Sunday 15 January 2017

خواتین کی مغرب سازی


خواتین کی مغرب سازی

خواتین کی مغرب سازی

بسم اللہ والحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ … وبعد:

مقدمہ

مردوں اور عورتوں کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم اور مساوات کا چرچا نیز معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں خواتین کے کردار پر ایک نہ ختم ہونے والا مباحثہ ہم سب اکثر و بیشتر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں علاوہ ازیں مرد و عورت کے سلسلہ میں ان دونوں گروہوں کی بحث وتکرار کی بازگشت وقتاً فوقتاً گونجتی رہتی ہے جن میں سے ایک کا خیال ہے کہ مرد وعورت دراصل ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں جبکہ دوسرا گروہ مرد کی عورت پر مطلق برتری کا قائل ہے، اپنی بات کی حمایت و تقویت کے لئے دونوں فریق اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں۔
اگر یورپ پر نگاہ ڈالی جائے جو کہ انسانی حقوق کے نام پر بآوازِ بلند یہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ ہم ہی تو ہیں جنہوں نے عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلا کر اس کے ساتھ حد درجہ انصاف کیا ہے، تو معلوم ہوگا کہ دراصل یہی ہیں جنہوں نے ملازمت اور کام کاج کی آڑ میں عورت پر بے انتہاء ظلم ڈھائے ہوئے ہیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ یہ لوگ عورت کو مرد کے برابر اجرت نہیں دیتے ہیں بلکہ طوعاً وکرھاً مختلف طریقوں سے اس کی مجبوری و کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اسے کھلونا بنائے رکھتے ہیں چنانچہ یہی لوگ ہیں جو اپنی مصنوعات کے فروغ کے لئے عورت کو بطور اشتہار استعمال کرتے ہیں اور یہی تو ہیں جنہوں نے اپنی وحشیانہ ہوس پوری کرنے کے لئے اِسے مورتی بنایا ہوا ہے تاکہ آزادی کے نام پر اس کی رہی سہی عزت بھی لوٹ لی جائے۔
ہم یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اسلام مرد و عورت کے مراتب کا تعین کرتا ہے تو دونوں کو باہمی اعتبار سے ایک اکائی کی تکمیل قرار دیتا ہے گویا کہ اکائی کے دونوں حصے اپنا اپنا مقررہ کردار نبھا کر مکمل خاکہ تشکیل دیتے ہیں اور اگر کوئی کسی ایک کے کردار کو تبدیل یا مسخ کر دے یا آپس میں ادل بدل کر لے تو معاملات کسی طور پر بھی درست نہیں رہتے۔
میری اسلامی بہنو! اس کتاب کے مطالعہ سے آپ بالضرور یہ جان لیں گی کہ اسلام نے حقیقتاً عورت کو کس قدر بلند مقام عطا کیا ہے جبکہ ا ہلِ یورپ کا دعویٔ آزادیٔ نسواں اور مساوات محض پُر فریب پروپگنڈے کے سوا کچھ نہیں بلکہ یہ لوگ دراصل اُس کی نسوانیت سے کھیلنا اور اس کی شناخت کو یکسر مٹانا چاہتے ہیں۔
اس تحریری کاوش میں اگر مجھ سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو میں پہلے اللہ تعالیٰ اور پھر آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
مؤلف   خالد الجریسی

تمہید

خواتین کی مغرب سازی:

یہاں مغرب سازی سے مراد ’’اسلامی معاشرہ میں مغربی وضع وقطع اور رہن سہن کو رواج دینا ہے‘‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلم خواتین کے اسلامی تشخص کو مغربی انداز و اطوار میں کچھ اس طرح خلط ملط کر دیا جائے کہ عورت ہر بات کو مغربی نقطئہ نظر سے دیکھے صرف مغربی اندازِ فکر و نظر کو اپنائے اور یوں وہ اسلامی سیرت وصورت اخلاقی قدروں سے دور ہوتی چلی جائے۔ محترم محمد محمد حسین صاحب نے بجا فرمایا ہے کہ ’’ مغربی کردار سازی کی تحریکوں کا مقصد ایک تیر سے دو شکار کرنا ہے ایک جانب وہ اسلام اور مغرب کے درمیان بنیادی شناخت کو مٹانا چاہتی ہیں تاکہ مغربی تسلط بآسانی اپنے پنجے گاڑ سکے تو دوسری جانب خود مسلمانوں کے اس باہمی اخوت کے رشتہ کو کمزور کرنا ہے جس کی بناء پر وہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہیں‘‘۔ (أزمۃ العصر، تألیف: محمد محمد حسین، ص: 501 )

زمانۂ جاہلیت میں خواتین کا مقام

o        عربوں کا دورِ جاہلیت اور خواتین
o        دیگر جاہلی سماج اور خواتین
o        یونانیوں کے نزدیک عورت کا مقام
o        رومانیوں کے نزدیک عورت کا مقام
o        فارسیوں کے نزدیک عورت کا مقام
o        یہودیوں کے نزدیک عورت کا مقام
o        نصرانیوں کے نزدیک عورت کا مقام
o        جدید مغربی سماج میں خواتین کا مقام

عربوں کا دورِ جاہلیت اور خواتین

اسلام سے قبل عربوں میں خواتین کا مقام دوہرے معیار کا شکار رہا، بعض کے نزدیک وہ اس قدر باعزت تھی کہ اگر کسی کو پناہ دے تو اس کا بھرم رکھا جاتا تھا اور اگر کوئی اس کے ساتھ زیادتی کر بیٹھے تو جنگیں چھڑ جایا کرتی تھیں۔ بعض عرب خواتین اپنی دانائی و دور اندیشی اور فصاحت و بلاغت میں کافی مشہور تھیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بعض حکومت و سلطنت کی مالک بھی تھیں مثلاً یمن اور تدمر میں ۔  جبکہ بعض قبائل کے نزدیک وہ اس قدر بے قیمت و کم حیثیت تھیں کہ وہ ان پر بے انتہا ظلم ڈھاتے حتیٰ کہ اُنہیں زندہ دفن کر دیا کرتے، اللہ عز و جل نے عورت کے بارے میں اُن کی ذہنیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: {وَإِذَا بُشِّرَ أحَدُہُمْ بِالأُنْثَیٰ ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَداً وَہُوَ کَظِیْمٌo یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَا بُشِّرَ بِہِ أ یُمْسِکُہُ عَلَیٰ ہُوْنٍ أمْ یَدُسُّہُ فِيْ التُّرَابِ ألَا سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَo} سورۃ النحل، آیات: 59 - 58
یعنی: جب ان میں سے کسی کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارے یہاں لڑکی ہوئی ہے تو اس کا چہرہ بجھا بجھا رہتا ہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہتا ہے، اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے، (اور مارے پیچ و تاب کے  یہ سوچتا ہے کہ) اسے ذلیل کرکے رکھے (مثلاً اس کا کوئی خیال نہ رکھے، اسے وراثت سے محروم کرے اور لڑکوں کو اس پر فوقیت دے) یا اسے (زندہ) دفن ہی کر دے، افسوس کس قدر برا کرتے ہیں!
بعض عربوں میں یہی رواج تھا اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں خواتین کا مقام کسی حد تک گرا ہوا تھا، جنابِ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں بتایا کہ ’’واللہ، زمانۂ جاہلیت میں ہم خواتین کو کچھ بھی نہ گردانتے تھے جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جو حقوق مقرر کرنے تھے کر دیئے اور جو (ورثہ وغیرہ) انہیں دینا تھا دے دیا‘‘۔ (بخاری)

دیگر جاہلی سماج اور خواتین

دیگر جاہلی سماجوں میں خواتین کی حالت اپنی عرب بہنوں سے بہتر نہ تھی بلکہ اُن سے بھی بُری، گری پڑی اور ذلیل و خوار تھی، ہم آپ کو اُن کی چیدہ چیدہ باتیں بتاتے ہیں:

یونانیوں کے نزدیک عورت کا مقام

ایک یونانی خطیب اپنے معاشرہ میں عورت کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہتا ہے ’’ہم رنڈیوں کو لطف اندوزی کے لئے بلواتے، داشتاؤں کو عموماً جسمانی تازگی کے لئے رکھتے اور بیویوں کو قانونی اولاد کے لئے اپناتے تھے‘‘ (الإسلام وقضایا المرأۃ المعاصرۃ، ، تألیف: البہی الخولي، ص۔ 12)
یونانی فلسفی افلاطون (347؁  تا  427؁  قبل مسیح) کے حوالہ سے کہا جاتا ہے کہ اس نے تحریک چلائی کہ ’’عورت مشترکہ ملکیت ہو اور عائلی نظام ختم کیا جائے‘‘(المرأۃ المصریۃ بین الماضی والحاضر، تألیف: أحمد طٰہ محمد، ص۔ 21)۔
معلوم یہ ہوا کہ ’’عورت ان کے نزدیک محض دل کو بہلانے اور نسل کو بڑھانے کا ذریعہ تھی اُس کی عزت و تکریم کا کوئی لحاظ نہ تھا، ترقی یافتہ یونانی تہذیب نے بھی عورت کا وہی مقام رکھا جو اُس زمانہ کے فرسودہ علاقوں میں رائج تھا اسی لئے افلاطون کے عالمانہ ماحول میں بھی عورت ایک عام کھلونا ہی تھی اور اس کا کام وہی تھا جو مادہ حیوانات کا ہوتا ہے‘‘۔(المرأۃ في القرآن، تألیف: عباس محمود العقاد، ص۔ 109 -107)

رومانیوں کے نزدیک عورت کا مقام

رومانی عورت کی حیثیت بھی شوہر کے گھر میں تعبیدار خادمہ سے زیادہ نہ تھی حتیٰ کہ وہ اپنی کسی چیز پر بھی اپنی مرضی نہیں چلا سکتی کیونکہ وہ بذات خود اور اُس کی ہر چیز اس کے سرپرست ، والد ہو یا شوہر، کی ملکیت مانی جاتی تھی۔ قدیم رومانی عہد میں عورت قانونی طور پر تجارتی معاملات طے کرنے، وصیت کرنے اور گواہی دینے کی اہل نہیں تھی (المرأۃ في القرآن، تألیف: عباس محمود العقاد، ص۔ 20)، حتیٰ کہ ’’نکاح نامہ میں شوہر کو اپنا آقا ماننے کا اقرار کرتی تھی‘‘ ۔(المرأۃ بین الفقہ والقانون، تألیف: مصطفی السباعي، ص۔ 16)

فارسیوں کے نزدیک عورت کا مقام

قدیم فارسیوں میں جنسی اشتراک اس حد تک رواج پا چکا تھا کہ حسب نسب کی کوئی پہچان نہ تھی کیونکہ ’’مرد کے لئے اپنی بیٹی، بہن اور ماں سے شادی کرنا جائز تھا اسی طرح دو سگی بہنوں کو بھی بیک وقت نکاح میں رکھا جاتا تھا‘‘ (الأسرۃ والمجتمع، تألیف: علي عبد الواحد وافي، ص۔ 165)، اسی طرح مزدک کے عہد میںعورت  مال ومتاع کی طرح تصور کی جاتی تھی یہانتک کہ کوئی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی اولاد کون ہے اور نہ ہی کوئی بچہ اپنے باپ کو جانتا تھا‘‘ ۔(الکامل في التاریخ، تألیف: ابن الأثیر، ص۔ 241)

یہودیوں کے نزدیک عورت کا مقام

یہودیوں نے تو عورت کو ذلیل و رسوا کرنے کی حد کر دی ، ’’عورت کو لونڈی بنا کر اُس کی خرید وفروخت کیا کرتے اور باپ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنی اولاد کو مقررہ مدت کے لئے کرایہ پر دیدے اور اپنی چھوٹی بچیوں کو بیچ دے اور انہیں مار ڈالے‘‘ (حضارۃ العرب، تألیف: غستاف لوبون، ترجمہ: عادل زعیتر، ص۔ 492)
یہودیوں کی تحریف شدہ تورات عورت کے بارے میں نہایت برے اور گرے ہوئے الفاظ میں تذکرہ کرتی ہے ’’میں دل وجان سے کچھ جاننے اور پانے کے لئے نکلا تاکہ حکمت و دانائی حاصل کروں، برائی کو پہچان لوں کہ وہی جہالت ہے اور حماقت کو دیکھ لوں کہ وہی پاگل پن ہے، ناگہاں مجھے موت سے بدتر ایک ہستی ’’عورت‘‘ ملی یہی تو برائیوں کا گڑھ ہے، اس کا دل ایک جال ہے اور اس کے ہاتھ زنجیریں!‘‘۔ (معضلات ومشکلات تواجہہا المرأۃ المسلمۃ المعاصرۃ، تألیف: عبد الحلیم محمد قنبس، ص۔ 20)

نصرانیوں کے نزدیک عورت کا مقام

باوجود یکہ مسیحی تعلیمات میں عورتوں کو چند حقوق عطا کئے گئے اور بعد میں اسے انسان بھی تسلیم کر لیا گیا پھر بھی اسے مرد کے ظالمانہ شکنجے سے نہیں چھڑایا گیا، مسیحی دعوت و تبلیغ میں عورتوں کا خاصہ حصہ رہا ہے اور انہیں ’’سِسٹر‘‘ کہا جاتا ہے وہ ساری عمر بغیر شادی کئے ’’راضی خوشی‘‘ عذاب جھیلتی ہیں۔ مسیحیت میں متعدد شادیوں اور باندیوں پر پابندی ہے، طلاق کی بھی حدود وقیود ہیں لیکن مرد کے چنگل سے آزادی نہیں ہے ، حتیٰ کہ آجکل کی مذہبی روشن خیالی بھی عورت کو مرد کی زیادتیوں سے نہ بچا سکی۔ (المرأۃ بین الجاہلیۃ والإسلام، تألیف: محمد حامد الناصر، ص۔ 4)

جدید مغربی سماج میں خواتین کا مقام

اگرچہ جدید مغربی سوسائٹی کو یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ اس نے عورت کو کافی ’’آزادی اور مساوات‘‘ سے نوازا ہوا ہے جبکہ پسِ پردہ اسے ساری عزت و شرافت سے محروم کر دیا ہے اور اُسے اتنے خونخوار درندوں کے سامنے لا پٹخا ہے کہ وہ اسکی عصمت دری اور بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سبھی جانتے ہیں کہ آجکل کی مغربی عورت آوارگی، بیچارگی اور خواری کی کس حد کو پہنچ گئی ہے، مغربی خواتین میں بڑھتے ہوئے خود کشی کے واقعات ان حالات کی بخوبی غمازی کرتے ہیں اس کے علاوہ مغربی خواتین آزادی کے نام پر جس قدر حق تلفی اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتی ہیں اور مساوات کی آڑ میں کیسے زندہ درگور کی جاتی ہیں یہ سب پر واضح ہے صورتحال یہ ہے کہ مغربی مرد نے اپنی ساری ذمہ داریاں عورت کے کندھوں پر ڈال دی ہیں حتیٰ کہ میاں بیوی کھانا کھانے کے بعد اپنا اپنا بِل خود ادا کرتے ہیں جبھی آجکل بعض سمجھدار لوگ ان حالات کو قابو میں کرنے اور فوری ضرورتِ اصلاح کی آواز اٹھاتے رہتے ہیں، ایک مغربی خاتون کو یہ کہنا پڑا کہ ’’ہمارے یہاں آوارہ لڑکیاں بہت زیادہ ہو گئی ہیں اور ہر طرف فتنہ برپا ہے جبکہ کم ہی لوگ ان حالات کی وجوہات جانتے ہیں، جب میں بحیثیت ایک عورت ان لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے بیحد رنج ہوتا ہے اور میرا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، لیکن اگر میرے ساتھ مل کر سب لوگ محض آہ وفغاں کرتے رہے تو ان بیچاریوں کو کیا فائدہ ہوگا! (حقوق النساء في الإسلام ، تألیف: محمد رشید رضا، ص۔ 75 -74)
ایک دوسری انگریز صحافی خاتون Anrora کہتی ہیں کہ ’’اگر ہماری خواتین گھریلو کام کریں یا گھروں میں نوکری کریں تو یہ کارخانوں میں کام کاج کرنے سے بہتر ہے کیونکہ ایسی جگہوں کی آلودگی اُن کی ساری شادابی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیتی ہے۔ (المرأۃ المسلمۃ بین طہارۃ الشرع ودعاۃ التخلف، تألیف: نجاح أبو الحمد قاعود، ص۔ 75)۔  امریکی خواتین کو آخر کار یہ احساس ہو رہا ہے کہ وہ دراصل احمقوں کی جنت میں رہا کرتی ہیں اور بھرپور طریقہ سے دھوکہ وفریب کا شکار ہیں، اب اُن کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہے کہ دنیا میں عورت کے لئے سب سے مناسب جگہ اس کا گھر ہی ہے۔ یہ رپورٹ مشہور امریکی صحافتی ادارہ سی۔ این۔ این CNN اور یو۔ ایس۔ ٹوڈے US TODAY کے ایک مشترکہ سروے کے نتیجہ میں سامنے آئی ہے، رپورٹ کے مطابق 45% امریکی خواتین کا کہنا ہے کہ گزشتہ بیس سال سے بیرونی سرگرمیوں اور کام کاج نے ان کی زندگی کو دن بدِن مشکل اور پیچیدہ بنا دیا اور قطعاً کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا، ان کے علاوہ 45% خواتین کا خیال ہے کہ گھریلو اخراجات اور خاندان کی ضروریات پوری کرنا مرد کی ذمہ داری ہے اس کے لئے وہ محنت ومزدوری کرے جبکہ عورت کو چاہئے کہ وہ گھر میں رہے اور اپنا پورا وقت اور کوشش خاندان کی نگہداشت پر لگائے۔ (أسالیب العلمانیین في تغریب المرأۃ المسلمۃ، تألیف: بشر البشر، ص۔ 74 - 73)
آپ نے دیکھا کہ مغربی خواتین اپنی آزادی (دراصل غلامی) کی زندگی سے کتنی بیزار ہو چکی ہیں اور اب ان میں یہ طرزِ زندگی برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی اسی لئے انہوں نے اس کے خلاف احتجاج کرکے اپنی بہنوں کو خبردار کرنا شروع کر دیا ہے اس کے باوجود عالمِ اسلام میں خواتین کی آزادی اور مساوات کے علمبردار زور دار تقریریں اور پُرزور مطالبے کرتے پھرتے ہیں کہ مسلم خواتین بھی زندگی کے ہر شعبہ میں مغربی خواتین کے شانہ بشانہ چلیں۔ یہ مغربی ایجنٹ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ مسلم خواتین کو اسلام کی روشنی سے نکال باہر کریں کہ جس نے اُن کے پورے وجود کو لطف وکرم اور محبت و عنایت سے ڈھانپا ہوا ہے، اور مرد کو ذمہ دار قرار دیا ہے کہ ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک عورت کی عزت وآبرو اور سکون و اطمئنان کا خیال رکھے۔ ان دونوں طرح کی خواتین کی حالتوں میں کتنا فرق ہے!! یعنی وہ جو اسلام کے سائے میں ہیں اور وہ جن کا روپ دھارنے پر یہ لوگ اکساتے ہیں، فرمانِ الٰہی ہے: {اللّہُ وَلِيُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ إلَیٰ النُّوْرِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا أوْلِیَاؤُہُمْ الطٰغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِنَ النُّوْرِ إلَیٰ الظُّلُمٰتِ أوْلٰئِکَ أصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ} سورۃ البقرۃ، آیت: 257
یعنی: اللہ تو اہلِ ایمان کا ساتھی ہے (اسی لئے) انہیں اندھیروں سے روشنی میں لے آتا ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے ساتھی تو طاغوت ہیں وہ انہیں روشنی سے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں وہی اہلِ جہنم ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
نیز فرمایا: {أفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِيْ الأرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَعْقِلُوْنَ بِہَا أوْ آذَانٌ یَسْمَعُوْنَ بِہَا فَإنَّہَا لاَ تَعْمَیٰ الأبْصٰرُ وَلٰکِنْ تَعْمَیٰ القُلُوْبُ الَّتِيْ فِيْ الصُّدُوْرِ} سورۃ الحج، آیت: 46
یعنی: وہ سرزمین پر گھوم پھر کر کیوں نہیں دیکھتے تاکہ (گزشتہ قوموں کی درگت دیکھ کر) ان کے دلوں کو یقین آ جائے، اور ان کے کان کھل جائیں، دراصل آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں جو دل ہوتے ہیں وہ مردہ ہو جاتے ہیں۔

اسلام میں خواتین کا مقام

اسلام میں خواتین کے حقوق
§         حقِّ مہر
§         حقِّ نان و نفقہ
§         حقِّ ملکیت
§         حقِّ اظہارِ رائے
§         حقِّ حسنِ سلوک
اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواتین پر واجب الأداء حقوق

اسلام میں خواتین کے حقوق

اسلام نے خواتین کو عزت بخشی اور اُن کا مرتبہ بلند کیا ہے۔ اس کی تائید شرعی تعلیمات میں کئی بار کی گئی ہے، فرمانِ نبوی   علیہ الصلاۃ  السلام    ہے: عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو (بخاری)، نیز فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلا سلوک کرے اور سب سے زیادہ میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھتا ہوں۔ (ابنِ ماجہ) چنانچہ اسلامی معاشرہ میں عورت کو وہ اعلیٰ مقام حاصل ہوا جو نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ اب تک کسی معاشرہ میں حاصل ہو سکا ہے۔  اسلام نے خواتین کے ایسے حقوق مقرر کر دیئے ہیں جو ان کی باعزت اور مطمئن زندگی کی ضمانت ہیں نیز انہیں مسلم خاندان کا اہم و متحرک رکن بنا دیا ہے جو بالآخر ایک اسلامی معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ اب ہم خواتین کے چند بنیادی حقوق کا ذکر کرتے ہیں:

حقِّ مہر

یہ خواتین کا وہ حق ہے جسکی ادائیگی اللہ تعالی نے مردوں پر فرض کی ہے، ارشاد ربّانی ہے:
{وآتُوْا النساء صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْساً فَکُلُوْہُ ہَنِیْئاً مَرِیْئاً} سورۃ النساء، آیت: 4
یعنی: بیویوں کو ان کا مہر خوش دلی سے ادا کرو البتہ اگر وہ از خود راضی خوشی تمہیں اس میں سے کچھ دے دیں تو شوق سے لے لو۔
مہر عورت کا ذاتی حق ہے وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے، کسی کو اختیار نہیں کہ اِس میں سے کچھ لے إلا یہ کہ وہ راضی خوشی کسی کو خود دیدے، اللہ تعالیٰ نے تأکید فرما دی: {وَإِنْ أرَدْتُّمُ اْسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنْطَاراً فَلاَ تَاْخُذُوْا مِنْہُ شَیْئاً أتَاْخُذُوْنَہُ بُہْتٰناً وَّإثْماً مُبِیْناً} سورۃ النساء، آیت: 20
یعنی: اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی اپنانا چاہو جبکہ پہلی کو تم بہت کچھ دے چکے ہو تب بھی اس میں سے ذرا سی چیز بھی واپس نہ لو، کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے ، تم اسے کیسے لے لو گے! حالانکہ تم ایک دوسرے سے صحبت کرچکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے پکا عہد وپیمان لے رکھا ہے۔

حقِّ نان و نفقہ

عورت کی عزت ومنزلت ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اسلام نے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ دار، اگر وہ غیرشادی شدہ یا بیوہ ہو تو اس کے باپ یا  سرپرست کو بنایا ہے اور اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کے شوہر کو ذمہ دار قرار دیا ہے ۔ اس اقدام کا مقصد خاتونِ خانہ کی عصمت کی حفاظت اور سماجی اقدار کی سلامتی ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {ألَمْ تَرَ إلَیٰ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْباً مِّنَ الْکِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ} سورۃ النساء، آیت: 44
یعنی: ذرا ان لوگوں کو تو دیکھیں جنہیں کچھ شرعی علم عطا کر دیاگیا (مگر پھر بھی) وہ گمراہی مول لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ (حق) سے بھٹک جاؤ۔
نیز فرمایا: {لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِنْ سَعَتِہِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنْفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللّٰہُ ، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلَّا مَا آتَاہَا، سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْراً} سورۃ الطلاق، آیت: 7
یعنی: مال دار کو چاہئے کہ اپنے مال میں سے دیا کرے اور کسی کو تنگیٔ رزق ہو تو بھی جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے دیا کرے، اللہ تعالٰی کسی کو اتنا ہی پابند کرتا ہے جتنا اسے دیا ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا۔
نان نفقہ کے ضمن میں مناسب رہائش کی فراہمی بھی شامل ہے، اسی لئے حکم ہوا: {اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سِکَنْتُمْ مِنْ وُجْدِکُمْ وَلَا تُضَارُّوْہُنَّ لِتُضِیْقُوْا عَلَیْہِنَّ ، وَإِنْ کُنَّ اُولٰتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتَیٰ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ فَإِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فِآتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ وَإِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہُ اُخْرَیٰ}سورۃ الطلاق، آیت: 6
یعنی: جہاں تک ہو سکے (اپنی طلاق یافتہ) بیویوں کو (عدت پوری ہونے تک)  وہیں رہائش دو جہاں تم خود رہتے ہو اور ان پر تنگی کر کے انہیں پریشان نہ کرو اور اگر وہ حمل سے ہوں تو اس وقت تک ان کا خرچہ اٹھاؤ جب تک وہ جَن نہ دیں اور اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائیں تو انہیں اس کا صلہ بھی دو اور آپس کے معاملات خوش اسلوبی سے طے کرو اور اگر تمہاری آپس میں نہ بنے تو (باپ) بچے کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوائے۔
سنن أبو داود میں نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام    سے اس حکم کی تشریح یوں مروی ہے: حکیم بن معاویہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   سے دریافت کیا کہ بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟ فرمایا: جیسا خود کھاؤ اسے بھی کھلاؤ، جس معیار کا کپڑا خود پہنو اُسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو اور نہ ہی بُرا بھلا کہو اور اگر بول چال بند کرو تب بھی گھر میں ہی رکھو۔
معلوم ہوا کہ شوہر کو بیوی کے ساتھ معاملات کی بنیاد اپنائیت پر رکھنی چاہئے تاکہ وہ اس کی روحانی و نفسیاتی سکون کا باعث ہو یوں بھی ان کا باہمی رشتہ محبت و شفقت  پر ہی قائم رہ سکتا ہے اور یہ رشتہ اس قانونی بندھن سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے جو شوہر کو محض بیوی کی مالی یا مادی ضروریات کو پورا کرنے کا پابند کرتا ہے اور جب کوئی شوہر اپنی شریکِ حیات کو اس دلکش پیرائے میں اپناتا ہے تو ازدواجی زندگی کے راستہ میں حائل ساری رکاوٹیں اور کانٹے دور ہوتے چلے جاتے ہیں بصورتِ دیگر نتیجہ طلاق یا قطع تعلق کی شکل میں سامنے آتاہے جوکہ دونوں میاں بیوی کی زندگی میں زہر گھول دیتا ہے۔(أخلاقنا الاجتماعیۃ، ص 148، تألیف: مصطفی السباعي)

حقِ ملکیت

اسلام نے خواتین کو میراث میں حصہ دیا جبکہ اس سے پہلے اُسے محروم رکھا جاتا تھا، فرمانِ ربِّ کریم ہے: {لِلْرِّجَالِ نَصِیْبٌ مَمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالاَقْرَبُوْنَ وَلِلْنِّسَائِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوْضاً} سورۃ النساء، آیت: 7
یعنی: (جس طرح) والدین اور رشتہ داروں کے ورثہ میں سے مردوں کا حصہ ہے (اسی طرح) والدین اور رشتہ داروں کے ورثہ میں عورتوں کا (بھی) حصہ ہے، ایک مقرر کردہ حصہ جو تھوڑا ہو یا زیادہ۔
علاوہ ازیں اسلام نے خواتین کو اپنی زیرِ ملکیت اشیاء میں ہر طرح مکمل تصرّف کا اختیار دیا ہے یعنی وہ خرید وفرخت کرے یا کرایہ پر لین دین کرے یا تحفہ دے، وصیت کرے، وقف کرے، صدقہ کردے، ادھار دے، رہن رکھوائے، ضمانت دے یا اپنے مال سے سرمایہ کاری کرے وغیرہ وغیرہ (عمل المرأۃ وموقف الإسلام منہ، تألیف: عبد الرب آل نواب، ص۔ 135)۔ غرضیکہ اسلام کی رو سے خواتین اپنے مالی معاملات و معاہدے خود کر سکتی ہیں وہ ہر قسم کی جائیداد اور مال واسباب کی مالک ہو سکتی ہیں وہ ہر قسم کی جائز تجارت اور روزی کمانے کے طریقے بھی اپنا سکتی ہیں انہیں اختیار ہے کہ جس کی چاہیں ضمانت دیں اور وارثوں کے علاوہ جس کے لئے چاہیں وصیت کریں اور ضرورت پڑنے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں یہ سارے کام وہ اپنے شوہر یا سرپرست کی نگرانی کے بغیر بھی کر سکتی ہیں۔

حقِّ اظہارِ رائے

دینِ اسلام عورت کو مرد کا ساتھی تصور کرتا ہے جنابِ محمد   علیہ الصلاۃ  السلام   نبیٔ مرسل ہوتے ہوئے بھی اپنی بعض ازواجِ مطہرات سے مشورہ اور انکی رائے معلوم کیا کرتے تھے، غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر أمِّ سلمہ  رضی اللہ عنہا کے حوالے سے مشہور ومعروف قصہ ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   معاہدۂ حدیبیہ طے کر کے فارغ ہوئے تو صحابہ سے فرمایا: چلو اب قربانی کرو اور سر منڈواؤ، مگر کسی نے بھی کچھ نہ کیا حالانکہ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   نے یہ بات تین بار دہرائی، جب کوئی بھی تیار نہ ہوا تو نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام    أمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور لوگوں کے بارے میں بتایا،  أمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: یا رسول اللہ   علیہ الصلاۃ  السلام   آپ خود بھی ایسا ہی کرنا چاہیں گے؟ یوں کیجئے باہر جائیے اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی قربانی کیجئے اور نائی کو بلواکر سر منڈوائیے ۔ چنانچہ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   باہر تشریف لائے اور کسی سے کچھ کہے بِنا اپنی قربانی کی اور نائی کو بلوا کر سر منڈوایا تو لوگوں نے بھی اُن کے دیکھا دیکھی نہایت گرم جوشی سے قربانیاں کرنا شروع کر دیں اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ (بخاری)
اور سنئے! یہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا ہیں جو نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کی خدمت میں خواتین کی نمائندہ کی حیثیت سے حاضر ہوکر  اُن کی طرف سے مدّعا بیان کرتی ہیں۔ نیز جب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مہر کی حد مقرر کرنا چاہی تو ایک خاتون نے ان سے برملا کہا کہ اے امیر المؤمنین ! یہ کرنا آپ کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے فرمایا: خاتون نے صحیح کہا عمر سے لغزش ہوگئی۔ (ابنِ کثیر)

حقِّ حسنِ سلوک

خواتین کی عزت ومرتبت ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اسلام نے انہیں بحیثیت ماں وہ اعلیٰ مقام عطا کیا ہے جو انہیںکہیں اور حاصل نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر اپنی عبادت کے ساتھ ہی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، جیسا کہ فرمایا: {وَقَضَیٰ رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً} سورۃ الإسرائ، آیت: 23
یعنی: آپ کے رب نے یہ طے کر دیا ہے کہ تم سب صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین سے حسنِ سلوک کرو۔
نیز یہ کہ ان پر شفقت و رحمت کی تأکید کی ہے: {إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَا اَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماً} سورۃ الإسرائ، آیت: 23
یعنی: جب ان (والدین) میں سے کوئی ایک یا دونوں عمر رسیدہ ہو جائیں تو ان کی کسی بات پر پریشانی کا اظہار بھی نہ کرو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو۔
اسلام ہی ہے جس نے ان کے لئے سب سے بہتر سلوک اور دیکھ بھال فرض کی ہے، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ وہ کون ہے جو میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں! پوچھا: اُن کے بعد؟ فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں!، پھر پوچھا: اُن کے بعد؟ فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں! پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تمہارا باپ! (بخاری)
اور یہ اسلام ہی ہے جس نے ماں کے ساتھ بھلائی اور قرابت داری نبھانے کا حکم دیا اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اس سلسلہ میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ ایک بار، جبکہ قریش نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کے ساتھ مدّتِ معاہدہ میں تھے، میری مشرکہ ماں اپنے باپ کے ساتھ مجھ سے ملنے آئی، میں نے رسول اللہ   علیہ الصلاۃ  السلام   سے مسئلہ پوچھا کہ میری ماں مجھ سے ملنا چاہتی ہے کیا میں اس کے ساتھ قرابت داری نبھاؤں؟ فرمایا: ضرور! (بخاری)
خواتین پر اسلام کی نوازشوں کا یہ ایک دل آویز انداز ہے کہ ماں اگرچہ کافر ہی ہو تب بھی اس کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے، یہ تو سمندر میں سے ایک قطرہ سمجھیں کیونکہ اسلام نے خواتین کو جس قدر حقوق عنایت کئے ہیں اور جنہیں مغربی دنیا کسبِ معاش، شراکت داری اور مساوات کے نام پر چھیننے کے درپے ہے، وہ بہت زیادہ ہیں۔ في الحال یہاں ان حقوق کو گِنوانا مقصد نہیں بلکہ غور و فکر کے لئے اشارہ کرنا ہی کافی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواتین پر واجب الأداء حقوق

جہاں اسلام نے خواتین کو بہت سے حقوق عنایت کئے ہیں وہاں ان پر کچھ فرائض بھی عائد کئے ہیں۔ یہ عورت ہی ہے جس کے کندھوں پر خاندان سنوارنے کی بھاری ذمہ داری ہے کیونکہ وہی خاندان کی بقاء کا بنیادی ستون ہے اسی لئے اسلام نے ان کو ایسا اعلیٰ  مرتبہ دیا ہے کہ دوسرے مذاہب میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
اُن اہم فرائض میں سے ماں کا کردار ہے چنانچہ خاتون اپنے بچے کی مکمل پرورش، نگہداشت اور رضاعت کی ذمہ دار ہے، یہ حکمِ الٰہی ہے: {وَلْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ} سورۃ البقرۃ، آیت: 233
یعنی: جو چاہتا ہے کہ رضاعت پوری کرے تو مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔
اُن فرائض میں سے ایک بیوی کا کردار بھی ہے چنانچہ شوہر کے حقوق کی پاسداری کرنا اس کا اہم فریضہ ہے،شوہر کا سب سے اہم حق ان کاموں میں شوہر کی تعبیداری ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو،  اور پھر حسنِ رفاقت ہے، نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   نے ان حقوق میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: خشیتِ الٰہی کے بعد جو سب سے بہتر نعمت کسی مؤمن کو نصیب ہوتی ہے وہ ایسی نیک بیوی ہے کہ وہ شوہرکا کہا مانے، اور اسے دیکھ کر شوہر باغ باغ ہو جائے، اور اگر شوہر اسے قسم دے تو وہ اسے پورا کرے، اور جب شوہر غیر حاضر ہو تو وہ اپنی عزت اور اس کے مال کی حفاظت کرے۔ (ابن ماجہ، صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ للألباني) ، اس کے علاوہ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کے فرمان کی رو سے  وہ ایک اعتبار سے اپنے شوہر کی ذمہ دار بھی ہے: خبردار تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے او ر ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت بھی اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد پر نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری)
دیکھئے یہ اللہ کے نبی علیہ الصلاۃ والسلام ہیں جو حجۃ الوداع کے موقع پر، دنیا کی بلند مرتبہ اور مقدس سر زمین پر بیت اللہ کے حجاجِ کرام کو گواہ بناتے ہوئے عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کرتے ہیں اسی طرح عورت کے ذمہ بھی شوہر کے حقوق متعین کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مرد و عورت کے درمیان تعلق کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’خوب اچھی طرح سن لو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، یہ لوگ تو بس تمہارے زیرِ اثر ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں خبردار! عورتوں پر تمہارا کچھ حق ہے تو تم پر بھی عورتوں کا حق ہے، تمہارا حق اُن پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ناپسندیدہ شخص کو نہ لیٹنے دیں (یعنی اپنی عزت کی حفاظت کریں اور نہ کسی ایسے شخص کو گھر میں آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو (یعنی تمہارے مال و جائیداد کی حفاظت کریں)، اور سنو! تمہارے ذمّہ ان کا حق یہ ہے کہ ان کے لئے خوراک اور لباس کا بہترین بندوبست کرو‘‘۔ (ترمذی)
تو جب اسلام یہ تعلق قائم کر رہا ہے تو وہ ان وجوہات، اسباب اور ذرائع سے بھی غافل نہیں ہے جو اس تعلق کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہیں، چنانچہ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   عورتوں کی اُس نمائندہ خاتون کو تأکید کرتے ہیں کہ اپنی ساتھی خواتین کو یہ خوشخبری دیں کہ جو خاتون اپنے شوہر کی خدمت کرکے اسے راضی رکھے تو اُس کے لئے ان تمام نیک کاموں کا اجر وثواب بھی ہے جو اس کا شوہر کرتا ہے لیکن عام طور پر خواتین وہ نیکیاں نہیں کر سکتیں۔ یہاں خواتین کو اپنے شوہروں کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے کا شوق دلایا جا رہا ہے تو دوسری جانب نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   شوہروں کو بھی اپنی بیگمات کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:’’ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا رہے، اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں‘‘ (ابن ماجہ)۔ اسی طرح نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   نے شوہر کو یہ بشارت بھی دی کہ جو کچھ وہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرے گا اس پر اسے ثواب ملے گا، اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا: ’’جب بھی تم اللہ کی رضا کے لئے کچھ خرچ کرو گے تو تمہارے درجات بلند ہوں گے حتیٰ کہ اپنی بیوی کے منہ میں نوالا دینے پر بھی‘‘ (بخاری)۔
کیا اب بھی خواتین کو اسلام کا عطاء کردہ یہ بلند مقام سجھائی نہیں دیتا؟
کیا اب بھی وہ نیک اہلِ ایمان خواتین کے نقشِ قدم پر چلنے کو تیار نہیں ہیں تاکہ دنیا و آخرت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں؟
امید ہے کہ اب ہر مسلم خاتون کی آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے گا تاکہ دشمنوں کا پھیلایا ہوا مکر و فریب کا جال کھلی آنکھوں سے بخوبی دیکھ سکیں اور ان کی چالبازیوں کا بھرپور جواب دیں نیز اپنے آپ کو اور اپنے معاشرہ کو مزید تباہی و بربادی سے بچائیں۔

خواتین کی محنت ومزدوری

کے سلسلہ میں اسلام کا نقطۂ نظر

عورت اور مرد میں بنیادی فرق
·    جسمانی فرق
·    ذہنی فرق
·    نفسیاتی فرق
·    مسلم خواتین کے لئے کام کاج کے میدان
·    محنت ومزدوری/ ملازمت کے لئے خواتین پر
·    عائد شرائط و ضوابط
عورت اور مرد میں بنیادی فرق
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے بنیادی تخلیق کے اعتبار سے عورت و مرد کو بالکل برابرقرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْہَا فَلَمَّا تَغَشَّاہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِہِ فَلَمَّا اَثْقَلَتْ دَعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَا لَئِنْ آتَیْتَنَاصَالِحاً لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ} سورۃ الأعراف، آیت 189
یعنی: اسی (اللہ) نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے ساتھ ہنسی خوشی رہے ، پھر جب اس نے اس کے ساتھ مباشرت کی اور جب وہ ابتدائی حمل کے مراحل سے گزر کر جنم دینے والی ہوئی تو دونوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اگر بچہ صحیح سالم ہوا تو وہ بڑے شکر گزار ہوں گے۔
اور نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   نے فرمایا: ’’عورتیں مردوں کی ساجھی ہیں‘‘ (ترمذی)
بہت سی آیات و احادیث اس مفہوم میں وارد ہوئیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کئی شرعی پابندیوں، ذمّہ داریوں اور ثواب میں مرد کے برابر ہے جیسا کہ ایمان باللہ، فرائض و واجبات کی ادائیگی اور اصلاحِ معاشرہ وغیرہ ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس پر واضح دلیل ہے: {وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ ، یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ اُولٰئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ} سورۃ التوبۃ، آیت 71
یعنی: مؤمنین اور مؤمنات ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں، نیز اللہ اور اسکے رسول کی تعبیداری کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، یقینا اللہ زبردست و دانا ہے۔
نیز فرمایا: {وَعَدَ اللّٰہُ المُؤْمِنِیْنَ وَالمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَۃً فِيْ جَنَّاتِ عَدْنٍ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ أَکْبَرُ، ذٰلِکَ ہُوَ الفَوْزُ العَظِیْمُ} سورۃ التوبۃ، آیت 72
یعنی: اللہ نے مؤمنین اور مؤمنات سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے باغات میں رہیں گے جن میں نہریں بہتی ہیں اور  (اعلیٰ) جنات عدن میں بہترین رہائش اور ان سب سے بڑھ کر اللہ کی رضامندی، یہی تو وہ عظیم کامیابی ہے۔
اور فرمایا:{فَاْسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّيْ لَا أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَیٰ بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ} سورۃ آل عمران: آیت 195
یعنی: اللہ نے ان کی یہ بات مان لی کہ  مرد ہو یا عورت، میں کسی کا (نیک) عمل ضایع نہیں کرونگا، (اس معاملہ میں) تم سب برابر ہو۔
سرزمین پر کاروبارِ زندگی میں توازن اور خلافت کے نفاذ کے لئے اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کے درمیان جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے کچھ فرق اور علیحدہ خصوصیات رکھیں ہیں تاکہ دونوں میں سے ہر ایک کو اسکی طبعیت اور مزاج کے مطابق ذمّہ داریاں سونپی جا سکیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ:

جسمانی فرق

غور کریں توجسمانی اعتبار سے عورت کی ساخت اس کے فرائض کے مطابق ہے۔ قرآنِ کریم میں مرد و عورت کے درمیان اس فرق کی صراحت مریم علیہا السلام کی والدہ کی زبانی مذکور ہے، ارشاد ربانی ہے {فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّيْ وَضَعْتُہَا أُنْثَیٰ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْأُنْثَیٰ} سورۃ آل عمران: آیت 36
یعنی: جب انہوں نے اسے جنم دے دیا تو عرض کی کہ اے میرے رب میں نے ایک لڑکی کو جنم دیا ہے اور اللہ تو خوب جانتا ہے کہ جسے انہوں نے جنم دیا اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔
ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ نے {وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَاْلأُنْثَیٰ} (مرد عورتوں جیسے نہیں ہوا کرتے) کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:  ’’مراد یہ ہے کہ جسمانی طاقت، عبادت میں پختگی اور مسجدِ اقصیٰ کی دیکھ بھال کے لحاظ سے عورت مرد کے برابر نہیں ہو سکتی‘‘ (تفسیر ابنِ کثیر) یہ اس لئے کہ مرد عورت کی بہ نسبت زیادہ قوتِ برداشت رکھتا ہے، مرد کے رگ پٹھے عورت کے مقابلہ میںزیادہ مضبوط ہوتے ہیںکیونکہ اُسے محنت و مزدوری اور کسبِ معاش کے لئے بنایا گیا ہے جبکہ عورت کا یہ کام نہیں ہے اسی لئے اس کی جسمانی وضع قطع میں نزاکت نمایاں ہے جوکہ اس کے بنیادی کام یعنی جنم دینے اور تربیت کرنے کے اعتبار سے نہایت موزوں ہے اور یہ ایسی خصوصیت ہے کہ طاقتور سے طاقتور مرد بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا۔
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں جنسوں کو ان کی اپنی اپنی ذمّہ داریوں کے لحاظ سے مخصوص خوبیوں اور عادتوں میں جدا جدا بنایا ہے۔ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   نے فرمایا: کوشش کئے جاؤ کیونکہ ہر ایک کے لئے اپنی اپنی ذمّہ داری ادا کرنا آسان ہے۔(ترمذی)

ذہنی فرق

سائنسی تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مرد و عورت کی دماغی بناوٹ میں فرق ہے، اسلام نے چودہ سو سال پہلے اس بارے میں بتا دیا تھا، جیسا کہ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   نے فرمایا: (عورتوں!) تعجب ہے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود تم لوگ اچھے خاصے سمجھدار مرد پر حاوی رہتی ہو، پوچھا گیا یا رسول اللہ   علیہ الصلاۃ  السلام   عقل و دین میں کمی کیا ہے؟ فرمایا: عقل کی کمی یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے، یہ عقل میں کمی کی بناء پر ہے، اور (ماہواری کی وجہ سے) نمازیں اور رمضان کے روزے چھوٹ جاتے ہیں تو یہ دین میں کمی ہے (مسلم) امام نووی نے اس حدیث کی تشریح میں کہا: کم عقل یعنی پختگی میں عموماً کم ہیں (شرح مسلم) مطلب یہ کہ مہارت اور کارکردگی میں کم تر ہونا ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر عورت کی کوئی برائی یا طعنہ زنی کی گئی ہو یا اس کے حق میں جانبداری برتی گئی ہو کیونکہ اگر وہ کسی معاملہ میں کم تر ہے تو اپنے مخصوص معاملات میں برتر بھی ہے چنانچہ ایک طرف کی کمی کا ازالہ دوسری طرف سے ہو جاتا ہے اسی لئے ماہواری کے دنوں میں نماز، روزہ اور دیگر دینی اعمال میں کمی کی بناء پر اسے ہرگز برا بھلا نہیں کہا جا سکتا (المرأۃ في الإسلام، مؤلف: کمال أحمد عون، ص۔ 128) اسی طرح ان معاملات میں جن کا علم صرف عورتوں ہی کو ہوتا ہے مردوں کی گواہی نہ قبول کرنا، مرد کی حیثیت میں کمی ظاہر نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ہے: {سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِيْ الآفَاقِ وَفِيْ أَنْفُسِہِمْ حَتّیٰ یَتَبَیَّنَ لَہُمُ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَيْئٍ شَہِیْدٌ} سورۃ فصلت: آیت 53
یعنی:  ہم بالضرور انہیں زمین و آسمان میں اور خود ان کے اپنے اندر، اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر یہ واضح ہو جائے کہ دراصل وہی حق ہے ، کیا رب کی حقانیت جاننے کے لئے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز کا نگراں ہے۔

نفسیاتی فرق

عورت و مرد میں جسمانی اور ذہنی فرق کی وجہ سے اس کا اثر ان کی نفسیات وجذبات پر نمایاں طور پر نظر آتا ہے عموما خواتین شفقت ومحبت اور نرمی و جاں نثاری کے احساسات اور لوگوںکی خیر خواہی کے جذبات سے سرشار ہوتی ہیں، بحیثیت عورت وہ پیار کرنے والی بہن، شفقت کرنے والی ماں ہے، اس کی رگ وپے میں مسرت و سعادت بسی ہوئی ہے ذرا سی بات اسے دل کی گہرائیوں میں محسوس ہوتی ہے اپنائیت کا ایک لفظ اور پیار بھر ی مسکراہٹ اسے سر تا پا باغ باغ کر دیتی ہے وہ فطری طور پر اس قدر حساس ہے کہ مشکل لمحات میں اسے خود پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ہے: {أَوَ مَنْ یُنَشَّؤُا فِيْ الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِيْ الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ} سورۃ الزخرف: آیت 18
یعنی: بھلا جو زیب و زینت میں پلا بڑھا ہو اور بوقتِ اختلاف اپنی بات بھی سلیقہ سے بیان نہ کر سکتا ہو!
قرآنِ کریم کے پیرائے میں عورت کی بحیثیت شریکِ حیات جو تصویر ابھرتی ہے وہ پیار و محبت اور آرام و سکون کے رنگوں سے بھر پور نظر آتی ہے، فرمایا: {وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ} سورۃ الروم: آیت 21
یعنی: اس کی نشانیوں میں سے یہ(بھی) ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہاری ہی جنس سے بنایا ہے تاکہ تم اس کے ساتھ سکون سے رہو، اور تمہارے درمیان آپس میں محبت و شفقت رکھی، اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔
قرآن و حدیث میں خواتین کی شخصیت کے کئی پہلؤں مثلاً نفسیات، جذبات، شرم وحیائ، حیلہ بہانہ، بناؤ سنگھار کا شوق اور محبت و شفقت کے بے مثال جذبہ کا کئی اعتبار سے ذکر موجود ہے

اسلامی نقطۂ نظر سے خواتین کے لئے کام کے میدان

گھریلو کام کاج اور بچوں کی پرورش بجائے خود اتنا بڑا کام ہے کہ خواتین صرف اسی کو بہتر طریقہ پر انجام دیں تو ان کے پاس کسی اور کام کے لئے وقت ہی نہ بچے، درحقیقت یہ ایسی ذمّہ داری ہے کہ بڑے بڑے عالی ہمت حضرات بھی اسے مستقل بنیاد پر انجام دینے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ اس قسم کا کام ہے جس میں خاصی یکسوئی کے علاوہ پہ در پہ بدلتی ہوئی خانگی صورتحال کو بخوبی نبھانا پڑتا ہے جبھی تو خواتین ایک طرف اپنے چھوٹے بچے کو لوری سنا رہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف گھرکے کام کاج اور کھانا پکانے کے لئے فکر مند ہوتی ہیں۔ گھریلو معاملات کی اسی اہمیت و نزاکت کے پیشِ نظر، کہ اس کی بہتری میں خاندان کی بہتری کا دار و مدار ہے، اسلام نے خواتین کو گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہی گھر کا نظام چلانے اور اس کا ماحول کو پُر سکون رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ارشاد ہوا: {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ، إِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکْمْ تَطْہِیْراً} سورۃ الأحزاب: آیت 33
یعنی: اپنے گھروں میں رہو اور پہلے جیسی جاہلانہ بے پردگی و بے حیائی ہرگز نہ کرنا اور نمازوں کی پابندی کرنا اور زکاۃ ادا کرتی رہنا اور اللہ اور اس کے رسول کی تعبیداری کرتی رہنا، اے اہلِ بیت! اللہ تو تمہارے اندر سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کرکے تمہیں بالکل پاک صاف کرنا چاہتا ہے۔
اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے گھر کو لوگوںکے لئے ایک بے بہا نعمت اور جائے سکون قرار دیا ہے، فرمایا: {وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ سَکَناً} سورۃ النحل: آیت 80
یعنی: اللہ نے گھروں کو تمہارے لئے جائے قرار بنایا ہے۔
کوئی عورت بحیثیت ماں اپنا کردار اس وقت تک بخوبی ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ اپنے گھر میں پورا پورا وقت نہ دے کیونکہ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے  اسی قدر وہ ماں کی محبت اور توجہ کا زیادہ محتاج ہوتا ہے، دراصل دودھ سے پہلے بچے کو ماں کی شفقت کی ضرورت ہوتی ہے اس کی گود میں اسے دلی راحت و عافیت محسوس ہوتی ہے جو کہ اس کی جسمانی و شخصی نشو نما کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح جب عورت اپنے گھر پر رہتی ہے اسے سنوارتی ہے، اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہے اور جسمانی و نفسیاتی اعتبار سے اسے ایک بہترین ماحول فراہم کرتی ہے تو اس کا شمار اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں ہوتا ہے، دیکھئے ایک صحابیہ اسماء بنت یزید بن السکن رضي اللہ عنہا نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں خواتین کی طرف سے بطور نمائندہ حاضر ہوئی ہوں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام عورتوں اور مردوں کی طرف مبعوث کیا ہے، ہم آپ پر اور آپ کے معبود پر ایمان لائے، ہم خواتین آپ لوگوں (مردوں) کے گھروں کی چار دیواری تک محدود رہتی ہیں، آپ کی خواہشات کو پوار کرتی ہیں، آپ کی اولادوں کو جنم دیتی ہیں جبکہ آپ لوگوں کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ لوگ دینی اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور باجماعت نماز ادا کرتے ہیں مریضوں کی عیادت اور جنازہ میں شرکت کے لئے جاتے ہیں اور کئی کئی حج کرتے ہیں اور ان سب سے عمدہ بات تو یہ ہے کہ آپ لوگ اللہ عز و جل کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جب آپ میں سے کوئی شخص حج یا جہاد کے لئے نکلتا ہے تو ہم خواتین آپ لوگوں کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، آپ لوگوں کے لئے کپڑے سیتی ہیں اور آپ کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں تو کیا آپ لوگوں کی نیکیوں میں ہمارا حصہ نہیں ہے؟ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم نے کبھی کسی خاتون کو دینی معاملات میں اس سے بہتر بات کہتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی عورت اس قدر اعلیٰ خیالات رکھتی ہوگی۔ پھر نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   اس خاتون کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: بی بی! اچھی طرح سمجھ لو اور دوسری عورتوں کو بھی بتا دو کہ جو عورت اپنے خاوندکی خیر خواہی کرے اس کو راضی خوشی رکھے اور اس کا کہا مانے تو اُس کی اِس محنت و مشقت کا اجر ان تمام نیکیوں کے اجر کے برابر ہے (جو مرد حضرات کرتے ہیں)۔ وہ خاتون رب کی بڑائی اور اس کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس لَوٹ گئی۔ (بیہقی، حدیث نمبر 8369)
معلوم ہوا کہ شوہر کے معاملہ میں بیوی کی ذمّہ داری جس قدر بڑی اور دشوار ہے اسی قدر اس کا اجر بھی زیادہ ہے جبھی تو یہ فرمایا کہ اجر کے لحاظ سے بیوی کی ساری محنت و مشقت، شوہرکے سارے نیک اعمال کے برابر ہے یعنی اس جہاد کے برابر بھی کہ جس میں جان و مال دونوں خرچ ہوتے ہیں اور اس حج کے برابر بھی کہ جس میں سفر کی مشقت اور زادِ راہ بھی درکار ہوتا ہے اور اس صدقہ و خیرات کے برابر بھی کہ جس میں خون پسینے کی بہترین کمائی شامل ہوتی ہے!!!
تو کیا اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی عورت کام کاج کے لئے گھر سے باہر نکل کر اور محنت و مشقت میں مردوں کی برابری کرکے  اپنی اصل ذمّہ داری بحسن و خوبی نبھا سکتی ہے اور اپنے گھر اور شوہر کا پورا حق ادا کر سکتی ہے؟ کام کاج کرنے والی خواتین کی صورتحال دیکھ کر تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو گھر سے باہر کام کاج نہیں کرنا چاہئے اور اسے چاہئے کہ اپنے گھر کی چار دیواری تک محدود رہے؟ نہیں، ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ اسلام خواتین کو کام کاج (ملازمت یا تجارت وغیرہ) کی اجازت دیتا ہے اور اسے اس کا حق قرار دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب اسے واقعتاً اس کی اشد ضرورت ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، ورنہ نہیں۔ کیونکہ اسلام نے پہلے ہی اسکی ضرورتیں پورا کرنے کی ذمّہ داری مرد کو سونپ دی ہے اور عورت کے ذمّہ گھریلو فرائض ادا کرنے کی پابندی عائد کی ہے سب کی اپنی اپنی ذمّہ داریاں ہیں جو بلا وجہ آپس میں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ تو جہاں اسلام نے عورت کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ گھریلو کام کاج کیا کریں اور ہر جائز طریقہ پر اپنے خاندان کے سکون و راحت کا سامان کریں تاکہ زندگی خوشگوار ہو، وہاں اسلام نے اسے بہت سی شرعی پابندیوں سے معاف بھی رکھا ہے مثلاً جہاد، باجماعت نماز، نمازِ جمعہ اور ماہواری کے دنوں میں نماز و روزہ وغیرہ۔ یہ رعایتیں اس لئے ہیں کہ خواتین کو جو ذمّہ داری سونپی گئی ہے وہ اسے اچھی طرح ادا کریں۔ (عمل المرأۃ وموقف الإسلام منہ، مؤلف: عبد الرب آل نواب، ص۔ 162-157)
اسلامی تاریخ میں خواتین کے کردار کا مطالعہ کرنے والا شخص اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ خواتین نے بعض شعبوں میں گھر سے باہر بھی خدمات انجام دیں ہیں جیسا کہ سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹری، نرسنگ اور ضرورت پڑنے پر جہاد بھی، جبکہ زراعت اور کھیتی باڑی بھی ان کے معمولات میں شامل ہے۔ خواتین حسبِ ضرورت لیبارٹریوں اور فیکٹریوں میں بھی کام کر سکتی ہیں بشرطیکہ ان کی عزت و عفت اور نسوانیت محفوظ رہے۔ (دور المرأۃ وإمکانیۃ مساہمتہا في قوۃ العمل الوطینیۃ،تألیف: راویۃ عبد الرحیم، ص۔ 183-182)
اس مقصد کے لئے اسلام نے ضابطے مقرر کر دیئے ہیں ’’کیونکہ ہو سکتا ہے کہ عورت کو اپنی زندگی کی سلامتی کے لئے کبھی کسی باعزت کام کاج کی ضرورت پڑے، خاص کر جبکہ اس کا سرپرست نہ ہو یا وہ اپنی ذمّہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کرے یاوہ واقعتاً کسی مجبوری کی بناء پر مکمل کفالت کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ (تأملات في عمل المرأۃ المسلمۃ، تألیف:عبد اللہ بن وکیل الشیخ، ص۔ 12-11)
اسی طرح خواتین ان شعبوں میں کام کرسکتی ہیں جن میں ان کے سوا کسی اور کی خدمات مناسب نہیں ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ فرضِ کفایت کے ضمن میں آتا ہے مثلاً خواتین کا علاج، انکی تیمار داری (نرسنگ) اور ان کی تعلیم و تربیت وغیرہ ۔ قرآن و حدیث کے کئی مقامات پر اس کے شواہد موجود ہیں، جیسا کہ (بعض روایات کے مطابق) شعیب علیہ السلام کی دو بیٹیوں کا پانی بھرنے کے لئے انتظار اور موسیٰ علیہ السلام کا ان کی مدد کرنے کا قصہ، کیونکہ وہ اپنے والد کی ضعیفی کی وجہ سے یہ کام کرنے پر مجبور تھیں، بیان ہوتا ہے {وَلَمَّا وَرَدَ مَائَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّۃً مِنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمْ امْرَأَتَیْنِ تَذُوْدَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّیٰ یُصْدِرَ الرِّعَائُ وَأَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ o فَسَقَیٰ لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰی إِلَیٰ الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّیْ لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ} سورۃ القصص، آیات: 24-23
یعنی: جب وہ (موسیٰ) مدین شہر کے گھاٹ پر پہنچے دیکھا کہ لوگ (مویشیوں) کو پانی پلا رہے ہیں اور قریب ہی دو عورتیں اپنے مویشیوں کو روکے انتظار کر رہی ہیں، پوچھا کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا جب تک چرواہے چلے نہیں جاتے ہم اپنے مویشیوں کو پانی نہیں پلاتیں، تب موسیٰ نے ان کے مویشیوں کو پانی پلایا اور ایک جانب سائے میں بیٹھ کر دعا کی کہ یا رب تو جو بھی مہربانی مجھ پر کرے میں واقعی  اس کا محتاج ہوں۔
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ عورت حسبِ ضرورت گھر سے باہر کا کام بھی کر سکتی ہے (جیسا کہ یہاں سرپرست کی ضعیفی کا سبب بیان ہوا) اور یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کمزور ہونے کی بناء پر بعض شعبوں میں مردوں کی برابری نہیں کر سکتی (جیسا کہ یہاں بیان ہوا کہ چرواہوں کے جانے کے بعد ہی وہ اپنے مویشیوں کو پانی پلا سکتی ہیں) ظاہر ہے کہ مردوں کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا ممکن نہ تھا اس لئے انتظار ضروری ہو گیا ۔ (الکشاف بین حقائق التنزیل وعیون الأقاویل ووجوہ التأویل، تألیف: أبو القاسم جار اللہ محمود الزمخشری، ص۔ 171)
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میری خالہ کو طلاق ہو گئی، انہوں نے اپنا باغ لگانا چاہا، تو کسی شخص نے ان کو برا بھلا کہا اور باہر نکل کر کام کرنے سے منع کیا، وہ نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرہ بیان کیا، تو آپ   علیہ الصلاۃ  السلام   نے فرمایا: تم ضرور باغ لگاؤ، شاید کہ تم صدقہ کرو یا کوئی اچھا کام کرو۔ (مسلم) غرض یہ کہ اس بارے میں کافی دلائل موجود ہیں۔
موجودہ دور میں خواتین کے کام کاج کے لئے مندرجہ ذیل شعبے ذکر کئے جا سکتے ہیں:
1.      اپنے خاندان اور محلے کے دائرے میں رہتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا کام۔
2.      خواتین کی تعلیم و تربیت۔
3.      خواتین کے لئے مخصوص ہسپتالوں میں خدمات، اسی طرح عورتوں کا علاج اور ان کی تیمار داری (نرسنگ)۔
4.      خواتین کی لائبریریوں میں ملازمت۔
5.      عام فلاحی خدمات، مثلاً خواتین کی فلاحی تنظیموں میں خدمات وغیرہ۔
6.      خواتین کے ہسپتالوں اور اسکولوں میں انتظامی خدمات۔
7.      خواتین کے لباس کی سلائی و تیاری۔
8.      ہلکے و نزاکت طلب پیشے مثلاً خواتین کے زیورات کی تیاری۔
9.      خواتین کے لئے حسب ضرورت فوٹوگرافی کی خدمات۔
10.  خواتین کے لئے کمپیوٹر کی ٹریننگ اور اس شعبہ میں اپنی ہم جنس کے ساتھ خدمات۔
11.  آجکل کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے خواتین، مردوںسے میل جول کے بغیر ہی اپنے گھر یا آفس میں رہتے ہوئے کئی کام کر سکتی ہیں، مثلاً انٹرنیٹ کے ذریعہ، مردوں میں گھلے ملے بغیر، تجارتی و تعلیمی سرگرمیوں میں بحسن و خوبی حصہ لے سکتی ہیں۔
غرض یہ کہ خواتین ’’حسبِ ضرورت‘‘ ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو اُن کے فطری مزاج اور بنیادی ذمہ داریوں  سے ہم آہنگ ہو نیز غیر محرموں سے میل جول کا خطرہ نہ ہو۔

محنت و مزدوری اور ملازمت کے لئے خواتین پر

عائد شرائط و ضوابط

اب اگر یہ کہا جائے کہ خواتین محنت و مزدوری کر سکتی ہیں بلکہ یہ بھی کہ انہیں صرف گھریلو کام کاج تک ہی محدود نہ ہونا چاہئے تو یہاں ہمیں ان شرائط و ضوابط کا بھی لحاظ رکھنا ہوگا جن کی بناء پر خواتین کے لئے میدانِ عمل میں اترنا جائز ہوگا:
پہلی شرط: وہ کام شرعاً جائز ہو اور عورت کی فطرت اور نسوانیت کے اعتبار سے موزوں ہو اور اسکی فطری نزاکت و رقّت کے لحاظ سے ہو نیز یہ اس میں مردوں سے میل جول نہ ہو ۔(مشکلات المرأۃ المسلمۃ المعاصرۃ، تألیف: مکیۃ میرزا، ص۔ 300)
مثلاً خواتین کی تعلیم وتربیت اور ان کا علاج معالجہ اور اس قسم کے دوسرے کام جو خواتین کے علاوہ کوئی اور نہیںکر سکتا ، امتِ مسلمہ کو بھی چاہئے کہ اس قسم کے کاموں کے لئے خواتین کو تربیت دیں اور خواتین سے متعلق شعبوں میں صرف خواتین کی موجودگی کو یقینی بنائیں۔
دوسری شرط: ڈھکے چھپے اور کھلے بندے ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا
تیسری شرط: عمومی شرعی تعلیمات کی پاسداری کرتے ہوئے شرعی پردے کی پابندی کرنا تاکہ بری نیت کے حامل افراد کے شر سے محفوظ رہے۔
چوتھی شرط: مردوں کے ساتھ میل جول اور کسی فرد کے ساتھ تنہائی میں رہنے سے باز رہے کیونکہ اس کے نہایت برے نتائج ہوتے ہیں، ارشادِ نبوی   علیہ الصلاۃ  السلام   ہے: ’’کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے کیونکہ ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے‘‘ (مسند احمد)
پانچویں شرط: ایسا کوئی کام نہ کرے جو اسے اپنے شوہر اور بچوں کی بنیادی ذمّہ داری سے غافل کر دے ، اس کے کام کی نوعیت ایسی ہو کہ وہ آدھے دن یا زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹوں کا ہو تاکہ وہ گھر واپس آکر آرام و اطمئنان سے اپنے گھریلو کام کاج نمٹا سکے۔ اسکے علاوہ اس کی چھٹیوں کے نظام میں اس بات کی گنجائش ہو کہ بچے کی ولادت کے موقع پر اسے تقریباً سال بھر کی چھٹی ملے تاکہ وہ اپنے نومولود بچے کی صحیح طور پر دیکھ بھال کر سکے جِسے براہِ راست ماں کی توجہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور تاکہ وہ اسے دودھ پلا سکے، یوں بھی ابتدائی مہینوں میں ماں کی دوری بچے کی بنیادی نفسیات پر بہت برا اثر ڈالتی ہے (مشکلات المرأۃ المسلمۃ المعاصرۃ، تألیف: مکیۃ میرزا، ص۔ 303)
سمجھ دار لوگ ان باتوں کو بخوبی جانتے ہیں کہ بعد میں کسی طور پر ان اثرات کا علاج ممکن نہیں ہوتا سوائے یہ کہ ماں زیادہ سے زیادہ وقت اپنے بچے کے ساتھ گزارے، یوں کہئیے پورا نہ سہی تھوڑا ہی سہی، ماں کو بہرطور وقت دینا ہی پڑے گا، نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کا فرمانا ہے کہ ایک دوسرے کو سہارا دیتے چلو اور ہمتیں بڑھاتے رہو۔(بخاری)
چھٹی شرط: اپنے سرپرست سے اجازت لے (تأملات في عمل المرأۃ المسلمۃ، تألیف: عبد اللہ بن وکیل الشیخ، ص۔ 55) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَیٰ النساء بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ} سورۃ النساء، آیت: 34
یعنی: مرد حضرات عورتوں کے سرپرست ہیں کیونکہ اللہ نے کسی کو کسی پر فوقیت دی ہے (یعنی مرد عموماً جسمانی اور ذہنی اعتبار سے عورتوں سے زیادہ  قوی ہیں)  اور اس لئے بھی کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں (یعنی عورتوں کی مالی کفالت بھی کرتے ہیں)۔
ساتویں شرط: اس کا کام بنیادی طور پر مردوں پر فرماں روائی نہ ہو جیسا کہ عمومی حکمرانی یا وزارتِ اعلیٰ  وغیرہ جس میں عام طور پر قوم کی قیادت ہوتی ہے اس شرط کا دار و مدار نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کے اس فرمان پر ہے: ’’وہ لوگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے جن کی قیادت عورت کرے‘‘ (بخاری) شیخ ابن العربی فرماتے ہیں: اس میں واضح دلیل ہے کہ عورت خلیفہ (حکمران) نہیں ہو سکتی اور  اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (أحکام القرآن، ص۔ 1457)

خواتین کی ملازمت کے نتائج

خواتین کی ملازمت کے معاشی فوائد
یورپ میں خواتین کی ملازمت کی وجہ سے صورتحال
یورپ میں ملازم خواتین کی جنسی ہراسانی
دورانِ ملازمت جنسی تشدد میں اضافہ کی شرح

خواتین کی ملازمت کے معاشی فوائد

خواتین کو ملازمت پر اکسانے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاشرہ کا آدھا حصہ بیکار پڑا ہے جس سے لازماً فائدہ اٹھانا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بہت سے معاشی فوائد ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:
۱- خاندان کی بہتر دیکھ بھال، اور یہ کہ خواتین کی ملازمت سے قومی بچت میں مردوں کو ملازم رکھنے کی بہ نسبت زیادہ اضافہ ہوتا ہے کیونکہ عورت فطری طور پر بچت کرنے کا رجحان رکھتی ہے اور مردوں کی طرح فضول خرچ نہیں ہوتی ۔(المرأۃ المصریۃ بین الماضی والحاضر، تألیف: احمد طٰہ محمد، ص۔ 172)
۲- ایک عورت کی ملازمت سے باہر سے آئے ہوئے پورے خاندان کو بلانے سے بچا جا سکتا ہے کہ جہاں صرف مرد کام کرتا ہے اور اس طرح حکومتی وسائل میں بچت اور اس کی ذمّہ داریوں میں تخفیف ہو سکتی ہے ۔(المرأۃ والتنمیۃ في الخلیج، بحوث المؤتمر الإقلیمي
الثاني للمرأۃ في الخلیج، ص۔ 406)
۳- ملازمت کرنے میں عورت کے مستقبل کی حفاظت ہے اس سے اس کی شخصیت نکھرتی ہے اور وہ مرد کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔
ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ کیا واقعتا یہ فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ مردوں کے شعبوں میں خواتین کی شمولیت سے جو نقصانات سامنے آئے ہیں وہ ان مذکورہ زبانی فوائد سے کہیں زیادہ ہیں عورت کی کمائی کا بیشتر حصہ آنے جانے ، بننے سنورنے اور کپڑے بنانے میں خرچ ہو جاتا ہے اور جو بچتا ہے وہ گھر کی ملازماؤں اور بچے کی رکھوالیوں کی نذر ہو جاتا ہے اور آخر میں اس کے حصہ میں سوائے خسارے کے کچھ نہیں آتا(عمل المرأۃ في المیزان، محمد علي البار، ص۔ 145) اس کے علاوہ جب عورت کام کاج کرکے پیسہ کماتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ فرد کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوتا ہے اس طرح خرچہ زیادہ ہوتا ہے مارکیٹ میں مانگ بڑھ جاتی ہے اور یوں چیزوں کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔(بحوث المؤتمر الإقلیمی الثاني في الخلیج، ص۔ 19)
جو خواتین ملازمت وغیرہ کرتی ہیں انہیں عموماً مانع حمل دوائیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں جس کی وجہ سے شرحِ پیدائش میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ شریعت میں اس کی ممانعت ہے خاص کر وہ امیر ممالک جہاں پہلے ہی آبادی کم ہے جیسے سعودی عرب اور امارات وغیرہ، یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں غیر ملکی کارکنوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے تاکہ مقامی افرادی قوت میں کمی کو پورا کیا جا سکے۔
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’ایک عورت کی ملازمت سے باہر سے آئے ہوئے پورے خاندان کو بلانے سے بچا جا سکتا ہے کہ جہاں صرف مرد کام کرتا ہے‘‘  تو یہ ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ ہماری ایک یونیورسٹی کے شعبۂ معاشرتی علوم  نے ایک سروے کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو خادماؤں کی تعداد 750000 ہے ۔(فتیاتنا بین التغریب والعفاف }خطاب{،  مقرر:  ڈاکٹر ناصر بن سلمان العمر)
اب آپ بخوبی ان خطرات و نقصانات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو اتنی بڑی تعداد میں خادماؤں کی موجودگی سے لاحق ہیں ذرا سوچئے اگر ساری خواتین کام پر نکل جائیں تو کیا حال ہوگا؟ صورتحال اس بات کی گواہ ہے کہ جس گھر کی خاتون کام پر جاتی ہے وہاں ایک ملازمہ کی ضرورت ہوتی ہے جو گھریلو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور اس طرح بیرونی ملازمین کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے نہ کہ کمی!
عورت کی ملازمت سے فائدہ اٹھانے والے صرف اور صرف سرمایہ دار لوگ ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح عموما تنخواہوں کی شرح میں کمی ہو جاتی ہے جبکہ خواتین کی تنخواہ تو اور بھی کم ہوتی ہے۔(عمل المرأۃ في المیزان، تألیف: محمد علي البار، ص۔ 205)
ان کے علاوہ بھی ایسے منفی اثرات ہیں جن کے سامنے ان فوائد کی کوئی حیثیت نہیں رہتی جن کا ڈھنڈورا عورت کی ملازمت کے پیامبر پیٹتے رہتے ہیں۔

یورپ میں خواتین کی ملازمت کی وجہ سے صورتحال

سب سے پہلے یورپی خواتین مردانہ شعبوں میں ملازمت کے لئے آئیں اور اب تک اس تجربہ پر خاصہ عرصہ بیت چکا ہے سؤال یہ ہے کہ یورپ کو خواتین کی ملازمت سے سوائے اخلاقی تنزلی، معاشرتی وفکری انارکی اور خاندانی ریزہ ریزی کے کیا حاصل ہوا! صرف امریکہ میں کروڑھا بچے حرام کی اولاد ہیں ’’جن کی پرورش مملکت کے حساب سے کی جاتی ہے اور نتیجہ اقتصادی زبوں حال کی صورت میں سامنے آتا ہے کیونکہ ہر بچے پر سالانہ تقریباً 18000 ڈالر خرچہ آتا ہے یہی نہیں بلکہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح معیشت کو مزید دھچکہ پہنچاتی ہے کیونکہ غیر ملازمت پیشہ طلاق یافتہ خواتین کی کفالت بھی مملکت کے ذمہ ہے‘‘ (عمل المرأۃ في المیزان، تألیف: محمد علي البار، ص۔ 166)
سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ میں سالانہ لاکھوں اسقاطِ حمل کے آپریشن کئے جاتے ہیں، مانع حمل ادویات اور دیگر وسائل عام دستیاب ہیں، ان کی سوسائٹی میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو زانی نہ ہو ان کی جنسی بھوک کا حال یہ ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی، طریقے بدلتے رہتے ہیں اور روز بروز مجرمانہ انداز گھناؤنا ہوتا جا رہا ہے۔ عصمت سوزی اور جنسی بے راہ روی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مغربی ممالک کے پاس اب سوائے ڈھٹیائی اور اعتراف کے کچھ نہیں بچا۔
یہ اس مغربی تہذیب کا وہ سیاہ چہرہ ہے جس کی ظاہری آب وتاب سے ہمارے لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، اس رنگا رنگ تہذیب کے حصارمیں عورت کا یہ حال ہے کہ ’’اگر کمائے گی تو کھائے گی وگرنہ بھوکی رہ جائے گی اور جب وہ کام کے قابل نہیں رہتی تو اسے لاوارثوں کے دار الامان میں ڈال دیا جاتا ہے چاہے اس کا شوہر، بیٹا، بیٹی اور پوتا وغیرہ بھی موجود ہوں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اس ناکارہ خاتون کا خرچہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا‘‘ ۔(المرأۃ المسلمۃ وفِقْہُ الدعوۃِ إلی اللہ، تألیف: علي عبد الحلیم محمود، ص۔ 2)
اس صورتحال نے مغربی عورت کو اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور کر دیا، اب ہم آپ کی خدمت میں بعض ایسی خواتین کی مثالیں پیش کریں گے جو ملازمت کرتے کرتے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئیں لیکن جب انہیں احساسِ زیاں ہوا تو انہوں نے گھر اور خاندان کی خاطر سب کچھ ٹھکرا دیا۔
یہ اس خاتون کی بات ہے جس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے اور ہوتے ہوتے اعلیٰ درجات پر فائز ہو گئی لیکن اسے اپنی فطری طبعیت کی بناء پر احساس ہوا یا حالات نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جو کچھ وہ کرتی آئی ہے وہ ایک ماں یا بیوی کی حیثیت سے اس کی بنیادی ذمّہ داری کی ادائیگی میں رکاوٹ تھا، یہ خاتون محترمہ بیرنز Barins ہیں جو شمالی امریکا میں پیپسی کولا کمپنی میں نہایت اہم عہدہ پر فائز تھیں، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے بائیس سال ملازمت کی حتیٰ کہ ان کی تنخواہ تقریباً دو ملین ڈالر سالانہ تک جا پہنچی، انہیں اس بات کا اختیار تھا کہ ملازمت جاری رکھیں یا گھر واپس جائیں تو انہوں نے گھر جانے کو ترجیح دی۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے تین بچے ہیں جن کی عمریں دس، آٹھ اور سات سال ہیں، ایک دن ان کے ایک بچے نے کہا مجھے اس سے مطلب نہیںکہ آپ کوئی ملازمت پیشہ خاتون ہوں کہ نہ ہوں اگر آپ کم از کم ہماری خاندانی تقریبات اور سالگرہ میں آجایا کریں! محترمہ بیرنز کہتی ہیں کہ میں دو طرفہ چکّی میں پستی رہی، میں نے پیپسی کولا کے لئے بہت محنت کی، میری مصروفیات نہایت پریشان کن اور تھکا دینے والی تھیں، مجھے صبح و شام کاروباری تقریبات میں جانا پڑتا تھا۔ وہ مزید بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگرچہ ملازمت چھوڑنا کافی تکلیف دہ ہوگا لیکن مجھے اپنے خاندان کی زیادہ ضرورت ہے۔ کمپنی والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے اس خاتون کو لاکھ سمجھایا اور ہر ممکن تجاویز پیش کیں مگر وہ نہ مانی۔ دراصل محترمہ بیرنز  ان بہت سے سرگرم کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہیں ہماری مصنوعات کی مارکیٹنگ کا خاص ملکہ حاصل ہے اسی لئے ہم ان کا شمار اعلیٰ قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد میں کیا کرتے تھے۔(المرأۃ الغربیۃ تعود إلی البیت، تألیف: مازن مطبقاني، ص۔ 28)
ان خواتین میں جنہوں نے ماں بننے کی خاطر اعلیٰ عہدے چھوڑ دئیے ایک نام بینی ھگیز Beni Hegiz کا ہے وہ برطانیا میں کوکا کولا کمپنی کی چیف تھیں اور انہیں کمپنی میں پہلی خاتون سربراہ ہونے کا اعزاز حاصل تھا لیکن انہوں نے اپنے پہلے بچے کی ماں بننے کے موقع پر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔(المرأۃ الغربیۃ تعود إلی البیت، تألیف: مازن مطبقاني، ص۔ 28)

یورپ میں ملازم خواتین کی جنسی ہراسانی

مردوں سے آزادنہ میل جول اور کوئی سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے زنا کاری اپنی انتہاء کو پہنچ گئی ضروری نہیں کہ اس جال میں پھنسنے والی ہر خاتون اس صورتحال سے راضی خوشی ہو مگر زندگی گزارنے کے لئے ان تکلیف دہ حالات پر خاموشی کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہر ملازمت میں ملازمہ کا افسرِ اعلیٰ اس کے ساتھ شب بسری کا مطالبہ ضرور کرتا ہے انکار کی صورت میں ملازمت ختم! (عمل المرأۃ في المیزان، تألیف محمد علي البار، ص۔ 203-204)
آجکل میڈیا میں ایک سربراہِ مملکت کی اس قسم کی حرکات کا بڑا چرچا ہے جس میں ایک ملازمہ نے عدالت میں اس کے خلاف اس کے ساتھ جنسی تشدد کی وجہ سے مقدمہ دائر کر دیا۔
اگر عورت یہ چاہتی ہے کہ اسے کوئی ملازمت ملے اور وہ باقی بھی رہے تو اسے چاہئے کہ ’’اپنی اخلاقی قدروں اور عزت کو بھول جائے کیونکہ کوئی بھی بدکردار عورت بہ آسانی اس کی جگہ لے سکتی ہے اگر اس نے اپنے افسر کی حیوانی خواہشات کی تکمیل نہ کی!!! (عمل المرأۃ في المیزان، نقلا عن کتاب الغابۃ لمؤلفہ أبتون سنکلیر، ص۔ 206)
اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ’’ملازمت کے خواہش مندوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ مالکان یا ڈائریکٹر  وغیرہ کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں، حتیٰ کہ افسران اپنے اپنے ذوق کے مطابق حسین و جمیل نوجوان خواتین کا انتخاب کرتے ہیں اکثر تو یہ مطالبہ کرتے کہ علیحدہ کمرے میں ٹیسٹ لیا جائے گا اب اگر وہ راضی ہو جائے تو سمجھا جائے گا وہ واقعی ملازمت کے لئے تیار ہے یہ صورتحال صرف فیکٹریوں اور اسٹوروں تک محدود نہیں بلکہ ہوٹلوں، ریسٹورینٹوں اور ریسٹ ہاؤسوں میں بھی ہے یہاں معاملہ اس سے بھی سنگین ہوتا ہے کیونکہ یہاں ملازمہ کو صرف اپنے افسر کو ہی نہیں بلکہ آنے والے گاہکوں کو بھی ان کے ذوق کے مطابق راضی رکھنا پڑتا ہے۔ (عمل المرأۃ في المیزان، تألیف: محمد علي البار، ص۔ 208-209)
آجکل یورپ میں جو تباہ کن آثار ہمیں نظر آتے ہیں یہ سب انہیں گھناؤنی حرکات کا نتیجہ ہیں جو یورپ میں ملازمت پیشہ  عورت کے ساتھ کی جاتی ہیں، یعنی وہ عورت جس نے اپنا گھر چھوڑا اور مردوں کے ساتھ ملازمت میں جت گئی۔ امریکہ کی اعلیٰ عدالتوں نے اس صورتحال پر قابو پانے اور اس کے نتائج سے بچنے کے لئے، خاص طور پر خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو قانونی مراعات دیں ہیں تاکہ وہ مالکان و افسران کی جانب سے نازیبا حرکات کے خلاف مقدمہ دائر کریں دراصل اس حکم نامہ کی وجہ اس سروے کی رپورٹ ہے جس میں یہ انکشاف ہوا کہ امریکا میں 90% لڑکیاں اور عورتیں دورانِ ملازمت کسی نہ کسی طور پر جنسی حیوانگی کا شکار ہوتی ہیں (مجلۃ الأسرۃ ، شایع کردہ: اسلامک فاؤنڈیشن - ہالینڈ، ص۔ 43) ان اعداد و شمار اور چشم کشا حقائق کے باوجود یورپ کے دلدادہ اب بھی ’مرد و عورت - شانہ بشانہ‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔

دورانِ ملازمت جنسی تشدد میں اضافہ کی شرح

یورپ میں معاملہ صرف اس حد تک نہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین کو صرف جنسی طور پر بلیک میل کیا جاتا ہو بلکہ معاملہ کئی قدم آگے تک ہے وہ یہ ان کی آمادگی کے بغیر ہی دست درازی بھی کی جاتی ہے، اس قسم کی صورتحال کا ایک طویل عرصہ تک بغور جائزہ لینے کے بعد انسپکٹر ہملٹن کا یہ کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے اگرچہ یہ زبر دستی اور تشدد جیسا معاملہ ہے مگر امریکہ میں پولیس والے اور قانون کے اہلکار اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیچاری آفت کی ماری لڑکی کو ایک معزز شخص پر الزام تراشی کرنے کے جرم میں پیشیاں بھگتنی پڑتی ہیں اسی لئے مجھے اس بات پر حیرت نہیں ہے کہ اکثر متأثرہ لڑکیاں پولیس کو اطلاع ہی نہیں دیتیں ۔
مغربی معاشرہ میں جنسی زیادتیاں اور پریشانیاں ناقابلِ یقین حد تک بڑھ چکی ہیں، اس کا اندازہ اس سروے سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ دو ہزار کمپنیوں اور فیکٹریوں میں کیا گیا، رپورٹ کے مطابق خواتین کے لئے ملازمت کے حصول کی بنیادی شرط جنسی کشش کا حامل ہونا ہے ۔
اس کے علاوہ 333 پولیس والیوں سے اس معاملہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو ان میں سے نصف نے کہا کہ وہ اپنے افسران کی جانب سے جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں ہیں اور جن لڑکیوں نے ان کی خواہشات کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے انہیں طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ جو بات مان لیتی ہیں اور ہتھیار ڈال دیتی ہیں ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور بھاری ذمّہ داریاں بھی نہیں ڈالی جاتیں۔ (عمل المرأۃ في المیزان، تألیف: محمد علي البار، ص۔ 222 و 228 و 238)
امریکہ کے ایک رسالے ’نفسیاتی علاج‘ میں دورانِ ملازمت خواتین کو درپیش جنسی زیادتیوں کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 42%  ملازم خواتین اس کا شکار ہوتی ہیں جبکہ صرف  7% حادثات کی خبر ذمّہ دار اداروںکو دی جاتی ہے نیز ان میں سے 90% شکارخواتین نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں لیکن ان میں سے صرف 12% نفسیاتی علاج کے لئے رجوع کرتی ہیں۔ (ترجمہ از امریکی رسالہ نفسیاتی علاج، شمارہ جنوری 1994 ئ، ص۔ 10)

مسلم خواتین کو ولایتی طرز میں ڈھالنے کے انداز

o       
o        شکل و صورت کے انداز
o        خلاق و آداب سے متعلق انداز
o        رسم ورواج اور طور طریقوں سے متعلق انداز

مسلم خواتین کو ولایتی طرز میں ڈھالنے کے انداز

مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے مسلم خواتین کو عموما اور ملازمت پیشہ  خواتین کو خصوصا بگاڑنے کا ہر طریقہ اپنایاکیونکہ وہ فوراً اثر قبول کر لیتی ہیں اور جلد مان جاتی ہیں اسی لئے انہوں نے ان کی شناخت مٹانے کی کوشش کی ان کی اس حرکت کے اثرات مسلم خواتین پر کئی صورتوں میں جھلکنے لگے ، چاہے اس کا تعلق شکل و صورت سے ہو یا اخلاق وکردار اور رسم و رواج سے ،  اب ہم ان تینوں صورتوں کا کچھ تفصیل سے ذکر کرتے ہیں:

شکل و صورت کے انداز

مسلم خاتون کی بنیادی پہچان ہی مٹا دی گئی اور وہ ولایتی عورتوں کی نقالی کرنے لگی اور ہر چھوٹی بڑی بات میں اس جیسا کرنے کی کوشش کرنے لگی، بال ترشوانے سے لیکر نہانے کا لباس پہننے تک جو انداز بھی مغربی تہذیب نے اس کے سر تھوپا اس نے جوں کا توں اسے اپنا لیا اور نبی کریم   علیہ الصلاۃ  السلام   کی بات بھلا بیٹھی کہ ’’جو جن لوگوں کی نقالی کرے گا وہ ان جیسا ہی مانا جائے گا‘‘ (مسند احمد)، یورپ اپنی چکا چوند کرنے والی تہذیب اور طور طریقوں کی وجہ سے نوجوانوں اور خواتین کا آئیڈیل بن گیا ہے، خاص طور پر خواتین کا جو کہ اسے بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور بڑھ چڑھ کر ہر چھوٹی بڑی چیز کی نقالی کرتی ہیں ۔(مشکلات المرأۃ المسلمۃ، تألیف: مکیۃ میرزا، ص۔ 195)
اور یوں مسلم خواتین نے اپنا ظاہری انداز ولایتی خواتین کی برابری کرنے کے چکر میں بدل ڈالا۔ اسی لئے یہ نہیں ہو سکتا کہ محترمہ جس انداز سے کل کام پر گئی تھیں وہی اسٹائل آج بھی ہو بلکہ آج لازماً نیا اور ذرا مختلف اسٹائل ہو، اور یہ بات تو اب سب ہی جانتے ہیں کہ ’’خواتین کی برادری میں یہ بات جائز نہیں ہے کہ ایک ہی لباس کو کئی تقاریب میں پہنا جائے۔ دکھاوا ، ہَوکا اور انفرادیت کا چسکا ان کو ہر دم جدّت طرازی پر ابھارتا رہتا ہے اگرچہ اس سلسلہ میں کتنا ہی خرچہ و حرجہ ہو جائے، اسی طرح جدید تکنیک اور ماہرینِ زیب و زینت کی زیرِ نگرانی چہروں، بالوں اور جسمانی خد و خال کی درستگی ان کے نزدیک اتنی ضروری چیزیں ہیں جیسا کہ پانی اور ہوا ۔ (أجنحۃ المکر الثلاثۃ، في سلسلۃ أعداء الإسلام-۳، تألیف: عبد الرحمن حبنکۃ المیداني، ص۔ 359)
ظاہری نقالی دراصل اندرونی نقالی کا پیش خیمہ ہوتی ہے یعنی اس کا اثر اخلاق وکردار اور عقائد پر پڑتا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیۃ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أہل الجحیم‘‘  میں ثابت کیا ہے۔ اسی لئے مسلم خواتین سے گزارش ہے کہ وہ ہر اعتبار سے مغرب کی نقالی سے دور رہیں تاکہ ان پر یہ قولِ رسول   علیہ الصلاۃ  السلام   صادق نہ آجائے کہ ’’تم ضرور پچھلی قوموں کے نقشِ قدم پر بالشت در بالشت اور ہاتھ در ہاتھ چلنے لگو گے حتیٰ کہ وہ اگر ضب (نیولہ سے ملتا جلتاچھوٹا صحرائی جانور) کے بل میں گھسیں گے تو تم بھی ویسا کرنے لگو گے، صحابہ نے کہا یا رسول اللہ آپ کی مراد یہود و نصاریٰ کی نقالی سے ہے؟ فرمایا: تو اور کون!‘‘ (بخاری) حقیقت بھی یہی ہے کہ فیشن پرستی کا اصل فائدہ انسانیت کے دشمن یہودیوں کو ہوتا ہے جو لندن اور پیرس وغیرہ میں بڑے بڑے بیوٹی پالروں کے مالک ہیں۔
آجکل مسلم خواتین نے پرتپاک انداز اور فخر کے ساتھ یورپی خواتین کی نقالی شروع کر رکھی ہے حتیٰ کہ مسلمان بچیاں جو شاید پندرہ سال کی ہوں مختصر لباس پہننا شروع کر دیتی ہیں یہ شرم و حیا کو دور کرنے کا پہلا قدم ہوتا ہے یہی وہ اندھی تقلید ہے جو شرعی نقطۂ نگاہ سے قطعاً ناقابلِ قبول ہے کیونکہ اس طرح مسلم اور کافر خواتین کے درمیان فرق ختم ہو جاتا ہے اور ان کی آپس میں دوستی کی راہیں کھلتی ہیں اور یوں نقالی کرنے والی کی شخصیت مٹ جاتی ہے اسی لئے اس شخص کے لئے شدید وعید آئی ہے جو ان کافروں کی نقالی کرتے ہیں، فرمایا علیہ الصلاۃ والسلام نے ’’جو جس قوم کی نقالی کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے‘‘ (مسند احمد)
اس کے علاوہ فیشن پرستی سے معیشت کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے وہ الگ ہے، گھر کا  30%  بجٹ خاتونِ خانہ اپنے کپڑوں اور میک اپ کی ضروریات پر خرچ کرتی ہیں، اس مد میں آمدنی اور درجہ تعلیم کے تناسب سے اضافہ یا کمی ہوتی ہے۔ (المرأۃ المسلمۃ۔۔۔ إلی أین؟، تألیف: صلاح الدین جوہر، ص۔ 45)
اسی طرح ملازمت پیشہ  عورت کی نوکری کی جگہ بھی اس کے لباس اور میک اپ کے معیار کا تعین کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

اخلاق و آداب سے متعلق انداز

اسلام کے دشمنوں اور ان کے دُم چھلوں نے تعلیمِ نسواں کے معاملے کو خوب ہوا دی کیونکہ مسلم خاتون کے دماغ میں گھسنے کا یہی راستہ ہے جس کے ذریعہ تباہ کن نظریات سموئے جائیں اور اسلام کی صاف ستھری بنیادوں اور مُسلمہ کے درمیان دیوار کھڑی کی جا سکے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے لادینی اور مِشنری اسکول کھولے تاکہ اسلامی نظریات کو اپنے رکھ رکھاؤ ، معاشرتی نظم وضبط اور عادت واطوار کے ذریعہ شکست دیں اور وہ تعلیم اور کلچر کے نام پر زہر کی میٹھی گولیاں دینے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ انہوں نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ طاقت کے زور پر اسلام کو روکنے کا نتیجہ سوائے مزید پھیلانے کے اور کوئی نہیں چنانچہ اس کی تباہی کا ایک کارگر طریقہ یہی ہے کہ اسلام کے سپوتوں کو مشنری اسکولوں میں اپنی مرضی سے ڈھالا جائے اور بچپن ہی سے ان کے دلوں میں شک و شبہ کے بیج ڈال دئیے جائیں تاکہ ان کے اسلامی نظریات میں بگاڑ آجائے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے اور اگر ان میں سے کوئی عیسائی نہ بھی بنے تو وہ نہ تو مسلمان ہو نہ ہی عیسائی، اس قسم کے لوگ ان لوگوں کی بہ نسبت اسلام کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں جو عیسائی ہو کر عیسائیت کو ظاہری طور پر بھی اپنا لیتے ہیں۔(مؤامرات ضد المرأۃ المسلمۃ، تألیف: محمد عطیۃ خمیس، ص۔ 16)
اس طرح مسلمانوں اور خاص طور پر نسلوں کی تربیت کرنے والی مسلم خواتین کو ان کے اسلامی نظریات اور اخلاق وکردار سے ہٹا دینا ہی وہ مناسب ترین راستہ تھا جس کے ذریعہ پوری امتِ مسلمہ کو ملیا میٹ کیا جا سکتا ہے، کسی نے سچ کہا ہے کہ جب تک قومیں اپنے آداب کا لحاظ رکھتیں ہیں باقی رہتی ہیں اور جب فراموش کرتی ہیں تو مٹ جاتی ہیں۔
جس وجہ سے امتِ مسلمہ سب سے زیادہ ذلیل و خوار ہوئی ہے وہ مسلم خواتین کا پردہ کو چھوڑ کر عریانی اور فیشن پرستی کو اختیار کرنا ہے شرم وحیا اور ناموس کی پاسداری کو فراموش کرکے امت آج تک اس کے بدترین نتائج سے دوچار ہے، افراتفری اور فحاشی بے حد بڑھ گئی ہے اور اسی وجہ سے طلاق کی شرح زیادہ ہوگئی ہے نیز نوجوانوں کی شادیوں میں تأخیر ہوتی ہے۔ مغرب پرستی اور آزادیٔ نسواں کے پیامبروں کی بات مان کر مردوں کے ساتھ آزادانہ میل جول اور مردانہ شعبوں میں کام کاج کا آخر کار یہی نتیجہ نکلنا تھا۔
آج کی مسلم خواتین عام طور پر عریانی میں اس قدر آگے نکل گئیں ہیں کہ اگر انہیں قاسم امین اور ھدیٰ شعراوی دیکھ لیں تو اپنی ’’پردہ چھوڑو‘‘ کی تحریک سے باز آ جائیں۔  اب تو اتنے بیہودہ رسالے نکل آئے ہیں جو خواتین کو باقائدہ بے حیائی، دیوانگی اور ایسے شیطانی اسٹائل سکھاتے ہیں جن کے ذریعے مردوں کو رجھایا جائے، دعوتِ گناہ اور عورتوں کی عریاں تصویروں والے یہ  فتنہ انگیز رسالے مسلسل شایع ہو رہے ہیں جو بجائے خود اس بات کی دلیل ہیں کہ ابھی تک خواتین کے پلیٹ فارم پر نظریاتی جنگ پورے زور وشور سے زہر افشانی اور ایسے گندے خیالات کی ترویج پر مُصرہے جس کے ذریعہ دونوں جنس ایک دوسرے کو ورغلائیں اور ذلت و رسوائی کے گڑھوں میں دھکیل دیں۔ (مشکلات المرأۃ المسلمۃ المعاصرۃ، تألیف: مکیۃ میرزا، ص۔ 172)

رسم ورواج اور طور طریقوں سے متعلق انداز

مسلم خواتین میں ولایت نگاری کے اثرات محض شکل وصورت اور اخلاق و آداب تک محدود نہ رہے بلکہ اس کا دائرۂ کار اُن بنیادی عادات اور موروثی رسم ورواج پر بھی پڑا جو اسلام سے مأخوذ تھیں۔ رفتہ رفتہ مسلم معاشروں میں ایسی رسوم و عادات کا رواج ہو گیا جو مغربی استعمار اور مغرب سازی کی تحریکیں برپا ہونے سے پہلے بالکل انجانی تھیں، ان رسوم و عادات میں سے کچھ یہ ہیں:
٭  کاروباری تقاریب میں ملازمت پیشہ خواتین کی مردوں کے شانہ بشانہ شرکت
٭  عام مقامات پر مردوں اور عورتوں کے ملے جلے اجتماعات
٭  ملازمت اور کاروبار کے سلسلہ میں عورتوں کا بغیر محرم سفر کرنا
٭  یومِ مادر (Mother Day) وغیرہ منانا
٭ عیسائیوں کے ساتھ نئے سال کا جشن (Happy New Year) اور کرسمس وغیرہ منانا، خصوصاً ان اسلامی ممالک میں جہاں عیسائی رہتے ہوں۔
٭  شادی کے بعد عورت کو اس کے خاندانی نام کے بجائے شوہر کے نام کے ساتھ منسوب کرنا۔
٭  منگنی اور شادی کے جوڑوں کا اہتمام کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رسم کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان رشتہ استوار رہتا ہے
ان کے علاوہ اور بہت سی نئی رسمیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ امتِ مسلمہ میں عموما اور مسلم خواتین میں خصوصاً مغرب سازی کے کتنے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں ان تمام رسموں کا اسلام اور مسلمین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ مغرب کی ذہن سازی اور تہذیبی یلغار کے نتائج ہیں جو امتِ مسلمہ کے رگ و پے میں سرایت کر چکے ہیں اور اب اس کو جڑ سے اکھاڑنے کے درپہ ہیں۔

حاصلِ کلام

ربِّ کریم کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس موضوع کو زیرِ قلم کرنے کی توفیق بخشی، اب اس کے اہم نکات کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1.      اسلام میں خواتین کی عزت افزائی کا ثبوت اور یہ کہ وہ اسلام کے سایہ میں حقیقی آزادی، عزت اور بلند مرتبہ سے بہرہ مند ہیں۔
2.      صاحبِ کتاب نے قرآن و حدیث کے دلائل سے خواتین کو حاصل شدہ حقوق کے ساتھ ساتھ ان پر عائد ذمّہ داریاں ثابت کی ہیں نیز یہ تجزیہ کیا ہے کہ اسلام میں خواتین کے حقوق کی ضمانت ہے ان حقوق میں سب سے اہم یہ ہے کہ خواتین کی کفالت کی ذمّہ داری ان کے سرپرست (مرد) پر ہے تاکہ انہیں نامحرم مردوں میں گھلنا ملنا  اور انکے ساتھ کام کاج کرنا نہ پڑے اور اس لئے بھی کہ وہ اپنی بنیادی اور سب سے اہم ذمّہ داری کو بخوبی نبھائیں اور وہ ہے خاندان کی دیکھ بھال اور اس کے معاملات سدھارنا۔
تحریک برائے ملازمتِ خواتین کا قلع قمع کرنا اور یہ واضح کرنا کہ یہ در اصل مغرب سازی کے حیلوں میں سے ایک حیلہ ہے جس کا مقصد مسلم خواتین کو ان کی محفوظ پناہ گاہوں سے باہر نکال کر مسلم خاندان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ہے اس کے علاوہ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ مردوں اور عورتوں میں جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی سطح کے اعتبار سے جو فرق ہے اس کی وجہ سے ان دونوں کو ہر لحاظ سے برابر قرار دینا ممکن نہیں۔
تحقیق و تفکیر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنا کہ خواتین کو ان شعبوں میں مردوں پر فوقیت حاصل ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں خصوصاً تیار کیا ہے اس کے بعد شرائط و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے ان شعبوں کا ذکر کرنا جو خواتین کے لئے مناسب ہیں تاکہ خواتین کی ملازمت کے اصل فوائد کو حاصل کیا جا سکے اور ان منفی اثرات سے بچا جا سکے جو گھر سے باہر کام کاج کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں، نیز اس بات کا بیان کہ خواتین کی ملازمت کے ضمن میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ وہ ان کے فطری احساسات اور جسمانی تقاضوں کے مطابق ہو تاکہ وہ ان کی بنیادی ذمّہ داری کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے اور نہ ہی کسی قسم کے فتنہ وفساد کا پیش خیمہ ہو اور یہ کہ خواتین خود بھی اللہ رب العزت کا خوف کھائیں اور اپنے سرپرست کی اجازت سے مناسب پیشہ اختیار کریں۔ ان تمام معاملات میں شریعتِ مطہرہ سے مأخوذ رہنمائی تفصیلاً بیان کر دی گئی ہے۔
1.      خواتین کی ملازمت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل کا بیان اور اس بات کی صراحت کہ ان کے کام کاج سے کسی قسم کا اقتصادی فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ قوم جس اخلاقی تباہی کا شکار ہوتی ہے اور حکومتوں کو اس سلسلہ میں جو اقدامات و اخراجات کرنے پڑتے ہیں ان سب کے تناظر میں خواتین کی ملازمت کا سودا سراسر گھاٹے کا سودا ہے اس کی حقیقی دلیل یورپ کی صورتحال ہے۔ اس صورتحال سے تنگ آکر یورپ کے دانشوروں نے خواتین کی ملازمت کی وجہ سے پیدا ہونے والی اخلاقی و اقتصادی مشکلات پر آوازیں اٹھانا شروع کر دی ہیں اور خطرے کی گھنٹیاں بجا کر یورپی عورت کو درپیش جنسی زیادتی اور ہتکِ عزت کی نشاندہی کر دی ہے۔
2.      اس مباحثہ سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی ہے کہ مسلم خواتین کی مغرب سازی کا جھٹکا نہایت شدید ہے اور اس کے اثرات بھی بہت گہرے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عام طور پر مسلم خواتین آداب، رسم ورواج اور عادات و اطوار میں ہوبہو یورپی خواتین کی نقالی کرنے لگی ہیں یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس قولِ رسول   علیہ الصلاۃ  السلام   کا عنوان بنتی چلی جا رہی ہیں:  ’’تم ضرور پچھلی قوموں کے نقشِ قدم پر بالشت در بالشت اور ہاتھ در ہاتھ چلنے لگو گے حتیٰ کہ وہ اگر ضب (نیولہ سے ملتا جلتاچھوٹا صحرائی جانور) کے بل میں گُھسیں گے تو بھی ویسا کرنے لگو گے، صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ آپ کی مراد یہود و نصاریٰ کی نقالی سے ہے؟ فرمایا: تو اور کون!‘‘ (بخاری) اور اب اس دلدل سے نکلنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ایک بار پھر اسلام کے صاف شفاف میٹھے چشمے سے سیراب ہوں کیونکہ اسی میں ان شاء اللہ ان کی عزت افزائی اور سربلندی  ہے۔ خلیفۂ راشد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کیا خوب اور سچ فرمایا ہے کہ ’’ہم لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی وجہ سے عزت دی اب جتنا ہم دوسرے ذرائع سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے اللہ عزّ و جلّ اتنا ہی ہمیں ذلیل و خوار کرے گا‘‘۔
اور اب میں مسلم خواتین کو نصیحت کروں گا کہ ان حقوق کی پاسداری کیجئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کئے ہیں اور اس میں ہرگز غفلت نہ برتیں اور ان مکار تحریکوں اور اپیلوں سے ہوشیار رہیں جن کی دھوکہ دہی اور فتنہ انگیزی کھل کر سامنے آ چکی ہے اور یہ کہ سابقہ بزرگ خواتین کے نقشِ قدم پر چلیں، مزید یہ کہ ملازمت کے شعبہ میںاپنی انفرادیت برقرار رکھنے اور مردوں میں گھلے ملے بغیر کام کاج کرنے کے لئے سعودی خواتین کے بے مثال تجربہ سے فائدہ اٹھائیں۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ وسلّم

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...