Sunday 15 January 2017

رمضان المبارک مقاصد و نتائج

 

رمضان المبارک مقاصد و نتائج

  سید محمد داوٗد غزنوی رحمہ اللہ
 
  رمضان المبارک  مقاصد و نتائج


الحمد ﷲ رب العالمین، والعاقبۃ للمتقین، والصلوٰۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین۔
اما بعد!
    رمضان المبارک ایک عظیم اور بابرکت مہینہ ہے جو کہ مسلمانوں کیلئے عطیہ الٰہی ہے جس میں لیلۃ القدر جیسی مبارک رات ہے، اس ماہ میں نوافل کا اجر فرض کے برابر اور فرائض کا ثواب کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے، مسلمان اس ماہِ مقدس میں دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات کو بارگاہِ رب العزت میں قیام کر کے اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں
   روزہ نفس کو جھکانے، مطیع کرنے اور روحانی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ ہے، یعنی رمضان المبارک میں روزے رکھ کر اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے، روحانی قوت کو دو چند کر لیا جائے تاکہ سارا سال اسی قوت کے ذریعے فواحش و منکرات اور شیاطین کے حملوں سے محفوظ رہا جائے۔
    بھوک اور پیاس پر صبر کرنا، کسی کی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے درگزر کرنا اور اپنا مال دوسروں کو کھلانا، یہ سب روحانی غذائیں ہیں۔
     مگر جب ہم اپنے طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے روحانی قوت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، رمضان المبارک کو صرف جسمانی ضروریات کیلئے مختص کر دیا ہے۔ دیگر تمام ایام کی بنسبت اس میں ایسی ایسی چیزیں پکاتے ہیں کہ جن کا عام دنوں میں تصور بھی نہیں ہوتا۔ کھجلہ، پھینی، دودھ جلیبیاں، انواع و اقسام کے فروٹ، سموسے، پکوڑے، دہی بڑے اور نہ جانے کیا کچھ سحری اور افطاری میں کھاتے پیتے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ نے روزے اس لئے فرض کئے تاکہ خوراک میں مناسب وقفے سے روحانی قوت کا احیاء ہو مگر ہم نے حرص و لالچ میں مبتلا ہو کر اسے زیادہ کھانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے مگر ہم مزید بے صبرے ہو جاتے ہیں۔
    یہ مہینہ حرص و ہوس، اور خواہشات سے بچنے کی تربیت ہے مگر ہماری خواہشات اور حرص و ہوس میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
    ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم روزے کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی غذا میں کمی کریں، سحری و افطاری کا سامان خریدتے ہوئے کفایت شعاری سے کام لیں اور محمد رسول اللہ  کے طریقے کے مطابق کھجور، دودھ یا پانی سے روزہ افطار کریں تاکہ ہر شخص کے دل میں دوسرے کو افطاری کروانے اور اسے کھانا کھلانے کا جذبہ پیدا ہو۔
    دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کے اصل مقاصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
    محترم قارئین کرام!
    اس وقت جو رسالہ آپ کے ہاتھ میں ہے یہ غزنوی خاندان کے گلِ سرسبد فضیلۃ الشیخ سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کا ایک مضمون ہے، سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ۔ امام الوقت عبدالجبار غزنوی کے فرزند ِ ارجمند اور سید عبداللہ غزنوی کے پوتے تھے۔ عالی قدر باپ اور بلند مرتبت دادا کا زہد و تقویٰ اور فضل و کمال آپ کی ذات میں سمٹ آیاتھا۔
    سید صاحب جولائی یا اگست 1895ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی، بعض دیگر اساتذہ سے بھی علمی اکتساب کیا، فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصے مدرسہ غزنویہ امرتسر میں مسندِ تدریس پر متمکن رہے، بعد ازاں تحریک خلافت کے زمانے میں سیاست میں آ گئے اور آزادئ وطن کی خاطر مختلف اوقات میں تقریباً دس سال پسِ دیوارِ زنداں رہے۔
   سید صاحب 1961ء میں دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے، علاج و معالجے کا سلسلہ چلتا رہا مگر 16 دسمبر 1963ء کو پڑنے والا دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور یہ عظیم المرتبت شخصیت اپنے معبودِ برحق سے جا ملی۔ اگلے دن جنازہ اٹھایا گیا، لوگوں کی کثیر تعداد شریک ِ جنازہ تھی، مولانا اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں اس آفتابِ علم و عمل اور نمونہء سلف کو آسودہ خاک کیا گیا۔
ع۔          آسماں تیری لحد پر شبنم فشانی کرے۔
   سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے حصولِ آزادی کی تمام تحریکوں میں حصہ لیا اور ملک کے صف اوّل کے رہنماؤں میں ان کا شمار ہوا۔ قید و بند کی بے پناہ صعوبتیں جھیلیں ان کی نیکی، مستقل مزاجی، قرآن و حدیث سے بے پناہ محبت، تقویٰ شعاری، سخاوت وجودت، اسلام سے بے پناہ تعلق اور آزادئ وطن کے لئے ایثار و قربانی کی شہادت اپنے اور بیگانے سبھی دیتے تھے۔
   مولانا ظفر علی خان نے ایک موقعے پر سید صاحب کے لئے یہ شعر کہے۔       ؎
قائم ہے ان سے ملت ِ بیضاء کی آبرو
اسلام کا وقار ہیں داؤد غزنوی
رجعت پسند کہنے لگے ان کو دیکھ کر
آیا ہے سومنات میں محمود غزنوی
   سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے یکم اپریل 1927ء کو امرتسر سے  ہفت روزہ اخبار ’’توحید‘‘ جاری کیا تھا۔ یہ اپنے دور کا بہترین  ہفت روزہ تھا جو صرف دو سال جاری رہا۔ اس کا آخری شمارہ یکم مئی 1929ء کو شائع ہوا تھا۔
    پھر سید صاحب کی وفات کے ڈیڑھ سال بعد آپ کے صاحبزادے سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کی نگرانی میں جولائی 1965ء کو  ہفت روزہ توحید بڑی شان سے لاہور سے جاری کیا گیا لیکن اب یہ چار پانچ مہینے ہی جاری رہ سکا۔
   یہ مضمون  ہفت روزہ توحید امرتسر میں 13 فروری 1929ء کی جلد نمبر 4 اور شمارہ نمبر 17-16-15 میں شائع ہوا تھا۔ بعد ازاں ماہنامہ محدث لاہور نے اسے نومبر 2001ء کے شمارے میں شائع کیا۔
    ’’دارالتقویٰ‘‘ سلف صالحین کے رشحاتِ قلم اور ان کے لٹریچر کو اپنی درخشاں روایات کے مطابق افادئہ عام کے لئے شائع کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر میں حصہ لینے والے تمام افراد کی جہودِ مخلصہ کو قبول فرمائے آمین۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حافظ عبدالحمید گوندل
فاضل
المعھد السلفی للتعلیم والتربیہ کراچی
نوٹ:۔   سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے متعلق مفصل معلومات کیلئے ملاحظہ فرمائیں ’’نقوش عظمت ِ رفتہ‘‘ از الشیخ محمد اسحق بھٹی حفظہ اللہ۔

رمضان المبارک
نزولِ قرآن مجید کی یادگار اور اُسوئہ محمدی کے قیام کی ہدایت
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہٗ، وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ  مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوْا اﷲَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرۃ:185)
’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآنِ حکیم نازل ہوا، جو انسانوں کیلئے موجب ِ ہدایت ہے، اور جس کی تعلیم میں ہدایت و ضلالت اور حق و باطل کی تمیز کے لئے کھلے نشان موجود ہیں، پس جو اس مہینے میں زندہ موجود ہو، وہ روزے رکھے اور جو مریض ہو یا مسافر وہ ان کے بدلے دوسرے دنوں میں پھر روزے رکھ لے۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں چاہتا، تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو، اور روزے اس لئے فرض ہوئے کہ تم اس عطائے ہدایت پر اللہ کی بڑائی کرو اور شکر بجا لاؤ‘‘
قرآن مجید نے مذکورہ آیات میں روزے کا حکم دیتے ہوئے ماہِ صیام کی اصل حقیقت، مقصد اور اس کے نتائج کی اطلاع دی ہے، ہم ان آیاتِ قرآنی کے مضامین کو ان تین عنوانوں کے تحت تقسیم کر سکتے ہیں:
اوّل:    اصل حقیقت ماہِ صیام 
دوم:     مقصد صیام 
سوم:     نتائج صیام۔

اوّل:     حقیقت ِ ماہِ صیام

سب سے پہلے یہ فرمایا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اقلیم رسالت اور کشورِ نبوت کے سب سے بڑے تاجدار محمد بن عبداللہ علیہ الصلوۃ والسلام پر نامہ خیر و برکت اور دستورِ ہدایت قرآنِ حکیم کا نزول ہوا اور یہ اس وقت ہوا جبکہ آپ غارِ حرا کے اندر انسانی آبادی سے دور، مادّی ضروریات سے کنارہ کش ہو کر کئی کئی روز بھوکے اور پیاسے رہ کر راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مشغولِ دعا تھے اور انسانوں کو گمراہی، باطل پرستی، اور تمرد سے نکالنے کیلئے سربسجود رہتے تھے۔ پس رمضان المبارک یا ماہِ صیام کی اصل حقیقت نزولِ قرآن کی یادگار اور تذکار ہے، فرمایا:
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ} (البقرۃ:185
’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن حکیم نازل ہوا‘‘ ۔
اور حامل و مبلغِ قرآن علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُسوئہ حسنہ کی اقتدا اور اتباع ہے۔ فرمایا:
{فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہٗ}
’’تم میں سے جو شخص اس مہینے میں زندہ موجود ہو، وہ روزے رکھے‘‘۔

انبیاء کرام کا اُسوئہ حسنہ

قرآنِ کریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کے اعمالِ حیات  اور وقائعِ زندگی کو اس لئے پیش کیا گیاہے کہ ان کی اقتدا کی جائے اور ان کے اسوئہ حسنہ کی تأسی (پیروی) کی جائے۔ انبیاء کرام میں سے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے اعمالِ حیات کو ایک خاص عظمت و شرف اور اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اور لوگوں کو اس کے اتباع کی اس طریق پر دعوت دی،اور فرمایا:
( قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ)  (الممتحنہ:4)
’’یقینا تمہارے لئے ابراہیم کی زندگی میں اور ان لوگوں کی زندگی میں جو ایمان کے اعلیٰ مدارج میں انکے ساتھ نظر آتے ہیں، پیروی اور اتباع کیلئے بہترین نمونہ ہے‘‘۔
جس طرح قرآنِ کریم نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مبارک زندگی کو بطور اُسوئہ حسنہ کے دنیا کے سامنے پیش کیا، اسی طرح ہمارے نبی اکرم  کی پاکیزہ زندگی اور اعمالِ حیات کو بھی اُسوئہ حسنہ کے طور پر پیش کیا اور فرمایا:
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) (الاحزاب:21)
’’یقینا تمہارے لئے رسول اللہ  کے 
اعمالِ حیات میں بہترین نمونہ رکھا گیا ہے‘‘
یہی دو انبیاء ہیں جنہیں یہ شرفِ مخصوص حاصل ہے کہ قرآن نے انکی پاکیزہ زندگیوں کیلئے اسوئہ حسنہ کا لفظ استعمال کرکے دنیا کیلئے انہیں بہترین نمونہ کے طور پر پیش کیا اور انکے عملوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کرکے ضائع ہونے سے بچا دیا۔

اسوئہ ابراہیمی علیہ السلام

سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ سرزمین پر لاکر بسایا کہ اللہ کی تحمید و تقدیس بجالائیں۔ اللہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ان کے عزیز فرزند کی قربانی طلب کی۔ باپ بیٹا دونوں نے اس قربانی کو پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے بندوں کی یہ مخلصانہ ادائیں کچھ اس طرح بھاگئیں کہ اس موقع کی ہر حرکت کو ہمیشہ کیلئے قائم کر دیا اور اس کو ہمیشہ دنیامیں زندہ رکھنے کیلئے اس موقع کی ہر ہر ادا کو پیروانِ دینِ حنیف پر فرض کر دیا گیا، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر سال جب حج کا موسم آتا ہے تو لاکھوں انسانوں کے عمل سے اسوئہ ابراہیمی جلوہ نما ہوتا ہے، اور ان میں سے ہر متنفس وہ سب کچھ کرتا ہے جو آج سے کئی ہزار برس پہلے اللہ کے دو مخلص بندوں نے وہاں کیاتھا۔ یہی وہ دائمی بقا ہے جس کا ذکر یوں ہے:
{وَوَھَبْنَا لَہُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا}  (مریم:129)
’’ہم نے جناب ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو اپنی رحمت سے بہت بڑا حصہ دیا اور ان کیلئے اعلیٰ و اشرف ذکرِ خیر دنیا میں باقی رکھا‘‘۔

اسوئہ محمدی 

     سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حضور یہ دعا و التجا کی تھی کہ :
{ رَبَّنَا وَابْعَث  فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیَاتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْہِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ) (البقرۃ:129)
’’اے پروردگار! میری اولاد میں سے ایک ایسا رسول بھیج جو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے، کتاب و سنت کی تعلیم دے اور تمام ناپاک عقائد سے ان کو پاک کر دے‘‘۔
اللہ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول کی اور اس معلمِ کتاب و سنت کو مبعوث فرمایا اور دنیا کے سامنے ’’اسوئہ محمدی‘‘ کو پیش کیا۔ اس اسوئہ عظیمہ کا سب سے پہلا منظر عالم ملکوتی میں وہ استغراقِ تام تھا، جبکہ صاحب ِ سنت یا صاحبِ اسوئہ انسانوں کو ترک کرکے اللہ کی صحبت اختیار کئے ہوئے تھا اور انسانوں کے بنائے ہوئے گھروں کو چھوڑ کر غارِ حرا کے تیرہ و تاریک حجرے میں گوشہ نشین ہوگیا تھا۔ وہ اس عالم میں کئی کئی راتیں جمالِ الٰہی کے بے کیف نظارے میں بسر کرتا رہتا تھا تا آنکہ اس تنگ و تاریک غار کے اندر قرآن کا نور طلوع ہوا، اور اللہ کو اپنے پیارے بندے کی اس ماہ میں مخلصانہ عبادت، گوشہ نشینی، بھوک پیاس اور راتوں کو جاگنا کچھ ایسا پسند آیا کہ دنیا میں اسوئہ حسنہ کے طور پر اس کو ہمیشہ زندہ رکھا۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے دین حنیف کے داعی اوّل کے اسوئہ حیات کو دوا میت نجشی، اسی طرح دین حنیف کے آخری مکمل اور مَتمَّم وجود کے اسوئہ حسنہ کو بھی ہمیشہ کیلئے قائم کر دیا۔
آپ راتوں کو بارگاہِ الٰہی میں مشغولِ عبادت رہتے تھے، پس پیروانِ اسوئہ حسنہ او رمتبعین سنت ِ محمدیہ بھی رمضان المبارک کی راتوں میں قیامِ لیل کرنے لگے اور تلاوت و سماعت ِ قرآن مجید سے وہ تمام برکتیں ڈھونڈنے لگے جو اس ماہِ مبارک کو قرآن حکیم کے نزول سے حاصل ہوئیں۔ آپ  اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک تنہا گوشہ میں خلوت نشین ہوتے تھے۔ پس ہزاروں مؤمنین قانتین اس ماہِ مقدس میں اعتکاف کیلئے مساجد میں گوشہ نشین ہونے لگے، اور اس طرح غارِ حرا کے اعتکاف کی یاد ہر سال زندہ ہونے لگی۔ آپ بھوکے پیاسے رہتے تھے، لہٰذا تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم بھی بھوکے پیاسے رہو، تاکہ ان برکتوں اور رحمتوں میں سے حصہ پاؤ جو نزولِ قرآن کے مبارک دنوں کے لئے مخصوص تھیں۔
چنانچہ جس طرح اسوئہ ابراہیمی کی یادگار حج کو فرض کرکے قائم رکھی گئی، اسی طرح اسوئہ محمدی  کی بھی یادگار ماہِ رمضان المبارک کی صورت میں قائم رکھی گئی جو چودہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی زندہ ہے اور ان شاء اللہ ابدالآباد تک زندہ رہے گی۔

رمضان المبارک

رمضان المبارک کیاہے؟ سعادتِ انسانی اور ہدایت ِ اقوام و ملل کے ظہور کی وہ عظیم الشان یادگار ہے جس کا دروازہ قرآن حکیم کے نزول سے دنیا پر کھلا۔ یہی مہینہ اللہ کی سب سے بڑی رحمت و برکت کے نزول کا ذریعہ بنا اور اسی مہینہ میں اللہ کی رحمتوں کی صدیوں کے بعد بارش ہوئی اور اسی عہد میں دنیا کی وہ سب سے بڑی خشک سالی ختم ہوئی جو چھ سو سال سے بنی نوع انسان کے قلب و روح پرچھائی ہوئی تھی اور اسی موسم میں ایّام اللہ کی وہ بہار آئی جس میں کوہِ فاران کی چوٹیوں پر ابرِ رحمت نمودار ہوا تاکہ کشورِ انسانیت کی سوکھی کھیتیوں کو سر سبز کرے اور کائنات ارضی کی تشنگی ہدایت کو سیراب کرے۔

لیلۃ القدر

    اور وہ کون سے رات تھی؟ جس میں سعادتِ انسانی کا یہ مبارک پیغام آیا جس کی تبلیغ صادق و مصدوق محمد عربی علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد ہوئی، جس میں وحی الٰہی کا دروازہ غارِ حرا کے گوشہ نشین پر کھلا، وہ عزت و حرمت کی رات تھی۔ وہ ہزاروں راتوں بلکہ ہزاروں مہینوں سے بہتر رات تھی، کیونکہ اس رات ہم پر برکاتِ ربانی کی سب سے پہلی بارش ہوئی۔ اس رات خزینہ نبوت کے حامل قلب پرکلام الٰہی کے اسرار سب سے پہلے منکشف ہوئے۔ یہ فرشتوں کی آمد کی رات تھی۔ اس رات آسمان کی باتیں زمین والوں کو سنائی گئیں اور اسی رات عصیاں و سرکشی کی تاریکی میں مبتلا اور ظلم و تعدی سے مضطرب اور بے چین دنیا کو امن اور سلامتی کا پیغام ملا:
{اِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ 0 وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ 0 لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ0  تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ0  سَلَامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ} (سورۃ القدر )
’’ہم نے قرآن کو عزت و حرمت والی رات میں اتارا، اور ہاں تمہیں کیا معلوم کہ عزت و حرمت والی رات کیا ہے؟ وہ رات ہزار مہینے سے بہتر ہے، جس میں ارواحِ مقدسہ اور فرشتے حکم الٰہی سے احکام لے کر نازل ہوتے ہیں۔ اس رات میں طلوع صبح تک سلامتی ہی سلامتی ہے‘‘

قیامِ رمضان

     یہ انہی احسانات و انعامات الٰہیہ کا شکریہ ہے کہ مسلمان دن بھر کی بھوک اور پیاس کے بعد عجیب جوش اور محویت کے عالم میں رات کو اللہ کی یاد کیلئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دنیا کا ذرہ ذرہ خاموش اور محوِ خواب ہوتا ہے، جس نے اس ظلمت کدہ عالم میں صرف ہمیں ایک ایسا چراغ بخشا جس سے ہمارے قلوب منور ہوگئے۔ اسی کی تسبیح و تقدیس کے نغمے بلند کرتے ہیں جس نے اقوامِ عالم میں ہمیں یہ عزت بخشی کہ ہم نے اس کے رسول کی دعوت کو قبول کیا اور اس کی سنت کو زندہ کیا۔
سُبْحَانَ ذِی الْمَلَکِ وَالْمَلَکُوْتِ، سُبْحَانَ ذِی  الْعِزَّۃِ  وَ الْعَظْمَۃِ  وَ الْھَیْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْکِبْرِیَائِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحَانَ الْمَلَکِ الْحِّیِ الَّذِیْ لَا یَنَامُ وَلَا یَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ۔ (کنز العمّال :22661,2063)
’’ اس حکومت اور شہنشاہی والے کی تقدیس، اس عزت وعظمت، ہیبت و قدرت، کبریائی اور جبروت والے کی تقدیس ہو۔ اس زندہ بادشاہ کی تقدیس ہو جو نہ کبھی سوتا ہے اور نہ کبھی مرتا ہے، پاک اور قدوس ہے ہمارا رب، اورتمام فرشتوں اور روحوں کا رب‘‘۔

دوم:     مقصدِ صیام

یہ ایک حقیقت ِمسلّمہ ہے کہ انسان جسم اور روح سے مرکب ہے، اور جس قدر روح میں پاکیزگی اور طہارت ہوگی، اسی قدر انسان ملکوتی صفات کا مظہر اور حامل ہوگا، اور جس قدر انسان کھانے پینے اور لذائذ شہوانی میں زیادہ منہمک ہو گا، اسی قدر قوائے بہیمیہ مشتعل اور قوائے ملکیہ کو شکست دینے کے در پے ہوں گے۔ چونکہ قوائے بہیمیہ کی قوت و طاقت کا دارو مدار کھانے پینے اور لذاتِ شہوانیہ میں انہماک پر ہے، اسی لئے ظاہر ہے کہ نفس کی قہر مانی کو شکست دینے اور قوائے بہیمیہ کو کمزور کرنے کے لئے ان اسباب و دواعی کو کم کرنے کی ضرورت ہے جن سے قوائے بہیمیہ کو طاقت اور ملکوتی صفات کو شکست ملتی ہے۔ اور یہی مقصد روزہ کا ہے جس کی طرف آیت زیب ِ عنوان میں اشارہ کیاگیا ہے، لیکن اصل مقصد چونکہ عبادتِ روح ہے نہ کہ تعذیب ِ جسم، اس لئے اسلام نے تکلیف ِ جسم کو اس قدر شدید اور ناقابل برداشت نہیں بنایا کہ اس سے اصل مقصد فوت ہوجائے۔ اس لئے سال بھر میں صرف ایک مہینہ روزوں کیلئے مخصوص کر دیا، جس میں قرآن مجید کا نبی الرحمہ  پر نزول ہوا، تاکہ یہ مبارک مہینہ قرآنِ مجید کے نزول کی یادگار ہو اور روزوں کے ذریعے روح کی پاکیزگی اور طہارت کا سبب بھی ہو۔
     چونکہ اصل مقصد تقویٰ اور تزکیہ روح ہے، نہ کہ تعذیب ِ جسم جیسا کہ دوسرے مذاہب میں خیال کیا جاتا ہے، ا س لئے تقلیل غذا اور لذائذ شہوانیہ کی ایسی صورت قائم کر دی جو سوائے معذور انسانوں کے باقی سب کیلئے قابل عمل اور آسان ہو۔ کیونکہ تقلیل غذا کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ مقدار غذا کم کر دی جائے اور دوسرا یہ کہ خوراک کے مختلف اوقات میں معتاد وقفہ سے زیادہ وقفہ کر دیا جائے۔  اسلام نے اور دوسرے مذاہب نے بھی تقلیل غذا کی دوسری صورت کو تجویز کیاہے۔
     ا س لئے کہ پہلی صورت یعنی مقدارِ غذا کو کم کردینا اگر روزہ قرار دیا جاتا تو اوّل یہ کسی قاعدہ اور ضابطہ کے ماتحت نہ ہوتا کیونکہ اگر کم وزن مقرر کر دیاجاتا تویہ اختلاف ِ ملک، اختلافِ آب و ہوا، اختلافِ مزاج اور اختلافِ قویٰ کی بناپر کسی حالت میں درست نہ ہوتا اور اگر ہر ایک شخص کیلئے انفرادی طور پر حکم ہوتا کہ اپنی معتاد غذا کا نصف کھاؤ یا اس سے کم و بیش تو یہ بھی ایک ناقابل عمل چیز تھی، کیونکہ ہر ایک انسان کی اگرچہ ایک معتاد غذا ضرور ہے لیکن پھر بھی ہر شخص کو اپنی معتاد غذا کا ٹھیک نصف یا تہائی کرنا اور ایک لقمہ بھی کم و بیش نہ ہونے دینا قریباً ناممکن ہے، اور ثانیاً اس سے قانون اور ضابطہ کی وہ عمومیت جو اسکی سب سے بڑی صفت ہے، جاتی رہتی لہٰذا تقلیل غذا کی دوسری صورت اختیار کی، یعنی خوراک کے اوقات میں معتاد اوقات سے زیادہ فاصلہ جس سے بھوک اور پیاس محسوس ہو اور قوائے بہیمیہ کی پامالی ہو اور روح کو طہارت اور پاکیزگی حاصل ہو۔
   اسلام نے اس بھوک، پیاس اور ترک لذائذ شہوانیہ کو اس قدر اور ناقابلِ عمل نہیں بنایا کہ یہ مقصود بالذات ہو جائے اور جو اصل مقصد ہے، وہ فوت ہوجائے۔ اس کیلئے ضرورت ہے کہ اسلامی عبادت و ریاضت کا دوسرے مذاہب سے مقابلہ کرکے دکھایا جائے تاکہ معلوم ہو کہ ارشاد ربانی {یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ}کس قدر اپنے اندر ناقابل تردید صداقت رکھتا ہے۔
     دوسرے مذاہب نے تکلیف و تعذیب جسمانی کو بھی ایک قسم کی عبادت بلکہ بہترین اقسام عبادت میں سے قرار دیا ہے۔ اور اسی تخیل کا یہ اثر ہے کہ یہودیوں کے ہاں قربانی اس قدر طویل و کثیر رسوم پر مشتمل تھی جس کی صرف شرائط اور لوازمات کا بیان تورات کے چار پانچ صفحوں میں مذکور ہے۔ افطار کے وقت صرف ایک دفعہ کھاسکتے تھے، اس کے بعد دوسرے روز کے وقت افطار تک کچھ نہیں کھا سکتے تھے (یعنی مستقل سحری کھانے کی اجازت نہ تھی) اور اگر بغیر کھائے ہوئے بدقسمتی سے نیند آگئی تو پھر کھانا مطلق حرام تھا۔ ایام صیام کی پوری مدت میں بیویوں کی مقاربت بھی حرام تھی۔
     عیسائی راہبوں نے رہبانیت کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے شرعی بیاہ کو بھی اپنے اوپر حرام کر دیا، اور ترکِ آسائش و لذائذ جسمانی ان کے ہاں بہترین عبادت تھی۔ قربان گاہ، صلیب اور کنواری کے بت کے آگے گھٹنوں کے بل گھنٹوں جھکے رہنا، کئی کئی روز کھانا پینا چھوڑ دینا زہد و تقویٰ کی انتہا سمجھی جاتی تھی۔
    ہندو جوگیوں نے تپسیا اور ریاضت ِ شاقہ کی اور بھی عجیب و غریب رسم ایجاد کی۔ انکے ہاں سالہا سال تک کھڑے رہنا، سخت دھوپ میں بغیر کسی سائے کے کھڑا رہنا، سردیوں میں ننگے بدن رہنا، تمام جسم پر راکھ ملنا، دس دس برس تک ایک ہاتھ کو ہوا میں بلند رکھنا اور ایک ایک چلہ تک کھاناپینا بالکل چھوڑ دینا تقرب الی اللہ کے حقیقی راستے سمجھے جاتے تھے۔ان میں جَینیوں کا فرقہ پیدا ہوا تو اس نے ناک، منہ اور کان کو بند رکھنا شروع کیا تاکہ ان کے تنفس کے ذریعے کسی کیڑے کو اذیت نہ ہو۔ ہندوؤں میں بُدھ کا فرقہ پیدا ہوا تو اس کے بھکشو جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنے لگے اور گھاس، پتوں اور بھیک کے ٹکڑوں پر گزر کرنے کو زہد و اتقا کی علامت سمجھنے لگے، جس کی معمولی سی یادگار اس وقت بھی برما میں موجود ہے۔
    لیکن اسلام نے رہبانیت کی تمام شکلوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے یہ اعلان فرمایا :
لا رھبانیۃ فی الاسلام
اسلام میں کسی قسم کی رہبانیت نہیں ہے۔
یہود و نصاریٰ جس رہبانیت پر فخر کرتے تھے اس کے متعلق یہ فرما کر رہبانیت کی حقیقت بے نقاب کر دی کہ:
{وَ رَھْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنَاھَا عَلَیْہِمْ} 
                                    (الحدید:27)
’’یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد ہے، ہم نے اُن کو اس قسم کا کوئی حکم نہیں دیا‘‘۔
غرض اسلام نے تعذیب ِ جسمانی اور ریاضتِ شاقہ کو خلاف منشا دین اور انسان کی ضعیف گردن کے لئے بارِ گراں سمجھ کر اس کو غلط قرار دیا اور پیغمبر اسلام کی تعریف میں یہی فرمایا:
{ وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ} (الاعراف:157)
’’ اور اس طوق و زنجیر کو جو شدید احکام کی، ان کی گردن پر پڑی ہوئی تھی، علیحدہ کرتاہے‘‘۔
اور روزوں کے حکم کے بعد خاص طور پر فرمایا:
(یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ)  (البقرۃ:185)
’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں‘‘۔

صیام کے بارے میں اسلام کی آسانیاں

٭ اسلام نے صیام کے سلسلہ میں جو آسانیاں امت مسلمہ کیلئے پیش کی ہیں، ان کے مطالعہ سے اس آیت کی پوری پوری تشریح سامنے آجاتی ہے۔
 مثلاً اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں شب وروز کا روزہ ہوتا تھا، اسلام نے روزے کی مدت صرف صبح صادق سے شام تک قرار دی۔
{حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِِّیَامَ اِلٰی اللَّیْلِ}  (البقرۃ:187)
’’ کھاؤ پیئو یہاں تک کہ رات کے تاریک خط سے صبح کا سپید خط ممتاز ہوجائے۔ پھر روزے کو ابتدائے شب (شام) تک پورا کرو‘‘۔
بعض لوگ عمر بھر روزے رکھتے تھے، اسلام نے اس کو بالکل ممنوع قرار دیا۔نبی اکرم    نے فرمایا :
’’لا صام من صام الأبد‘‘ (ابن ماجہ)
’’ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے کبھی روزہ نہیں رکھا‘‘۔
٭ ایامِ صیام میں رات کو سو جانے کے بعد پھر کھانا حرام تھا، اسلام نے اس کو منسوخ قرار دیا جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ابتدائے اسلام میں جب روزہ رکھتے اور افطار کا وقت آجاتا اور وہ افطار کرنے سے پہلے سو جاتے تو پھر رات بھر اور دن بھر دوسرے دن کی شام تک کچھ نہ کھاتے۔ اس اثناء میںقیس بن صرمہ انصاری جو روزہ سے تھے، افطار کا وقت آیا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے، انہوں نے کہا: ہے تو نہیں لیکن چل کر ڈھونڈتی ہوں، قیس دن بھر کام کرکے تھکے تھے، سو گئے۔ بیوی آئیں تو افسوس کرکے رہ گئیں، جب دوپہر ہوئی تو قیس کو غش آگیا، یہ واقعہ نبی  سے بیان کیا گیا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
{وَ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ} (البقرۃ:187)
’’ کھاؤ پیئو، یہاں تک کہ رات کے تاریک خط سے صبح کا سپید خط ممتاز ہوجائے‘‘۔
٭ اسلام سے پہلے ایام صیام کی پوری مدت میں مقاربت سے محترز رہتے تھے لیکن چونکہ یہ ممانعت انسان کی فطری خواہش کے بالکل منافی تھی، اس لئے اکثر لوگ اس میں خیانت کے مرتکب ہوتے تھے اسلام نے اس حکم کو صرف روزہ کے وقت تک محدود رکھا جو صبح سے شام تک کا زمانہ ہے۔ فرمایا :
{اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفْثُ اِلٰی نِسَائِ کُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌلَّھُنَّ عَلِمَ اﷲُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْاٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اﷲُ لَکُمْ}
                                    (البقرۃ:187)
’’ تمہارے لئے روزہ کی شب میں اپنی بیویوں سے مقاربت حلال کی گئی، تمہارا اور ان کا ہمیشہ کا ساتھ ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ تم اس میں خیانت کرتے تھے، پس اس نے تم کو معاف کر دیا۔ اب ان سے ملو جلو اور اللہ نے تمہاری قسمت میں جو لکھا ہے، اس کو ڈھونڈو‘‘۔
٭ اسلام میں بھول چوک اور خطأ و نسیان معاف ہے، رسول اللہ  نے امت ِ مسلمہ کو اس شرف سے مخصوص کرتے ہوئے فرمایا:
’’رفع عن أمتی الخطأ والنسیان‘‘
’’ میری امت سے خطا و نسیان معاف کیاگیا‘‘۔
اسلئے اگر حالت ِ صوم میں کوئی شخص بھول چوک سے کچھ کھا لے یا پی لے، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، آپ نے فرمایا:
’’ من أکل أوشرب ناسیا فلا یفطر فانما ھو رزق اﷲ‘‘ (ترمذی)
’’ جو بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، وہ تو اللہ کی روزی ہے‘‘۔
٭ اسی طرح وہ افعال جو گو روزہ کے منافی ہیں لیکن انسان سے قصداً سر زد نہیں ہوئے بلکہ وہ اس میں مجبور ہے،مثلاً محتلم ہوجانا، بلاقصد قے ہوجانی، ان چیزوں سے بھی نقض صوم نہیں ہوتا۔ بعض لوگ اس حدیث کی بناپر کہ ’’ایک بار آپ کو استفراغ (قے) ہواتو آپ نے روزہ توڑ دیا‘‘ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ استفراغ ناقض صوم ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آپ نے نفلی روزہ رکھاتھا۔ اتفاقی استفراغ سے بنظر ضعف آپ نے روزہ توڑ دیا جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’ جامع ترمذی ‘میں لکھا ہے۔
٭ اسلام سے پہلے دوسرے ادیان میں بوڑھوں، کمزوروں، بیماروں اور معذوروں کیلئے کوئی استثنا نظر نہیں آتا، لیکن اسلام نے ان تمام اشخاص کو مختلف طریق سے مستثنیٰ قرار دیا۔ بیمار اور مسافر کے لئے فرمایا کہ وہ رمضان کے علاوہ اور دنوں میں قضا روزے رکھ لیں۔
٭ عورتوں کے فطری عذرات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے ایامِ عادیہ، ایام حمل، اور ایام ریاضت میں رمضان کے روزے معاف کر دیئے اور ان کی بجائے دوسرے دنوں میں روزوں کی قضا یا فدیہ مقرر کر دیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی آیت {وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن} کی تفسیر میں یہی لکھا ہے۔

سوم:    روزے کے نتائج

مقصد صوم اور اس کے نتائج کی تشریح کے لئے آیات زیب ِ عنوان کے مندرجہ ذیل جملوں کی طرف توجہ فرمائیں:
{لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
{لِتُکَبِّرُوْا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ} اللہ نے جو تم کو راہِ راست دکھائی ہے اس پر اللہ کی تکبیر و تقدیس کرو۔
{وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ} تاکہ تم اس نزول خیرو برکت پر اللہ کا شکر بجا لاؤ۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ روزہ کے مقاصد اوراس کے نتائج و آثار میں ان تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
(1)  اِتقا 
(2)  تکبیر تقدیس 
(3)  حمدو شکر
    اگر روزہ دار نے اپنی زندگی میں روزہ کے نتائج کے طور پر ان تینوں اُمور کو نہ پایا تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ روزہ رکھا گیا اور اس فرض کی انجام دہی ہوگئی۔
    کیونکہ انسانی اعمال و اشغال کا وجود فی الحقیقت ان کے تنائج و آثار کا وجود ہے۔ اگر نتائج و آثار ظہور پذیر نہ ہوئے تو پھر یہ نہ کہیئے کہ ان اعمال کا وجود تھا۔ اگر آپ دوڑتے چلے جا رہے ہیں کہ راستہ ختم ہو اور منزل قریب ہو، لیکن آپ غلطی سے بھٹک کر دوسرے راستے پر جاپڑتے ہیں، جس سے آپ کی مسافت لمبی اور منزل دور تر ہوتی جاتی ہے، تو آپ کی سعی لاحاصل اور ساری تگ و دو عبث ہوتی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے مسافت طے کر لی اور منزل پر پہنچ گئے۔ علیٰ ھٰذا القیاس اگر روزہ دار روزہ رکھتا ہے، کھانے پینے اور جماع سے پرہیز کرتا ہے، لیکن روزہ کے نتائج یعنی اتقا، تکبیر وتقدیس اور شکر وحمدالٰہی اس کے اندر نمایاں نہیں ہوتے تو اس کو روزہ دار نہیں کہا جا سکتا۔ ہم یہ کہیں گے کہ وہ فاقہ کش ہے، وہ پیاسا ہے، لیکن افسوس کہ اس کی گرسنگی (بھوک) اور تشنگی کی حیثیت اس پھول سے زیادہ کچھ نہیں جس میں رنگ و بو نہیں۔ یقینا اس روزہ دار کی مثال ایک بے جوہر آئینہ اور بے روح جسم کی ہے، اور ہر شخص سمجھتا ہے کہ ایک جسم بے روح، ایک آئینہ بے جوہر، اور ایک بے رنگ و بو گل ایسی چیزیں ہیں جن کی کوئی قدرو قیمت نہیں، اسی حقیقت ِ کبریٰ کی طرف نبی اکرم  نے اشارہ کیا ہے:
رب صائم لیس لہ من صیام إلا الجوع و رب قائم لیس لہ من قیام إلا السھر
                                           (ابن ماجہ)
’’کتنے روزہ دار ہیں جن کو روزہ سے بجز بھوک کے کچھ حاصل نہیں اور کتنے رات کا قیام کرنے والے ہیں جن کو نماز سے جاگنے کے سوا کچھ فائدہ نہیں ‘‘۔
یہ کون بدقسمت لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پیٹ نے روزہ رکھا لیکن دل نے روزہ نہیں رکھا، ان کی زبان پیاسی تھی لیکن دل پیاسا نہ تھا، پس یہ لوگ کیونکر حوضِ کوثر سے اس دن اپنی پیاس بجھانے کی توقع رکھتے ہیں جس دن ہر ایک کی زبان پر العطش العطش ہوگا۔
آج روزہ داروں کی کتنی محفلیں ہیں کہ ان میں غیبت کا مشغلہ نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس گناہ کی آلودگی اور ارتکاب سے روزہ نہیں ٹوٹتا، حالانکہ وہ اپنا روزہ توڑ چکے ہیں، لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ وہ روزہ توڑ رہے ہیں:
الصائم فی عبادۃ  من حین یصبح إلی أن یمسی مالم یغتب فإذا اغتاب خرق صومہ (دیلمی)
’’ روزہ دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں ہے، جب تک کسی کی غیبت نہ کرے اور جب وہ کسی کی برائی کرتا ہے تو اپنے روزہ کوپھاڑ ڈالتا ہے‘‘۔
    وہ سمجھتے ہیں کہ نفس کی اطاعت اور ہوا  و ہوس کی بندگی اور عمل شر، منافئ روزہ نہیں، لیکن ان کو سچا سمجھا جائے یا اس ہادی برحق کو جس نے فرمایا :
’’لیس الصیام من الاکل والشرب إنما الصیام من اللغو والرفث‘‘  (حاکم )
’’ روزہ کھانے پینے سے پرہیز کانام نہیں بلکہ لغو اور عمل شر سے پرہیز کانام ہے‘‘۔
جو لوگ جھوٹ اور عمل بد کو روزہ کے لئے مضر نہیں خیال کرتے اور دن بھر روزہ کے ساتھ اس میں مصروف رہتے ہیں، ان کو اپنی طرف سے کیا کہا جائے، اس مخبر صادق کا ارشاد پہنچائے دیتے ہیں جس کی کوئی تکذیب نہیں کر سکتا:
من لم یدع قول الزور والعمل بہ والجہل فلیس للہ حاجۃ أن یدع طعامہ و شرابہ  (صحیح بخاری :6058)
’’جو روزہ کی حالت میں جھوٹ اور جہالت کے کاموں کو نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ یہ روزہ دار بیکار اس کے لئے اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔
    پس اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ روزہ کی حقیقت کیا ہے۔ روزہ ایک ملکوتی حالت کے ظہور کانام ہے۔ صائم کا جسم انسان ہوتاہے لیکن اس کی روح فرشتوں کی زندگی بسر کرتی ہے جو نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں۔ وہ تمام مادیات عالم سے پاک اور ضروریاتِ دنیوی سے منزہ اور مصروف تسبیح و تحمید و تقدیس ہوتے ہیں۔ اس لئے صائم بھی نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے۔ وہ مادّیات سے پاک اور ضروریاتِ دنیوی سے منزہ رہنے کی، جہاںتک اس کی خلقت اور فطرت اجازت دیتی ہے، کوشش کرتا ہے۔ پس صائم مجسم نیکی ہوتا ہے، وہ کسی کی غیبت نہیں کرتا، وہ کسی کو برا نہیں کہتا، وہ کسی سے جہالت نہیں کرتا، وہ اس حکم کی تعمیل کرتا ہے:
’’و إذا کان  یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب فإن سابَّہ أحد أو قاتلہ فلیقل ’’إنی امرؤ صائم‘‘ (صحیح بخاری:1904)
’’ تم میں سے جب کسی کے روزے کادن ہو تو نہ بدگوئی کرے، نہ شوروغل کرے۔ اگر اسے کوئی برا کہے یا اس سے آمادئہ جنگ ہو تو کہہ دے: میں روزہ سے ہوں‘‘۔
روزہ فی الحقیقت نفس کشی کیلئے بہترین حربہ ہے اور شیطانی حملوں کی مدافعت کیلئے بہترین سِپر ہے۔ وہ دنیا میں بھی سِپر ہے اور آخرت میں بھی سپر ہے، دنیا میں بغاوت نفس کیلئے اور آخرت میں جہنم کے حملوں کیلئے اور کیوں نہ ہو جبکہ روزہ خیرِ محض اور نیکئ خالص ہے اور روزہ کی جزا خود اللہ دینے والا ہے۔
قال رسول اللہ ﷺ قال اللہ تعالیٰ:کل عمل ابن آدم لہ إلا الصیام فإنہ لی ، وأنا أجزی بہ والصیام جنۃ
                              (صحیح بخاری:1904)
’’ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انسان کا تمام عمل اس کیلئے ہے لیکن روزہ میرے لئے ہے، میں اس کی جزا دینے والا ہوں اور روزہ سپر ہے‘‘۔
پس مبارک اور خوش قسمت ہے وہ جو اس سِپر کو لے کر دنیا کے کارزارِ اعمال میں آتا ہے اور اللہ کی رحمت کا مستحق ہوتا ہے، کیونکہ یہ شر ف روزہ داروں کو ہی حاصل ہے کہ جب رمضان المبارک آتا ہے تو ان کیلئے اللہ کی رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بندکر دیئے جاتے ہیں، جیسا کہ اس صادق و مصدوق نے فرمایا :
إذا دخل رمضان فتحت أبواب الجنۃ و فی روایۃ أبواب الرحمۃ و غلقت أبواب جہنم و سلسلت الشیاطین
                            (صحیح بخاری :1899)
’’ جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے اور دوسری روایت میں رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے‘‘۔
    پس مبارک ہے وہ جو روزہ کو سِپر بناکر شیاطین کے حملوں سے اپنے کو بچاتا ہے۔ مبارک ہے وہ جس پر اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ مبارک ہے وہ جو  ان ایام میں اللہ کے لئے اپنے کھانے پینے اور جماع کو چھوڑتا ہے اور اس شرف سے مشرف ہوتا ہے جس کا اعلان اشرف الانبیاء نے اپنی زبانِ حق سے فرمایا :
کل عمل ابن اٰدم یضاعف الحسنۃ بعشر أمثالھا إلی سبع مأۃ ضعف قال اللہ تعالیٰ: إلا الصوم فإنہ لی و أنا أجزی بہ یدع شھوتہ و طعامہ من أجلی
                                (مسلم: کتاب الصیام: 2701)
’’ ابن آدم کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو نیکیوں تک دیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر روزہ اس سے مستثنیٰ ہے، وہ میرے لئے ہے، میں اس کا بے حساب اجر دوں گا، کیونکہ روزہ دار میرے لئے اپنی شہوانی خواہشات اور کھانے پینے کو چھوڑتا ہے‘‘۔

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...