Sunday 1 January 2017

مختلف مکاتب فکر اور وسیلہ

مختلف مکاتب فکر اور وسیلہ

 ازعثمان احمد    

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری
الحمدللہ ! اہل حدیث وسیلے کی جائز و مشروع صورتوں کے قائل و فاعل ہیں جبکہ ممنوع و غیر مشروع صورتوں کے منکر ہیں۔ ہم اہل حدیث سلف صالحین کے عقیدے پر قائم ہیں۔ سلف صالحین کا مذہب ہی سلامتی والا ہے۔ وہ دعا میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے وسیلے کے قائل و فاعل تھے، اسی طرح زندہ نیک ہستیوں سے دعا کرا لیتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے تھے کہ وہ ان نیک لوگوں کی دعا کو قبول کر کے ان کی حاجت پوری کر دے، نیز وہ اپنے اعمال صالحہ کو بھی بطور وسیلہ استعمال کرتے تھے۔ وسیلے کی یہی تین صورتیں قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ اس کے علاوہ دعا میں وسیلے کی کوئی اور صورت مشروع نہیں۔  
سلف صالحین فوت شدگان کے وسیلے سے دعا نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ’’بحق فلاں، بحرمت ِ فلاں، بجاہِ فلاں، بذاتِ فلاں ‘‘ وغیرہ الفاظ کا اپنی دعاؤں میں استعمال نہیں کرتا تھا۔ ان کی کتابیں ان الفاظ کے ذکر سے یکسر خالی ہیں۔ فوت شدگان سے دعا کرنے یا کرانے یا ان کے وسیلے سے دعا کرنے کا قرآن و سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سلف صالحین کا مذہب نہیں تھا۔ سلف صالحین تو قرآن و سنت کے پابند تھے۔ ائمہ اہل سنت و الجماعت میں سے ایک امام بھی ایسا نہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر یہ صدا کرتا ہو کہ اللہ کے رسول ! میرے لیے اللہ سے سوال کریں یا میری مغفرت و معافی کی سفارش فرما دیں۔ اہل حدیث ہی اصلی اہل سنت ہیں۔ اسی لیے وہ دیگر تمام شرعی امور کی طرح وسیلے کے بارے میں بھی سلف صالحین اور ائمہ اہل سنت کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ 
سلف صالحین، محدثین کرام اور ائمہ اہل سنت کے مذہب کے خلاف رافضی شیعہ، حنفی، دیوبندی اور بریلوی چاروں مکاتب فکر کے حاملین فوت شدگان کے وسیلے کو جائز اور درست سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر سوال کرنا جائز ہے۔ حالانکہ اس بات پر سلف میں سے کوئی بھی ان کا حامی نہیں، خیرالقرون میں اس نظریے کا ذکر تک نہیں ملتا اور ائمہ اہل سنت اس سے آشنا تک نہ تھے۔

اہل حدیث اور مشروع توسل

اہل حدیث صرف اس وسیلے کے قائل و فاعل ہیں جو فہم سلف کی روشنی میں قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ غیر مشروع وسیلے سے ہم بیزار ہیں، جیسا کہ شیخ الاسلام والمسلمین ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ھ ) فرماتے ہیں : 
وأما القسم الثالث، وهو أن يقول : اللهم ! بجاه فلان عندك، أو ببركة فلان، أو بحرمة فلان عندك، أفعل بى كذا وكذا، فهذا يفعله كثير من الناس، لكن لم ينقل عن أحد من الصحابة والتابعين وسلف الأمة أنهم كانوا يدعون بمثل هذا الدعاء، ولم يبلغنى عن أحد من العلماء فى ذلك ما أحكيه، إلا ما رأيت فى فتاوى الفقيه أبى محمد بن عبدالسلام، فإنه أفتى: أنه لا يجوز لأحد أن يفعل ذلك إلا للنبى صلى الله عليه وآله وسلم إن صح الحديث فى النبى صلى الله عليه وآله وسلم.
”وسیلے کی تیسری قسم یہ ہے کہ آدمی اپنی دعا میں کہے: اے اللہ ! اپنے ہاں فلاں کے مقام و مرتبے کی وجہ سے یا فلاں کی برکت کی بنا پر یا اپنے ہاں فلاں کی عزت کے سبب میرا یہ کام کر دے۔ بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور اسلاف امت میں سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ وہ اس طرح دعا کرتے ہوں۔ مجھے کسی عالم سے کوئی ایسی بات نہیں پہنچی جسے میں نقل کر سکوں۔ ہاں، فقیہ ابومحمد بن عبدالسلام کے فتاویٰ میں ہے کہ دعا میں صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دینا جائز ہے، وہ بھی اس وقت جب اس بارے میں مروی حدیث ثابت ہو جائے۔۔۔ (اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے، آپ کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ اس سے ثابت نہیں ہو سکتا۔) “ 
(زيارة القبور والاستنجاد بالمقبور، ص:112، طبع مصر) 

مشہور اہل حدیث عالم علامہ محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ ( ۱۲۵۲۔۱۳۲۶ ) فرماتے ہیں : 
أنا معاشر الموحدين لا نمنع التوسل مطلقاً كما تقدم، وإنما نمنع منه ما كان متضمناً لعبادة غير الله، أو لما نهى الله عنه ورسوله، أو محدثاً لم يدل عليه دليل من كتاب وسنة ثابتة. 
”ہم توحید پرست لوگ وسیلے سےمکمل طور پر منع نہیں کرتے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے۔ ہم تو صرف اس وسیلے سے منع کرتے جس سے غیراللہ کی عبادت لازم آتی ہو یا جس سے اللہ و رسول نے منع فرمایا ہو یا وہ ایسی بدعت پر مبنی ہو جس کی قرآن کریم اور صحیح حدیث میں کوئی دلیل نہ ہو۔“ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:221) 
نیز فرماتے ہیں : 
إن التوسل له أقسام: بعضھا مشروع، وبعضھا شرك ومحرم، وبعضھا مكروه وبدعة، فالذي نجعله محرما أو كفرا وشركا أو بدعة لا نسلم اجتماع معظم الأمة عليه، والذي عليه اجتماع معظم الأمة لا نقول بكونه شركا أو محرما أو بدعة .
”وسیلے کی کئی اقسام ہیں جن میں سے بعض جائز ہیں، بعض شرک اور حرام ہیں اور بعض مکروہ اور بدعت ہیں۔ وسیلے کی جس قسم کو ہم حرام، کفر، شرک یا بدعت قرار دیتے ہیں، ہمارے نزدیک جمہور امت اتفاقی طور پر اس کے قائل و فاعل نہیں ہو سکتے اور جس قسم پر جمہور امت کا اتفاق ہو، ہمارے نزدیک وہ شرک، حرام یا بدعت نہیں ہو سکتی۔“ 
(صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:221) 
شیخ سہسوانی بعض اشکالات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : 
أن الثابت به إنما هو التوسل بالأحياء ولا ينكره أحد، وإنما يمنع من يمنع التوسل بالأموات، فإن قلت: لفظ يستسقى الغمام بوجهه يدل على أن التوسل بالذوات الفاضلة جائز، قلت: المكروه من التوسل هو أن يقال أسألك بحق فلان أو بحرمة فلان، وأما إحضار الصالحين في مقام الاستسقاء أو طلب الدعاء منهم فهو ليس من المكروه في شيء، بل هو ثابت بالسنة الصحيحة، وليس في حديث البيهقي إلا التوسل بدعائه صلى الله عليه وسلم، وكذا التوسل الذي يشير إليه أبو طالب إنما كان بإحضار النبي صلى الله عليه وسلم في مقام الاستسقاء أو بدعائه.
”بیہقی کی روایت سے زندہ لوگوں کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اس کا کوئی بھی انکاری نہیں۔ جو لوگ روکتے ہیں، وہ صرف فوت شدگان کے وسیلے سے روکتے ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ 
يستسقي الغمام بوجھه (آپ کے چہرے کے ساتھ بارش طلب کی جاتی ہے) کے لفظ سے نیک لوگوں کی ذات کے وسیلے کا جواز ثابت ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ وسیلے کی مکروہ صورت یہ ہے کہ کوئی کہے: میں فلاں کے بحق یا فلاں کے مقام و مرتبہ کے سبب سوال کرتا ہوں۔ رہی بات نیک لوگوں کو میدان استسقاء میں لانا یا ان سے دعا کرنے کا کہنا، تو یہ قطعاً مکروہ نہیں۔ یہ تو صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ بیہقی والی حدیث میں بھی صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے وسیلے کا ذکر ہے۔ اسی طرح (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) ابوطالب نے جس وسیلے کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرانا ہے۔“ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:281) 
علامہ موصوف توسل کی ممنوع و حرام اور کفر و شرک پر مبنی صورتوں کے متعلق فرماتے ہیں : 
الثامن: أن يسأل الله ويدعوه عند قبور الصالحين معتقداً أن الدعاء عند القبر مستجاب، و التاسع : أن يقول عند قبر نبي أو صالح: يا سيدي فلان ! اشف مريضي واكشف عني كربتي وغير ذلك، وهذا شرك جلي، إذ نداء غير الله طالباً بذلك دفع شر أو جلب منفعة فيما لا يقدر عليه الغير دعاء، والدعاء عبادة، وعبادة غير الله شرك، وهذا أعم من أن يعتقد فيهم أنهم مؤثرون بالذات، أو أعطاهم الله تعالى التصرفات في تلك الأمور، أو أنهم أبواب الحاجة إلى الله تعالى وشفعاؤه ووسائله، وفي هذا الحكم التوسل بسائر العبادات من الذبح لهم والنذر لهم والتوكل عليهم والالتجاء إليهم، والخوف والرجاء منهم، والسجود لهم والطواف لهم. الحادي عشر: أن يدعو غائباً أو ميتاً عند غير القبور: يا سيدي فلان ! ادع الله تعالى في حاجتي فلانة، زاعماً أنه يعلم الغيب ويسمع كلامه في كل زمان ومكان ويشفع له في كل حين وأوان، فهذا شرك صريح، فإن علم الغيب من الصفات المختصة بالله تعالى. الثاني عشر : أن يدعو غائباً أو ميتاً عند غير القبر: يا سيدي فلان اشف مريضي واقض عني الدين وهب لي ولداً وارزقني واغفر لي وأمثال ذلك، وهذا أيضاً شرك من وجهين: الأول أنه يعتقد علم الغيب لذلك المدعو وهو شرك،، والثاني أنه ينادي ويدعو غير الله تعالى طالباً بذلك دفع شر أو جلب منفعة فيما لا يقدر ذلك الغير عليه، وھذا الدعاء عبادة، وعبادة غير الله شرك، ومن قال من العلماء بكون التوسل شركا فإنما أراد به أحدا الأقسام الثلاثة الأخيرة . 
”آٹھویں قسم یہ ہے کہ آدمی یہ عقیدہ رکھتے ہوئے نیک لوگوں کی قبروں کے پاس اللہ تعالیٰ سے دعا و مناجات کرے کہ وہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ نویں صورت یہ ہے کہ وہ کسی نبی یا ولی کی قبر کے پاس جا کر اس طرح کے الفاظ کہے: آقا! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ اس بات میں کسی عالم کو شبہ نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں قسمیں ناجائز ہیں اور ان بدعات میں شامل ہیں جن کا سلف نے ارتکاب نہیں کیا۔ ہاں ! (شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ) قبرستان میں سلام کہنا جائز ہے۔ دسویں صورت یہ ہے کہ آدمی کسی نبی یا ولی کی قبر پر جا کر کہے: آقا! میرے مریض کو شفا دیجیے، میری مشکلات کو حل فرمائیے وغیرہ۔ یہ واضح شرک ہے، کیونکہ غیراللہ کو کسی ایسی تکلیف کو دور کرنے کے لیے یا کسی ایسے نفع کو حاصل کرنے کے پکارنا جس پر وہ قادر نہ ہو، دُعا ہے اور دُعا عبادت ہے اور غیراللہ کی عبادت شرک ہے۔ انبیاء و اولیاء کو ذاتی طور پر ان تصرفات کا اہل سمجھا جائے یا ان امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطائی سمجھا جائے یا ان کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں سفارشی خیال کیا جائے، ہر حال میں شرک ہے۔ باقی عبادات، مثلاً غیراللہ کے لیے جانور ذبح کرنا، ان کے لیے نذر و نیاز کا اہتمام، ان پر توکل، ان سے التجا اور خوف و رجاء، ان کے لیے سجدہ اور طواف وغیرہ، کا بھی یہی حکم ہے۔ گیارہویں قسم یہ ہے کہ آدمی کسی غائب یا فوت شدہ کو اس کی قبر کے علاوہ کسی اور جگہ پکارتے ہوئے کہے: آقا! اللہ تعالیٰ سے میرے اس معاملے میں دعا کیجیے اور اس کا عقیدہ یہ ہو کہ جس کو وہ پکار رہا ہے، وہ غیب جانتا ہے اور ہر زمان و مکان میں اس کا کلام سن رہا ہے اور ہر وقت اس کے لیے سفارش کرتا ہے۔ یہ صورت بھی شرک جلی ہے کیونکہ علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ بارہویں قسم یہ ہے کہ آدمی کسی غائب یا فوت شدہ شخص کو اس کی قبر کے علاوہ کسی اور جگہ پر پکارے اور کہے: آقا! میرے مریض کو شفا دیجیے، ميرا قرض دور فرمائیے،مجھے اولاد عطا کیجیے، مجھے رزق عنایت فرمائیے، مجھے معاف فرمائیے وغیرہ۔ یہ صورت بھی دو طرح سے شرک ہے۔ اول اس طرح کہ وہ پکارے جانے والے شخص کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے اور یہ شرک ہے، ثانی یہ کہ وہ غیراللہ کو ایسی تکلیف کے دور کرنے یا ایسے نفع کو حاصل کرنے کے لیے پکارتا ہے جس پر غیر اللہ قدرت نہیں رکھتے۔ یہ پکار عبادت ہے اور غیراللہ کی عبادت شرک ہے۔ جن علمائے کرام نے توسل کو شرک قرار دیا ہے، ان کی مراد یہی آخری تین قسمیں تھیں۔“ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:213،212) 
شارحِ ترمذی امام محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : ۱۳۵۳ ھ) لکھتے ہیں : 
الحق عندي أن التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم في حياته بمعنى التوسل بدعائه وشفاعته جائز، وكذا التوسل بغيره من أهل الخير والصلاح في حياتهم بمعنى التوسل بدعائهم وشفاعتهم أيضا جائز، وأما التوسل به بعد مماته، وكذا التوسل بغيره من أهل الخير والصلاح بعد مماتهم فلا يجوز، واختاره الإمام ابن تيمية في رسالته التوسل والوسيلة، وقد أشبع الكلام في تحقيقه وأجاد فيه، فعليك أن تراجعها.
”میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے وسیلہ سے مراد آپ کی دعا اور سفارش والا وسیلہ ہے جو کہ جائز ہے۔ اسی طرح نیک لوگوں سے ان کی زندگی میں ان کی دعا اور سفارش والا وسیلہ پکڑنا بھی جائز ہے۔ اب رہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پکڑنے کی اور اسی طرح نیک لوگوں کی وفات کے بعد ان کی ذات کا وسیلہ پکڑنے کی تو یہ ناجائز ہے۔ اسی بات کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب التوسل والوسیلۃ میں راجح قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں بہت عمدہ اور سیر حاصل بحث کی ہے۔ آپ کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔“ 
(تحفة الأحوذي:283/4)
شیخ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ (م : ۱۳۷۲۔۱۴۲۰ ھ) فرماتے ہیں : 
الحاصل أن توسل القبورية نوعان: النوع الأول: ما فيه خطاب ونداء للميت وطلب منه، مثل أن يقول: يا فلان الولي ! اكشف كربتي واشفني واغفر حوبتي واقض حاجتي ونحوها، أو يسأله الشفاعة عند الله تعالى لقضاء الحاجة، مثل أن يقول: يا فلان الولي ! اشفع لي عند الله أن يقضي حاجتي ويكشف كربتي، ونحو ذلك، فهذا كله وأمثاله ليس من التوسل بالميت لغة، بل هو استغاثة بالميت وطلب منه، وهو إشراك صريح بالله تعالى. بل هو أم لعدة أنواع من الشرك بالله تعالى، كالشرك في علم الغيب، والشرك في التصرف، والشرك في السمع، كما سبق تحقيقه على لسان علماء الحنفية. النوع الثاني: وهو ما لم يكن فيه خطاب ونداء للميت ولا فيه طلب قضاء الحاجة منه، ولا طلب الشفاعة منه له عند الله لقضاء الحاجة، بل يكون توجيه الكلام إلى الله، والاستغاثة به تعالى، والطلب منه، والنداء له تعالى فقط لا للميت: كأن يقول: اللهم ! إني أسألك أن تكشف كربتي، وتغفر حوبتي، وتقضي حاجتي، بجاه فلان، وحرمة فلان، ووجه فلان، ووسيلة فلان، ونحو ذلك، فهذا النوع قد يمكن أن يقال فيه: إنه توسل لغة، ولكن هل هو جائز شرعاً؟ الجواب: أن هذا النوع من التوسل غير جائز شرعاً، لوجهين: الأول: أنه بدعة ضلالة في العبادة التي هي مخ العبادات، ألا وهي الدعاء، لأن هذا النوع من التوسل لم يعهد في الكتاب والسنة، ولم يفعله أحد من الصحابة والتابعين ولا إمام من أئمة الأمة، الثاني: أنه ذريعة كبيرة لفتح باب الشرك بمصراعيه، فيجب سدها حماية لحمى التوحيد. 
”خلاصہ کلام یہ ہے کہ قبر پرستوں کا توسل دو طرح کا ہے: پہلی صورت وہ ہے جس میں فوت شدہ کو مخاطب کر کے اس سے اپنی حاجت روائی کا سوال کیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہا جاتا ہے: اے فلاں ولی ! میری تکلیف کو دور فرمائیے، مجھے شفا دیجیے، میری لغزش معاف کیجیے، میری حاجت پوری فرمائیے وغیرہ۔ یا اپنی حاجت روائی کے لیے اس سے اللہ کے ہاں سفارش کی درخواست کی جاتی ہے، مثلاً اے فلاں ولی ! اللہ کے دربار میں سفارش کیجیے کہ وہ میری ضرورت کو پورا کرے اور میری تکلیف کو دور فرمائے وغیرہ۔ یہ ساری باتیں اور اس طرح کے دیگر افعال لغوی اعتبار سے فوت شدگان سے توسل کے زمرے میں نہیں آتے۔ یہ ساری صورتیں تو میت سے مدد طلب کرنے اور ان سے مانگنے کی ہیں جو کہ صریح طور پر شرک ہیں، بلکہ یہ افعال شرک کی دیگر بہت سی اقسام، مثلاً علم غیب میں شرک، تصرف میں شرک، سمع میں شرک وغیرہ میں مبتلا ہونے کا ذریعہ بھی ہیں اور علمائے حنفیہ کی زبانی اس کی تحقیق ہم بیان کر چکے ہیں۔ قبوریوں کے ہاں پایا جانے والا دوسری قسم کا توسل وہ ہے جس میں فوت شدگان کو مخاطب نہیں کیا جاتا، نہ ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، نہ ہی ان سے قضائے حاجت کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش کرنے کا سوال کیا جاتا ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے اور اسی کو پکارا جاتا ہے، مثلاً آدمی کہے: اےاللہ ! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو فلاں کی حرمت، فلاں کے وسیلے اور فلاں کے طفیل میری مشکل حل فرما دے،میرے گناہ معاف کر دے اور میری حاجت پوری فرما دے وغیرہ۔ اس قسم کو لغوی طور پر توسل کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال باقی ہے کہ یہ شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ توسل کی یہ قسم دو وجہ سے شرعاً ناجائز ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح کرنا دُعا، جو کہ عبادات کا مغز ہے، کے سلسلے میں گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ کتاب و سنت میں وسیلے کی اس صورت کا کوئی وجود نہیں، نہ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی امام نے ایسا کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح سے شرک کے دروازے کے دونوں کواڑ کھل جاتے ہیں، لہٰذا توحید کے تحفظ کے لیے اس دروازے کو بند کرنا ضروری ہے“۔ (جھود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية، ص:1484)

شیعہ اور ممنوع توسل

شیعہ شنیعہ کے نزدیک بحق فلاں اور بحرمۃ فلاں کے الفاظ کے ساتھ دعا میں توسل جائز ہے۔ اس کے ثبوت پر ان کے علماء کی کتابوں میں صریح عبارات موجود ہیں، مثلاً محمد باقر مجلسی شیعہ (م : ۱۱۱۱ ھ) نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک پر حاضری کے آداب بیان کرتے ہوئے دُعا کا ایک انداز یوں بیان کیا ہے: 
وبك يتوسل المتوسلون في جميع حوائجھم
” (اےحسین !) وسیلہ پکڑنے والے اپنی تمام حاجات میں آپ کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔“ 
(بحار الأنوار:84/98) 

نیز لکھتے ہیں : 
لم يتوسل المتوسلون بوسيلة أعظم حقا، وأوجب حرمة منكم أھل البيت.
”اے اہل بیت ! آپ سے بڑھ کر بڑے حق والا اور بڑی تعظیم والا وسیلہ کسی نے کبھی پیش نہیں کیا۔“ 
(بحار الأنوار:226/98)

احناف اور ممنوع توسل

حنفی مقلدین بھی غیرمشروع، شرکیہ اور ممنوع توسل کے قائل و فاعل ہیں۔ ان کے نزدیک بھی فوت شدگان کے وسیلے سے دُعا کرنا جائز و درست ہے، جیسا کہ دُعا کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے شارحِ ہدایہ ابن ہمام حنفی ( ۷۹۰۔۸۶۱ ھ) لکھتے ہیں : 
ويسأل الله تعالی حاجته متوسلا إلي الله بحضرة نبيه۔ عليه الصلاة والسلام ………. ثم يسأل النبی۔ صلی الله عليه وسلم۔ الشفاعة، فيقول : يا رسول الله ! أسألك الشفاعة، يا رسول الله ! أسألك الشفاعة وأتوسل بك إلی الله في أن أموت مسلما علی ملتك وسنتك، ويذكر كل ما كان من قبيل الاستعطاف والرفق به۔
”دُعا کرنے والا اللہ تعالیٰ سے اس کے نبی کی ذات کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے دُعا کرے۔۔۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہے: اے اللہ کے رسول ! میں آپ سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں، یا رسول اللہ ! میں آپ سے شفاعت کا سوالی ہوں اور اللہ تعالیٰ کو آپ کا وسیلہ دیتا ہوں کہ مجھے اسلام کی حالت میں آپ کی ملت اور سنت پر موت آئے۔ اسی طرح تمام وہ باتیں کرے جو رحم طلبی اور نرمی سے تعلق رکھتی ہوں۔“ 
( فتح القدير:338/2، طبع مصر)
یہی بات فتاویٰ عالمگیری (82/1، طبع مصر) میں بھی مذکور ہے۔

دیوبندی مقلدین اور ممنوع توسل

آلِ دیوبند کے اجماعی عقائد کی ترجمان کتاب میں سوال و جواب کی صورت میں مذکور ہے: 
تیسرا اور چوتھا سوال : کیا وفات کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل لینا دعاؤں میں جائز ہے یا نہیں ؟ تمہارے نزدیک سلف صالحین، یعنی انبیاء صدیقین اور شہداء و اولیاء کا توسل بھی جائز ہے یا ناجائز؟ 
جواب: ”ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء و اولیاء و صدیقین کا توسل جائز ہے۔ ان کی حیات میں یا بعد وفات بایں طور کہے کہ یا اللہ ! میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت برائی چاہتا ہوں، اسی جیسے کلمات اور کہے۔“ (المهند علي المفند، ص:12۔13) 

دیوبندی مفتی عزیرالرحمٰن صاحب (م : ۱۳۴۷ ھ) ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں :
”اس طرح دعا مانگنا درست ہے کہ یااللہ ! ببرکت اپنے نیک بندوں کے میری حاجت پوری فرما فقط۔“ 
(فتاويٰ دارلعلوم ديوبند:431/5، طبع ديوبند) 
نیز لکھتے ہیں :
”ان بزرگوں سے یہ نہ کہے: تم دعا کرو۔ سماع موتی خود مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ حنفیہ سماع موتی کا انکار کرتے ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہی مذہب اور آیات قرآنیہ اس پر دال ہیں، لہٰذا اس طرح ان سے خطاب کر کے نہ کہے کہ تم دعا کرو بلکہ خود اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے دعائے مغفرت اور رفع درجات کی دعا کرے 
اور اگر ان کے ذریعہ سے اپنی حاجات کے پورا ہونے کے بھی دعا کرے تو مضائقہ نہیں۔ “ (فتاويٰ دارلعلوم ديوبند:441/5۔442 ) 
غور فرمائیں کہ دیوبند کے مفتی عزیرالرحمٰن صاحب فوت شدگان کے وسیلے سے دعا کرنے کو جائز قرار دے رہے ہیں، جبکہ فوت شدگان سے دُعا کرانے کو ناجائز کہتے ہیں، لیکن دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب قاسم نانوتوی صاحب ( ۱۲۴۸۔۱۲۹۷ ھ) کا موقف اس کے خلاف تھا، ان کے بارے میں ہے:
”اگر اکیلے کسی مزار پر جاتے اور دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہوتا، تو آواز سے عرض کرتے کہ آپ میرے واسطے دعا کریں۔“
(سوانح قاسمي:29/2) 
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب ( ۱۲۸۰۔۱۳۶۲ ھ) لکھتے ہیں :
”عادتاً توسل اہل طریق میں مقبولانِ الٰہی کے توسل سے دعا کرنا بکثرت شائع ہے۔ حدیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے اور شجرہ پڑھنا جو اہل سلسلہ کے یہاں معمول ہے، اس کی یہی حقیقت اور غرض ہے۔“ 
(التكشف،ص:446)
تھانوی صاحب کا یہ کہنا کہ 
’’حدیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے‘‘ سراسر غلط ہے ۔ کسی صحیح حدیث سے وسیلے کی اس قسم کا اثبات نہیں ہوتا۔ 
سیدنا عثمان بن حیف سے مروی ایک روایت جس کا تعلق دعا اور سفارش سے ہے، کے بارے میں جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسل کسی کی دعا کا جائز ہے، اسی طرح توسل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔“
(نشرالطيب،ص:38) 
اگر اس حدیث سے ذات کا توسل ثابت ہوتا تو محدثین کرام اس کے قائل کیوں نہ ہوتے؟
اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جو بات تھانوی صاحب کی سمجھ میں آ گئی، محدثین کرام اس کو سمجھنے سے قاصر رہے! العیاذ باللہ۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ بول بول کر تھانوی صاحب کا رد کر رہے ہیں۔ کسی صحابی یا تابعی سے باسند صحیح کسی فوت شدہ انسان کا وسیلہ پکڑنا ثابت نہیں۔ اسی طرح کسی صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنی دعا میں آپ کی ذات کا وسیلہ نہیں دیا۔ یہ کتنا بڑا علمی مغالطہ ہے کہ صحابی رسول، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی زندگی میں دعا کی درخواست کرے، تو اس سے کسی کی ذات کا وسیلہ جائز ہو جائے ! یہ بات علمی دیانت کے سراسر خلاف ہے۔ یہ تو فہم سلف کو رد کر کے ان کے مقابلے میں دین گھڑنے والی بات ہے۔ صحابی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دعا کرائیں اور تھانوی صاحب اس پر امیوں کو قیاس کر کے ان کے مرنے کے بعد ان کی ذات کا وسیلہ جائز قرار دیں، تو یہ قیاس باطل بلکہ ابطل الاباطتل ہے۔ یہ ایجاد ذہن فاسد ہے۔ یہ لوگ محدثین کرام کی بیان کردہ روایات لے لیتے ہیں، لیکن ان کا فہم ردّ کر کے اپنے من مانے مفاہیم کی روشنی میں نیا دین ایجاد کرتے ہیں۔ 
تھانوی صاحب کی مشار الیہ حدیث پر تفصیلی بحث وسیلے کی ممنوع اقسام پر دلائل کا تحقیقی جائزہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ 
جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب (م : ۱۳۲۳ھ) سے اس بارے میں سوال ہوا۔ وہ سوال مع جواب ملاحظہ فرمائیں : 
سوال : اکثر آدمی شجرہ خاندان کا ہر صبح و شام پڑھتے ہیں۔ یہ کیسا ہے؟ 
الجواب : ”شجرہ پڑھنا درست ہے، کیونکہ اس میں بتوسل اولیاء کے حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔ اس کا کوئی حرج نہیں“۔(فتاویٰ رشیدیہ78/1) 
دیوبندیوں کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ ’’مہاجر مکی‘‘ (۱۲۳۳۔۱۳۱۷ ھ) نے کلیات ِ امدادیہ (ص ۱۰۰ ) میں یہ شجرہ ذکر کیا ہے۔ اس کا ایک شعر پیش خدمت ہے: 

’’ دُور کر دل سے حجاب ِ جہل و غفلت میرے رب !
کھول دے دل میں درعلم حقیقت میرے رب !
ہادئ عالم، علی مشکل کشا کے واسطے ! ‘‘ 
 
جناب شبیر احمد عثمانی دیوبندی فلسفی (م : ۱۳۶۹ھ) ﴿وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
”اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں ! اگر مقبول بندے کو محض واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کی جائے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت اللہ تعالیٰ سے ہی استعانت ہے۔“ 
(تفسیر عثمانی دیوبندی، ص:521) 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
وھو ظن أن الباب في التوسل كالباب في الاستغاثه، وليس كذلك، فانه يقال : استغاثه واستغاث به، كما يقال : إنه استعانه واستعان به، فالمستغاث به ھو المسؤول، وأما المتوسل به، فھو الذي يتسبب به إلي المسؤول.
”انہوں نے توسل اور استغاثہ کے معاملے کو ایک ہی طرح کا سمجھ لیا ہے، حالانکہ یہ ایک طرح کا ہے نہیں۔ کہنے کو تو یہ ایک جیسے ہیں لیکن جس سے مدد طلب کی جائے، وہ مسؤول ہوتا ہے، لیکن جس کا وسیلہ پیش کیا جائے، وہ مسؤول کی طرف جانے کے لیے سبب ہوتا ہے، (لہٰذا دونوں
معاملوں کو ایک شمار کرنا غلطی ہے)۔“ 
(تلخيص كتاب الاستغاثة،ص:262،261) 
دیوبندیوں کے ’’شیخ الاسلام ‘‘ جناب حسین احمد مدنی (م : ۱۳۷۷ ھ) اکابر آلِ دیوبند کے بارے میں لکھتے ہیں :
”یہ مقدس اکابر ہمیشہ اولیائے کرام و انبیائے عظام سے توسل کرتے رہتے ہیں اور اپنے مخلصین کو اس کی ہدایت کرتے رہتے ہیں جس کو وہابیہ مثل شرک ناجائز و حرام جانتے ہیں۔ 
حضرت مولانا نانوتوی نے ایک قصیدہ طویلہ دربارہ توسل مشائخ سلسلہ علیہ چشتیہ صابریہ تحریر فرمایا ہے جو کہ امداد السلوک کے اخیر میں و نیز دیگر رسائل کے ساتھ شائع ہو چکا ہے۔“ (الشهاب الثاقب،ص:235) 
الغرض جملہ اکابر دیوبند غیر مشروع اور ناجائز توسل کے قائل و فاعل ہیں۔
یہ دیوبندی ’’توحید‘‘ ہے! نامعلوم دیوبندی اور بریلوی اس کے باوجود دست بگریباں کیوں ہیں ؟ بدعات اور منکرات ہمارے دیوبندی بھائیوں کے گھر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جو ان کے عقائد و اعمال میں مفسدت کا باعث بن رہی ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے منہج سے ہٹ کر اہل کلام کے منہج کو اپنایا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ وسیلے کے مسئلے میں یہ لوگ علامہ سبکی (
۶۸۳۔ ۷۵۶ھ) کے پیروکار ہیں۔ 
علامہ سبکی اپنا غلو پر مبنی عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں : 
إن التوسل بالنبي صلي الله عليه وسلم جائز في كل حال قبل خلقه، وبعد خلقه في مدة حياته في الدنيا، وبعد موته في مدة البرزخ، وبعد البرزخ، وبعد البعث في عرصات القيامة والجنة.
”ہر حال میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دینا جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل، آپ کے پیدا ہونے کے بعد، آپ کی دنیاوی زندگی میں بھی، آپ کی وفات کے بعد برزخی حالت میں بھی، برزخ کے بعد بھی اور دوبارہ جی اٹھنے کے بعد قیامت اور جنت کے حالات میں بھی آپ کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔“ 
(شفاء السقام،ص:120)
سلف میں سے کسی کا ہرگز ایسا نظریہ نہیں رہا۔ توسل بالذات یاتوسل بالاموات کا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کوئی بھی قائل نہیں تھا۔ ان کے نزدیک جو توسل جائز ہے اور درست ہے، وہ مشروع توسل ہے۔ متاخرین میں سےبھی بعض نے اگر اپنے توسل میں کہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہیں بلکہ آپ کی محبت و اطاعت ہے، جو کہ ایک نیک عمل ہے۔ 
جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
أسئلك بنبيك محمد، أي أسألك بايماني به ومحبته.
” ( اےاللہ !) میں تجھے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم، یعنی آپ سے اپنی محبت کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں۔“ 
(قاعدة جليلة في التوسل،ص:38)
یعنی سلف کا توسل، توسل بالاموات نہیں بلکہ توسل بالاعمال الصالحہ تھا۔
فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان  

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...