Sunday 1 January 2017

وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (6)


 



وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (6)

 


 ازعثمان احمد 
 
دلیل نمبر ۳۳
 
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد یوں دعا کیا کرتے تھے : 
اللھم ! إني أسألك بحق السائلين عليك.
’’اے اللہ ! میں اس حق کے وسیلے سے مانگتا ہوں جو تجھ پر سوال کرنے والوں کا ہے۔ “ 
(مسند الديلمي بحواله كنزالعمال للمتقي الھندي:4977)

تبصرہ : یہ سخت ’’ضعیف“ روایت ہے، کیونکہ : 
(1) عمرو بن عطیہ عوفی راوی ’’ضعیف“ ہے۔ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ 
 
اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
في حديثه نظر. ’’اس کی روایت منکر ہوتی ہے۔ “ (الضعفاء الكبير للعقيلي:290/3، وسنده صحيح) 
 
امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ ذرا بھی قوی نہیں۔ (الجرح و التعديل:250/6) 
 
امام دارقطنی رحمہ اللہ بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:388) 
 
حافظ ہیمثمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (مجمع الزوائد:82/6) 
 
(2) عطیہ عوفی راوی بھی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف“ ہے۔
نیز یہ ’’مدلس “ بھی ہے اور ’’تدلیس تسویہ “ کا مرتکب تھا۔
 
دلیل نمبر ۳۴
 
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کی : 
ياإله إبراھيم! أسألك بحق إبراھيم خليلك عليك، وإسحاق ذبيحك عليك.
’’اے ابراہیم کے الٰہ ! میں تجھ سے تیرے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور تیرے ذبیح اسحاق علیہ السلام کے اس حق کے وسیلے سوال کرتا ہوں جو ان کا تجھ پر ہے۔ “ 
(تخريج أحاديث الكشاف للزيلعي:179/3)

تبصرہ: یہ باطل اور جھوٹی روایت ہے۔
خود علامہ زیلعی، امام دارقطنی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

ھذا حديث موضوع باطل، وإسحاق بن وھب الطرطوسي يضع الحديث علي ابن وھب وغيره، حدث عنه بھذا الإسناد أحاديث لا أصل لھا.
’’یہ حدیث جھوٹی اور مردود ہے۔ اسحاق بن وہب طرطوسی راوی، ابن وہب اور دیگر ثقہ راویوں سے منسوب کر کے خود ساختہ روایات بیان کرتا ہے۔ اس نے اسی سند کے ساتھ ابن وہب سے بہت سی بےبنیاد روایات بیان کی ہیں۔ “ 
(ایضاء)
دلیل نمبر ۳۵
 
سیدنا سواد بن قارب سدوسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو یہ اشعار کہے : 
فأشهد أن الله لا رب غيره * وأنك مأمون علي كل غائب 
وأنك أدني المرسلين وسيلة * إلى الله يا ابن الأكرمين الأطايب 
وكن لي شفيعا يوم لا ذو شفاعة * سواک بمغن عن سواد بن قارب
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ربّ نہیں، آپ ہر غائب کے محافظ ہیں اور اے معزز و پاکیزہ لوگوں کی اولاد ! آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب رسولوں سے بڑھ کر مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ آپ اس دن میرے لیے سفارشی بن جانا جس دن آپ کے سوا سواد بن قارب کو کسی کی سفارش فائدہ نہیں دے سکے گی۔“ 
(المعجم الكبير للطبراني:95،94/7،ح:6475، معجم الشيوخ لأبي يعلي:329، المستدرك للحاكم:610/3،ح:6558، دلائل النبوة للبيھقي:32،31/2، دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبھاني:280، دلائل النبوة لأسماعيل الأصبھاني:144)

تبصره: یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ : 
(1) اس کا راوی عثمان بن عبدالرحمٰن و قاصی باتفاق محدثین ’’ضعیف“ اور ’’متروک“ ہے۔ 
 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : 
متروك وكذبه ابن معين. یہ متروک راوی ہے۔ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اسے سخت جھوٹا قرار دیا ہے۔ (تقريب التھذيب:4494) 
 
(2) اس کی سند میں انقطاع بھی ہے۔
محمد بن کعب قرظی کا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سماع ولقاء نہیں ہے۔ 
 
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
نحن لا نقبل الحديث المنقطع. ’’ہم (جماعت محدثین) منقطع حدیث کو قبول نہیں کرتے۔“ (الأم::461/10) 
 
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (مجمع الزوائد:250/8) 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : 
الإسناد منقطع. ”یہ سند منقطع ہے۔“ (تلخيص المستدرك:610/3) 
 
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
وھذا منقطع من ھذا الوجه. ’’یہ روایت اس سند سے منقطع ہے۔“ (السيرة النبوية:346/1)
اس میں اور بھی علّتیں اور خرابیاں ہیں۔ 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
أبو عبدالرحمن اسمه عثمان بن عبدالرحمن الوقاصي، متفق على تركه، وعلى بن منصور فيه جھالة، مع أن الحديث منقطع.
’’ (اس سند میں مذکور) ابوعبدالرحمٰن کا نام عثمان بن عبدالرحمٰن و قاصی ہے۔ اس کے متروک ہونے پر اجماع ہے۔ نیز علی بن منصور مجہول ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حدیث منقطع بھی ہے۔“ 
(تاريخ الإسلام:208/1، سير أعلام النبلاء: 246/1) 
 
٭ اس کی مزید کئی سندیں ہیں۔ ان کا حال بھی ملاحظہ فرمائیں : 
(۱) اس کی ایک جھوٹی سند خرائطی کی ’’ہواتف الجان“ (27) اور ابونعیم اصبہانی کی (معرفۃ الصحابۃ 1405/3،ح:3551) میں مذکور ہے۔
اس کے راوی عبید اللہ بن ولید و صافی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
أحد المتروكين. ’’یہ متروک راوی ہے۔“ (تاريخ الإسلام:216/9) 
اسے امام نسائی وغیرہ نے ’’متروک“ قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔ 
حافظ بوصیری فرماتے ہیں : 
أجمعوا علي ضعفه. ’’اہل علم کا اس کے ضعیف ہونے پر اجماع و اتفاق ہے۔“ (اتحاف الخيره المھرة:477/1 ح:888) 
اس میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔ 
(۲) امام بیہقی کی کتاب ’’دلائل النبوۃ“ (249/2) میں بھی اس کی ایک سند موجود ہے۔
وہ بھی سخت ضعیف ہے، کیونکہ : 
٭ محمد بن تراس کوفی اور زیاد بن یزید بن بارویہ ابوبکر قصوی، دونوں ’’مجہول“ ہیں۔ 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس حدیث کو ’’منکر“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : 
ومحمد بن تراس وزياد مجھولان، لا تقبل روايتھما، وأخاف أن يكون موضوعا علی أبي بكر بن عياش.
’’محمد بن تراس اور زیاد دونوں مجہول ہیں، ان کی روایت قبول نہیں ہو سکتی۔ مجھے خدشہ ہے کہ اسے گھڑ کر ابوبکر بن عیاش کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔“ 
(سير أعلام النبلاء: 245/1) 
 
یہ سخت ’’ضعیف“ اور باطل روایت انہی نامعلوم افراد کی کارستانی ہو سکتی ہے۔ 
 
٭ ابواسحاق سبیعی ’’مدلس“ ہیں۔ 
(۳) علامہ سیوطی نے الخصائص الکبریٰ“ (255/1) اور ابونعیم اصبہانی نے ’’معرفہ الصحابہ (3552) میں مسند حسن بن سفیان کے حوالے سے اس کی ایک سند ذکر کی ہے۔
یہ بھی سخت ترین ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ : 
٭ اس میں حسن بن عمارہ جمہور کے نزدیک ’’ضعیف“ ہے۔ 
اس کے بارے میں :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (طبقات المدلسين:53) 
نیز فرماتے ہیں : 
والحسن ضعيف جدا. ’’حسن سخت ترین ضعیف ہے۔“ (التلخيص الحبير:409/1) 
حافظ سہیلی فرماتے ہیں : 
فھو ضعيف بإجاع أھل الحديث. ’’محدثین کرام کا اجماع ہے کہ یہ ضعیف راوی ہے۔“ (الروض الأنف:43/6، نصب الراية للزيلعي الحنفي:311/2) 
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : 
ضعفه شعبة وجماعة كثيرة. ’’اسے امام شعبہ اور اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (مجمع الزوائد: 289/2، ح:3721) 
 
حافظ بوصیری لکھتے ہیں : 
وقد تكلموا فيه كثيرا، كذبه شعبة، ونقل الساجي إجماع أھل الحديث علی ترك حديثه، وفيه كلام كثير جدا.
’’محدثین کرام نے اس کے بارے میں بہت زیادہ کلام کیا ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے اور امام ساجی نے اس کی حدیث کو چھوڑ دینے پر محدثین کا اجماع نقل کیا ہے۔ اس پر بہت زیادہ جرح موجود ہے۔“ 
(اتحاف الخيره المھرة:80/2،ح:1075) 
ثابت ہوا کہ یہ متروک راوی ہے۔ یہ ’’مدلس“ بھی ہے۔ 
٭ اس سند میں موجود عراک بن خالد بن یزید نامی راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
لين. ’’یہ کمزور راوی ہے۔“ (تقريب التھذيب: 4548) 
(۴) امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق (322/72) میں بھی اس کی ایک سند ذکر کی ہے۔
وہ بھی جھوٹی اور باطل ہے، کیونکہ :
اس کا بیان کرنے والا حکم بن یعلیٰ بن عطاء رعینی راوی ’’متروک“ اور ’’ضعیف“ ہے۔ 
(۵) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے السیرۃ النبویۃ (349/1) میں ایک سند نقل کی ہے۔
وہ بھی خود ساختہ ہے :
اس کو محمد بن سائب کلبی نے گھڑا ہے جو باتفاق محدثین سخت جھوٹا اور ’’ضعیف“ ہے۔ 
(۶) علامہ سیوطی نے ’’الخصائص الکبریٰ“ (255/1) میں امام ابن شاہین رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک سند لکھی ہے۔
وہ بھی انتہائی جھوٹی ہے۔ 
٭ اس کو علاء بن یزید نامی راوی نے تراشا ہے۔ یہ ’’منکرالحدیث“، ’’متروک الحدیث“ اور احادیث گھڑنے والا راوی ہے۔
٭ اسی طرح اس کا شاگرد فضل بن عیسیٰ رقاشی بھی ’’متروک“ اور ’’ضعیف“ ہے۔
پھر مزے کی بات یہ ہے کہ اس روایت میں وسیلے سے مراد مقام و مرتبہ اور قدر و منزلت ہے اور ان اشعار میں روز قیامت شفاعت کی درخواست ہے۔
 
 
دلیل نمبر ۳۶
 
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 
قلت لعلى يا أمير المؤمنين ! أسألك بالله ورسوله، إلا خصصتني بأعظم ما خصك به رسول الله صلى الله عليه وسلم واختصه به جبريل، وأرسله به الرحمن فضحك، ثم قال له : يا براء ! إذا أردت أن تدعو الله باسمه الأعظم، فاقرأ من أول سورة الحديد إلى آخر ست آيات منها، إلى﴿عليم بذات الصدور﴾ وآخر سورة الحشر، يعنى أربع آيات، ثم ارفع يديك، فقل: يا من هو هكذا، أسألك بحق هذه الأسماء أن تصلي على محمد وآل محمد، وأن تفعل بي كذا وكذا، مما تريد، فو الذي لا إله غيره لتقبلن بحاجتك إن شاء الله.
’’میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا : اے امیرالمومنین ! میں اللہ و رسول کے واسطے آپ سے کہتا ہوں کہ مجھے وہ سب سے بڑی چیز دے دیجیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف آپ کو اور جبریل نے اللہ کی طرف سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔ سیدنا علی رضی الله عنہ مسکرائے، پھر فرمایا : اے براء ! جب تم چاہو کہ اللہ سے کچھ مانگو تو اسم اعظم کے ذریعے مانگو۔ سورۂ حدید کی پہلی چھے آیات اور سورۂ حشر کی آخری چار آیات پڑھ لو، پھر اپنے ہاتھ اٹھاؤ اور کہو : اے وہ ذات جو ان اوصاف سے متصف ہے ! میں تجھ سے ان اسمائے حسنیٰ کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر درود و سلام نازل فرما اور مجھے یہ یہ چیز عطا فرما۔ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تیری حاجت ضرور پوری کر دی جائے گی، ان شاءاللہ۔ “ 
(ابن النجار بحواله كنز العمال للمتقي الھندي:249،248/2)

تبصرہ: یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ : 
(۱) اس کا راوی عمرو بن ثابت بن ہرمز ’’متروک وکذاب“ ہے۔ 
(۲) اس میں کئی راوی مجہول ہیں، مثلاً احمد بن ادریس بن احمد بن نصر بن مزاحم، محمد بن محمد بن عبدالعزیز عبکری اورابوعبداللہ محمد بن فضل اخباری وغیرہ۔ 
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (۸۴۹۔۹۱۱ھ) نے اس کی سند کو ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (الدر المنثور:49/8) 

تنبیہ: 
اس کی ایک سند ابوعلی عبدالرحمٰن بن محمد بن احمد بن فضالہ نیشاپوری کے ’’فوائد“ (21) میں بھی آئی ہے۔
یہ بھی جھوٹی سند ہے جو درج ذیل افراد میں سے کسی کی کارروائی ہے : 
(۱) رافع بن عبداللہ فقیہ کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔ 
(۲) احمد بن محمد بن یونس کون ہے؟ 
(۳) معروف بن موسیٰ کی توثیق نہیں ملی۔ 
(۴) عبدالعزیز بن حیلہ کا کتب جرح و تعدیل میں نام و نشان تک نہیں ملتا۔ 
(۵) صاحب کتاب ابوعلی عبدالرحمٰن بن محمد بن احمد بن فضلہ خود رافضی تھا۔ اس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ اسی کی کارروائی ہے۔
اس طرح کی سندیں تو ان لوگوں کا متاع عظیم ہوتی ہیں جو سند کو دین نہیں مانتے۔
 
دلیل نمبر ۳۷
 
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے : 
كانت يهود خيبر تقاتل غطفان، فكلما التقوا هُزمت يهود خيبر، فعاذت اليهود بھذا الدعاء: اللهم ! إنا نسألك بحق محمد النبي الأمي الذي وعدتنا أن تخرجه لنا في آخر الزمان إلا نصرتنا عليهم، فكانوا إذا التقوا دعوا بهذا الدعاء، فهزموا غطفان، فلما بعث النبي صلى الله عليه وسلم كفروا به، فأنزل الله تعالى: ﴿وكانوا من قبل يستفتحون﴾ (البقره:89:2) بك يامحمد على الكافرين.
”خیبر کے یہود کی بنو غطفان سے لڑائی تھی۔ جب بھی میدان سجتا یہود شکست کھاتے۔ آخر یہود نے اس دعا کے ذریعے پناہ پکڑی : اے اللہ ! ہم تجھ سے اس اُمی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سوال کرتے ہیں جس کو آخر زمانے میں مبعوث کرنے کا تو نے ہمیں وعدہ دیا ہے کہ ہماری نصرت فرما۔ اس کے بعد جب بھی مڈبھیڑ ہوتی یہود، بنوغطفان کو شکست دیتے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر شروع کر دیا۔ اسی بارے میں یہ فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا : 
﴿وكانوا من قبل يستفتحون﴾ (البقره:89:2) اس سے پہلے یہ یہود اللہ تعالیٰ سے فتح طلب کیا کرتے تھے (اے محمد ! آپ کےطفیل) ۔“ (المستدرك للحاكم:263/2، ح:3042، الشريعة للآجري:448، دلائل النبوة للبيھقي:76/2)

تبصره: یہ جھوٹی روایت ہے۔
اس کی سند میں عبدالملک بن ہارون بن عنترہ راوی ’’کذاب“ اور ’’متہم“ ہے۔ اس کے بارے میں : 
 
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
وھو مجمع علي ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔“ (مجمع الزوائد:150/10) 
 
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اسے ’’کذاب“ کہا ہے۔ (تاريخ ابن معين برواية الدوري:1688) 
 
علامہ جوزجانی اسے دجال اور کذاب قرار دیتے ہیں۔ (أحوال الرجال:77) 
 
امام بخاری رحمہ اللہ اسے ’’منکر الحدیث“ کہتے ہیں۔ (التاريخ اكبير:436/5) 
 
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسے ’’ضعیف الحدیث“ کہتے ہیں۔ (العلل ومعرفة الرجال:2648) 
 
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ اسے ’’متروک الحدیث، ذاہب الحدیث“ کہتے ہیں۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:374/5) 
 
اور امام نسائی رحمہ اللہ اسے ’’متروک الحدیث“ کہتے ہیں۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:384) 
 
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
كان ممن يضع الحديث. ’’یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا شخص تھا۔“ (كتاب المجروحين:133/2) 
 
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
متروك يكذب. ’’یہ متروک اور کذاب شخص ہے۔“ (سئوالات البرقاني للدارقطني:253،252) 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے متروک ہالک. (پرلے درجے کا جھوٹا) قرار دیا ہے۔ (تلخيص المستدرك:213/2،ح:3042) 
 
نیز فرماتے ہیں : 
متروك بالاتفاق. ’’یہ بالاتفاق متروک ہے۔“ (أيضا:81088) 
 
اس کے بارے میں توثیق و توصیف کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔ 
 
امام حاکم رحمہ اللہ خود اس کے بارے میں فرماتے ہیں : 
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ’’اس نے اپنے باپ سے من گھڑت روایات نقل کی ہیں۔“ (المدخل:170)
لہٰذا حافظ سیوطی 
(الدر المنثور:216/1) کا اس کی سند کو صرف ’’ضعیف“ کہنا صحیح نہیں، بلکہ یہ موضوع و مکذوب سند ہے۔
 
دلیل نمبر ۳۸
 
سیدہ صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ مرثیہ پڑھا : 
ألا يا رسول الله كنت رجائنا ٭ وكنت بنابرا، ولم تك جافيا
’’اے اللہ کے رسول ! آپ ہماری امید تھے۔ آپ ہم سے اچھا سلوک کرتے تھے، سختی و زیادتی نہیں کرتے تھے۔ “ 
(المعجم الكبير للطبراني 320/24، ح:805)

تبصرہ: اس کی سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ : 
(۱) عبداللہ بن لہیعہ راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف“ ہے۔ نیز یہ ’’مدلس“ اور ’’مختلط“ بھی ہے۔ 
 
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ( ۳۶۸۔۴۶۳ ھ) فرماتے ہیں : 
وابن لھيعة، أكثر أھل العلم لا يقبلون شيئا من حديثه.
’’اکثر اہل علم ابن لہیعہ کی کوئی بھی حدیث قبول نہیں کرتے۔ “ 
(التمھيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد:254/12) 
 
حافظ نووی رحمہ اللہ (۶۳۱۔۶۷۶ھ) فرماتے ہیں : 
وھو ضعيف بالاتفاق لاختلال ضبطه. ’’ابن لہیعہ حافظے کی خرابی کی بنا پر بالاتفاق ضعیف ہے۔ “ (خلاصة الأحكام:625/2) 
 
حافظ ہثیمی رحمہ اللہ (۷۳۵۔۸۰۷ھ) کہتے ہیں : 
والأكثر علي ضعفه. ’’اکثر اہل علم اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ “ (مجمع الزوائد:13/7) 
 
نیز فرماتے ہیں : 
وابن لھيعة ضعفه الجمھور. ’’ابن لہیعہ کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (مجمع الزوائد:365/10) 
 
ابن ترکمانی حنفی (۶۸۳۔۷۵۰ھ) لکھتے ہیں : 
وقد ضعفه جماعة. ’’محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (الجوھر النقي: 286/3) 
 
حافظ سخاوی رحمہ اللہ (۸۳۱۔۹۰۲ھ) فرماتے ہیں : 
وھو ممن ضعفه الجمھور. ’’یہ ان راویوں میں سے ہے جنہیں جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (فتح المغيث:221) 
 
حافظ ابراہیم بن موسیٰ ابواسحاق ابناسی (م : ۸۰۲ھ) کہتے ہیں : 
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح:201/1) 
 
ابن عراقی (۷۶۲۔۸۲۶ھ) فرماتے ہیں : 
ضعيف عندالأكثر. ’’یہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ “ (طرح التثريب:64/6) 
 
حافظ سیوطی (م : ۹۱۱ھ) کہتے ہیں : 
وھو ضعيف عندالجمھور. ’’ابن لہیعہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ “ (تدريب الراوي:294/1) 
 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ ابن لہیعہ ’’ضعیف الحدیث“ ہے۔ (تغليق التغليق:239/3) 
 
(۲) عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کا سیدہ صفیہ سے سماع ولقاء ممکن نہیں۔ عروہ کی ولادت ۲۹ ہجری کو ہوئی، جبکہ سیدہ صفیہ ۱۹ ہجری کو وفات پا گئی تھیں۔ ۱۰ سال بعد پیدا ہونے والا انسان سیدہ صفیہ سے وہ مرثیہ کیسے سن سکتا ہے جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر پڑھا۔ 
 
لہٰذا حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کا (مجمع الزوائد:39/9) میں اس کی سند کو ’’حسن“ قرار دینا بالکل غلط ہے۔ 
 
(۳) اس ضعیف روایت میں بھی مروجہ وسیلے کا سرے سے کوئی ذکر نہیں۔ اس روایت کے مطابق سیدہ صفیہ تو کہہ رہی ہیں کہ آپ زندگی میں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ بعض لوگوں کے مطابق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد بھی وفات سے پہلے کی طرح زندہ ہیں، لہٰذا یہ روایت ان کے عقیدے پر ضرب کاری ہے۔ اگر آپ اسی طرح زندہ ہوتے اور لوگوں کے مسائل حل فرماتے تو اس مرثیے کا کیا معنی کہ آپ زندگی میں ہمارے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے؟؟؟ 
 
جن لوگوں کے دلائل بودے ہوں اور دعوی و دلیل میں مطابقت نہ ہو، اکثر ایسے لوگوں کے دلائل انہی کے خلاف ہو جایا کرتے ہیں۔ اس روایت کا مطلب بالکل صاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری کئی امیدیں وابستہ تھیں لیکن آپ دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ 

تنبیہ:
اس روایت کی ایک دوسری سند احمد بن مروان دینوری کی کتاب المجالسۃ وجواہر العلم (۷۵۸) میں ہے۔
یہ سند بھی باطل ہے، کیونکہ : 
(۱) خود صاحب کتاب احمد بن مروان دینوری ’’متکلم فیہ“ ہے۔ 
(۲) اس کے استاذ عامر بن عبداللہ زبیری کی توثیق بھی نہیں ملی۔ 
(۳) اس کے راوی مصعب بن ثابت کو جمہور محدثین کرام نے ’’ضعیف“ کہا ہے۔
امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابوحاتم رازی، امام ابوزرعہ رازی، امام نسائی، حافظ ابن سعد، حافظ جوزجانی، امام دارقطنی رحمہ اللہ وغیرہم نے اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ 
 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے لين الحديث. کہا ہے۔ (تقريب التھذيب: 6686) 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
لين لغلطه. ’’اپنی غلطیوں کی بنا پر یہ کمزور راوی ہے۔ “ (الكاشف:130/3) 
 
دلیل نمبر ۳۹
 
وعن كعب الأحبار أن بني إسرائيل كانو إذا قحطوا، استسقوا بأھل بيت نبيھم.
”کعب احبار سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل پر جب قحط پڑتا تو وہ اپنے نبی کے گھر والوں کے وسیلے بارش طلب کرتے تھے۔“ 
(عمدة القاري للعيني الحنفي:32/7)

تبصرہ: یہ بےسند اور جھوٹی بات ہے جو بعض لوگوں کا دین بن گئی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس جھوٹی روایت کا مطلب بھی یہ ہے کہ ان سے بارش کے لیے دعا کرائی جاتی تھی۔ ناجائز وسیلے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
 
دلیل نمبر ۴۰
 
کعب بن ماتع احبار تابعی سے روایت ہے : 
إن نور رسول الله صلى الله عليه وسلم- لما صار إلى عبد المطلب وأدرك، نام يوما فى الحجر، فانتبه مكحولا مدهونا، قد كسى حلة البهاء والجمال، فبقى متحيرا لا يدرى من فعل به ذلك، فأخذه أبوه بيده، ثم انطلق به إلى كهنة قريش، فأخبرهم بذلك، فقالوا له: اعلم أن إله السماوات قد أذن لهذا الغلام أن يتزوج، فزوجه قيلة، فولدت له الحارث ثم ماتت، فزوجه بعدها هند بنت عمرو، وكان عبد المطلب يفوح منه رائحة المسك الإذفر، ونور رسول الله- صلى الله عليه وسلم- يضىء فى غرته، وكانت قريش إذا أصابها قحط تأخذ بيد عبد المطلب فتخرج به إلى جبل ثبير، فيتقربون به إلى الله تعالى، ويسألونه أن يسقيهم الغيث، فكان يغيثهم ويسقيهم ببركة نور محمد- صلى الله عليه وسلم- غيثا عظيما. 
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جناب عبدالمطلب کے پاس آیا اور وہ عمر بلوغت کو پہنچ گئے تو اس کے بعد ایک دن حطیم میں سوئے ہوئے تھے۔ جب وہ بیدار ہوئے تو ان کی آنکھوں میں سرما اور سر میں تیل لگا ہوا تھا۔ ان پر خوبصورتی اور جمال کا لباس تھا۔ وہ بہت حیران ہوئے اور وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ کس نے کیا؟ ان کے والد نے انہیں ہاتھ سے پکڑا اور قریش کے کاہنوں کے پاس لے گئے اور ساری بات سنائی۔ کاہنوں نے کہا : تمہارے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ آسمانوں کے الٰہ نے اس لڑکےکو شادی کی اجازت دے دی ہے۔ ان کے والد نے ان کی شادی قیلہ سے کی۔ اس کے بطن سے حارث پیدا ہوا اور قیلہ فوت ہو گئی۔ پھر قیلہ کے بعد ان کی شادی ہند بنت عمرو سے ہوئی۔۔۔ جناب عبدالمطلب سے کستوری کی بہت تیز اور عمدہ خوشبو آتی تھی۔ اللہ کے رسول کا نور ان کی پیشانی میں چمکتا تھا۔ قریش جب قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو جناب عبدالمطلب کا ہاتھ پکڑ کر ثبیر پہاڑ کی طرف لے جاتے اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں انہیں وسیلہ بناتے ہوئے بارش طلب کرتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی برکت سے انہیں بہت زیادہ بارش عطا فرماتا۔ “ (المواھب اللدنية للقسطلاني:97/1، وفي نسخة:63/1، سمط النجوم لعبدالملك بن حسين العصافي:226/1)

تبصره: یہ جھوٹا واقعہ ہے۔ اس کی سند جھوٹی اور باطل ہے، کیونکہ : 
(۱) کعب احبار تابعی ہیں اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل کا واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ اس وقت تک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ کعب احبار اور جناب عبدالمطلب میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ لہٰذا سند میں سخت انقطاع ہے۔ 
 
(۲) عمرو بن شرحبیل انصاری راوی ’’مجہول الحال“ ہے۔
سوائےامام ابن حبان رحمہ اللہ 
(الثقات:225/7) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’مقبول“ (مجہول الحال) قرار دیا ہے۔ 
(تقريب التھذيب:5047) 
 
(۳) ابوبکر بن عبداللہ بن ابومریم راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف“ اور ’’مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں : 
 
(1) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ضعيف، كان عيسی ابن يونس لا يرضاه.
’’یہ ضعیف راوی ہے۔ امام عیسیٰ بن یونس اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ “ 
(الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:405/2، العلل ومعرفة الرجال:203/1) 
 
(2) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف الحدیث، منکرالحدیث“ قرار دیا ہے۔ ( الجرح و التعديل:405/2) 
 
(3) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ضعيف الحديث، طرقته لصوص، فأخذو امتاعه، فاختلط.
’’اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اسے چور پڑے اور اس کا سامان لوٹ لیا، اسی رنج سے اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ “ 
( الجرح و التعديل:405/2) 
 
(4) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (أيضا، وسنده صحيح) 
 
نیز فرماتے ہیں : 
ليس حديثه بشيء. ’’اس کی حدیث کسی کام کی نہیں۔ “ (تاريخ الدوري:437/4) 
 
تنبيه:
امام ابن معین رحمہ اللہ نے اسے ’’ثقہ“ بھی کہا ہے۔ (سؤالات ابن الجنيد:399)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا جمہور کے موافق قول لے لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ
امام صاحب سے ایک روایت میں اس راوی کو ’’صدوق“ کہنا بھی منقول ہے،
لیکن وہ روایت ’’ضعیف“ ہے۔ اس کی سند کے دو راویوں احمد بن علی مدائنی اور لیث بن عبدہ، کے حالات نہیں مل سکے۔ جرح والا قول ہی راجح ہے۔ 
(5) امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:668) 
(6) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’’متروک“ کہا ہے۔ (أسئلة البرقاني:596) 
نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (سنن الدارقطني:148،4/3،104/1) 
(7) حافظ جوزجانی کہتے ہیں : 
ليس بالقوي في الحديث، وھو متماسك. ’’یہ حدیث میں قوی نہیں تھا۔ یہ متروک راوی ہے۔ “ (أحوال الرجال ص:315) 
(8) امام دحیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
من كبار شيوخ حمص، وفي حديثه بعض ما فيه.
’’یہ حمص کے بڑے شیوخ میں سے تھا لیکن اس کی حدیث میں بعض مناکیر ہیں۔ “ 
(تھذيب التھذيب لابن حجر:29/12) 
(9) حافظ ابن سعد رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف“ لکھا ہے۔ (الطبقات الکبری:467/7) 
(10) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
والغالب علی حديثه الغرائب، وقل ما يوافقه عليه الثقات، وأحاديثه صالحة، وھو ممن لا يحتج بحديثه، ولكن يكتب حديثه.
’’اس کی اکثر احادیث منکر ہیں۔ اس کی بہت کم روایات پر ثقہ راوی موافقت کرتے ہیں۔ اس کی احادیث (بظاہر) خوبصورت ہیں، لیکن اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔ البتہ اس کی حدیث کو (متابعت و شواہد کے لیے) لکھا جائے گا۔ “
(الكامل في ضعفاء الرجال:40/2) 
(11) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ساقط الاحتجاج به إذا انفرد.
’’جب یہ کسی روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کی روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔ “ 
(كتاب المجروحين:146/3) 
(12) حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
لا يبلغ حديثه رتبة الحسن. ’’اس کی حدیث حسن کے درجے تک نہیں پہنچتی۔ “ (سير أعلام النبلاء:65/7) 
(13) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ کہا ہے۔ (تقريب التھذيب:7974) 
جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں اسے حافظ بزار (كشف الأستار:106/1،ح:189) نے ’’ثقہ“ کہا ہے،
اور امام حاکم رحمہ اللہ 
(المستدرك علي الصحيحين:696/1،ح:1897) نے اس كی ایک حدیث کی سند کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔
جمہور کے مقابلے میں یہ توثیق ناقابل اعتبار ہے۔ 
 
(۴) مذکورہ سند میں ابوبکر بن ابومریم سے نیچے سند غائب ہے۔ مسلمان بےسند روایات کا کوئی اعتبار نہیں کرتے۔
 
دلیل نمبر ۴۱
 
قال الحافظ ابن بشكوال: أخبرنا القاضي الشهيد أبو عبد الله محمد بن أحمد رحمه الله قراءة عليه، وأنا أسمع، قال : قرأت على أبي على حسين بن محمد الغساني، قال: أخبرني أبوالحسن طاهر بن مفوز والمعافري، قال: أنا أبو الفتح وأبو الليث نصر بن الحسن التنكتي، المقيم بسمرقند، قدم عليهم بلنسية، عام أربعة وستين وأربع مائة. قال: قحط المطر عندنا بسمرقند في بعض الأعوام، قال: فاستسقى الناس مراراً، فلم يسقوا، قال : فأتى رجل من الصالحين معروف بالصلاح، مشهور به، إلى قاضي سمرقند، فقال له: إني قد رأيت رأياً أعرضه عليك. قال: وما هو؟ قال: أرى أن تخرج ويخرج الناس معك إلى قبر الإمام محمد بن إسماعيل البخاري رحمه الله وقبره بخرتنك، وتستسقوا عنده، فعسى الله أن يسقينا، قال : فقال القاضي: نعم ما رأيت، فخرج القاضي، وخرج الناس معه، واستسقى القاضي بالناس، وبكى الناس عند القبر، وتشفعوا بصاحبه، فأرسل الله السماء بماءٍ عظيم غزير، أقام الناس من أجله بخرتنك سبعة أيام أو نحوها، لا يستطيع أحد الوصول إلى سمرقند من كثرة المطر وغزارته، وبين خرتنك وسمرقند ثلاثة أميال أو نحوها.
’’سمرقند میں ایک سال قحط پڑا۔ لوگوں نے بہت دفعہ بارش طلبی کے لیے دعائیں کیں، لیکن بارش نہ ہوئی۔ ایک نیک آدمی جس کا ورع و تقویٰ مشہور تھا، وہ قاضی سمرقند کے پاس آیا اور کہنے لگا : میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے، میں وہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ قاضی نے کہا : وہ ترکیب کیا ہے؟ اس نے کہا : میرا خیال ہے کہ آپ اور تمام لوگ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دعا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بارش عطا فرما دے۔ امام صاحب کی قبر خرتنک نامی جگہ میں ہے۔ قاضی اور تمام لوگ باہر نکلے اور امام صاحب کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دعا کی، اللہ کے ہاں گڑگڑائے اور امام صاحب کا وسیلہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ بارش نازل کی۔ اس بارش کی وجہ سے لوگوں کو خرتنک میں تقریباً سات دن ٹھہرنا پڑا۔ زیادہ بارش کی بنا پر کوئی بھی سمرقند نہ جا سکتا تھا۔ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تقریباً تین میل کا فاصلہ تھا۔“ 
(الصلة في تاريخ أئمة الأندلس لابن بشكوال، ص:603، وسنده صحيح)

تبصرہ: پانچویں صدی کے اواخر کے بعض لوگوں کا عمل دین کیسے بن گیا؟
ایک شخص کے کہنے پر بادشاہ اور اس کی رعایا کا یہ عمل قرآن و سنت اور سلف صالحین کے تعامل کے خلاف تھا۔ رہا بارش کا ہو جانا تو وہ ایک اتفاقی امر ہے۔ آج بھی کتنے ہی مشرکین قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد ملتی ہے تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحب قبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔ کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی ؟ اور کیا ان کی کوئی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز کی دلیل ہے؟ قرآن و حدیث میں بزرگوں کی قبروں پر دعا اور ان کے توسل کا کوئی جواز نہیں۔ اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ و تابعین ضرور ایسا کرتے۔ خیرالقرون کے بعد دین میں منکر کام داخل ہو گئے تھے، یہ بھی انہی کاموں میں سے ہے۔ اس دور میں کسی کے عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ 
 
قارئین کرام ! یہ تھے ان لوگوں کے دلائل جو دعا میں کسی مخلوق کی ذات یا فوت شدگان کے وسیلے کو مشروع اور جائز قرار دیتے ہیں۔ آپ نے ان کو بغور ملاحظہ فرمایا۔ ان روایات کی دو قسمیں ہیں ؛ اکثر تو ایسی ہیں جن میں فوت شدگان اور دیگر نیک ہستیوں کی ذات کے وسیلے کا تذکرہ تک نہیں لیکن بعض لوگ سلف صالحین کے فہم کو لات مارتے ہوئے ان سے اپنے خود ساختہ وسیلے کے اثبات کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ 
 
جبکہ دوسری وہ روایات ہیں جن میں ذات کے وسیلے کا تذکرہ تو ہے لیکن وہ موضوع، من گھڑت اور ضعیف و ناقابل حجت ہیں۔ ایسی روایات پر اعتماد کرنا اہل سنت والجماعت ہونے کے دعویداروں کو بالکل زیب نہیں دیتا۔ دین سند کا نام ہے۔ اگر ایک بھی صحیح سند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے تو شرعی امر کا اثبات ہو جاتا ہے، لیکن اگر کوئی صحیح سند نہ مل سکے تو لاکھوں موضوع، من گھڑت اور ضعیف روایات بھی مل کر کسی چیز کو مشروع قرار نہیں دے سکتیں۔ 
امام بریلویت جناب احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں : ”ضعیف حدیثیں کسی غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرتیں۔“ (فتاوي رضويه: 726/29) 
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 س تحریر کا اپچھلا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...