Sunday 15 January 2017

صدقۃ الفطر اور عید کے مسائل

 

صدقۃ الفطر اور عید کے مسائل

  المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹ

 
فطرانہ کسے ادا کیا جائے ؟
سوال:
ماركيٹوں(بازاروں ) ميں كچھ لوگ فطرانہ مانگتے پھرتے ہيں ليكن ہميں معلوم نہيں كہ آيا يہ دين والے ہيں يا نہيں، اور كچھ دوسرے بھى ہيں جن كى حالت (خود کی)تو اچھى ہے(لیکن) جو ان كے پاس فطرانہ لائے وہ اسے (لے لیتے ہیں اور)اپنى اولاد پر خرچ كر ليتے ہيں، اور كچھ لوگ تنخواہ دار ہيں ليكن وہ دين(پر عمل کرنے) ميں كمزور ہيں كيا ايسے لوگوں كو فطرانہ دينا جائز ہے يا نہيں ؟
جواب:
الحمد للہ:
فطرانہ فقراء اور مساكين مسلمانوں كو ديا جائيگا اگرچہ وہ معصيت كے مرتكب  بھی ہوں ،ليكن ايسى معصيت ہو جو انہيں اسلام سےخارج نہ كرتى ہو،(یعنی وہ لوگ جو  شرک میں یا کسی ایسی بدعت میں مبتلانہ ہوں جو انہیں اسلام سے نکال دے،ایسے لوگوں کو  فطرانہ دیا جاسکتا ہے اگرچہ وہ معصیت ہی میں مبتلا ہوں  )كيونكہ معتبر تو فقر ہے اور يہ اس كى ظاہرى حالت سے لي جائيگى، چاہے وہ باطنى طور پر غنى و مالدار ہى ہو.
فطرانہ دينے والے كو چاہيے كہ وہ حسب استطاعت (دینی اعتبار سے )اچھے (مستحق) فقراء تلاش كرنے كى كوشش كرے، اور اگر فطرانہ لينے كے بعد يہ ظاہر ہو جائے كہ وہ تو غنى اور مالدار تھا تو يہ نقصاندہ نہيں بلكہ يہ كفائت كر جائيگا.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
   
کیا محتاج اور اسکی فیملی پر بھی فطرانہ ہے ؟؟
سوال:
ايك فقير انسان جو اپنے والدين اور بيوى بچوں كا سہارا ہے، عيد الفطر كے موقع پر اس كے پاس صرف ايك صاع(ڈھائی سےپونے تین کلو)خوراك ہے تو اس كا فطرانہ كون ادا كريگا ؟
الحمد للہ:
اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا سائل نے فقير كى حالت بيان كى ہے؛
تو اگر اس كے پاس اپنے اور اہل و عيال كے ليے عيد كے دن اور رات كى خوراك سے زائد خوراك ہے تو وہ اپنى طرف سے فطرانہ ادا كرے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اپنے آپ سے شروع كرو اور پھر جس كا خرچ تم كرتے ہو " صحيح بخارى ( 2 / 117 ) ( 6 / 190 ) صحيح مسلم ( 2 / 717 -717 - 721 ) حديث نمبر ( 1034 - 1036 - 1042 ).
اور سائل كى عيالدارى(زیرِسرپرستی) ميں جو افراد ہيں اگر ان كے پاس فطرانہ كى ادائيگى كے ليے كچھ نہيں تو ان سے فطرانہ ساقط ہو جائيگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا}(البقرۃ:286)
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
"صدقہ استغناء(ضرورت) سے زائد ميں ہوتا ہے " صحيح بخارى ( 6 / 190 ) صحيح مسلم ( 2 / 717 ) حديث نمبر ( 1034 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو تم اس پر استطاعت كے مطابق عمل كرو "
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
واللہ اعلم .
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى سعودی عرب
…………………………………………………………………….
عید کی سنتیں اور آداب
                                              شیخ صالح المنجّد
الحمد للہ:
مسلمان شخص كے ليے عيد كے روز مندرجہ ذيل كام كرنے مسنون ہيں:
 
1-  نمازِ عيد كے ليے جانے سے پہلےغسل كرنا.
موطا امام مالك وغيرہ ميں صحیح سند کے ساتھ سیدناعبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ: " آپ رضى اللہ تعالى عنہ عيدگاہ جانے سے قبل غسل كيا كرتے تھے " موطا امام مالك حديث نمبر (428).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے نمازِ عيد كے ليے غسل كے استحباب پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كيا ہے.
جس کی بنا پر جمعہ المبارك اور اسی طرح دیگراجتماعات ميں جانے كے ليے غسل كرنے كی جو وجہ اورسبب  ہے وہی وجہ اورسبب اجتماعِ عيد ميں بھى پايا جاتا ہے، بلكہ عيد ميں تو يہ سبب اور بھى زيادہ ظاہر ہے.
 
2 - عيد الفطر كى نماز سے پہلےكچھ كھا كر جانا، اور عيد الاضحى ميں نماز عيد كے بعد كھانا:
عيد كے آداب ميں سےہے كہ نماز عيد الفطر كے ليے جانے سے پہلے كچھ نہ كچھ كھانا چاہيے چاہے چند كھجوريں ہى كيوں نہ كھائى جائيں.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے سیدناانس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كھجوريں كھانے سے پہلےنماز عيد كے ليے نہيں جاتے تھے، اور كھجوريں طاق عدد(يعنى ايك ، تين،پانچ وغیرہ) كھاتے  " صحيح بخارى حديث نمبر ( 953 ).
نماز عيد الفطر سے قبل كچھ كھا كر جانا اس ليے مستحب كيا گيا ہے تاكہ اس دن روزہ نہ ركھا جائے، اور يہ روزےختم ہونے كى نشانى ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے اس كى تعليل بيان كرتے ہوئے فرمایا ہے كہ: اس ميں روزے زيادہ كرنے كا سد ذريعہ، اور اللہ تعالى كے حكم كى اتباع اور پيروى ہے.ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 446 ).
اور جسے كھجور بھى نہ ملے تو اس كے ليے كوئى بھى چيز كھانا مباح (جائز)ہے.
ليكن عيد الاضحى ميں مستحب يہ ہے كہ نماز عيد سے قبل كچھ نہ كھايا جائے، بلكہ نماز عيد كے بعد قربانى كر كے قربانى كا گوشت كھائے، اور اگر قربانى نہ كى ہو تو نماز سے قبل كھانے ميں كوئى حرج نہيں.
 
3 - عيد كے روز تكبيريں كہنا:
عيد كے روز تكبيريں كہنا عظيم سنتوں  ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿تا كہ تم گنتى پورى كرو، اور اللہ تعالى نے جو ہدايت تمہيں دى ہے اس پر اس كى بڑائى بيان كرو، اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرو﴾.
 
تكبيريں كہنے كا وقت:
عيد الفطر ميں تكبيريں كہنے كا وقت چاند رات سے شروع ہو كر نماز عيد كے ليے امام كے آنے تك رہتا ہے.
ليكن عيد الاضحى ميں يكم ذوالحجہ سے شروع ہو كر آخرى ايام تشريق كا سورج غروب ہونے تك رہتا ہے.
جناب وليد بن مسلم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:ميں نے امام اوزاعى اورامام مالك بن انس رحمہما اللہ سے عيدين ميں بلند آواز سے تكبيريں كہنے كے متعلق پوچھا تو وہ كہنے لگے:
" جى ہاں ،  سیدنا عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عيد الفطر كے روز امام كے آنے تك بلند آواز سے تكبيريں كہتے تھے "
اورجناب  عبد الرحمن بن سلمى سے صحيح روايت كے ساتھ ثابت ہے كہ:
" (تکبیریں کہنے میں )وہ عيد الاضحى كى بنسبت  عيد الفطر ميں زيادہ شديد(اہتمام و پابندی کیا کرتے) تھے "
امام وكيع رحمہ اللہ كہتے ہيں:يعنى تكبيروں ميں. ديكھيں: ارواء الغليل (3/122).
امام دار قطنى وغيرہ نے روايت كيا ہے كہ: سیدناعبداللہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عيد الفطر اور عيد الاضحى كے روز عيدگاہ آنے تك تكبيريں كہتے، اور وہاں آكر بھى امام كے آنے تك تكبيريں كہتے رہتے تھے.
امام ابن ابى شيبہ نےامام  زہرى سےصحيح سند كے ساتھ كے بيان كيا ہے كہ:
" جب لوگ گھروں سے نكلتے تو عيد گاہ پہنچنے تك بلند آواز كے ساتھ تكبيريں كہتے، حتى كہ جب امام آجاتا تو لوگ تكبيريں كہنا ختم كرتے اور جب امام تكبيريں كہتا تو لوگ بھى تكبيريں كہتے " ديكھيں:ارواء الغليل (2/121).
سلف صالحین رحمہم اللہ ميں عيد كے روز گھر سے نكلنے سے ليكر عيد گاہ جانے اورامام كے آنے تك بلند آواز ميں تكبيريں كہنا معروف اور بہت ہى مشہور امر تھا، بہت سے مصنفين نے اپنى كتب ميں اس كا ذكر كيا ہے، جن ميں امام  ابن ابى شيبہ، امام عبد الرزاق، اسی طرح فريابى نے كتاب: " احكام العيدين  " ميں سلف كي ايك جماعت سے نقل كيا ہے، جن ميں جناب نافع بن جبير بھى شامل ہيں، وہ تكبيريں كہتے اور لوگوں كے تكبيريں نہ كہنے پر تعجب كرتے اور كہتے تم تكبيريں كيوں نہيں كہتے ؟.
اورامام  ابن شہاب زہرى رحمہ اللہ تعالى كہا كرتے تھے:
" لوگ گھروں سے نكل كر عيد گاہ جانے اور عيد گاہ ميں امام كے آنے تك تكبيريں كہا كرتے تھے "
تكبير كے الفاظ:
تكبير كے الفاظ يہ ہيں:
مصنف ابن ابى شيبہ ميں صحيح سند كے ساتھ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" وہ ايام تشريق ميں تكبيريں كہا كرتے: " اَللّٰهُ أَكْبَرُ اَللّٰهُ أَكْبَرُ لَآ  إلٰهَ إلَّا اللّٰهُ وَا للّٰهُ أَكْبَرُ اَللّٰهُ أَكْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ  "
اورامام  ابن ابى شيبہ نے ہى ايك روايت ميں اسى سند كے ساتھ تين بار تكبير كے الفاظ روايت كيے ہيں.
اور محاملى نے صحيح سند كے ساتھ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے يہ الفاظ بيان كيے ہيں:
" اَللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا اَللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا اَللّٰهُ أَكْبَرُ وَأَجَلُّ ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ    " ديكھيں:اراوء الغليل (3/126).
4 - عيد كى مباركباد دينا:
عيد كے آداب ميں :ايك دوسرے كو عيد كے روز اچھے الفاظ ميں مباركباد دينا بھی  شامل ہے، چاہے اس كے الفاظ كوئى بھى ہوں،
مثلا ايك دوسرے كو يہ كہے: تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَ مِنْكُمْ. اللہ تعالى ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے.
يا عيد مبارك يا اس طرح كے كوئى اور الفاظ كہيں جو مباركباد كے ليے مباح اور جائز ہوں.
جناب جبير بن نفير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عيد كے روز جب نبى كريم صلى اللہ علیہ وسلم  كے صحابہ كرام ايك دوسرے كو ملتے تو وہ ايك دوسرے كو يہ الفاظ كہا كرتے تھے:
" تَقَبَّلَ مِنَّا وَ مِنْكَ " آپ سے اور ہم سے قبول ہو.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كى سند حسن ہے.ديكھيں: فتح البارى ( 2 / 446 ).
لہذا عيد كى مباركباد دينا صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اجمعین كے ہاں معروف تھا، اور امام احمد وغيرہ اہل علم نے اس كی اجازت دى ہے، مختلف مواقع پر مباركباد دينے كى مشروعيت صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے، كہ جب كسى كو كوئى خوشى حاصل ہوتى مثلا كسى شخص كى اللہ تعالى توبہ قبول فرماتا تو صحابہ كرام اسے مباركباد وغيرہ ديا كرتے تھے.
اس ميں كوئى شك نہيں كہ مباركباد دينا مكارم اخلاق اور مسلمانوں كے مابين اجتماعيت حسنہ میں شامل ہوتا ہے.
اور مباركباد كے سلسلہ ميں كم از كم يہ كہا جا سكتا ہے كہ: جو شخص آپ كو مباركباد دے اسے آپ بھى مباركباد ديں، اور جو شخص خاموش رہے آپ بھى اس كے ليے خاموشى اختيار كريں.
جيسا كہ امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے:
" اگر مجھے كوئى شخص مباركباد ديتا ہے تو ميں بھى اسے مباركباد كا جواب ديتا ہوں، ليكن ميں اس كى ابتدا نہيں كرتا " .
5 - عيد كے ليے خوبصورتى اور اچھا لباس پہننا:
سیدناعبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى سے مروى ہے كہ:
" سیدنا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بازار سے ايك ريشمى جبہ فروخت ہوتے ہوئے ديكھا تو اسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لا كر عرض كيا:
" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اسے خريد ليں تا كہ آپ اسے عيد كے روز اور وفود كو ملنے كے ليےخوبصورتى کے طور پرپہننا كريں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ تو اس كے ليے ہے جس كا آخرت ميں كوئى حصہ نہيں... " صحيح بخارى حديث نمبر ( 948 ).
اس حدیث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد كے ليے خوبصورتى اختيار كرنے پر انكارومنع نہيں كيا بلكہ اس كا اقرار كيا ، ليكن اس جبہ كو خريدنے سے انكار كيا كيونكہ وہ ريشمى تھا.(اورریشم بطورِ لباس مردوں کے لیے جائز نہیں )
سیدناجابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
"نبى كريم صلى اللہ عليہ كا ايك جبہ تھا جو آپ صلى اللہ عليہ وسلم عيدين اور جمعہ كے روز زيب تن كيا كرتے تھے  "صحيح ابن خزيمہ حديث نمبر ( 1765 ).
اورامام بيہقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے كہ: سیدناابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ عيد كے ليے اپنا خوبصورت ترين لباس زيب تن كيا كرتے تھے.
اس ليے آدمى كو چاہيے كہ وہ عيد كے ليے خوبصورت ترين لباس زيب تن كرے.
ليكن جب عورتيں عيد كے ليے جائيں تو وہ(خلافِ شرع) زيب و زينت سے اجتناب كريں، كيونكہ انہيں(اجنبی) مردوں كے سامنے زينت كے اظہار سے منع كيا گيا ہے، اور اسى طرح باہر جانے والى عورت كے ليے خوشبو لگانا بھى حرام ہے، تا كہ وہ مردوں كے لیےفتنہ كا باعث نہ بنے، كيونكہ وہ تو صرف عبادت اور اطاعت كے ليے نكلى ہے.
6 - نماز عيد كے ليے آنے جانے ميں راستہ بدلنا.
سیدناجابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" عيد كے روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم (آنے اور جانے کا)راستہ تبديل كيا كرتے تھے " صحيح بخارى حديث نمبر (986).
اس كى حكمت كے متعلق يہ كہا گيا ہے كہ: تا كہ روز قيامت دونوں راستے گواہى ديں، روز قيامت زمين اپنے اوپر خير اور شر كے عمل كى گواہى دے گى.
ايك قول يہ ہے كہ: تاکہ دونوں راستوں ميں اسلامى شعار كا اظہار ہو.
اور ايك قول يہ ہے كہ: اللہ تعالى كا ذكر ظاہر كرنے كے ليے.
اور يہ بھى كہ:تاکہ يہوديوں اور منافقين كو غصہ دلايا جائے، اور تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ لوگوں كى كثرت سے انہيں ڈرايا دھمكايا جا سكے.
اور ايك قول يہ بھى ہے: تا كہ تعليم اور فتوى کے ذریعہ اور اقتداء يا پھر ضرورتمندوں پر صدقہ وغيرہ كے ذريعہ لوگوں كى حاجتيں پورى ہوں، يا پھر اپنے رشتہ داروں كى زيارت اور ان سے صلہ رحمى ہو.
واللہ اعلم .
وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...