Sunday 1 January 2017

وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (5)

 

وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (5)

 ازعثمان احمد  

دلیل نمبر ۲۸
 
امام اصمی رحمہ اللہ سے مروی ہے : 
وقف أعرابي مقابل قبر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فقال: اللهم إن هذا حبيبك، وأنا عبدك، والشيطان عدوك، فإن غفرت لي سرّ حبيبك، وفاز عبدك، وغضب عدوك، وإن لم تغفرلي غضب حبيبك، ورضي عدوك، وهلك عبدك، وأنت أكرم من أن تغضب حبيبك، وترضي عدوك، وتهلك عبدك، اللهم ! إن العرب الكرام إذا مات فيهم سيد أعتقوا على قبره، وإن هذا سيد العالمين فأعتقني على قبره، قال الصمعي : فقلت: يا أخا العرب ! إن الله قد غفر لك، وأعتقك بحسن هذا السؤال.
”ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا : اے اللہ ! یہ تیرا حبیب ہے، میں تیرا بندہ ہوں اور شیطان تیرا دشمن ہے۔ اگر تو مجھے معاف فرما دے تو تیرا حبیب راضی ہو جائے گا، تیرا بندہ کامیاب ہو جائے گا اور تیرا دشمن غصے میں آئے گا۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو تیرا حبیب غصے میں آئے گا، تیرا دشمن راضی ہو جائے گا اور تیرا بندہ ہلاک ہو جائے گا۔ تو اس بات سے بلند ہے کہ اپنے حبیب کو غصہ دلائے، اپنے دشمن کو راضی کرے اور اپنے بندے کو ہلاک کرے۔ اے اللہ ! معزز عربوں کی یہ عادت ہے کہ جب ان میں سے کوئی سردار فوت ہو جاتا ہے تو اس کی قبر پر غلاموں کو آزاد کرتے ہیں۔ یہ جہانوں کے سردار ہیں، لہٰذا ان کی قبر پر مجھے آزاد کر دے۔ اصمی کہتے ہیں کہ میں نے اس بدوی سے کہا : اے عرب ! تیرے اندازِ سوال کی بنا پر تجھے معاف کر دیا گیا ہے۔“ 
(وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفي للسمھودي:214/4)
 
تبصره: یہ سفید جھوٹ ہے۔ امام اصمی رحمہ اللہ تک سند مذکور نہیں۔ بعض امتیوں سے منقول بےسروپا روایات دین نہیں بن سکتیں۔

دلیل نمبر ۲۹
 
عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب (م : ۸۰ھ) کہتے ہیں :
كنت إذا سألت عليا شيئا، فامتنع، قلت له : بحق جعفر، فيعطينی.
”میں جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کوئی چیز مانگتا اور وہ نہ دیتے تو میں ان سے کہتا : جعفر کے واسطے ! اس پر وہ مجھے دے دیتے“۔ 
(تاريخ يحيي بن معين برواية ابن محرز:168/1، كتاب الولاة للكندي:21، المعرفة والتاريخ للفسوي توضيح المشتبه:230/1، صحيح ابن السكن الإصابة في تميز الصحابة:237/1، الاستيعاب لابن عبدالبر:244/1، تاريخ دمشق لابن عساكر:389/56)
 
تبصرہ: یہ اثر بلحاظِ سند سخت ’’ضعیف“ ہے۔
اس کا راوی مجالد بن سعید جمہور کے نزدیک ’’ضعیف“ اور غیر ثقہ ہے۔ 
 
اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
مجالد، حديثه عن أصحابه كأنه حلم.
’’مجالد کی اپنے اصحاب سے روایت بےاصل ہوتی ہے۔“ 
( كتاب المجروحين لابن حبان:11/3، وسنده حسن) 
 
نیز فرماتے ہیں : 
حديث مجالد عن الشعبي كأنه حلم.
’’مجالد کی شعبی سے روایت بےاصل ہوتی ہے۔“ 
(مسائل الإمام أحمد و اسحاق بن راھویہ::750) 
 
مذکورہ بالا روایت بھی امام شعبی سے ہے، لہٰذا یہ جرح مفسر ہے اور روایت ’’ضعیف“ ہے۔ 
 
نیز اسے: 
٭ امام شافعی ( المجروحين لابن حبان :11/3، وسنده حسن) ، 
٭ حافظ ابن سعد (الطبقات الکبری:349/6) ، 
٭ حافظ جوزجانی (أحوال الرجال:126) ، 
٭ امام نسائی (كتاب الضعفاء والمتروكين،ص:233) (بعض علماء نے امام نسائی سے اس کا ثقہ ہونا بھی ذکر کیا ہے، لیکن اس کا ثبوت نہیں ملا) ، 
٭ امام دارقطنی (كتاب الضعفاء والمتروكين:532)، 
٭ امام یحییٰ بن معین (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:362/8، وسندہ صحيح)، 
٭ امام یحییٰ بن سعید ( أيضا، وسندہ صحيح) ، 
٭ امام ابوحاتم رازی (أيضا) ، 
٭ امام عبدالرحمٰن بن مہدی (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي:421/6، وسندہ صحيح) ، 
٭ امام ابن عدی (أيضا:423/6) ، 
٭ امام ترمذی (السنن:648)
وغیرہ نے ’’ضعیف“ اور 
’’غیرمحتج بہ“ کہا ہے۔ 
 
حافظ ابن عراقی فرماتے ہیں : 
وقد ضعفه الجمھور، وقد اختلط أخيرا.
’’اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ یہ آخری عمر میں سٹھیا گیا تھا۔“ 
(طرح التثريب في شرح التقريب:381/2) 
 
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
وقد ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ (مجمع الزوائد:33/5، 190) 
 
علامہ عینی حنفی کہتے ہیں : 
ومجالد ضعفه الجمھور. ’’مجالد کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري:240/6 تحت الحديث:934) 
 
علامہ شوکانی لکھتے ہیں : 
وقد ضعفه الجمھور. ’’اس کی جمہور نے تضعیف کر رکھی ہے۔“ (نيل الأوطار:205/3، وفي نسخة::273/2) 
 
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا وہ معنی نہیں جو بعض لوگوں سے سمجھ لیا ہے، یعنی اس سے مراد یہ نہیں کہ عبداللہ بن جعفر اپنے چچا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا جعفر کی قسم دیتے تھے، بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : 
فإن بعض الناس ظن: أن هذا من باب الإقسام عليه بجعفر، أو من باب قولهم: أسألك بحق أنبيائك، ونحو ذلك، وليس كذلك، بل جعفر هو أخو علي، وعبد الله ھو ابنه، وله عليه حق الصلة، فصلة عبد الله صلة لأبيه جعفر، كما في الحديث: إن من أبر البر أن يصل الرجل أهل ود أبيه بعد أن يولي، وقوله: إن من برھا بعد موتھما الدعاء لھما، والاستغفار لھما، وإنفاذ عھدھما من بعدھما، وصلة رحمك التي لا رحم لك إلا من قبلھما، ولو كان من هذا الباب الذي ظنوه، لكان سؤاله لعلي بحق النبي صلى الله عليه وسلم وإبراهيم الخليل ونحوهما، أولى من سؤاله بحق جعفر، فكان علي إلي تعظيم رسول الله صلى الله عليه وسلم ومحبته وإجابة السائل به أسرع منه إلي إجابة السائل بغيره، لكن بين المعنيين فرق.
’’بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جعفر رضی اللہ عنہ کا ذکر کر کے ان کو جعفر رضی اللہ عنہ کی قسم دی ہے یا ان کا یہ فعل انبیائے کرام کے بحق مانگنے کے مترادف ہے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں اور عبداللہ ان کے بیٹے ہیں۔ ان کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر اپنے والد کی وجہ سے حق رشتہ داری تھا، جیسا کہ حدیث میں ہے : سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے والد کی وفات کے بعد اس کے تعلق داروں سے حسن سلوک کرے۔ نیز فرمایا : والدین کے ساتھ نیکی کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے لیے دُعا کی جائے، ان کے لیے مغفرت طلب کی جائے، ان کی وفات کے بعد ان کے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور اپنے والدین کی طرف سے رشتہ داروں کےساتھ صلہ رحمی کی جائے۔۔۔ اگر اس سے مراد وہ وسیلہ یا واسطہ ہوتا جو ان لوگوں نے سمجھا ہے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابراہیم خلیل علیہ السلام وغیرہ کے واسطے سے مانگنا بحق جعفر مانگنے سے زیادہ فائدہ مند ہوتا، کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یقیناً رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تعظیم اور محبت کی وجہ سے سوالی کی مراد بحق جعفر مانگنے کی نسبت جلدی پوری کر دیتے۔ لیکن ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔“ 
(اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم:329،330/2)
دلیل نمبر ۳۰
 
امام شعبی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
لقد رأيت عجبا، كنا بفناء الكعبة أنا، وعبد الله بن عمر، وعبد الله بن الزبير، ومصعب بن الزبير، وعبد الملك بن مروان، فقال القوم بعد أن فرغوا من حديثهم: ليقم كل رجل منكم فليأخذ بالركن اليماني، ويسأل الله تعالى حاجته، فإنه يعطى من ساعته، قم يا عبد الله بن الزبير! فإنك أول مولود ولد في الهجرة، فقام فأخذ بالركن اليماني، ثم قال: اللهم ! إنك عظيم، ترجى لكل عظيم، أسألك بحرمة وجهك، وحرمة عرشك، وحرمة نبيك صلى الله عليه وسلم، أن لا تميتني من الدنيا حتى توليني الحجاز، ويسلم علي بالخلافة، وجاء حتى جلس، فقالوا : قم يا مصعب بن الزبير ! فقام حتى أخذ بالركن اليماني، فقال : اللهم ! إنك رب كل شيء، وإليك مصير كل شيء، أسألك بقدرتك على كل شيء، ألا تميتني من الدنيا حتى توليني العراق، وتزوجني سكينة بنت الحسين، وجاء حتى جلس، فقالوا : قم يا عبد الملك بن مروان ! فقام حتي أخذ بالركن اليماني، فقال : اللهم ! رب السموات السبع، ورب الأرضين ذات النبت بعد القفر، أسألك بما سألك عبادك المطيعون لأمرك، وأسألك بحرمة وجھك، وأسألك بحقك على جميع خلقك، وبحق الطائفين حول بيتك، ألا تميتني من الدنيا حتى توليني شرق الدنيا وغربها، ولا ينازعني أحد إلا أتيت برأسه، ثم جاء حتى جلس، فقالوا : قم يا عبد الله بن عمر ! فقام حتى أخذ بالركن اليماني، ثم قال : اللهم ! إنك رحمن رحيم، أسألك برحمتك التي سبقت غضبك، وأسألك بقدرتك على جميع خلقك، ألا تميتني من الدنيا حتى توجب لي الجنة. قال الشعبي: فما ذهبت عيناي من الدنيا حتى رأيت كل رجل منهم قد أعطي ما سأل، وبشر عبد الله بن عمر بالجنة، ورئيت له.
’’میرے ساتھ ایک بہت عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک دن میں، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا معصب بن زبیر رضی اللہ عنہم اور عبدالملک بن مروان خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھے تھے۔ جب سب لوگ اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے : ہر شخص کھڑا ہو اور رکن یمانی پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرے۔ اس وقت اس کی دعا قبول ہو گی۔ پھر کہنے لگے : عبداللہ بن زبیر ! آپ کھڑے ہوں کیونکہ آپ ہجرت کے بعد سب سے پہلے پیدا ہونے والے مسلمان تھے۔ عبداللہ بن زبیر کھڑے ہوئے اور رکن یمانی پکڑ کر عرض کی : اللہ ! تو بہت بڑا ہے، ہر بڑے معاملے میں تجھ ہی سے امید لگائی جاتی ہے۔ میں تجھ سے تیرے چہرے، تیرے عرش اور تیرے نبی کی حرمت کے طفیل سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں حجاز کا حکمران نہ بن جاؤں اور مجھے خلیفہ نہ مان لیا جائے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ واپس آ کر اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ لوگوں نے کہا : معصب بن زبیر ! اب تم جاؤ۔ وہ گئے اور رکن یمانی پکڑ کر یوں عرض گزار ہوئے : اللہ ! تو ہر چیز کا مالک ہے۔ ہر چیز تیری ہی طرف لوٹ کر جانے والی ہے۔ میں ہر چیز پر تیری قدرت کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک میں عراق کا حکمران نہ بن جاؤں اور سکینہ بنت حسین سے میری شادی نہ ہو جائے۔ وہ آئے اور بیٹھ گئے۔ پھر لوگوں نے عبدالملک بن مروان سے کہا۔ وہ کھڑے ہوئے اور رکن یمانی تھام کر کہا : اللہ ! تو ساتوں آسمانوں اور ان ساتوں زمینوں کا مالک ہے جو پہلے بنجر تھیں اور پھر سرسبز و شاداب ہو گئیں۔ میں تجھ سے اسی طرح سوال کرتا ہوں جس طرح تیرے فرمانبردار بندوں نے سوال کیا تھا۔ میں تجھ سے تیرے چہرے کی حرمت کے وسیلے، تمام مخلوقات پر تیرے حق کے طفیل اور تیرے گھر کا طواف کرنے والے لوگوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں زمین کے مشرق و مغرب کا حکمران نہ بن جاؤں اور جو بھی مجھ سے مقابلہ کرے میں اس کا سر قلم کر دوں۔ وہ آئے اور بیٹھ گئے۔ لوگوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا، وہ کھڑے ہوئے اور رکن یمانی پکڑ کر عرض کرنے لگے : میرے اللہ ! تو رحمٰن و رحیم ہے۔ میں تیری اس رحمت کے طفیل سوال کرتا ہوں جو تیرے غصے پر غالب ہے، نیز میں تمام مخلوق پر تیری قدرت کے طفیل مطالبہ کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک تو مجھ پر جنت واجب نہ کر دے۔ شعبی کہتے ہیں : میں نے مرنے سے پہلے ہر شخص کی دعا کو قبول ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھی جنت کی بشارت دے دی گئی اور ان کے لیے جنت آراستہ کر دی گئی۔“ 
(مجابوا الدعوة لابن أبي الدنيا:120،121، المنتظم لابن الجوزي:135/6، 134، تاريخ دمشق لابن عساكر:171/31)

تبصره: یہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ 
(1) اس جھوٹی روایت کو گھڑنے کا کارنامہ سخت جھوٹے شخص اسماعیل بن ابان غنوی نے سرانجام دیا ہے۔ 
 
اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
كتبناعنه۔۔۔ ثم حدث أحاديث۔۔۔ موضوعة۔۔۔، فتركناه.
’’ہم نے اس سے۔۔۔ کچھ احادیث لکھی تھیں، پھر اس نے۔۔۔ جھوٹی احادیث بیان کیں۔۔۔ تو ہم نے اسے چھوڑ دیا۔“
(العلل ومعرفة الرجال لإمام أحمد برواية ابنه عبدالله:211/3، ت:4912) 

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’کذاب“ راوی ہے۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي:502/1، وسنده صحيح) 
 
 امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء:16) 
 
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
متروك الحديث، كان كذابا. ’’یہ متروک الحدیث اور سخت جھوٹا راوی تھا۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:160/2) 
 
امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (أيضا) 
 
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (سنن الدارقطني:329/1) 
 
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
وكان يضع علي الثقات. ’’یہ ثقہ راویوں سے منسوب کر کے جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔“ (كتاب المجروحين:128/1) 
 
علامہ جوزجانی کہتے ہیں : 
ظھر منه علي الكذب. ’’میں نے اس کا جھوٹ پکڑ لیا ہے۔“ (أحوال الرجال:84) 
 
(2) طارق بن عبدالعزیز نامی راوی کی توثیق نہیں مل سکی، بلکہ کتب رجال میں اس کا ذکر تک نہیں۔ 
 
(3) اس سند میں سفیان ثوری کی ’’تدلیس“ بھی موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
دلیل نمبر ۳۱         
 
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اذان سننے کے بعد یہ الفاظ کہے تو روزِ قیامت اسے میری شفاعت نصیب ہو گی : 
بحق ھذه الدعوة التامة والصلاة القائمة، محمدا الوسيلة والفضيلة، وابعثه المقا المحود الذي وعدته، إنك لا تخلف الميعاد.
اے اللہ ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے طفیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلہ عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر مبعوث فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ “ 
(المعجم الأوسط للطبراني: 4654، المعجم الصغير للطبراني: 670، السنن الكبريٰ للبيهقي:410/1، الدعوات الكبير للبيھقي:49، وسنده صحيح)
 
تبصرہ: اس حدیث کے الفاظ کےمتعلق حافظ ابن رجب رحمہ اللہ ( ۷۳۶۔۷۹۵ ھ) فرماتے ہیں : 
وھذا اللفظ لا إشكال فيه، فإن الله سبحانه جعل لھذه الدعوة وللصلاة حقا كتبه علي نفسه، ولا يخلفه عمن قام بھما من عباده، فرجع الأمر إلی السئوال بصفات الله وكلماته.
’’ان الفاظ میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ اللہ سجانہ و تعالیٰ نے اس دعوت اور نماز کے بدلے (اپنے نبی کی شفاعت عطا کرنے کا) حق اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ جو شخص ان دونوں چیزوں کا اہتمام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے اپنے وعدے کو ضرور وفا کرتا ہے۔ یوں آخر کار معاملہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے کلمات (کے وسیلے) کا ہی ہے۔ “ 
(فتح الباري:271/5) 
 
علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ (م:۱۳۲۶ ھ) فرماتے ہیں : 
إن المراد بهذه الدعوة التامة نوع الأذان، لا أذان مؤذن مخصوص، كما أن المراد مطلق الصلاة، لا صلاة مصل معين، فغاية ما يثبت منه التوسل بمطلق الأعمال الصالحة، من غير إضافتھا إلي أشخاص معينين، وھو بمعزل عن المطلوب.
’’اس دعوت کاملہ سے مراد نوع اذان ہے، کسی مخصوص موذّن کی اذان یہاں مراد نہیں۔ اسی طرح نماز سے یہاں مطلق نماز مراد ہے، کسی خاص نمازی کی نماز نہیں۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے ثابت ہو گا کہ معین اشخاص کی طرف نسبت کیے بغیر نیک اعمال کو وسیلہ بنانا جائز ہے اور یہ صورت ان کے مقصود کے خلاف ہے۔ 
(صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان ص:203)
دلیل نمبر ۳۲
 
امام شافعی کی طرف منسوب ایک ضعیف اور باطل روایت یوں ہے : 
إني لأتبرك بأبي حنيفة، وأجيء إلى قبره في كل يوم، يعني زائرا، فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين، وجئت إلى قبره، وسألت الله الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى.
’’میں امام ابوحنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر دن زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں، جلد ہی وہ ضرورت پوری کر دی جاتی ہے۔ “ 
(تاريخ بغداد للخطيب البغدادي:135/1)
 
تبصره: یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے۔
اس کے راوی عمر بن اسحاق بن ابراہیم کا کتب رجال میں کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔
نیز علی بن میمون راوی کی بھی تعیین نہیں ہو سکی۔
اس کے باوجود محمد زاہد الکوثری حنفی جہمی نے اس کی سند کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔ 
(مقالات الكوثري:380)
جس روایت کے راوی کا حال یہ ہو کہ اس کا کتب رجال میں ذکر ہی نہ ہو، اس کی سند صحیح کیسے ہوئی ؟ کیا یہ سب کچھ قبر پرستی کو تقویت دینے کے لیے تو نہیں کیا جا رہا؟ 
 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م:۷۲۸ ھ) اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : 
وهذا كذب معلوم كذبه بالاضطرار عند من له أدنى معرفة بالنقل، فإن الشافعي لما قدم بغداد لم يكن ببغداد قبر ينتاب للدعاء عنده البتة، بل ولم يكن هذا على عهد االشافعي معروفا، وقد رأى الشافعي بالحجاز واليمن والشام والعراق ومصر من قبور الأنبياء والصحابة والتابعين، من كان أصحابها عنده وعند المسلمين أفضل من أبي حنيفة وأمثاله من العلماء، فما باله لم يتوخ الدعاء إلا عند قبر أبي حنيفة، ثم أصحاب أبي حنيفة الذين أدركوه مثل أبي يوسف ومحمد وزفر والحسن بن زياد وطبقتهم لم يكونوا يتحرون الدعاء، لا عند قبر أبي حنيفة ولا غيره، ثم قد تقدم عن الشافعي ما هو ثابت في كتابه من كراهة تعظيم قبور الصالحين خشية الفتنة بها، وإنما يضع مثل هذه الحكايات من يقل علمه ودينه وإما أن يكون المنقول من هذه الحكايات عن مجهول لا يعرف.
’’یہ ایسی جھوٹی روایت ہے جس کا جھوٹا ہونا ہر اس شخص کو لازمی طور پر معلوم ہو جاتا ہے جو فن روایت سے ادنیٰ معرفت بھی رکھتا ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ جب بغداد تشریف لائے تو وہاں قطعاً کوئی ایسی قبر موجود نہیں تھی جس پر دعا کے لیے حاضر ہوا جاتا ہو۔ یہ چیز امام شافعی رحمہ اللہ کے دور میں معروف ہی نہیں تھی۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے حجاز، یمن، شام، عراق اور مصر میں انبیائے کرام اور صحابہ و تابعین کی قبریں دیکھی تھیں۔ یہ لوگ تو امام شافعی اور تمام مسلمانوں کے ہاں امام ابوحنیفہ اور ان جیسے دوسرے علماء سے افضل تھے۔ کیا وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے سوائے امام ابوحنیفہ کے کسی کی قبر پر دعا نہیں کی ؟ پھر امام ابوحنیفہ کے وہ شاگرد جنہوں نے ان کی صحبت پائی تھی، مثلاً ابویوسف، محمد (بن حسن ) ، ابوزفر اور حسن بن زیاد، نیز ان کے طبقے کے دوسرے لوگ امام ابوحنیفہ یا کسی اور کی قبر پر دعا نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے۔ اس طرح کی جھوٹی روایات وہ لوگ گھڑتے ہیں جو علمی اور دینی اعتبار سے تنگ دست ہوتے ہیں یا پھر ایسی روایات مجہول اور غیر معروف لوگوں سے منقول ہوتی ہیں۔ “ 
(اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم،ص:165) 
 
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ( ۶۹۱۔۷۵۱ ھ) فرماتے ہیں : 
قال شيخنا قدس الله روحه: وهذه الأمور المبتدعة عند القبور مراتب، ابعدها عن الشرع: أن يسأل الميت حاجته، ويستغيث به فيها، كما يفعله كثير من الناس، قال: وهؤلاء من جنس عباد الأصنام، ولهذا قد يتثمل لهم الشيطان فى صورة الميت أو الغائب كما يتمثل لعباد الأصنام، وهذا يحصل للكفار من المشركين وأهل الكتاب، يدعو أحدهم من يعظمه فيتمثل له الشيطان أحياناً، وقد يخاطبهم ببعض الأمور الغائبة، وكذلك السجود للقبر، والتمسح به وتقبيله، والمرتبة الثانية: أن يسأل الله عز وجل به، وهذا يفعله كثير من المتأخرين، وهو بدعة باتفاق المسلمين. …. الرابعة: أن يظن أن الدعاء عند قبره مستجاب، أو أنه أفضل من الدعاء فى المسجد، فيقصد زيارته والصلاة عنده لأجل طلب حوائجه، فهذا أيضاً من المنكرات المبتدعة باتفاق المسلمين. وهى محرمة، وما علمت فى ذلك نزاعاً بين أئمة الدين، وإن كان كثير من المتأخرين يفعل ذلك، ويقول بعضهم: قبر فلان ترياق مجرب، والحكاية المنقولة عن الشافعى أنه كان يقصد الدعاء عند قبر أبى حنيفة، من الكذب الظاهر.
’’ہمارے استاذ قدس اللہ سرہ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) نے فرمایا : قبروں کے پاس بدعت پر مبنی امور کے کئی مراتب ہیں۔ سب سے بڑھ کر شریعت کے منافی مرتبہ یہ ہے کہ میت سے اپنی حاجت روائی کا سوال کیا جائے اور اس سے مدد کی درخواست کی جائے جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ بت پرستوں جیسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسااوقات شیطان ان کے سامنے کسی میت یا کسی غیر موجود شخص کی صورت بنا کر آتا ہے اور بت پرستوں کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ مشرکوں، کافروں اور اہل کتاب کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہاں قابل تعظیم ہستی کو پکارتے ہیں تو شیطان ان کے سامنے اس کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار تو انہیں بعض غیبی امور کی خبر بھی دیتا ہے۔۔۔۔ قبروں کو سجدہ کرنا، ان کو تبرک کی نیت سے چھونا اور ان کو چومنا بھی اسی مرتبے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ قبر والوں کے طفیل اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے۔ بہت سے متاخرین ایسا کرتے ہیں۔ اس کام کے بدعت ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔۔۔۔ چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ انسان کسی بزرگ کی قبر کے پاس دعا کی قبولیت کا اعتقاد رکھے یا یہ سمجھے کہ وہاں دعا کرنا مسجد میں دعا کرنے سے افضل ہے اور اسی خیال سے وہ قبر کی زیارت کو جائے اور وہاں اپنی حاجات کو پورا کرنے کے لیے نماز ادا کرے۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ کام بھی بدعی منکرات میں سے ہے جو کہ حرام ہیں۔ مجھے اس بارے میں ائمہ دین کا کوئی اختلاف معلوم نہیں۔ ہاں، متاخرین میں سے بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ بعض تو کہتے ہیں کہ فلاں کی قبر تجربہ شدہ تریاق ہے۔ امام شافعی کے بارے میں امام ابوحنیفہ کی قبر کے پاس دعا کرنے کی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ صاف جھوٹ ہے۔ “ 
(إغاثة اللھفان من صايد الشيطان: 218/1) 
 
جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب (م : ۲۰۰۹ھ) لکھتے ہیں :
’’یہ واقعہ ہی جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے۔ “ 
(باب جنت، ص:66)
 
 اس تحریر کا اگلا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...