سلفی منہج کے امتیازات و خصائص
پہلی خصوصیت :سلفی منہج نہا یت سیدھا آسان اور واضح ہے:بلاشبہ اللہ رب العالمین کا پسندیدہ دین’’إِنَّ الدِّينَ يُسْر‘‘کے مطابق انتہائی آسان ہے اور سلفیت اس دین کا حقیقی ترجمان ہے یہاں فقہی مو شگافیوں ، منطقی مباحث اور فلسفیانہ الجھاؤ کا ایسا غلبہ نہیںہے کہ دین قیم کی سادہ اور آسان تعلیمات مجروح ہوجائیں اور دین کے مبادیات اپنی اصل سے ہٹ کر بدعات و خرافات ، روایات اور قصہ کہانیوں کی نذر ہوجائیں ۔ رسول رحمت کا فرمان ہے۔’’يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا‘‘۔(صحیح بخاری :۱؍۱۲۲) ’’لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرو سختیاں نہیں ، انکو خوشخبریوں سے نوازو نفرت پھیلانے والے نہ بنو‘‘۔ اوردوسرے مقام پر فرمایا:’’وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوابِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ ‘‘’’اور دین میں جس نے بھی سختی اپنائی تو وہ مغلوب ہوگیا لہٰذا درستی کو اپناؤ اور ایک دوسرے سے قربت اختیار کرتے ہوئے خوشخبریاں قبول کرو صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں (اللہ سے) مدد طلب کیا کرو‘‘۔(صحیح بخاری :۱؍۶۹)چنانچہ سلفی منہج کے علم برداروں نے ہمیشہ دین کا سیدھا رخ پکڑا اور اسی پر چلے زمانے کی کسی کج روی کا شکار نہ ہوئے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{ قُلْ هٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللّٰهِوَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ}(یوسف:۱۰۸)’’ آپ کہہ دیجئے کہ میری سیدھی راہ یہی ہے ۔ میں اور میرے متبعین پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ‘‘۔یہی بات اللہ نے سورۃ الانعام میں بھی واضح فرمائی۔(الانعام: ۱۵۳)حدیث رسول ہے :عنَ الْعِرْبَاضَ بْن سَارِيَةَ قَالَ وَعَظَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَمَوْعِظَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللّٰهِ إِنَّ هٰذِهِ لَمَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍفَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا قَالَ قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لَا يَزِيغُ عَنْهَا بَعْدِي إِلَّا هَالِکٌوَمَنْ يَّعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِالرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ وَعَلَيْكُمْ بِالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُكَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَيْثُمَا انْقِيدَ انْقَادَ.مسند احمد کی روایت ہے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں ایک ایسی نصیحت کی جس سے آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور دل بھر آئے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ یہ ایک ایسی نصیحت لگ رہی ہے جیسے آپ ہمیں الوداع کہنے والے ہوں سو آپ ہمیں کس چیز کی نصیحت کرتے ہیں ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے تم کو روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے جس کی راتیں اس کے دن کی طرح ہیں ،میرے بعد اس سے صرف ہلاک ہونے والا ہی منحرف ہو سکتا ہے ۔ اور جو تم میں سے زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا ایسے میں تم جو کچھ میری سنت اورہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقے کے مطابق پاؤ اسے لازم پکڑو ،اور اطاعت کو بھی لازم پکڑو گرچہ ایک حبشی غلام ہی ( امیر ) کیوں نہ ہو۔ اسے دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو کیونکہ ایک مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح سے ہے جب اسے سدھا دیا جائے تو وہ فرماں بردار ہوجاتا ہے ‘‘۔(مسند احمد ۷؍۳۵، علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے۔’’ السلسلۃ الصحیحۃ : ۲؍۶۴۸ )یہ چند وہ دلیلیں ہیں جن کی بنیاد پرسلفی منہج ہمیشہ محکمات دین کو سامنے رکھتا ہے ، پیچیدگی ، مصنوعی مشکل پسندی اور کج روی کو نا پسند کرتا ہے۔دوسری خصوصیت : منہج سلف پر تمام اسلاف کا اتفاق:منہج سلف کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس منہج کے متبعین دوسرے لفظوں میں ہر زمانے کے تمام سلفیوں کا اس طریقے اوراس راستے پر اتفاق ہے اس منہج کا بیان اللہ کے نبی ﷺ نے یوں فرمایا:(صحيح وضعيف سنن الترمذي – الألباني۶؍۱۴۱،علامہ البانی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : وإسنادها حسن لغيره رواه الترمذي وحسنه عن ابن عمرو والطبراني وغيره عن أنس وهو مخرج مع الرواية الأولى – وهي صحيحة – في ” سلسة الأحاديث الصحيحة ” رقم:۲۰۴) ’’وہ راستہ جس پر میں اور میرے اصحاب آج قائم ہیں‘‘۔ چنانچہ اسلامی تراث کا مطالعہ کرنے والا شخص بخوبی اس بات سے واقف ہو سکتا ہے کہ زمان و مکان کے اختلاف اوردیار و اوطان کی دوری کے باوجود اعتقادی وعملی تمام زاویوں سے علماء سلف کی کتابیں ایک ہی نہج پر ایک ہی زبان بولتی ہیں ، انحراف بالکتاب والسنۃ کا معمولی شائبہ بھی نہیں ۔ ان کے اقوال ، افعال ایک دوسرے سے جدا گانہ نہیں ہوتے۔اگر وہ تمام چیزیں جو سلف سے نقل کی جاتی ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے تو ایسا معلوم ہوگا جیسے یہ ایک ہی شخص کی طرف سے صادر ہوئی ہوں اور یہ منہج سلف کے برحق ہونے کی سب سےواضح اور ٹھوس دلیل ہے۔ اس کے بر عکس اگر اہل ہویٰ اور بدعتی جماعتوںکے مناہج شریعت میں غور کیا جائے تو جا بجا اعتقادی اور عملی انحراف کے ساتھ کج روی، سنت سے دوری اور باہمی اختلاف و تضاد اور تناقض کی بھرمار ہوگی ۔یہاں تک کہ بدعتی ٹولوں میں سے کوئی دو ٹولے بھی ایسے نہیں ملیں گے جن کے درمیان اعتقادی اور عملی ناحیہ سے کلی طور پر اتفاق ملتا ہو ۔ ان کی حالت ایسی ہے کہ باپ بیٹا ، بیٹا باپ، بھائی بھائی ، پڑوسی پڑوسی کی تکفیر کرتا ہواملے گا۔ مثال کے طور پر معتزلہ کو لے لیجئے ۔ بغدادی بصریوں اور بصری بغدادیوں کی تکفیر کرتے ہیں ابو علی الجبائی اپنے بیٹے ابو ہاشم کی اور اصحاب ابو ہاشم ابوہاشم کے باپ ابو علی الجبائی کی تکفیر کرتے ہیں ۔(المنہج السلفی: ص:۵۱)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’أَنَّکَ تَجِدُ أَهْلَ الْكَلَامِ أَكْثَرَ النَّاسِ انْتِقَالًا مِنْ قَوْلٍ إلٰى قَوْلٍ وَجَزْمًا بِالْقَوْلِ فِيمَوْضِعٍ وَجَزْمًا بِنَقِيضِهِ وَتَكْفِيرِ قَائِلِهِ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ وَھٰذَا دَلِيلُ عَدَمِ الْيَقِينِ. فَإِنَّ الْإِيمَانَ كَمَاقَالَ فِيهِ قَيْصَرُ لَمَّا سَأَلَ أَبَا سُفْيَانَ عَمَّنْ أَسْلَمَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” هَلْيَرْجِعُ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ سَخْطَةً لَهُ بَعْدَ أَنْ يَّدْخُلَ فِيهِ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: وَكَذَالِکَ الْإِيمَانُ إذَاخَالَطَ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ ” وَلِهٰذَا قَالَ بَعْضُ السَّلَفِ – عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَوْغَيْرُهُ -: ” مَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَاتِ أَكْثَرَ التَّنَقُّلَ “. وَأَمَّا أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْحَدِيثِ فَمَايُعْلَمُ أَحَدٌ مِنْ عُلَمَائِهِمْ وَلَا صَالِحِ عَامَّتِهِمْ رَجَعَ قَطُّ عَنْ قَوْلِهِ وَاعْتِقَادِهِ بَلْ هُمْ أَعْظَمُ النَّاسِصَبْرًا عَلٰى ذَالِکَ وَإِنْ اُمْتُحِنُوا بِأَنْوَاعِ الْمِحَنِ وَفُتِنُوا بِأَنْوَاعِ الْفِتَنِ وَهٰذِهِ حَالُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَتْبَاعِهِمْمِنْ الْمُتَقَدِّمِينَ كَأَهْلِ الْأُخْدُودِ وَنَحْوِهِمْ وَكَسَلَفِ هٰذِهِ الْأُمَّةِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَوَغَيْرِهِمْ مِن الْأَئِمَّةِ حَتّٰى كَانَ مَالِکٌ رَحِمَهُ اللّٰهُ يَقُولُ: ” لَا تَغْبِطُوا أَحَدًا لَمْ يُصِبْهُ فِي هٰذَاالْأَمْرِ بَلَاءٌ “. يَقُولُ: إنَّ اللّٰهَ لَا بُدَّ أَنْ يَبْتَلِيَ الْمُؤْمِنَ فَإِنْ صَبَرَ رَفَعَ دَرَجَتَهُ كَمَا قَالَ تَعَالٰى:{الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ،وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْفَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ}آپ اہل کلام میں سے بیشتر لوگوں کو ایسا پائیں گے کہ ایک قول سے دوسرے قول پر چھلانگ لگاتے رہتے ہیں اور کبھی ایک مقام پر کسی قول پر پختہ رائے قائم کرلیا تو دوسرے مقام پر ٹھیک اسی قول کے برعکس بات کی اور اس قول کے قائلین کی تکفیر کرڈالی دراصل یہ ان کے عدم یقین کی دلیل ہے ۔کیونکہ ایمان کا معاملہ در حقیقت ویسا ہی ہے جیسا کہ قیصر نے اس وقت کہا تھا جب اس نے ایمان والوں کے بارے میں ابو سفیان سے یہ سوال کیا کہ: کیا دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی اس کو ناپسند کرتے ہوئے اس سے خارج بھی ہوتا ہے تو ابو سفیان نے کہا نہیں ، اس پر قیصر نے کہا ایمان کی یہی خاصیت ہے جب ایک بار دل میں ایمان کی بشاشت بیٹھ جاتی ہے تو اسے کوئی چیز نا پسندیدہ نہیں بنا سکتی ۔یہی وجہ کہ بعض سلف(عمر بن عبد العزیز وغیرہ ) کہتے ہیں :جو دین کو جھگڑوں ، اختلافات اور نزاع کا ہدف بناتے ہیں وہ اکثر ادھر ادھر بھٹکتے رہتے ہیں ‘‘۔رہی بات اہل سنت و الجماعت کی تو ان کے علماء یا عام صالحین میں کبھی کوئی ایسانہ ملا کہ وہ اپنے قول اور عقید ے سے پھر گیا ہو ۔ ان پر جو بھی آزمائشیں آئیں اور جس بھی فتنے کا انہیں سامنا ہوا انہوں نے صبر کیا ۔ یہی حال سابقین انبیاء کرام اور ان کے متبعین جیسے اصحاب اخدود وغیرہ اور اس امت کے اسلاف صحابہ کرام تابعین عظام وغیرہ کا ہے یہاں تک کہ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں : تم ایسے لوگوں پر رشک نہ کرو جو اس (دین) کے معاملے میں آزمائے نہ گئے ہوں ۔ وہ کہتے ہیں یہ ضروری ہے کہ اللہ رب العالمین ایک مومن کو آزماتا ہے پھروہ صبر کرتا ہے تو اللہ اس کے درجے بلند کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’(الم)کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اتنا کہنے پر کہ ہم ایمان لائے چھوڑ دیئے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے ۔ تحقیق کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو ہم نے آزمایا ، یقیناً اللہ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں او ر انہیں بھی جان لے گا جو جھوٹے ہیں ‘‘۔(العنکبوت : ۱۔۳، مجموع الفتاویٰ: لابن تیمیۃ: ۴؍۵۰)خلاصہ یہ کہ منہج سلف کی تعبیرات میں ثبات ، استحکام اور یگانگت ہے اس کے بر عکس فلاسفہ ، اہل کلام و منطق اور دیگر اسلام نما باطل و بدعتی ٹولے انتشار و افتراق کی بھول بھلیوں میں حیران و پریشان اورسرگرداں نظر آئیں گے ۔تیسری خصوصیت : وسطیت و میانہ روی اور غلو سے دوری:منہج سلف کی تیسری اہم ا متیازی صفت اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ منہج اسی اعتدال اور وسطیت پر قائم ہے جو دین اسلام کا امتیازی خاصہ ہے ۔ جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کو خیر امت قرار دیا ہے وہیں وسطیت اس کی شان بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{وَكَذَالِکَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةًوَّسَطًا}’’ اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط (عادل) بنایا ہے ‘‘۔(البقرۃ: ۱۴۳)اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِعَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}’’ (اے اللہ) تو ہمیں سیدھے راستےکی رہنمائی فرما ۔ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے ان لوگوں کے راستے کی نہیں جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کی راستے کی جو گمراہ ہوئے ‘‘۔(الفاتحہ:۶۔۷) سورہ فاتحہ کی ان آیات میں وسطیت کی تعلیم یوں ہے کہ صراط مستقیم جس کی توفیق ہم ہر صلاۃ میں اللہ رب العالمین سے طلب کرتے ہیں وہ دراصل افراط و تفریط اور غلو وکو تاہی کرنے والوں کے درمیان ایک تیسری راہ کی طلب ہے جو راہ حق پسندوں اور صدیقین و صالحین کی ہے۔ذیل میںاہل سنت و الجماعت اور سلف صالحین کے منہجی اعتدال کےچند نمونے پیش خدمت ہیں :(۱)اسماء و صفات میں سلف صالحین کا اعتدال اور وسطیت :ایک طرف اہل تعطیل ہیں جو اللہ کے اسماء و صفات کا کلی یا جزوی انکار کرتے ہیں اور دوسری طرف ’’ ممثلہ‘‘ ہیںجو خالق کو مخلوق کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔اب سلفیت کا راستہ دیکھیں یہ کہتے ہیں :’’ بلا تعطیل وبلا تمثیل‘‘یعنی نہ صفات کا انکار کیا جائے گا اور نہ صفات کی تشبیہ بیان کی جائے گی ۔یوں سلفی منہج اس آیت کا مصداق ہوا۔ {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ } ’’اس کی طرح کوئی چیز نہیں ،اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ‘‘ ۔اس آیت میں ایک طرف مثلیت کا انکار ہے اور دوسری طرف سمیع و بصیر کا اثبات ہے ۔ اس سے اندازہ ہوا کہ سلف کا راستہ ہی وسط ہے ۔تقدیر کے بارے میں سلف کی وسطیت:(۲)ایک طرف جبریہ ہیں جو بند ے کو مجبور محض تصور کرتے ہیں ۔ دوسری طرف قدریہ ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔سلف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جبر کا عقیدہ بھی غلط ہے اور تقدیر کا انکار بھی غلط ہے ۔ عقیدہ یہ ہے کہ بندے کو اللہ نے مجبور نہیں بنایا لیکن تقدیر پر ایمان واجب ہے ۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا انتہائی جامع قول ملاحظہ فرمائیں :’’اعْلَمْ أَنَّ الْعَبْدَ فَاعِلٌ عَلَى الْحَقِيقَةِ وَلَهُ مَشِيئَةٌ ثَابِتَةٌ وَلَهُ إرَادَةٌ جَازِمَةٌ وَقُوَّةٌصَالِحَةٌ وَقَدْ نَطَقَ الْقُرْآنُ بِإِثْبَاتِ مَشِيئَةِ الْعِبَادِ فِي غَيْرِ مَا آيَةٍ كَقَوْلِهِ: {لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْيَّسْتَقِيمَ}{وَمَا تَشَاءُونَ إلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ} {فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إلٰى رَبِّهِ سَبِيلًا}{فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ} {وَمَا يَذْكُرُونَ إلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللّٰهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوٰى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ} وَنَطَقَبِإِثْبَاتِ فِعْلِهِ فِي عَامَّةِ آيَاتِ الْقُرْآنِ: {يعملون}{يفعلون}{يؤمنون}{يكفرون}{يتفكرون}{يحافظون}{يتقون} وَكَمَا أَنَّا فَارَقْنَا مَجُوسَ الْأُمَّةِ بِإِثْبَاتِ أَنَّهُ تَعَالٰى خَالِقٌ فَارَقْنَا الْجَبْرِيَّةَبِإِثْبَاتِ أَنَّ الْعَبْدَ كَاسِبٌ فَاعِلٌ صَانِعٌ عَامِلٌ‘‘۔’’ یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ بندہ حقیقی فاعل ہے اس کے پاس چاہت و پختہ ارادہ اور صالح قوت موجود ہوتی ہے جیسا کہ قرآن نے کئی مقامات پر یہ بات بیان کی ہے{لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَّسْتَقِيمَ}{وَمَا تَشَاءُونَ إلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللہُ رَبُّالْعَالَمِينَ}( تم میں سے اس شخص کے لئے جو سیدھا راستہ اپنانا چاہے اور تم نہیں چاہ سکتے یہاں تک کہ اللہ رب العالمین چاہ لے ) (التکویر:۲۸۔۲۹) اسی طرح سے اللہ رب العالمین کا فرمان{فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إلٰى رَبِّهِ سَبِيلًا}(جو شخص بھی اپنے رب کے پاس راستہ بنانا چاہے(تو وہ بنائے)۔(المزمل : ۱۹)اور بندے کے افعال کو ثابت کرتے ہوئے قرآن میں کئی ایک مقامات پر (يعملون)وہ علم رکھتے ہیں (يفعلون) وہ کرتے ہیں (يؤمنون) وہ ایمان رکھتے ہیں(يکفرون)وہ کفر کرتے ہیں(يتفکرون)وہ غور و فکر کرتے ہیں(يحافظون) وہ حفاظت کرتے ہیں(يتقون) وہ ڈرتے ہیں ، کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔ان تمام دلائل کی روشنی میں ہم جس طرح امت کے مجوسیوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ثابت کر کے کہ وہی بندوں کے افعال کا خالق ہے اپنے سے الگ کر دیتے ہیں اسی طرح جبریہ کو بھی بندہ کے لئے ’کسب‘ و ’فعل ‘ اور اختیار و ارادہ کی صفت ثابت کرکے اپنے سے الگ کر دیتے ہیں ‘‘۔(مجموع الفتاویٰ: ۸؍۳۹۳)گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی بابت سلفیت کا اعتدال:(۳)ایک طرف خوارج ہیںیہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو ملت اسلامیہ سے نکال کر کافر گردانتے ہیںاور کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ان کے بالمقابل مرجئہ ہیں یہ معصیت کو ایمان کے لئے نقصاندہ تصورنہیں کرتے اور مرتکب کبیرہ کو مومن کامل الایمان ٹھہراتے ہیں۔ اورادھر معتزلہ کی حیرانی یہ ہے کہ’’ منزلۃ بین المنزلتین‘‘ کا فلسفہ قائم کرتے ہیں کہ بندہ نہ مومن ہے نہ کافر ہے ۔اب سلف صالحین کا عقیدہ دیکھیں: عقیدہ یہ ہے کہ مرتکب کبیرہ مطلق معصیت کی وجہ سے ایمان سے نکلتا ہے نہ کفر میں داخل ہوتا ہے جیسا کہ خوارج اور ان کے ہمنوا ٹولوں کا نظریہ ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ معصیت کے ساتھ ساتھ ایک انسان مومن کامل الایمان باقی رہے بلکہ ایمان وہ جوہر ہے جو معصیت و نافرمانی سے کم ہوتا ہے لہٰذا اس کو مسلم فاسق یا مومن ناقص الایمان کا نام دیا جائے گا ۔ جہاں تک رہی بات اخروی احکام کی تو ایسے مرتکبین معاصی اللہ کی مشیئت کے تحت ہوں گے اگر اللہ چاہے تو انہیں سزا دے اور چاہے تو معاف فرمادے ۔طوالت کے پیش نظر دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں صرف سلف صالحین کے اقوال پر اکتفا کیا جا رہا ہے ۔قاضی فضیل بن عیاض کہتے ہیں : ’’سمعت سفيان الثوري يقول : من صلى إلى هذه القبلة فهو عندنا مؤمن والناس عندنا مؤمنون بالإقرار والمواريث والمناكحة والحدود والذبائح والنسك ولهم ذنوب وخطايا الله حسيبهم إن شاء عذبهم وإن شاء غفر لهم ، ولا ندري ما هم عند الله عز وجل ‘‘۔’’میں نے سفیان ثوری کو کہتے ہوئے سنا : جو اس ( کعبہ کے) قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے تو وہ ہمارے نزدیک مومن ہے ۔ لوگ ہمارے نزدیک زبان اقرا ر ، وراثت ،نکاح ، حدود ذبیحے اور قربانی کو ماننے اور اس میں ہمارے ساتھ شریک ہونے کی وجہ سے مومن ہیں ۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں کہ ان کے یہاں گناہ او رمعصیت کے کام بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان کے اعمال کا حساب کتاب اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے اگر وہ چاہے گا تو ان کو عذاب دے گا اور چاہے گا تو بخش دے گا ۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اللہ رب العالمین کے یہاں ان کی کیا حیثیت ہے ‘‘۔(السنۃ عبد اللہ بن احمد: ۲؍۲۶۶)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ خوارج و معتزلہ اور مرجئہ کا اختلاف ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :’’وَالصَّحِيحُ التَّفْصِيلُ . فَإِذَا سُئِلَ عَنْ أَحْكَامِ الدُّنْيَا كَعِتْقِهِ فِي الْكَفَّارَةِ . قِيلَ :هُوَ مُؤْمِنٌ وَكَذَلِكَ إذَا سُئِلَ عَنْ دُخُولِهِ فِي خِطَابِ الْمُؤْمِنِينَ . وَأَمَّا إذَا سُئِلَ عَنْ حُكْمِهِ فِيالْآخِرَةِ . قِيلَ : لَيْسَ هَذَا النَّوْعُ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ الْمَوْعُودِينَ بِالْجَنَّةِ بَلْ مَعَهُ إيمَانٌ يَمْنَعُهُالْخُلُودُ فِي النَّارِ وَيَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ بَعْدَ أَنْ يُعَذَّبَ فِي النَّارِ إنْ لَمْ يَغْفِرْ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ‘‘۔’’صحیح بات یہ کہ اس مسئلہ میں تفصیل ہے جب مرتکب کبیرہ کے دنیاوی احکام کے بارے میں سوال کیا جائے جیسے کہ کفارہ میں اس کو آزاد کرنا درست ہوگا یا نہیں یا اسی طرح وہ مومنین کے خطاب میں داخل ہوگا یا نہیں تو کہا جائے گا وہ مومن شمارہے ۔اور جب اس کے اخروی احکام کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ وہ ان مومنین میں سے نہیں جن کے لئے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ایمان کی اتنی مقدار ہے جو اس کو جہنم میں ہمیشہ رہنے سے روکے اور اگر اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرتے ہیں تو جہنم میں عذاب دئے جانے کے بعد جنت میں داخل کیا جائے‘‘۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ: ۷؍۳۵۴)صحابہ کرام کے سلسلے میں سلفیت کا اعتدال:(۴)ایک طرف خوارج نے عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور ان سے محبت رکھنے والو ں کی تکفیر کی اور ان سے برأت کا اظہار کیا ، اسی طرح سے معتزلہ نے عثمان و علی،طلحہ بن عبید اللہ اور زبیر بن عوام اور عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو فاسق قرار دیتے ہوئے ان کی شہادت کو مردود کر دیا اور ان کے علاوہ دیگر کئی ایک صحابہ کرام سے برأت کا اعلان کیا ان پر طعن و تشنیع کے نشتر چبھوئے ان کو کذب سے متہم کیا تو سلف صالحین کھڑے ہوئے اور’’الصَّحَابَةكُلّهمْ عُدُول‘‘ کا ٹھوس ، پختہ اور مستحکم عقیدہ اپناتے ہوئے ’’رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُواعَنْهُ‘‘کے تحت اللہ کی ان سے رضامندی اور ا ن کی اللہ سے رضا مندی نہ صرف تسلیم کی بلکہ ان سے محبت کو جزو ایمان قرار دیا ۔ اور تمام صحابہ کرام کا مقام حسب درجات فرمان نبوی کی روشنی میں تسلیم کیا اوراعلان کیا کہ نبی ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابو بکر پھر عمر اور ان کے بعد عثمان و علی اور ان کی فضیلت کی ترتیب بھی ترتیب خلافت کی طرح سے ہے۔ اس کے دلائل کتاب و سنت میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ چنانچہ مختصراً سلف صالحین کی وسطیت امام طحاوی رحمہ اللہ کی زبانی یوں سمجھئے ’’ونحب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم،ولانفرط في حب أحدمنهم،ولانتبرأمن أحدمنهم.ونبغض من يبغضهم،وبغيرالخيريذكرهم.ولانذكرهم إلابخير. وحبهم دين وإيمان وإحسان،وبغضهم كفرونفاق وطغيان‘‘ اور ہم اصحاب رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں ان میں کسی کی محبت میں کوتاہی کرتے ہیں نہ ہی کسی سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ اور ان تمام لو گوں سے جو ان سے کینہ اور بغض رکھتے ہیں یا خیرکے علاوہ برائی سے ان کا ذکر کرتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں سے بغض رکھتے ہیں اور ہمیشہ اصحاب رسول کا ذکر بھلائی کے سا تھ ہی کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ صحا بہ سے محبت دین و ایمان اور احسان اور ان سے بغض کو کفر ونفاق اور طغیان قرار دیتے ہیں ‘‘۔(شرح الطحاویۃ : لابن ابی العز: ت شاکر: ۱۳۰۷)ہماری لڑائی عقائد اور تعصب مذہبی سے ہےمذاہب اربعہ و دیگر فقہی مذاہب درحقیقت اہل سنت کے معتبر فقہی مذاہب ہیں ۔ اصول دین کے اندر ان میں کوئی اختلاف نہیں ۔ کوئی اختلاف ہے تو فروع کے اندر جس کی سلف کے ہاں گنجائش رہی ہے ۔ چنانچہ فروع کے اندر فقہی مذاہب کا یہ تنوع منہج سلف کا ہی دراصل ایک تسلسل تھا ۔ ان کے اپنائے جانے میں جب تک کہ معاملہ اندھی تقلید اور ضد بازی تک نہ پہنچے کوئی بھی حرج کی بات نہ تھی ۔ امام طحاوی ( ۲۳۹ھ۔۔۔۳۲۲ھ) ایسے ائمہ سنت اور ترجمان عقیدۂ سلف کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ فروع میں خود حنفی مذہب رکھتےہیں البتہ کسی کو اس کے فقہی مذہب سے برگشتہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں پاتے۔البتہ اصول دین میں وہ پوری امت کو سلف کے اس منہج پر لاتے ہیں جس کی اتباع حنفی، مالکی ، شافعی ، اہل الحدیث ، اہل الظاہر وغیرہ سمیت سب پر یکساں لازم ہے ۔یہی طریقہ اصول اہل سنت کی تعلیم دینے والے سب ائمہ کا رہا اور صدیوں چلتا رہا۔ فروع کو میدان کارزار کسی نے بھی نہ بنایا ۔ لوگوں کے فقہی مذاہب چھڑوانے یا بدلوانے کی تحریک کبھی نہیں چلائی گئی۔صرف تعصب اور تقدیس رجال سے ممانعت کی گئی ۔ یہی طریقہ ہمیں آجری ( م ۳۶۰ھ) ابن بطہ( م ۳۸۷ھ) ابن مندہ ( م ۳۹۵ھ) اور لالکائی ( م ۴۱۸ھ) وغیرہ کا دکھائی دیتا ہے جو اپنے دور کے ائمہ سنت تھے اور اصول اہل سنت کے بہترین ترجمان ۔ بلکہ آج تک اصول اہل سنت کا علم پانے کے لئے انہی کے مؤلفات سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ اور یہی اسلوب پھر ہمیں بعد ازاں ابن تیمیہ ، ابن قیم، نووی، ذہبی اور ابن حجر وغیرہ کے ہاں ملتا ہے ۔ یہ سب اپنے اپنے دور میں سنت کے امام تھے ۔ فروع کے اندر بحث و تحقیق میں بھی گو انہوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی مگر مذاہب کی جنگ بھی نہیں کروائی۔ التبہ اصول دین میں نزاع اور افتراق کی شدید سرکوبی کی اور اس پہلو سے امت کو پہلے والے راستے پر لے آنے اور قائم رکھنے کے لئے ہی سرگرم رہے ۔ امت کی تالیف اور شیرازہ بندی کی ان کے ہاں یہی اساس تھی۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان اینڈ اعتدال ڈاٹ کم