Sunday 1 January 2017

آدم علیہ السلام کا وسیلہ(1)

 

آدم علیہ السلام کا وسیلہ


تحریر: ابو عبداللہ صارم
 
سیدنا آدم و حواء علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر دونوں نے وہ پھل کھا لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور انہیں جنت سے نکال دیا۔ دونوں اپنے اس کیے پر بہت نادم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان پر ترس آیا اور انہیں وہ کلمات سکھا دیے جنہیں پڑھنے پر ان کی توبہ قبول ہوئی۔
فرمان الٰہی ہے :
﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ (البقره:37:2)
’’آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ “ یہ کلمات کیا تھے؟ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ان کو بیان فرما دیا ہے :
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (الاعراف:37:2)
’’ان دونوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ “
یعنی آدم و حواء علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت مغفرت و رحمت کا واسطہ دیا یہ تو تھا قرآن کریم کا بیان۔ لیکن بعض لوگ اس قرآنی بیان کے خلاف جھوٹے، بدکردار، بدعقیدہ، بددین اور نامعلوم و مجہول لوگوں کی بیان کردہ نامعقول اور باہم متصادم داستانیں بیان کرتے اور ان پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے نظر آتے ہیں۔ کسی داستان میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیا، کسی میں ہے کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کا واسطہ دیا اور کسی میں مذکور ہے کہ ان کو سیدنا علی و سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے طفیل معافی ملی۔
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کی شان میں غلوّ ہے، جو کہ سخت منع ہے۔ یہی بات نصاریٰ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی غلطی عیسیٰ علیہ السلام کے طفیل معاف ہوئی۔
علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی (م : ۵۴۸ھ) نصاریٰ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والمسيح عليه السلام درجته فوق ذلك، لأنه الإبن الوحيد، فلا نظير له، ولا قياس له إلی غيره من الأنبياء، وھو الذي به غفرت زلة آدم عليه السلام.
’’مسیح علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند ہے، کیونکہ وہ اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کی کوئی مثال نہیں، نہ انہیں دیگر انبیائے کرام پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ انہی کی بدولت آدم علیہ السلام کی خطا معاف ہوئی تھی۔ “ (الملل والنحل:62/2، وفي نسخة:524/1)
ہماری سب لوگوں سے ناصحانہ اپیل ہے کہ وہ ان روایات کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا قرآن کریم کے خلاف ان پر اعتماد کرنا کسی مسلمان کو زیب دیتا ہے؟
آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱
 
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لما أذنب آدم صلى الله عليه وسلم الذنب الذي أذنبه، رفع رأسه إلى العرش، فقال : أسألك بحق محمد، إلاّ غفرت لي، فأوحى الله إليه، وما محمد، ومن محمد؟ قال : تبارك إسمك، لما خلقتني رفعت رأسي إلى عرشك، فإذا فيه مكتوب : لا إله الا الله محمد رسول الله، لا إله الا الله محمد رسول الله، فعلمت أنه ليس أحد أعظم عندك قدراً ممن جعلت إسمه مع إسمك، فأوحى الله عزوجل إليه: يا آدم ! إنه آخر النبيين من ذريتك، وإن أمته آخر الأمم من ذريتك، ولولاه يا آدم ما خلقتك.
’’جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (اے اللہ !) میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : محمد کون ہیں ؟ سیدنا آدم نے عرض کی : (اے اللہ !) تیرا نام پاک ہے۔ جب تو نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تھا۔ وہاں میں نے لا إله الا الله محمد رسول الله لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ اے آدم ! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل میں سے آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ “ (المعجم الصغير للطبراني:182/2، ح:992، وفي نسخة:82/2، المعجم الأوسط للطبراني:6502)

تبصرہ: اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو واقعی نیک لوگوں کی ذات اور شخصیت کے وسیلے پر دلیل بنتی اور فوت شدگان اولیا و صالحین کا وسیلہ بالکل مشروع ہو جاتا لیکن کیا کریں کہ یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، اسی لیے بعض لوگوں کے حصے میں آ گئی ہے۔
(۱) اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف و متروک“ ہے،
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں :

قال الذھبي: ضعفه الجمھور. ’’علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (البدرالمنير:449/1)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والأكثر علي تضعيفه. ’’جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں۔ “ (مجمع الزوائد:21/2)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (خلاصة البدر المنير:11/1)
اسے امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام دارقطنی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابن سعد، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ساجی، امام طحاوی حنفی، امام جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہم نے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔
امام بزار رحمہ اللہ (م : ۲۹۲ھ) فرماتے ہیں :
وعبدالرحمن بن زيد قد أجمع أھل العلم بالنقل علي تضعيف أخباره التي رواھا…
’’فن حدیث کے ماہر ائمہ کا عبدالرحمٰن بن زید کی بیان کردہ روایات کو ضعیف قرار دینے پر اتفاق ہے۔ “ (مسند البزار:8763)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
أجمعوا على ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔ “ (تھذيب التھذيب لابن حجر:178،179/6)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :
ضعيف باتفاقھم، يغلط كثيرا. ’’باتفاقِ محدثین ضعیف ہے، بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ “ (التوسل والوسيلة:167)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
عبدالرحمن، متفق على تضعيفه. ’’عبدالرحمٰن بن زید کو ضعیف قرار دینے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ “ (اتحاف المھرة: 97/12، ح15163)
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ’’اس نے اپنے باپ سے منسوب کر کے موضوع (من گھڑت) احادیث روایت کی ہیں۔ (المدخل الي كتاب الا كليل:154)
امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن أبيه، لا شيىء. ’’اس نے اپنے والد سے روایات بیان کی ہیں۔ یہ چنداں قابل اعتبار نہیں۔ “ (الضعفاء:122)
عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے یہ حدیث بھی چونکہ اپنے باپ ہی سے روایت کی ہے، لہٰذا یہ بھی موضوع (من گھڑت) ہے۔
(۲) امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن داود بن عثمان صدفی مصری کی توثیق مطلوب ہے۔
(۳) اس کے راوی احمد بن سعید مدنی فہری کی بھی توثیق چاہیے۔
 آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۲
 
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دعائیہ کلمات کے بارے میں پوچھا، جو سیدنا آدم علیہ السلام کو ربّ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سأل بحق محمد وعلي و فاطمة والحسن والحسين، إلا تبت علي، فتاب عليه.
’’آدم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے وسیلے سے دعا کر کے اللہ سے عرض کی کہ میری توبہ قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کر لی۔ “ (الموضوعات لابن الجوزي:398/1، الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوكاني، ص:395،394)

تبصره: یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے اور عمرو بن ثابت بن ہرمز ابوثابت کوفی راوی کی گھڑنت ہے۔ یہ راوی کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہو سکتا، جیسا کہ :
(۱) علی بن شقیق کہتے ہیں :
سمعت عبدالله بن المبارك، يقول على رؤوس الناس: دعوا حديث عمرو بن ثابت، فإنه كان يسب السلف.
’’میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرعام یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمرو بن ثابت کی بیان کردہ روایات کو چھوڑ دو، کیونکہ وہ اسلاف امت کو گالیاں بکتا تھا۔ “ (مقدمة صحيح مسلم، ص:11، طبع دارالسلام)
(۲) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة ولا مأمون. ’’یہ قابل اعتبار راوی نہیں۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:223/6، وسنده حسن)
نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (تاريخ يحيی بن معين:1624)
(۳) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي عندھم. ’’یہ راوی محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔ “ (كتاب الضعفاء والمتروكين، ص:87)
(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف و متروک راویوں میں شمار کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:401)
(۵) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث، يكتب حديثه، كان رديىء الرأي، شديد التشيع.
’’اس کی حدیث ضعیف ہے، اسے (متابعات و شواہد میں) لکھا جا سکتا ہے۔ یہ برے عقائد کا حامل کٹر شیعہ تھا۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:233/6)
(۶) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث. ’’اس کی حدیث ضعیف ہے۔ “ (الجرح و التعديل:323/6)
(۷) امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:45)
(۸) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي الموضوعات، لا يحل ذكره إلا علي سبيل الاعتبار.
’’یہ من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث کو صرف (متابعات و شواہد) میں ذکر کرنا جائز ہے۔ “ (كتاب المجروحين:76/2)
(۹) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والضعف علي رواياته بين. ’’اس کی روایات میں کمزوری واضح ہے۔ “ (الكامل في ضعفاء الرجال:132/5)
یہ جھوٹی روایت قرآن کریم کے بھی خلاف ہے۔ ديكھيں : (سورة الاعراف:23:7)
آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۳
 
ایک اور جھوٹی روایت ملاحظہ فرمائیں :
وقد رواه أبو الحسين بن بشران، من طريق الشيخ أبى الفرج بن الجوزي في ( الوفا بفضائل المصطفى ) حدثنا أبو جعفر محمد بن عمرو، حدثنا احمد بن إسحاق بن صالح، ثنا محمد ابن صالح، ثنا محمد بن سنان العوفي، ثنا إبراهيم بن طهمان عن يزيد بن ميسرة، عن عبد الله بن سفيان، عن ميسرة، قال : قلت يا رسول الله ! متى كنت نبيا؟ قال : لما خلق الله الأرض واستوى إلى السماء فسواهن سبع سموات، وخلق العرش، كتب على ساق العرش: محمد رسول الله خاتم الأنبياء، وخلق الله الجنة التي أسكنها آدم وحواء، فكتب اسمي على الأبواب والأوراق والقباب والخيام، وآدم بين الروح والجسد، فلما أحياه الله تعالى، نظر إلى العرش، فرأى اسمى، فأخبره الله أنه سيد ولدك، فلما غرهما الشيطان تابا واستشفعا باسمي إليه.
’’میسرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول ! آپ کب رسول بنے ؟ آپ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا، آسمانوں کا قصد کیا اور ان کو سات آسمان بنایا اور عرش کو پیدا کیا تو عرش کے ایک پائے پر یہ لکھ دیا : محمد رسول الله خاتم الأنبياء پھر جنت کو پیدا کیا جس میں آدم و حوا علیہا السلام کو ٹھہرایا جانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کے دروازوں، پتوں، خیموں وغیرہ پر میرا نام لکھ دیا۔ اس وقت آدم علیہ السلام کے روح اور جسم کا ملاپ نہیں ہوا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو زندگی بخشی تو انہوں نے عرش پر میرا نام دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ میں ان کی اولاد کا سردار ہوں۔ جب شیطان نے آدم و حوا علیہا السلام کو ورغلایا تو انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کو میرے نام کا واسطہ دیا۔۔۔ “ (مصباح الظلام في المستغيثين بخير الأنام في اليقظة والمنامم، ص:26، مجموع الفتاوي لابن تيمية:150/2)

تبصرہ: یہ جھوٹی اور منکر روایت ہے۔
اس کے راوی محمد بن صالح کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ یہ اسی کی کارروائی ہے کیونکہ باقی سارے راوی ثقہ ہیں۔ جو شخص اس روایت کے صحیح ہونے کا دعویدار ہے، اس پر ضروری ہے کہ محمد بن صالح کی توثیق ثابت کرے۔ لہٰذا محمد بن یوسف صالحی شامی (م:
۹۴۲ھ) کا اس روایت کی سند کو ’’جید“ کہنا (سبل الھدي والرشاد في سيرة خير العباد:86/1) صحیح نہیں۔
آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۴
 
اسی معنی و مفہوم کی ایک روایت درج ذیل ہے :
أنبأنا أبو أحمد هارون بن يوسف ( بن هارون ) بن زياد التاجر قال : حدثنا أبو مروان العثماني، قال : حدثني أبي عثمان بن خالد، عن عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن أبيه، قال : من الكلمات التي تاب الله بها على آدم عليه السلام، قال: اللهم ! إني أسألك بحق محمد عليك، قال الله عز وجل : يا آدم! وما يدريك بمحمد ؟ قال : يا رب، رفعت رأسي، فرأيت مكتوباً على عرشك : لا إله إلا الله محمد رسول الله، فعلمت أنه أكرم خلق الله عليك.
’’عبدالرحمٰن بن ابی الزناد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جن کلمات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی، ان میں سے یہ بھی ہیں : اے اللہ ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جو حق تجھ پر ہے، میں اس کے واسطے سے سوال کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کیا علم ؟ آدم علیہ السلام نے عرض کی : میرے رب ! میں نے اپنا سر اٹھایا تو تیرے عرش پر لا إله إلا الله محمد رسول الله لکھا تھا۔ یوں میں جان گیا کہ آپ تیرے نزدیک سب سے معزز مخلوق ہیں۔ “ (الشريعة للآجري:246/2، ح:1006)

تبصره: یہ ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان تابعی کی طرف جھوٹا منسوب کیا گیا قول ہے، کیونکہ :
(۱) اس کے راوی ابومروان محمد بن عثمان عثمانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وثقه أبو حاتم، وله عن أبيه مناكير.
’’اسے امام ابوحاتم نے اگرچہ ثقہ قرار دیا ہے، لیکن اس کی اپنے والد سے روایات منکر ہیں۔ “ (المغني في الضعفاء:5808)
یہ قول بھی اس نے اپنے والد ہی سے بیان کیا ہے۔
(۲) اس کا والد عثمان بن خالد ’’متروک الحدیث“ راوی ہے۔ (تقريب التھذيب لا بن حجر:4464)
اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’منکرالحدیث“ ہے۔ (التاريخ اكبير:220/6)
نیز امام صاحب نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لا بن عدي :175/5، وسنده صحيح)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ بھی اسے ’’منکر الحدیث“ کہتے ہیں۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:149/6)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولعثمان غير ما ذكرت، كلھا غير محفوظة.
’’میں نے جو روایات بیان کی ہیں، ان کے علاوہ بھی کچھ روایات عثمان نے بیان کی ہیں، لیکن یہ ساری کی ساری شاذ ہیں۔ “(الكامل في ضعفاء الرجال:176/5)
امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الغالب على حديثه الوھم. ’’اس کی بیان کردہ حدیثوں میں وہم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ “ (الضعفاء اكبير:198/3)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي المقلوبات عن الثقات، ويروي عن الأثبات أسانيد ليس من مروياتھم، لأنه يقلب الأسانيد، لا يحل الا حتجاج بخبره.
’’یہ ان لوگوں میں سے ہے جو ثقہ راویوں سے نقل کرتے وقت روایات کو الٹ پلٹ کر دیتے ہیں اور معتبر ترین راویوں سے ایسی سندیں بیان کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی ذکر ہی نہیں کی ہوتیں۔ یہ سندوں کو خلط ملط کر دیتا ہے۔ اس کی بیان کردہ روایت سے دلیل لینا حرام ہے۔ “ (كتاب المجروحين:102/2)
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن مالك وعيسى بن يونس وغيرھما أحاديث موضوعة.
’’اس نے امام مالک، عیسیٰ بن یونس اور دیگر راویوں سے منسوب کر کے من گھڑت روایات بیان کی ہیں۔ “ (المدخل إلي الصحيح، ص:166)
امام ابونعیم اصبہیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عن مالك وعيسي وغيرھا أحاديث موضوعة، لا شيء.
’’یہ امام مالک اور عیسیٰ وغیرہما کی طرف خود ساختہ روایات منسوب کرتا ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ “ (كتاب الضعفاء:157)
آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۵
 
امام محمد باقر بن علی بن حسین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لما أصاب آدم الخطيئة عظم كربه واشتد ندمه، فجاءه جبريل، فقال : يا آدم ! هل أدلك على باب توبتك الذي يتوب الله عليك منه ؟ قال : بلى يا جبريل ! قال : قم في مقامك الذي تناجي فيه ربك، فمجده وامدح، فليس شيء أحب إلى الله من المدح، قال : فأقول ماذا يا جبريل ؟ قال : فقل لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيي ويميت وهو حي لا يموت، بيده الخير كله، وهو على كل شيء قدير، ثم تبوء بخطيئتك فتقول : سبحانك اللهم وبحمدك، لا إله إلا أنت، رب إني ظلمت نفسي وعملت السوء فاغفر لي، إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت الله، إني أسألك بجاه محمد عبدك، وكرامته عليك أن تغفر لي خطيئتي، قال : ففعل آدم، فقال الله : يا آدم ! من علمك هذا ؟ فقال : يا رب! إنك لما نفخت في الروح، فقمت بشرا سويا، أسمع وأبصر وأعقل وأنظر، رأيت على ساق عرشك مكتوبا : بسم الله الرحمن الرحيم، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، محمد رسول الله، فلما لم أر أثر اسمك اسم ملك مقرب، ولا نبي مرسل غير اسمه، علمت أنه أكرم خلقك عليك، قال : صدقت، وقد تبت عليك وغفرت لك خطيئتك، قال : فحمد آدم ربه وشكره، وانصرف بأعظم سرور، ولم ينصرف به عبد من عند ربه، وكان لباس آدم النور، قال الله : ﴿ينزع عنهما لباسهما ليريهما سوآتهما﴾ ثياب النور، قال : فجاءته الملائكة أفواجا تهنئه، يقولون : لتهنك توبة الله يا أبا محمد .
’’جب آدم علیہ السلام خطا کر بیٹھے تو انہیں سخت غم پہنچا اور بہت نادم ہوئے۔ ان کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا : آدم ! کیا میں آپ کو ایسا طریقہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرما دیں ؟ آدم علیہ السلام نے کہا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا : اس جگہ کھڑے ہو جائیے جہاں پر آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ کی تعریف و ثنا کیجیے۔ تعریف سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز محبوب نہیں۔ آدم علیہ السلام کہنے لگے : میں کیا کہوں ؟ جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ آپ یہ کلمات پڑھیں : لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيي ويميت وهو حي لا يموت، بيده الخير كله، وهو على كل شيء قدير پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور کہیں : اے اللہ تو اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور گناہ کا ارتکاب کیا ہے، مجھے معاف فرما دے، تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں۔ میں تجھ سے تیرے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میرا گناہ معاف فرما دے۔ آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آدم ! تمہیں یہ طریقہ کس نے سکھایا؟ آدم علیہ السلام نے عرض کی : میرے رب ! جب تو نے مجھ میں روح پھونکی اور میں سننے، دیکھنے اور سوچنے، سمجھنے والا کامل انسان بن گیا تو میں نے تیرے عرش کے پائے پر یہ لکھا ہوا دیکھا : بسم الله الرحمن الرحيم، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، محمد رسول الله میں نے تیرے نام کے ساتھ کسی مقرب فرشتے یا کسی نبی و رسول کا نام لکھا ہوا نہیں دیکھا سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ تیری مخلوق میں سے سب سے محبوب و معزز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو نے سچ کہا، میں نے تیرا گناہ معاف کر دیا۔ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور اس کا شکریہ ادا کیا، پھر بہت خوشی خوشی واپس پلٹ آئے۔ ان کلمات کے ساتھ دعا کر کے کوئی بندہ اپنے رب سے خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ آدم علیہ السلام کا لباس نور کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ شیطان نے ان کا لباس اتروا دیا، تو اس سے مراد نور کا لباس ہی ہے۔ پھر فرشتے گروہ در گروہ آدم علیہ السلام کو مبارک دینے آتے اور کہتے : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ! آپ کو توبہ مبارک ہو۔ “ (الدر المنثور للسيوطي:60/1)

تبصرہ: یہ قول بلاسند ہونے کی بنا پر باطل اور مردود ہے۔
جو لوگ اسے پیش کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس قول کی کوئی ایسی سند ڈھونڈ کر لائیں جو امام باقر تک پہنچتی ہو۔ ورنہ وہ بتائیں کہ ایسی بےسروپا روایات پیش کر کے وہ کس دین کی خدمت کرتے ہیں ؟
آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۶
 
کعب احبار تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إن الله تعالى أنزل على آدم عصيا بعدد الأنبياء، والمرسلين، ثم أقبل على ابنه شيث، فقال: أي بني ! أنت خليفتي من بعدي، فخذها بعمارة التقوى أ والعروة الوثقى، وكلما ذكرت الله تعالى، فاذكر إلى جنبه اسم محمد، فإني رأيت اسمه مكتوبا على ساق العرش، وأنا بين الروح والطين، ثم إني طفت السموات، فلم أر في السماء موضعا إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، وإن ربي أسكنني الجنة، فلم أر في الجنة قصرا ولا غرفة إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، ولقد رأيت اسم محمد مكتوبا على نحور الحور العين، وعلى ورق قصب آجام الحنة، وعلى ورق شجرة طوبى، وعلى ورق سدرة المنتهى، وعلى أطراف الحجب، وبين أعين الملائكة، فأكثر ذكره، فإن الملائكة تذكره في كل ساعاتها صلى الله عليه وسلم
’’ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر تمام انبیاء مرسلین کی تعداد کے برابر لاٹھیاں نازل فرمائیں۔ پھر وہ اپنے بیٹے شیث کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میرے بیٹے ! میرے بعد تو میرا خلیفہ ہے۔ ان کو تقویٰ اور عروہ و ثقیہ کے ذریعے پکڑ لے۔ جب بھی تو اللہ تعالیٰ کو ذکر کرے تو ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لینا۔ میں نے اس وقت عرش کے پائے پر ان کا نام لکھا دیکھا تھا جب میں روح اور مٹی کے درمیان تھا۔ پھر میں نے آسمانوں کا چکر لگایا تو ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میرے رب نے مجھے جنت میں بسایا تو میں نے جنت میں کوئی محل یا کوئی کمرہ نہیں دیکھا جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جنت کی حوروں کے سینوں پر لکھا دیکھا، جنت کے محلات کی اینٹوں پر، طوبیٰ کے درختوں کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، نور کے پردوں کے اطراف پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسے لکھا دیکھا۔ تو ان کا ذکر کثرت سے کیا کر، کیونکہ فرشتے ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں۔ “ (الديباج للختلي:112، تاريخ دمشق لابن عساكر:281/23)

تبصرہ: یہ سفید جھوٹ ہے، کیونکہ :
(۱) محمد بن خالد دمشقی ہاشمی راوی کے بارے میں امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان يكذب. ’’یہ جھوٹ بولتا تھا۔ “ (الجرح و التعديل:244/7)
(۲) شریح بن عبید نے کعب احبار کا زمانہ نہیں پایا۔ حافظ مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يدركه. ’’شریح نے کعب کا زمانہ نہیں پایا۔ “ (تھذيب الكمال:325،324/8)
(۳) محمد بن زفر اصبہانی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
(۴) زکریا بن یحییٰ مدائنی کے بارے میں حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
ولم أعرفه. ’’میں اسے پہچان نہیں پایا۔ “ (مجمع الزوائد:126،125/10)
(۵) صاحب کتاب اسحاق بن ابراہیم حتلی کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي. ’’یہ قوی نہیں۔ “ (سئوالات الحاكم:58)
امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (سئوالات الحاكم:58)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفي كتابه ( الديباج ) أشياء منكرة. ’’اس کی کتاب دیباج میں بہت سی منکر روایات موجود ہیں۔ “ (سیر اعلام النبلاء:343/13)
آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۷
 
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا :
يا موسى ! إن من لقينى، وهو جاحد بمحمد صلى الله عليه وسلم أدخلته النار، فقال: من محمد؟ فقال: يا موسى ! وعزتى وجلالى، ما خلقت خلقاً أكرم على منه، كتبت اسمه مع اسمي في العرش قبل أن أخلق السماوات والأرض، والشمس والقمر، بألفى عام.
’’اے موسیٰ ! جو شخص میرے دربار میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر کے آئے گا، اسے میں جہنم میں ڈالوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : محمد کون ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : موسیٰ ! مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم ! میں نے ان سے زیادہ معزز کوئی مخلوق پیدا نہیں کی۔ میں نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ اپنے عرش پر زمین و آسمان اور سورج و چاند کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا۔“ (ميزان الاعتدال للذھبي:160/2، سبل الھدي والرشاد للصالحي:85/1)

تبصرہ: اس کی سند جھوٹی ہے، کیونکہ :
(۱) اس کے راوی سعید بن موسیٰ ازدی کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے متہم بالوضع قرار دیا ہے۔ (كتاب المجروحين:326/1)
اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
(۲) ابوایوب سلیمان بن سلمہ خبائری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو ساقط. ’’یہ سخت ضعیف راوی ہے۔“ (ميزان الاعتدال:160/2)
یہ ’’متروک“ اور ”کذاب“ راوی ہے۔
(۳) اس میں امام زہری رحمہ اللہ کی ’’تدلیس“ بھی موجود ہے، انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’موضوع“ یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔ (ميزان الاعتدال:160/2)
آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۸
 
جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی :
رب! ظلمت نفسي، فاغفر لي وأرحمني، إنه لا يغفر الذنوب غيرك، فأوحى الله عز وجل إليه: يا آدم ! ومن أين عرفت ذلك النبي الأمي، ولم أخلقه بعد؟ فقال آدم عليه السلام: إني رأيت على العرش مكتوبا : لا إله إلا الله محمد رسول الله، فعلمت أن ذلك النبي من صلبي، فبحق ذلك النبي، إلا ما أطعمتني، فأوحى الله عز وجل إلى جبرئيل أن اهبط إلى عبدي، فھبط عليه جبرئيل صلى الله على نبينا وعليه وسلم، وھبط معه بسبع حبات من حنطة، فوضعھا على يدي آدم عليه السلام
’’میرے رب ! میں اپنی جان پر ظلم کر بیٹھا ہوں، تو مجھے معاف فرما دے اور میرے حال پر رحم کر، تیرے سوا تیرے بندے کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اے آدم ! تو نے اس اُمی نبی کو کیسے پہچانا، حالانکہ میں نے ابھی اسے پیدا ہی نہیں کیا ؟ اس پر آدم علیہ السلام نے عرض کیا : میں نے عرش پر یہ لکھا ہوا دیکھا : لا إله إلا الله محمد رسول الله چنانچہ مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ نبی میری اولاد میں سے ہو گا۔ اس نبی کے طفیل مجھے کھانا دے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندے کی طرف اترو۔ جبرئیل علیہ السلام اترے اور ان کے ساتھ گندم کے سات دانے تھے۔ انہوں نے وہ دانے آدم علیہ السلام کے ہاتھوں پر رکھ دئیے۔ “ (العظمة لأبي الشيخ الأصبھاني:1597،1598/5، ح:1063)

تبصره: یہ جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ :
(۱) ابویعقوب یوسف بن دودان کون ہے؟ معلوم نہیں ہو سکا۔
(۲) محمد بن یوسف تمیمی کے حالات نہیں مل سکے۔
(۳) محمد بن جعفر بن محمد بن علی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
تكلم فيه. ’’اس کے بارے میں جرح کی گئی ہے۔ “ (ميزان الاعتدال:500/3)
حافظ موصوف نے اس کی ایک روایت کو باطل بھی کہا ہے۔ (تلخيص المستدرك:588/2)
لہٰذا یہ روایت قطعاً قابل حجت نہیں۔
اس تحریر کا اگلا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...