ایک مسلمان کا مصادر کفر، منادر، آشرموں اور یوگا کیندروں سے دلی وابستکی پیدا کر لینا اور اپنا ربط و تعلق بڑھا کر ایسا طرز عمل یا معمول اختیار کر لینا جو ہندو مت اور کفر میں پسندیدہ اور اشرف ہے اور پھر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے فخر کرنا سراسر اسلام کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
"وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ۔(سورہ الزمر: ۱۷)
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور (ہمہ تن) اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے وه خوش خبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔"
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان توہمات کے قائل ہوتے ہیں۔ اپنے گھروں اور کاروباری مقامات پر گنڈے پلیتے لٹکاتے،ہاتھ،کمر اور پیر میں کالے پیلے دھاگے باندھتے اور منحوس و متبرک شب دنوں کی تخصیص کرتے ہیں۔ مرد نوجوان سر پر جٹو رکھنے،کان میں بالیاں پہننے اور خوشی کے موقع پر پیلا رنگ لگانے اور ناریل پھوڑنے کو باعث فضیلت و برکت سمجھتے ہیں۔یہیں سے ان کی بد عقیدگی اور شرک کی ابتدا ء ہو جاتی ہے اور وہ بگاڑ،گمراہی اور ضلالتوں کی گہری کھائی میں گر پڑتے ہیں۔
شریعت اسلامی میں دی گئی رخصتوں،اجازتوں،حیلوں اور نظریاتی تاویلات Conceptional interpretation پر زندگی کا انحصار کرنا، پر شکوہ عصری مادی جگمگاتی تہذیب و کلچر میں گھل مل جانا۔ دراصل مسلمان کے لئے خودسپردگی اور شکست خوردگی کی علامت ہے۔
اور کبھی یہ کہہ کر دین میں مداہنت کو برداشت کرلیا جاتا ہے، کہ قوم وملت کے لیے مصلحت اسی میں ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
"وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ۔(سورہ البقرة:۱۲۰)
آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار۔"
یوگا، یوگیوں کے عقائد کا التزام نہ کرنے کے باوجود بھی حرام ہے ، کیوں کہ یہ اس تشبہ میں داخل ہے جو شرعاً ممنوع ہے ۔
کیوں کہ 'یوگا' ایک خاص قسم کی ورزشی نشست ہے، جو ہندووں کا شعار ہے،اور جب وہ ایک خاص قوم کا دینی شعار ہے، تو وہ خواہ ریاضت ہی ہو ، ہمیں اس طرح کی ریاضت سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔
ہمیں عبادتوں میں غیروں کی مشابہت سے منع کیا گیا،تو ریاضتوں اور ورزشوں میں بدرجہ اولی یہ ممانعت ہوگی،خصوصاً جبکہ وہ ریاضتیں کسی قوم کا شعار، مشرکانہ کلمات ،اورغیر اسلامی عقائد وافکار پر مشتمل ہوں۔
اگر کسی کو ریاضت وورزش کر کے صحت وتندرستی ہی حاصل کرنی ہے تو وہ مباح ورزشوں اور ریاضتوں کو اپنائے۔اسلامی عبادتوں میں صحت وتوانائی، تندرستی وچستی کا بھرپور سامان موجود ہے۔
اگر کوئی مسلمان اسلامی عبادتوں کو پورے اہتمام واعتناء کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طرق ونقوش کے مطابق انجام دیں تو یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ صرف ان سے اخروی فلاح وبہبودی حاصل ہوگی بلکہ اس دنیا میں بھرپور صحت وتندرستی بھی ملے گی۔جیسا کہ نماز وروزہ کی حکمتوں اور اسرار ورموز پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
نوٹ:-
یہ مختصر کتابچہ پی ڈی ایف فارمیٹ میں شائع کرنے سے قبل ایک بار قارئین کے سامنے تبصرہ و تنقید اور تجاویز کے لیے قسط وار پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کوئی کمی بیشی ہو تو وہ پی ڈی ایف فارمیٹ (PDF ) میں تبدیل (convert) کرنے سے پہلے کر لی جائے۔ اس لیے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے قیمتی تبصرے و تنقید، اصلاح و آراء سے آگاہ فرمائیں تاکہ ضروری ترامیم کی جا سکے۔ خاص طور پر ان لوگوں سے گذارش ہے جو اس کتاب کو ایک عالم کی نگاہ سے پڑھنا چاہتے ہیں۔ البتہ کوشش کیجئے گا کہ تمام تبصرے 31 مارچ 2018ء تک ارسال کر دیں۔تاکہ اس کے بعد اس کی پی ڈی ایف فارمیٹ کا اہتمام کیا جا سکے،جزاکم اللہ خیرا۔
whatsapp: 00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://dawatetohid.blogspot.com/2018/03/blog-post_15.html?m=1
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
https://www.facebook.com/bestfuturepk/
* * * * *