیادی وجہ جینیاتی خصائص اور مخصوص جغرافیائی حالات ہیں۔ٹی وی فنکاروں ،اینکرزاور ماڈلز کو بھی ہر صورت میں گورا ہی دکھایا جاتا ہے۔اگرچہ ہمارے خطے کے بیشتر افراد کا رنگ یا تو گندمی ہے یا سانولا ہے لیکن ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈے کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی احساس کمتری کا شکار ہوکرمختلف کریموں اور ٹوٹکوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جو جلد کی مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں بلکہ اچھا خاصا چہرہ بھی بگڑ جاتا ہے ۔ ہزارہا برس سے چلی آرہی اس سوچ کواب بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ نہ تو گورے رنگ میں خوبصورتی ہے اور نہ ہی کالی یا سانولی رنگت کوئی عیب لیکن ان لوگوں کو کون سمجھائے جو دوسروں کومحض ان کی رنگت کی وجہ سے کبھی کالا، کالی، کلن اور کالو جیسے نام دے دیتے ہیں؟

گوری رنگت کو خوبصورتی کا معیار قرار دینا کاسمیٹک انڈسٹری کی ضرورت بن گیا شمع احمد
ہمارے ہاں گوری رنگت کے چکر میں اکثر خواتین کئی قسم کی جلدی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ایک رپورٹ کے مطابق محض چند دنوں میں رنگت نکھارنے اور گورانظر آنے کی خواہشمندخواتین نہ صرف نقصان دہ ترش چھلکوں کے استعمال سے اپنی جلد جلا لیتی ہیں بلکہ سٹیروئیڈز والی کریموں کے استعمال سے ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔رنگت کو گورا کرنے کی غرض سے سستے طریقوں کا استعمال مثلاًً ایمونیا اور ہائیڈروجن پرآ کسائیڈسے جلد پر کھجلی، جلد کاغیر معمولی سرخ ہوجانا یا پھوڑے پھنسیوں کا نکل آنا عام سی بات ہے جبکہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ ا ن کے استعمال سے چہرے پرتازگی آتی ہے اور رنگ بھی فوراًگورا ہو جاتا ہے۔ جلد کی رنگت گوری کرنے کے لیے کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی دواگلوٹاتھیون  کے ٹیکوں کا استعمال بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ادارہ برائے خوراک و ادویات کے مطابق مذکورہ ٹیکوں کے شدید نتائج سامنے آ سکتے ہیں جن میں جلد کی سوزش، گلے کے غدود کا متاثر ہونا اور گردے ناکارہ ہو جانا شامل ہیں۔ماہر امراضِ جلد ڈاکٹرشمع احمد کے مطابق گوری رنگت کو خوبصورتی کا معیار قرار دینا کاسمیٹک انڈسٹری کی ضرورت بن گیا ہے۔ بد قسمتی بہت کم لوگ سمجھ پا رہے ہیں کہ گرم ملکوں میں رنگت کا گہرا ہونا یا سانولا ہونا ایک ماحولیاتی سبب ہے لہٰذا اسے کسی قسم کی کمزوری ، محرومی یا کمی ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ ذرا غورکیجئے کہ سکن وائٹننگ فیشلز کے بعد مہاسوں کی شکایت کیوں ہوتی ہے اور رنگ گورا کرنے والی کریموں کے مسلسل استعمال کے بعد بھی جلد پر سفیدی کے ذرات کیوں اْبھرنا شروع ہوجاتے ہیں ؟ دراصل ان کریموں کی کیمیائی خاصیت بے حد حساس ہوتی ہے لہٰذا ماہرین جلدسے مشورے کے بعد ہی کسی وائٹننگ سکرب  یا کریم کا استعمال کرنا چاہیے۔بعض اوقات ہارمونزیا سورج کی تمازت سے بھی جلد اپنی اصل رنگت کھو دیتی ہے۔جلد کو منٹوں میں گورا کرنے کے لئے بالخصوص غیر معیاری وائٹننگ فیشلز انتہائی مضر ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان میں استعمال ہونے والی کریمیں تیزابی اور کیمیائی اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان میں استعمال شدہ کیمیکلز ابتدائی آٹھ گھنٹوں تک حیرت انگیزاثر دکھاتے ہیں اور خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ بیوٹی پارلر والوں نے کوئی کرشمہ دکھایا ہے۔اسی طرح بلیچ کریم بھی نقصان دہ ہے۔اگر بلیچ کریم کے استعمال کے بعد جلد سرخ ہوتی محسوس ہوتو سمجھ لیں کہ امونیا سے حساس جلد کونقصان پہنچ رہا ہے۔ کچھ کریموں میں ہائیڈروکینون یا اسی طرح کے بعض ایسے مضر کیمیکلز پائے جاتے ہیں کہ جن سے جِلد میں میلانن نامی مادے کو پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اورمیلانن وہ اہم مادہ ہے جو جِلد کو سورج کی خطرناک الٹرا وائلٹ شعاعوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ان کریموں کے استعمال سے جِلد کی تازگی ختم ہو جاتی ہے اور خواتین جلد ہی اپنی عمر سے بڑی لگنے لگتی ہیں۔اس کے علاوہ رنگ گورا کرنے والی بعض غیر معیاری کریموں میں پارہ یعنی مرکری پایا جاتا ہے جو جِلد کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ایسی کریموں کے مستقل استعمال سے اکثر جِلد پر دانے نکل آتے ہیں یا دھبے پڑ جاتے ہیں اور اگرلمبے عرصے تک استعمال کی جائیں تو جِلد اتنی پتلی ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی گہرا کٹ لگ جائے تو ٹانکے لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ان لوشن اور کریموں میں پایا جانے والا کیمیکل اگر خون میں جذب ہو جائے تو یہ جگر، گردوں یا دماغ کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ بعض حالات میں کوئی عضو کام کرنابھی بند کر دیتا ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ جلد کو صاف و شفاف رکھنے کے لئے مختلف موسموں سے فائدہ اٹھائیں اورمخصوص غذاؤں سے چہرے اور جسم کے نکھار پر توجہ دیں-اور قدرتی طریقہ علاج کو ترجیح دیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں جس عمر میں نوجوان لڑکیوں کو صحت مند جلد اور توانائیوں کی ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں وہ کیل مہاسوں اور جلد کی حساسیت کے ردعمل کو زائل کرنے کے لیے ماہرین جلد سے رابطوں میں مصروف ہوتی ہیں۔‘‘ گورا ہونے کی خواہش تو بہرحال ہرعورت میں ہوتی ہے مگراس حوالے سے اپنے صابن یا اس نوع کی دیگر مصنوعات کی تشہیر کے لئے کسی کالے انسان کو کم تر اور گورے کو برتر ثابت کرنا سراسر نا انصافی ہے اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ سانولی رنگت کی خواتین اور لڑکیوں کی سب سے بڑی خواہش گوری رنگت ہے۔یہ خواہش شدت اختیار کر جائے تو احساسِ محرومی میں ڈھل جاتی ہے۔لوگ مجھے نظر انداز کرتے ہیں ، میرا مذاق اڑاتے ہیں ۔۔۔کاش کسی طرح میرا رنگ گورا ہو جائے ۔۔۔ اس قسم کے خیالات ہر وقت ان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں اور یہ خیالات جب دل و دماغ پر حاوی ہو جائیں توسماجی میل جول اور تقریبات میں ا ن کی شرکت کے امکانات بھی گھٹ جاتے ہیں جبکہ شخصیت میں موجود خود اعتمادی ہی در حقیقت مقبو لیت کا راز ہے۔اگر سانولی یا گہری رنگت کو نا پسند کیا جاتا توٹاک شوز کی ملکہ اوپراو نفریاور ٹاپ ماڈل نومی کیمبل کو اس درجہ مقبولیت حاصل نہ ہوتی۔ خوش اخلاقی اور خود اعتمادی بھی ایسے اوصاف ہیں کہ دشمن بھی دوست بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یہی اوصاف شخصیت کو ہر دل عزیز بھی بناتے ہیں۔ سرخ و سفید رنگت کی حسین و جمیل لڑکی اگر میٹھی گفتگو کے فن سے نا آشنا ہو توبہت جلد لوگ اس سے کترانے لگتے ہیں۔اسی طرح تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ دوسرے آپ کے متعلق وہی سوچتے ہیں،اس لئے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنی سوچ،خیالات اور گفتگو پر توجہ دی جائے۔اسلام کے نقطہ نظر کے مطابق بهی گورے یا کالے رنگ کو کامیابی کا معیار نہیں سمجھا گیا بلکہ کامیابی کا معیار تقوی پرہیزگاری پر قائم ہے.
اور نہ ہی اسلام میں کوئی طبقاتی نظام ہے-یہی وجہ ہے کہ مسجدوں میں کالے کے ساتھ گورے کهڑے ہو کر کندهے سے کندهے ملا عبادت کرتے ہیں-اسلام نے اس طبقاتی خیال کو یکسر مٹانے کا حکم دیا ہے-اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے-اے لو گو! تمہیں ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعہ پیدا کیا گیا ہے-تمہیں مختلف قبیلوں اور قوموں میں صرف تعارف  اور پہچان کے لیے تقسیم کیا گیا ہے-لیکن جان لو! اللہ کے نزدیک سب سے افضل وہی ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اور طہارت والا ہے-
(الحجرات:13)

فاطمہ لودھی سیاہ اور سانولے کے مفہوم اور تاثر کوبدلنا چاہتی ہیں 
پاکستان میں ڈارک از ڈیوائن کے سلوگن سے ایک ایسی تحریک شروع ہوئی ہے جس کامقصد خوبصورتی کے روایتی معیار کو بدلنا ہے۔’’اس تحریک کو شروع کرنے کے پیچھے یہی مقصد کارفرما تھا کہ لوگوں کو ذہنوں کو بدلا جائے اور گہری رنگت والے لڑکے لڑکیوں کو اعتماد سے جینے کا حوصلہ دیا جائے۔ہمارے ہاں بالخصوص لڑکیاں اپنی رنگت کونکھارنے کے لئے اندھا دھند مختلف کریمیں اور انجکشنز استعمال کرتی ہیں حالانکہ انہیں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ یہ کن اجزاء سے تیار کی گئی ہیں؟ اسی کوشش میں وہ بجائے فائدے کے اکثر نقصان ہی اٹھاتی ہیں۔2013 میں شروع ہونے والی اس تحریک کے ابتدائی مرحلے میں یونیورسٹیز اور سکولز میں اس پیغام کو فروغ دیاگیا کہ خوبصورتی اور قابلیت کا تعلق رنگ سے نہیں ہوتا۔ہمیں فیس بک کے ذریعے خواتین اور مردوں کی جانب سے اس تفریق سے متعلق بہت سی کہانیاں موصول ہوئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تعصب روز مرہ زندگی کا حصہ ہے۔مہم میں شریک ایک لڑکی نے لکھا کہ بچپن میں اس کی فرینڈز صرف اس لئے اس کے ساتھ نہیں کھیلتی تھیں کہ اس کا رنگ صاف نہیں اوراس کی فرینڈز اسے کہتیں کہ وہ اس کے ساتھ کھیل کر میلی ہو جائیں گی۔ایک اور لڑکی نے بتایاکہ میرے گھر والے میرا مذاق اڑاتے تھے۔ میری بہن کا رنگ صاف تھا تو وہ اسے دن کہتے تھے اور مجھے رات۔۔۔ ہمارے ہاں گلگت بلتستان یا فاٹاکے لوگوں کو اکثر محض ان کی گوری رنگت کی بنیاد پر لوگ انگریز سجھتے ہیں۔دراصل یہ تعصب گھر سے ہی شروع ہوتا ہے جہاں عموماً گورے بچوں کو زیادہ پیارا قرار دیا جاتا ہے اور توجہ بھی زیادہ ملتی ہے۔اگرچہ مجھے والدین کی جانب سے اس تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن سکول ٹیچر کا برتاؤ ضرور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا۔جب میں کانونٹ سکول میں پڑھتی تھی تو اسلامیات کی ٹیچر نے میری گہری رنگت کو دیکھتے ہوئے مجھے عیسائی تصور کیا اور مجھے دوسری کلاس میں جانے کو کہا۔۔۔ فاطمہ پر امید ہیں کہ اس تحریک سے معاشرے میں حسن کے معیار پر بحث شروع ہو گی جس کی بنیاد سکولز میں ڈالی جائے گی،ہم پہلے سکولز میں اساتذہ کو تربیت دیں گے اور پھر یونیورسٹیز میں سیمینار کریں گے۔ ہم سکولز کے لئے اس موضوع پر نصاب بھی تشکیل دے رہے ہیں‘‘۔اگرچہ پاکستانی معاشرے میں سانولی یا کالی لڑکیوں کے لئے کالی کلوٹی، نظر وٹو اور کلو جیسے الفاظ عام ہے لیکن فاطمہ لودھی سیاہ اور سانولے کے مفہوم اور تاثر کوبدلنا چاہتی ہیں۔ڈارک از ڈیوائن کے روابط ایک امریکی تحریک آئی ایم بیوٹی فل گلوبل سے بھی ہیں،جن کی کوشش ہے کہ سانولے یا سیاہ رنگ کی خواتین میں اعتماد پیدا ہو۔تاہم فاطمہ کہتی ہیں کہ امریکہ کے برعکس جنوبی ایشیا میں سانولے یا سیاہ رنگ کے خلاف امتیاز کا تعلق ریس یعنی نسل سے نہیں اس لئے ہم ریس ازم کی بجائے کلرازم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ایلیٹ کلاس میں رنگت کو مسئلہ نہیں سمجھا جاتا تاہم مڈل کلاس اور نچلے طبقے میں آج بھی گوری رنگت ہی خوبصورتی کی علامت ہے۔اگرچہ ہم ظاہر کو دیکھتے ہیں لیکن ہمیں ظاہری رنگت اور حلئیے کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی شخص کتنا باصلاحیت ہے اور دوسروں کی کتنی عزت کرتا ہے-کتنا خوش اخلاق ہے-
مختصر یہ کہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان جس کے ڈائریکٹر عمران شہزاد تارڑ ہیں.ان کے واٹس اپ پر موجود گروپ*طبی مسائل*اور *خوبصورتی کا راز*کے ممبران سے خصوصی التماس ہے کہ وہ اس مضمون کو اپنے حلقہ احباب تک ضرور پہنچائے اور ان والدین تک بهی پہنچائیں جو صرف کالے رنگ کی وجہ کسی کو بہو بنانے سے کتراتی ہیں-یاد رکهیے جس طرح شکل و صورت کی بناوٹ کسی کے بس میں نہیں اسی طرح رنگت بهی کسی کے بس میں نہیں- یہ اللہ رب العزت کی مرضی ہے کسی کو کالا تو کسی گوارا بنا دے-انسان کو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے-

ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں
whatsApp:0096176390670
whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
http://www.dawatetohid.blogspot.com/
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
نوٹ: یہ مضمون محض عام معلومات عامہ کے لیے ہے، اس پر عمل کرنے سے پہلے معالج سے ضرور مشورہ کرلیں۔
-------------------------

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...