Tuesday 6 December 2016

مسلم دنیا میں ذہنی ،فکری ونفسایتی غلامی

مسلم دنیا میں ذہنی ،فکری ونفسایتی غلامی

(ازقلم:محمدمبشر نذیر،ترتیب:عمران شہزاد تارڑ)
(مضمون نمبر:2)

مسلم دنیا میں ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
  کا ارتقاء:
خلفاء راشدین سے لے کر بعد کے ادوار کے مسلم حکمران، اگرچہ بادشاہ تھے لیکن بالعموم علم کے دلدادہ اور قدر دان تھے۔ مامون الرشید جیسے چند ایک حکمرانوں کو چھوڑ کر کسی حکمران نے مسلمانوں کو نظریاتی اور فکری طور پر غلام بنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان کے ہاں "آزادی فکر" اور "آزادی اظہار رائے" ایک بڑی قدر کے طور پر موجود تھی اور اس کے لئے ان کے ارباب فکر و نظر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہا کرتے تھے۔
بعد کی صدیوں میں دو ایسی تبدیلیاں وجود پذیر ہوئے جن کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں فکری اور نظریاتی غلامی کا آغاز ہوا۔ ان میں سے ایک تبدیلی تو اندھی تقلید کا فروغ تھا اور دوسرا استاذ و شاگرد یا پیر و مرید کے تعلقات میں تبدیلیوں کا۔ ان دونوں سماجی اداروں پر تبصرہ کرنے کا مقصد کسی کی تردید یا تائید نہیں ہے۔ ہم یہ تفصیلات محض ایک تاریخی ریکارڈ کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔
اندھی تقلید:
لفظ "تقلید" کا معنی ہے پیروی کرنا۔ اصطلاحی مفہوم میں مسلمانوں کے ہاں تقلید کا معنی یہ رہا ہے کہ قرآن و سنت میں خود غور و فکر کرنے کی بجائے قدیم دور کے اہل علم جو کام کر گئے، دلیل جانے بغیر اس کی پیروی کی جائے۔ چوتھی صدی ہجری میں یہ طے پایا کہ ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ چار مشہور مکاتب فکر یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی میں سے کسی ایک مکتب فکر کا انتخاب کر لے اور اس کی پیروی کرنا شروع کر دے۔
تقلید کے سماجی ادارے کا آغاز اور ارتقاء کس طرح سے ہوا۔ اس موضوع پر شاہ ولی اللہ (1702-1762CE) نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب، "حجۃ اللہ البالغہ" میں ایک پورا باب تحریر کیا ہے۔ پہلی تین صدیوں کے مسلمانوں کی روش کے بارے میں شاہ صاحب لکھتے ہیں:
باعث طوالت ہم صرف اردو عبارت پیش کر رہیں ہیں عربی عبارت کے لیے اصل کتابچہ ملاحظہ کریں (حجۃ اللہ البالغہ، باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ و بعدھا)
یہ جان لیجیے کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی خاص مکتب فکر کی تقلید کرنے پر متفق نہ تھے۔ قوت القلوب میں ابو طالب مکی کہتے ہیں، "یہ کتابیں، مجموعے سب نئی چیز ہیں۔ لوگوں کی آراء کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنا، لوگوں میں سے کسی ایک شخص کے نقطہ نظر کے مطابق فتوی دینا، اپنے امام کی رائے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، ہر چیز میں اسی کی رائے کو بیان کرنا اور اسی کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا (اور دوسرے نقطہ نظر کو سمجھنے سے اجتناب کرنا) پہلی اور دوسری صدی میں لوگوں کا رواج نہ تھا۔"
میری (شاہ ولی اللہ کی) رائے یہ ہے کہ بعد کی صدیوں میں ایک نئی چیز پیدا ہوئی جسے "تخریج" کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ (علمی تاریخ کے) مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی تک کے اہل علم کسی خاص امام کے مکتب فکر کی تقلید کرنے، اسی میں غور و فکر کرنے اور اسی کو بیان کرتے رہنے کے معاملے میں متفق نہ تھے۔ ان میں علماء اور عام لوگ ہوتے تھے۔ جہاں تک تو عام لوگوں کا تعلق ہے، تو وہ ان معاملات میں جن میں مسلمانوں یا مجتہدین کی اکثریت میں اتفاق رائے تھا، وہ سوائے صاحب شریعت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے کسی کی تقلید(پیروی) نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ وضو، غسل، نماز، زکوۃ وغیرہ کا طریقہ اپنے والدین یا شہر کے علماء سے سیکھ لیتے تھے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ جب انہیں کوئی مخصوص مسئلہ پیش آتا تو جو بھی (صاحب علم) مفتی انہیں ملتا، بغیر کسی مکتب فکر کی تخصیص کے، وہ اس سے سوال پوچھ لیا کرتے تھے۔
جہاں تک خاص (علماء) کا تعلق ہے تو ان میں حدیث کے ماہرین بھی تھے۔ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کے آثار موجود تھے۔ انہیں حدیث سے استفادہ کرنے کے علاوہ، جن پر بعض فقہا بھی عمل کرتے ہوں، کسی اور سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان کے لئے اس حدیث یا صحابہ و تابعین کی اکثریت کی رائے پر عمل ترک کر دینے کے لئے کوئی عذر نہیں تھا اور نہ ہی اسے اچھا سمجھا جاتا تھا۔
جب ان کے پاس کوئی ایسا معاملہ آتا جس کے بارے میں (موجود آراء پر) ان کا دل مطمئن نہ ہوتا ، جیسے آراء کے نقل کرنے میں تضاد پایا جاتا یا کسی ایک رائے کو ترجیح دینا واضح نہ ہوتا، تو وہ ماضی کے فقہاء کے نقطہ ہائے نظر کی طرف رجوع کرتے۔ اگر انہیں دو نقطہ ہائے نظر مل جاتے تو وہ ان میں سے صحیح ترین کو اختیار کر لیتے خواہ وہ مدینہ کے کسی عالم کا نقطہ نظر ہوتا یا کوفہ کے (یا کسی اور شہر کے)۔
ان میں اہل تخریج بھی موجود تھے۔ جب انہیں کسی مسئلے میں واضح بات نہ ملتی تو وہ کسی مخصوص مکتب فکر کے دائرے میں ہی رہ کر اجتہاد کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگ کسی مخصوص مکتب فکر سے وابستہ سمجھے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ فلاں شافعی ہے یا فلاں حنفی ہے۔ ان میں بعض حدیث کے ماہرین بھی کسی ایک مکتب فکر کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کی اکثر آراء اس مکتب فکر کے مطابق ہیں۔ مثال کے طور پر امام نسائی اور امام بیہقی کو شافعی مکتب فکر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عدالت کے جج اور مفتی کے منصب پر جو فائز ہوتے تھے، ان کا مجتہد ہونا ضروری تھا اور مجتہد سے کم درجے کے کسی شخص کو فقیہ کا نام نہ دیا جاتا تھا۔
اس طرز عمل میں بعد کی صدیوں میں کیا تبدیلی واقع ہوئی، اس کی تفصیل شاہ صاحب ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
باعث طوالت ہم صرف اردوعبارت پیش کر رہے ہیں عربی عبارت کے لیے اصل کتابچہ ملاحظہ کریں،جس کا مضمون کے آخر پر لنک درج ہے(حجۃ اللہ البالغہ، باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ و بعدھا)
ان ادوار کے بعد کے لوگ ادھر ادھر جانے لگے۔ ان میں نئے نئے امور پیدا ہوئے۔ ان میں علم فقہ کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس کی تفصیل غزالی کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ جب ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا تو حکومت ان لوگوں کو مل گئی جو احکام اور فتاوی کے معاملے میں نااہل اور کمزور تھے۔ یہ اس بات پر مجبور ہوئے کہ وہ (حکومت چلانے کے لئے) فقہاء سے مدد طلب کریں اور ہر طرح کی صورتحال میں انہیں اپنا ساتھی بنائیں۔
(اس دور میں) ایسے علماء موجود تھے جو پرانے طریق کار پر قائم تھے اور دین کی عزت برقرار رکھنے کو لازم سمجھتے تھے۔ جب انہیں (حکومتی معاملات میں) طلب کیا جاتا تو وہ ادھر ادھر ہو کر اس سے بچنے کی کوشش کرتے۔ (دنیا داری سے) اس اعراض کی وجہ سے اس دور کے علماء اور ائمہ کی عزت اور مرتبہ برقرار رہا۔ بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو جاہ و منصب اور عزت حاصل کرنے کے لئے علم حاصل کرنے لگے۔ اس کے بعد فقہاء مطلوب کی بجائے طالب بنتے چلے گئے اور وہ لوگ جو بادشاہوں سے دور رہنے کی وجہ سے معزز تھے، اب ان کے گرد اکٹھا ہونے کی وجہ سے ذلت کا شکار ہو گئے سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے (بچنے کی) توفیق دی۔
ان سے پہلے ایسے لوگ تھے جنہوں نے علم الکلام (عقائد کے فلسفے کا علم) میں تصانیف مرتب کیں۔ یہ لوگ اس علم سے متعلق مختلف آرا اکٹھا کرنے، ان کا حوالہ دینے، سوال جواب کرنے، اور بحث و مباحثے کا طریق کار طے کرنے میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں جو کام سینہ بہ سینہ ہو رہا تھا وہ منظر عام پر آنے لگا۔
بادشاہوں نے اپنی تفریح کی خاطر فقہ خاص طور پر امام ابوحنیفہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے مذہب سے متعلق بحث مباحثوں کو فنانس کر کے ان کی (حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی۔) لوگوں نے علم کلام اور دیگر علمی فنون کو چھوڑ دیا اور شافعی و حنفی مکاتب فکر کے اختلافی مسائل میں اسپیشلائز کرنے لگے۔ انہوں نے امام مالک، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل رحمھم اللہ وغیرہ کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ یہ سب اس لئے کر رہے ہیں کہ شریعت میں گہرے نکات کو تلاش کیا جائے، مختلف مکاتب فکر کی خامیوں کو بیان کیا جائے اور فتوی دینے کے علم کے اصولوں کو مرتب کیا جائے۔
وہ لوگ اس معاملے میں نتائج اخذ کرنے اور تصنیف و تالیف میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس میں انہوں نے بہت سی اقسام کے بحث و مباحثے اور تصنیفات مرتب کیں اور آج تک یہ اسی کام میں مشغول ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی (کے دین کو نازل کرنے) کا مقصد یہی تھا جو کچھ بعد کے ادوار میں ہوتا رہا۔ بہرحال یہی ہوتا رہا۔
ان میں سے بعض وہ لوگ تھے جو (اندھی) تقلید پر مطمئن ہو گئے۔ لاشعوری طور پر تقلید چیونٹی کی رفتار سے ان کے سینوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔ اس کا سبب فقہاء کا ایک دوسرے سے مقابلہ اور آپس میں (غیر ضروری) بحث مباحثہ کرنا تھا۔ جب بھی کوئی ایک شخص اپنا نقطہ نظر بیان کرتا تو دوسرا اس کے بالکل الٹ فتوی جاری کر کے اس کی تردید کرنے لگ جاتا۔ اس پر ان کا مناظرہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ کوئی شخص قدیم علماء میں سے کسی کی واضح رائے سامنے نہ رکھ دیتا۔
(تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک وجہ عدالتی ججوں کا ظلم و ستم بھی تھا۔ جب قاضیوں نے غیر منصفانہ فیصلے کرنا شروع کر دیے اور وہ (پیشہ ورانہ) دیانت داری چھوڑتے چلے گئے تو ان کے ان فیصلوں کو قبول نہ کیا جانے لگا جو اس سے پہلے کئے گئے عدالتی فیصلوں کے مطابق نہ تھے۔
(تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک اور وجہ لوگوں کے مذہبی راہنماؤں کی جہالت بھی تھی۔ لوگ ان لوگوں سے فتوی طلب کرنے لگے جنہیں نہ تو حدیث کا علم تھا اور نہ ہی تخریج کے طریق کار (پہلے سے موجود قوانین کو نئی صورتحال پر منطبق کرنے کا طریق کار) کا علم تھا۔ یہ چیز آپ بعد کے دور کے لوگوں میں عام دیکھ سکتے ہیں۔ ابن ھمام وغیرہ نے اسی پر متنبہ کیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب غیر مجتہد لوگ، فقیہ کہلائے جانے لگے۔
ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہر فن میں (ضرورت سے زیادہ) گہرائی میں جانے کی کوشش کی۔ ان میں وہ بھی تھے جو اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے فنون کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ قدیم اور جدید تاریخ (سے متعلق روایات) جمع کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے عجیب و غریب روایات (ہی کو اپنا مقصد بنا کر ان) کی چھان بین شروع کر دی اگرچہ وہ محض جعلی روایت ہی کیوں نہ ہو۔
ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اصول الفقہ میں (غیر ضروری) بحث و مباحثہ کرنے لگے۔ ہر ایک نے (اپنے اپنے مکتب فکر کے بڑے لوگوں کے نتائج فکر سے ان کے) طریق کار سے متعلق قواعد و ضوابط اخذ کرنا شروع کر دیے۔ یہ لوگ انہی معاملات کو اکٹھا کرنے، ان کی چھان بین کرنے، ان سے متعلق سوال و جواب تیار کرنے اور بے جا قسم بندی (Classification) کرنے میں مشغول ہو گئے۔ کبھی اس پر طویل بحثیں کرتے اور کبھی مختصر۔
ان میں سے وہ بھی تھے جنہوں نے ایسی خیالی صورت حال فرض کرنا شروع کیں جنہیں اگر کوئی عقل مند سوچے تو اسے ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ محسوس ہو گا۔ وہ تخریج کے ماہرین کے طرز بیان سے ایسے ایسے نکات اور عمومی نتائج (Generalized Conclusions) اخذ کرنے لگ گئے جنہیں سن کر نہ تو کسی عالم اور نہ ہی جاہل کا ذہن مطمئن ہو سکتا ہے۔۔۔۔
اس کے بعد خالص تقلید کا دور شروع ہوا۔ اب لوگ نہ تو حق اور نہ باطل میں فرق  کرنے لگے اور نہ ہی احکام اخذ کرنے اور ان پر بحث و مباحثہ کرنے میں کوئی تفریق کرنے لگے۔ اب فقیہ اس شخص کا نام ہو گیا جو زیادہ بولتا اور غیر محتاط طریقے سے بحث کرتا ہو، قدیم علماء کی مضبوط اور کمزور آراء میں کسی فرق کے بغیر یاد کرلے اور اسے پورے جوش و خروش کے ساتھ بیان کر دے۔ محدث اس شخص کو کہا جانے لگا جو صحیح و کمزور ہر طرح کی احادیث کو یاد کر لے اور انہیں بغیر سوچے سمجھے زور و شور سے اپنے جبڑوں کی طاقت سے بیان کرنے لگ جائے۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہر شخص ایسا ہی ہو گیا تھا۔ اللہ کے بندوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے ایسے لوگوں کی جہالت سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد میں کم ہوں لیکن زمین میں اللہ کی حجت ہوا کرتے ہیں۔
اس کے بعد کے زمانوں میں فتنوں کی کثرت ہو گئی، اندھی تقلید عام ہو گئی اور لوگوں کے سینوں سے دیانت داری نکلتی چلی گئی۔ لوگوں کو اس بات پر پورا اطمینان ہو گیا کہ دین کے امور میں غور و خوض کو ترک کر دینا چاہیے۔ (گویا یہ کیفیت پیدا ہو گئی کہ) وہ کہنے لگے، "ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اس طریقے پر پایا ہے اور ہم تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔ (قرآن، سورۃ زخرف 43:22)
اس وقت سے لے کر آج تک ان چار مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) جن کے مسائل کو تحریر کر دیا گیا تھا، کے متعلق امت کا اتفاق رائے ہو گیا کہ جو جس مسلک کی چاہے، تقلید کرنا شروع کر دے۔ اس میں بھی کچھ ایسی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں۔ اس دور میں جب عزم و ارادے میں بہت کمزوری واقع ہو گئی تھی، لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے عادی ہو گئے تھے اور ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق ہی رائے پسند کرنے لگا (تو تقلید کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔)
ابن حزم نے (اس معاملے میں اختلاف کرتے ہوئے) کہا، "تقلید حرام ہے۔ کسی شخص کے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخص کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرے۔۔۔۔جہاں تک ان فقہا (یعنی امام ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمھم اللہ) کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی تقلید سے منع کیا تھا۔ جس نے ان کی تقلید کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ اگر ان میں سے ہی کسی شخص کی تقلید کرنا ضروری ہوتا تو پھر سیدنا عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، ابن عمر، ابن عباس، یا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم کیا اس بات کے زیادہ مستحق نہیں ہیں کہ ان ہی کی تقلید کر لی جائے؟ اگر تقلید جائز ہوتی تو کسی اور کی بجائے ان میں سے ایک کی تقلید کرنا زیادہ درست ہوتا۔" (ابن حزم کی بات ختم ہوئی۔)
ان میں سے بعض عام لوگ ہوتے ہیں جو فقہاء کی تقلید کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے غلطی نہیں ہو سکتی اور جو کچھ اس نے کہہ دیا وہ مطلقاً درست ہے۔ وہ کسی صورت اس عالم کی تقلید کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے اگرچہ اس کے خلاف واضح دلیل بھی موجود ہی کیوں نہ ہو۔ یہ معاملہ اسی طرح ہے جیسا کہ امام ترمذی نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ آیت سنی، "انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کے سوا شریک بنا لیا تھا۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا، "وہ ان علماء و مشائخ کی عبادت تو نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے تو یہ بھی اسے حلال قرار دے دیتے اور جب اسے حرام کہتے تو یہ بھی اسے حرام قرار دے دیا کرتے تھے۔
ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی حنفی کسی شافعی عالم سے سوال پوچھ لے یا کوئی شافعی کسی حنفی عالم سے سوال پوچھ لے۔ وہ حنفی کے لئے شافعی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو غلط سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات پہلی صدیوں کے اتفاق رائے اور صحابہ و تابعین کے نقطہ نظر کے خلاف ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اندھی تقلید کی یہ روش صرف عام لوگوں تک محدود نہ رہی بلکہ اس کا شکار وہ لوگ بھی ہو گئے جو عالم دین ہونے کے دعوے دار تھے۔ اس کے بعد یہ طرز عمل صرف مذہب تک ہی محدود نہ رہا۔ آہستہ آہستہ اس کے اثرات تمام علوم و فنون میں پھیلتے چلے گئے۔ نہ صرف فقہ کے ائمہ، بلکہ منطق، فلسفہ، تاریخ، جغرافیہ، کیمسٹری، بائیولوجی جیسے دنیاوی علوم کے قدیم مفکرین مقدس حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔ ان مفکرین سے اختلاف رائے رکھنا ایک جرم قرار پایا اور جس نے ایسا کرنے کی کوشش کی، اسے بھی کافر و ملحد قرار دیا جانے لگا۔ مشہور فلسفیوں اور سائنسدانوں جیسے غزالی، ابن رشد اور ابن سینا کو کفر کے فتووں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود شاہ ولی اللہ، جو کہ ایک بڑے صوفی عالم تھے، پر اس الزام کے تحت کفر کا فتوی لگا دیا گیا کہ انہوں نے فارسی میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی جرأت کی تھی۔
یہ روش آج تک برقرار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی مدارس کے سلیبس "درس نظامی" میں قرون وسطی کے فلسفے اور منطق کی کتب صدرا، میبذی، شمس البازغۃ، ایساغوجی، مرقاۃ، شرح تہذیب اور سلم العلوم کو عملی طور پر وہی تقدس حاصل رہا ہے جو بخاری و مسلم کو حاصل ہے۔
اس صورتحال کا اگر عیسائی دنیا سے تقابل کیا جائے تو مسلمانوں کے ہاں یہ فرق ضرور رہا ہے کہ اکثریت کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر معاشرتی سطح پر تو جبر کیا گیا لیکن حکومتی سطح پر ان کے خلاف کاروائی بہت ہی کم کی گئی۔ اس کے برعکس عیسائی دنیا میں ایسے مفکرین کو انکوئزیشن کی عدالتوں کے ذریعے قانونی سزا دی جاتی تھی۔ اس کی تفصیل ہم اگلے مضمون میں بیان کریں گے۔
پچھلے ڈیڑھ سو سال کے مسلمانوں کی فکر کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کورانہ تقلید کا یہ طرز زندگی اب رو بہ زوال ہو رہا ہے۔
استاذ و شاگرد اور مرشد و مرید کے نئے تعلقات
اسلام میں تزکیہ نفس یعنی شخصیت کی اصلاح اور تربیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید انسانوں کے تزکیہ نفس ہی کو اپنے انبیاء و رسل کی دنیا میں آمد کا مقصد قرار دیتا ہے۔ مذہب کا بنیادی مقصد ہی تزکیہ نفس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی پوری سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمہ وقت اپنے اصحاب کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے اور ان کی تعمیر شخصیت میں اہم ترین کردار ادا کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اپنے صحابہ سے تعلق "مرشد کی غلامی" پرمبنی نہ تھا بلکہ آپ کا رویہ اپنے صحابہ سے دوستانہ اور برادرانہ تھا۔ اسلام کے اس "تزکیہ نفس" کے تصور ہی کو بعد کے ادوار میں بہت سے لوگوں نے "اسلامی تصوف" کا نام دیا۔جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ نے اگلی نسل کی تعمیر شخصیت میں اپنا کردار ادا کیا۔ صحابہ کے تربیت یافتہ تابعین نے یہی معاملہ اپنی اگلی نسل کے ساتھ کیا اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ دور صحابہ میں تعمیر شخصیت کے لئے کسی ایک استاذ یا مرشد سے وابستہ ہونے کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ لوگ ایک صحابی کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے قرآن و حدیث سیکھتے۔ اس کے بعد دوسرے صحابی کے پاس جا کر ان سے بھی قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کر لیا کرتے تھے۔ قرآن و سنت کی اسی تعلیم کے ذریعے ان کا تزکیہ کیا جاتا تھا۔ بہت سے لوگ تو دور دراز علاقوں سے سفر کر کے دوسرے شہروں کے علماء صحابہ و تابعین کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان صحابہ و تابعین کا آپس میں تعلق محبت، دوستی اور برادرانہ تعلقات پر مبنی ہوا کرتا تھا۔
مسلم حکومتوں نے معیشت بہتر بنانے پر پوری توجہ دی جس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں دولت کی ریل پیل ہو گئی اور لوگ مال و دولت کی دوڑ میں دین سے غافل ہوتے چلے گئے۔ اس کے ردعمل میں مسلمانوں کے ہاں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ دنیا سے بے رغبتی اور دین سے قربت اختیار کی جائے اور اپنی شخصیتوں کا تزکیہ کیا جائے۔
فتوحات کے نتیجے میں جو ممالک اسلامی سلطنت کا نتیجہ بنے وہاں ان قوموں کے اپنے تصوف یا صوفی ازم کی ایک مضبوط روایت پہلے سے موجود تھی۔ ایک طرف ایرانی تصوف تھا اور دوسری طرف مسیحی راہبانیت۔ کچھ عرصے میں ہی مسلمانوں کی تزکیہ نفس کی تحریک میں عجمی اثرات داخل ہونا شروع ہو گئے۔ ایران اور وسط ایشیا میں ایرانی تصوف، ترکی میں مسیحی راہبانیت اور ہندوستان میں ہندی تصوف نے تزکیہ نفس کی تحریک میں بے شمار ایسے اثرات داخل کر دیے جو کہ اسلام میں بالکل ہی اجنبی تھے۔ موجودہ دور میں ہمیں "تصوف" کے نام پر جو کچھ ملتا ہے، اس میں اگرچہ کچھ حصہ اسلام کے تزکیہ نفس کا ہے لیکن اس میں ایرانی، ہندوستانی اور ترکی تصوف کا عنصر اب غالب آ چکا ہے۔
اس کتابچہ کا موضوع چونکہ تصوف نہیں بلکہ غلامی ہے، اس وجہ سے ہم یہاں مروجہ تصوف کے صرف اس پہلو کا جائزہ لیں گے جس نے نفسیاتی غلامی کو فروغ دیا۔ مروجہ تصوف کے تمام سلسلوں میں یہ عقیدہ متفقہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی "ایک ہی مرشد" کو اپنا راہنما بنائے، اس سے تربیت حاصل کرے اور اس کی نگرانی میں تصوف اور سلوک کی منازل طے کرے۔
پیری مریدی کے اس تعلق کی تفصیل بیان کرنے کے لئے ہمیں تاریخ میں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے برصغیر میں تصوف کی روایت اتنی مضبوط ہے کہ ہم ان تفصیلات کو قریبی دور کے صوفی علماء کی کتب میں دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں دلائل کی بجائے شخصیات کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم جان بوجھ کر شخصیات کے ناموں اور حوالوں کو حذف کر رہے ہیں تاکہ کسی قسم کا تعصب قارئین کو متاثر نہ کر سکے۔ برصغیر کے ایک بہت بڑے صوفی عالم لکھتے ہیں:
بیعت ارادت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختم کر کے خود کو شیخ و مرشد ہادی برحق کے بالکل سپرد کر دے، اسے مطلقاً اپنا حاکم و متصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بغیر اس کی مرضی کے نہ رکھے۔ اس کے لئے مرشد کے بعض احکام، یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعال خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی مثل سمجھے، اپنی عقل کا قصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے۔
انہی عالم کی خدمت میں کسی نے پیر کامل کے کچھ حقوق و آداب تحریر کر کے تصحیح کے لئے پیش کئے تو انہوں نے ان تمام حقوق کو صحیح اور قرآن عظیم، احادیث شریفہ، کلام علماء اور ارشادات اولیاء سے ثابت شدہ قرار دیا اور فرمایا کہ اکابر نے اس سے بھی زائد آداب لکھے ہیں۔ ان آداب کی تفصیل یہ ہے:
1.یہ اعتقاد رکھے کہ میرا مطلب اسی مرشد سے حاصل ہو گا اور اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو مرشد کے فیوض و برکات سے محروم رہے گا۔
2.ہر طرح مرشد کا مطیع (فرمانبردار) ہو اور جان و مال سے اس کی خدمت کرے کیونکہ بغیر محبت پیر کے کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے۔
3.مرشد جو کچھ کہے، اس کو فوراً بجا لائے اور بغیر اجازت اس کے فعل کی اقتدا (پیروی) نہ کرے۔ کیونکہ بعض اوقات وہ (یعنی مرشد) اپنے ھال و مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے (مگر ہو سکتا ہے)، کہ مرید کو اس کا کرنا زہر قاتل ہے۔
4.جو ورد و وظیفہ مرشد تعلیم کرے، اس کو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے۔ خواہ اس نے اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیا یا کسی دوسرے نے بتایا ہو۔
5.مرشد کی موجودگی میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔
6.یہاں تک سوائے فرض و سنت کے نماز نفل اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت کے بغیر نہ پڑھے۔
7.حتی الامکان ایسی جگہ نہ کھڑا ہو کہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یا اس کے کپڑے پر پڑے۔
8.اس کے مصلے (یعنی جائے نماز) پر پاؤں نہ رکھے۔
9.مرشد کے برتنوں کو استعمال میں نہ لاوے۔
10.اس کے سامنے نہ کھانا کھائے نہ پیئے اور نہ وضو کرے، ہاں اجازت کے بعد مضائقہ نہیں۔
11.اس کے روبرو (یعنی سامنے) کسی (اور) سے بات نہ کرے بلکہ کسی کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔
12.جس جگہ مرشد بیٹھتا ہو اس طرف پیر نہ پھیلائے، اگرچہ سامنے نہ ہو۔
13.اور اس طرف تھوکے بھی نہیں۔
14.جو کچھ مرشد کہے اور کرے، اس پر اعتراض نہ کرے کیونکہ جو کچھ وہ (یعنی مرشد) کرتا ہے اور کہتا ہے (اس کی) اگر کوئی بات سمجھ نہ آوے تو حضرت موسی و خضر علیہما السلام کا قصہ یاد کر لے۔
15.اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے۔
16.اگر کوئی شبہ دل میں گزرے تو فوراً عرض کرے اور اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم (یعنی عقل کی کمی) کا نقصان سمجھے اور اگر مرشد اس کا جواب نہ دے تو جان لے کہ میں اس جواب کے لائق نہ تھا۔
17.اپنے خواب میں جو کچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آوے تو اسے بھی عرض کرے۔
18.بے ضرورت اور بے اذن (بغیر اجازت) مرشد سے علیحدہ نہ ہو۔
19.مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآواز اس سے بات نہ کرے اور بقدر ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے۔
20.اور مرشد کے کلام کو دوسرے سے اس قدر بیان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور جس بات کو یہ لوگ نہ سمجھیں گے تو اسے بیان نہ کرے۔
21.مرشد کے کلام کو رد نہ کرے اگرچہ حق مرید ہی کی جانب ہو بلکہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی خطا میرے صواب (یعنی درستی) سے بہتر ہے۔
22.کسی دوسرے کا سلام و پیام شیخ سے نہ کہے (یہ عام مریدین کے لئے ہے جس کو بارگاہ مرشد میں ابھی منصب عرض معروض و دیگران حاصل نہ ہو۔ ایسوں سے اگر کوئی سلام کے لئے عرض کرے تو عذر کرے کہ حضور میں مرشد کریم کی بارگاہ میں دوسرے کی بات عرض کرنے کے ابھی قابل نہیں)۔
23.جو کچھ اس کا حال ہو، برا یا بھلا، اسے مرشد سے عرض کرے کیونکہ مرشد طبیب قلبی ہے، اطلاع ہونے پر اس کی اصلاح کرے گا۔
24.مرشد کے کشف پر اعتماد کر کے سکوت نہ کرے۔
25.اس کے پاس بیٹھ کر وظیفہ میں مشغول نہ ہو۔ اگر کچھ پڑھنا ہو تو اس کی نظر سے پوشیدہ بیٹھ کر پڑھے۔
26.جو کچھ فیض باطنی اسے پہنچے، اسے مرشد کا طفیل سمجھے۔ اگر خواب میں یا مراقبہ میں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا، تب بھی یہ جانے کہ مرشد کا کوئی وظیفہ اس بزرگ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
مرشد کے حقوق مرید پر شمار سے افزوں ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ ہو کر رہے۔ اس کی رضا کو اللہ عزوجل کی رضا اور اس کی ناخوشی کو اللہ عزوجل کی ناخوشی جانے۔ اسے اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے، اگر کوئی نعمت دوسرے سے ملے تو بھی اسے (اپنے) مرشد ہی کی عطا اور انہیں کی نظر کی توجہ کا صدقہ جانے۔ مال، اولاد، جان سب ان پر تصدق (وار دینے) کرنے کو تیار رہے۔
ان کی جو بات اپنی نظر میں خلاف شرعی بلکہ معاذ اللہ (گناہ) کبیرہ معلوم ہو، اس پر بھی نہ اعتراض کرے، نہ دل میں بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے۔۔۔۔۔۔جو وہ حکم دیں "کیوں" نہ کہے، دیر نہ کرے، سب کاموں میں اسے تقدیم (اولیت) دے۔۔۔۔۔جب ایسا ہو گا تو ہر وقت اللہ عزوجل و سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم و مشائخ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مدد زندگی میں، نزع میں، قبر میں، حشر میں، میزان پر، پل صراط پر، حوض کوثر پر ہر جگہ اس کے ساتھ رہے گی۔
انہی عالم نے اپنی ایک اور کتاب میں  مرشد کامل کی جو شرائط بیان کی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرشد اعلانیہ فاسق نہ ہو اور شریعت کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ یہ بات سمجھنا بہرحال مشکل ہے اوپر بیان کردہ ادب نمبر 14 ، 16 اور 21 پر عمل کرتے ہوئے یہ کیسے طے کیا جائے گا کہ مرشد کامل اعلانیہ فاسق ہیں یا نہیں۔
اگر مرشد کوئی خلاف شریعت بات کریں گے بھی تو مرید پر لازم ہے کہ وہ اسے حضرت موسی و خضر علیہما السلام کے واقعے کی طرح سمجھ کر ان کی غلطی کو اپنی صحیح بات سے بہتر سمجھے۔ اس کے جواب میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مرشد کی یہ Assessment مرید بننے سے پہلے کرنا ضروری ہے، مرید بننے کے بعد تو بس "مردہ بدست زندہ" والا معاملہ ہونا چاہیے۔
اس پر مزید ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرید کے اپنے مرشد کی بیعت میں داخل ہو جانے کے بعد کیا یہ اس مرید کی برکت ہو گی کہ مرشد صاحب آئندہ کے لئے ہر قسم کی گمراہی اور فسق و فجور سے محروم ہو جائیں گے۔ اگر انہیں گمراہیوں اور گناہوں سے بچانے میں مرید کا کوئی ہاتھ نہیں ہے تو پھر اس کے بیعت کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ایسی صورت میں موجودہ یا آئندہ کسی مرشد کی بھی Assessment کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور آنکھیں بند کر کے جو پیر صاحب پہلے نظر آ جائیں، ان کی بیعت کر لینی چاہیے؟ اس سوال کا جواب ہمیں اہل تصوف کے کسی حلقے سے نہیں مل سکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عملی دنیا میں بہت سے ایسے پیروں، جنہیں شریعت کو اہمیت دینے والے صوفیاء بھی فاسق و فاجر سمجھتے ہوں گے، کی خلاف شریعت باتوں کو ان کے مرید حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام سے تشبیہ دے کر ان کی غلطی کو اپنی صحیح بات سے بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کے لئے اپنے ہی ائمہ کے بیان کردہ ان آداب کی روشنی میں ضروری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بہت سے ایسے پیر صاحبان جو اپنی مریدنیوں سے بدکاری کا کھلے عام ارتکاب بھی کرتے ہیں، ان کے مرید ان کے اس عمل کو بھی نعوذ باللہ حق بجانب سمجھتے ہیں۔ ان حقوق کے علاوہ فاضل مصنف مرشد کے مزید آداب بھی بیان فرماتے ہیں:
1.مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔
2.باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے۔
3.کوئی کام اس کے خلاف مرضی کرنا مرید کو جائز نہیں۔
4.اس کے سامنے ہنسنا منع ہے۔
5.اس کی بغیر اجازت بات کرنا منع ہے۔
6.اس کی مجلس میں دوسرے کی طرف متوجہ ہونا منع ہے۔
7.اس کی غیبت (یعنی عدم موجودگی) میں اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنا منع ہے۔
8.اس کی اولاد کی تعظیم فرض ہے اگرچہ بے جا حال پر ہوں۔
9.اس کے کپڑوں کی تعظیم فرض ہے۔
10.اس کے بچھونے کی تعظیم فرض ہے۔
11.اس کی چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے۔
12.اس سے اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں، اپنے جان و مال کو اسی کا سمجھے۔
اہل تصوف کے نقطہ نظر کے مطابق "فنا فی اللہ" کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایک مرید کو پہلے "فنا فی الشیخ" اور اس کے بعد "فنا فی الرسول" کے مقامات سے گزرنا ضروری ہے۔ فنا فی الشیخ کے مقام کے بارے میں ایک صوفی مصنف بیان کرتے ہیں:
اللہ عزوجل کا مقرب بننے کا اعلی و عظیم انعام پانے (یعنی فنا فی الرسول صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم ہو کر فنا فی اللہ عزوجل ہونے) کی پہلی سیڑھی فنا فی الشیخ ہے۔ یعنی سالک اپنے آپ کو مرشد سے الگ نہ سمجھے۔ بلکہ خیال کرے، کہ میرے جسم کی حرکت و سکون میرے مرشد ہی کے اختیار میں ہے۔ اور میرا مرشد ہی مجھے سمجھ سکتا ہے۔ اور ظاہر و باطن کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اپنے طور طریقوں سے یہ ظاہر کرے، کہ اپنے وجود پر اس کا کوئی اختیار نہیں اور طرز عمل میں ریاکاری اور خود پسندی سے بالکل دور رہے۔ (مگر یہ یاد رہے) کہ فنا فی الشیخ کی پہلی منزل تصور مرشد کا مکمل قائم ہونا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ تصور مرشد مریدین کی ترقی کے لئے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔۔۔۔
یاد رہے! کہ جب تک مرید اپنے مرشد کی ذات میں اپنے آپ کو گم نہیں کر لے گا۔ آگے راستہ نہیں پا سکے گا۔ تصور مرشد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مرید کو چاہیے کہ اپنے دل میں مرشد کی محبت کو خوب بڑھائے۔ جتنی محبت زیادہ ہو گی، اتنا ہی مرشد کے تصور میں آسانی ہو گی۔ مرشد کی ذات کو اپنی سوچ کا محور بنانے کی کوشش کرے، مرشد کامل کے ہر ہر انداز، ہر ہر عادت اور ان کے ہر عمل کو بغور دیکھے اور اسے خود بھی اپنانے کی کوشش کرے۔ ہر وقت اس کے گمان میں مرشد کا جلوہ سمایا رہے۔ چلے تو ان کے انداز میں، بیٹھے تو سوچے کہ میرے مرشد اس طرح بیٹھتے ہیں، کھانا کھائے تو ان کا انداز اپنائے۔ جہاں موقع ملے مرشد کی باتیں بیان کرے، ان کے ملفوظات شریف کی اشاعت کرے، ان سے ظاہر ہونے والی برکتوں کا خوب تذکرہ کرے! کہ یہ پیر و مرشد سے محبت کی دلیل ہے۔
تصور مرشد کا طریقہ وہ اپنے ائمہ کے حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں:
خلوت (یعنی تنہائی) میں آوازوں سے دور، رو بہ مکان شیخ (یعنی مرشد کے گھر کی طرف منہ کر کے)، اور وصال ہو گیا ہو تو، جس طرف مزار شیخ ہو ادھر متوجہ بیٹھے۔ محض خاموشی، باادب، بکمال خشوع و خضوع، صورت شیخ کا تصور کرے اور اپنے آپ کو ان کے حضور جانے، اور یہ خیال جمائے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے انوار و فیض، شیخ کے قلب پر فائض ہو رہے ہیں۔ اور میرا قلب، قلب شیخ کے نیچے، بحالت دریوزہ گری (یعنی گداگری) میں لگا ہوا ہے۔ اور اس میں سے، انوار و فیوض، ابل ابل کر، میرے دل میں آ رہے ہیں۔
اس تصور کو بڑھائے، یہاں تک کہ جم جائے اور تکلف کی حاجت نہ رہے۔ اس کی انتہا پر، صورت شیخ (یعنی پیرومرشد کا چہرہ مبارک) خود متمثل ہو کر مرید کے ساتھ رہے گی۔ اور ان شاء اللہ عزوجل (اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عطا سے) ہر کام میں مدد کرے گی۔ اور اس راہ میں جو مشکل اسے پیش آئے گی اس کا حل بتائے گی۔
یہ تمام معاملات اہل تصوف کے کسی ایک مکتب فکر تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ یہ تصوف کی متفق علیہ روایت کا حصہ رہے ہیں۔ اہل تصوف کے دوسرے مکتب فکر کے ایک اہم صوفی بزرگ بیان فرماتے ہیں:
ملا علی قاری شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں۔ من اعترض علی شیخہ و نظر الیہ احتقارا فلا یفلح ابدا۔ جس نے اپنے شیخ پر اعتراض کیا اور اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتا۔۔۔۔جملہ اہل اللہ کی دو رکعات ہماری لاکھ رکعات سے افضل ہیں۔ ان کا سونا ہمارے جاگنے سے بہتر ہے، ہمارے تہجد و اشراق و اوابین سے افضل ہے۔ حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ عارف کی دو رکعات غیر عارف کی لاکھ رکعات سے افضل ہیں۔ اللہ والوں پر اعتراض کرنے والے محروم رہتے ہیں۔
ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں:
لیکن آہ! لوگوں نے اللہ والوں کو نہیں پہنچانا کہ اللہ والوں کی غلامی سے کیا ملتا ہے۔۔۔۔۔تو آج میں آپ لوگوں کو شارٹ کٹ راستہ بتاتا ہوں کہ دنیا میں جس ولی اللہ سے یا ان کے غلاموں سے مناسبت ہو، اس کی خدمت اور محبت کرو مگر اخلاص کے ساتھ۔ اللہ کے یہاں محبت وہی مقبول ہے جو اتباع کے ساتھ ہو، شیخ کے مشورے پر جان کی بازی لگا دو، اخلاص کے ساتھ، اللہ کے لئے۔
فاضل مصنف نے اس مقام پر اپنے واقعات بیان کیے ہیں جن میں وہ اپنے مرشد کے لئے محبت و اطاعت کی مثال قائم کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے مرشد کے لئے تہجد کے وقت پانی گرم کرنے کا اہتمام نہیں تھا۔ فاضل مصنف نے رات کے اول وقت میں پانی گرم کروایا اور پانی کے اس برتن کو بند کر کے گدے میں لپیٹ کر ساری رات اپنے پیٹ کے نیچے دبا کر جاگتے رہے تاکہ یہ پانی گرم رہے۔
اسی طرح وہ سخت گرمی میں تپتی لو کے دوران وہ شیخ کے وضو کے لئے لوہے کا گھڑا سر پر رکھ کر ایک میل سے پانی لاتے رہے۔ ان کے شیخ دوپہر ایک بجے ناشتہ کیا کرتے تھے۔ فاضل مصنف صبح فجر سے لے کر ایک بجے تک فاقے سے رہا کرتے تھے تاکہ کہیں ناشتہ مرشد سے پہلے نہ ہو جائے۔ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کے مرشد نے انہیں ایسا کرنے سے روکا یا نہیں۔ اس محبت بھری غلامی کی ایسی بیسیوں مثالیں اہل تصوف کے تمام مکاتب فکر میں ملتی ہیں۔
اوپر بیان کردہ دونوں  مکاتب فکر میں فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے مکتب فکر کے مطابق مرشد کے انتقال کے بعد اس کے فیض کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کسی دوسرے کو مرشد بنا لیا جائے۔ فاضل مصنف بیان فرماتے ہیں:
ایسے ہی شیخ کے انتقال کے بعد باجماع صوفیا و اولیاء دوسرا شیخ تلاش کرنا بھی واجب ہے۔۔۔ ایک آدمی کنویں میں گرے ہوئے ڈولوں کو اپنے ڈول سے نکال رہا ہے۔ کھینچنے والا اپنے ڈول میں رسی باندھ کر کنویں میں ڈالتا ہے اور گرے ہوئے ڈولوں کو اپنے ڈول میں پھنسا کر باہر کھینچ لیتا ہے کہ اس کا انتقال ہو گیا۔ اب اس کا ڈول کنویں میں گرے ہوئے ڈولوں کو نہیں نکال سکتا چاہے گرے ہوئے ڈول اسے سے کتنا چپٹے رہیں۔ ان کو نکالنے کے لئے دوسرا زندہ آدمی آئے اور وہ اپنا ڈول ڈالے تب نکل سکیں گے۔ شیخ کے انتقال کے بعد لاکھ اس کی قبر پر مراقبہ کرتے رہو اصلاح نہیں ہو سکتی۔ لہذا مولانا رومی نے فرمایا کہ زندہ شیخ تلاش کرو کیونکہ انتقال کے بعد اس کا روحانی تعلق ختم ہو گیا۔
یہ تمام معاملات محض کتابوں ہی میں لکھے نہیں ہوئے بلکہ صوفی سلسلوں میں ان پر پورے دل و جان سے عمل بھی کیا جاتا ہے۔ جو صاحب مشاہدہ کرنا چاہیں وہ اہل تصوف کی کسی بھی مجلس میں شریک ہو کر اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
اہل تصوف کے ان اقتباسات کو پیش کرنے کے بعد یہ بیان کرنا کچھ بہت زیادہ ضروری نہیں ہے کہ تصوف سے وابستگی کے نتیجے میں رضا کارانہ غلامی (Voluntary Slavery) کی وہ شکل وجود میں آتی ہے، جس کے سامنے قانونی غلامی کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ مریدین اپنے مرشد کے سامنے خود کو حقیر ترین سمجھتے ہوئے ان کے ہر ہر اشارے پر عمل کرنے کو جس طرح تیار رہتے ہیں، اس کی مثال ہمیں قانونی غلامی یا جاگیردارانہ نظام میں نہیں مل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مریدین خود کو "سگ فلاں مرشد" یعنی " فلاں مرشد کا کتا" کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
تصوف کی یہ تحریک مسلم معاشروں میں کوئی اجنبی تحریک نہ رہی تھی۔ قرون وسطی میں یہ تحریک مسلم معاشروں پر غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوئی۔ پچھلے ایک ہزار برس میں ترکی سے لے کر برصغیر تک بلامبالغہ اربوں مسلمان اس تحریک کا حصہ بنے اور یہ سلسلہ آج تک پوری قوت اور شان و شوکت کے ساتھ جاری ہے۔ تصوف کی اس تحریک میں عام طور پر کم ذہین یا اوسط ذہانت کے افراد شامل ہوئے لیکن استثنائی طور پر یہ تحریک مسلم تاریخ کے بعض ذہین ترین افراد جیسے امام غزالی اور شاہ ولی اللہ کو بھی متاثر کر کے اپنا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
خلاصہ بحث
پچھلے ایک ہزار برس سے مسلم دنیا کا سوچنے سمجھنے اور لکھنے بولنے والا ذہین طبقہ تقلید اور عوام الناس کا طبقہ تصوف کے ذریعے نفسیاتی غلامی میں مبتلا رہا ہے۔ مسلم دنیا کی پوری تاریخ میں ایسے افراد کی شدید کمی رہی ہے جنہوں نے طے شدہ دائرے سے ہٹ کر سوچنے (Thinking outside the box)  کی کوشش کی ہو۔ بعض جلیل القدر اہل علم نے کسی حد تک روایتی طریقے سے ہٹ کر غور و فکر کی کوشش کی لیکن ان حضرات کی فکر کو بالعموم مسلم معاشروں میں قبول عام حاصل نہیں ہوا۔
ان سب حضرات کو اپنی زندگیوں میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے بہت سے حضرات کو کافر و مرتد قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ ایک طبقہ غیر روایتی طرز فکر سے متاثر ہوا بھی لیکن اس کا اثر مسلم معاشروں میں بالعموم محدود رہا ہے۔ ایسا ضرور رہا ہے کہ عیسائی دنیا کے برعکس ہمارے ہاں "آزادی فکر" کو قانون اور ڈنڈے کی طاقت سے نہیں بلکہ زیادہ تر شخصیتوں کی طاقت سے محدود کیا گیا ہے۔
اس تفصیل سے پوری طرح یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مسلم دنیا میں غلامی کے خاتمے کی کوئی تحریک شروع کیوں نہ ہو سکی؟ جب معاشرے کے ذہین ترین طبقے سے لے کر عام آدمی تک ہر شخص نفسیاتی غلامی میں نہ صرف مبتلا ہو بلکہ اس غلامی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہو تو یہ خیال کسے سوجھ سکتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی غلامی کے خاتمے کی بات کرنے کی جرأت کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں اگرچہ غلامی کے خاتمے کی کمزور اندرونی تحریکیں موجود رہی ہیں لیکن فیصلہ کن طریقے پر غلامی کا خاتمہ اہل مغرب کے دباؤ پر ہی کیا گیا ہے۔
جاری  ہے...
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...