Sunday 1 January 2017

وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (4)

 

وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (4)

 ازعثمان احمد  
 
دلیل نمبر ۲۱
 
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام جو دعائیں پڑھتے تھے، ان میں یہ الفاظ بھی شامل تھے : 
أسألك بنور وجهك الذي أشرقت له السموات والأرض، بكل حق ھو لك، وبحق السائلين عليك، أن تقبلني في ھذه الغداة، أوفي ھذه العشية، وأن تجيرني من النار بقدرتك.
’’ (اے اللہ ! ) میں تجھ سے تیرے چہرے کے اس نور کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جس سے زمین و آسمان روشن ہو گئے ہیں۔ تیرے ہر حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اور سوال کرنے والوں کا تجھ پر جو حق ہے، اس کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ تو اس صبح یا اس شام میری دعا قبول فرما لے اور اپنی قدرت سے مجھے آگ سے بچا لے۔ “ 
(المعجم الكبير للطبراني:264/8، كتاب الدعاء للطبراني: 941،940/2)

تبصره: اس کی سند باطل (جھوٹی ) ہے۔ 
 
اس کے راوی ابوالمہند فضال بن جبیر کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
وھو ضعيف، جمع علي ضعفه. ’’یہ راوی باتفاق محدثین کرام ضعیف ہے۔ “ (مجمع الزوائد:117/10) 
 
امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کی بیان کردہ روایات کے بارے میں فرماتے ہیں : 
ولفضان عن أبي أمامة قدر عشرة أحاديث، كلھا غير محفوظة.
’’فضال، سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے تقریباً دس احادیث روایت کرتا ہے، یہ ساری کی ساری منکر ہیں۔ “ 
(الكامل في ضعفاء الرجال:21/6) 
 
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
يروي عن أبي أماماة ماليس من حديثه، لا يحل الا حتجاج به بحال.
’’یہ راوی سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے ایسی روایات بیان کرتا ہے جو انہوں نے بیان نہیں کیں۔ کسی بھی صورت میں اس کی روایت سے دلیل لینا جائز نہیں۔ “ 
(المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين:304/2) 
 
نیز فرماتے ہیں کہ فضال کی سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ روایت جھوٹی ہوتی ہے۔ (كتاب المجروحين:304/2) 
 

فضال کی بیان کردہ مذکورہ روایت بھی چونکہ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے ہے، لہٰذا اس کے جھوٹی اور باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔ 
 
دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کے راوی ہشام بن ہشام کوفی کی توثیق بھی نہیں ملی۔

دلیل نمبر ۲۲
 
محمد بن سائب کلبی کہتا ہے : 
اجتمع الطِّرماح وهشام المرادي ومحمد بن عبدالله الحميري عند معاوية بن أبي سفيان، فأخرج بدرِة فوضعها بين يديه ثم قال : يا معشر شعراء العرب ! قولو اقولكم في علي بن أبي طالب، ولا تقولوا إلا الحق، وأنا نفيّ من صَخر بن حرب ان أعطيتُ هذه البدرة الا مَن قال الحَقّ في علي ! فقام الطّرماح، فتكلّم وقال في علي ووقع فيه، فقال معاوية : اجلس، فقد عرف الله نيَّتك ورآي مكانك ! ثم قام هشام المرادي، فقال أيضاً ووقع فيه، فقال معاوية : اجلس مع صاحبك، فقد عرف الله مكانكما ! فقال عمرو بن العاص لمحمد بن عبدالله الحميري، وكان خاصّاً به : تكلّم ولا تَقُل الا الحَقّ، ثم قال : يا معاوية ! قد آليَت، ألا تُعطي هذه البدرة إلا قائل الحَقّ في علي ؟ قال : نعم، أنا نفيّ من صَخر بن حَربِ ان أعطيتها مِنهم الا من قال الحَقّ في علي! فقام محمد بن عبدالله، فتكلم، ثم قال: بحق محمد، قوله بحق، فإن الإفك من شيم اللئام، أبعد محمد بأبي وأمي.
”طرماح، ہشام مرادی اور محمد بن عبداللہ حمیری، معاویہ بن ابوسفیان کے پاس جمع ہوئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہیرے جواہرات کی ایک تھیلی نکال کر ان کے سامنے رکھ دی، پھر کہا : اے شعراء عرب ! تم علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق پر مبنی اشعار کہو۔ میں اپنے باپ صخر بن حرب کا بیٹا نہیں اگر یہ تھیلی اسے نہ دوں جو تم میں سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق بات کہے گا۔ طرماح کھڑا ہوا اور اشعار میں علی رضی اللہ عنہ کی توہین کی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ، اللہ تمہاری نیت اور حیثیت کو جانتا ہے۔ پھر ہشام مرادی کھڑا ہوا، اس نے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گستاخی میں اشعار کہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : تم بھی اپنے ساتھی کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ اللہ تم دونوں کی حیثیت کو جانتا ہے۔ پھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے محمد بن عبداللہ حمیری سے، جو ان کے خاص آدمی تھے، کہا : بولو اور علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں صرف حق کہو۔ پھر فرمایا : معاویہ ! کیا آپ نے قسم اٹھائی ہے کہ آپ یہ تھیلی صرف اسی شخص کو دیں گے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق گوئی کرے گا ؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں، میں اپنے باپ صخر بن حرب کا بیٹا نہیں، اگر میں یہ تھیلی اس شخص کو نہ دوں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق بات کہے۔ محمد بن عبداللہ کھڑا ہوا اور اشعار پڑھے، پھر کہا : محمد کے واسطے، تم حق کہو، جھوٹ بولنا تو کمینوں کی عادت ہے۔۔۔۔““ 
(بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطھار لمحمد باقر بن محمد تقي بن المقصود علي المجلسي الرافضي (م : ۱۱۱۱ھ) 259/33)

تبصرہ: یہ کائنات کا بدترین جھوٹ اور خالص ابلیسی کارروائی ہے۔ کیونکہ : 
(1) محمد بن سائب کلبی کے بارے میں:
 
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
الناس مجتمعون علي ترك حديثه، لا يشتغل به، ھو ذاھب الحديث.
’’اہل علم کا اس کی حدیث کو ترک کرنے پر اجماع ہے۔ اس کی حدیث کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ اس کی بیان کردہ حدیث کا کوئی اعتبار نہیں۔“ 
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:271/7) 
 
قرہ بن خالد سدوسی کہتے ہیں : 
كانو يرون الكلبي يزرف، يعني يكذب. ’’محدثین کرام کہتے تھے کہ کلبی جھوٹ بولتا ہے۔“ (الجرح والتعديل :271/7، وسنده حسن) 
 
سلیمان بن طرخان تیمی نے اسے ’’کذاب“ قرار دیا ہے۔ (أيضا:270/7، وسنده حسن) 
 
(2) اس کے بیٹے اور شاگرد ہشام بن محمد کلبی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
تركوه، وھو أخباري. ’’محدثین نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ یہ اخباری تھا۔“ (المغني في الضعفاء:711/2) 
 
(3) محمد بن زکریا بن دینار غلابی کے بارے میں امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
يضع الحديث. ’’یہ اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ لیتا تھا۔“ (سوالات الحاكم للدارقطني:206) 
 
حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
تكلم فيه. ’’اس پر جرح کی گئی ہے۔“ (ميزان الاعتدال:550/3) 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’کذاب“ کہا ہے۔ (ميزان الاعتدال:166/3، ت: عمار بن عمر) 
 
نیز فرماتے ہیں کہ یہ ممتہم بالکذب. راوی ہے۔ (أيضا:325/1، ت: بشر بن مھران) 
 
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں : 
كان صاحب حكايات وأخبار، يعتبر حديثه إصا روي عن الثقات، لأنه في روايته عن المجاھيل بعض المناكير.
’’یہ حکایات اور قصے کہانیاں بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث اس وقت معتبر ہوتی ہے جب وہ ثقہ راویوں سے بیان کرے، کیونکہ اس کی مجہول راویوں سے بیان کردہ روایات میں بعض مناکیر ہیں۔“ 
(الثقات:159/4) 
 
(4) اس کا استاذ عبداللہ بن ضحاک مرادی نامعلوم و مجہول ہے، لہٰذا اس روایت پر جرح مفسر ہو گئی ہے۔
اس میں مزید خرابیاں موجود ہیں۔ لہٰذا یہ جھوٹی روایت ہے۔

دلیل نمبر ۲۳
 
ایک روایت یوں ہے : توسلو ابجاھي، فإن جاھي عندالله عظيم. ’’تم میرے مقام و مرتبے کے وسیلے سے دعا کیا کرو، کیونکہ میرا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ “
ایک راویت کے الفاظ یوں ہیں : 
إذا سألتم الله فاسئلوه بجاھي، فإن جاھي عندالله عظيم. ’’جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو تو میرے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا کرو، کیونکہ میرا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند ہے۔ “

تبصرہ: یہ روایت بے اصل و بےثبوت ہے۔ 
 
اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں : 
وروي بعض الجھال عن النبی صلی الله عليه وسلم أنه قال: إذا سألتم الله فاسئلوه بجاھي، فإن جاھي عندالله عظيم۔ وھذا الحديث كذب، ليس في شيء من كتب المسلمين التي يعتمد عليھا أھل الحديث، ولا ذكره أحد من أھل العلم بالحديث، مع أن جاھه عند الله تعالی أعظم من جاه جميع الأنبياء والمرسلين.
’’بعض جاہل لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ روایت بیان کرتے ہیں۔۔۔ یہ روایت جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کی کسی ایسی کتاب میں اس کا وجود نہیں جس پر محدثین کرام اعتماد کرتے تھے۔ محدثین میں سے کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ یہ بات تو برحق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام انبیاء و رسل سے بڑھ کر تھا ( لیکن اس مقام و مرتبے کو وسیلہ بنانا شریعت اسلامیہ میں مشروع نہیں ) ۔ “ 
(قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة،ص:252) 
 
علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ (م : ۱۳۲۶ھ) فرماتے ہیں : 
لم يروه أحد من أھل العلم، ولا ھو في شيى من كتب الحديث.
’’اسے کسی اہل علم نے روایت نہیں کیا، نہ ہی کتب حدیث میں سے کسی کتاب میں اس کا وجود ملتا ہے۔ “ 
(صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:189، 188)

دلیل نمبر ۲۴
 
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ قرآن کریم سیکھتے تھے، لیکن جلدی بھول جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا سکھائی : 
اللهم إنى أسألك بمحمد نبيك، وإبراهيم خليلك، وموسى نجيك، وعيسى كلمتك وروحك، وبتوراة موسى،وإنجيل عيسى، وزبور داود، وفرقان محمد صلى الله عليه وآله وسلم، وبكل وحى أوحيته، أو قضاء قضيته.
’’اے اللہ ! میں تجھ سے ان سب کے واسطے سے سوال کرتا ہوں۔ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، تیرے خلیل ابراہیم علیہ السلام، تیری ہم کلامی کا شرف حاصل کرنے والے موسیٰ، تیری روح و کلمہ عیسیٰ، موسیٰ کی تورات، عیسیٰ کی انجیل، داؤد کی زبور، محمد کے قرآن، تیری ہر وحی اور تیری تمام قضاء وقدر۔“ 
(جامع الأصول لابن الأثير:302/4،ح:2302، اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسيوطي:299،298/2، قاعدة جليلة لا بن تيمية،ص:165،164)

تبصرہ: یہ جھوٹ کا پلندہ ہے :
جو کہ عبدالملک بن ہارون نے ترتیب دیا ہے۔ 
 
اس کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’ کذاب“ ہے۔ (تاريخ يحيي بن معين:376/2) 
علامہ جوزجانی کہتے ہیں :
دجال كذاب. ’’یہ بہت بڑا دھوکے باز اور سخت جھوٹا شخص ہے۔“ (أحوال الرجال،ص:68) 
 
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ’’منکر الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (الضعفاء الصغير:218) 
 
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسے ’’ضعیف الحدیث“ فرماتے ہیں۔ (العلل ومعرفة الرجال:2648) 
 
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
له أحاديث غرائب عن أبيه عن جده عن الصحابة، مما لا يتابعه عليه أحد.
’’یہ اپنے باپ اور دادے کے واسطے سے صحابہ کرام سے منسوب منکر روایات بیان کرتا ہے۔ ان روایات پر کوئی ثقہ راوی اس کی موافقت نہیں کرتا۔“ 
(الكامل في ضعفاء الرجال:529/6) 
 
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
كان ممن يضع الحديث، لا يحل كتابة حديثه إلا علی جھة الاعتبار.
’’ یہ ان لوگوں میں سے تھا جو جعلی احادیث گھڑتے تھے۔ اس کی حدیث کو صرف جانچ پرکھ کے طور پر لکھنا جائز ہے۔“
(كتاب المجروحين :133/2) 
 
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ’’اس نے اپنے باپ سے جھوٹی روایات بیان کی ہیں۔“ (المدخل إلي كتاب الإكليل:129) 
 
علامہ ابن عراق کنانی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے بارے میں فرماتے ہیں : 
رواه أبو الشيخ في الثواب من حديث أبي بكر الصديق، من طريق عبدالملك بن ھارون الدجال.
’’اس روایت کو ابوالشیخ نے کتاب الثواب میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے۔ اس کی سند دجال (سخت جھوٹے) راوی عبدالملک بن ہارون نے بیان کی ہے۔“ 
(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة:322/2) 
 
اس روایت کے بارے میں حافظ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں : 
عبدالملك دجال، مع ما في السند من الإعضال.
’’عبدالملک سخت جھوٹا راوی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سند سخت منقطع بھی ہے۔“ 
(اللآلی المصنوعة فی الأحاديث الموضوعة:299/2) 
 
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
وھو منقطع بين ھارون وأبي بكر.
”اس روایت کی سند میں ہارون اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔“ 
(المغني عن حمل الأسفار في تخريج ما في الإحياء من الأخبار:374/1)

دلیل نمبر ۲۵
 
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : 
من سره أن يوعيه الله عزوجل حفظ القرآن وحفظ أصناف العلم، فليكتب هذا الدعاء في إناء نظيف، أو في صحفة قوارير بعسل وزعفران وماء مطر، ويشربه على الريق، وليصم ثلاثة أيام، وليكن إفطاره عليه، فإنه يحفظھا إن شاء الله عزوجل، ويدعو به في أدبار صلواته: اللهم ! إني أسألك بأنك مسئول لم يسأل مثلك ولا يسأل، أسألك بحق محمد رسولك ونبيك، وإبراهيم خليلك و صفيك، وموسى كليمك ونجيك، وعيسى كلمتك وروحك، وأسألك بصحف ابراھيم، وتوراة موسط، وزبور داود، وإنجيل عيسى، وفرقان محمد صلى الله عليه وسلم، وأسألك بكل وحي أو حيته، وبكل حق قضيته، وبكل سائل أعطيته.
’’جو شخص قرآن کریم اور علوم دینیہ کو یاد کرنا چاہے، وہ درجِ ذیل دعا کو ایک صاف برتن یا چاندی کی پلیٹ میں شہد، زعفران اور بارش کے پانی سے لکھے۔ پھر تین دن اسے نہار منہ پیے۔ وہ فرض نمازوں کے بعد بھی اس دعا کو پڑھے۔ ان شاء اللہ ! اسے سب کچھ یاد رہے گا۔ دعا یہ ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے اس لیے سوال کرتا ہوں کہ تیری جیسی کوئی ذات نہیں جس سے مانگا گیا ہو یا مانگا جائے گا۔ میں تجھ سے تیرے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے، تیرے خلیل اور دوست ابراہیم علیہ السلام کے واسطے، تیرے کلیم موسیٰ کے طفیل، تیرے کلمے اور روح عیسی کے وسیلے ٰ سے سوال کرتا ہوں، نیز میں ابراہیم کے صحیفوں، موسی کی تورات، داؤد کی زبور، عیسیٰ کی انجیل، محمد کے قرآن، تیری ہر وحی، تیری تمام قضاء و قدر اور ہر اس سائل کے وسیلے سے مانگتا ہوں جسے تو نے عطا کیا ہے۔۔۔“ 
(الدعاء للطبراني:14223/3،ح:1334)

تبصرہ: یہ انتہائی جھوٹی روایت ہے۔ 
اس کو گھڑنے والا موسیٰ بن عبدالرحمٰن صنعانی راوی ہے۔ اس کے بارے میں : 
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
دجال يضع الحديث، وضع علي ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس كتابا في التفسير.
’’یہ سخت جھوٹا اور مکار انسان ہے۔ احادیث اپنی طرف سے گھڑنا اس کا مشغلہ تھا۔ اس نے 
عطاء عن ابن عباس کی سند سے تفسیر کی ایک کتاب خود گھڑ کر امام ابن جریج سے منسوب کی ہوئی تھی۔“ (كتاب المجروحين:242/2) 
 
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’منکر الحدیث“ راوی ہے۔ (الكامل:349/6) 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ھالك. ”یہ سخت ضعیف راوی ہے۔“ (المغني في الضعفاء:6507) 

تنبیہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...